Tag: سعودی خواتین

  • سعودی خواتین میں تاش کا کھیل مقبول ہونے لگا

    سعودی خواتین میں تاش کا کھیل مقبول ہونے لگا

    ریاض: مختلف کھیلوں اور شعبوں میں اپنا لوہا منوانے کے بعد سعودی خواتین نے تاش کے مقابلوں میں بھی حصہ لینا شروع کردیا۔

    سعودی ویب سائٹ کے مطابق سعودی دارالحکومت ریاض میں تاش کے مقابلوں کا انعقاد 6 سے 13 فروری تک ہوگا جس میں پہلی مرتبہ خواتین بھی شرکت کرنے جارہی ہیں۔

    سعودی انٹرٹینمنٹ اتھارٹی کے مطابق مقابلوں میں نمایاں پوزیشن حاصل کرنے والوں کو 20 لاکھ ریال سے زیادہ کے انعامات دیے جائیں گے۔

    اتھارٹی کے مطابق مقابلے کا انعقاد ریاض فرنٹ ایریا میں ہوگا، یہ بنیادی طور پر پہلے کی طرح مردوں کے لیے ہی ہے تاہم اس مرتبہ اس میں خواتین بھی شرکت کریں گی۔

    اتھارٹی کی جانب سے کہا گیا ہے کہ تاش مقابلوں میں شرکت کے خواہش مند جلد از جلد خود کو آن لائن پورٹل میں رجسٹرڈ کروائیں۔

    توقع ظاہر کی جارہی ہے کہ اس مرتبہ مقابلے میں شرکا کی تعداد 16 ہزار سے تجاوز کر جائے گی۔ ان میں مرد و خواتین دونوں ہوں گے۔

    خیال رہے کہ سعودی عرب میں تاش عوامی دلچسپی کا کھیل ہے جس کے مقابلے اس سے پہلے بھی کئی بار منعقد ہوچکے ہیں۔

  • سعودی خواتین کی ایک اور کامیابی

    سعودی خواتین کی ایک اور کامیابی

    ریاض: سعودی عرب میں خواتین کو معاشی عمل کا حصہ بنانے کے لیے جہاں ہر شعبے میں آگے لایا جارہا ہے، وہیں کھیلوں کے میدان میں بھی سعودی خواتین پیچھے نہیں، سعودی خواتین میں غوطہ خوری سمیت مختلف کھیلوں میں حصہ لینے کا رجحان بڑھتا جارہا ہے۔

    سعودی ویب سائٹ کے مطابق سعودی عرب کے مشرقی ساحلی شہر دمام میں 40 سعودی خواتین کے گروپ نے نہ صرف غوطہ خوری میں مہارت حاصل کی بلکہ غوطہ خوری کی تربیت دینے کے امتحان میں بھی کامیابی حاصل کر لی۔

    مذکورہ خواتین نے دمام کے غوطہ خوری کلب میں گزشتہ برس ماہ ستمبر میں داخلہ لیا تھا جہاں سے انہوں نے غوطہ خوری کی تربیت مکمل کرنے کے بعد دیگر خواہش مند خواتین کو تربیت دینے کے کورس بھی کیے۔

    خواتین نے عالمی معیار کے مطابق تربیت مکمل کر لی جنہیں کلب کی جانب سے اسناد بھی جاری کی گئی ہیں۔

    ایک اخبار سے گفتگو کرتے ہوئے ایک خاتون ٹرینر نے بتایا کہ سمندر کی تہہ میں جانا محض تفریح نہیں بلکہ ایک خطرناک مہم بھی ہے، خاص کر زیر آب تصویر کشی کرنا بعض اوقات بے حد خطرناک بھی ثابت ہوسکتا ہے۔

    دوسری جانب تبو ک ریجن میں مقیم سعودی خواتین بھی غوطہ خوری میں کافی دلچسپی رکھتی ہیں۔ مشرقی ریجن میں 10 ہزار سے زائد پیشہ ور غوطہ خور ہیں جو عالمی سطح پر غیر معمولی شہرت کے حامل ہیں۔

  • جدہ ایئرپورٹ پر پہلی بار خواتین کو ملازمت دے دی گئی

    جدہ ایئرپورٹ پر پہلی بار خواتین کو ملازمت دے دی گئی

    ریاض: جدہ کے کنگ عبدالعزیز انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر 200 سعودی خواتین کو مختلف شعبہ جات میں تعینات کیا گیا ہے۔

    سعودی اخبار کا کہنا ہے کہ ملازمت سے قبل سعودی خواتین کو ٹریننگ اکیڈمی سے خصوصی کورس کروایا گیا۔ انہیں گراﺅنڈ سروسز کی ٹریننگ دی گئی ہے۔

    ملازمت دینے والی کمپنی کے مطابق ٹریننگ اکیڈمی سے تربیت پانے والی خواتین کے پہلے گروپ کو 17 دسمبر 2019 میں تعینات کیا گیا ہے۔ خواتین کے دوسرے گروپ کی تعیناتی 2020 کے شروع میں کی جائے گی۔

    خیال رہے کہ سعودی حکومت بے روزگار مقامی خواتین کو ترجیحی بنیادوں پر روزگار دلانے کے لیے مختلف پہلوؤں پر کام کر رہی ہے۔ فی للحا ایسے شعبوں پر کام ہورہا ہے جہاں سعودی خواتین کو محدود ٹریننگ کورس کے ذریعے روزگار کے قابل بنایا جاسکتا ہے۔

    سعودی عرب میں خواتین میں بے روزگاری کی شرح 30 فیصد کے لگ بھگ ہے، حکومت سنہ 2020 کے دوران یہ شرح انتہائی محدود کرنے کا تہیہ کیے ہوئے ہے۔

  • سعودی حکومت ملازمت پیشہ خواتین کو مزید بااختیار بنانے کے لیے پرعزم

    سعودی حکومت ملازمت پیشہ خواتین کو مزید بااختیار بنانے کے لیے پرعزم

    ریاض: سعودی عرب کے وزیر شہری خدمات سلیمان الحمدان کے مطابق سرکاری ملازمتوں میں سعودی خواتین کا تناسب 40 فیصد ہوگیا ہے۔

    سعودی اخبار کے مطابق سلیمان الحمدان نے مجلس شوریٰ کے ارکان کو ملازمتوں کے حوالے سے وزارت کی کارکردگی کے بارے میں آگاہ کیا۔ سعودی وژن 2030 کے تناظر میں مستقبل سے متعلق اپنی وزارت کے اہداف، رجحانات اور نظریات پیش کیے۔

    وزیر شہری خدمات نے بتایا کہ سرکاری اداروں کو اپنی افرادی قوت آزادانہ طریقے سے استعمال کرنے کے اختیارات حاصل ہوں گے۔ ہر وزارت کی اپنی ایک حکمت عملی ہوگی اور اس حوالے سے وزارت بااختیار ہوگی۔

    سلیمان الحمدان کا کہنا تھا کہ وزارت شہری خدمات سرکاری اداروں میں خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے بھی مزید اقدامات کرے گی۔

    انہوں نے مزید بتایا کہ سرکاری ملازمین کو نجی اداروں میں جز وقتی ملازمت کے مواقع مہیا کرنے کے لیے 16 سے زیادہ ضوابط تبدیل کیے گئے ہیں۔

    وزیر شہری خدمات کا کہنا تھا کہ معذوروں کو خصوصی سہولیات فراہم کرنے کے لیے بھی اقدامات کیے جارہے ہیں۔ عام شہریوں کی طرح انہیں بھی ملازمت کے مواقع مہیا کیے جارہے ہیں۔

  • آزادانہ سفر کے لیے پاسپورٹ ملنے پر سعودی خواتین بے حد خوش

    آزادانہ سفر کے لیے پاسپورٹ ملنے پر سعودی خواتین بے حد خوش

    ریاض : سعودی خاتون ھیفاء کا کہنا ہے کہ بہت سی خواتین کیلئے پاسپورٹ کا حصول ناقابل یقین خواب تھا،حکومت کی جانب سے دی گئی مراعات پرخود بھی یقین نہیں آ رہا۔

    تفصیلات کے مطابق سعودی عرب کی حکومت کی طرف سے رواں ماہ کے اوائل میں خواتین کی سفری آزادیوں کے لیے ایک نیا سنگ میل طے کرتے ہوئے انہیں اپنی مرضی سے اندرون اور بیرون ملک سفر کی اجازت دی گئی۔

    اس اجازت کے بعد خواتین نے مرضی کے مطابق پاسپورٹ تیار کرانا شروع کر دیے ہیں، بہت سی خواتین کے لیے پاسپورٹس کا حصول ناقابل یقین خواب تھا مگر ان کا یہ خواب شرمندہ تعبیر ہو گیا ہے۔

    میڈیا ذرائع کا کہنا ہے کہ بہت سی خواتین کو پاسپورٹ حاصل کرنے کے بعد بھی یقین نہیں آتا کہ انہیں حکومت نے کتنی آزاد فراہم کی ہے۔

    مقامی خبر رساں ادارے کے مطابق 28 سالہ طالبہ ھیفاءنے پاسپورٹس کے دفتر سے اپنا پاسپورٹ وصول کیا تو بہت سی خواتین کی طرح خود اسے بھی یقین نہیں تھا کہ حکومت اسے اتنی سہولت دے سکتی ہے، پاسپورٹ دیکھ کر اس کی آنکھوں سے خوشی کے آنسو رواں ہو گئے۔

    میڈیاذرائع کا کہنا تھا کہ وہ بیرون ملک اپنا ایم اے کا تعلیمی پروگرام مکمل کرنا چاہتی تھی مگر والدین کی طرف سے اسے بیرون ملک تنہا سفر کی اجازت نہیں تھی، یہ پابندی برسوں سے برقرار رہی ہے مگراب ھیفاءکو بیرون ملک سفرمیں کوئی دقت نہیں ہوگی۔

    عرب خبر رساں ادارےکا کہنا تھا کہ برسوں تک سعودی عرب کی خواتین باپ، شوہر، بھائی یا بیٹے میں سے کسی ایک کی اجازت کی پابند رہی ہیں، اب وہ اپنی مرضی سے شادی اور سفر کر سکتی ہیں۔

    سعودی عرب کی حکومت نے یہ انقلابی قدم رواں ماہ اٹھایا اور برسوں سے بندشوں کا شکار خواتین کو سفر کی آزادی فراہم کی۔

    یہ آزادیاں سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی کاوشوں کا نتیجہ ہیں جنہوں نے چار سال قبل ملک میں وسیع اقتصادی اور سماجی اصلاحات کا سفر شروع کیا اور بہ تدریج خواتین کی آزادیوں کے لیے بھی اقدامات کیے ہیں۔

  • سعودی خواتین کا مرد سرپرستوں کی رضامندی کے بغیر بیرون ملک سفر

    سعودی خواتین کا مرد سرپرستوں کی رضامندی کے بغیر بیرون ملک سفر

    ریاض : نئے قوانین کے نفاذ کے بعد پہلی مرتبہ 1ہزار سعودی خواتین نے بغیر مرد سرپرستوں کی رضا مندی کے سرٹیفکیٹ بغیر بیرون ملک کیا، شہزادی ریما بنت بندر کا کہنا ہے کہ ان نئی تبدیلیوں سے دراصل ایک تاریخ رقم ہورہی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سعودی عرب میں خواتین کو حاصل آزادی کے حوالے سے ایک خاموش انقلاب بتدریج برپا ہورہا ہے۔اس کا اندازہ اس امر سے کیا جاسکتا ہے کہ مملکت کے مشرقی صوبے میں سوموار کو اکیس سال سے زائد عمر کی ایک ہزار سے زیادہ سعودی خواتین اپنے مرد سرپرستوں کی رضامندی کے بغیر بیرون ملک روانہ ہوئی ہیں۔

    عرب خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ وہ جب امگریشن کے لیے پاسپورٹ کنٹرول سے گزر رہی تھیں تو انھیں اپنے مرد سرپرستوں کی رضا مندی کا سرٹی فکیٹ یا کوئی اور متعلقہ دستاویز دکھانے کی ضرورت پیش نہیں آئی ۔

    سعودی عرب نے اگست کے اوائل میں نئے قوانین جاری کیے ہیں جن کے تحت اب خواتین کسی قسم کی قدغن کے بغیر پاسپورٹ کے حصول کے لیے درخواست دے سکتی ہیں اور بیرون ملک سفر پر جاسکتی ہیں۔

    مقامی میڈیا کا کہنا تھا کہ اس سے پہلے اکیس سال سے زیادہ عمر کی خواتین کو اپنے والد ، بھائی ، خاوند یا کسی اور مرد سرپرست سے بیرون ملک سفر کے لیے اجازت لینا پڑتی تھی۔

    ترمیم شدہ قوانین کے مطابق اب اکیس سال سے زیادہ عمر کی حامل سعودی خواتین کو اپنے مرد سرپرست کی اجازت کے بغیر پاسپورٹس کے حصول اوربیرون ملک آزادانہ سفر کی اجازت حاصل ہوگئی ہے۔

    شاہی فرامین کے تحت عائلی قوانین میں بھی نمایاں تبدیلیاں کی گئی ہیں اور اب ترمیمی قانون کے تحت خواتین کو اپنی شادی ، طلاق یا بچوں کی پیدائش کے اندراج کا حق حاصل ہوگیا ہے اور انھیں سرکاری طورپر خاندانی دستاویزات کا بھی اجرا کیا جاسکے گا۔

    عرب خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ ان کے تحت اب ایک باپ یا ماں دونوں بچّے کے قانونی سرپرست ہوسکتے ہیں۔

    امریکا میں متعیّن سعودی عرب کی سفیر شہزادی ریما بنت بندر نے خواتین کے حقوق سے متعلق ان ترمیمی قوانین کو سراہا اور کہا کہ ان نئی تبدیلیوں سے دراصل ایک تاریخ رقم ہورہی ہے۔

  • سعودی خواتین نئی آزادیوں سے بہرہ مند ہورہی ہیں، برطانوی اخبار

    سعودی خواتین نئی آزادیوں سے بہرہ مند ہورہی ہیں، برطانوی اخبار

    ریاض :سعودی عرب کی حکومت کی طرف سے خواتین کےلیے متعارف کردہ نئی اصلاحات اور شہری آزادیوں کے پوری دنیا میں چرچے ہیں۔

    برطانوی اخبار میں شائع ہونے والی ایک تفصیلی رپورٹ میں سعودی عرب میں آزادی نسواں کے حوالے سے اٹھائے گئے اقدامات کو غیر معمولی اہمیت کے حامل قرار دیا ہے۔

    برطانوی اخبار میں شائع ہونے والے فاضل مضمون نگار مارٹن چولوو کے مضمون میں بھی سعودی عرب میں خواتین کی شہری آزادیوں اور ان کے معاشرے پر مرتب ہونے والے اثرات پر روشنی ڈالی ہے۔

    مضمون نگار لکھتے ہیں کہ سعودی عرب کی حکومت نے خواتین کے لیے جو نئی اصلاحات متعارف کرائی ہیں وہ انتہائی اہمیت کی حامل ہیں اور ان سے خواتین بھرپور طور پر فائدہ اٹھا رہی ہیں۔ خواتین کو سفرکی آزادی، طلاق، پاسپورٹ کے حصول کی آزادی اور بہت سے امور میں ولی یا سر پرست کی قید سے آزادی اہمیت کی حال ہے۔

    مارٹن چولوو کے مطابق سعودی حکومت کی طرف سے متعارف کرائی گئی نئی اصطلاحات اور آزادیوں پر قوم بالخصوص خواتین کی طرف سے مثبت رد عمل سامنے آیا ہے۔ خواتین کی طرف سے حکومت کے اقدام کو غیر معمولی طور پر سراہا جا رہا ہے۔

    سعودی عرب کی ایک 30 سالہ خاتون عزہ نے نئے حقوق پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کی طرف سے خواتین کے لیے نئے اقدامات بہت سے مسائل کے حل میں مدد گار ہوں گی۔

    ان کا کہنا تھا کہ میرے والد 2000ءمیں وفات پاگئے تھے اور میرا کوئی دوسرا سرپرست نہیں تھا، یہی وجہ ہے کہ مجھے پاسپورٹ کے حصول میں بہت مشکل پیش آئی۔ سنہ 2018ءمیں مجھے کئی مشکلات سے گزر کر پاسپورٹ مل پایا مگر اب میری جیسی بہنوں کی یہ مشکل حل کر دی گئی ہے۔

    سعودی عرب میں خاندانی بہبود کے لیے کام کرنے والی سماجی کارکن ڈاکٹر مہا المنیف نے کہا کہ نئی شہری آزدیوں سے خواتین کو طاقت حاصل کرنے، خود مختار ہونے اور اپنی ذات اور خواہشات کی تکمیل کی راہ ہموار ہوئی ہے۔

  • 6 لاکھ سعودی خواتین عملی میدان میں سرگرم

    6 لاکھ سعودی خواتین عملی میدان میں سرگرم

    ریاض : سعودی وزارت مزدور و سماجی بہبود نے کہا ہے کہ ’ہم سعودی خواتین کو بااختیار بنانے اور ان کیلئے مختلف شعبوں میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں‘۔

    تفصیلات کے مطابق سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے وژن 2030 کے تحت سعودی خواتین کو ڈرائیونگ اور کھیل سمیت مختلف شعبوں میں اپنے صلاحیتیں دکھانے کا موقع پر دیا جس کے بعد خواتین نے ہر شعبے میں اپنی صلاحتیوں کا لوہا منوایا۔

    وزارت مزدور کی نمائندہ نوال عبداللہ التیبعان کا کہنا تھا کہ وژن 2030 کے تحت خواتین کو آزادی دینے کے بعد سے اب تک چھ لا کھ سعودی خواتین جاب مارکیٹ کا حصّہ بن چکی ہیں۔

    التیبعان کا کہنا ہے کہ سعودی خواتین کی ورک فورس متعدد رکاٹوں اور چیلنجز کے باوجو نہ صرف پیداواری اور تخلیقی شعبوں میں بھی اہم کردار ادا کررہی ہے۔

    وزارت مزدور مکہ برانچ کی ڈائریکٹر نوال عبداللہ التیبعان نے کنگ عبداللہ یونیورسٹی میں محمد بن سلمان کے وژن 230 سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وزارت مزدور نے خواتین کو ملازمت مواقع فراہم کرنے کےلیے 68 نئی اسکیمیں شروع کیں ہیں۔

    کنگ عبدالعزیز یونیورسٹی میں خواتین کی خود مختاری اور ملازمتوں کے حوالے سے منعقدہ  سیمینار میں ریاست مکہ کی منسٹری برانچ کی اسسٹنٹ ڈائریکٹر جنرل نوال عبداللہ التیبعان نے کہا کہ سعودی عرب کی خواتین ملازمین نہ صرف محنت سے آگے بڑھ رہی ہیں بلکہ وہ ایسے کام بھی سر انجام دے رہی ہیں جو ان کے لیے ایک چیلنج تھے۔

    انہوں نے مزید بتایا کہ سعودی حکومت نے خواتین کو ملازمتیں فراہم کرنے کے لیے 344 ارب ریال کی سرمایہ کاری سے 499 نئے پروجیکٹ شروع کرنے کی منصوبہ بندی کر رکھی ہے۔

    اسسٹنٹ ڈائریکٹر کے مطابق اس وقت سعودی حکومت 4 سے زائد بچوں کی والدہ خواتین ملازمین کو مراعتیں بھی فراہم کر رہی ہے۔

    مزید پڑھیں : عدوا الدخیل سعودی عرب کی پہلی خاتون پائلٹ بن گئیں

    یاد رہے کہ گزشتہ برس تین جون کو ایک تاریخ سا ز فیصلے کے نتیجے میں سعودی خواتین کو گاڑی چلا نے کی اجازت ملی تھی جو کہ ایک قدامت پسند معاشرے میں بڑا اقدام تھا، جس کے بعد متعدد شعبوں میں خواتین اپنی صلاحتیوں کا لوہا منواتی رہیں۔

    عرب میڈیا کے مطابق رواں ماہ سعودی خاتون عدوا الدخیل نے بلندی سے گرنے کے خوف کو شکست دیتے ہوئے پہلی سعودی خاتون پائلٹ بننے کا اعزاز حاصل کیا تھا۔

  • سعودی خواتین ہائیکرز نے مکہ مکرمہ کی بلند چوٹیاں سر کرلیں

    سعودی خواتین ہائیکرز نے مکہ مکرمہ کی بلند چوٹیاں سر کرلیں

    ریاض: سعودی خواتین ہائیکرز نے مکہ مکرمہ کی دشوار گزار بلند ترین چوٹیاں سر کرلیں۔

    عرب میڈیا کے مطابق 12 سعودی خواتین ہائیکرز نے مکہ مکرمہ کی بلند چوٹیاں سر کرنے کا چیلنج قبول کیا، اس کاوش کا مقصد جبل نور کی بلند ترین چوٹی پر پہنچ کر پیدل چلنے اور جسمانی صحت اور فٹنس پر توجہ دینے کے حوالے سے آگاہی بیدار کرنا تھا۔

    یہ پڑھیں: حرمین ٹرین منصوبہ، سعودی خواتین مردوں‌ کے شانہ بشانہ

    خواتین کے ہمراہ ایک ٹیم موجود تھی جنہوں نے اپنے ساتھ واٹر کینز اور کچھ پھل لے رکھے تھے، انہوں نے اپنے ہاتھوں میں بینرز بھی اٹھا رکھے تھے جن پر معاشرے میں ہائیکنگ کی سرگرمی اجاگر کرنے پر زور دیا گیا تھا۔

    ہائیکنگ میں شریک سعودی خواتین کا کہنا تھا کہ وہ کھیلوں کی اس سرگرمی سے معاشرے کو پیغام دینا چاہتی ہیں کہ پیدل چل کر بیماریوں اور امراض سے لڑیں، ہائیکنگ دشواری کے باوجود ایک دلچسپ اور تفریح فراہم کرنے والا کھیل ہے اس کے فوائد وہ ہی جان سکتا ہے جو اس سرگرمی کو انجام دے۔

    مزید پڑھیں: سعودی خواتین سائیکلنگ ٹیم یورپی ملکوں کے سفر پر روانہ

    ہائیکنگ میں شریک ایک خاتون کے مطابق ان کی ٹیم نے جبل نور اور جبل ثور پر اس ایونٹ کا انعقاد کیا، علاوہ ازیں دیگر کئی ایونٹس میں بھی شریک رہیں تاکہ پیدل چلنے کے ذریعے امراض کے خلاف شعور بیدار کیا جاسکے۔

  • سعودی خواتین اپنی طلاق سے لاعلم نہیں رہیں گی، نیا قانون متعارف

    سعودی خواتین اپنی طلاق سے لاعلم نہیں رہیں گی، نیا قانون متعارف

    ریاض: سعودی عرب میں ایک نیا قانون متعارف کرایا گیا ہے جس کے تحت اب سعودی خواتین اپنی ہی طلاق سے لاعلم نہیں رہیں گی۔

    برطانوی خبررساں ادارے کے مطابق نئے قانون کے تحت عدالت کی جانب سے خواتین کو ان کی طلاق سے متعلق فیصلے کے بارے میں موبائل پر پیغام بھیج کر آگاہ کیا جائے گا۔

    قانون کے ذریعے اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ خواتین اپنی ازدواجی رشتے سے مکمل آگاہ ہوں گی اور اپنے نان نفقہ کے حقوق کا مکمل تحفظ کرسکیں گی۔

    مقامی خاتون وکلاء کے مطابق اس اقدام سے خفیہ طلاقوں کا خاتمہ ہوگا، اس سے قبل مرد اپنی بیویوں کو آگاہ کیے بغیر شادی ختم کردیتے تھے۔

    طلاق سے متعلق تفصیلات وزارت انصاف کی ویب سائٹ پر بھی دستیاب ہوں گی جبکہ فیملی کورٹ خواتین کو ازدواجی حیثیت میں تبدیلی جیسے مطلقہ یا بیوہ ہونے سے بھی آگاہ کرنے کی پابند ہوگی۔

    مزید پڑھیں: سعودی عرب میں پسند کی مختصر ترین شادی کتنی دیر برقرار رہی؟

    سعودی وکیل نصرین الغامدی کے مطابق اس نئے اقدام کی مدد سے طلاق کے بعد خواتین کے نان نفقہ کے حق کو مضبوط بنایا جائے گا، اس کے ذریعے اس بات کو بھی یقینی بنایا جائے گا کہ طلاق سے قبل جاری کیے جانے والے کسی بھی پاوور آف اٹارنی کا غلط استعمال نہ کیا جائے۔

    سعودی وکیل سمیہ ال ہندی نے کہا کہ کئی خواتین پہلے ہی عدالتوں میں بنا آگاہ کیے طلاق کے حوالے سے درخواست جمع کرواچکی ہیں۔

    دوسری جانب یہ نیا اقدام سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی جانب سے کی جانے والی معاشی اور سماجی اصلاحات کا حصہ قرار دیا جارہا ہے جن کے تحت پہلے ہی خواتین کو فٹ بال میچ دیکھنے اور ان جگہوں پر ملازمت کی اجازت دینا ہے جو عام طور پر مردوں کے لیے مختص سمجھی جاتی رہی ہیں۔