Tag: سعودی خواتین

  • حرمین ٹرین منصوبہ، سعودی خواتین مردوں‌ کے شانہ بشانہ

    حرمین ٹرین منصوبہ، سعودی خواتین مردوں‌ کے شانہ بشانہ

    جدہ: سعودی حکومت کی جانب سے شروع ہونے والی حرمین ٹرین سروس کے منصوبے میں مقامی خواتین نے بھی اپنا کردار ادا کرنا شروع کردیا۔

    العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق سعودی حکومت کی جانب سے شروع ہونے والی حرمین ٹرین سروس کا آغاز 25 اگست 2018 کو ہوا، جس کے بعد  مقامی خواتین نے بھی ملازمتیں حاصل کرنے کے لیے انتظامیہ کو درخواستیں دیں۔

    رپورٹ کے مطابق مکہ  سے مدینہ اور جدہ اور رابغ کے درمیان سے گزرنے والی ٹرین سے روزانہ سیکڑوں شہری اور زائرین استفادہ کررہے ہیں۔

    ٹرین کے مختلف اسٹیشنوں پر ٹکٹ کے حصول، رابطوں کے مراکز، معلومات اور بکنگ سمیت دیگر امور کے لیے لگائے جانے والے سیکشنز میں مقامی خواتین نے ڈیوٹی دینا شروع کردی۔

    مزید پڑھیں: سعودی عرب: شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے حرمین ٹرین کا افتتاح کردیا

    آپریشن ڈیپارٹمنٹ میں ملازمت حاصل کرنے والی انجینیئر ماجدہ ٹیکنالوجی سمیت تمام امور پر نہ صرف نظر رکھتی ہیں بلکہ تن دہی سے اپنی ڈیوٹی ادا کررہی ہیں۔

    اسی طرح مدینہ منورہ کے حرمین اسٹیشن پر ڈیوٹی کرنے والی جابر نامی خاتون مسافروں کی خدمت، اُن کو ٹکٹوں کی فراہمی اور آگاہی دینے کے پر مامور ہیں اس کے علاوہ دیگر خواتین بھی یہاں امور انجام دے رہی ہیں۔

    یہ بھی پڑھیں: سعودی خواتین اب جہاز بھی اڑائیں گی

    حرمین ٹرین منصوبے کے ڈائریکٹر جنرل انجینئر محمد فدا کا کہنا تھا کہ ’سعودی خواتین اب ریلوے کے مختلف شعبوں اور منصبوں میں اپنی ذمہ داریاں خوش اسلوبی سے انجام دے رہی ہیں‘۔

  • سعودی خواتین اب جہاز بھی اڑائیں گی

    سعودی خواتین اب جہاز بھی اڑائیں گی

    مناما: پانچ سعودی خواتین کو جنرل اتھارٹی آف سول ایوی ایشن نے سعودی عرب کی ایئر لائن کے جہاز اڑانے کے لیے پائلٹ کا لائسنس دے دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سعودی جنرل اتھارٹی آف سول ایوی ایشن ان دنوں ہوابازی کے شعبے میں خواتین کو آگے لا کر اسے عالمی سول ایوی ایشن تنظیم سے ہم آہنگ کرنے کے لیے اقدامات کررہا ہے اور مذکورہ بالا لائسنس کا اجرا بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔

    علاوہ ازیں سعودی عرب کی قومی فضائی کمپنی میں حال ہی میں فنانس ، آئی ٹی اور ریزرویشن سیکشن میں 500 سے زائد خواتین کو ملازمت فراہم کی گئی ہے ، تاہم ان میں سے کوئی بھی پائلٹ نہیں تھی۔

    یاد رہے کہ یاسمین محمد المیمنی وہ دوسری خاتون ہیں جنہیں سعودی جنرل اتھارٹی برائے ہوا بازی نے کمرشل ہوا بازی کا لائسنس جاری کیا تھا، انہیں امید ہے کہ اب وہ اپنے ملک کے لیے بھی جہاز اڑاسکیں گی۔

    ان کاکہنا تھا کہ پائلٹ بننا ان کا بچپن کا خواب تھا اور اس کے لیے ان کے اہل خانہ نے انہیں مکمل سپورٹ کیا ، انہوں نے کہا کہ میرے اسکول میں اچھے گریڈ تھے اور میں کسی بھی شعبے میں جاسکتی تھی لیکن کاک پٹ میں بیٹھ کر آسمانوں کو چھونا ایک ایسا خواب تھا جس نے مجھے ہمیشہ اپنے حصار میں رکھا۔

    انہوں نے مزید بتایا کہ اپنی فیملی کی سپورٹ سےسے وہ اردن گئیں جہاں انہوں نے ہوابازی کی تربیت لے کر پرائیوٹ پائلٹ کا لائسنس حاصل کیا، بعد ازاں انہوں نے امریکی ہوا بازی کی اکیڈمی سے کمرشل پائلٹ کی تربیت حاصل کی جس کے بعد وطن واپسی پر انہیں سعودی ایوی ایشن اتھارٹی نے 2014 میں لائسنس جاری کیا تھا ، تاہم وہ اب تک کمرشل جہاز نہیں اڑا پائی ہیں لیکن پر امید ہیں کہ حکومت کے نئے اقدامات سے انہیں اس کا موقع ضرور ملے گا۔

    یاد رہے کہ رواں برس تین جون کو ایک تاریخ سا ز فیصلے کے نتیجے میں سعودی خواتین کو گاڑی چلا نے کی اجازت ملی تھی جو کہ ایک قدامت پسند معاشرے میں بڑا اقدام تھا اور اب امید ہے کہ جلد ہی سعودی خواتین جہاز بھی اڑائیں گی۔

  • سعودی عرب میں پہلی خاتون نے فلموں کی درآمد اور تقسیم کا لائسنس حاصل کرلیا

    سعودی عرب میں پہلی خاتون نے فلموں کی درآمد اور تقسیم کا لائسنس حاصل کرلیا

    ریاض: سعودی عرب میں پہلی مقامی خاتون نے فلموں کی درآمد اور تقسیم کا لائسنس حاصل کرکے مملکت میں خواتین کے متحرک کردار کے حوالے سے ایک اور نظیر قائم کردی۔

    تفصیلات کے مطابق خلود عطار نے سعودی عرب میں فلمی صنعت کا روشن مستقبل دیکھ کر فلمیں درآمد کرنے اور انھیں ملک میں تقسیم کرنے کا لائسنس حاصل کرنے کا فیصلہ کیا۔

    یہ سعودی عرب میں فلموں کی تقسیم کا پہلا لائسنس ہے جو کسی خاتون نے حاصل کیا ہے، جس سے مملکت کے جدید بنیادوں پر استوار ہونے کے سلسلے میں خواتین کے کردار کی شمولیت کا پتا چلتا ہے۔

    خلود عطار سعودی آرٹس کونسل کی رکن ہیں، ان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب میں فلمی صنعت کا مستقبل تاب ناک ہے، میں اس اہم سیکٹر میں اپنا کردار ادا کرنا چاہتی ہوں، لیکن میری ساری توجہ سعودی فلموں پر ہوگی، غیر ملکی فلموں پر نہیں۔

    انھوں نے لائسنس کے حصول کے حوالے سے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ہفتہ دس روز میں تمام کارروائی مکمل ہوگئی تھی اور انھیں کسی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ دوسری طرف امریکی جریدے فوربز نے خلود عطار کو سعودی عرب کی متاثر کن شخصیات کی فہرست میں شامل کردیا ہے۔

    یہ بھی پڑھیں:  سعودی سینما گھروں کی بحالی پر مصری فلم انڈسٹری کا اظہار مسرت

    خلود عطار نے بتایا کہ ایسی کہانیاں جو تاریخی یا سماجی پہلو رکھتی ہیں، انھیں سعودی معاشرے میں فلم کی صورت میں پیش کیا جاسکتا ہے، یہی وجہ ہے کہ انھوں نے ابتدا میں فلم ’بلال‘ اور دیگر مختصر فلموں کی تقسیم کے حقوق حاصل کیے ہیں۔

    یہ بھی دیکھیں:  سعودی عرب: خواتین کی رہنمائی کے لیے ٹریفک سائن بورڈز تیار

    واضح رہے کہ خلود عطار گزشتہ دس برس سے ڈیزائننگ سے متعلق ایک میگزین شایع کر رہی ہیں جس نے گرافکس، سول انجینئرنگ اور فوٹو گرافی کے شعبوں میں بہت سارا مقامی ٹیلنٹ متعارف کرایا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں،مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • سعودی عرب: خواتین کی رہنمائی کے لیے ٹریفک سائن بورڈز تیار

    سعودی عرب: خواتین کی رہنمائی کے لیے ٹریفک سائن بورڈز تیار

    ریاض: سعودی عرب میں خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت ملنے کے بعد خواتین کی رہنمائی کے لیے خصوصی ٹریفک سائن بورڈ ز بھی تیار کرلیے گئے۔

    تفصیلات کے مطابق سعودی عرب میں آنے والی تیز رفتار تبدیلیوں میں ایک اور تبدیلی سامنے آگئی، سڑکوں پر نصب سائن بورڈز میں خواتین کو بھی مخاطب کرنے کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے۔

    اس سلسلے میں صوبہ مکہ مکرمہ میں روڈ سیکورٹی کی اسپیشل فورس نے پہلی مرتبہ اپنے سائن بورڈز میں مردوں کے ساتھ عورتوں کو بھی مخاطب کیا ہے۔

    مذکورہ سائن بورڈز کی تصاویر سوشل میڈیا پر بھی زیر گردش ہیں، ان تصاویر کو خواتین کی طرف سے بہت زیادہ پذیرائی مل رہی ہے۔

    سعودی عرب کی خواتین نے اس بات پر اظہار مسرت کیا ہے کہ ان کے گاڑی چلانے کا وقت اب قریب آگیا ہے، خواتین کا کہنا ہے کہ یہ ایک بڑی کام یابی ہے اور ترقی کی جانب ایک مستحسن قدم ہے۔

    سعودی عرب کے پانچ شہروں میں خواتین کے لیے ڈرائیونگ اسکولز قائم


    واضح رہے کہ خواتین کی ایک بڑی تعداد نے ڈرائیونگ اسکولوں میں داخلہ لیا ہے تا کہ 24 جون سے مملکت میں خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت پر عمل درامد کے لیے خود کو تیار کر سکیں۔

    خیال رہے کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی جانب سے متعارف کرائی گئیں اصلاحات کے اثرات مملکت میں تیزی سے پھیلتے جارہے ہیں، گزشتہ دنوں خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت ملنے کے بعد پانچ شہروں میں خواتین کے لیے ڈرائیونگ اسکول بھی قائم کردیے گئے ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔

  • سعودی عرب:‌ ماں بیٹی نے اکٹھے گریجویشن کر کے نئی مثال قائم کر دی

    سعودی عرب:‌ ماں بیٹی نے اکٹھے گریجویشن کر کے نئی مثال قائم کر دی

    ابہا: سعودی عرب میں باہمت خاتون نے اپنی بیٹی کے ساتھ کنگ خالد یونی ورسٹی سے گریجویشن کرکے ایک شان دار مثال قائم کردی۔

    تفصیلات کے مطابق ابہا کی شہری صالحہ عسیری نے یونی ورسٹی کی سالانہ تقریب میں میڈیا اینڈ ٹیلی کمیونی کیشن کے شعبے میں جب کہ ان کی بیٹی مرام آل مناع نے بزنس ایڈمنسٹریشن میں فارغ التحصیل ہونے پر گریجویشن گاؤن زیب تن کیا۔

    صالحہ عسیری نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کی شادی کم عمری میں ہوگئی تھی جس کی وجہ سے نویں جماعت میں تعلیم کا سلسلہ رک گیا تھا۔

    ان کا کہنا تھا کہ کئی برس بعد جب وہ اپنے شہر ابہا لوٹ آئیں تو ان کی بیٹی مرام نے سیکنڈری مرحلہ مکمل کرنے کے بعد انھیں بھی ہوم اسکولنگ سے اپنا تعلیمی سلسلہ پھر سے جوڑنے کے لیے اصرار کیا۔

    صالحہ کے مطابق انھوں نے انٹرمیڈیٹ سے لے کر یونی ورسٹی کے آخری دن تک تعلیمی سفر اپنی بیٹی کے ساتھ طے کیا۔ وہ یہ بتاتے ہوئے آب دیدہ ہوگئیں کہ ان کی والدہ انھیں گریجویٹ کے روپ میں دیکھنے کی تمنا لیے ایک سال قبل دنیا سے رخصت ہوگئیں۔

    سعودی خواتین کی ڈرائیونگ سے ٹریفک جام ہونے کا خدشہ مسترد

    ان کا کہنا تھا کہ اس تعلیمی سفر میں بہت سی مشکلات پیش آئیں لیکن انھوں نے ہمت نہیں ہاری۔ صالحہ کے مطابق اب وہ ملازمت کرکے اپنے بچوں کی مزید بہتر تعلیم و تربیت کا فریضہ ادا کرنا چاہتی ہیں۔

    واضح رہے کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی طرف سے سلطنت میں اصلاحات کا سلسلہ شروع ہونے کے بعد خواتین کی زندگی میں واضح بدلاؤ آگیا ہے۔


     خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔

  • سعودی خواتین کی ڈرائیونگ سے ٹریفک جام ہونے کا خدشہ مسترد

    سعودی خواتین کی ڈرائیونگ سے ٹریفک جام ہونے کا خدشہ مسترد

    ریاض: سعودی عرب کی قومی کمیٹی برائے ڈرائیونگ کے سربراہ ڈاکٹر مخفور آل بشر نے سعودی خواتین کی ڈرائیونگ سے ٹریفک جام ہونے کا خدشہ مسترد کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق قومی کمیٹی برائے ڈرائیونگ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ یہ تاثر بالکل غلط ہے کہ خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت ملنے کے بعد شہروں میں گاڑیوں کا ہجوم بڑھ جائے گا اور ٹریفک مسائل بڑھیں گے۔

    قومی کمیٹی کے چئیرمین نے ایک انٹرویو میں کہا کہ حکومت نے خواتین کی ڈرائیونگ کے سلسلے میں تمام معاملات پر غور کرلیا ہے اور تمام ضروری انتظامات بھی کرلیے ہیں، روڈ اور ٹریفک حکام کسی بھی رکاوٹ سے نمٹنے کے لیے پوری طرح تیار ہیں۔

    واضح رہے کہ ڈرائیونگ سے دل چسپی رکھنے والی سعودی خواتین کو باقاعدہ پیشہ ور تربیتی اداروں میں ٹریننگ دی جارہی ہے، اس سلسلے میں مخفور آل بشر کا کہنا تھا کہ خواتین کو دو ماہ پر  محیط ایک کورس بھی کرایا جائے گا جو ٹریفک سے متعلق تمام معلومات اور ضروری ہدایات پر مشتمل ہے۔

    سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان کی شان دار اصلاحات کے بعد جہاں ایک طرف خواتین مختلف ڈرائیونگ انسٹی ٹیوٹس کا رخ کر رہی ہیں وہاں وہ یہ سوال بھی اٹھارہی ہیں کہ یونی ورسٹیاں کیوں ڈرائیونگ سکھانے کے کورسز آفر نہیں کر رہی ہیں؟ ان کا کہنا ہے کہ نجی اداروں میں انھیں زیادہ فیس ادا کرنی پڑتی ہے۔

    سعودی خواتین کا انقلابی فیصلہ، جدہ کی سڑکوں‌ پر جاگنگ

    واضح رہے کہ اس وقت سعودی عرب میں خواتین کے لیے مخصوص ڈرائیونگ اسکول موجود نہیں ہیں جس کی وجہ سے انھیں مردوں کے ڈرائیونگ اسکولوں میں تربیت حاصل کرنی پڑ رہی ہے، تاہم حکومت مستقبل میں ان کے لیے الگ اسکول قائم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔


     خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔

  • سعودی خواتین کو ٹرک اورموٹرسائیکل چلانے کی اجازت

    سعودی خواتین کو ٹرک اورموٹرسائیکل چلانے کی اجازت

    ریاض :سعودی عرب نے کار کے بعدخواتین کوٹرک اورموٹرسائیکل چلانے کی اجازت دینے کااعلان کردیا جبکہ پٹرولنگ اور چیکنگ کیلئے خواتین اہلکار بھرتی کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سعودی حکومت کی جانب سے خواتین کے لئے ایک اور بڑا اعلان کردیا گیا ، کار کے بعد خواتین کو ٹرک اور موٹرسائیکل چلانے کی اجازت دیدی گئی۔

    سعودی روڈ سیفٹی مینجمنٹ کے مطابق خواتین قواعد اورضوابط کوپورا کرکے ٹرک اورموٹرسائیکل چلاسکیں گی جبکہ خواتین ڈرائیوزکی چیکنگ اورپیڑولنگ کے لئے لیڈزپولیس اہلکار بھی بھرتی کی جائیں گی۔


    سعودی عرب میں خواتین کو گاڑی ڈرائیو کرنے کی اجازت مل گئی


    واضح  رہے کہ سعودی عرب کے فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز آل سعود نے 26 ستمبر 2017 کوشاہی فرمان میں خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت دینے کا حکم دیا تھا اور سعودی حکومت کی جانب سے خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت کے فیصلے کو بہت سراہا گیا تھا۔،

    جس کے بعد سعودی عرب میں خواتین اگلے سال جون سے ڈرائیونگ کرسکیں گی۔

    یاد رہے دو ماہ قبل سعودی عرب نے پہلی بار خواتین کو اسٹیڈیم میں میچ دیکھنے کی اجازت بھی دی گئی تھی۔

    بعد ازاں سعودی حکومت نے روشن خیالی کی سمت ایک اور قدم آگے بڑھاتے ہوئے سرکاری چینل پر عرب لیجنڈ گلوکارہ ام کلثوم کا میوزک کنسرٹ نشر کیا تھا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • سعودی عرب میں ڈرائیونگ کےلیےخواتین کی عمر18 سال مقرر

    سعودی عرب میں ڈرائیونگ کےلیےخواتین کی عمر18 سال مقرر

    ریاض: سعودی وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ ملک میں خواتین کے لیے ڈرائیونگ کی قانونی عمر 18 سال مقرر کردی گئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سعودی وزارت داخلہ کے مطابق ٹریفک کے قوانین کو نافذ کرنے کے حوالے سے شاہی فرمان جاری کیا گیا ہے جس میں خواتین کی ڈرائیونگ کرنے کی عمر 18 سال مقررکی گئی ہے۔

    سعودی وزارت داخلہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ سیکورٹی فورسز خواتین ڈرائیوروں کو بھی دیگر مسافروں کی طرح ہی ڈیل کریں گی۔


    سعودی عرب میں خواتین کو گاڑی ڈرائیو کرنے کی اجازت مل گئی


    خیال رہے کہ تین روز قبل سعودی فرماں رواں شاہ سلمان بن عبد العزیز نے خواتین کو گاڑی ڈرائیونگ کرنے کی اجازت دی تھی جس کے بعد خواتین پر سے گاڑی چلانے کی پابندی مکمل طور پر ختم ہوگئی تھی۔


    گاڑی چلانے والی سعودی خواتین کو ہراساں کرنے والا گرفتار


    قبل ازیں سعودی قوانین کے تحت خواتین کو گاڑی کی ڈرائیونگ پر نہ صرف سخت پابندی عائد تھی بلکہ اس کی خلاف ورزی کرنے والی خواتین کے خلاف قانونی کارروائی بھی عمل میں لائی جاتی تھی۔

    واضح رہے کہ سعودی عرب میں مرد حضرات کے لیے بھی ڈرائیونگ کی کم سے کم عمر 18 سال ہی مقرر ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں۔

  • سعودی عرب: خواتین کے لیے نوکریوں کی تعداد میں 130 فیصد اضافہ

    سعودی عرب: خواتین کے لیے نوکریوں کی تعداد میں 130 فیصد اضافہ

    ریاض: سعودی عرب میں حیرت انگیز طور پر خواتین کے لیے دستیاب نوکریوں کی تعداد میں 130 فیصد اضافہ ہوگیا، خود سعودی حکومت خواتین کے لیے نوکریاں بڑھانے کے منصوبوں پر کام کررہی ہے۔

    سعودی عرب کی وزارت محنت (لیبر) اور سوشل ڈیولپمنٹ کی جانب سے حال ہی میں ماہ مارچ کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ 4 برس کے دوران خواتین کے پرائیویٹ سیکٹر ملازمت کرنے کی شرح میں 130 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

    سال 2012ء میں 2 لاکھ 15 ہزار خواتین پرائیویٹ سیکٹر میں کام کررہی تھیں، 2016ء میں یہ تعداد 4 لاکھ 96 ہزار ہوگئی یعنی اس تعداد میں ہر ماہ 8 ہزار 500 خواتین کا اضافہ ہوا۔

    گلف نیوز کے مطابق ریاض میں 2 لاکھ 3 ہزار سے زائد خواتین کو ملازمتوں کی پیشکش ہوئی جو کہ سعودی تاریخ میں خواتین کے لیے ملازمتوں کی سب سے بڑی تعداد ہے اور مجموعی ملازمتوں کا 41 فیصد ہے۔

    خیال رہے کہ سعودی عرب میں خواتین کا نوکری کرنا، گاڑی چلانا اور محرم کے بغیر باہر نکلنا معیوب سمجھا جاتا ہے تاہم اب ان قوانین میں آہستہ آہستہ نرمی آرہی ہے۔

    سعودی عرب کی وزارت محنت اس بات پر کام کررہی ہے کہ خواتین ملازمین کی تعداد میں سال 2020ء تک اضافہ کرکے مجموعی ملازمتوں میں خواتین کا حصہ 28 فیصد تک کردیا جائے۔

    نیشنل ٹرانسفارمیشن پروگرام 2020ء کے تحت سعودی حکومت مزید منصوبے پیش کررہی ہے ان میں خواتین کا گھروں میں کام کرنا بھی شامل ہے اور امید ہے اس منصوبے کے تحت 1لاکھ 41 ہزار نوکریاں پیدا ہوں گی۔

    ان مںصوبوں میں حکومت کی زیادہ توجہ بالخصوص خواتین اور گریجویٹس افراد پر ہے، خواتین کو معاشی طور پر بااختیار بنانے اور انہیں محفوظ ماحول میں ملازمت کے لیے حکومت نے کئی پروگرام شروع کیے ہیں۔

    خواتین کو یہ اجازت قدامت پسندوں کی مخالفت کے باوجود خواتین کو دی گئی جن کا موقف ہے کہ خواتین کو کھلے عام کام کرنے کی اجازت نہ دی جائے بالخصوص ایسی جگہ جہاں مخلوط ماحول ہے جیسا کہ شاپنگ سینٹرز، سپر مارکیٹ اور دیگر بازار۔

    یہ ضرور پڑھیں: سعودی عرب میں کتنے غیرملکی ملازمین ہیں؟

  • میں اپنی سرپرست خود: سعودی خواتین کا صنفی تفریق کے خلاف سخت احتجاج

    میں اپنی سرپرست خود: سعودی خواتین کا صنفی تفریق کے خلاف سخت احتجاج

    ریاض: سعودی عرب میں چند برقع پوش خواتین نے ایک میوزک ویڈیو جاری کی ہے جس میں وہ سعودی معاشرے کے ان قوانین کو کڑی تنقید کا نشانہ بنا رہی ہیں جن کے تحت صرف خواتین پر پابندیاں عائد ہیں۔

    ویڈیو کا آغاز چند برقع پوش خواتین سے ہوتا ہے جو ایک گاڑی کی پچھلی سیٹوں پر آ کر بیٹھتی ہیں، اس کے بعد ڈرائیونگ سیٹ پر ایک چھوٹا سا بچہ آ کر بیٹھتا ہے۔

    song-5

    سعودی عرب میں چونکہ خواتین کی ڈرائیونگ پر سخت پابندی عائد ہے لہٰذا اس بات کو ایک مضحکہ خیز انداز میں لیا جاتا ہے کہ وہاں چھوٹے بچے بھی صرف اس لیے گاڑی چلا سکتے ہیں کیونکہ وہ مرد ہیں۔

    اس کے بعد ان خواتین کی تفریحات کے مناظر شروع ہوتے ہیں جو عموماً سعودی معاشرے میں خواتین کے لیے ممنوع سمجھے جاتے ہیں۔

    song-4

    song-3

    song-1

    گانے میں وہ گاتی نظر آتی ہیں، ’کاش دنیا سے سارے مرد غائب ہوجائیں، یہ ہمیں نفسیاتی مسائل کے علاوہ اور کچھ نہیں دے سکتے‘۔

    ویڈیو میں سعودی عرب کے ’سرپرستی نظام‘ کو ہدف تنقید بنایا گیا ہے جس کے تحت خواتین اپنے گھر کے مردوں کے بغیر نہ تو سفر کر سکتی ہیں، نہ ہی ان کی اجازت کے بغیر شادی کر سکتی ہیں اور نہ انہیں ان کی اجازت کے بغیر کام کرنے کی اجازت ہے۔

    بعض اوقات وہ سخت بیماری کی حالت میں بھی صرف اس لیے بھی طبی سہولیات حاصل کرنے سے محروم ہوجاتی ہیں کیونکہ انہیں ڈاکٹر کے پاس لے جانے کے لیے کوئی مرد دستیاب نہیں ہوتا۔

    گانا جاری ہوتے ہی ٹوئٹر پر ’سعودی خواتین کا سرپرستی کے نظام کے خاتمے کا مطالبہ‘ کا ہیش ٹیگ مقبول ہوگیا۔

    خواتین نے ایک اور ہیش ٹیگ ’میں اپنی سرپرست خود ہوں‘ استعمال کرتے ہوئے اپنے دل کی بھڑاس نکالی اور خواتین کے حقوق کی خلاف ورزی کرنے والے قوانین کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔

    یاد رہے کہ چند روز قبل سعودی شہزادے ولید بن طلال نے بھی مطالبہ کیا تھا کہ سعودی عرب میں خواتین کی ڈرائیونگ پر عائد پابندی کو فوری طور پر ختم کیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ خواتین کو ڈرائیونگ سے محروم کرنا ایسا ہی ہے جیسے انہیں ان کے بنیادی حق سے محروم کردیا جائے۔