Tag: سعودی صحافی

  • جمال خاشقجی کے قاتلوں نے کس ملک میں تربیت حاصل کی؟ امریکی اخبار کا دعویٰ

    جمال خاشقجی کے قاتلوں نے کس ملک میں تربیت حاصل کی؟ امریکی اخبار کا دعویٰ

    واشنگٹن: امریکی اخبار نے دعویٰ کیا ہے کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قاتلوں نے امریکا میں پیرا ملٹری ٹریننگ حاصل کی۔

    تفصیلات کے مطابق نیویارک ٹائمز نے ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قاتلوں نے امریکا میں پیرا ملٹری ٹریننگ حاصل کی تھی، یہ تربیت ٹیئر وَن گروپ نے دی، دفاعی نوعیت کی یہ تربیت سعودی رہنماؤں کی حفاظت کے لیے تھی۔

    جمال خاشقجی کے قتل میں ملوث 4 سعودی شہریوں نے امریکی محکمہ خارجہ سے منظور شدہ معاہدے کے تحت قتل سے ایک سال قبل پیرا ملٹری ٹریننگ حاصل کی، قاتلوں کو سعودی رائل گارڈز کی تربیت کا لائسنس پہلی مرتبہ 2014 میں جاری کیا گیا تھا۔

    تاہم اخبار کا کہنا ہے کہ کیا امریکی حکام اس آپریشن سے آگاہ تھے؟ اس سلسلے میں کوئی ثبوت نہیں ملا ہے۔

    اس رپورٹ پر امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے کہا کہ میڈیا رپورٹنگ میں کسی دفاعی برآمدی لائسنسنگ سرگرمی پر الزام پر قانون کے تحت محکمہ کوئی تبصرہ نہیں کر سکتا۔

    نیڈ پرائس نے واضح کیا ہے کہ سعودی عرب کے بارے میں امریکی پالیسی یہ ہے کہ قانون کی حکمرانی کو ترجیح اور انسانی حقوق کا احترام ہو، تاہم انھوں نے بتایا کہ مذکورہ تربیت سابق امریکی صدر بارک اوباما کے دور میں شروع ہوئی اور ٹرمپ کے دور کے پہلے سال تک جاری رہی تھی۔

    واضح رہے کہ جمال احمد خاشقجی سعودی عرب کے شہری اور صحافی تھے، وہ واشنگٹن پوسٹ کے لیے کالم لکھتے تھے، العرب نیوز چینل کے ایڈیٹر ان چیف بھی تھے، وہ مدینہ میں 1958 میں 13 اکتوبر کو پیدا ہوئے اور ترکی کے شہر استنبول کے سفارت خانے میں انھیں 2 اکتوبر 2018 کو قتل کیا گیا۔

  • جمال خاشقجی کے قاتلوں کو ہر کوئی جانتا ہے، ترک صدر کےساتھی کا بیان

    جمال خاشقجی کے قاتلوں کو ہر کوئی جانتا ہے، ترک صدر کےساتھی کا بیان

    انقرہ: سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قاتلوں سے متعلق ترک عہدے دار کا اہم بیان سامنے آ گیا ہے، ترک صدر کے اطلاعاتی امور کے ڈائریکٹر کا کہنا تھا کہ جمال خاشقجی کے قاتلوں کو ہر کوئی جانتا ہے۔

    ترک میڈیا کے مطابق رجب طیب اردوان کے اطلاعاتی امور کے ڈائریکٹر فاحریتین آلتون نے اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ کے ذریعے کہا ہے کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قاتلوں کو ہر کوئی جانتا ہے۔

    انھوں نے کہا واشنگٹن پوسٹ کے رائٹر جمال خاشقجی کو 2 سال قبل سعودی عرب کے استنبول قونصل خانے میں گھات لگا کر قتل کیا گیا تھا، قاتل دستے میں فرانزک ماہر اور اسسٹنٹ شامل تھے، قاتل ٹیم کے ہاتھوں میں آرا مشین بھی تھی۔

    فاحریتین آلتون نے یہ بھی کہا کہ جمال خاشقجی کے قاتلوں کو عدلیہ جانے سے روکنے کے لیے اغوا کر لیا گیا تھا، اصل قاتلوں کو بچانے کے لیے عدلیہ کو غلط کیس پیش کیا گیا اور اصلی قاتلوں کو بچا لیا گیا۔

    انھوں نے کہا خاشقجی کے قاتلوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے ترکی کی پولیس، استغاثہ اور مواصلات کے ماہر دن رات کام کر رہے ہیں تاکہ تمام قاتلوں کو عدلیہ کے روبرو پیش کیا جا سکے، ہم عدلیہ اور انصاف کی فراہمی کے لیے خدمات انجام دے رہے ہیں۔

    اطلاعاتی امور کے ڈائریکٹر کا کہنا تھا کہ ہم سب جمال خاشقجی کے قاتلوں کے بارے میں آگاہی رکھتے ہیں اور ان سے احتساب کرنے اور انھیں ترکی کے حوالے کرنے کے مطالبے سمیت سعودی قاتلوں کو بین الاقوامی مبصرین کی موجودگی میں عوام کی کھلی عدالت میں پیش ہونے کا مطالبہ کرتے ہیں۔

  • امریکا سے سعودی صحافی خاشقجی کے قتل سے متعلق رپورٹ پر عمل کرنے کا مطالبہ

    امریکا سے سعودی صحافی خاشقجی کے قتل سے متعلق رپورٹ پر عمل کرنے کا مطالبہ

    نیویاک: اقوام متحدہ کی جانب سے سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل پرمتعین نمائندہ تفتیش کار ایگنیس کیلمارڈ نے امریکا سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ خاشقجی کے قتل پر مرتب کی گئی رپورٹ کی سفارشات پر عمل کرے۔

    تفصیلات کے مطابق انسانی حقوق کی ماہر ایگنیس کیلمارڈ نے لندن میں جمال خاشقجی کی منگیتر کے ہمراہ ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ خاموش رہنا کوئی آپشن نہیں ہے۔

    انہوں نے کہا کہ اس قتل پر بات کرنے کی ضرورت ہے اور یہ بھی کافی نہیں ہے، ہمیں عمل کرنا ہوگا۔ اپنی تفتیشی رپورٹ میں ایگنیس کیلمارڈ نے گذشتہ برس اکتوبر میں ترکی کے شہر استنبول میں سعودی سفارت خانے میں جمال خاشقجی کے قتل کو ماورائے عدالت قتل قرار دیا تھا۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ امریکا کو اس معاملے میں ایف بی آئی یا عدالتی تحقیقات کروانی چاہیں۔ ایگنیس کیلمارڈ نے امریکا پر زور دیا کہ وہ اس قتل پر ہونے والی تحقیقات کو عام کرے۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ واشنگٹن قتل کی تفتیش میں تعاون کرنے والوں کی لسٹ میں سرِفہرست نہیں ہے۔ واضح رہے کہ جون میں شائع ہونے والی ایگنیس کیلمارڈ کی 101 صفحات کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ اس بات کے ٹھوس شواہد موجود ہیں کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور دیگر اعلی عہدیدار اپنی انفرادی حیثیت میں جمال خاشقجی کی ہلاکت کے ذمہ دار ہیں۔

    سعودی انٹیلیجینس اہلکاروں نے صحافی خاشقجی کو استنبول میں سعودی سفارت خانے کے اندر قتل کیا تھا تاہم حکام کا اصرار ہے کہ اہلکاروں نے یہ سب محمد بن سلمان کے احکامات پر نہیں کیا۔ ایگنیس کیلمارڈ اقوام متحدہ کی نمائندہ نہیں ہیں تاہم وہ اپنی تحقیقات کے نتائج اقوام متحدہ کو رپورٹ کرتی ہیں۔

  • جمال خاشقجی کی لاش، تندور میں جلا کر راکھ کی گئی

    جمال خاشقجی کی لاش، تندور میں جلا کر راکھ کی گئی

    انقرہ : تفیتشی حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کو قتل کرنے کے بعد سعودی کونسل جنرل کی رہائش گاہ پر تندوری اوون میں ڈال کر جلا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق ترکی کے دارالحکومت استنبول میں واقع سعودی سفارت خانے میں معروف صحافی جمال خاشقجی کو قتل کرکے لاش کے ٹکڑے کردئیے گئے تھے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے نے جمال خاشقجی سے متعلق اپنی تحقیقات رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ مقتول صحافی کی لاش کے ٹکڑے تندوری اوون میں ڈال کر نذر آتش کردیے گئے تھے۔

    الجزیرہ کی تحقیقات ڈاکیومنٹری میں بتایا گیا ہے کہ جمال خاشقجی کے مقتل (سعودی قونصلیٹ) سے 100 گز کے فاصلے پر واقعے سعودی قونصل جنرل کے گھر میں 1 ہزار ڈگری سینٹی گریٹ سے زائد درجہ حرارت کے حامل تندور کو ایک ہفتہ قبل خصوصی طور پر بنایا گیا تھا۔

    غیر ملکی میڈیا کا دعویٰ ہے کہ اوون کے اندر خاشقجی کے جسم کا بیشتر حصّہ جل کر خاکستر ہوگیا تھا، ترک حکام کے مطابق صحافی کی لاش کو تلف کرنے کےلیے تین دن لگے تھے۔

    ترک حکام کو یقین ہے کہ سعودی خفیہ ایجنسی کے اہلکاروں نے صحافی کو قتل کرنے کے اس کی لاش کے ٹکڑے کردئیے تھے اور ان ٹکڑوں کو بھی نذر آتش کردیا تھا تاکہ قتل کا کوئی ثبوت باقی نہ رہے۔

    تندوری اوون تیار کرنے والے ملازم نے بتایا کہ سعودی قونصل کی جانب سے خصوصی ہدایت تھی اوون کو گہرا اور ایسا بنانا جو لوہے کو بھی پگلا دے۔

    مزید پڑھیں : جمال خاشقجی کے قتل میں حکومت ملوث نہیں‘ سعودی وزیرخارجہ

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق سعودی وزیر برائے خارجہ امورعادل الجبیر کا کہنا تھا کہ جمال خاشقجی کے قتل کا ولی عہد نے حکم دیا، نہ ہی حکومت جمال خاشقجی کے قتل میں ملوث ہے، جمال خاشقجی کے قتل کے الزام میں گیارہ افراد پر فرد جرم عائد کی جاچکی ہے۔

    خیال رہے کہ واشنگٹن پوسٹ کے لیے خدمات انجام دینے والے سعودی صحافی جمال خاشقجی گزشتہ سال 2 اکتوبر کو استنبول میں سعودی سفارت خانے میں اپنی منگیتر کے کاغذات لینے کے لیے گئے تھے، جہاں انھیں قتل کر دیا گیا۔

    بیس اکتوبر کو سعودی عرب نے با ضابطہ طور پر یہ اعتراف کیا تھا کہ صحافی جمال خاشقجی کو استنبول میں قائم سفارت خانے کے اندر جھگڑے کے دوران قتل کیا گیا۔

    واضح رہے کہ جمال خاشقجی سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی پالیسیوں باالخصوص وژن 2030 کے شدید ناقد تھے اور سعودی عرب میں سعودی شاہی خاندان کے خلاف قلم کی طاقت دکھانے والے صحافیوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع ہوتے ہی امریکا جلاوطن ہوگئے تھے۔

  • جمال خاشقجی قتل کیس، تحقیقاتی رپورٹ جون میں جاری ہوگی، تحقیقاتی ٹیم اقوام متحدہ

    جمال خاشقجی قتل کیس، تحقیقاتی رپورٹ جون میں جاری ہوگی، تحقیقاتی ٹیم اقوام متحدہ

    استنبول: سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کی تحقیقات کرنے والی ٹیم کا کہنا ہے کہ قتل کی تحقیقاتی رپورٹ جون میں عوام کے لیے جاری کردی جائے گی۔

    غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق ترکی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی ٹیم کا کہنا تھا کہ سعودی حکومت سے استنبول میں سعودی قونصل خانے تک رسائی اور وہاں موجود حکام سے بات چیت کی اجازت مانگی ہے، سعودی عرب میں بھی حکام سے ملنا چاہتے ہیں۔

    واضح رہے کہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے نے سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل سے متعلق سعودی عرب کے ٹرائل کو ناکافی قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس طرح کے ٹرائل سے شفافیت کا جائزہ نہیں لیا جاسکتا ہے۔

    مزید پڑھیں: جمال خاشقجی سے متعلق سعودی ٹرائل اقوام متحدہ نے ناکافی قرار دے دیا

    اقوام متحدہ کے ادارہ انسانی حقوق کی ترجمان روینا شام داسانی نے بین الاقوامی اداروں کو ملوث کرکے معاملے کی آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔

    یاد رہے کہ اقوام متحدہ کی تین رکنی ٹیم سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کی تحقیقات کررہی ہے۔

    خیال رہے کہ واشنگٹن پوسٹ کے لیے خدمات انجام دینے والے سعودی صحافی جمال خاشقجی گزشتہ سال 2 اکتوبر کو استنبول میں سعودی سفارت خانے میں اپنی منگیتر کے کاغذات لینے کے لیے گئے تھے، جہاں انھیں قتل کر دیا گیا۔

    بیس اکتوبر کو سعودی عرب نے با ضابطہ طور پر یہ اعتراف کیا تھا کہ صحافی جمال خاشقجی کو استنبول میں قائم سفارت خانے کے اندر جھگڑے کے دوران قتل کیا گیا۔

  • سعودی صحافی کے قتل کیس کی سعودی عرب میں پہلی سماعت

    سعودی صحافی کے قتل کیس کی سعودی عرب میں پہلی سماعت

    ریاض: سعودی عرب میں مقتول صحافی جمال خاشقجی کیس کی سماعت کا آغاز ہو گیا ہے، اس سلسلے میں سعودی عدالت میں آج پہلی سماعت ہوئی۔

    تفصیلات کے مطابق سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کیس کی سعودی عرب میں پہلی سماعت ہوئی، سعودی عدالت میں قتل کے الزام میں ملوث 11 افراد پیش ہوئے۔

    [bs-quote quote=”انتظار کر رہے ہیں کہ ترکی ثبوت فراہم کرے۔” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″ author_name=”سعودی اٹارنی جنرل”][/bs-quote]

    کیس کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ترکی سے ابھی تک قتل کے ثبوت نہیں فراہم کیے گئے۔

    اٹارنی جنرل نے عدالت سے کہا کہ وہ انتظار کر رہے ہیں کہ ترکی ثبوت فراہم کرے، جس نے انصاف کا مطالبہ کیا ہے۔

    یاد رہے کہ واشنگٹن پوسٹ کے لیے خدمات انجام دینے والے سعودی صحافی جمال خاشقجی 2 اکتوبر کو استنبول میں سعودی سفارت خانے میں اپنی منگیتر کے کاغذات لینے کے لیے گئے تھے، جہاں انھیں قتل کر دیا گیا۔

    20 اکتوبر کو سعودی عرب نے با ضابطہ طور پر یہ اعتراف کیا تھا کہ صحافی جمال خاشقجی کو استنبول میں قائم سفارت خانے کے اندر جھگڑے کے دوران قتل کیا گیا۔


    یہ بھی پڑھیں:  جمال خاشقجی کو قتل کرکے کس طرح لے جایا گیا؟ ویڈیو سامنے آگئی


    واضح رہے کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے سخت ناقد تھے اور اپنے کالمز میں ان پر یمن جنگ کے حوالے سے سخت تنقید کرتے تھے، خاشقجی کو سعودی ولی عہد کے کہنے پر بھی قتل کرنے کا الزام ہے۔

    تین دن قبل ایک ترکی کے ٹی وی پر ایک اہم ویڈیو منظرِ عام پر آئی، جس میں دیکھا گیا کہ پانچ بیگز تھامے تین افراد سعودی سفارت خانے سے نکلے، ان بیگوں میں جمال خاشقجی کی لاش کے ٹکڑے تھے جس کو سعودی سفارت خانے سے ایک منی بس کے ذریعے رہائش گاہ کے گیراج تک لایا گیا۔

    ترکش ٹی وی کے مطابق بیگز میں موجود لاش کے ٹکڑوں کو تیزاب سے جلا دیا گیا تا کہ کوئی سراغ نہ مل سکے۔

  • جمال خاشقجی کو قتل کرکے کس طرح لے جایا گیا؟ ویڈیو سامنے آگئی

    جمال خاشقجی کو قتل کرکے کس طرح لے جایا گیا؟ ویڈیو سامنے آگئی

    استنبول: سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کی تحقیقات میں اہم پیش رفت ہوئی ہے، ترکش ٹی وی نے پانچ بیگز تھامے تین افراد کی سی سی ٹی وی فوٹیج جاری کردی۔

    تفصیلات کے مطابق ترکی کے مقامی ٹی وی نے جمال خاشقجی کے قتل کی سی سی ٹی وی فوٹیج جاری کی ہے جس میں دکھایا گیا ہے کہ سعودی سفارت خانے سے نکلنے والے تین افراد نے پانچ بیگز تھام رکھے ہیں۔

    رپورٹ کے مطابق پانچ بیگز میں جمال خاشقجی کی لاش کے ٹکڑے تھے جس کو سعودی سفارت خانے سے ایک منی بس کے ذریعے رہائش گاہ کے گیراج تک لایا گیا۔

    ترکش ٹی وی کے مطابق بیگز میں موجود لاش کے ٹکڑوں کو تیزاب سے جلادیا گیا تاکہ لاش کا سراغ نہ مل سکے، ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ پانچ بیگز میں سے تین چھوٹے ہیں جبکہ دو بیگ بڑے ہیں۔

    مزید پڑھیں: سعودی صحافی جمال خاشقجی سال 2018 کی اہم ترین شخصیت قرار

    واضح رہے کہ سعودی حکومت نے ترکی کے مطالبے پر قتل کے شبے میں ملوث دیگر افراد کے خلاف تحقیقات سے انکار کردیا ہے جبکہ ترکی کا کہنا ہے کہ وہ معاملہ اقوام متحدہ میں لے کر جائیں گے۔

    ترکی اور امریکی سینیٹرز کی جانب سے یہ الزام بھی سامنے آیا تھا کہ جمال خاشقجی کا قتل سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے حکم پر کیا گیا۔

    خیال رہے کہ 2 اکتوبر میں سعودی صحافی جمال خاشقجی استنبول میں سعودی سفارت خانے گئے تھے جہاں انہیں قتل کردیا گیا تھا۔

    بیس اکتوبر کو سعودی عرب نے باضابطہ طور پر یہ اعتراف کیا تھا کہ صحافی جمال خاشقجی کو استنبول میں قائم سفارت خانے کے اندر جھگڑے کے دوران قتل کیا گیا۔

  • خاشقجی قتل کیس: سعودی شہریوں نے ترک مصنوعات کی بائیکاٹ‌ مہم شروع کردی

    خاشقجی قتل کیس: سعودی شہریوں نے ترک مصنوعات کی بائیکاٹ‌ مہم شروع کردی

    ریاض : سعودی عرب پر خاشقجی قتل میں ملوث ہونے کا الزام عائد کرنے پر سعودی شہریوں نے ترک مصنوعات کی بائیکاٹ مہم شروع کردی۔

    تفصیلات کے مطابق ترکی میں واقع سعودی سفارت خانے میں قتل ہونے والے جمال خاشقجی کے قتل کا الزام سعودی عرب پر لگانے کی پاداش میں سعودی شہریوں کی جانب سے ترکی کو بائیکاٹ مہم کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔

    سوشل میڈیا استعمال کرنے والے سعودی صارفین نے ترک مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم چلا رکھی ہے جس کا مقصد خاشقجی قتل کیس میں سعودیہ کے خلاف اٹھائے گئے ترک اقدامات کی مذمت کرنا ہے۔

    سوشل میڈیا پر بائیکاٹ مہم چلانے والے سعودی شہریوں کا ہدف صدر ایردوان ہیں جن کی سعودیہ مخالف پالیسیوں سے سعودی شہری نالا ہیں۔

    بائیکاٹ مہم کے منتظمین ’ہیش ٹیگ سعودی عوام ترک مصنوعات کو مسترد کرتے ہیں‘ کے عنوان سے چلارہے ہیں۔

    عرب میڈیا کے مطابق بائیکاٹ مہم چلانے والے سعودی شہریوں کا خیال ہے کہ ترکی معیشت کو سہارا دینے کےلیے سعودی عرب کے شہری کیوں مدد کریں جبکہ ترکی ہمارے خلاف منفی اقدامات کررہا ہے۔

    صارفین کا کہنا تھا کہ ترکی سعودی عرب کے داخلی معاملات میں مداخلت کررہا ہے کہ جو اسے نہیں کرنی چاہیے۔

    ایک اور شہری نے ٹویٹ کیا کہ انقرہ حالیہ دنوں سعودی عرب کے خلاف سازش میں مصروف ہے لہذا ہمیں اس کی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنا چاہیے۔

    عرب میڈیا کا کہنا ہے کہ ایک سوشل میڈیا صارف نے اپنے ٹویٹ میں ان ترک مصنوعات کی تصاویر شیئر کی جن کا استعمال سعودی عرب میں کیا جارہا ہے اور ان کے بائیکاٹ پر زور دیا۔

    ایک اور صارف نے کہا کہ اگر 2 کروڑ سعودی شہری ترک مصنوعات بائیکاٹ کرتے ہیں تو ’یہ ترک صدر کے منہ پر طمانچہ ہوگا‘۔

  • ’مجھے کاٹنا آتا ہے‘

    ’مجھے کاٹنا آتا ہے‘

    انقرہ: ترک صدر رجب طیب اردوان نے دعویٰ کیا ہے کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل میں ایک فوجی اہلکار ملوث تھا جس نے واردات سے قبل کہا مجھے کاٹنا آتا ہے۔

    ترک صدر کے مطابق انہوں نے جمال خاشقجی کے قتل کی آڈیو ریکارڈنگ سنی جس میں ایک شخص صاف بولتا سنائی دے رہا ہے کہ ’مجھے کاٹنا آتا ہے‘۔

    رجب طیب اردوان کا کہنا تھا کہ ہم نے یہ معلومات امریکا اور یوپی حکام کے ساتھ شیئر کی ہیں تاکہ عالمی سطح پر صحافی کے قتل کی تحقیقات ہوسکیں اور ذمہ داران کو سامنے لایا جائے۔

    سعودی قیادت پر تنقید کرتے ہوئے ترک صدر کا کہنا تھا کہ ’ہم نے امریکا، فرانس اور کینیڈا سمیت دیگر ممالک کے حکام کو یہ آڈیو ریکارڈنگ فراہم کی، جس میں قاتل اپنے آپ کو سعودی فوج کا اہلکار اہلکار بھی بتا رہا ہے‘۔

    مزید پڑھیں: سعودی صحافی کے قتل کی آڈیو حاصل کرلی،ترک حکام کا دعوی

    قبل ازیں سعودی صحافی کی آڈیو ریکارڈنگ سامنے آئی تھی جس کے بعد امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے نے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے فراہم کردہ ریکارڈنگ سُن لی۔

    سی آئی اے کے مطابق جمال خاشقجی نے آخری لمحات میں اپنے قاتلوں سے متعدد بار استدعا کی کہ مجھے چھوڑ دو اب میرا سانس نہیں آرہا مگر اُن لوگوں نے نہیں چھوڑا۔

    امریکی خفیہ ادارے نے آڈیو کی مکمل ٹرانسکرپٹ پڑھ لی ہے جس کے حوالے سے ترک حکومت سے بھی بات چیت جاری ہے۔

    اس سے قبل سی آئی اے کی طرف سے یہ بھی دعویٰ سامنے آچکا ہے کہ اسکواڈ میں شامل سعودی ولی عہد کے مشیر نے جمال خاشقجی کو قتل کرنے کے بعد محمد بن سلمان کو میسج کیا۔

    یہ بھی پڑھیں: جمال خاشقجی قتل کے وقت سعودی ولی عہد نے پیغامات بھیجے، سی آئی اے کا دعویٰ

    ابتداء میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی جارہی تھی کہ جمال خاشقجی کے قتل میں سعودی ولی عہد ملوث ہیں مگر اس بات کو سعودی حکومت اور امریکی صدر نے خود بھی مسترد کیا۔

    ترک حکومت کی جانب سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ قتل کی تحقیقات ترکی میں ہی کروائی جائیں البتہ سعودی حکام نے اس مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے تحقیقات اپنے ہی ملک میں کرانے کا اعلان کیا۔

    دوسری جانب سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر محمد بن سلمان پر عائد ہونے والے الزام کی سختی سے تردید کرچکے اور انہوں نے اعلان کیا تھا کہ اس جرم میں ملوث افراد کو پھانسی کی سزا دی جائے گی۔

    واضح رہے کہ امریکی صدر ٹرمپ نے گزشتہ دنوں جی ٹوئنٹی اجلاس میں شرکت کی تھی جس میں انہوں نے جمال خاشقجی سے متعلق گفتگو پر گریز کیا جبکہ فرانس کی جانب سے اسی اجلاس میں عالمی تحقیقات کا مطالبہ بھی سامنے آیا تھا۔

    اسے بھی پڑھیں: جمال خاشقجی کی آڈیو ٹیپ نہیں سنی اور نہ ہی سننا چاہتا ہوں، جان بولٹن

    امریکی جریدے کے مطابق سی آئی اے نے اب تک کی جانے والی تحقیق کی بنیاد پر یہ دعویٰ کیا کہ ’قتل میں ملوث 15 رکنی اسکواڈ کی سربراہی سعود القحطانی کررہے تھے ‘۔

    سی آئی اے نے الزام عائد کیا تھا کہ سعودی ولی عہد نے اگست 2017 میں سعود القحطانی سے گفتگو کے دوران کسی شخص کو سعودی عرب واپس لانے سے متعلق بات کی تھی، ممکنہ طور پر وہ اشارہ جمال خاشقجی کی طرف ہی تھا۔

    یاد رہے کہ امریکی اخبار سے وابستہ سعودی صحافی کو 2 اکتوبر 2018 کو اُس وقت قتل کیا گیا تھا جب وہ اپنی منگیتر کے ہمراہ استنبول میں قائم سعودی قونصلیٹ ایک کام سے گئے تھے۔ صحافی نے اپنی منگیتر کو باہر ہی انتظار کرنے کی ہدایت کی تھی۔

    جمال خاشقجی کی منگیتر بھی قتل کا الزام سعودی عرب پر عائد کرچکی جبکہ انہوں نے یہ بھی مؤقف اختیار کیا کہ وہ ٹرمپ کی دعوت پر امریکا اس لیے نہیں گئیں کیونکہ امریکی صدر اپنی سیاسی پذیرائی کے لیے اُن کے شوہر کا نام استعمال کرتے اور پھر الیکشن میں کامیابی حاصل کرتے۔

  • سعودی صحافی جمال خاشقجی سال 2018 کی اہم ترین شخصیت قرار

    سعودی صحافی جمال خاشقجی سال 2018 کی اہم ترین شخصیت قرار

    نیویارک: استنبول میں قتل کیے جانے والے سعودی صحافی جمال خاشقجی کو سال 2018 کی اہم ترین شخصیت قرار دے دیا گیا۔

    غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق نیویارک کے ٹائم میگزین نے استنبول میں 2 اکتوبر کو قتل کیے جانے والے سعودی صحافی جمال خاشقجی کو سال 2018 کی اہم ترین شخصیت قرار دے دیا ہے۔

    ٹائم میگزین میں جاری کردہ فہرست میں جمال خاشقجی کے ساتھ امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ، روسی صدر ولادی میر پیوٹن اور برطانوی شہزادی میگھن مرکل کو بھی شامل کیا گیا ہے۔

    واضح رہے کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے سخت ناقد تھے اور اپنے کالمز میں ان پر یمن جنگ کے حوالے سے سخت تنقید کرتے تھے، خاشقجی کو سعودی ولی عہد کے کہنے پر بھی قتل کرنے کا الزام ہے۔

    واشنگٹن پوسٹ کے لیے خدمات انجام دینے والے سعودی صحافی خاشقجی استنبول میں سعودی سفارت خانے میں اپنی منگیتر کے کاغذات لینے کے لیے گئے تھے اس موقع پر ان کی منگیتر باہر موجود تھیں۔

    یاد رہے کہ چند روز قبل امریکی میڈیا نے دعویٰ کیا تھا کہ خاشقجی کا قتل سعودی ولی عہد کے ایما پر کیا گیا تھا جبکہ خاشقجی کے مرنے سے قبل آخری الفاظ یہ تھے کہ ’میرا دم گھٹ رہا ہے‘۔

    خیال رہے کہ 2 اکتوبر میں سعودی صحافی جمال خاشقجی استنبول میں سعودی سفارت خانے گئے تھے جہاں انہیں قتل کردیا گیا تھا۔

    بیس اکتوبر کو سعودی عرب نے باضابطہ طور پر یہ اعتراف کیا تھا کہ صحافی جمال خاشقجی کو استنبول میں قائم سفارت خانے کے اندر جھگڑے کے دوران قتل کیا گیا۔