Tag: سعودی صحافی

  • جمال خاشقجی کے قتل پر مزید شواہد درکار ہیں، امریکی وزیر دفاع

    جمال خاشقجی کے قتل پر مزید شواہد درکار ہیں، امریکی وزیر دفاع

    واشنگٹن: امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس نے کہا ہے سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل پر کچھ کہنے سے پہلے مزید شواہد درکار ہیں۔

    غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یقین ہے کہ جمال خاشقجی کے قتل کی حقیقت جاننے کے لیے مزید شواہد حاصل کرلیں گے۔

    جیمز میٹس نے کہا کہ فی الحال علم نہیں کہ آگے کیا ہوگا اور کسے اس قتل کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا۔

    ادھر استنبول میں ترک عدالت نے سعودی ولی عہد کے سابق مشیر احمد العسیری اور سعود القحطائی کے وارنٹ جاری کردئیے ہیں، عدالتی دستاویز میں ملزمان کو قتل کا منصوبہ ساز قرار دیا گیا ہے۔

    احمد العسیری انٹیلی جنس کے سربراہ جبکہ سعود القحطائی ولی عہد کے اہم مشیر تھے، سعودی عرب کی جانب سے اپنے سفارت خانے میں قتل کے اعتراف کے بعد دونوں کو برطر کردیا گیا تھا۔

    مزید پڑھیں: سعودی صحافی کے قتل میں محمد بن سلمان کا ہی کردار تھا، امریکی سینیٹرز

    دوسری جانب امریکی میڈیا نے دعویٰ کیا تھا کہ سی آئی اے کے پاس اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ سعودی ولی عہد سعود القحطائی کے ساتھ رابطے میں تھے، سعود القحطائی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کی نگرانی میں جمال خاشقجی کا قتل ہوا۔

    خیال رہے کہ 2 اکتوبر میں سعودی صحافی جمال خاشقجی استنبول میں سعودی سفارت خانے گئے تھے جہاں انہیں قتل کردیا گیا تھا۔

    بیس اکتوبر کو سعودی عرب نے باضابطہ طور پر یہ اعتراف کیا تھا کہ صحافی جمال خاشقجی کو استنبول میں قائم سفارت خانے کے اندر جھگڑے کے دوران قتل کیا گیا۔

  • خاشقجی قتل، امریکا نے 17 سعودی حکام پر پابندی لگا دی، اثاثے بھی منجمد

    خاشقجی قتل، امریکا نے 17 سعودی حکام پر پابندی لگا دی، اثاثے بھی منجمد

    واشنگٹن: امریکا نے جمال خاشقجی کے قتل میں ملوث 17 سعودی حکام پر پابندی عائد کرتے ہوئے اُن کے اثاثے منجمد کردیے۔

    فرانسیسی خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق امریکی حکومت نے ترکی کی جانب سے فراہم کی جانے والی خاشقجی قتل سے قبل ٹیپ کی جانے والی آڈیو ریکارڈنگ کو سننے کے بعد سعودی حکام کے امریکا داخلے پر پابندی عائد کی۔

    رپورٹ کے مطابق سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے قریبی ساتھی پر بھی پابندی عائد کی گئی جبکہ تمام افراد کے اثاثے بھی منجمد کردیے گئے۔

    قبل ازیں سعودی عرب کے پراسیکیوٹر جنرل نے ترک حکومت کی جانب سے قتل کی عالمی تحقیقات کے مطالبہ کو مسترد کرتے ہوئے اعلان کیا کہ سعودی صحافی کے قتل میں ملوث پانچ افراد کو سزائے موت کی استدعا کی جائے گی۔

    مزید پڑھیں: سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کی مبینہ ریکارڈنگ سے متعلق نیویارک ٹائمز کا انکشاف

    سعودی پبلک پراسیکیوٹر نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمیں ترک حکام کی جانب سے آڈیو ریکارڈنگ یا کوئی شواہد فراہم نہیں کیے گئے، جیسے ہی ثبوت ملیں گے تو اُس کی روشنی میں ملوث افراد کے خلاف سزائے موت کی سفارش کریں گے‘۔

    اُن کا کہنا تھا کہ ’جمال خاشقجی کو واردات سے قبل منشیات دی گئی اور یہی اُن کی موت کی وجہ بنی، اندوہناک قتل میں ملوث افراد پر فرم جرم عائد کردی گئی اور ٹرائل کے بعد انہیں سزا دی جائے گی جبکہ اس میں ولی عہد محمد بن سلمان کا کوئی کردار نہیں ہے‘۔

    واضح رہے کہ گزشتہ روز ترک صدر رجیب طیب اردوان کا کہنا تھا کہ جمال خاشقجی کے قتل کا حکم سعودی عرب کی اعلیٰ ترین سطح سے آیا تھا، سعودی ولی عہد کے اقدامات کا تحمل سے انتظار کررہے ہیں۔

    یہ بھی پڑھیں: امریکا جمال خاشقجی کے قتل میں ملوث تمام افراد کا احتساب چاہتا ہے، مائیک پومپیو

    یاد رہے کہ 2 اکتوبر میں سعودی صحافی جمال خاشقجی استنبول میں سعودی سفارت خانے گئے تھے جہاں انہیں قتل کردیا گیا تھا۔

    بیس اکتوبر کو سعودی عرب نے باضابطہ طور پر یہ اعتراف کیا تھا کہ صحافی جمال خاشقجی کو استنبول میں قائم سفارت خانے کے اندر جھگڑے کے دوران قتل کیا گیا۔

  • کینیڈا نے جمال خاشقجی کے قتل کی ریکارڈنگ سننے کی تصدیق کردی

    کینیڈا نے جمال خاشقجی کے قتل کی ریکارڈنگ سننے کی تصدیق کردی

    ٹورنٹو: کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے کہا کہ کینیڈین انٹیلی جنس نے سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کی ریکارڈنگ سنی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق کینیڈین وزیراعظم جسٹن ٹروڈو کا کہنا ہے کہ کینیڈا کی انٹیلی جنس نے صحافی جمال خاشقجی کے قتل سے متعلق آڈیو ریکارڈنگ سنی ہے۔

    جسٹن ٹروڈو نے کہا کہ ترکی نے صحافی جمال خاشقجی کے قتل سے متعلق کینیڈا کو مکمل معلومات فراہم کی ہیں۔

    کینیڈا کے وزیراعظم پہلے رہنما ہیں جنہوں نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ان کی انٹیلی جنس نے جمال خاشقجی کے قتل کی ریکارڈنگ سنی ہے۔

    جمال خاشقجی قتل کی آڈیو امریکا کو فراہم کردی، ترک صدر


    یاد رہے کہ تین روز قبل ترک صدر رجب طیب اردغان کا کہنا تھا کہ ترکی نے آڈیو ریکارڈنگ، سعودی عرب، امریکا ، برطانیہ، جرمنی، فرانس سمیت کئی ممالک کو فراہم کی ہیں۔

    ترک صدر کا کہنا تھا کہ اب وقت ہے کہ سعودی حکومت آگے بڑھتے ہوئے تفتیش میں خود ہی تعاون کرے اور اپنے اوپر لگنے والے داغ کو ہٹائے کیونکہ اُن کی خاموشی بہت سارے سوالات کو جنم دے رہی ہیں۔

    ترک صدر کا سعودی عرب سے جمال خاشقجی کی باقیات سامنے لانے کا مطالبہ


    واضح رہے کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی 2 اکتوبر کو استنبول میں سعودی قونصل خانے میں جانے کے بعد سے لاپتہ تھے، ترک حکام نے دعویٰ کیا تھا کہ خاشقجی کو سعودی قونصل خانے میں ہی قتل کرکے ان کی لاش کے ٹکڑے کردیے گئے۔

  • خاشقجی کو قتل کر کے لاش تیزاب میں تحلیل کردی گئی،  باقیات تک نہیں رہیں، ترک حکام

    خاشقجی کو قتل کر کے لاش تیزاب میں تحلیل کردی گئی، باقیات تک نہیں رہیں، ترک حکام

    استنبول : ترک تفتیش کاروں کے خاشقجی کی لاش سے متعلق سنسنی خیز انکشافات نے تہلکہ مچادیا، ترک حکام کا کہنا ہے کہ سعودی صحافی کو قتل کرکے لاش تیزاب میں تحلیل کردی گئی تھی اور لاش کی باقیات تک نہیں رہیں۔

    تفصیلات کے مطابق سعودی صحا فی خاشقجی کی لاش سے متعلق ترک حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ خاشقجی کوقتل کر کے لاش تیزاب میں تحلیل کردی گئی ، جس کے بعد لاش کی باقیات نہیں رہیں۔

    تفتیش کاروں نے بتایا تیزاب کے شواہد سعودی قونصل جنرل کے گھر سے اور اس سے متصل نالیوں سے ملے ہیں جبکہ ترک حکام نے کہاخاشقجی کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کردینی چاہئیے۔

    کیا خاشقجی کو قتل کرنے والے انسان تھے ؟سعودی صحافی کی منگیتر


    دوسری جانب سعودی صحافی کی منگیتر نے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ خاشقجی کےقاتل سفاک تھے اور لاش کو تیزاب میں ڈالنے کی خبر دردناک ہے، کیا خاشقجی کو قتل کرنے والے انسان تھے ؟

    یاد رہے 4 نومبر کو صباح نامی ترک اخبار کا دعویٰ کیا تھا کہ ’حکومتی حکام نے انکشاف کیا ہے کہ صحافی جمال خاشقجی کو استنبول کے سعودی قونصل خانے میں گلا گھونٹ کر قتل کیا گیا تھا اور بعد ازاں لاش کے ٹکڑے کر کے 5 بریف کیسوں میں رکھا گیا تھا۔ یہ بریف کیس سعودی حکام اپنے ہمراہ سعودی عرب سے لائے تھے۔

    قبل ازیں ترک صدر نے واشنگٹن پوسٹ میں اپنے کالم میں لکھا تھا کہ صحافی کے قتل کا حکم سعودی اعلیٰ قیادت نے دیا تھا، ترک صدر کے مشیر یاسین اکتے نے دعویٰ کیا تھا کہ سعودی صحافی خاشقجی کی لاش کے ٹکڑے کر کے تیزاب میں تحلیل کردیے گئے۔

    خیال رہے سعودی حکومت نے صحافی کے سعودی قونصل خانے میں قتل کی تصدیق کی ہے اور 18 سعودی شہریوں کو حراست میں لینے اور انٹیلی جنس کے 4 افسران کو معطل کرنے جیسے اقدامات بھی کیے ہیں لیکن ترکی اور دنیا بھر کی جانب سے بار بار مطالبے کے باوجود صحافی کی لاش سے متعلق تاحال کوئی معلومات فراہم نہیں کیں۔

    واضح رہے جمال خاشقجی کو دو اکتوبر کو سعودی عرب کے قونصل خانے کی عمارت کے اندر جاتے دیکھا گیا، جس کے بعد سے وہ لاپتہ ہیں، وہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان پر شدید تنقید کرتے رہے تھے اور یمن میں جنگ کے بعد ان کی تنقید مزید شدید ہوگئی تھی۔

  • سعودی عرب  والد کی لاش حوالے کرے، جمال خاشقجی کے بیٹوں کا مطالبہ

    سعودی عرب والد کی لاش حوالے کرے، جمال خاشقجی کے بیٹوں کا مطالبہ

    نیویارک : سعودی صحافی جمال خاشقجی کے بیٹوں نے مطالبہ کیا ہے کہ سعودی عرب والد کی لاش حوالے کرے، والد کی تدفین مدینہ میں کرنا چاہتے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق سعودی صحافی جمال خاشقجی کے بیٹوں صالح اورعبداللہ خاشقجی نے امریکی میڈیا کوانٹرویو میں کہا سعودی عرب والدکی لاش حوالے کرے، والدکی تدفین مدینہ منورہ کے قبرستان جنت البقیع میں کرناچاہتےہیں۔

    صالح کا کہنا تھا کہ خاندان کے احساسات سے سعودی حکام کو آگاہ کردیا ہے، امید ہے یہ جلد ممکن ہوگا، کچھ لوگ والد کی موت کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کررہے ہیں، جس سے ہم متفق نہیں ہیں۔

    عبداللہ خاشقجی نے کہا کہ ان کے والد کے ساتھ جو کچھ ہوا، امید ہے کہ وہ تکلیف دہ نہیں ہوگا، اور ان کی پرسکون موت واقع ہوئی ہوگی۔

    صالح خاشقجی نے مزید کہا کہ یہ عام صورتحال نہیں اور نہ ہی والدکی موت عام نہیں ہے، ہم بہت الجھے ہوئے ہیں، مشکل حالات ہیں تاہم سعودی بادشاہ نے بھی انصاف کا یقین دلایا ہے، جس پر ہمیں یقین ہے۔

    گذشتہ روز ترک اخبار نے دعویٰ کیا تھا کہ ’حکومتی حکام نے انکشاف کیا ہے کہ صحافی جمال خاشقجی کو استنبول کے سعودی قونصل خانے میں گلا گھونٹ کر قتل کیا گیا تھا اور بعد ازاں لاش کے ٹکڑے کر کے 5 بریف کیسوں میں رکھا گیا تھا۔ یہ بریف کیس سعودی حکام اپنے ہمراہ سعودی عرب سے لائے تھے۔

    مزید پڑھیں : سعودی ولی عہد کے معاونِ خصوصی نے’جمال خاشقجی‘ کو قتل کیا، ترک اخبار کا دعویٰ

    اخبار کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ حکام نے مزید بتایا کہ یکم اکتوبر کی رات ریاض سے استنبول پہنچنے والے 15 سعودی حکام میں سے مہر مرتب، صلاح اور طہار الحربی نے صحافی کے قتل میں کلیدی کردار ادا کیا۔

    اس سے قبل سعودی صحافی جمال خاشقجی کی منگیتر نے سعودی عرب کو قتل ذمہ دار قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا تھا سعودی عرب بتائے کس کے کہنے پر جمال کو قتل کیا گیا۔

    خیال رہے 26 اکتوبر کو مقتول سعودی صحافی جمال خاشقجی کا بیٹا صلاح خاشقجی اپنے خاندان کے ہمراہ امریکا منتقل ہوگیا تھا۔

    واضح رہے کہ سعودی حکومت نے صحافی کے سعودی قونصل خانے میں قتل کی تصدیق کی ہے اور 18 سعودی شہریوں کو حراست میں لینے اور انٹیلی جنس کے 4 افسران کو معطل کرنے جیسے اقدامات بھی کیے ہیں لیکن ترکی اور دنیا بھر کی جانب سے بار بار مطالبے کے باوجود صحافی کی لاش سے متعلق تاحال کوئی معلومات فراہم نہیں کیں۔

  • سعودی صحافی خاشقجی مذہبی انتہا پسند تھا، محمد بن سلمان

    سعودی صحافی خاشقجی مذہبی انتہا پسند تھا، محمد بن سلمان

    ریاض : سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے امریکی صدر کے داماد اور قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن سے ٹیلی فونک رابطے میں کہا کہ جمال خاشقجی مذہبی شدت پسند تھا۔

    تفصیلات کے مطابق گذشتہ ماہ ترکی کے دارالحکومت استنبول میں واقع سعودی سفارت خانے میں قتل ہونے والے سعودی صحافی و کالم نویس جمال خاشقجی کے قتل کا اعتراف کرنے سے قبل محمد بن سلمان نے وائٹ ہاوس سےٹیلی فونک رابطہ کیا تھا۔

    برطانوی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ سعودی ولی عہد بن سلمان نے امریکی حکام سے ٹیلی فونک رابطے کے دوران کہا کہ واشنگٹن پوسٹ سے منسلک صحافی خاشقجی ایک خطرناک اسلامی شدت پسند تھا۔

    امریکی آخبار واشنگٹن پوسٹ کے مطابق صدر دونلڈ ٹڑمپ کے داماد اور مشیر برائے نیشنل سیکیورٹی جان بولٹن سے گفتگو کے دوران کہا تھا کہ جمال خاشقجی مذہبی شدت پسند اور اسلامی انتہا پسند تنظیم اخوان المسلمین کا ممبر تھا۔

    مقامی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ محمد بن سلمان کی جانب سے وائٹ ہاوس حکام کو کیا گیا فون صحافی کی گمشدگی کے ایک ہفتے بعد کیا تھا۔

    برطانوی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ سعودی ولی عہد نے جیرڈ کشنر اور جان بولٹن پر زور دیا کہ سعودیہ اور امریکا کے درمیان اتحاد قائم رہنا چاہیے۔

    دوسری جانب سے جمال خاشقجی کے اہل خانہ کی جانب سے سعودی صحافی کی اخوان المسلمون کی رکنیت کی تردید کی تھی جبکہ جمال خاشقجی خود کئی مرتبہ اخوان المسلمون کی رکنیت کے حوالے سے تردید کرچکے تھے۔

    یاد رہے کہ چند روز قبل ترک پراسیکیوٹر جنرل نے دعویٰ کیا ہے کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کو سعودی قونصل خانے میں گلا دبا کر قتل کردیا گیا تھا اور پھر ان کی لاش کو ٹھکانے لگادیا گیا۔

    خیال رہے کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی دو اکتوبر کو استنبول میں سعودی قونصل خانے میں جانے کے بعد سے لاپتہ تھے، ترک حکام نے دعویٰ کیا تھا کہ خاشقجی کو سعودی قونصل خانے میں ہی قتل کرکے ان کی لاش کے ٹکڑے کردئیے گئے ہیں۔

  • سعودی صحافی جمال خاشقجی کو گلا گھونٹ کر قتل کیا گیا، ترک پراسیکیوٹر جنرل

    سعودی صحافی جمال خاشقجی کو گلا گھونٹ کر قتل کیا گیا، ترک پراسیکیوٹر جنرل

    انقرہ: ترک پراسیکیوٹر جنرل نے دعویٰ کیا ہے کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کو سعودی قونصل خانے میں گلا دبا کر قتل کردیا گیا تھا اور پھر ان کی لاش کو ٹھکانے لگادیا گیا۔

    غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق استنبول کے چیف پراسیکیوٹر عرفان فدان کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ترکی کی جانب سے حقائق کو بے نقاب کرنے کی موثر کوششوں کے باوجود سعودی عرب کے چیف پراسیکیوٹر سے ملاقات کا کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا۔

    پراسیکیوٹر جنرل کا کہنا ہے کہ طریقہ واردات سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ ملزمان نے انہیں منصوبہ بندی کے تحت مارا ہے۔

    ترک پراسیکیوٹر کے مطابق سعودی فریق سے قتل میں ملوث ملزمان کی حوالگی کا مطالبہ کیا گیا ہے، استنبول کے دورے پر آئے ہوئے سعودی پراسیکیوٹر نے ترک پراسیکیوٹر جنرل کو دورہ سعودی عرب کی دعوت دی ہے۔

    واضح رہے کہ گزشتہ روز برطانوی میڈیا نے دعویٰ کیا تھا کہ ترکی میں قتل ہونے والے سعودی صحافی جمال خاشقجی یمن میں کیمیائی حملوں کی تفصیلات ظاہر کرنے والے تھے۔

    خیال رہے کہ جمال خاشقجی سعودی شاہی خاندان اور ولی عہد محمد بن سلمان کی پالیسیوں کے سخت ناقد تصور کیے جاتے تھے، 2 اکتوبر 2018 کو وہ استنبول میں موجود سعودی قونصل خانے میں گئے اور واپس نہ آئے۔

    سعودی صحافی اپنی طلاق کی دستاویزات کو حتمی شکل دینے کے لیے سعودی سفارت خانے گئے لیکن وہاں سے واپس نہیں آئے جس کے بعد خدشہ ظاہر کیا گیا کہ انہیں قونصل خانے میں ہی قتل کردیا گیا ہے۔

    سعودی عرب نے ابتدائی طور پر خبروں کی تردید کی لیکن عالمی دباؤ بڑھنے کے بعد قتل کا اعتراف کرتے ہوئے کہا گیا کہ صحافی جمال خاشقجی سفارت خانے کے اندر ہونے والے جھگڑے کے دوران مارے گئے۔

  • سعودی صحافی جمال خاشقجی کی منگیتر نے نیا پینڈورا باکس کھول دیا

    سعودی صحافی جمال خاشقجی کی منگیتر نے نیا پینڈورا باکس کھول دیا

     سعودی صحافی کی منگیتر نے  کہا ہے کہ جمال خاشقجی سعودی قونصل میں کسی صورت جانا نہیں چاہتے تھے، قتل کے بعد سعودی عرب نے کوئی رابطہ نہیں کیا۔

    تفصیلات کے مطابق ترک میڈیا کو جمعے کے روز انٹرویو دیتے ہوئے سعودی صحافی کی منگیتر ہیٹس کینگز نے کہا کہ خاشقجی کی قونصل خانے میں گمشدگی کے بعد سعودی عرب نے کوئی تعاون نہیں کیا۔

    اُن کا کہنا تھا کہ جمال خاشقجی جاری تنازع کی وجہ سے استنبول میں واقع سعودی قونصل خانے میں جانا نہیں چاہتے تھے اور انہیں اس پر شدید تحفظات بھی تھے۔

    جمال خاشقجی کی منگیتر کا کہنا تھا کہ ’میں اُن لوگوں کے بارے میں جاننا چاہتی ہوں اور انہیں تختہ دار پر دیکھنا چاہتی ہوں جنہوں نے میرے بہترین دوست جو میرے منگیتر بھی تھے ، ان کو بربریت سے قتل کیا’۔

    اُن کا کہنا تھا کہ ’قونصل خانے جاتے وقت خاشقجی نے مجھے باہر کھڑا رہنے کی ہدایت کرتے ہوئے اپنے دونوں موبائل دیے دیے تھے، وہ اندر ہماری شادی کے حوالے سے ضروری کاغذات لینے کے لیے گئے تھے‘۔

    جمال خاشقجی کی منگیتر شادی کرنے سے متعلق پوچھے گئے سوال پر رو پڑی تھیں۔

    38 سالہ کینگز استنبول میں پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کررہی ہیں۔ اُنہوں نے بتایا کہ ’مجھے امریکی صدر نے مجھے امریکا کے دورے پر مدعو کیا مگرمیں نے امریکا جانے سے صاف انکار کردیا‘۔

    کینگز کا کہنا تھا کہ ’میں سمجھتی تھی کہ ٹرمپ میرے ذریعے عوام سے ہمدردیاں لینا چاہتے ہیں، گمشدگی کے دوران امریکی سیکریٹری داخلہ مائیک پومپیو نے بذریعہ کال رابطہ بھی کیا مگر سعودی حکام نے قتل کی تصدیق کے بعد بھی کوئی رابطہ نہیں کیا‘۔

    یاد رہے کہ امریکی اخبار واشنگٹن ٹائمز کے لیے کام کرنے والے خاشقجی سعودی پالیسیوں پر شدید تنقید کرتے تھے، انہیں 2 اکتوبر کو استنبول میں واقع سعودی سفارت خانے میں قتل کیا گیا جس کا اعتراف سعودی حکام بھی کرچکے ہیں۔

    مزید پڑھیں: ترک صدر کا سعودی عرب سے جمال خاشقجی کی باقیات سامنے لانے کا مطالبہ

    59 سالہ سعودی صحافی نے امریکا میں 2017 سے سیاسی پناہ اختیار کی ہوئی تھی جب کے اُن کے بچے سعودی عرب میں ہی مقیم تھے جن سےچند روز قبل شاہ سلمان نے بھی ملاقات کی تھی۔

    قبل ازیں ترک حکومت کی جانب سے بنائی جانے والی تحقیقاتی ٹیم نے جمال خاشقجی کے قتل کے مزید شواہد حاصل کرنے کا دعویٰ کیا اور اعلان بھی کیا کہ وقت آنے پر مزید ثبوت فراہم کریں گے۔

    یاد رہے کہ جمعے کے روز سعودی عرب نے صحافی جمال خاشقجی کی قونصل خانے میں موت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ استنبول کے قونصل خانے میں اُن کا جھگڑا ہوا تھا جس کے بعد وہاں موجود افراد نے ان پر تشدد کیا اور پھر انہیں قتل کردیا۔

    یہ بھی پڑھیں: جمال خاشقجی قتل، سعودیہ کی وضاحتوں اور تحقیقات پر یقین ہے، پیوٹن

    سعودی سرکاری ٹی وی کا کہنا تھا کہ قونصل خانے میں جھگڑے کے دوران جمال خاشقجی کی موت واقع ہوئی، سعودی انٹیلی جنس کے نائب صدر جنرل احمد العسیری کو اس واقعے کے بعد برطرف کردیا گیا تھا۔

    سعودی حکومت نے عالمی دباؤ کے بعد شاہی عدالت کے مشیر سعودالقحطانی کو بھی برطرف کر دیا گیا جبکہ واقعے میں ملوث 18 سعودی شہریوں کو ترک حکومت نے گرفتار کر کے تفتیش شروع کردی۔

    قبل ازیں امریکی اخبار نے دعویٰ کیا تھا کہ صحافی کو استنبول میں واقع سعودی قونصل خانے میں قتل کرکے لاش کے ٹکڑے کردئیے گئے، قتل کی واردات میں سعودی خفیہ ایجنسی کے اعلیٰ افسران ملوث ہیں۔

    خیال رہے جمال خاشقجی کو دو اکتوبر کو سعودی عرب کے قونصل خانے کی عمارت کے اندر جاتے دیکھا گیا، جس کے بعد سے وہ لاپتہ ہیں، وہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان پر شدید تنقید کرتے رہے تھے اور یمن میں جنگ کے بعد ان کی تنقید میں مزید شدت آگئی تھی۔

  • سعودی فرماں روا اور ولی عہد کی جمال خاشقجی کے اہل خانہ سے ملاقات

    سعودی فرماں روا اور ولی عہد کی جمال خاشقجی کے اہل خانہ سے ملاقات

    ریاض: سعودی فرماں روا اور ولی عہد نے ترکی میں‌ قتل ہونے والے سعودی صحافی کے اہل خانہ سے ملاقات کی ہے.

    تفصیلات کے مطابق شاہ سلمان اور محمد بن سلمان نے جمال خاشقجی کے اہل خانہ سے واقعے پر تعزیت کی اور گہرے رنج کا اظہار کیا۔

    سعودی عرب کے سرکاری میڈیا کے مطابق سعودی فرماں روا اور ولی عہد نے ریاض کے شاہی محل میں سعودی صحافی کے بیٹے صالح اور بھائی سے ملاقات کی.

    اس موقع پر شاہ سلمان بن عبدالعزیز  اور محمد بن سلمان نے جمال خاشقجی کے اہل خانہ سے اس سانحے پر  ہمدردی کا اظہار کیا۔ 

    یاد رہے واشنگٹن پوسٹ سے منسلک سینئر سعودی صحافی جمال خاشقجی کو دو اکتوبر کو استنبول میں سعودی سفارت خانے میں‌ قتل کیا گیا تھا.

    ابتدا میں سعودی حکام نے دعویٰ کیا کہ جمال خاشقجی سفارت خانے کے عقب کے دروازے سے باہر چلے گئے تھے، مگر بعد میں عالمی دباؤ کے بعد سعودی عرب نے تسلیم کیا کہ سعودی صحافی کی سفارت خانے میں‌ہونے والے جھگڑے میں موت واقع ہوگئی تھی.


    مزید پڑھیں: سعودی صحافی جمال خاشقجی کی باقیات مل گئیں: برطانوی میڈیا کا بڑا دعویٰ


    عالمی خبر رساں اداروں کے مطابق آج سعودی کابینہ کا ہنگامی اجلاس ہوا ہے، جس میں  فرماں روا شاہ سلمان نے ذمہ داروں کو کٹہرے میں لانے کا اعلان  کیا ہے۔

    یاد رہے کہ شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے گذشتہ روز صحافی کے صاحبزادے سے ٹیلیفون پر رابطہ کیا تھا۔

    واضح رہے کہ آج برطانوی میڈیا کی جانب سے یہ دعویٰ سامنے آیا ہے کہ جمال خاشقجی کی باقیات سعودی قونصل خانہ سے مل گئی ہیں.

  • سعودی صحافی جمال خاشقجی کی باقیات مل گئیں: برطانوی میڈیا کا بڑا دعویٰ

    سعودی صحافی جمال خاشقجی کی باقیات مل گئیں: برطانوی میڈیا کا بڑا دعویٰ

    لندن: برطانوی میڈیا کی جانب سے سعودی عرب کے سینئرصحافی جمال خاشقجی کی باقیات ملنے کا دعویٰ سامنا آیا ہے.

    تفصیلات کے مطابق برطانوی میڈیا نے یہ خبر جاری کی ہے کہ جمال خاشقجی کی لاش کے ٹکڑے سعودی قونصل خانے سے ملے ہیں.

    موصولہ اطلاعات کے مطابق جمال خاشقجی کی لاش کے ٹکڑے سعودی قونصلرجنرل کے گھر سے ملے، جنھیں باغ میں دفنا دیا گیا تھا.

    باقیات فارنسک سرچ کے دوران ملیں. جمال خاشقجی کا چہرہ مسخ شدہ تھا اور جسم کئی حصوں میں بٹا ہوا تھا.

    برطانوی میڈیا کی اس خبر کی سعودی یا ترک حکومت کی جانب سے تاحال تصدیق تا تردید نہیں کی گئی.


    سعودی افسران نے جمال خاشقجی کے قتل کی منصوبہ بندی کی ، ترک صدر طیب اردوان


    یاد رہے کہ آج ترک صدر طیب اردگان نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ سعودی صحافی کو دو اکتوبر ہی کو قتل کردیا گیا تھا، سعودی افسران نےقتل کی منصوبہ بندی کی تھی.

    ان کا مزید کہنا تھا کہ 15افرادکی ٹیم الگ الگ وقت پراستنبول میں سعودی قونصلیٹ پہنچی، جمال خاشقجی ایک بج کر 8 منٹ پر قونصل خانے میں گئے ، پھر واپس نہیں آئے، جمال خاشقجی کی منگیتر نے ترک حکام کو 5بج کر 50منٹ پر  آگاہ کیا اور منگیتر کی درخواست پرترک حکام نے تحقیقات شروع کیں۔