Tag: سعودی عرب کی خبریں

  • سعودی عرب میں ڈرون اڑانا قانونی قراردے دیا گیا

    سعودی عرب میں ڈرون اڑانا قانونی قراردے دیا گیا

    ریاض: سعودی عرب میں ڈرون اڑانے کے شوقین افراد کے لیے اچھی خبر ہے ، بالاخر ڈرون اڑانے کو قانونی قرار دے دیا گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سعودی عرب کی جنرل اتھارٹی برائے ہوا بازی نے بالاخر ڈرون اڑانے کو اجازت نامے سے مشروط کرتے ہوئے اس کی اجازت دے دی ہے، اجازت نامہ حاصل کرنے کے لیے فیس ادا کرنا ہوگی۔

    اس سے قبل سعودی عرب میں ڈرون اڑانا غیر قانونی تھا اور ملک میں بغیر پیشگی اجازت نامے کے ڈرون لانا بھی غیر قانونی عمل سمجھا جاتا تھا ، تاہم اب عام صارفین ڈھائی سعودی ریا ل اور کمرشل صارفین پانچ سو سعودی ریال کے عوض یہ اجازت نامہ حاصل کرسکیں گے۔

    ڈرون کا اجازت نامہ حاصل کرنے کے خواہش مند افراد کے پاس باقاعدہ سعودی شہریت یا ایک قابل استعمال اقامہ ہونا لازمی ہے، ساتھ ہی ساتھ انہوں نے جنرل اتھارٹی سے حاصل کردہ ٹریننگ کورس کا سرٹیفیکٹ بھی لازمی ہے۔ اس کے علاوہ ڈرون کا رجسٹریشن نمبر بھی درکار ہوگا، ایک پرمٹ پر ایک ہی ڈرون اڑایا جاسکے گا۔

    ایک بار پرمٹ حاصل کرنے کے بعد پورے ملک مین ڈرون اڑانے کے لیے مزید کسی قسم کی اجازت کی ضرور ت نہیں ہوگی۔ اب ملک میں کسی کو بھی ڈرون منگوانا ہو تو اسے جنرل اتھارٹی کی ویب سائٹ پر ڈرون کا سیریل نمبر رجسٹر کرانا ہوگا جس کے بعد اسے ڈرون درآمد کرنے کی اجازت مل جائے گی ، اس سے قبل سعودی عرب میں آنے والے تمام ڈرون کسٹم حکام ضبط کرلیتے تھے۔

    غیر ملکی فلم میکرز کو بھی ڈرون ساتھ لانے کے لیے میڈیا منسٹری سے اجازت نامہ حاصل کرنا پڑتا تھا ، تاہم اس کے بعد بھی تذبذب کی صورتحال برقرار رہتی تھی کہ آیا ڈرون اڑانے کی اجازت بھی ملے گی یا نہیں ، تاہم پرمٹ سے اس صورتحال کا خاتمہ ہوجائے گا۔

    اس فیصلے سے سعودی عرب کی بلیک مارکیٹ میں ڈرون کی مانگ ختم ہوجائے گی ، کہ جلد ہی ڈرون باقاعدہ طور پر عالمی مارکیٹ کی قیمتوں میںسعودی اسٹور ز سے بھی خریدا جاسکے گا۔

  • سعودی عرب: کم عمری میں شادی جرم قرار، قانون منظور

    سعودی عرب: کم عمری میں شادی جرم قرار، قانون منظور

    ریاض: سعودی عرب کی شوریٰ نے کم عمری میں شادی کے خلاف بل منظور کرتے ہوئے کم سے کم شادی کی عمر 18 سال مقرر کردی۔

    تفصیلات کے مطابق شیخ عبداللہ ال اشیخ کی صدارت میں شوریٰ کونسل کا اجلاس بدھ کے روز ہوا جس میں کابینہ کے اراکین نے کم عمری کے خلاف شادی کا بل پیش کیا جسے کثرت رائے سے منظور کرلیا گیا۔

    شوریٰ کونسل کے نائب صدر ڈاکٹر یحیحیٰ الثمان نے اس حوالے سے ایک اعلامیہ جاری کیا جس میں اُن کا کہنا تھا کہ اجلاس میں شریک اراکین نے گزشتہ سیشن میں اسلامی قوانین کے لیے بنائی جانے والی کمیٹی کی پیش کردہ سفارشات کو سُننے کے بعد اُن پر غور کیا اور پھر اس قانون کو منظور کیا۔

    اُن کا کہنا تھا کہ اس سے قبل قانونی طور پر لڑکوں اور لڑکیوں کو 15 سال کی عمر میں شادی کی اجازت تھی مگر اب ایسا نہیں ہوگا۔

    مزید پڑھیں: کم عمر سعودی نوجوان کے گھر اولاد کی پیدائش

    شوریٰ کونسل نے جو قانون منظور کیا اُس میں شادی کی عمر کم سے کم 18 سال مقرر کی گئی علاوہ ازیں اس نقطے پر بھی سب نے اتفاق کیا کہ ایسی لڑکیاں یا لڑکے جو شادی کے قابل نہیں اُن کا زبردستی نکاح کروانا بھی جرم میں شمار کیا جائے گا۔

    نائب صدر کا کہنا تھا کہ ابھی فی الحال قانون منظور کیا گیا جلد اس کی خلاف ورزی کرنے والوں کی سزاؤں کا تعین بھی کیا جائے گا۔

    علاوہ ازیں شوریٰ کونسل نے شاہ فیصل اسپتال اور ریسرچ سینٹر میں مقامی نوجوانوں کی ملازمتوں کا کوٹہ بڑھانے اور صحت کے شعبے میں بھی روزگار فراہم کرنے کی منظوری دی۔

    شعبہ صحت میں سعودی نوجوانوں کو ملازمتیں فراہم کر کے انہیں ملک کے مختلف علاقوں میں قائم ہونے والے کلینک اور ڈسپینریز میں اسلامی سال 1438 / 1439 ہجری کے دوران ہی تعینات کیا جائے گا ۔

    یہ بھی پڑھیں: سعودی نوجوان کی نئی ویڈیو، گرفتاری سے بچنے کا بھی انتظام کرلیا

    یاد رہے کہ سعودی عرب میں لڑکے یا لڑکیوں کی پندرہ سال کی عمر میں شادی کردی جاتی تھی، گزشتہ سال 14 سالہ سعودی شہری جب والد بنا تھا تو مقامی لوگوں نے اس پر شدید تنقید کی تھی۔

  • مکہ معظمہ، حرمِ کعبہ پرکالے جھینگروں کی یلغار، زائرین پریشان

    مکہ معظمہ، حرمِ کعبہ پرکالے جھینگروں کی یلغار، زائرین پریشان

    مکہ مکرمہ : مکہ مکرمہ حرم شریف میں اچانک کالے جھینگروں کی یلغار نے عوام کے لئے مشکلات پیدا کردیں، جس کی ویڈیو انٹرنیٹ پروائرل ہوگئی جبکہ انتظامیہ نے حرم شریف سمیت شہرمیں جھینگروں کے خاتمے کے لئے جراثیم کش دوا کا اسپرے کیا۔

    تفصیلات کے مطابق مکہ میں کالے جھینگروں کی بہتات گھروں، اسکولز اور سڑکوں پر عوام کے لئے پریشانی کاباعث بن گئی، کالے جھینگروں کی ویڈیو انٹرنیٹ پروائرل ہوگئی۔

    مکہ مکرمہ میونسپلٹی نے حرم شریف سمیت شہر میں جھینگروں کے خاتمے کے لئے جراثیم کش دوا کا اسپرے کیا گیا جبکہ مسجد الحرام کے زائرین کو جھینگروں سے نجات دلانے کیلئے 138افراد پر مشتمل 22ٹیمیں تعینات کردیں اور انہیں 111مشینیں بھی دیدی گئیں۔

    میونسپلٹی نے ایسے تمام مقامات کی نشاندہی کرلی ہے، جہاں جہاں مکھی مچھر اور جھینگر زیادہ تعداد میں پیدا ہورہے ہیں۔

    عبدالوہاب سورور نے بتایا کہ”ہفتہ کی رات مسجد میں دعا کر رہا تھا کہ اچانک ہر جگہ کیڑوں نے حملہ کردیا، مسجد میں نہ صرف گارڈوں پر بلکہ کعبہ کے ارد گرد بھی کیڑے ہی کیڑے نظر آرہے تھے، میں نے اپنی زندگی مکہ میں گزار دی لیکن ایسا نظارہ پہلے کبھی نہیں دیکھا۔

    جنگلی کیڑوں کے ماہرین اور ڈبلیو ایف ایف کے سائنسی مشیر ڈاکٹر جیکی جوڈو کا کہنا ہے کہ یہ پہلا موقع ہے جب میں نے کیڑوں کو اتنی بڑی تعداد میں دیکھا ہو اور مجھے حیرت نہیں ہوئی کہ لوگ بھی اسی طرح کہہ رہے ہیں ، کیونکہ میں نے پہلے کبھی ایسے کیڑوں کو اتنی بڑی تعداد نہیں دیکھی۔

    دوسری جانب مسجد الحرام کی انتظامیہ نے حرم شریف کے زائرین کو مچھروں اور مختلف قسم کے کیڑوں سے بچانے کیلئے 24 گھنٹے کیڑے مار ادویہ کے اسپرے کا بندوبست کردیا ہے اور اس کے لیے نظام الاوقات مقرر کئے گئے ہیں تاکہ زائرین کو کسی طرح کا کوئی نقصان نہ ہو۔

  • سعودی عرب سے فرار لڑکی کے والد بیٹی سے ملنے بنکاک پہنچ گئے

    سعودی عرب سے فرار لڑکی کے والد بیٹی سے ملنے بنکاک پہنچ گئے

    بنکاک: سعودی عرب سے فرار ہو کر تھائی لینڈ آنے والی 18 سالہ لڑکی کے والد بیٹی سے ملنے کے لیے بنکاک پہنچ گئے۔

    تھائی لینڈ امیگریشن چیف کے مطابق 18 سالہ راہف کے والد اور بھائی اس سے مل کر اسے گھر واپس جانے کے لیے آمادہ کرنا چاہتے ہیں تاہم اس سے قبل انہیں اقوام متحدہ کی اجازت لینی ہوگی۔

    راہف محمد القانون 6 جنوری بروز اتوار بذریعہ ہوائی جہاز ریاض سے بنکاک پہنچی تھی اور تھائی لینڈ میں سیاسی پناہ حاصل کرنا چاہتی تھی۔

    تھائی لینڈ کے محکمہ امیگریشن کے سربراہ سوراچاتے ہاکپارن کے مطابق راہف زبردستی شادی سے بچنے کے لیے سعودی عرب سے فرار ہو کر بنکاک آئی تھی۔

    راہف تھائی لینڈ میں سیاسی پناہ کی متلاشی تھی لیکن تھائی حکام نے پناہ کی درخواست مسترد کرتے ہوئے بنکاک میں موجود سعودی سفارت خانے کو واقعے کی اطلاع دے دی تھی جبکہ راہف کا آسٹریلیا کا ویزہ بھی منسوخ کردیا گیا تھا۔

    سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر یہ واقعہ زیر بحث لائے جانے کے بعد لوگوں نے آسٹریلیا پر زور دینا شروع کیا کہ راہف کو ویزہ جاری کیا جائے۔

    گزشتہ روز آسٹریلوی حکومت کی جانب سے بھی بیان جاری کیا گیا کہ وہ راہف کی پناہ کی درخواست پر غور کر رہے ہیں اور اس سلسلے میں کام جاری ہے۔

  • سعودی عرب کا 583 پاکستانی طلبہ کو اسکالرشپس دینے کا اعلان

    سعودی عرب کا 583 پاکستانی طلبہ کو اسکالرشپس دینے کا اعلان

    اسلام آباد: مملکتِ سعودی عربیہ نے 583 پاکستانی طلبہ کو اسکالرشپس دینے کا اعلان کر دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کے اشتراک کے ساتھ سعودی عرب 2019 کے لیے 583 پاکستانی طلبہ کو اسکالر شپس فراہم کرے گا۔

    [bs-quote quote=”اسکالر شپس کے لیے پروگرامز میں بیچلر، ماسٹر اور پی ایچ ڈی پروگرامز شامل ہیں۔” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    پروگرام کے مطابق تمام مالی اسکالر شپس رواں سال 2019 کے لیے ہوں گی۔

    مذکورہ اسکالر شپس مواقع کے تحت پروگرامز کے تین بڑے درجے ترتیب دیے گئے ہیں، ان درجوں میں بیچلر، ماسٹر اور پی ایچ ڈی پروگرامز شامل ہیں۔

    صحت اور میڈیسن کے شعبوں کے علاوہ یہ اسکالر شپ پروگرامز مخصوص علوم کے شعبوں میں ترتیب دیے گئے ہیں۔

    یاد رہے کہ پچھلے سال اگست میں بھی سعودی عرب کے سفیر نواف بن سید المالکی نے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی سے ملاقات کے دوران بلوچستان کے طلبہ کو 50 وظائف دینے کا اعلان کیا تھا۔


    یہ بھی پڑھیں:  سعودی عرب کا بلوچستان کے طلبا کے لیے اسکالر شپس کا اعلان


    ترجمان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے گریجویٹ اور انڈر گریجویٹ سطح کے طلبہ کو وظائف دیے جائیں گے، جس کے تحت تمام تعلیمی اخراجات سعودی حکومت برداشت کرے گی، طلبہ کو ماہانہ اعزازیہ بھی دیا جائے گا۔

    خیال رہے کہ گزشتہ سال جنوری میں پاک سعودی وزارتی کمیشن (جے ایم سی) کے گیارہویں سیشن میں دونوں ممالک کے درمیان مختلف شعبوں میں باہمی تعاون کے لیے اتفاق کیا گیا تھا۔

    دونوں ممالک کے درمیان سائنٹیفک ریسرچ، اسکالر شپس کا تبادلہ، طبی تعلیم اور میڈیکل اسٹاف کے تجربات کے تبادلے اور طلبہ کے تعلیمی دوروں پر اتفاق کیا گیا تھا۔

  • سعودی صحافی کے قتل کیس کی سعودی عرب میں پہلی سماعت

    سعودی صحافی کے قتل کیس کی سعودی عرب میں پہلی سماعت

    ریاض: سعودی عرب میں مقتول صحافی جمال خاشقجی کیس کی سماعت کا آغاز ہو گیا ہے، اس سلسلے میں سعودی عدالت میں آج پہلی سماعت ہوئی۔

    تفصیلات کے مطابق سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کیس کی سعودی عرب میں پہلی سماعت ہوئی، سعودی عدالت میں قتل کے الزام میں ملوث 11 افراد پیش ہوئے۔

    [bs-quote quote=”انتظار کر رہے ہیں کہ ترکی ثبوت فراہم کرے۔” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″ author_name=”سعودی اٹارنی جنرل”][/bs-quote]

    کیس کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ترکی سے ابھی تک قتل کے ثبوت نہیں فراہم کیے گئے۔

    اٹارنی جنرل نے عدالت سے کہا کہ وہ انتظار کر رہے ہیں کہ ترکی ثبوت فراہم کرے، جس نے انصاف کا مطالبہ کیا ہے۔

    یاد رہے کہ واشنگٹن پوسٹ کے لیے خدمات انجام دینے والے سعودی صحافی جمال خاشقجی 2 اکتوبر کو استنبول میں سعودی سفارت خانے میں اپنی منگیتر کے کاغذات لینے کے لیے گئے تھے، جہاں انھیں قتل کر دیا گیا۔

    20 اکتوبر کو سعودی عرب نے با ضابطہ طور پر یہ اعتراف کیا تھا کہ صحافی جمال خاشقجی کو استنبول میں قائم سفارت خانے کے اندر جھگڑے کے دوران قتل کیا گیا۔


    یہ بھی پڑھیں:  جمال خاشقجی کو قتل کرکے کس طرح لے جایا گیا؟ ویڈیو سامنے آگئی


    واضح رہے کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے سخت ناقد تھے اور اپنے کالمز میں ان پر یمن جنگ کے حوالے سے سخت تنقید کرتے تھے، خاشقجی کو سعودی ولی عہد کے کہنے پر بھی قتل کرنے کا الزام ہے۔

    تین دن قبل ایک ترکی کے ٹی وی پر ایک اہم ویڈیو منظرِ عام پر آئی، جس میں دیکھا گیا کہ پانچ بیگز تھامے تین افراد سعودی سفارت خانے سے نکلے، ان بیگوں میں جمال خاشقجی کی لاش کے ٹکڑے تھے جس کو سعودی سفارت خانے سے ایک منی بس کے ذریعے رہائش گاہ کے گیراج تک لایا گیا۔

    ترکش ٹی وی کے مطابق بیگز میں موجود لاش کے ٹکڑوں کو تیزاب سے جلا دیا گیا تا کہ کوئی سراغ نہ مل سکے۔

  • جدہ: صحت کی سہولیات کے لیے انقلابی اقدامات کی منظوری

    جدہ: صحت کی سہولیات کے لیے انقلابی اقدامات کی منظوری

    جدہ: سعودی فرمانروا شاہ سلمان نے سعودی ہیلتھ کونسل کی جانب سے لیےگئے متعدد منصوبوں کی منظوری دے دی ہے ، اقدامات کا مقصد صحت کی سہولیات میں اضافہ کرنا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سعودی قیادت کی ایما پر ملک کی ہیلتھ کونسل نے تجاویز مرتب کی تھیں جن کامقصد مملکت کے شہریوں کے لیے صحت کی سہولیات میں اضافہ ہے، منصوبوں میں شواہد کی بنا پر طبی سہولیات کی فراہمی کے لیے نیشنل سنٹر کا قیام بھی شامل ہے ۔

    منظور کیے گئے اقدامات اور منصوبوں میں ملک بھر کی تمام لیبارٹریز کے لیے یکساں لائحہ عمل مرتب کرنے کا فیصلہ بھی شامل ہے جس کے تحت ہیلتھ سیکٹر کے تمام اسٹیک ہولڈرز کو یکساں قواعد و ضوابط کے تحت کام کرنے کا فیصلہ بھی شامل ہے۔

    نئے قوانین کے تحت اسپتال سعودی ہلال احمر کی ایمبولینس سروس کے ذریعے منتقل کیے جانے والے دل کے مریضوں کو صحت کی سہولیات فراہم کرنے سے انکار نہیں کرسکیں گے ۔

    اس موقع پر سعودی ہیلتھ کونسل کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر نہر الاعظمی کا کہنا ہے کہ منصوبوں کی منظوری سعودی شہریوں کے صحت کی سہولیات فراہم کرنے کے لیے قیادت کے عزم کی نشاندہی کرتی ہے۔

    انہوں نے اس موقع پر شاہ سلمان، ولی عہد محمد بن سلمان کے ساتھ سعودی وزیر صحت ڈاکٹر توفیق الربیعہ، جو کہ ہیلتھ کونسل کے سربراہ بھی ہیں، ان کا شکریہ ادا کیا ۔

  • سعودی عرب کو پانی کتنا مہنگا پڑرہا ہے؟

    سعودی عرب کو پانی کتنا مہنگا پڑرہا ہے؟

    تیل کی دولت سے مالامال سعودی عرب کو پانی کی قلت نے بے حال کردیا ہے ، اندازہ ہے کہ آئندہ تیس سالوں میں میٹھے پانی کے ذرائع بالکل ختم ہوجائیں گے۔

    تفصیلات کے مطاب مشرق ِو سطیٰ میں پانی کی قلت بڑھتی ہی جارہی ہے اور سعودی عرب اس صورتحال میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والےممالک میں شامل ہے جو کہ اپنے میٹھے پانی کے ذخائر میں سے 900 فیصد سے زائد خرچ کرچکا ہے۔

    محققین کا کہنا ہے کہ سعودی عرب میں موجود زیرِ زمین پانی آئندہ ۱۱ سالوں میں بالکل ختم ہوجائے گا، یاد رہے کہ اس صحرائی ملک میں کوئی دریا نہیں بہتا اور نہ ہی یہاں کوئی جھیل ہے، اس کے باوجو د سعودی عرب میں پانی کی کھپت فی فرد 265 لیٹر روزانہ ہے جو کہ یورپی یونین کے ممالک سے دگنی ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ پانی کی قلت کے ساتھ پانی کا ضیاع بھی ایک سنگین مسئلہ ہے جس پر قابو پانے کی ضرور ت ہے۔

    سعودی عرب فی الحال اپنے بجٹ کا دو فیصد پانی کی سبسڈی پر خرچ کررہا ہے جو کہ ایک خطیر رقم ہے۔سنہ 2015 میں سعودی عرب نے فیکٹریوں میں پانی کے استعمال پر ٹیکس فی کیوسک چار ریال سے بڑھا کر نو ریال کر دیا تھا۔ حکومت گھرو‌ں میں استعمال کے لیے پانی پر بھاری سبسڈی دیتی ہے اس لیے پانی مہنگا نہیں ملتا۔

    سنہ 2011 میں ہی سعودی عرب میں اس وقت پانی اور بجلی کے وزیر نے کہا تھا کہ سعودی عرب میں پانی کی طلب ہر برس سات فیصد کی حد سے بڑھ رہی ہے اور اگلی ایک دہائی میں اس کے لیے 133 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ضرورت پڑے گی۔

    سعودی عرب میں کھارا پانی کنورژن پلانٹ (ایس ڈبلیو سی سی) ہر دن 30.36 لاکھ کیوسک میٹر سمندر کے پانی سے نمک الگ کر کے پینے کے قابل بناتا ہے۔

    یہ سنہ 2009 کے اعداد و شمار ہیں جو اب بڑھے ہی ہوں گے۔ اس کا روز کا خرچ 80.6 لاکھ ریال آتا ہے۔ اس وقت ایک کیوسک میٹر پانی نمک الگ کرنے کا خرچ 2.57 ریال آتا تھا۔ اس کے ساتھ ہی ٹرانسپورٹ کا خرچ 1.12 ریال فی کیوسک میٹر بن جاتا ہے۔

    ضرورت اس امر کی ہے کہ جہاں سعودی عرب اپنے زیر زمین پانی کے ذخیروں کو بڑھانے پر کام کرے وہیں اپنے شہریوں کو بھی اس بات سے آگاہی دے کہ ان کے پاس تیل تو وافر مقدار میں موجود ہے لیکن پینے کا پانی نہیں ہے اور تیل سے سہولیاتِ زندگی تو خریدی جاسکتی ہیں لیکن زندگی کی بقا کا دارو مدار صرف اور صرف پانی پر ہے۔

  • سعودی عرب میں پسند کی مختصر ترین شادی کتنی دیر برقرار رہی؟

    سعودی عرب میں پسند کی مختصر ترین شادی کتنی دیر برقرار رہی؟

    جدہ: شادی انسان کی زندگی کا سب سے اہم اور نازک معاملہ ہوتا ہے، جس میں فریقین ایک دوسرے سے زندگی بھر ساتھ نبھانے کا وعدہ کرتے ہیں، تاہم جدہ میں ہونے والی ایک شادی صرف ایک گھنٹہ ہی برقرار رہی۔

    تفصیلات کے مطابق سعودی عرب کے شہر جدہ میں ایک مختصر ترین شادی نے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کر لیا ہے، یہ شادی نکاح کے محض ایک گھنٹے بعد ہی ٹوٹ گئی۔

    [bs-quote quote=”دولہے کی ماں اور بہنیں نئی دلہن کو اپنے خاندان میں قبول کرنے پر تیار نہیں تھیں۔” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    جدہ سے آنے والی نیوز رپورٹس کے مطابق گزشتہ جمعے کے دن نکاح کی تقریب کے صرف ایک گھنٹہ بعد دولہا نے نکاح خوان سے کہا وہ کہ اپنی بیوی کو طلاق دینا چاہتا ہے، اور اس نے زبانی طور پر دلہن کو طلاق دے دی۔

    زبانی طلاق کے بعد دولہا نے نکاح خوان سے کاغذی کارروائی کی درخواست کرتے ہوئے کہا کہ جیسے ہی وہ تقریب سے اٹھ کر جائے، اس کی طلاق پر قانونی کارروائی پوری کی جائے۔

    معلوم ہوا کہ دولہا نے اپنی نئی نویلی دلہن کو طلاق اپنی ماں اور بہنوں کے شدید اصرار پر دیا، جو نئی دلہن کو کسی بھی طور پر اپنے خاندان میں قبول کرنے پر تیار نہیں تھیں۔


    یہ بھی پڑھیں:   سعودی طالبہ کے ہاں پرچہ دینے کے فوراً بعد بچے کی پیدائش


    رپورٹس کے مطابق دولہا دلہن کی ملاقات ملک سے باہر تعلیم کے دوران ہوئی تھی، جہاں انھوں نے ایک دوسرے کو پسند کیا اور شادی کا فیصلہ کر لیا۔

    دولہے کی ماں اور بہنوں کا کہنا تھا کہ دولہن کا تعلق ایک مختلف معاشرے سے ہے اس لیے وہ سعودی معاشرے میں اپنے شوہر کے ساتھ زندگی نہیں گزار سکے گی۔

    دولہن کے متعلق یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ اس کا تعلق کس ملک سے تھا، یہ بھی معلوم نہیں ہو سکا کہ ماں اور بہنوں نے شادی سے قبل کیوں منع نہیں کیا اور عین نکاح کے بعد شادی توڑنے کی ضد کیوں کی۔

  • یمن میں امن کامعاہدہ، قیامِ امن بے حد ضروری ہے

    یمن میں امن کامعاہدہ، قیامِ امن بے حد ضروری ہے

    یمن مشرقِ وسطیٰ کا وہ رستا ہوا زخم ہے جو اب اس حالت میں آگیا ہے کہ اگر بروقت علاج نہ کیا گیا تو یہ لاعلاج بھی ہوسکتا ہے، اس منظرنامے میں سویڈن سے اچھی خبر یہ آئی ہے کہ آئینی حکومت اور برسرِ پیکارِ حوثیوں کے درمیان مذاکرات کامیاب ہوگئےہیں۔

    بتایا جارہا ہے کہ یہ مذاکرات پانچ نکاتی ایجنڈے پر کیے جارہے تھے ، جن میں سے تین پر اتفاق ہوگیا ہے جبکہ دو پر حتمی فیصلہ ابھی نہیں ہوسکا ہے۔ یمن کی آئینی حکومت اور فی الحال ملک کے اکثریتی علاقوں کا کنٹرول سنبھالے ان حوثی قبائل کے درمیان کن نکات پر اتفاقِ رائے ہوسکا ہے اور کون سے موضوعات ابھی بھی سرد خانے کی نظر ہوئے؟ اس پر ہم بعد میں نظر ڈالتے ہیں ، پہلے یہ دیکھ لیں کہ یمن تنازعہ آخر ہے کیا اور اس کی عالمی منظر نامے پر کیا اہمیت ہے۔

    یمن جنگ کا پس منظر


    یمن مشرق وسطیٰ کا دوسرا بڑا مسلم ملک ہے جس کی آبادی دو کروڑ سے زائد ہے جن میں سے بیش تر عربی بولنے والے ہیں۔ یمن کو ماضی میں عربوں کا اصل وطن تصور کیا جاتا تھا اور قدیم دور میں یہ اپنی مصالحوں کی تجارت کے سبب اہم تجارتی مرکزکیاہمیت رکھتا تھا۔ قدیم دور میں یمن کو یہ حیثیت اس کے جغرافیائی محل وقوع نے عطا کی تھی اور آج بھی سمندری تجارت میں اس کی وہی اہمیت برقرار ہے۔ یمن کےشمال اور مشرق میں سعودی عرب اور اومان، جنوب میں بحیرہ عرب اور بالخصوص خلیجِ عدن ہے اور مغرب میں بحیرہ احمر واقع ہے۔

    یمن میں سنی مسلمانوں کی تعداد ایک اندازے کے مطابق 56 فی صد ہے جبکہ زیدی شیعوں کی تعد اد لگ بھگ 42 فی صد ہے ، باقی دو فی صد آبادی اسماعیلیوں ، یہودیوں اور دیگر اقوام پر مشتمل ہے۔ تعداد میں بڑے دونوں گروہوں کے تصادم کے سبب ہی یہ ملک آج کئی سال سے جنگ کی عبرت ناک آگ میں جھلس رہا ہے جس کی روک تھام کے لیے عالمی طاقتیں رواں سال سامنے آئیں اور مملکت میں متحارب دونوں گروہوں کو مذاکرات کی میز پر آنے کے لیے کہا گیا۔

    القاعدہ کے حملوں سے بے حال اس ملک میں عرب بہار کے نتیجے میں انتقالِ اقتدار ہوا اور عبد اللہ صالح کے بعد یمن کی قیادت ہادی کی صورت میں ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں آئی جس کی گرفت اقتدار پر مضبوط نہیں تھی، فوج تاحال سابقہ صدر کی حامی تھی۔ اسی صورتحال نے حوثی قبائل کو موقع فراہم کیا کہ وہ سادا نامی صوبے پر قبضہ کرلیں۔ اس موقع پر عام یمنیوں نے اور سنیوں نے بھی حوثی قبائل کا ساتھ دیا اوران سب نے مل کر دارالحکومت صنعا پر قبضہ کرلیا۔ اس صورتحال سے القاعدہ نے بھی فائدہ اٹھایا اور ساتھ ہی ساتھ داعش نے بھی اپنے پنجے گاڑنے کی کوشش کی لیکن مجموعی طور پر میدان حوثی قبائل کے ہاتھ رہا۔

    مارچ 2015 کا جب حوثی قبائل اور سیکورٹی فورسز مل کر پورے ملک کا کنٹرول سنبھال لیتے ہیں۔ صورتِ حال سے گھبرا کر صدر ہادی سعودی عرب کی جانب راہِ فرار اختیار کرتے ہیں۔ یہی وہ حالات ہیں جن میں سعودی عرب کی قیادت میں ایک اتحاد حوثی قبائل کو شکست دینے اور ہادی کی حکومت کو بحال کرانے کے لیے حملے شروع کرتا ہے جس کے نتیجے میں آئینی حکومت عدن نامی علاقہ چھیننے میں کامیاب ہوجاتی ہے لیکن ملک کا مرکزی علاقہ صنعا تاحال حوثی قبائل کے قبضے میں ہے جن کے لیے کہا جاتا ہے کہ ایران ان کی درپردہ مدد کررہا ہے۔

    بد ترین انسانی المیہ


    اس ساری خانہ جنگی کے سبب یمن ایک ایسے انسانی المیے میں تبدیل ہوگیا جس کی جنگوں جدید تاریخ میں دور دور تک کوئی مثال نہیں ملتی ۔اس جنگ میں مارچ 2015 سے لے کر اب تک کم ازکم 7 ہزار افراد مارے جاچکے ہیں جبکہ 11 ہزار کے لگ بھگ زخمی ہوئے ہیں۔ مرنے والے اور زخمی ہونے والوں میں سے آدھے سعودی اتحاد کی فضائی بمباری کا نتیجہ ہیں اور ان میں اکثریت عام شہریوں کی ہے جن کا اس جنگ سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔

    جنگ کے سبب ملک کی 75 فیصد آبادی مشکلات کا شکا ر ہے اور انہیں مدد کی ضرورت ہے ۔ یہ تعداد دو کروڑ 20 لاکھ بنتی ہے اور ان میں سے ایک کروڑ تیرہ لاکھ افرا د وہ ہیں جنہیں زندہ رہنے کے لیے فوری انسانی مدد کی ضرورت ہے۔ اس وقت ملک میں1 کروڑ 71 لاکھ سے زائد افراد ایسے ہیں جنہیں یہ بھی معلوم نہیں کہ اگر آج انہوں نے کھانا کھایا ہے تو اگلا کھانا انہیں کب اور کس ذریعے سے نصیب ہوگا۔ المیہ یہ ہے کہ ان میں سے چار لاکھ پانچ سال سے کم عمر بچے بھی شامل ہیں۔

    جنگ سے پہلےملک میں 3500 ہیلتھ کیئر سینٹر تھے جن میں سے محض نصف ہی فنکشنل ہیں اور ملک کی آدھی آبادی اس وقت صحت کی بنیادی ضروریات سے محروم ہے۔اپریل 2017 میں یہاں ہیضے کی وبا پھیلی جو کہ اب تک دنیا کی سب سے بڑی وبائی آفت بن چکی ہے جس میں 12 لاکھ افراد متاثر ہوئے۔

    جنگ کے نتیجے میں تیس لاکھ افراد اپنے گھروں سے بے گھر ہونے پر مجبور ہوئے جن میں 20 لاکھ ابھی بھی اپنے گھروں کو نہیں جاسکتے اور نہ ہی مستقبل قریب میں ان کے گھر جانے کے امکانات ہیں۔

    آئینی حکومت اور حوثی قبائل کے درمیان امن معاہدہ


    سنہ 2016 میں ایک بار حوثی قبائل اور آئینی حکومت نے مذاکرات کی کوشش کی تھی تاہم وہ مذاکرات بری طرح ناکام ہوئے اور فریقین ایک دوسرے کو مذاکرات کی ناکامی کا سبب گردانتے رہے ۔ دونوں کا کہنا تھا کہ مذاکرات کے باوجود جنگ نہیں روکی گئی جس کے سبب مذاکرات ممکن نہیں ہیں۔ رواں سال سب سے پہلے امریکا نے معاملے کے دونوں فریقوں کو جنگ بند کرکے مذاکرات کی میز پر آنے کا کہا گیا جس کی برطانیہ اور اقوام متحدہ دونوں کی جانب سے حمایت کی گئی۔ امریکا میں یمن کےمعاملے پر سعودی عرب کی حمایت ختم کرنا آپشن بھی موضوع ِ گفتگو رہا جس کے بعد بالاخر دسمبر 2018 میں دونوں فریق اقوام متحدہ کے زیر نگرانی مذاکرات کے لیے سویڈن میں اکھٹے ہوئے۔

    یمن کی آئینی حکومت کا وفد پانچ دسمبر کو سویڈن آیا جبکہ حوثی قبائل کا وفد پہلے ہی سے وہاں موجود تھا۔ مذاکرات اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندہ برائے یمن مارٹن گریتھس کی سربراہی میں منعقد ہوئے ، یہ مذاکرات پانچ نکاتی ایجنڈے پر ہورہے تھے جن میں ایئرپورٹ کا کنٹرول، قیدیوں کا تبادلہ ، معیشت کی بہتری، حدیدہ میں قیام امن اور بحیرہ احمر کنارے واقع القصیر کی بندرگاہ کا کنٹرول شامل ہیں۔

    ایک ہفتہ جاری رہنے والے ان مذاکرات کے نتیجے میں بالاخر طے پایا ہے کہ صنعاء ایئر پورٹ سے ملکی پروازیں چلانے کا سلسلہ شروع کیا جائے گا۔ دوسرے نکتے پر طے پایا ہے کہ دونوں فریق قیدیوں کا تبادلہ کریں گے اور یہ تعداد ہزاروں میں ہے۔ آئل اینڈ گیس سیکٹر کو دوبارہ بحال کیا جائے گا تاکہ معیشت کا پہیہ چلے ۔ یہ تین نکات ایسے ہیں جن پردونوں فریق مکمل طور پرراضی ہیں لیکن اصل مسئلہ حدیدہ شہر اور اس سے جڑے پورٹ کا ہے جو کہ یمن کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ آئینی حکومت چاہتی ہے کہ شہر کا اختیار ان کے پاس ہو جبکہ پورٹ کے معاملے پر فریقین اقوام متحدہ کی نگرانی پر رضامند ی کا اظہا رکررہے ہیں تاہم اس کا فارمولا طے ہونا باقی ہے۔ حوثی باغی چاہتے ہیں کہ حدیدہ شہرکوایک نیوٹرل حیثیت دی جائے ۔

    سنہ 2016 کے بعد سے اب تک یمن کے معاملے پر ہونے والی یہ سب سے بڑی پیش رفت ہے اور یمن کے عوام کے لیے اس وقت کی سب سے زیادہ مطلوبہ شے ، یعنی امن کیونکہ امن ہی وہ چابی ہے جس سے سارے راستے کھل جاتے ہیں ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ فریقین اس معاہدے پر عمل درآمد میں کس حد تک سنجیدہ ہیں، یہاں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ یمن صرف داخلی شورش کا شکار نہیں بلکہ سعوودی عرب اور ایران بھی اس ملک میں اپنی قوت کا بھرپور اظہار کررہے ہیں اور اگر اس معاہدے سے ان دونوں طاقتوں کے مفادات پر ضر ب آتی ہے تو پھر اس پر عمل درآمد انتہائی مشکل ہوجائے گا۔ حالانکہ یہ دونوں ممالک بھی ایسے معاشی دور سے گزر رہے ہیں کہ جنگ کا خاتمہ ہی سب کے لیے بہتر ہے۔