کراچی (30 اگست 2025): انسداد دہشت گردی منتظم عدالت میں تشدد اور دھمکانے کے کیس میں پولیس نے رپورٹ میں فرحان غنی، قمر احمد اور شکیل چانڈیو کو ریلیف دے دیا۔
تفصیلات کے مطابق پولیس نے فرحان غنی کیس سے متعلق تفتیشی رپورٹ انسداد دہشتگردی منتظم عدالت میں پیش کر دی، جس میں پولیس نے اپنی ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ واقعے کی فوٹیج حاصل کرنے میں پولیس ناکام رہی۔
پولیس کی جانب سے ملزمان کی رہائی کی پیش کردہ زیر دفعہ 497 بی ٹو کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مدعی مقدمہ وقوعہ والے روز کھدائی سے متعلق کوئی این او سی پیش نہیں کر سکا، مدعی مقدمہ کسی سرکاری محکمے میں ملازمت ہونے کے حوالے سے بھی شناخت نہیں کرا سکا۔
پولیس رپورٹ کے مطابق جائے وقوعہ کی فوٹیجز حاصل کرنے کی کوشش کی گئیں، لیکن اس میں کامیابی نہیں مل سکی، مدعی مقدمہ کا ایک عام سا جھگڑا تھا جس میں کسی قسم کے اسلحے کا استعمال نہیں ہوا، اور مدعی اب تک کوئی ٹھوس شواہد بھی پیش نہیں کر سکا۔
عدالت میں پیش کردہ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ مدعی مقدمہ نے تھانے آ کر کہا وہ مقدمے کی مزید کارروائی نہیں چاہتا، چناں چہ مدعی کے بیان اور شواہد کی روشنی میں ملزمان کو عدم ثبوت پر تھانے سے رہا کر دیا گیا ہے۔
کراچی:تشدد اور دھمکیاں دینے کے کیس میں صوبائی وزیر سعید غنی کے بھائی فرحان غنی کو رہا کردیا گیا۔
کراچی: صوبائی وزیر سعید غنی کے بھائی فرحان غنی کو فیروزآباد تھانے سے رہا کر دیا گیا، فرحان غنی کے وکیل وقار عالم عباسی نے رہائی کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ فرحان سمیت تین ملزمان کو تھانے سے رہا کیا گیا ہے۔
وکیل کا کہنا تھا کہ مدعی مقدمہ سہیل نے بیان ریکارڈ کرا کے مقدمہ واپس لے لیا، جس کے بعد تفتیشی افسر نے تینوں ملزمان کو رہا کیا۔
وکیل نے کہا کہ رہائی کے بعد ملزمان کو عدالت میں پیش کرنے کی ضرورت نہیں رہی، تاہم تفتیشی افسر رہائی کی رپورٹ عدالت میں جمع کرائیں گے۔
وقار عالم عباسی نے دعویٰ کیا کہ فرحان غنی کے دو ساتھیوں کو بھی مقدمے سے رہائی مل گئی ہے۔
خیال رہے کہ انسداد دہشت گردی کی عدالت (اے ٹی سی) نے گزشتہ روز فرحان غنی سمیت تین ملزمان کا 30 اگست تک جسمانی ریمانڈ منظور کیا تھا، تاہم وکیل کا کہنا ہے کہ رہائی سے متعلق اے ٹی سی کو آگاہ نہیں کیا گیا۔
واضح رہے کہ پیپلزپارٹی کے سندھ کے رہنما اور صوبائی وزیر سعید غنی کے بھائی فرحان غنی کو پولیس نے سرکاری اہلکار پر تشدد کے الزام میں ساتھیوں سمیت گرفتار کرکے مقدمہ درج کرلیا ہے۔
مذکورہ مقدمہ فیروز آباد تھانے میں سرکاری اہلکار پر تشدد کے الزام میں درج کیا گیا جس میں دہشت گردی دفعات شامل کی گئی ہیں۔
کراچی : صوبائی وزیر سعید غنی کا ان کے بھائی فرحان غنی اور ساتھیوں کے خلاف مقدمہ درج ہونے پر رد عمل سامنے آگیا۔
صوبائی وزیر سعید غنی کے بھائی اور چیئرمین چنیسر ٹاؤن فرحان غنی اور ان کے ساتھیوں کے خلاف انسداد دہشت گردی کے تحت مقدمہ درج کرلیا گیا ہے۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر اپنے پیغام میں صوبائی وزیر نے اپنا مؤقف بیان کرتے ہوئے کہا کہ میرے بھائی کا گزشتہ روز حافظ سہیل نامی شخص سے جھگڑا ہوا تھا اور آج اس نے مقدمہ درج کرادیا جو اس کا قانونی حق تھا۔
اپنے پیغام میں انہوں نے کہا کہ فرحان غنی سمیت تمام لوگ خود گرفتاری پیش کرکے قانون کا سامنا کرتے ہوئے عدالت میں اپنی بے گناہی ثابت کریں گے۔
واضح رہے کہ پیپلزپارٹی کے سندھ کے رہنما اور صوبائی وزیر سعید غنی کے بھائی فرحان غنی کو پولیس نے سرکاری اہلکار پر تشدد کے الزام میں ساتھیوں سمیت گرفتار کرکے مقدمہ درج کرلیا ہے۔
مذکورہ مقدمہ فیروز آباد تھانے میں سرکاری اہلکار پر تشدد کے الزام میں درج کیا گیا جس میں دہشت گردی دفعات شامل کی گئی ہیں۔
کراچی : پیپلزپارٹی کے رہنما اور صوبائی وزیر سعید غنی کے بھائی فرحان غنی کو پولیس نے تشدد کے الزام میں ساتھیوں سمیت گرفتار کرکے مقدمہ درج کرلیا۔
اے آر وائی نیوز کی رپورٹ کے مطابق فرحان غنی اور ان کے ساتھیوں کو سرکاری اہلکار پر تشدد کے بعد باقاعدہ حراست میں لے لیا گیا ہے۔
پولیس ذرائع کے مطابق فرحان غنی اور ان کے ساتھیوں کے خلاف فیروز آباد تھانے میں سرکاری اہلکار پر تشدد کا مقدمہ دہشتگردی دفعات کے تحت درج کر لیا گیا۔
پولیس کے مطابق سرکاری اہلکار کی جانب سے درخواست جمع کرائے جانے کے بعد کارروائی کی گئی، مقدمے کے اندراج کیلیے مزید تحقیقات کا سلسلہ جاری ہے۔
رپورٹ کے مطابق ایف آئی آر میں اقدام قتل ،جان سے مارنے کی دھمکی اور دیگر دفعات شامل ہیں، مقدمہ کے متن میں فرحان غنی کے علاوہ قمر الدین، شکیل چانڈیو، سکندر اور روحان کے نام بھی شامل ہیں۔
مقدمہ سرکاری اہلکارحافظ سہیل کی مدعیت میں درج کیا گیا، جس میں مدعی کا کہنا ہے کہ میں سرکاری ملازمت کرتاہوں،22 اگست کو سروس روڈ شارع فیصل پر ڈیوٹی تھی۔،
ایف آئی آر متن کے مطابق مدعی نے بتایا کہ زمین میں فائبر آپٹک کیبل بچھانے کے کام کی نگرانی کرنا تھی، کام کے دوران 3 گاڑیوں پر20سے 25افراد پہنچے۔
تشدد کرنے والوں کے نام فرحان غنی، قمرالدین، شکیل، سکندر، روحان معلوم ہوئے ہیں، تشدد کرنے والے دیگر افراد کو سامنے آنے پر شناخت کرسکتا ہوں۔
مدعی کے مطابق گاڑیاں رکی تو ان میں سے ایک شخص نے مجھے بلایا اور کہا صاحب پوچھ رہے ہیں کس کی اجازت سے زمین کھود رہے ہو۔
میں نے تعارف کروایا اور کہا کہ سرکاری اداروں کی این او سی سے کام ہورہا ہے، ان لوگوں نے مجھ سے بدتمیزی شروع کردی اور کہا کام بند کردو۔
مدعی نے بتایا کہ انہوں نے گالم گلوچ کرتے ہوئے مارپیٹ شروع کردی، میں اس دوران ان کو مسلسل اپنا تعارف کرواتا رہا، انہوں نے کہا صاحب کے کہنے پر کام بند کیوں نہیں کیا مجھے مارتے رہے۔
4سے 5 مسلح افراد نے جان سے مارنے کی نیت سے مجھ پر اسلحہ تان لیا،
گالم گلوچ کرکے مجھ سے مارپیٹ کرتے رہے۔
اسی دوران ان میں سے کسی نے کہا 15 بلاؤ اور ان کے حوالے کرو، پھر مجھے زبردستی گھسیٹتے ہوئے پیٹرول پمپ کے کمرے میں بند کردیا۔
کمرے میں بھی مجھے مار پیٹ کرتے رہے، پولیس وہاں پہنچی اور مجھے چھڑوا کر وہاں سے تھانے لے آئی، یہ لوگ وہاں کام کرنے والے مزدوروں کا سارا سامان بھی اپنے ساتھ لے گئے۔
ایف آئی آر کے متن کے مطابق مدعی مقدمہ حافظ سہیل نے بتایا کہ پولیس مجھے تھانے لے کر پہنچی تو یہ بھی پیچھے سے تھانے آگئے۔
ڈیوٹی پر موجود پولیس افسر کو میرے خلاف کارروائی کے لیے دھمکاتے رہے، ان کے جانے کے بعد میں تھانے سے نکل کر دفتر پہنچا اور پھر گھر آیا، ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے۔
کراچی : وزیر بلدیات سعید غنی نے شہریوں سے اپیل کی کہ غیر قانونی تعمیرات میں فلیٹ نہ خریدیں، باقاعدہ منظورشدہ عمارتوں میں فلیٹ خریدے جائیں۔
تفصیلات کے مطابق وزیر بلدیات سعید غنی نے لیاری میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کراچی میں بہت ساری عمارتوں کو خطرناک ڈکلیئر کیا گیا ہے، مخدوش عمارتوں کے مکینوں کو نوٹسز بھی جاری کیے جا چکے ہیں، نوٹسز کو مدنظر رکھتے ہوئے مکینوں کو بلڈنگ خالی کردینی چاہیے۔
وزیر بلدیات سندھ کا کہنا تھا کہ معاملے میں ایس بی سی اے افسران کی بھی ذمہ داری بنتی ہے، ڈائریکٹر اور ڈپٹی ڈائریکٹر ایس بی سی اے کو معطل کردیا ہے اور عمارت گرنے کے واقعے پر انکوائری کمیٹی بھی بنا دی گئی ہے۔
انھوں نے کہا کہ اس شہر میں غیرقانونی تعمیرات کا عذاب ہے، غیر قانونی تعمیرات میں ملوث بلڈرز کیخلاف کارروائیاں کررہے ہیں، یہ عمارت 1976 کے آس پاس تعمیر کی گئی تھی ، ، مکینوں کو نوٹسز جاری ہوئے تھے۔
کراچی: وزیر بلدیات سندھ سعید غنی نے کہا ہے کہ جو پیسے پورے دے رہے ہیں انھیں بجلی دینا کے الیکٹرک کی ذمہ داری ہے، انھوں نے یہ بھی کہا کہ لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے شہر میں سیوریج کے مسائل ہو جاتے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق سعید غنی بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت نے کے الیکٹرک کو خطیر رقم دینے کی منظوری دی ہے، سندھ حکومت ڈیفالٹر نہیں، ریگولر ادائیگی کر رہے ہیں۔
انھوں نے کہا کراچی الیکٹرک کا کہنا ہے کہ لوڈ شیڈنگ وہاں کرتے ہیں جہاں ریکوری کم ہوتی ہے، تو ہمیں بلاتعطل بجلی فراہم کرنا کے الیکٹرک کی ذمہ داری ہے، جو پیسے پورے دے رہے ہیں انھیں بجلی دی جائے۔
لیاری میں روڈ کٹنگ کے حوالے سے سعید غنی نے بتایا کہ سوئی سدرن نے گیس پائپ لائن ڈالی ہے، جس کی وجہ سے لیاری ٹاؤن میں روڈ کٹنگ کی گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ روڈ کٹنگ کی مد میں ڈیڑھ ارب روپے رکھے ہیں، لیاری کی سڑکیں، گلیاں، پارک کو ٹھیک کریں گے۔
واضح رہے کہ اردو بازار کے تاجروں نے بھیغیر علانیہ طویل لوڈ شیڈنگ کے خلاف اعلان کیا ہے کہ کہ 20 مئی کو کراچی ایم اے جناح روڈ پر دھرنا اور احتجاجی مظاہرہ کیا جائے گا اور کے الیکٹرک کے خلاف عدالتوں میں قانونی جنگ کا آغاز ہوگا۔
اردو بازار ٹریڈرز ایسوسی ایشن کے صدر ساجد یوسف نے کے الیکٹرک کی ناجائز اور طویل لوڈ شیڈنگ کو کاروبار، کراچی شہر اور ملکی معیشت کے لیے تباہ کن قرار دیتے ہوئے کہا کہ کے الیکٹرک حکام لوڈ شیڈنگ کی شکایت کرنے کے جواب میں کہتے ہیں کہ بجلی نہیں ہے، سڑکوں پر جا کر احتجاج کرو۔
کراچی: وزیر بلدیات سندھ سعید غنی نے دعویٰ کیا ہے کہ آج سندھ سب سے ترقی یافتہ صوبہ ہے، کراچی کی بربادی کی ذمہ دار ایم کیو ایم ہے۔
سعید غنی نے ایم کیو ایم کے بیان پر ردعمل میں کہا کہ واٹر بورڈ، کے ایم سی، کے ڈی اے اور ایم ڈی اے کی بربادی کے پیچھے ایم کیو ایم ہے، دہشتگردی پھیلانے والی جماعت کس منہ سے کراچی کے مسائل پر بات کر رہی ہے؟
صوبائی وزیر نے کہا کہ ایم کیو ایم کی نفرت کی سیاست کو کراچی کے عوام نے دفن کر دیا ہے، ایم کیو ایم مردہ سیاسی گھوڑا ہے اور شدید اندرونی انتشار کا شکار ہے، وہ اب پی ایس پی کے مکمل قبضے میں جا چکی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم بتائے بلدیاتی انتخابات سے کیوں راہ فرار اختیار کی تھی؟ پاکستان پیپلز پارٹی نے عوامی خدمت کے ذریعے کراچی میں اپنی جگہ بنائی ہے، آئندہ انتخابات میں ایم کیو ایم کو کراچی سے امیدوار بھی نہیں ملیں گے۔
اس سے قبل ترجمان ایم کیو ایم کی جانب سے بیان سامنے آیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت نے کراچی کیلیے کوئی میگا پروجیکٹ نہیں دیا بلکہ ورلڈ بینک سے ادھار لے کر کام کروائے یہ پیسہ بھی کراچی والوں کو دینا ہے۔
ترجمان نے کہا کہ کراچی کے سرکاری اداروں میں گریڈ ایک سے پندرہ تک غیر مقامی لوگوں کو بھرتی کیا گیا، وفاق سے سندھ کو ملنے والے ایک اعشاریہ آٹھ ٹریلین کہاں خرچ ہوئے؟
انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی بتائے سولہ سال میں کراچی کے کتنے نوجوانوں کو نوکریاں دیں؟
کراچی : وزیر بلدیات سندھ سعید غنی نے کراچی والوں کے لیے خطرے کی گھنٹی بجاتے ہوئے کہا کہ زیادہ بارشیں ہوئیں تو اداروں میں اتنی سکت نہیں کہ فوری ریلیف دیا جائے۔
تفصیلات کے مطابق وزیر بلدیات سندھ سعید غنی نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ سندھ حکومت نےمئی میں بارشوں سے نمٹنےکی تیاریاں شروع کردی تھیں لیکن بہت زیادہ بارش ہوئی تومسائل ضرورہوں گے۔
وزیر بلدیات سندھ نے بتایا کہ آج حیدرآبادکی تیاریوں کودیکھا،واساکےکچھ مسائل موجودہیں، 2022میں جو صورت حال تھی اس میں کافی بہتری آئی ہے۔
انھوں نے خبردار کیا زیادہ بارشیں ہوئیں تو اداروں میں اتنی سکت نہیں کہ فوری ریلیف دیا جائے، دعا کریں بارشیں اتنی ہوں کہ مسائل سے آسانی سے نمٹ سکیں۔
خیال رہے طاقتورمون سون ہواؤں کا سلسلہ راجستھان،بھارت،بحیرہ عرب سے سندھ پر اثرانداز ہو رہا ہے ، جس کے باعث کراچی میں آج سے 6 اگست تک طوفانی بارشوں کا امکان ہے، جس سے سیلابی صورتحال کا خدشہ ہے۔
کراچی: وزیر بلدیات سندھ سعید غنی نے ایم کیو ایم کے بیان پر رد عمل میں کہا ہے کہ کوٹہ سسٹم کا آغاز لیاقت علی خان نے کیا تھا تاکہ بنگالیوں کو نوکریاں مل سکیں۔
آج منگل کو کراچی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سعید غنی نے کہا ’’1956 کے آئین میں بھی کوٹہ سسٹم شامل تھا، جنرل یحییٰ نے جب مارشل لا لگایا اس میں بھی کوٹہ سسٹم تھا، اور 1973 کے آئین میں کوٹہ سسٹم کیری آن ہوا ہے۔‘‘
سعید غنی نے کہا کہ 40 فی صد کوٹہ سسٹم ان لوگوں کے حق میں ہے جو ہم پر تنقید کرتے ہیں، ہمارا ووٹ بینک رورل میں ہے، جس کی بنیاد پر ہم حکومت میں آتے ہیں، لیکن چاہتے نہ چاہتے ہمیں 40 فی صد ملازمتیں اربن ایریاز کو دینی پڑتی ہیں۔
انھوں نے کہا نوکریوں کا بٹوارہ کرنا ہوتا تو بہترین راستہ یہ تھا کہ 60 ہزار ٹیچرز کی نوکریاں ہم بانٹ دیتے تو سب خوش ہو جاتے، جب کہ میرے اپنے خاندان کے لوگ فیل ہوئے اور اس وقت میں وزیر بھی تھا، جو الزام لگا رہے تھے اور اسے متنازع بنا رہے تھے ان کے رشتے دار بھرتی ہوئے۔
وزیر بلدیات کا کہنا تھا کہ اس وقت پورے پاکستان میں سکھر آئی بی اے سے اچھا ٹیسٹنگ محکمہ کوئی نہیں، سندھ ہائیکورٹ نے جب لوئر کورٹ ججز بھرتی کیے تو اس کے ٹیسٹ بھی سکھر آئی بی سے کرائے گئے، لیکن ایم کیو ایم نے محض سکھر کا نام لگنے کی وجہ سے اس پورے ادارے کو متنازع بنا دیا، حالاں کہ سندھ حکومت نے سب سے پہلے کراچی آئی بی اے کو اپروچ کیا تھا لیکن اس نے معذرت کی کہ اتنے بڑے پیمانے پر ٹیسٹ لینے کی اس کی صلاحیت نہیں ہے۔
انھوں نے کہا خالد مقبول صدیقی اردو بولنے والے بھائیوں کو ڈرا کر اپنے ساتھ ملانے کی کوشش اور ان کے ذہنوں میں نفرت گھول رہے ہیں، دراصل ایم کیو ایم پی ایس پی کے نرغے میں ہے، یہ اصل میں مصطفیٰ کمال ہے، خالد مقبول صدیقی تو صرف دکھانے کے لیے ہے، مصطفیٰ کمال کہتے تھے خالد مقبول بھارتی ایجنٹ ہے۔
پیپلزپارٹی کے سینئر رہنما سعید غنی نے کہا ہے کہ یپلزپارٹی کی سندھ میں پوزیشن مضبوط ہے، ایم کیو ایم سمجھتی ہے کہ اب وہ اکیلے الیکشن نہیں لڑسکتی۔
تفصیلات کے مطابق سعید غنی کا کہنا ہے کہ پیپلزپارٹی کے خلاف ہر الیکشن میں الائنس بنتے ہیں۔ ایم کیو ایم ماضی میں اتحاد کے بغیر الیکشن لڑتی رہی۔ پہلی بار ایم کیوایم اتحاد کےساتھ الیکشن میں جارہی ہے۔ ایم کیو ایم سمجھتی ہے کہ اب وہ اکیلے الیکشن نہیں لڑ سکتی۔
انھوں نے کہا کہ ایم کیوایم اور ن لیگ کراچی میں سہارے ڈھونڈ رہی ہیں۔ 2013 میں ایم کیو ایم نے دھونس دھاندلی کے ذریعے الیکشن جیتا تھا۔ 2018 میں کراچی سے پی ٹی آئی کو الیکشن جتوایا گیا تھا۔
سعیدغنی نے کہا کہ حالیہ بلدیاتی انتخابات میں کراچی میں ن لیگ کہیں نہیں تھی۔ ایم کیو ایم کی صورتحال بھی کراچی میں بہت خراب ہے۔
انھوں نے کہا کہ ایم کیو ایم ضمنی انتخابات میں مشکل سے 12 ہزار ووٹ لے سکی۔ پیپلز پارٹی کراچی کی مقبول جماعت بن کر سامنے آئی ہے۔ پیپلزپارٹی کے خلاف دیگرجماعتیں اکیلےنہیں لڑ سکتیں۔
رہنما پیپلز پارٹی نے کہا کہ دیگر جماعتیں مل کر بھی پی پی کو ٹف ٹائم نہیں دے سکتیں۔ عام انتخابات میں کراچی سے پیپلزپارٹی پہلے نمبر پرہوگی۔
انھوں نے کہا کہ اندازہ ہے کراچی سے قومی اسمبلی کی 10 نشستیں جیت لیں گے۔ ن لیگ کے پاس ایسا کوئی بندہ نہیں تھا جسے سندھ کا صدر بنائے۔
سعیدغنی نے کہا کہ ن لیگ نے چند دن پہلے شامل ہونےوالے شخص کو صوبائی صدر بنایا۔ ایم کیوایم کو پتا تھا کہ الیکشن نہیں جیتے گی اس لیے بائیکاٹ کیا۔