Tag: سفارت کاری

  • جارحانہ رویّہ اور منفی ردعمل سفارتی میدان میں بھارت کو تنہا کرگیا

    جارحانہ رویّہ اور منفی ردعمل سفارتی میدان میں بھارت کو تنہا کرگیا

    پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی اور جھڑپوں کے بعد اس وقت بین الاقوامی سرحد پر مکمل جب کہ کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر جزوی طور پر جنگ بندی ہے جب کہ سفارتی سطح پر تناؤ اور میڈیا کے محاذ پر کشیدگی برقرار ہے۔

    7 مئی سے 10 مئی تک جھڑپوں اور پاکستان کی جانب سے بھرپور حملوں کے بعد کہا جا رہا ہے کہ امریکی مداخلت کے بعد دونوں ممالک کے درمیان سیز فائر ہوا ہے۔ جو لوگ 10 مئی کو صورت حال مانیٹر کر رہے ہوں گے انہیں اچھی طرح معلوم ہوگا کہ ٹرمپ کے جنگ بندی کے ٹوئٹ کے بعد بھارتی سیکریٹری خارجہ وکرم مسری کے جنگ بندی کے اعلان سے قبل صبح ہونے والی میڈیا بریفنگ میں بھارتی مسلح افواج نے نہ صرف پاکستان کی جانب سے ایک بھرپور حملے کی تصدیق کی بلکہ یہ بھی کہا کہ بھارتی مسلح افواج مزید کشیدگی نہیں چاہتی، اگر پاکستان بھی ایسا ہی کرے۔

    اس پریس بریفنگ میں یہ الفاظ بھارتی فوج کی جانب سے اعتراف شکست ہی ہیں۔ اس میڈیا بریفنگ کی ویڈیو اب بھی انٹرنیٹ پر موجود ہے۔ اسے دیکھا اور اعتراف شکست کو سنا جاسکتا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ بھارتی مسلح افواج کے ہاتھ کھڑے دینے کے بعد مودی حکومت کے پاس امریکا کی جنگ بندی کی پیشکش کو قبول کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔

    بھارت کی سفارت کاری جنگ بندی تک محدود رہی جب کہ پاکستان نے اپنی سفارت کاری جنگ بندی سے آگے جا کر کی تھی۔ اور لگتا ہے کہ پاکستان نے امریکا کو جنگ بندی کی شرائط میں مسئلہ کشمیر پر مذاکرات کے لیے عالمی طاقتوں کو آمادہ کرلیا ہے۔ اس جنگ بندی میں پاکستان کو عالمی سطح پر چین، ترکی اور آذربائیجان کی کھلی حمایت حاصل تھی۔ جب کہ بھارت کو جنگی جرائم میں عالمی عدالتِ انصاف کو مطلوب اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کی حمایت حاصل رہی۔

    جنگ شروع ہونے سے قبل امریکا کے نائب صدر جے ڈی وینس نے بھارت کا دورہ مکمل کیا تھا۔ اور جس وقت پہلگام کا واقعہ رونما ہوا تو بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سعودی عرب کے دورے پر تھے۔ یعنی بھارت سفارتی سطح پر اعلٰی ترین رابطوں میں مصروف تھا۔ اس سے قبل بھارتی وزیر اعظم ڈونلڈ ٹرمپ کے انتخاب کے بعد وائٹ ہاؤس میں ان سے ملاقات بھی کر چکے ہیں۔ جب کہ پاکستان کی ابھی تک کسی بھی امریکی اعلیٰ عہدیدار سے براہ راست ملاقات نہیں ہوئی ہے۔

    پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ شروع ہونے سے قبل بھارت نے اعلیٰ امریکی قیادت بشمول امریکی صدر، کو یہ باور کرایا ہوا تھا کہ پاکستانی دفاعی نظام بھارت کے حملوں کے آگے ٹک نہ سکے گا۔ مگر سات مئی کے بھارت کے حملے میں اس کو جو نقصان ہوا وہ پوری دنیا کے سامنے ہے۔ اسی طرح دس مئی کو جو جواب دیا گیا وہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔ اس جواب نے امریکی صدر اور انتظامیہ کے اہم افراد کی سوچ کو بدل کر رکھ دیا ہے۔
    پاکستان نے پہلگام میں فالس فلیگ آپریشن کے بعد سے بہتر سفارت کاری کی اور وزیر اعظم شہباز شریف کی جانب سے واقعے کی غیر جانبدار تحقیقات کی پیشکش کو دنیا نے مثبت لیا تھا۔ مگر بھارت اپنی عددی طاقت کے نشے میں ایسا دھت تھا کہ وہ سفارتی سطح پر آنے والے پیغام کو ڈھنگ سے سمجھ نہ سکا۔ اور جنگ بندی کے بعد بھی سفارتی زبان اس کو سمجھ میں نہیں آرہی ہے۔

    اب بھارتی حکومت کی سرپرستی میں گودی میڈیا نے ان ملکوں کو نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے جنہوں نے پاکستان کی براہ راست حمایت یا معاونت کی ہے یا پھر انہوں نے دونوں ملکوں کے درمیان مفاہمت کرانے میں کوئی کردار ادا کیا ہے۔ بھارت کے ہیرو میجر گورو آریا جس کی زبان گالی اور گندگی کے علاوہ اور کچھ اگل نہیں رہی ہے، اس نے ایران کی جانب سے مفاہمت کی کوشش کرنے والے وزیر خارجہ کے بارے میں نازیبا کلمات کہے جس پر ایران نے شدید ردعمل ظاہر کیا ہے۔ اسی طرح بھارت میں بی جے پی کے کارکنوں نے سعودی عرب کے جھنڈے کی بے حرمتی کی جس نے نہ صرف سعودی عرب کو ناراض کیا بلکہ پوری مسلم امہ میں بھارت کے خلاف غم و غصہ پایا جا رہا ہے۔

    بھارت نے پاکستان کے خلاف جنگ میں فرانسیسی رافیل طیارے، مقامی طور پر تیار کردہ میزائل، اسرائیلی ڈورونز، روسی فضائی دفاعی نظام کو تباہ کروا کے ان ملکوں کی ٹیکنالوجی کو بے توقیر کروایا۔ مگر پاکستان نے بھارت کو اسلحہ فراہم کرنے والے کسی بھی ملک کے خلاف کوئی بات نہیں کی۔ نہ ہی رافیل طیارے دینے والے فرانس کے خلاف اور نہ ہی ایس 400 ڈیفنس سسٹم دینے پر روس کے خلاف کوئی بیان دیا گیا۔ مگر پاکستان کی سفارتی حمایت اور فوجی معاونت کرنے والے ممالک کے خلاف بھارت کے گودی میڈیا کو بے لگام چھوڑ دیا گیا ہے۔

    بھارت کی ایک نیوز ایجنسی جس کو را کی جانب سے خبریں اور فنڈز فراہم کیے جاتے ہیں نے ایک مضمون میں ترکیہ کو دھمکی دی ہے کہ بھارت اپنے براہمسترا میزائل سے چھ منٹ میں اسے تباہ کر سکتا ہے۔ اس دعوے کے علاوہ بھارتی ایوی ایشن سکیورٹی ادارے بی سی اے ایس نے جمعرات کو ترکیہ کی گراؤنڈ ہینڈلنگ کمپنی سیلیبی ائیرپورٹ سروسز انڈیا پرائیویٹ لمیٹڈ کی سکیورٹی کلیئرنس منسوخ کر دی ہے۔ ترکیہ کی یہ ایجنسی بھارت کے نو ایئرپورٹس ممبئی، دہلی، کوچی، کنور، بنگلور، حیدرآباد، گوا، احمد آباد اور چنئی پر جہازوں کی ہینڈلنگ کی خدمات فراہم کرتی ہے۔

    اسی طرح بھارت نے پاکستان کی کھل کر حمایت کرنے پر آذربائیجان کے خلاف بھی ہرزہ سرائی شروع کر دی ہے۔ اور ٹریول ایجنیسوں نے اس ملک کا سیاحتی بائیکاٹ شروع کردیا ہے۔ بھارتی حکومت کی اس پر خاموشی اور بائیکاٹ مہم کے خلاف کارروائی نہ کرنے کو بھارت سرکار کی آشیر باد تصور کیا جا رہا ہے۔

    چین، ترکیہ اور آذربائیجان کے خلاف بائیکاٹ مہم بھارتی خارجہ اور داخلہ پالیسی کا حصہ محسوس ہوتا ہے۔ مگر بھارت کے سفارتی سطح پر منفی رویّے پر معروف امریکی پروفیسر کرسٹین فیئر نے بھی حالیہ جنگی معرکے میں بھارتی کامیابی کے دعوؤں کی نہ صرف قلعی کھول دی ہے بلکہ بھارتی سفارت کاری سے جھلکتے ہوئے اس کے رویّے کو کاٹ کھانے جیسا قرار دیا ہے۔ واضح رہے کہ کرسٹین فیئر پاکستان کے خلاف کھلم کھلا معاندانہ رویہ اختیار کرتی رہی ہیں اور ہماری سخت ناقدین میں سے ہیں۔ لیکن اس مرتبہ کرسٹین فیئر کا کہنا ہے کہ پاکستانیوں اور بھارتیوں کے رویوں میں بہت فرق ہے۔ وہ سمجھتی ہیں کہ پاکستان نے حالیہ دنوں میں سفارت کاری میں آداب کو ملحوظ رکھا ہے اور اس کے آفیشلز کا رویہ بہت نرم اور مہذب رہا ہے۔ اس حوالے سے انہوں نے اپنی ذاتی مثال پیش کی کہ وہ طویل عرصے سے پاکستان کے خلاف باتیں اور تجزیے کررہی ہیں۔ مگر پاکستانی ان سے نرمی سے بات کرتے ہیں۔ جب کہ بھارت کی حمایت کرنے کے باوجود بھارتی جب بات کرتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ وہ کاٹ کھانے کو دوڑ رہے ہیں۔ کرسٹین کا کہنا ہے کہ جنگ سے قبل اور بعد میں پاکستان کی سفارت کاری بہتر رہی مگر لگتا ہے کہ بھارت نے جنگ بندی کے بعد بھی سفارتی سطح پر اپنا رویہ درست نہ کیا تو اسے مزید نقصان اٹھانا پڑے گا۔

    پاکستان کے ساتھ ساتھ اس کے اتحادی ملکوں سے بھی بھارت کے نامناسب رویّے نے سفارتی سطح پر بھی اس کی تنہائی میں اضافہ کیا ہے۔ اس سے قبل بھارتی مالدیپ کا سیاحتی بائیکاٹ کرچکے ہیں۔ جب کہ خطے کے دیگر ملک بھوٹان، نیپال، میانمار، سری لنکا اور بنگلہ دیش کی جانب سے بھی بھارت کو کسی قسم کی حمایت نہیں مل سکی ہے۔

    گزشتہ صدی کے اختتام تک بھارت نے ایک غیر جانب دار ملک کے طور پر اپنی سفارتی شبیہہ بنائی تھی جو رواں صدی کے آغاز پر آہستہ آہستہ مٹنے لگی تھی اور اب بھارت اپنی اکڑ اور درشت رویّے کی وجہ سے سفارتی طور پر تنہائی کا شکار نظر آرہا ہے مگر ہوش کے ناخن لینے کو تیار نہیں ہے۔

  • مسئلہ کشمیر کے حوالے سے سفارت کاری میں تبدیلی کی ضرورت ہے،شیریں مزاری

    مسئلہ کشمیر کے حوالے سے سفارت کاری میں تبدیلی کی ضرورت ہے،شیریں مزاری

    اسلام آباد: وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری کا کہنا ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے سفارت کاری میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ثقافت کشمیریوں پر مظالم کو اجاگر کرنے کا ذریعہ ہے۔

    شیریں مزاری کا کہنا تھا کہ بھارتی جبرکو اجاگر کرنے میں انسانی حقوق کی تنظیموں کا اہم کردار ہے،کشمیریوں کی جدوجہد انصاف پرمبنی ہے۔وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق نے کہا کہ بھارتی قابض فوج خواتین کی بےحرمتی کو بطور ہتھیار استعمال کر رہی ہے۔

    انہوں نے مزید کہا کہ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے سفارت کاری میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ وفاقی وزیر نے خطاب کے دوران فلسطینیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان کی کاز انصاف کی کاز ہے۔

    شیریں مزاری کا اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کو خط

    یاد رہے کہ گزشتہ ماہ شیریں مزاری نے اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کو خط لکھا تھا جس میں انہوں نے مقبوضہ کشمیر کی آبادی کا تناسب بدلنے کے عمل کو رکوانے کا مطالبہ کیا تھا۔

    خط میں کہا گیا تھا کہ بھارت کا 5 اگست 2019 کا اقدام غیر قانونی ہے،انسانی حقوق کا ادارہ بھارتی اقدام غیر قانونی قرار دے چکا ہے، اقوام متحدہ کا ادارہ مقبوضہ کشمیر پر 2 رپورٹس جاری کرچکا ہے۔

  • وزیر اعظم کی ہدایت پر ثقافتی سفارت کاری کے آغاز کا اعلان

    وزیر اعظم کی ہدایت پر ثقافتی سفارت کاری کے آغاز کا اعلان

    اسلام آباد: وزیر اعظم عمران خان کی ہدایت پر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے سفارت کاری کے فروغ کے لیے ایک اور اہم اقدام اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق وزیر اعظم عمران خان کی ہدایت پر ثقافتی سفارت کاری کے آغاز کا اعلان کردیا گیا۔ اس سلسلے میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی وزیر سیاحت و ثقافت پختونخواہ عاطف خان سے ملاقات ہوئی۔

    ملاقات میں پاکستانی ثقافت پر دنیا کی توجہ مبذول کروانے کے لیے سیاحت کے فروغ پر غور کیا گیا۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ پاکستان سیاحت کے اعتبار سے انتہائی اہم ملک بن چکا ہے۔

    وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان میں سیاحت کے بے پناہ مواقع ہیں، وزیر اعظم کی ہدایت پرغیر ملکی سیاحوں کو آن لائن ویزہ دے رہے ہیں جس سے سیاح آسانی سے پاکستان آسکیں گے۔

    انہوں نے کہا کہ غیر ملکی سیاح تاریخی اور ثقافتی ورثے سے بھی مستفید ہوں گے، ثقافت اور سیاحت کے فروغ کے لیے مزید اقدامات کرنا ہوں گے۔

    عاطف خان نے وزیر خارجہ کو خیبر پختونخواہ میں سیاحت کے فروغ کے لیے کیے جانے والے اقدامات سے بھی آگاہ کیا۔

  • بھارت سفارت کاری پر بھاشن اپنے پاس رکھے: ترجمان دفتر خارجہ

    بھارت سفارت کاری پر بھاشن اپنے پاس رکھے: ترجمان دفتر خارجہ

    اسلام آباد: پاکستان نے بھارتی وزارت خارجہ کا وزیر اعظم سے متعلق بیان مسترد  کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت سفارت کاری اور نارمل حالات کے بھاشن اپنے پاس رکھے.

    ترجمان دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ وزیر اعظم کے کشمیر سے  متعلق بیان پر بھارتی ردعمل مسترد کرتے ہیں.

    [bs-quote quote=” وزیر اعظم کے کشمیر سے  متعلق بیان پر بھارتی ردعمل مسترد کرتے ہیں” style=”style-8″ align=”left”][/bs-quote]

    بھارتی بیان مقبوضہ کشمیرمیں ریاستی دہشت گردی کی عکاسی کرتا ہے، بھارتی جبر سے متاثر  کشمیریوں کے لئے آواز  اٹھانا اخلاقی ذمہ داری ہے.

    انھوں‌ نے کہا کہ بھارت انتہاپسندانہ نظریات کی بالادستی کے لئے سچ کا سامنا کرنے سے گریزاں ہے، بھارت خود کو ایک نارمل ریاست ثابت کرناچاہتا ہے، بھارت دنیا کو بتائے کیوں نارمل ریاست میں 80 لاکھ افراد محصور کر رکھے ہیں.

    مزید پڑھیں: جو بھی ایل او سی پار کرے گا وہ بھارتی بیانیے کے ہاتھوں میں کھیلے گا، وزیراعظم

    ترجمان کے مطابق دو ماہ سے زائدعرصے سے لاکھوں افراد کھلے پنجرےمیں بند ہیں، لاکھوں کو  محصور کر کے ’’ہر چیز ٹھیک ہے‘‘ کا تاثر  اور دعویٰ کس کو دکھانے کے لئے ہے.

    کون سی ریاست میں گائے ذبح کے نام پر تشدد سے قتل کی کھلی اجازت ہے، کس نارمل ریاست میں ’’گھر واپسی‘‘اور’’لو جہاد‘‘کو ہوادی جاتی ہے.

  • بھارت سفارت کاری سے پاکستان کو تنہا کرنا چاہتا ہے، شاہ محمود قریشی

    بھارت سفارت کاری سے پاکستان کو تنہا کرنا چاہتا ہے، شاہ محمود قریشی

    ملتان : وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ بھارت 26 فروری کو پاکستان پر جارحیت کرنا چاہتا تھا وہی بھارت ایک ماہ کے اندر خیر سگالی کا پیغام بھیج رہا ہے یہ تبدیلی نہیں تو آور کیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ملتان میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے پہلے بھی امن کو ترجیح دی تھی آگے بھی دے گا، جارحیت کی گئی تو پہلے بھی دفاع کیا آگے بھی کریں گے۔

    بھارت کا مؤقف ہے کہ آئیے مل کر غربت کا خاتمہ کریں، 26 جولائی کو عمران خان کا بھی یہی پیغام تھا آؤ مل بیٹھ کر مسئلے حل کریں۔

    شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ لگتا ہے بھارت میں الیکشن تک اتار چڑھاؤ دکھائی دے گا، جارحیت کی گئی تو پہلے بھی دفاع کیا آگے بھی کریں گے، بھارت بہت سے معاملات کو سیکیورٹی کونسل میں لے جانا چاہتا ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ بھارت سفارت کاری سے پاکستان کو تنہا کرنے کی کوشش کررہا ہے، بھارت پاکستان کو گرے سے بلیک لسٹ میں ڈلوانے کی کوشش کررہا ہے ان حالات میں پاکستان کا یکجا ہونا ضروری ہے۔

    [bs-quote quote=”بھارت کا مؤقف ہے کہ آئیے مل کر غربت کا خاتمہ کریں، 26 جولائی کو عمران خان کا بھی یہی پیغام تھا آؤ مل بیٹھ کر مسئلے حل کریں۔” style=”style-8″ align=”left” author_name=”شاہ محمود قریشی” author_job=”وزیر خارجہ”][/bs-quote]

    وزیر خارجہ نے دورہ چین سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ چین پاکستان کا ہر آڑے وقت میں ساتھ دیتا آیا ہے، چین کل بھی ساتھ تھا اور آج بھی پاکستان کے ساتھ ہے، چین نے مختلف فورمز پر اپنا کردار ادا کیا۔

    چین پاکستان کی ضروریات کو اہمیت دیتا ہے اور دیتا رہے گا، چین ہمارا دوست ہے ان سے نشست سود مند رہی، معاملات پر چین سے مشاورت جاری رہتی ہے۔

    وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ کرائسٹ چرچ میں دہشت نے خون کی ہولی کھیلی اور اسے لائیو نشر کیا، حملہ آور نے دنیا کو پیغام دینے کےلیے کیمرے سے کارروائی کی۔

    کرائسٹ چرچ حملے پر ترکی، پاکستان نے ہنگامی اجلاس کا فیصلہ کیا، اجلاس میں 6 سفارشات مرتب کیں، 4 سفارشات میں نے تقریر میں پیش کی تھیں۔

    وفاقی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ اسلام فوبیا کی کوشش ناکام ہوئی، او آئی سی اجلاس کامیاب رہا۔

    مزید پڑھیں : اسلاموفوبیا کے خلاف متحدہ محاذ تشکیل دینے کی ضرورت ہے، شاہ محمود قریشی

    یاد رہے کہ ایک روز قبل  پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اوآئی سی کے ہنگامی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ سانحہ نیوزی لینڈ مغرب میں د ر آنے والی اسلامو فوبیا لہر کا غماز ہے، اسلاموفوبیا کے خلاف متحدہ محاذ تشکیل دینے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔

    ان کا کہنا تھا کہ 50معصوم انسان شہیدہوئے،9شہداکاتعلق پاکستان سے ہے،پاکستان کےبہادرثپوت ندیم رشیدنےکئی انسانوں کی جان بچائی،نعیم رشیدشہیدکی بہادری پرحکومت نےاعلیٰ سول اعزازعطاکرنے کا اعلان کیا ہے۔دیگرپاکستانیوں نےبھی اسی سانحےمیں جام شہادت نوش کیا، یہ تمام افراداپنی برادری میں عزت ووقارکی علامت تھے۔

  • سعودیہ سے سفارت کاری ختم کرنے کی خبریں‌ من گھڑت ہیں، مراکشی وزیر خارجہ

    سعودیہ سے سفارت کاری ختم کرنے کی خبریں‌ من گھڑت ہیں، مراکشی وزیر خارجہ

    رباط : مراکشی وزیر خارجہ نے سعودی عرب سے سفارتی تعلقات میں کشیدگی کی خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ متحدہ عرب امارات اور سعودیہ سے سفارت کار واپس بلانے کی خبریں من گھڑت ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق مراکش اور سعودی عرب کے درمیان سفارتی تعلقات میں کشیدگی اور ریاض سے سفیر واپس بلانے کی خبریں گردش کررہی تھی، جن کی مراکشی وزیر خارجہ ناصر بوریطہ نے تردید کردی۔

    مراکشی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ سفارتی تعلقات میں کشیدگی کی خبریں مراکش کے سرکاری ذرائع سے نشر نہیں ہوئیں اس کےلیے یہ بےبنیاد اور غلط ہیں، ایسے فیصلوں کا اعلان مراکش حکومت اپنے میڈیا اداروں کے ذریعے کرتی ہے۔

    خیال رہے کہ کچھ روز سے یہ خبریں عام ہورہی تھیں کہ سعودی عرب کی جانب سے یمن جنگ سمیت عالمی سطح اٹھائے گئے اقدامات پر اختلاف کرنے والی مراکشی حکومت اور سعودیہ کے درمیان سفارتی تعلقات میں تناؤ پیدا ہوگیا۔

    تاہم کچھ خبر رساں اداروں کا کہنا ہے کہ مراکشی وزارت خارجہ نے سعودیہ کے خلاف مؤقف دینے کےلیے عمداً غیر ملکی میڈیا کا انتخاب کیا تھا جبکہ مراکش کے کچھ دیگر ذرائع سے بھی سعودیہ اور مراکش کے درمیان کشیدگی کی خبریں عام ہوئیں تھیں۔

    مزید پڑھیں : مراکش اور سعودی عرب کے سفارتی تعلقات میں‌تناؤ پیدا ہوگیا

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق 2026 میں ہونے والے فٹبال کے عالمی کپ کی میزبانی کےلیے گزشتہ برس ہونے والی ووٹنگ میں سعودی عرب شمالی امریکا کی مہم چلارہا تھا جبکہ سعودی کے علاوہ یو اے ای، اردن، کویت، بحریک اور عراق نے بھی مراکش کو ووٹ نہیں دیا تھا۔

    قطری حکومت نے عالمی کپ کی میزبانی کےلیے مراکش کو ووٹ دیا تھا جس پر مراکش کے بادشاہ نے قطری امیر کا شکریہ ادا کا تھا۔

    مراکشی حکومت کے سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ سعودی عرب سے سفارتی تعلقات میں کشیدگی کے باعث مراکش نے سعودی عرب کی قیادت میں ہونے والی فوجی مداخلتوں اور وزراء اجلاسوں میں شرکت بھی ترک کردی ہے اور ریاض میں تعینات سفیر واپس بلالیا تھا۔