Tag: سفرنامہ

  • مولانا حالی کے ایک سفر کی روداد

    مولانا حالی کے ایک سفر کی روداد

    مولانا حالی جب اینگلو عربک اسکول دہلی میں فرسٹ اورینٹل ٹیچر تھے تو موسمی تعطیلات میں جو اس وقت ایک مہینے کی ہوا کرتی تھیں، انہوں نے خاص طور پر ایک تفریحی سفر ریاست الور کا کیا تھا۔ یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ تفریح کے لئے خاص الور ہی کو مولانا نے کیوں منتخب کیا۔

    بہرحال اس سفر میں وہ علی گڑھ، فیروز آباد، اٹاوہ، مین پوری، کان پور، ہمیر پور اور باندی کوٹی ہوتے ہوئے الور پہنچے۔ علی گڑھ میں سرسید کے مہمان رہے اور علی گڑھ کالج دیکھنے کا ان کا یہ تیسرا موقع تھا۔ اس کا حال بیان کرتے ہوئے مولانا کے ایک ایک لفظ سے اس محبت اور عقیدت کا اظہار ہوتا ہے جو مولانا کو علی گڑھ اور سرسید کی ذات سے تھی۔ راستے میں مولانا جن جن مقامات سے گزرے، ان کی مختصر کیفیت بیان کی ہے۔ (محمد اسماعیل)

    سفر کا مختصر احوال
    ایام تعطیل میں دوستوں اور عزیزوں سے ملنے کی غرض سے ہم کو چند مقامات میں دورہ کرنے کا اتفاق ہوا اور ہم دہلی سے علی گڑھ پہنچے اور جناب آنریبل سید احمد خاں بہادر کی کوٹھی پر ٹھہرے۔

    علی گڑھ
    اب کی دفعہ ہم نے مدرسۃ العلوم کو تیسری بار دیکھا اور اس کی روز افزوں ترقی دیکھ کر خدا کا شکر ادا کیا۔ مدرسے کو دیکھ کر ہم کو اس بات کا پورا یقین ہو گیا کہ اولوالعزم اور مستقل مزاج آدمی اپنے ارادوں کی مزاحمت سے اور زیادہ کامیاب ہوتے ہیں۔ ان لوگوں کے سوا جو عناد اور دشمنی سے اس مدرسے کے مخالف ہیں، باقی سب مسلمان رفتہ رفتہ اس کی قدر کرتے جاتے ہیں اور جن عمدہ اصول پر اس مدرسے کی بنیاد قائم کی گئی ہے، اب ان کی خوبی و عمدگی سب سے پر ظاہر ہو رہی ہے اور اسی وجہ سے طلبہ کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے۔ بہت سے بے خبر اور ناواقف لوگ جو اپنی اولاد کو یہاں بھیجتے ہوئے جھجکتے تھے اور ان کے مذہب و عقائد کے بدل جانے سے ڈرتے تھے، وہ اب نہایت اطمینان اور دلجمعی سے اپنی اولاد کو وہاں بھیجنے لگے ہیں۔

    یہ بات تحقیق ہو گئی ہے کہ بانی مدرسۃ العلوم کے مذہبی اعتقادات اور رایوں کو مدرسۃ العلوم کی تعلیم میں کچھ بھی دخل نہیں ہے۔ اس امر کا یہاں تک خیال رکھا جاتا ہے کہ رسالہ ’تہذیب الاخلاق‘ جو مطبع علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ سے چھپ کر شائع ہوتا ہے، اس کی کوئی کاپی مفت یا بہ قیمت کسی طالب علم کو نہیں دی جاتی۔ طلبائے مدرسہ کے افعال و اخلاق کی نگرانی پر یہاں وہ لوگ مامور ہیں جو جمہور اہل اسلام کے طریقے سے سرِ مو تجاوز کرنے کو بھی کفر جانتے ہیں۔ علی گڑھ میں ہم بعض ایسے دوستوں سے بھی ملے جو چند سال پہلے اس مدرسے کو ’’دارالکفر‘‘ سمجھتے تھے، لیکن اب حد سے زیادہ اس کے مداح اور ثنا خواں ہیں اور اپنے بچوں کو وہاں تعلیم کے لئے بھیجتے ہیں۔

    مدرسے میں دو چار کے سوا، جو کہ مریض تھے، ہم نے سب مسلمان طالب علموں کو روزہ دار پایا۔ افطار کے وقت نماز کے چبوترے پر، جو بالفعل عارضی طور پر بنایا گیا ہے، سب جمع ہوتے تھے اور نہایت لطف کے ساتھ روزہ افطار ہوتا تھا۔ نماز عشا کے بعد جناب مولوی محمد امیر صاحب تراویح میں قرآن سناتے تھے اور اکثر طالب علم ان کا قرآن سنتے تھے۔ ایک روز جناب مولوی سید فرید الدین احمد خاں بہادر نے اور دوسرے روز ہمارے جلیل القدر میزبان (یعنی سید احمد خاں صاحب) نے بھی روزہ افطار کی تقریب میں اپنے دوستوں کو بلایا تھا اور ان دونوں صحبتوں میں ہم بھی شریک تھے۔

    مدرسہ العلوم کی تعمیر نہایت شد و مد سے جاری ہے اور جس قدر کام اس میں ہو چکا ہے اور ہورہا ہے، اس کو دیکھ کر بے انتہا تعجب ہوتا ہے۔ مدرسۃ العلوم کے حامیوں اور کار پردازوں کی سرگرمی اور کوشش دیکھ کر ان لوگوں کے دل میں بھی، جو مسلمانوں کی ترقی سے مایوس ہیں، ایک جوش اور ولولہ پیدا ہوتا ہے اور یہ امید ہوتی ہے کہ اس قوم کی ترقی کا اگرذمہ دار ہو سکتا ہے تو یہی مدرسہ ہو سکتا ہے۔ علی گڑھ میں پانچ روز ٹھہر کر ہم فیروز آباد، اٹاوہ، مین پوری اور کانپور ہوتے ہوئے ہمیرپور میں پہنچے۔

    فیروزآباد
    فیروزآباد ضلع آگرہ کا ایک مشہور قصبہ ہے جس میں سرکاری تھانہ اور تحصیل بھی ہے۔ یہ قصبہ جیسا کہ مشہور ہے، فیروز خواجہ سرا کا آباد کیا ہوا ہے، لیکن یہ ایک غیر محقق بات ہے۔ کچھ عجب نہیں کہ فیروز شاہ کا آباد کیا ہوا ہو، جیسے فیروز پور یا حصار فیروزہ وغیرہ۔ یہاں کھجور کے پٹھے کی پنکھیاں ایسی عمدہ بنتی ہیں کہ ہندوستان میں شاید ہی کہیں اور بنتی ہوں۔ سادی پنکھیاں جن میں کسی قدر ریشم کا کام بھی ہوتا ہے۔ ایک روپیہ قیمت کی ہم نے بھی یہاں دیکھیں۔ اس کے سوا یہاں کی کوئی بات ذکر کے قابل نہیں ہے۔ یہاں کے مسلمان جو پہلے بہت آسودہ اور مرفہ الحال تھے، اب اس قدر پست حالت میں ہیں کہ وہاں کے ذی اعتبار باشندوں میں ان کا کوئی ذکر نہیں آتا۔

    اٹاوہ
    اٹاوے میں ہم کو زیادہ ٹھہرنے کی مہلت نہیں ملی اور نہ اپنے شفیق میزبان کے مکان کے سوا کہیں جانے کا اتفاق ہوا۔

    مین پوری
    مین پوری میں ہم دو روز ٹھہرے۔ خوش قسمتی سے ہم کو ایک دن اور ایک رات جناب مرزا عابد علی بیگ صاحب سب آرڈنیٹ جج کی خدمت میں رہنے کا موقع ملا۔ یہاں بھی طریقۂ معاشرت میں ہم نے وہی انوار و برکات مشاہدہ کئے جو علی گڑھ میں کئے تھے۔ جناب مرزا صاحب بھی اسی ’’مردود گروہ‘‘میں سے ہیں جو قومی ہمدردی کو راس الحسنات اور مخ العبادات جانتا ہے۔ جب ہم ان کے دولت خانے سے رخصت ہو کر ڈاک گاڑی پر پہنچے تو ان کے دو آدمی ہمارے ساتھ تھے، جن سے کوچ بان کو معلوم ہوا کہ وہ صدرِ اعلیٰ کے ہاں سے آئے ہیں۔ اس بات نے ہم کو بہت تکلیف میں ڈالا کیوں کہ گاڑی کا کوچ بان اتفاق سے مسلمان ہونے کے ساتھ ہی نہایت متقی بھی تھا۔ اس نے یہ بات معلوم ہونے پر راستے میں ہم کو پانی پینے کے لئے اپنا کٹورا تک نہیں دیا اور ہم سے برابر ایسا پرہیز کرتا رہا جیسے بعض ہندو مسلمان سے کرتے ہیں۔ اوّل تو ہم کو اس سے بہت تعجب ہوا، لیکن پھر یاد آیا کہ ہم نے اپنے عالی قدر میزبان کے ہاں برابر دو وقت میز پر کھانا کھایا تھا اور اسی لئے ہم سے پرہیز کرنا ضروری تھا۔

    ہمیرپور
    جب ہم کانپور میں پہنچے تو معلوم ہوا کہ وہاں سے ہمیر پور تک اونٹ گاڑی کے سوا کوئی سواری نہیں جاتی، اس لیے لاچار اسی میں جانا پڑا اور اتفاقاً ہم کو اوپر کے درجے میں جگہ ملی۔ ہم کو یاد نہیں کہ ہم نے کبھی کسی سواری یا پیدل جانے میں ایسی تکلیف اٹھائی ہو جیسی اس اونٹ گاڑی میں ہمیں پہنچی۔

    ریل کے زمانے سے پہلے یہی سواریاں نہایت غنیمت سمجھی جاتی تھیں مگر اب تو ان کے نام سے ہول آتی ہے۔ افسوس کہ یورپ کی صنعتیں روز بروز ہم کو پرلے درجے کا آرام طلب اور راحت پسند بناتی جاتی ہیں، اور اب وہ تمام اسباب اور ذریعے مفقود ہیں جن کے باعث سے کبھی کبھی ہم کو جفا کشی اور محنت کرنے کا بھی موقع ملتا رہے۔

    ہمیر پور کو جاتے ہوئے پچھم کی طرف سڑک سے کسی قدر فاصلے پر ہم نے ایک مندر دیکھا جو بیربر کا بنایا ہوا مشہور ہے۔ گو یہ مندر کچھ زیادہ شاندار نہیں ہے مگر اس سنسان جنگل میں ایک ایسے زمانے کو یاد دلاتا ہے جو ہندوستان کی تاریخ میں ’’طلائی زمانہ‘‘ کہلانے کا مستحق ہے۔ اب ہم جمنا سے اتر کر ہمیر پور پہنچے۔ ہمیر پور راجا ہمیر سنگھ کا آباد کیا ہوا مشہور ہے، جس کے خاندان کی عمارتوں کے کھنڈر اب تک وہاں موجود ہیں۔ یہ قصبہ کان پور سے چالیس میل جانب جنوب بہت بلندی پر واقع ہے۔ اس کے شمال میں جمنا اور جنوب میں بیدونتی ندی بہتی ہے اور مشرق میں ایک میل پر جاکر دونوں مل گئی ہیں۔ مغرب میں ایک نالہ ہے جو بیدونتی میں جاکر گرتا ہے۔ یہ نالہ برسات میں جاری ہو جاتا ہے اور ویسے ایام میں خشک رہتا ہے اور اس لحاظ سے ہمیر پور کو کبھی جزیرہ اور کبھی جزیرہ نما کہا جا سکتا ہے۔

    قدیم باشندے یہاں کے زیادہ تر ہندو ہیں۔ شریف مسلمانوں میں صرف ایک سیدوں کا خاندان ہے جو اکثر خانہ نشین اور بزرگوں کے متروکے پر قانع ہے۔ اس خاندان کے جتنے آدمی میں نے دیکھے ہیں، سب پرانی روش کے بھولے بھالے سیدھے سادے سید ہیں، جن پر زمانۂ حال کی چھینٹ بھی نہیں پڑی۔ اس مقام کی رونق زیادہ تر سرکاری ملازموں سے ہے، اور یہ نہایت خوشی کی بات ہے کہ یہاں سرکاری ملازموں میں جس قدر پردیسی مسلمان ہیں، وہ برخلاف عام مسلمانوں کے باہم برادرانہ محبت اور برتاؤ رکھتے ہیں اور ایک دوسرے کے درد اور دکھ میں شریک ہوتے ہیں مگر باوجود اس کے تعصباتِ بے جا میں سب گرفتار ہیں۔ حقیقت میں ہمیر پور ایک ایسے گوشے میں واقع ہے جہاں زمانے کے شور و شغب کی آواز بہت کم پہنچتی ہے۔ مدرسۃ العلوم کا نام وہاں کے اکثر مسلمانوں نے کبھی کان سے بھی نہیں سنا اور جنہوں نے سنا ہے، ان کے ذہن میں اس کی ایسی ہول ناک صورت سمائی ہوئی ہے کہ اس کے نام سے پناہ مانگتے ہیں۔

    دلی سے ہمیر پور تک
    دلی سے ہمیر پور تک ہم کو شریف مسلمانوں کی اکثر صحبتوں میں بیٹھنے اور ان کی بات چیت سننے کا اتفاق ہوا۔ تقریباً تمام مجلسوں کا رنگ ہم نے ایک ہی اصل پر دیکھا۔ وہی بے جا شیخی اور تعلی اور ہر ایک پہلو سے اپنی تعریف نکالنی، لوگوں کے عیب ڈھونڈنے اور ان کو برائی سے یاد کرنا، حاضرین کی خوشامد اور غائبین کی بد گوئی، بات بات میں فحش اور دشنام سے زبان کو آلودہ کرنا، اور سب سے زیادہ خود غرضی اور تعصب کا بازار ہر جگہ گرم پایا۔

    آگرے سے باندی کوٹی تک
    مراجعت کے وقت ہم ایک دن آگرے میں ٹھیر کر الور پہنچے۔ یہاں ہم کو راجپوتانہ اسٹیٹ ریلوے میں بیٹھنا پڑا۔ چونکہ یہ سرکاری ریل ہے، اس لیے ہم کو امید تھی کہ اس میں زیادہ آرام ملے گا، مگر بر خلاف اس کے سب سے زیادہ اسی میں تکلیف اٹھانی پڑی۔ اوّل تو اس میں انٹرمیڈیٹ کلاس کے نہ ہونے سے بڑا نقص ہے۔ کیوں کہ متوسط الحال آدمیوں کے لیے یہ درجہ فرسٹ کلاس کا حکم رکھتا ہے۔ دوسرے گاڑیاں اس قدر چھوٹی ہیں کہ ایک کمرے میں صرف چار آدمی آرام سے بیٹھ سکتے ہیں۔ باوجود اس کے ایک ایک کمرے میں آٹھ آٹھ ادمی بٹھائے جانے کا حکم ہے۔ اور اس پر غضب یہ ہے کہ جب تک ایک کمرہ میں پورے آٹھ آدمی نہیں بیٹھ لیتے، تب تک دوسرا کمرہ نہیں کھولا جاتا، حالاں کہ اکثر اسی کلاس کی پانچ پانچ سات سات گاڑیاں ٹرین میں بالکل خالی جاتی ہیں۔

    ہم رات کی ٹرین میں سوارہوئے تھے اور ہماری گاڑی کے کسی کمرے میں آٹھ آدمی سے کم نہ تھے۔ نیند کے مارے ایک دوسرے پر گرا پڑتا تھا اور تمام راستے مسافروں میں باہم تکرار ہوتی رہی۔ علاوہ ان ’’خوبیوں‘‘ کے یہ ریل اور ریلوں کی نسبت سست رفتار بھی بہت ہے۔ صبح کے سات بجے ہم باندی کوٹی میں پہنچے اور دس بجے تک یہاں ٹھیرے رہے۔ یہاں تقریبا ڈیڑھ میل طول اور اسی قدر عرض کے میدان میں بالکل سنگین عمارتیں اس قدر بنائی گئی ہیں کہ بجائے خود ایک شہر آباد ہو گیا ہے۔ سنا جاتا ہے کہ یہاں کسی قدر سرکاری فوج رکھی جائےگی۔

    الور
    وہاں سے چل کر ساڑھے بارہ بجے ہم الور پہنچے اور دوپہر تک نئی سرائے میں جو کیڈل صاحب پولیٹکل ایجنٹ کے عہد میں تیار ہوئی ہے، ٹھہرے۔ اس سرائے کی عمارت بالکل سنگین ہے۔ ظاہراً ہندوستان میں یہ پہلی سرائے ہے جس کے نقشے میں ہر ایک مسافر کی آسائش اور تمام ضروریات کا پورا پورا لحاظ رکھا گیا ہے۔ رات کو ہمارے ایک معزز دوست نے ہم کو اپنے مکان پر بلا لیا اور پانچ روز تک ہم ان ہی کے مکان پر ٹھہرے رہے۔ الور کو ہم نے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ شہر کی آبادی دامن کوہ میں واقع ہوئی ہے اور اسی وجہ سے شہر کا شمالی حصہ جنوبی حصے سے کسی قدر بلند ہے۔ یہاں کے بازار اگرچہ بہت وسیع نہیں مگر پُر رونق ضرور ہیں اور عمارتیں اکثر سنگین ہیں۔

    شہر کی عام عمارتیں کچھ زیادہ امتیاز نہیں رکھتیں، لیکن سرکاری محلوں سے راج کی پوری پوری شان و شوکت ظاہر ہوتی ہے۔ خصوصاً وہ محل جو موتی ڈونگری کے باغ میں مہا راجا بنے سنگھ نے بنوایا ہے۔ عمارت کی خوبی کے علاوہ وہ ایک ایسے موقع پر واقع ہوا ہے جس سے اس کی شان اور عظمت دس گنی ہو گئی ہے۔ محل کے اوپر کے درجے پر چڑھ کر جس طرف نظر ڈالیے، زمین اور پہاڑ اور فرشِ زمردیں کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ اگرچہ اب تک وہاں بارش کم ہوئی تھی مگر پھر بھی وہاں کی قدرتی فضا دیکھنے کے قابل تھی۔

    یہاں ایک اور مقام بھی کمال دل کش اور روح افزا ہے جو سیلی سیڑھ کے نام سے مشہور ہے۔ شہر سے تقریبا ًچھ میل کے فاصلے پر ایک سیتلا کا مندر ہے۔ جس کو وہاں کے لوگ سیلی سیڑھ کہتے ہیں۔ (سیلی سیڑھ کے لفظی معنی ٹھنڈی سیتلا کے ہیں۔) یہاں دو طرف سے پہاڑ آ کر مل گیا ہے اور ایک مثلث کی سی شکل پیدا ہو گئی ہے۔ اس مثلث کے گوشے میں ایک بڑا اور نہایت مستحکم بند باندھا گیا ہے جس میں وقتاً فوقتاً بارش کا پانی دونوں پہاڑوں سے جھر جھر کر اکٹھا ہوتا رہتا ہے۔ اور یہاں سے الور تک ایک پختہ نہر بنی ہوئی ہے جس کے ذریعہ سے بند کا پانی رستے کے تمام کھیتوں کو سیراب کرتا ہوا شہر تک پہنچتا ہے اور وہاں جا کر الور کے تمام باغات اور اس کے تمام سواد کو سال بھر تک سر سبز و شاداب رکھتا ہے۔ بند کے ایک جانب پہاڑ پر ایک نہایت پختہ گؤ گھاٹ تقریبا پاؤ میل اونچا بنا ہوا ہے۔ جو پہاڑ کی چوٹی پر جاکر ختم ہوتا ہے اور وہاں سرکاری محل بنے ہوئے ہیں۔ یہ مہاراجا بنے سنگھ کی ایک نمودار یادگار ہے جو ہمیشہ ان کے عہد حکومت کو یاد دلائے گی۔

    الور کا سواد نہایت دل کش اور دل ربا ہے اور تمام باغات سے گھرا ہوا ہے۔ موتی ڈونگری کے باغ کے سوا جو کہ مشہور ہے، ایک کمپنی باغ بھی ہے جو مہاراجا شیو دھیان سنگھ نے حضور ڈیوک آف ایڈنبراکی تشریف آوری کے زمانے میں تیار کروایا تھا۔ یہ بھی ایک عمدہ پارک ہے۔ اس کے سوا کیڈل گنج، شفاخانہ اور اسکول وغیرہ کی عمارتیں جو کیڈل صاحب کے عہد میں بنی ہیں، نہایت عمدہ اور شہر کے لئے باعث زینت ہیں۔ ریاست الور کے پولیٹکل حالات جس قدر ہم کو معلوم ہوئے ہیں، ان سے ریاست کی آئندہ بہبودی اور ترقی کی بہت کچھ امید ہوتی ہے۔

    مہاراجا منگل سنگھ جو تقریبا دو ڈھائی برس سے با اختیار ہوئے ہیں ان کی تعریف میں صرف اس قدر کہنا کافی ہے کہ نواب گورنر جنرل بہادر سابق جب سال گزشتہ کے ختم پر اجمیر میں تشریف لئے گئے تھے تو انہوں نے میو کالج کے طالب علموں سے خطاب کر کے ایک لمبی اسپیچ کی تھی جس میں مہاراجا منگل سنگھ کی شہ سواری، گولہ اندازی، بہادری، جفاکشی، شائستگی اور عالی دماغی کی نہایت تعریف کرکے مخاطبین کو ان کی پیروی کرنے کی ہدایت فرمائی تھی۔

    مہاراجا صاحب نے اس نہایت قلیل زمانے میں جو دو ڈھائی برس سے زیادہ نہ ہو گا کئی ایسے کام کئے ہیں جن کا ایک نوجوان ہندوستانی رئیس سے وقوع میں آنا نہایت عجیب معلوم ہوتا ہے۔ انہوں نے پہلے جنوبی ہندوستان کا ایک سفر اختیار کیا جس میں کسی قدر بحری سفر اور جزیرہ سیلون کی سیاحت بھی شامل تھی، اور بہت شوق سے اپنا سفر نامہ بھی تیار کرایا۔ پھر با اختیار ہونے کے وقت خزانہ بالکل خالی تھا بلکہ ریاست کسی قدر مقروض تھی، مگر اب سنا جاتا ہے کہ خزانے میں تقریبا سات آٹھ لاکھ روپیہ جمع ہے۔ ہر جمعرات کے دن ایک عام دربار مقرر کیا جس میں تمام ریاست کے مستغیثو ں کو اجازت دی گئی کہ خود مہاراجا کے روبرو حاضر ہوکر عرض معروض کریں۔ اور معمولی دربار جو ہر روز تین گھنٹے سے چار گھنٹے تک رہتا ہے اور جس میں کونسل کی تجویزات اور فیصلے پیش ہوتے ہیں یہ اس عام دربار کے علاوہ ہے۔ پولس اور مال کا ازسرنو انتظام کیا جس کی وجہ سے تقریباً پانچ سو روپے ماہوار کا اضافہ، پولس اور عملہ مال کی تنخواہوں میں کیا گیا۔ سررشتہ تعلیم میں بھی روزبروز ترقی ہوتی جاتی ہے۔

    ایک بڑا اسکول شہر میں عام رعایا کی تعلیم کے لئے ہے جس میں انٹرنس تک پڑھائی ہوتی ہے اور جو لڑکے یہاں سے انٹرنس پاس کرتے ہیں ان کو وظیفہ دے کر کسی کالج میں بھیج دیا جاتا ہے۔ اگلے برس دو لڑکوں نے انٹرنس پاس کیا تھا، وہ دونوں لڑکے اجمیر کے گورنمنٹ کالج میں ترقی تعلیم کے لئے بھیج دیے گئے اور آٹھ روپیہ ماہوار ان کا وظیفہ مقرر کیا گیا۔ اس کے سوا ایک اور اسکول شہر میں ہے جو خاص ٹھاکروں اور سرداروں کی اولاد کے لئے مخصوص ہے۔ اس مدرسے کی حالت ابھی تک کچھ اچھی نہیں ہے۔ علاقہ الور کے دیہاتی مدارس کی ٹھیک تعداد ہم کو یاد نہیں رہی، لیکن غالباً سو سے زیادہ اور ڈیڑھ سو سے کم ہے۔ چودہ مدرسے زنانے بھی ہیں جن میں ہندو مسلمان دونوں قوموں کی لڑکیاں تعلیم پاتی ہیں۔

    سب سے بڑی بات یہ ہے کہ آرام طلبی اور سستی اور کاہلی جو ہندوستانی رئیسوں کی سرشت میں داخل ہے، وہ مہاراجا کے مزاج میں بالکل نہیں ہے۔ اور سادگی اور بے تکلفی ایسی ہے کہ اہل یورپ میں بھی ایسی نہیں دیکھی گئی۔ البتہ شکار کا شوق جس قدر ہونا چاہئے اس سے کسی قدر زیادہ ہے۔ باقی تعیش، لہو و لعب اور مسکرات سے، جہاں تک ہم نے سنا ہے، بہ کلی نفرت ہے اور یہ تمام باتیں بشرطیکہ استقلال کے ساتھ قائم رہیں، ایسی ہیں جو انسان کی ترقی کی اصل اصول ہیں۔ پانچ روز الور میں ٹھہر کر ہم رمضان کی انتیسویں تاریخ دن کی ریل میں الور سے روانہ ہوئے اور شام کو دلّی پہنچ گئے۔

  • نیوزی لینڈ کے شہر کروم ویل کے حُسن و جمال کا قصّہ

    نیوزی لینڈ کے شہر کروم ویل کے حُسن و جمال کا قصّہ

    نیوزی لینڈ کی آبادی 53 لاکھ بتائی جاتی ہے۔ یہاں امن و امان بھی ہے، اقتصادی خوش حالی بھی اور یہ دنیا کا وہ ملک ہے جسے قدرت نے خوب خوب نوازا ہے۔ یہاں حسین نظارے دیکھنے کو ملتے ہیں اور پہاڑوں، دریاؤں، جھیلوں کے دامن میں بے پناہ کشش کے ساتھ حکومت کا حسنِ انتظام بھی نیوزی لینڈ کے شہروں کو خوب صورت اور پُرسکون بناتا ہے۔

    وہ ویڈیو شاید آپ نے بھی دیکھی ہو جس میں ایک خاتون سیاست داں پارلیمنٹ میں ایک بل کی کاپی پھاڑتے ہوئے دکھائی دیتی ہیں اور ان کے ساتھی اپنی نشستوں پر مخصوص رقص کرنے لگتے ہیں۔ یہ واقعہ نیوزی لینڈ کی پارلیمنٹ کے اجلاس میں پیش آیا تھا جس کے بعد اجلاس کی کارروائی ملتوی کردی گئی تھی۔ یہ ماؤری قبائل کے اراکین تھے جنھوں نے ایک قانون کے مسوّدے کو مسترد کرتے ہوئے اس پر ووٹنگ روکنے کے لیے ہاکا رقص کیا تھا۔ خیر، یہ ایک الگ قصّہ ہے۔ ہم یہاں‌ اپنے قارئین کے لیے اسی ملک کے ایک حسین شہر کروم ویل کا خوب صورت اور مختصر سفر نامہ نقل کررہے ہیں جو طارق محمود مرزا نے لکھا ہے۔ آسٹریلیا میں مقیم طارق صاحب کالم نگار اور کئی کتابوں کے مصنّف ہیں۔ اس شہر کی سیر کرتے ہوئے قارئین طارق محمود مرزا کے خوب صورت اور دل نشیں‌ طرزِ تحریر کا لطف بھی اٹھائیں گے۔

    وہ لکھتے ہیں: نیوزی لینڈ کا شہر کروم ویل (Cromwell) ان تاریخی قصبوں میں شامل ہے جنہیں اس کی ابتدائی ہیئت میں دوبارہ بنایا اور بسایا گیا۔ یہاں کشادہ سڑکیں، فٹ پاتھوں کے کناروں پر گھاس کے قطعات اور پھولوں کے پودے، جگہ جگہ دلکش وسیع و عریض پارک اور سڑکوں پر ٹریفک نہ ہونے کے برابر ہے۔ سبزہ، رنگا رنگ پھول، درختوں کی قطاریں اور فاصلے پر بنے مکانات۔ نہ یہاں جدید دور کی بڑی بڑی عمارتیں ہیں نہ گاڑیوں کا شور شرابا۔ دھوئیں اور گرد و غبار کا آزار ہے نہ انسانوں کی گہما گہمی۔

    پورے قصبے پر خاموشی اور سکون کا راج ہے۔ ایسے لگتا ہے یہاں وقت رک گیا ہے۔ یہ شہر ڈیڑھ دو صدی قبل کی زندگی جی رہا ہے۔ ہم اس شہر کے خاموش حسن اور سکوت سے محظوظ ہوتے اس کے دوسرے کنارے پہنچے تو یکلخت نیلے پانیوں والی بہت بڑی جھیل ہمارے سامنے آ گئی۔ یہ جھیل اتنی وسیع ہے کہ دور پہاڑوں کے دامن تک پھیلی ہوئی ہے۔ دائیں اور بائیں طرف اس کے کنارے نظر نہیں آتے۔ ان نیلے پانیوں کے پاس گاڑی روکتے ہی بہت سی خوب صورتیاں اور دل چسپیاں ہماری منتظر تھیں۔
    جھیل کے کنارے سبز گھاس کے قطعے کارپٹ کی طرح نرم اور تصویر کی طرح سندر تھے۔ ان قطعات کے کناروں پر نیلے، پیلے، سرخ، سبز اور سفید ہر رنگ کے پھولوں نے رنگوں کی برکھا برسائی ہوئی تھی۔ گھاس میں بنچ اور میزیں لگی تھیں۔ کیفے کے صحن میں رنگ برنگی خوبصورت چھتریوں تلے خوبصورت چوبی میزیں موجود تھیں۔ جن پر سیاح بیٹھے کھانے، کافی اور ماحول سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ وہاں ایک ٹورسٹ انفارمیشن سنٹر بھی موجود تھا۔ ہم سنٹر کے اندر گئے تو ایک خاتون نے مسکرا کر ہمارا استقبال کیا۔ اس دلکش مگر پر وقار خاتون نے سیاحوں کی دلچسپی کے تمام مقامات کی فہرست اور نقشے وغیرہ دیے۔ میں نے پوچھا ”اگر آپ کے پاس وقت ہے تو ہمیں کروم ویل شہر، اس جھیل اور ڈیم کے بارے میں کچھ بتائیے۔ “

    خاتون جس کا نام سارا تھا بولی ”آپ اتنی دور آسٹریلیا سے آئے ہیں۔ پہلے آپ بتائیں کیا پئیں گے، کافی یا چائے۔“

    میں نے تکلف سے کام لینا چاہا تو وہ بولی ”آپ پریشان نہ ہوں کروم ویل کی مقامی حکومت نے سیاحوں کی خاطر مدارت کے لئے فنڈ مختص کیا ہے۔“ ہم نے اس کا شکریہ ادا کیا اور کافی لے کر سنٹر کے باہر رکھے بنچ پر آ بیٹھے۔ اس وقت سنہری دھوپ نے سماں باندھا ہوا تھا۔ ہمارے سامنے نیلے شفاف پانیوں میں چند رنگین بادبانی کشتیاں تیر رہی تھیں۔ ہماری میزبان سارا بھی کافی کا کپ تھامے ہمارے سامنے بنچ پر آ بیٹھی۔ اس نے بتایا ”اس قصبے کی بنیاد 1863 میں پڑی جب جان نامی ایک شخص نے یہاں اپنا ہٹ بنایا۔ کچھ عرصے کے بعد اس کے گھر دو جڑواں بچے میری اور جین پیدا ہوئے۔

    یہ بچے اس قصبے میں پیدا ہونے والے پہلے یورپین نسل گورے بچے تھے۔ اس سے پہلے ماؤری قبائل کے کچھ لوگ یہاں غاروں وغیرہ میں رہتے تھے۔ اس کے بعد ان دونوں دریاؤں میں بہہ کر آنے والی لکڑیوں سے یہاں کاٹیج اور گھر بننے لگے۔ جب سونے کے کان کنوں کا رش تھا تو یہاں ہوٹلوں کی تعداد تیس تک پہنچ گئی تھی۔ پھر دریا کے کنارے گھروں اور گھوڑوں کے اصطبلوں میں اضافہ ہونے لگا۔

    1871 ء تک کروم ویل کی آبادی 497 افراد تک پہنچ گئی جو اب 2022 میں پانچ ہزار ہے۔ جہاں تک سونے کا تعلق ہے اس دریا اور یہاں کی کانوں سے کتنا سونا نکلا اس کا درست علم تو نہیں۔ تاہم سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 1873 ء تک یہاں سے 19947 اونس خالص سونا نکالا گیا۔ جہاں تک اس جھیل کا تعلق ہے تو یہ قدرتی نہیں بلکہ انسانی ہاتھوں کا کارنامہ ہے۔ جس جگہ ہم آج بیٹھے ہیں یہ نوے کی دہائی میں بسایا گیا ہے۔ جھیل جو ہمارے سامنے پھیلی ہوئی ہے اس کے نیچے پرانا کروم ویل شہر دفن ہے۔

    ان تاریخی عمارتوں کو اپنی اصل شکل میں محفوظ رکھنے کے لیے حکومت، مقامی رضاکاروں اور ہنرمندوں نے انتہائی محنت اور جانفشانی سے کام کیا۔ کچھ عمارتیں پوری کی پوری اٹھا کر دوسری جگہ منتقل کی گئیں اور کچھ کو اسی میٹریل اور اسی نمونے کے تحت دوبارہ اسی شکل میں بنا دیا گیا۔ یوں پورا شہر ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوا۔ نئے ڈیم سے نہ صرف یہ دو دریا آپس میں مل گئے بلکہ اس کے ساتھ اس نئی جھیل نے جنم لیا۔ جس نے 1980 ء سے پہلے کا کروم ویل دیکھا تھا اب دیکھے تو حیران رہ جائے گا۔ اسے لگے گا کہ جنات نے پورا شہر اٹھا کر دوسری جگہ پر رکھ دیا ہے۔ اسی طرح اس وسیع و عریض جھیل کو دیکھ کر کوئی یقین نہیں کر سکتا کہ انسانی ہاتھوں نے اتنا بڑا کام انجام دیا ہے۔ یوں نیوزی لینڈ کی حکومت اور اس کے شہریوں نے ایک نئی تاریخ رقم کی۔ ”

    میں نے پوچھا ”چینی کان کنوں کی آمد کا سلسلہ کب شروع ہوا اور ان کان کنوں کی نیوزی لینڈ میں قانونی اور سماجی حیثیت کیا تھی؟“

    سارا نے بتایا ”امریکہ اور آسٹریلیا کی نسبت نیوزی لینڈ میں چینیوں کی آمد دیر سے شروع ہوئی۔ جب یورپین کان کن کمپنیاں یہاں سے واپس چلی گئیں تو بچا کھچا سونا ڈھونڈنے کی مشکل مہم کے لیے چینیوں کو بلایا گیا۔ یہ زیادہ تر چین کے جنوبی حصے کو رنگ ٹونگ سے آئے تھے کیونکہ وہاں سب سے زیادہ غربت تھی۔ 1865 سے 1900 ء تک چینی وزٹ ویزے پر مزدوری کے لیے نیوزی لینڈ آتے رہے۔ اس دوران میں ان چینیوں کی زندگی کافی مشکل تھی۔“ سارہ ہر سوال کا تسلی سے جواب دیتی تھی جیسے پروفیسر ہو۔ جب یہی بات میں نے کہی تو وہ ہنس کر کہنے لگی ”آپ کا اندازہ غلط نہیں ہے۔ میں ریٹائرڈ پروفیسر ہوں۔ وقت گزاری کے لئے یہ جاب کر رہی ہوں۔ “

    سارا نے دوسری مرتبہ ہمیں حیرانی سے دو چار کیا۔ وہ یونیورسٹی پروفیسر تھی اور تاریخ پڑھاتی رہی تھی۔ اب وہ اس چھوٹے سے قصبے کے اس چھوٹے سے دفتر میں کام کرتی تھی جہاں صفائی ستھرائی سمیت تمام کام اس کے ذمہ تھے۔ پھر مجھے خیال آیا کہ یہ نیوزی لینڈ ہے جہاں اسٹیٹس، اسٹینڈرڈ اور عہدوں اور کرسیوں کی نہیں بلکہ اخلاق اور محنت کی قدر کی جاتی ہے۔ یہاں وزیر اعظم بھی اپنا دفتر خود صاف کرتا ہے۔ اپنے گھر کا سارا کام خود کرتا ہے۔ اپنی گاڑی خود دھوتا ہے۔ اپنے گھر کی گھاس بھی خود کاٹتا ہے۔ دفتر میں اپنی چائے بھی خود بناتا ہے کیونکہ اس ملک میں چپراسی اور کلینر نہیں ہوتے۔ یہاں ڈرائیور اور خانساماں رکھنے کا بھی رواج نہیں ہے کیونکہ ان کی تنخواہ ادا کرنا کسی کے بس میں نہیں ہے۔ یہاں امیر اور غریب کے طرز حیات اور معیار زندگی میں فرق بہت کم رہ جاتا ہے۔ اگر تھوڑا بہت فرق ہو بھی تو کوئی امیر اپنی امارت کا رعب نہیں جما سکتا ہے اور نہ کم آمدنی والا کسی کے رعب میں آتا ہے۔ روزمرہ زندگی میں یہاں سب برابر ہیں۔ یہ اس معاشرے کی خصوصیت اور یہی اس کا طرۂ امتیاز ہے۔

     

  • روشنیوں کے شہر سے روشنیوں کے ملک تک کا سفر، ایک سفر نامہ جس نے کئی جواب دے دیے

    روشنیوں کے شہر سے روشنیوں کے ملک تک کا سفر، ایک سفر نامہ جس نے کئی جواب دے دیے

    تمہید

    1990 کے ابتدائی سالوں میں جب ہم اسکول کی تعلیمی منازل طے کرنے میں مصروف تھے، ان دنوں نوجوان ہوں یا جوان، ایک ہی خواہش رکھتے تھے کہ کسی طرح امریکا چلے جائیں۔ ایک کم عمر لڑکے کی طرح میرے ذہن میں یہ سوالات آتے تھے کہ آخر امریکا میں ایسا کیا ہے جو شہر قائد کے نوجوان تو نوجوان، ڈھلتی عمر تک کے افراد وہاں جانے کی خواہش رکھتے ہیں۔ آخر کار 30 سال کے بعد آج تک ذہن میں رہنے والے ان سوالوں کے جوابات مل ہی گئے۔

    ہم نے امریکا کو نائٹ رائڈر، دی فال گائے، ایئر وولف، ٹیلز آف دا گولڈ منکی سے لے کر ہالی ووڈ کی مختلف فلموں میں دیکھا، ڈھونڈا اور مشاہدہ کیا۔ معصوم خیالات والے ذہن میں صرف یہی سوالات آتے تھے کہ کیا واقعی یہ حقیقت ہے یا صرف ٹی وی پر جھوٹ موٹ ایسا دکھایا جا رہا ہے؟ فلموں اور ڈراما سیریز میں نظر آنے والی ٹیکنالوجی اصل میں ہے یا صرف کیمرہ فکشن ہے؟ کوئی سڑک ایسی بھی ہو سکتی ہے جس پر کچرا پڑا ہوا نہ ہو؟ قانون کی خلاف ورزی پر کیا کسی کا جرمانہ بھی ہوتا ہے؟ اور پھر مجھے سوالات کے نہ صرف جواب ملے بلکہ بہت کچھ واضح ہو گیا۔

    حصہ اوّل

    کالج کے بعد میں پہلی بار ملک سے باہر گیا، یہ میرے ذاتی ٹرپ تھے جن میں کئی مرتبہ دوستوں کے ہمراہ دبئی گیا، سیر و تفریح کی اور واپس آ گیا۔ فیلڈ میں آنے کے بعد 2019 میں ڈنمارک حکومت کو ویلفیئر ایجوکیشن، کلائمٹ چینج، ہیلتھ اور دیگر معاملوں پر پروجیکشن کی ضروت تھی، جس کے لیے انھوں نے پاکستان میں اے آر وائی اور جیو انتظامیہ سے رابطہ کیا۔ جس کے بعد اے آر وائی نیوز کراچی سے مجھے اور کیمرہ مین کو لاہور بیورو کی جانب سے یورپ ٹرپ پر روانہ کیا گیا۔ ہمارے ساتھ ٹیم جیو، ایک یو ٹیوبر اور دیگر سوشل میڈیا فورم کے لوگ بھی تھے۔ روزانہ صبح ٹھیک 7 بجکر 45 منٹ تک بریک فاسٹ کر کے ہوٹل کی لابی میں جمع ہونے کا وقت مقرر تھا۔ ایک دن میں کم سے کم 4 اور زیادہ سے زیادہ 8 میٹنگز ہوتی تھیں، بیچ میں 1 گھنٹہ لنچ کے لیے ملتا تھا۔

    یہ میرا پہلا انٹرنیشنل ٹرپ تھا جس کی میں نے نہ صرف کوریج کرنی تھی، بلکہ یہ بھی ثابت کرنا تھا کہ میرا چناؤ ٹھیک کیا گیا ہے۔ ٹرانسپورٹ کے لیے ہمیں سائیکل دی گئی تھی، یورپ کے کئی شہروں میں سب سے آسان روٹ سائیکل کا ہے اسی لیے وہاں زیادہ تر لوگ سائیکل کا استعمال کرتے ہیں۔ لیکن یہ ان کے لیے تو عام سی بات تھی ہماری حالت ایسی ہو گئی تھی جیسے کوئی سزا دی گئی ہو۔ صبح سے شام تک کام کرتے اس کے بعد اصل مرحلہ تب آتا جب ہم کو حلال کھانا تلاش کرنا ہوتا۔ ہر شخص کام کے بعد انفرادی طور پر باہر نکل جاتا تھا اور میری بدنصیبی کے میرا کیمرہ مین کام سے آ کر اپنے کمرے میں سو جاتا تھا اور فون بھی بند کر دیتا تھا، اس لیے میں اکیلا ہی سڑکوں پر مٹر گشتی کرتا رہتا تھا۔

    اس دوران جو میں نے مشاہدہ کیا وہ یہ تھا کہ وہاں ہر شخص باقاعدہ بھاری ٹیکس ادا کرتا ہے، کاروبار کا ایک وقت متعین ہے، قدرتی پیداوار کی بہت زیادہ مانگ ہے، صحت تعلیم اور فلاح و بہبود پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا جاتا، کلائمٹ چینج کو لے کر یورپ بہت زیادہ سنجیدہ ہے اور مستقبل کے لیے مستقل کام کرتا ہے۔ ڈنمارک نے بہت سے شعبوں میں ترقی کی لیکن اپنی بجلی بنانے میں وہ تمام یورپین ملکوں سے آگے نکل گیا ہے۔ بہرحال میں نے اپنی محنت سے بھرپور کام کیا، مجھے یومیہ کے حساب سے بہت اچھی رقم بھی ادا کی جا رہی تھی، جس میں سے میں اچھے خاصے بچا بھی لیتا تھا۔ جب ٹرپ ختم ہوا تو ڈنمارک ایمبیسی انتظامیہ نے میرے کام کی بہت تعریف کی۔ 2022 میں ایک مرتبہ پھر سے ان کا اسٹڈی پروگرام آیا، تو انھوں نے میرا نام لے کر ڈیمانڈ کی کہ اسی رپورٹر کو بھیجا جائے تو بہتر ہوگا، جس پر میں وہاں ایک مرتبہ پھر گیا اور اپنا کام مکمل کیا۔

    حصہ دوم

    امریکا کے لیے کیسے اپلائی کیا؟

    امریکا جانے کا سہرا اگر حقیقت میں دیکھا جائے تو میرے دوست ثمر عباس کے سر ہے، جن کی وجہ سے یہ پایہ تکمیل تک پہنچا۔ پہلے بھی ایک مرتبہ میں انفرادی طور پر امریکا کے لیے اپلائی کر چکا تھا لیکن چوں کہ نہ کوئی تیاری تھی نہ ہی کوئی بتانے والا تھا، تو انٹرویو والے دن جتنی تیزی سے اندر گیا تھا، اسی تیزی سے ریجیکٹ ہو کر باہر بھیج دیا گیا۔ خاموشی سے گھر آیا ٹھنڈا پانی پیا اور سو گیا۔ شرمندگی کے مارے کئی دن تک کسی کو بتایا بھی نہیں، ثمر ہمیشہ کہتا رہتا تھا کہ دوبارہ فیملی کے ساتھ اپلائی کرو، ویزا لگ جائے گا لیکن ذہن میں خدشات تھے کہ اگر اس مرتبہ بھی ریجیکٹ ہو گیا تو پھر میں اب کبھی اپلائی نہیں کروں گا۔

    آخر ہمت کی اور تمام مکمل دستاویزات کے ساتھ انٹرویو دینے چلا گیا۔ انٹرویو والے دن میری فیملی بہت خوش تھی ان کو لگ رہا تھا کہ ہم جائیں گے اور ویزا لگ جائے گا لیکن اس دن کچھ عجیب سا ہوا۔ چوں کہ میں نے فیملی کو پہلے ہی بتا رکھا تھا کہ اگر پاسپورٹ ویزا افسر نے رکھ لیا تو سمجھو ویزا لگ گیا اور اگر واپس کر دیے تو سمجھو ریجیکٹ ہو گیا۔ لیکن ہمیں تیسرا معاملہ نہیں پتا تھا کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے، ہوا یہ کہ جب ہم انٹرویو کے لیے گئے تو ہم سب سے سوالات کیے گئے اور آخر میں خاتون ویزا افسر نے نہایت شائستگی سے مسکراتے ہوئے ہمارے پاسپورٹ واپس کیے، ایک پرچہ تھما دیا اور کہا کہ آپ کا کیس ہم ایک پروسیس میں ڈال رہے ہیں جو کہ ایک لمبا مرحلہ ہوتا ہے، لیکن ہم کوشش کریں گے کہ آپ کا کیس جلد ہو جائے۔ میں نے سمجھا کہ ویزا ریجیکٹ ہو گیا ہے اور ہم زیادہ اداس نہ ہوں تو ایک میٹھی گولی بھی دی جا رہی ہے۔

    ہم وہاں سے نکلے تو سب کے چہرے اداس تھے، ایک دوسرے کی جانب دیکھ بھی نہیں رہے تھے، بہرحال ہم وہاں سے ڈالمین مال چلے گئے، فیملی کو گھمایا پھرایا کہ چلو ماحول کی اداسی کچھ کم ہو۔ اسی دوران ایک دوست سے رابطہ ہوا جس نے کہا میں چیک کر کے بتاتا ہوں، آپ اپنی سلپ بھیجیں جو آپ کو دی گئی ہے۔ میں نے اس کو واٹس ایپ کر دیا، کچھ دیر میں اس کا جواب آیا کہ بھائی آپ کا کیس ’ایڈمنسٹریٹو پراسیس‘ میں چلا گیا ہے، یعنی کہ آسان زبان میں باقی تو سب ٹھیک ہے لیکن اب ایک کلئیرنس ہونا باقی ہے، جو ایمبیسی اپنے طور پر کرتی ہے۔ ہم نے اس کو بھی میٹھی گولی ہی سمجھا، ایک دن میں اپنا ای میل چیک کر رہا تھا تو دو دن پہلے سے ایک ای میل آئی ہوئی تھی، جس میں لکھا تھا آپ کلفٹن دو تلوار پر اپنے پاسپورٹ جمع کروا دیں۔

    میں نے پہلے ہی تاخیر سے ای میل دیکھی تھی، بہرحال جب میں وہاں پہنچا تو آفس بھی بند چکا تھا۔ ہفتے کا دن تھا اور کہا گیا اب آپ پیر کے روز آئیں، میں نے پیر کو پاسپورٹ جمع کروادیے اور ای میل چیک کرتا رہا۔ چند روز میں ہی بذریعہ ای میل کہا گیا کہ اپنے پاسپورٹ واپس لے لیں، میں نارمل طریقے سے گیا اور اپنے پاسپورٹ واپس اٹھائے اور گھر جانے لگا۔ پھر میں نے سوچا کہ پاسپورٹ کھول کر تو دیکھوں جیسے ہی پاسپورٹ کھولا میں حیران رہ گیا۔ اس پر یونائیٹڈ اسٹیٹس آف امریکا کا 5 سالہ ویزا چسپاں تھا، میں بے یقینی کی کیفیت سے بار بار دیکھتا رہا۔ تمام پاسپورٹ کھولے سب پر ویزا لگا ہوا تھا۔ میں نے پہلا فون اپنے دوست ثمر عباس کو اور دوسرا فون اپنے گھر کیا۔

    حصہ سوم

    میں دبئی اور یورپ کے کئی ٹور کر چکا تھا، کوپن ہیگن سے سوئیڈن گیا، ناروے گیا، جگہ جگہ گھوما لیکن اب میں وہاں جانے والا تھا جس کا تصور عمر کے اس حصے سے ذہن میں تھا جب صرف کھیلنے یا پڑھنے کی عمر ہوتی ہے۔

    21 اپریل کو میں اپنی فیملی سمیت قطر ایئرویز سے امریکا کے لیے روانہ ہو گیا اور تقریبا 20 گھنٹے کے بعد ہوسٹن ایئرپورٹ پر پہنچا، جہاں میرے دوست عمران کے چھوٹے بھائی امتیاز کی جانب سے ویلکم کیا گیا اور اپنی جہازی سائز گاڑی میں ہمارے بیگ رکھ کر ہوسٹن کے شہر شوگر لینڈ میں وہاں لے گیا جہاں ہم نے 15 دن تک پڑاؤ ڈالنا تھا۔ جی ہاں میں کوبلر اسٹریٹ پر اپنے ایک ایسے دوست کے گھر رہنے والا تھا، جس سے میری کراچی میں ملاقات کم اور فون پر زیادہ بات چیت رہتی تھی۔ جب میں ایئرپورٹ سے نکلا تو بچپن کی کہانیوں کو ری کال کیا اور ایک آنکھ سے ماضی اور دوسری آنکھ سے امریکا کی سڑک سمیت ہر حصے کو دیکھتا رہا۔ دائیں جانب جاتی سڑک، سائن بورڈز، منظم لین سسٹم، سیف سٹی کیمرے اور ہر جانب پھیلے سبزے نے سب سے زیادہ متاثر کیا۔

    کسی بھی شہری کو قانون کی خلاف ورزی سے روکنے کے لیے کوئی ڈسٹرکٹ یا ٹریفک پولیس کا اہلکار موجود نہیں تھا، کیوں کہ وہاں حیرت انگیز طور پر کوئی خلاف ورزی کر ہی نہیں رہا تھا۔ ہر شخص اپنی لین میں قانون کے حساب سے گاڑی چلا رہا تھا۔ صاف ستھری سڑکیں دیکھ کر مجھے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ ان کو کب اور کیسے صاف کیا جاتا ہے۔ کچھ دیر کے بعد امتیاز نے ہمیں عتیق احمد شیخ بھائی کے گھر پر ڈراپ کیا جہاں ہمارا نہایت ہی گرم جوشی سے ویلکم کیا گیا اور ہمیں ایک گھر کا مکمل حصہ مع تمام قسم کے گوشت، دودھ، انڈوں سے لبالب بھرا فریج اور باہر ناشتے اور مختلف اقسام کے بسکٹوں سے بھرا ایک ریک حوالے کر دیا یہ میزبانی تھی عتیق احمد شیخ اور ان کی اہلیہ کی جانب سے، جنھوں نے ہمیں شان دار پروٹوکول دیا اور پرزور طریقے سے کہا کہ یہ گھر کا حصہ اور یہ تمام چیزیں آپ کی ہیں۔ جتنے دن ہم اس گھر میں رہے ایسا لگا کہ اپنا گھر تھا اور جب ہم وہاں سے روانہ ہو رہے تھے تب ایسے اداس تھے جیسے کسی اپنے سگے سے بچھڑ کر جا رہے ہوں۔ آپ یقین کریں کہ ہم نے گاؤں دیہاتوں میں بھی بہت زیادہ مہمان نوازی دیکھی ہے، لیکن یہ مہمان نوازی ایسی تھی کہ میں حلفیہ کہتا ہوں شاید کسی خون کے رشتے والے رشتے دار نے بھی آج تک ایسی نہیں کی تھی۔ پہلا دن تھا لمبا سفر کر کے آئے تھے، لہٰذا کھانا کھا کر ایسے سوئے کہ اگلے روز صبح کے وقت ہی اٹھے اور پھر پہلے کہاں جائیں اس کی منصوبہ بندی کرنے لگے۔

    آخری حصہ

    امریکا میں کیا دیکھا کیا سیکھا؟

    امریکا میں چند چیزوں کو بغور مشاہدہ کیا، سوچ رہا ہوں کہ پہلے وہ بتا دوں پھر کہانی کے اختتام کی جانب چلتے ہیں۔

    پہلا یہ کہ امریکا میں کیش سے زیادہ پلاسٹک منی چلتی ہے، یعنی آپ کے پاس کریڈٹ کارڈ ہونا ضروری ہے۔ دوسرا آپ کو اگر محتاجی سے بچنا ہے تو آپ کے پاس اپنی کار ہونا لازمی ہے۔ اگر آپ گھومنے گئے ہیں تو اپنا انٹرنیشنل ڈرائیونگ لائسنس بنوائیں اور نہایت ہی آسانی سے کوئی بھی گاڑی جس کا آپ پاکستان میں تصور بھی نہیں کر سکتے وہ کرایے پر لیں، آسان شرائط پر اس کی انشورنس بھی کروائیں اور مزے سے گھومیں لیکن قانون کی پاس داری کے ساتھ۔ وہاں کوئی رینٹ آ کار والا آپ سے دھوکا دہی کا سوچ بھی نہیں سکتا، جو آپ سے طے ہو گیا بس وہی فائنل ہوتا ہے۔ غلطی سے بھی کسی دوست رشتے دار کی کار لے کر نہ چلائیں ورنہ کسی حادثے کی صورت میں صرف آپ پر نہیں بلکہ اس کے خلاف بھی ایکشن ہو سکتا ہے، جس نے آپ کو اپنے طور پر بھلائی کر کے چلانے کے لیے کار دی ہوگی۔ تیسرا یہ کہ آپ کو جہاں جانا ہے وہاں کی گوگل لوکیشن آپ کے پاس ہونی چاہیے، آپ کو کار کی کھڑکی کھول کر کسی سے پوچھنے کی ضرورت نہیں کہ بھائی فلاں جگہ جانا ہے کہاں سے راستہ لوں۔

    تو جناب ہم نے پہلے دو دن بغیر کار کے گزارے جہاں جانا ہوتا تھا اوبر یا لفٹ نامی سروس کے ذریعے آتے جاتے تھے جو کافی مہنگا بھی پڑتا تھا۔ آخر تیسرے دن اوبر کے ذریعے ’والوو ایس یو وی‘ بک کی جس میں دور حاضر کے تمام فیچرز موجود تھے اور اس میں ہم اپنی مرضی سے گھومنے نکل چلے۔ امریکا میں جہاں جدید ٹیکنالوجی کا بھرپور استعمال اور قانون پر عمل کیا جاتا ہے وہیں سب سے اہم چیز انسانیت ہے۔ اگر کوئی شخص سڑک پر قدم رکھ دے تو کم سے کم 20 یا 30 فٹ دور کار والا رک جاتا ہے اور اس وقت تک آگے نہیں بڑھتا جب تک آپ فٹ پاتھ یا محفوظ مقام پر دونوں قدم نہ رکھ چکے ہوں۔ دکان ہو ریسٹورنٹ ہو رینٹ آ کار ہو یا کوئی بھی ایسی جگہ جہاں آپ لائن میں ہوں، کسی کی مجال نہیں وہ آپ سے آگے نکلنے کی کوشش کرے۔ ہر شخص اپنی لائن اپنے نمبر پر ہی اپنا کام کرتا ہے۔

    امریکا ایک ایسا سیف سٹی ہے جہاں آپ کچھ بھی نہیں چھپا سکتے، قانون کی خلاف ورزی یا ٹریفک کی ہو یا گھر کے باہر گھاس وقت پر نہ کاٹی ہو، آپ کے گھر ہی چالان بھیج دیا جاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے آپ سیٹلائٹ اور کیمروں کے ذریعے ہر وقت مانیٹر ہو رہے ہوں۔ اسکول کی بس اگر آپ کے آگے جا رہی ہو تو کسی کی مجال نہیں اس کو اوورٹیک کر لے، جہاں اسکول بس رک گئی وہاں سب کو پیچھے رکنا لازمی ہے۔ سینئر سٹیزن ہوں یا بچہ سب کا احترام کیا جاتا ہے۔ امریکا میں قانون کی بالا دستی کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ امریکا کے صدر جو بائیڈن کے بیٹے ہنٹر بائیڈن کو اسلحہ خریدتے وقت جھوٹ بولنے کے الزام میں مجرم قرار دے دیا گیا ہے۔ برطانوی خبر رساں ادارے کی خبر کے مطابق ہنٹر بائیڈن نے 2018 میں ایک ہینڈ گن خریدی تھی اور خریداری کے وقت حلف نامہ دیا تھا کہ وہ نشے کی حالت میں گن کی خریداری نہیں کر رہے ہیں۔ اس جرم پر 7 لاکھ ڈالر جرمانہ اور 25 سال قید ہو سکتی ہے۔ جو بائیڈن اپنا حق استعمال کر سکتے ہیں لیکن عدالتی فیصلے پر انھوں نے اپنے ردعمل میں کہا کہ وہ عدالت کی کارروائی کا احترام کرتے رہیں گے۔

    تو جناب یہ ہوتا ہے قانون اور یہ ہوتا ہے اس کا احترام، بہرحال امریکا کی سب سے خاص بات جو میں نے نوٹ کی وہ ہے ملازمت پیشہ لوگوں کی عزت کرنا۔ چاہے وہ ٹیکسی ڈرائیور ہوں، کسی ریسٹورنٹ اور ہوٹل کے ملازم یا کسی بھی سطح پر کام کرنے والے ہوں، ان کا بہت احترام کیا جاتا ہے۔ امریکا کے ٹرپ نے صرف مجھے نہیں بلکہ میری فیملی میں موجود تمام افراد کو بہت کچھ سکھایا۔ ہمیں بچپن سے پتا ہے کہ سب سے بڑی چیز انسانیت ہوتی ہے لیکن اس کا حقیقی پتا وہاں جا کر چلا۔ قانون کیا ہوتا ہے اپنی آنکھوں سے دیکھا، ایمان داری کسے کہتے ہیں وہاں جاکر محسوس کیا، اخلاقیات کسے کہتے ہیں ہر روز اس کا مظاہرہ دیکھا۔ مینوئل سے لے کر 5 جی تک کا حامل امریکا اپنے لوگوں کو جہاں پیار کرتا ہے وہیں غلط کرنے والے کی پکڑ بھی ہے اور یہی امریکا کی جیت ہے۔

  • آسٹریلیا کے دیہی علاقے کا ایک فارم ہاؤس (سیر و سیاحت)

    آسٹریلیا کے دیہی علاقے کا ایک فارم ہاؤس (سیر و سیاحت)

    میں جب بھی شہر کی گہما گہمی سے اکتاتا ہوں تو آسٹریلیا کے کسی دیہی علاقے کا رُخ کرتا ہوں۔ یہاں چھوٹے چھوٹے قصبات بلکہ گاؤں میں بھی ہوٹل دستیاب ہیں۔ جدید سہولتوں کے باوجود گاؤں کی زندگی اب بھی زیادہ نہیں بدلی۔ بلکہ صدیوں پرانی طرز پر قائم ہے۔

    وسیع رقبے پر بنے سادہ سے مکانات، کشادہ سڑکیں، درختوں اور سبزے کی بہتات، صاف ستھری آب و ہوا اور حدّ نظر تک پھیلے کھیت اور کھلیان فطرت سے بہت قریب محسوس ہوتے ہیں۔ اس سے بھی زیادہ تنہائی اور سکوت درکار ہو تو فارم ہاؤس بھی کرائے پر مل جاتے ہیں۔

    چند ماہ قبل ہمیں ایسے ہی ماحول کی طلب محسوس ہوئی تو ہم نے نیو ساؤتھ ویلز اور کوئنز لینڈ کے درمیان واقع شہر ٹاری کے مضافات میں ایک فارم ہاؤس چند دنوں کے لیے بُک کرا لیا۔ راہ کے خوشگوار مناظر دیکھتے، سبزے اور درختوں کے بیچ ہموار سڑک پر چلتے اور بھیڑوں، گائیوں اور گھوڑوں کے فارمز کا مشاہدہ کرتے پانچ گھنٹے کے بعد ہم اس فارم کی طرف مڑنے والی سڑک کے سامنے جا پہنچے۔ فارم ہاؤس کی طرف جانے والی یہ دو کلومیٹر سڑک کچی تھی مگر اس پر چھوٹے چھوٹے پتھروں کا فرش بچھا ہوا تھا۔ جس پر گاڑی چلنے سے کڑکڑاہٹ کی آواز آتی تھی۔ سڑک کے دونوں اطراف گھنے، اُونچے اور قدیم درخت ایستادہ تھے جن کی خستہ ڈالیاں ٹوٹ ٹوٹ کر گرتی رہتی ہیں۔ ہم فارم ہاؤس کے سامنے پہنچے تو دور دور تک جنگلوں میں گھرے، آبادیوں سے دور اس اکلوتے گھر کو دیکھ کر یوں لگا جیسے جنگل میں بہار آگئی ہے۔ کیونکہ گھر کے چاروں اطراف بڑے درختوں کے بجائے بے شمار چھوٹے اور پھول دار پودے رنگ بکھیر رہے تھے۔ ان میں پھلوں سے لدے لیمن، مالٹے،سٹرابری اور سیب کے درخت بھی شامل تھے۔ مرکزی دروازے کے پاس لگی انگور کی بیل گھر کی دیوار پر پھیلی تھی۔ جب کہ عقب میں کافی دور تک گھاس کا میدان تھا جہاں بکریاں، گائیں اور گھوڑے چر رہے تھے۔ گھر کے ارد گر آہنی تاروں کی باڑ تھی اور سامنے دھکیل کر کھلنے والا گیٹ تھا۔

    گیٹ کھول کر ہم گاڑی اندر لے گئے اور ایک شیڈ کے نیچے پارک کر دی۔ گھر کے باہر نمبر کے علاوہ کچھ نہیں لکھا تھا اس لیے مجھے کچھ شک تھا کہ یہی ہمارا مطلوبہ فارم ہاؤس ہے۔ یہ شک رفع کرنے کے لیے وہاں کوئی فرد موجود نہیں تھا۔ میں نے فارم کی مالکن کو فون کر کے بتایا کہ ہم یہاں پہنچ گئے ہیں۔ اس نے فون پر ہی خوش آمدید کہا اور بتایا ’’چابی مرکزی دروازے کے سامنے دیوار پر چسپاں ایک بکس کے اندر ہے اور باکس کھولنے کے لیے کوڈ نمبر یہ ہے۔ گھر کے اندر آپ کو ہر شے تیار اور صاف ستھری ملے گی۔‘‘

    ہم اس خاتون کی ہدایت کے مطابق دروازہ کھول کر اندر گئے تو واقعی پورا گھر سجا دھجا اور صاف ستھرا تھا۔ بستر کی چادریں، تکیے، تولیے، فریج، ٹی وی، چولہے، برتن ، کیتلی، ٹوسٹر، لائبریری، ویڈیو، برآمدے میں باربی کیو چولہا اور دیگر سب چیزیں موجود اور صاف ستھری تھیں۔

    ہم چار دن وہاں رہے، اس دوران کوئی شخص وہاں نہیں آیا۔ آخری دن کرایہ بھی وہیں رکھ کر آئے۔ دراصل ہم نے یہ فارم ہاؤس صرف تین دن کے لیے لیا تھا۔ تیسری رات میرا ایک دوست بھی اپنی بیگم کے ساتھ وہاں آگیا۔ حالانکہ وہاں دیکھنے والا کوئی نہیں تھا پھر بھی میں نے فون کر کے مالکن کو بتایا، ’’ آپ کو مطلع کرنا تھا کہ ہمارے دو مہمان آئے ہیں۔ دوسرے یہ پوچھنا تھا کہ کیا ہم ایک رات مزید یہاں رُک سکتے ہیں۔

    میں توقع کر رہا تھا کہ وہ اضافی افراد کا اضافی کرایہ طلب کرے گی۔ کیونکہ گھر میں جتنے زیادہ لوگ ہوتے ہیں، اتنا بجلی اور پانی زیادہ خرچ ہوتا ہے۔ مگر اس نے یہ جواب دے کر ہمیں حیران کر دیا، ’’مہمانوں کا کوئی مسئلہ نہیں، ہاں آپ ایک رات مزید رک سکتے ہیں کیونکہ کل کوئی اور مہمان نہیں آرہا۔ اس اضافی رات کا کرایہ دینے کی بھی ضرورت نہیں۔’’

    یہ جواب میرے لیے انتہائی غیر متوقع تھا۔ کافی دیر تک یقین نہیں آیا کہ ایسے بھی لوگ ہوتے ہیں جنہیں لالچ چھو کر بھی نہیں گزرتی۔ ہم اچھی طرح جانتے تھے کہ فارم ہاؤس کی مالک خاتون ایک ریستوراں میں اور اس کا میاں کھیتوں میں مزدوری کرتے ہیں۔ یہ بات اس نے خود مجھے فون پر بتائی تھی۔ فارم ہاؤس کا خرچ نکال کر انہیں اس سے معمولی آمدنی ہوتی ہے۔ اس کے باوجود انہیں لالچ اور حرص نہیں تھی۔

    اس فارم میں درجن بھر گائیں، اتنی ہی بکریاں اور دو گھوڑے تھے۔ فارم کے مکین کی حیثیت سے آپ کو ان کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔ وہ پچیس ایکڑ میں پھیلے اس فارم میں خود ہی چرتے پھرتے ہیں۔ دھوپ اور بارش سے پناہ لینی ہو تو درختوں کے جھنڈ تلے چلے جاتے ہیں۔ فارم میں تین چھوٹے چھوٹے تالاب ہیں جہاں بارش کا پانی جمع رہتا ہے۔ وہیں سے یہ اپنی پیاس بجھاتے ہیں۔ ہاں مہمان اپنے شوق کی خاطر انہیں چارہ ڈالنا چاہیں تو فارم ہاؤس کے عقب میں ایک شیڈ میں گائے، گھوڑے اور بکریوں کے لیے الگ الگ چارہ موجود ہے۔ چارہ لے کر باڑ کے پاس جائیں تو گھوڑے اور گائیں جمع ہو جاتے ہیں، آپ باڑ کے اوپر سے انہیں گھاس ڈال سکتے ہیں۔ بکریوں کا الگ باڑہ ہے۔ وہاں پرانا سا شیڈ بھی ہے جہاں وہ سردی اور بارش میں پناہ لیتی ہیں۔ فارم ہاؤس میں بجلی کی سپلائی ہے مگر اس کے ساتھ شمسی توانائی بھی استعمال ہوتی ہے۔ آسٹریلیا میں شمسی توانائی کا استعمال عام ہے خاص طور پر دیہی علاقوں میں۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ فارم ہاؤس میں استعمال ہونے والا تمام پانی بارش سے جمع کیا ہوا ہے۔ گھر سے ملحق دو بڑے بڑے پلاسٹک کے ٹینک ہیں جہاں چھت سے بارش کا پانی جمع ہوتا ہے۔ یہی پانی نہانے دھونے، کھانے پینے ہر مقصد کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

    میں سوچتا تھا کہ آسٹریلیا اور ہندوستان پاکستان کے موسموں میں بہت مماثلت ہے۔ بارشیں اور دھوپ دونوں جگہوں کی مشترکہ خصوصیات ہیں۔ بلکہ پاکستان میں دھوپ زیادہ پڑتی ہے۔ وہاں ایسے شمسی پلانٹ آسانی سے اور ارزاں داموں لگ سکتے ہیں۔ علاوہ ازیں بارش کا پانی جمع کر کے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ تیسری بات یہ کہ ہمارے دیہات میں بھی ایسے تالاب بنائے جا سکتے ہیں جیسے اس فارم میں بنے ہیں۔ جب بارش نہ تو یہ پانی مویشیوں اور فصلوں کے لیے استعمال ہو سکتا ہے۔ ان میں سے کوئی کام بھی مشکل اور مہنگا نہیں ہے۔ نہ جانے اس طرف کسی کی توجّہ کیوں نہیں ہے۔

    اس علاقے میں شہد کے بہت سے فارم ہیں۔ علاوہ ازیں سیب، ناشپاتی ، سٹرابری، انگور اور دیگر پھلوں کے باغات ہیں۔ ہم اس علاقے میں ڈرائیونگ کرتے تو کئی گھروں کے آگے شہد اور ان پھلوں کی فروخت کا بورڈ رکھا نظر آتا۔ ایک جگہ گاڑی روک کر ہم اندر گئے۔ وہاں برآمدے میں میز پر خالص شہد کی بوتلیں اور پھلوں کی ٹوکریاں رکھی تھیں۔ ان پر قیمت درج تھی اور ایک طرف کھلا بکس رکھا تھا، جہاں سے بڑا نوٹ ہونے کی صورت میں آپ اپنا چینج بھی لے سکتے ہیں۔ وہاں نہ کوئی شخص تھا اور نہ کوئی کیمرا۔ لیکن مجال ہے کہ کوئی شخص چوری یا بے ایمانی کرے۔

    گاؤں کے یہ لوگ سادہ اور فطری زندگی گزارتے ہیں۔ ان کے پاس مال و دولت نہیں ہوتی مگر وہ قناعت کی دولت سے مالامال ہیں۔ پرانے گھروں ، چھوٹی گاڑیوں اور قدرے غربت کے باوجود بڑے شہروں سے دور رہ کر اپنے طرزِ حیات سے خوش ہیں۔ یہاں آبادی اور ذرائع روزگار دونوں کم ہیں۔ کیونکہ اس علاقے کی سطح مرتفع پر فصلیں نہیں اُگتیں صرف مویشی بانی، باغبانی اور دیگر چھوٹے چھوٹے مشاغل ہیں جن کی محدود آمدنی ہے مگر وہ صبر شکر کے ساتھ اس سے گزارہ کر لیتے ہیں۔

    ایسے علاقے میں قیام کی صورت میں ہ میں اشیائے خوردونوش کا مسئلہ درپیش ہوتا ہے۔ کیونکہ یہاں ریستوراں کم اور حلال کھانا نایاب ہے۔ اس لیے ہم زیادہ سے زیادہ اشیائے خورد و نوش اپنے ساتھ لے کر جاتے ہیں۔ اسی علاقے کے ایک دور دراز گاؤں کی سیر کے دوران ہمیں اشتہا محسوس ہوئی تو وہاں نظر آنے والے واحد کیفے کے اندر چلے گئے۔ سہ پہر کے اس وقت وہاں کوئی اور گاہک نہیں تھا۔ کیفے کی مالکن اُدھیڑ عمر آسٹریلین خاتون سے ہم نے دستیاب کھانوں کے بارے میں دریافت کیا تو ہمارے مطلب کی کوئی حلال شے موجود نہیں تھی۔ ہمیں مایوس دیکھ کر یہ خاتون بھی پریشان ہو گئی۔ حالانکہ اس کا کوئی قصور نہیں تھا۔ میں نے پوچھا ‘‘ آپ کے پاس ڈبل روٹی اور انڈے ہیں؟’’ اس نے فوراً اثبات میں جواب دیا۔ ہمارے کہنے پر اس نے ڈبل روٹی، انڈے، پنیر، مکھن، ٹماٹر اور پیاز نکالے۔ ہم سب نے مل جل کر پیاز، ٹماٹر اور انڈوں کا آملیٹ بنایا، ٹوسٹ گرم کیا، مکھن لگایا اور مزے سے تازہ اور گرم کھانا کھایا جو اس علاقے کی نسبت سے غنیمت تھا۔ خاتون ہمیں خوش اور مطمئن دیکھ کر بہت خوش تھی۔

    ہم نے نماز ادا کرنے کی خواہش ظاہر کی تو اس مہمان نواز خاتون کو پہلے تو سمجھ نہیں آیا کہ ہم کیا چاہتے ہیں۔ ہم نے سمجھایا کہ ہمیں صاف جگہ اور صاف کپڑا درکار ہے۔ جب سمجھ آیا تو اس نے فوراً جگہ صاف کی، صاف ستھری چادر بچھائی اور خود دروازے سے باہر چلی گئی۔ نماز کے بعد ہم نے اس مہربان خاتون کا شکریہ ادا کیا تو نہ جانے کیوں اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ شاید یہ اس کی زندگی کا انوکھا تجربہ تھا۔ ایک چھوٹے سے گاؤں میں رہنے والی اس خاتون نے مسلمانوں کے بارے میں نجانے کیا کچھ سن رکھا تھا۔ آج پہلی مرتبہ سامنا ہوا تو وہ ششدر رہ گئی۔ ہمارے لیے بھی یہ ‘پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے’ والا معاملہ تھا۔

    یہ دنیا تو ہے ہی حیرت کدہ! یہاں ایسی حیرتیں اکثر ملتی رہتی ہیں۔ واپسی کے سفر میں، میں سوچ رہا تھا کہ قوموں کی سر بلندی کے لیے وسائل کی نہیں۔ حسنِ اخلاق اور بلند کردار کی ضرورت ہوتی ہے۔ اطمینان و مسرت کے لیے روپے پیسے کی نہیں قناعت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس خطے میں سکون اور اطمینان کی یہی وجوہات ہیں۔

    (آسٹریلیا میں مقیم افسانہ نگار اور کئی کتابوں کے مصنّف طارق مرزا کی ایک منتخب تحریر)

  • جب لیبیا کے مردِ آہن کرنل قذافی نے مہمانوں کے ہاتھ دھلائے!

    جب لیبیا کے مردِ آہن کرنل قذافی نے مہمانوں کے ہاتھ دھلائے!

    عرب دنیا میں لیبیا کے کرنل معمر قذافی طویل ترین عرصے تک برسراقتدار رہنے والے راہ نما تھے۔ انھوں نے لیبیا میں بادشاہت کے خلاف بغاوت کرکے اقتدار سنبھالا تھا اور ستّر کی دہائی میں عرب قوم پرستی کا نعرہ بلند کر کے مقبول ہوئے۔ جب کہ مغربی دنیا میں‌ ان کی شہرت ایک کڑے ناقد اور ہٹ دھرم اور ضدی عرب حکم راں کی حیثیت سے ہوئی۔

    دوسری طرف قذافی لیبیا اور دنیا بھر میں اپنے عجیب و غریب طرزِ زندگی اور منفرد انداز کی وجہ سے بھی مشہور تھے۔ وہ اکثر طویل اور غضب ناک انداز میں خطاب کرتے، خیموں میں شب و روز گزارتے اور ان کا محافظ دستہ خوب صورت دوشیزاؤں پر مشتمل ہوتا۔ ان کی شخصیت کے انوکھے اور غیر معمولی پہلوؤں نے سبھی کی توجہ حاصل کرلی تھی اور یہ عجیب طرزِ حیات ان کی شناخت بن گیا تھا۔ قذافی سے متعلق کئی دل چسپ واقعات مشہور ہیں، جن میں کچھ حقیقی ہیں، اور بہت کچھ قصہ، افسانہ اور فرضی واقعات ہیں۔ یہاں ہم کرنل قذافی کے بارے میں کتاب بعنوان ’’امیر خسرو جرمنی میں‘‘ سے ایک دل چسپ واقعہ نقل کررہے ہیں جس کے مصنف سائنسداں اور معلم ڈاکٹر مشتاق اسماعیل ہیں۔ وہ جرمنی اور بعد میں لیبیا میں کیمیا کے پروفیسر رہے۔ سائنسی درس و تدریس کے شعبہ میں اعلیٰ خدمات انجام دینے والے مشتاق اسماعیل کا تقرر بحیثیت پروفیسر لیبیا کی جامعہ الفاتح میں ہوا تھا۔ یہ 1979 کا زمانہ تھا۔ ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں:

    ’’جب ہم پہنچے تو وہ دوسرے مکانوں جیسا ہی ایک سادہ سا مکان تھا۔ میرے ایک ساتھی پروفیسر نے دروازے پر لگی گھنٹی بجائی، چند لمحوں بعد دروازہ کھلا تو میں نے دیکھا کہ کرنل قذافی سامنے کھڑے ہیں، میرے ساتھیوں نے مجھے نہیں بتایا تھا کہ کہاں جا رہے ہیں، خیر ہم اندر گئے۔ اندر سے بھی مکان ویسا ہی تھا۔ جیسے عام مکان تھے۔ ہر جگہ قالین بچھے ہوئے تھے اور کوئی ساز و سامان نہیں تھا۔ البتہ بیٹھک میں گاؤ تکیے بھی لگے ہوئے تھے۔

    لیبیا کے مردِ آہن کرنل قذافی نے ہم سب کو بٹھایا اور کچھ ادھر ادھر کی باتیں ہوئیں، پھر وہ اندر چلے گئے اور دستی تولیوں کا ایک بنڈل لیے اندر سے آئے۔ پھر قذافی صاحب ایک آفتابہ اور ایک سلفچی لے کر آئے اور باری باری ہم سب کے ہاتھ دھلانے لگے، جب وہ میرے پاس آئے تو میں نے ان سے عربی میں کہا ’’یا اخی! کہ اے میرے بھائی (لیبیا میں کرنل قذافی کو اخی کہہ کر بلایا جاتا تھا) میں غسل خانے میں ہاتھ دھو لیتا ہوں۔‘‘ کرنل قذافی نے کہا ’’نہیں، آپ میرے مہمان ہیں اور میرا فرض ہے کہ میں آپ کے ہاتھ دھلاؤں۔‘‘

    خیر سب کے ہاتھ دھلانے کے بعد کرنل قذافی پھر اندر گئے اور ایک بڑے تشت میں کھانا لے کر آئے۔ ساتھ میں چھوٹی چھوٹی کٹوریوں میں زیتون ،کٹی ہوئی پیاز، اور دوسرے لوازم بھی تھے۔ سب لوگ مل کر اسی تشت میں کھانے لگے، اتنے میں کرنل قذافی کے ہاتھ ایک اچھی سی بوٹی آئی جو انھوں نے ہاتھ بڑھا کر میرے منہ میں ڈال دی۔ کھانا ختم ہوا تو کرنل قذافی نے برتن اندر پہنچائے اور پھر سب کے ہاتھ دھلائے۔ پھر چائے اور قہوہ کا دور چلا۔ اصل میں کرنل قذافی نے اپنے ملک میں یہ قانون بنا رکھا ہے کہ کوئی لیبیائی باشندہ کسی دوسرے لیبیائی کو ملازم نہیں رکھ سکتا۔‘‘

  • امریکہ میں صلاحیت اور ہمّت کا امتحان

    امریکہ میں صلاحیت اور ہمّت کا امتحان

    نیویارک ٹیکس زدہ ہے۔ ہر قدم پر ادائیگی کرنی پڑتی ہے۔

    ایئرپورٹ پر سامان رکھنے کے لئے ٹرالی درکار تھی۔ وہ ایک لوہے کی راڈ سے بندھی تھی۔ ہم نے اسے کھینچ کر نکالنے کی بہت کوشش کی۔ ناکام ہوئے، تب ایک امریکن نے بتایا ڈیڑھ ڈالر ڈالیں گے جب باہر نکلے گی۔ ہم ڈالر کو روپے سے ضرب کر کے پریشان ہونے لگے۔ لیکن کوئی اور راستہ نہ تھا۔

    نیویارک سے باہر نکلنے کا بھی جرمانہ ہے۔ شہر سے نکلتے ہی ایک پل آ گیا…. ٹرائی برو۔ اسے پار کرنے کے ڈھائی ڈالر ٹیکس۔ اس کا ٹوکن بھی ملتا ہے۔ پل دیکھ کر حیران ہو گئے۔ دریائے ہڈسن پر عظیم الشان بارعب ایسا کہ ہم بھی ڈھائی ڈالر ٹیکس دینے کو آمادہ ہو گئے۔ ہائی وے پر آئے تو بھائی ساڑھے دس ڈالر ادا کر چکا تھا۔ اتنی رقم دینے کے بعد جو سڑک نظر آئی وہ اچھی لگنی ضروری تھی۔ دونوں طرف گھاس کے قطعے، جنگلوں اورباغوں کی بہتات۔ کئی جگہ ” یہاں ہرن ہیں” لکھے دیکھا۔ ہم بار بار اس ہائی وے سے گزرے لیکن ہم نے نہ ہرن دیکھے، نہ کوئی اور جانور۔ امریکی اگر ” یہاں شیر ہے” کا بورڈ لگا دیتا تو بھی کوئی فرق نہ پڑتا۔

    راستے میں کئی جگہ ہم نے دیکھا پولیس کی گاڑی درختوں کے جھنڈ میں کھڑی ہے۔ اس میں ریڈار لگا ہے رفتار چیک کرنے کا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ عام گاڑیوں میں اینٹی ریڈار لگا ہے۔ جہاں گاڑی پولیس والوں کے ریڈار رینج میں پہنچی اور وارننگ سگنل کی آواز آنے لگی اب ظاہر ہے ایکسیلیٹر پر پاؤں کا دباؤ کم ہوگا۔ رفتار قابو میں آجائے گی اور ٹکٹ سے بچت ہو گی۔
    یہ نظام ہمیں پسند آیا۔ جمہوری ملک میں پکڑنے اور بچنے کے مواقع برابر ہونے چاہیں۔

    آسمان پر بادل تھے۔ ذرا دیر میں رم جھم بارش ہونے لگی۔ سیاہ سڑک پہلے ہی صاف ستھری تھی اب مزید دھل گئی۔ یہ سب ہمیں متاثر کرنے کے لئے تھا۔ ہم مرعوب ہو گئے۔ ایک آدھ بار شک گزرا کہیں کسی حادثے کا شکار ہو کر جنت تو نہیں سدھار گئے۔ لیکن اعمال پر نظر گئی تو یہ خیال خام نکلا۔

    گاڑی ایک جگہ ٹہر گئی۔ یہ ریسٹ ایریا تھا۔ یہاں ریسٹورنٹ تھا۔ چائے، کافی، کولڈ ڈرنک، چپس، ڈونَٹ، برگر…. ڈالر کے بدلے ملتے تھے۔ باتھ روم مفت تھے۔ ہم نے مال مفت پر حملہ کیا۔

    بھائی کے گھر، لاوڈن ول میں جاگنگ کرتے دور نکل گئے۔ نہ گرد و غبار نے منہ ڈھکا نہ تھکن کا احساس ہوا۔ اس بات سے دل خوش نہیں ہوا۔ برسوں کی عادت ایک دن میں کیسے جاتی۔ دھول مٹی نہ ہو پھر کیا لطف۔ تین میل کا چکر لگا کر واپس گھر آئے تو عجیب سی خوشبو نے استقبال کیا۔ بھاوج نے بتایا ” نہاری پک رہی ہے ” ۔ دوسرے دن پائے، تیسرے دن حلیم۔ پھر جو دعوتوں کا سلسلہ چلا تو گردے، کلیجی، مغز، بریانی، فیرنی کے علاوہ کچھ نہ ملا۔ ہماری سمجھ میں نہ آیا ان لوگوں کے نہاری خلوص، پائے محبت، حلیم مہمان داری کو کیسے روکیں؟

    امریکہ جانے میں یہ بات بھی پوشیدہ تھی کہ سلاد کھائیں گے، پھلوں کا رس پئیں گے۔ ایک آدھ دبلا کرنے کی دوا استعمال کریں گے تو لوگ چہرے کی شادابی اور جسم کی فٹنس دیکھ کر حیران ہوں گے۔ لیکن امریکہ میں پاکستانی ہمیں نہاری، پائے سے مرعوب کر رہے تھے۔

    جس دن ہم امریکہ پہنچے اس کے دوسرے دن بقر عید تھی۔ دوسرے دن دس بجے بھائی ہمیں گاڑی میں سوار کر کے ایک باڑے کی طرف چلا قربانی کے لئے۔

    ایک کمرے میں مشین پر گوشت کاٹتا قصائی کھڑا تھا۔ ہمارے بھائی نے کہا: ” قربانی کے لئے بکرا چاہیے۔”

    اچانک مشین بند ہو گئی۔ اس نے برابر کے نل سے ہاتھ دھوئے اور جھٹ ہم سے ملا لیا۔ ہمارا ہاتھ چھوڑ کر وہ اندر کے کمرے میں گیا اور ایک بکرے کو کان سے پکڑ لایا۔ مول تول ہونے لگا۔ وہ اسّی ڈالر سے کم پر آمادہ نہ تھا۔ بھائی ضد کرنے لگا۔

    قصاب بولا ” میں کچھ اور دے دوں گا۔ ” اتنے میں اندر سے ایک اور بکرا نمودار ہوا۔ قصاب نے اس کی ٹانگ پکڑ لی، ہم سمجھے کچھ اور میں اس کی ٹانگ کاٹ کر دے گا۔ لیکن اس نے ٹانگ چھوڑ کر دائیں طرف سے ایک ڈبہ اٹھا کر دیا۔ اس میں ایک درجن انڈے تھے۔

    بھائی نے کہا صرف ایک درجن، قصاب نے ایک ڈبہ اور پیش کر دیا۔ اور بولا۔۔” بس اب چپ رہنا۔”
    بھائی نے اسّی ڈالر کا چیک کاٹ کر دیا۔ اسی لمحے بکرے کو زمین پر لٹا کر چھری پھیر دی گئی۔ہمیں ایک ڈر تھا۔ یہ سارا گوشت، پائے، مغز، گردوں اور کلیجی کے ساتھ کھانا پڑے گا اور آنے والے دنوں میں ایسا ہی ہوا۔ وہ سارا گوشت ہمارے گوشت میں آ ملا۔ اور اب ساتھ لئے پھرتے ہیں۔

    شوکت صاحب ہمارے بھائی کے سسر ہیں۔ انہیں سیر و سیاحت کا شوق ہے۔ اب پروگرام بننے لگا کہ کھلی فضا میں پکنک منائی جائے بھلا ہمیں کیا اعتراض۔ جارج لیک کا پروگرام بنا۔ البنی سے ایک گھنٹے کا سفر ہے۔ اس کے لئے شوکت صاحب کے ہم نام شوکت علی خان کو فون کیا گیا کہ ٹرک لے کر آ جاؤ، ہم پریشان ہو گئے ۔ بھلا ٹرک کیا کام۔ پھر اس میں کس طرح بیٹھیں گے۔ شوکت علی خان اپنی ایئر کنڈیشن ٹویوٹا ویگن لے آئے۔ یہ ٹرک تھا۔ شوکت علی خان نے لیک ایک گھنٹے سے پہلے پہنچا دیا۔

    یہاں جھیل کی سیر کے لئے چھوٹے چھوٹے خوبصورت جہاز تھے جن میں ایک گھنٹے سے ساڑھے چار گھنٹے کی سیر شامل ہے۔ اس میں جاز اور رقص شامل ہے۔

    ہم نے دریافت کیا۔ "رقاصہ ساتھ لانی ہو گی یا جہاز مہیا کرے گا۔”

    جواب ملا، ” یہ اپنی صلاحیت اور ہمّت پر ہے۔”

    (قمر علی عباسی کے سفر نامہ امریکہ مت جیو سے اقتباس)

  • انگلستان کا باشندہ

    انگلستان کا باشندہ

    آج کے دور میں‌ کسی بھی قوم کا تمدّن، رہن سہن، طرزِ‌ حیات، کسی فرد کی سوچ اور اس کا انفرادی طرزِ عمل، اور تمام حالات و واقعات کا دنیا کو علم ہے، اور یہ کوئی انوکھی یا تعجب خیز بات نہیں ہے، لیکن ایک وقت تھا جب براعظموں پر پھیلے ہوئے ممالک میں‌ بسنے والی اقوام ایک دوسرے کے حالات سے آج کی طرح باخبر نہیں‌ تھیں۔

    برطانوی راج کے دوران جب ہندوستان سے قابل اور باصلاحیت لوگوں خاص طور پر علم و ادب سے وابستہ شخصیات کو برطانیہ جانے کا موقع ملا تو انھوں وہاں کے تمدّن اور طرزِ زندگی کو قریب سے دیکھا اور اسے اردو زبان میں سفرناموں یا خودنوشت سوانح عمریوں کی شکل میں پیش کر دیا جو قارئین میں بے حد مقبول ہوئیں۔

    یہاں ہم معروف جریدے "نگار” کے ایک مضمون "بلادِ مغرب: ایک مشرقی خاتون کی نگاہ سے” سے برطانوی معاشرے کی مثبت جھلکیاں پیش کررہے ہیں جو دراصل آنسہ عنبرہ سلام کے تجربے اور مشاہدے پر مبنی ہیں۔ وہ اس زمانے میں بلادِ انگلستان کی سیاحت کے لیے گئی تھیں جب ہندوستان میں بہت کم لوگ برطانوی معاشرت اور گوروں کی عادات اور مزاج سے واقف تھے۔ اس مضمون میں انھوں نے برطانوی قوم میں‌ وقت کی قدر اور نظم و ضبط، صبر اور برداشت کے حوالے سے لکھا ہے:

    "اس سے زیادہ محبوب چیز اہلِ انگلستان کے لیے اور کوئی نہیں۔ گھر کی معیشت میں، گھر سے باہر کی زندگی میں مشاغلِ معاش میں اور دوسروں کے ساتھ ملنے جلنے میں الغرض ہر جگہ اور ہر وقت تم ان کے اندر ایک تنظیمِ عمل پاؤ گے۔”

    "ہر کام کے لیے ایک وقت اور وقت پر کام کی پابندی۔ یہ ان کے نظامِ عمل کی روح ہے جس سے کبھی کوئی انگریز بیگانہ نظر نہیں آسکتا۔”

    "ریلوے اسٹیشن پر ٹکٹ گھر کے قریب جہاں دو تین سے زیادہ آدمیوں کا ہجوم ہو اور انہوں نے صف بنالی، پھر ہر نیا آنے والا اسی صف کے آخر میں شامل ہوتا جائے گا اور کبھی وہ اس کی کوشش نہ کرے گا کہ اُچک کر یا گھس پل کر پہلے ٹکٹ حاصل کرے، ان کی ذہن ہی میں یہ بات نہیں آتی کہ خلافِ اصول کیونکر کوئی چل سکتا ہے۔”

    "چوراہوں پر پولیس والے نے ہاتھ اٹھایا اور مسافروں، گاڑیوں اور موٹروں کا سیلاب دفعۃً رک گیا، اس نے ہاتھ نیچے کیا اور پھر اسی نظام کے ساتھ آہستہ آہستہ سب چل پڑے۔ ایسا عجیب و غریب منظر ہوتا ہے کہ بے اختیار داد منہ سے نکل جاتی ہے۔ باوجود شدید ازدحام اور کثرتِ آمد و رفت کے وہاں نہ کوئی ہنگامہ نظر آتا ہے، نہ کوئی شوروغل، ہر کام سکون کے ساتھ ہو رہا ہے۔ ہر شخص خاموشی کے ساتھ اپنے کام میں منہمک ہے اور یہ سب نتیجہ ہے انتظامِ معیشت کا اور فرض شناسی کا۔”

    "ایک مشرقی انسان کی طرح نہ ان کے ہاں کاہلی کی دیر ہے نہ گھبراہٹ کی جلدی۔ تم اگر کسی ضرورت سے ڈاک خانہ میں جاؤ گے تو وہاں کا ہجوم دیکھ کر حیران رہ جاؤ گے اور تم کو یقین ہو جائے گا کہ ضرورت پوری نہیں ہوسکتی، لیکن اگر تم صبر کے ساتھ صف میں شامل ہوگئے تو پھر دیکھو گے کہ چند منٹ کے اندر تم سے آگے کا ہجوم چھٹ گیا ہے اور تمہارے بعد اس سے زیادہ لمبی قطار آدمیوں کی بن گئی ہے۔ وہاں یہ رات دن کا مشغلہ ہے۔ اور ہر شخص اس میکانکی زندگی کا عادی ہے۔”

    "تم کسی بڑے مخزن (اسٹور ہاؤس) یا تجارتی ذخیرہ کی دکان میں پہنچ جاؤ اور وہاں کے انہماک کو دیکھو، تم یہ معلوم کر کے حیران رہ جاؤ گے کہ ایک دن میں وہاں چار لاکھ آدمی آتے جاتے ہیں، یہاں دروازہ سے داخل ہوتے ہی تم کو مختلف تختیاں لکھی ہوئی نظر آئیں گی جو مختلف سمتوں کا حال بتاتی ہیں اور ہر سمت میں مختلف قسم کے مال کے ذخیروں کا پتہ بتاتی ہیں۔ پھر تم ذرا آگے بڑھے کہ وہاں خوش سلیقہ ملازم (مرد و عورت) شگفتہ روئی کے ساتھ آئے اور تمہاری ضروریات کے متعلق تمام آسانیاں بہم پہونچائیں۔”

    "ٹیلیفون سڑک پر ہر ہر جگہ تم کو ملیں گے اور فوراً تم کو اس مکان کے نمبر سے ملا دیں گے جہاں سے تم گفتگو کرنا چاہتے ہو۔ زمین کے اوپر نیچے یہاں ریل کا ایسا ہی جال ہے جیسے جسم انسان میں شرائن و ورید، لیکن ہر گاڑی میں تمام تفصیلی نقشے متعدد اشارات و ہدایات موجود رہتی ہیں جس سے ایک شخص بہ آسانی منزلِ مقصود تک پہنچ جاتا ہے، پھر یوں بھی ان نقشوں کے دیکھنے کی ضرورت کس کو ہوتی ہے۔ ریل کے ملازم خود تمہاری مدد کرنے کے لیے ہر وقت ہر جگہ غلاموں کی طرح موجود رہتے ہیں۔”

    "انگلستان کا باشندہ اپنے قواعد کو کبھی بیکار و معطل نہیں رہنے دیتا اور پوری ہمّت کے ساتھ وہ ان سے کام لیتا ہے۔ اور یہی نظامِ عمل ہے کہ وہ حفظِ نشاط کے لیے کافی آرام بھی حاصل کرسکتے ہیں۔ چنانچہ تم دیکھو گے کہ ابتدائی مدارس سے لے کر بڑی بڑی کالجوں تک یہ دستور ہے کہ نو بجے صبح سے قبل وہاں تعلیم شروع نہیں ہوتی۔ اور کارخانے والے مجبور ہیں کہ اتوار اور نصف دن سنیچر کا تعطیل کے لیے وقف کریں۔ اسی طرح ہر طبقہ کے لوگ سالانہ تعطیل چند دن کی نہایت لطف سے مناتے ہیں جس میں مرید و مخدوم سب برابر ہیں۔”

    "ایک خاتون میری دوست ہیں جن کے ایک چھوٹا بچّہ ہے اور خود ہی ان کو گھر کا سارا انتظام اور بچّہ کی نگرانی کرنی پڑتی ہے، لیکن اتوار کے دن وہ خود بھی تعطیل مناتی ہیں اور ایک دن کے لیے کسی عورت کی خدمات حاصل کر لیتی ہیں۔ اس راحت کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ تعطیل کے بعد لوگ نہایت نشاط اور ناز و قوّت کے ساتھ کام پر جاتے ہیں اور ان کو کوئی تکان نہیں ہوتی۔”

  • دمشق: جب ہر خاص و عام ننگے پاؤں‌ گلیوں میں نکل آیا

    دمشق: جب ہر خاص و عام ننگے پاؤں‌ گلیوں میں نکل آیا

    ابن بطوطہ سے کون واقف نہیں۔ سیر و سیّاحت کے دلدادہ ابنِ بطوطہ ایک مؤرخ اور وقائع نگار تھے جنھوں نے نوجوانی میں حج کی ادائیگی کے ساتھ دنیا بھر کی سیر کرنے کی ٹھانی اور گھر سے نکل پڑے۔

    اپنے اس سفر میں‌ انھوں‌ نے مختلف ملکوں میں قیام کے دوران سیر و سیّاحت کا شوق پورا کیا۔ انھیں‌ حکم رانوں، امرا اور اپنے وقت کی عالم فاضل شخصیات اور قابل لوگوں سے ملاقات کرنے کا موقع ملا اور انھوں‌ نے سارا آنکھوں‌ دیکھا حال اور ماجرا کتاب میں محفوظ کرلیا۔ ان کا سفر نامہ آج بھی مقبول ہے۔

    ابنِ بطوطہ کے سفرنامے کے مختلف اردو تراجم آج بھی ذوق و شوق اور دل چسپی سے پڑھے جاتے ہیں۔ انہی میں‌ سے ایک ترجمے سے یہاں وہ سطور نقل کی جارہی ہیں‌ جس میں ابنِ بطوطہ نے اپنے سفرِ شام کے دوران پھوٹ پڑنے والی وبا کا تذکرہ کیا ہے۔

    ابنِ بطوطہ لکھتے ہیں:
    "میں عظیم طاعون کے زمانے میں ربیع الآخر سن 749 ھجری (1348عیسوی) کے آخری دنوں میں دمشق پہنچا۔ وہاں‌ دیکھا کہ لوگ مسجد میں‌ حیران کُن حد تک تعظیم میں مشغول ہیں۔ بادشاہ کے نائب کے حکم سے منادی کی گئی کہ دمشق کے سب لوگ تین دن روزہ رکھیں اور بازاروں میں کھانا نہ پکائیں۔ لوگوں نے لگا تار تین دن روزہ رکھا۔ آخری روزہ جمعرات کے دن تھا۔ اس کے بعد تمام امرا، شرفا، جج، فقہا اور مختلف طبقاتِ عصر جامع مسجد میں جمع ہوئے اور ان سے مسجد بھر گئی۔

    انھوں نے یہاں جمعہ کی رات نماز، ذکر اور دعا میں گزاری۔ اس کے بعد فجر کی نماز پڑھی۔ اس کے بعد وہ سب کے سب پیدل باہر نکلے۔ ان کے ہاتھوں میں قرآن مجید تھا اور امرا بھی ننگے پاؤں تھے۔ شہر کے تمام لوگ، مرد عورتیں، چھوٹے بڑے، سب کے سب نکلے۔ یہودی اپنی تورات کے ساتھ نکلے۔ عیسائی انجیل کے ساتھ نکلے۔ ان کی عورتیں اور بچے بھی ان کے ہم راہ تھے۔ وہ سب کے سب اللہ تعالی کے حضور عجز و انکسار کے ساتھ اپنے کتاب اور انبیا کا واسطہ دے کر دعا کر رہے تھے۔

    وہ پیدل (باہر کی) مسجد کی طرف جا رہے تھے۔ یہاں پہنچ کر وہ زوال کے وقت تک عاجزی سے رو رو کر دعا کرتے رہے۔ اس کے بعد وہ شہر کی جانب پلٹے اور نماز جمعہ ادا کی۔ اس کے بعد اللہ تعالی نے وبا کو ہلکا کیا تو اس وقت مرنے والوں کی تعداد روزانہ 2000 تک پہنچ گئی تھی۔”

    اپنے اس قیام اور قریبی شہروں‌ کے سفر کی روداد لکھتے ہوئے ابنِ بطوطہ نے بتایا ہے کہ وبا ہر طرف پھیلی ہوئی تھی اور انھیں‌ جن لوگوں‌ سے ملنا تھا ان میں سے بھی اکثر موت کے منہ میں‌ جاچکے تھے۔

  • روحانی اقدار سے مالا مال، مادّہ پرستی سے دور چینی باشندوں کا تذکرہ!

    روحانی اقدار سے مالا مال، مادّہ پرستی سے دور چینی باشندوں کا تذکرہ!

    چین کے پندرہ، سولہ روزہ قیام میں، میں نے یہاں کے چار شہر بیجنگ، ہانچو، شنگھائی اور سوچو دیکھے۔

    چاروں ایک سے ایک اور ثقافتی مزاج و انداز میں باہم مماثلت رکھنے کے باوجود، ایک دوسرے سے ممتاز و منفرد تھے۔ ان شہروں میں رہ کر کیا کیا دیکھا اس کی تفصیل بہت لمبی ہے اور ممکن ہے دوسروں کے لیے زیادہ دل چسپی کا باعث بھی نہ ہو۔ یوں سمجھ لیجیے کہ وہ ساری چیزیں اور وہ سارے مقامات دیکھے جنہیں اہم کہا جاسکتا ہے۔ ہم سیاح نہیں بلکہ ایک عظیم دوست ملک کے مہمان تھے۔ اس لیے انہوں نے ہمیں وہ ادارے اور مقامات بھی دکھائے جو ان کی نظر میں اہمیت رکھتے تھے اور وہ علاقے اور جگہیں بھی دکھائیں جنہیں ہم دیکھنے کا اشتیاق رکھتے تھے۔

    اس طرح ہم نے جو اہم چیزیں یا مقامات دیکھے ان میں مغربی طرز کے عالی شان ہوٹل، پُر رونق بازار، تھیٹر ہال، سرکس ہاﺅس، ریشم اور لوہے کے کارخانے، کنول کے پھولوں سے لدی بڑی بڑی جھیلیں، لہلہاتے ہوئے زرعی فارم، آثار قدیمہ سے متعلق اہم عمارات، محلات و نوادرات، دست کاری اور گھریلو صنعتوں کے مراکز، گوتم بدھ کے مندر و مجسمات، ایئرپورٹ، ریلوے اسٹیشن اور بس کے اڈے، کھیل کود کے میدان، بڑے بڑے پارک، مسجدیں اور دوسری عبادت گاہیں، طباعتی و اشاعتی ادارے، شہدائے آزادی کی یادگاریں، نام ور راہ نماﺅں کی تصویریں اور آرام گاہیں، گریٹ عوامی ہال، ماﺅ کی شبیہہ، دیوار چین وغیرہ شامل ہیں۔

    یہ تو دیکھنے اور کھانے سے متعلق اشیا، مقامات کا تذکرہ تھا۔ ملاقات کن کن لوگوں سے ہوئی؟ مختصر جواب یہ ہے کہ عوامی جمہوریہ چین کی قومی اسمبلی کے بعض ارکان سے لے کر، چین کے صحافیوں، مترجموں، پروفیسروں، شاعروں، ناول نگاروں، افسانہ نویسوں، بچوں کے ادیبوں، رائٹر ایسوسی ایشن کے مرکزی اور ذیلی انجمنوں کے سربراہوں اور کارکنوں، یونیورسٹی کے اساتذہ و طلبہ و طالبات، بعض بڑے صنعتی اداروں کے منتظمین، کارخانوں کے مزدوروں، کسانوں، ماہی گیروں، اخبار نویسوں، میڈیا کے نمائندوں اور پاکستانی سفارت خانے کے افسروں سمیت سبھی سے ملے۔

    شاہراہوں پر کاروں اور بسوں کے متوازی دائیں بائیں پیدل چلنے والے افراد، سائیکل سوار، پارکوں میں ٹہلتے ہوئے اور ورزش کرتے ہوئے عمر رسیدہ عورت، مرد، صبح کو فوجی انداز کی پریڈ کرتے ہوئے طلبہ و طالبات میں سے بھی بعض سے ملے، باتیں کیں اور اس طرح چینی عوامی زندگی کے وہ سارے رخ دیکھنے کو ملے جو پندرہ روزہ قیام میں ممکن تھے۔

    چینیوں کے شاداب اور مسکراتے ہوئے چہرے، ان کی رفتار و گفتار، ان کے مجلسی آداب ان کے سماجی رویّے اور ان کی تمدنی زندگی کے انداز صاف بتاتے ہیں کہ وہ مغرب کی اس مادہ پرستی سے بہت دور ہیں جس نے دولت و سرمائے کی فراوانی کے باوصف، مغرب کو جسم فروشی اور جنسی تلذذ کے جبر و عذاب میں مبتلا کردیا ہے اور جس کے سبب ان کی تہذیبی زندگی کا رخ روز بروز مسخ ہوتا جارہا ہے۔

    میرے لیے حد درجہ خوش کن اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ چین جدید تر صنعتی زندگی کی سہولتوں سے آراستہ اور ہر قسم کے مذہبی عقیدے سے بے نیاز رہ کر بھی روحانی اقدار سے مالا مال ہے۔ مشرق کی بہت سی روایتوں کا امین و پاس دار ہے اور کسی مذہبی عقیدے سے منسلک نہ ہونے کے باوصف اس کی معاشرتی و سماجی زندگی اتنی ہی پاکیزہ و صاف ستھری ہے جتنی کہ انسان کو انسانیت کی سطح پر زندہ رکھنے کے لیے از بس ضروری ہے۔
    (ڈاکٹر فرمان فتح پوری کے قلم سے)