Tag: سفر نامہ

  • تمہارے انڈیا میں مہنگائی نہیں ہے؟

    تمہارے انڈیا میں مہنگائی نہیں ہے؟

    عتیق صدیقی 1979ء میں لکھنؤ اپنے رشتہ داروں سے ملنے کے لیے گئے تھے اور اس وقت وہ نوجوان تھے۔ عتیق صدیقی کا سفرنامہ، بعنوان سفرِ گزشت دراصل ایک عام آدمی کا سفرنامہ ہے جو بسوں ریلوں رکشوں اور پیدل اپنے رشتے داروں سے ملنے ملتان سے لکھنؤ، ملیح آباد وغیرہ گئے۔1979 میں انھوں نے یہ سفر کیا تھا۔

    عتیق صدیقی لکھنؤ جانے کے لیے مسافروں سے بھری ایک ٹرین میں بیٹھے تو اس میں ایک ایسی پاکستانی خاتون بھی سفر کر رہی تھیں جن کی کہانی سن کر دوسرے مسافر بھی آب دیدہ ہو گئے۔ لاہور کی رہائشی یہ خاتون برصغیر کی تقسیم کے وقت کا ایک عہد نبھانے کے لیے انبالہ جا رہی تھیں۔ ان کے ہمراہ برتنوں سے بھرا ایک تھیلا تھا۔ یہ برتن انہوں نے برسوں سے سنبھال کر رکھے تھے۔ تقسیم کے وقت لاہور میں انہیں ایک سکھ خاندان نے پناہ دی تھی جو بعد ازاں ہندوستان روانہ ہو گیا تھا لیکن جاتے جاتے اس گھرانے کی بہو نے اپنے برتنوں پر اس طرح ایک نگاہِ حسرت کی جیسے کوئی اپنے کسی پیارے کو آخری بار دیکھ رہا ہو۔ اس لمحے ان خاتون نے خود سے عہد کیا کہ وقت آنے پر یہ امانت انبالہ ضرور پہنچائیں گی۔ ٹرین میں بے انتہا رش کی وجہ سے وہ ایک سردار جی پر خفا ہو رہی تھیں جن کی پتلون پر خاتون کے ٹرنک کا کونا لگ جانے کی وجہ سے کھرونچا پڑ گیا تھا، رفتہ رفتہ دوسرے مسافروں نے بھی اس نوک جھونک میں دل چسپی لینا شروع کر دی، آئیے یہ منظر دیکھتے ہیں:

    ’’آپ پاکستان سے آئی ہیں اماں‘‘۔۔ کسی نے پوچھا۔

    ’’ہاں‘‘۔ خاتون نے مختصر سا جواب دیا

    ’’کیا حال ہیں پاکستان کے؟‘‘ ایک لہکتی آواز آئی۔

    ’’بہت اچھے۔ کرم ہے سوہنے رب کا۔‘‘

    ’’سنا ہے مہنگائی بہت ہے پاکستان میں۔‘‘ ایک نئی آواز ابھری۔

    ’’مہنگائی! مہنگائی کہاں نہیں ہے؟ تمہارے انڈیا میں مہنگائی نہیں ہے؟ مہنگائی سے تو دنیا پریشان ہے۔‘‘

    ’’مگر وہاں آمدنی بھی زیادہ ہے جی۔ ‘‘ کسی نے اعتراف حقیقت کیا۔ ’’ لوگ باگ زیادہ خوش ہیں ہمارے ملک سے۔‘‘

    خاتون بولیں،’’ تو اور کیا۔ مہنگائی ہو بھی تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بازار بھرے رہتے ہیں خریداروں سے۔ ‘‘ خاتون کے لہجے میں فخر تھا۔ ’’ آج کل ہی دیکھو، وہاں آلو دس روپے کلو بک رہے ہیں مگر لوگوں نے کھانا نہیں چھوڑ دیے، اسی طرح خرید رہے ہیں جیسے روپے ڈیڑھ روپے میں خریدے جاتے تھے۔‘‘

    ’’دس روپے کلو آلو۔‘‘ کئی تحیر آمیز آوازیں ایک ساتھ ابھریں اور چند لمحوں کے لیے خاموشی چھا گئی۔

    ’’واہ بھئی واہ پاکستان۔‘‘ کھرونچا زدہ پتلون والے سردار جی بدبدائے تھے۔

    خاتون نے ان کی بات سن لی اور بھنا کر زور سے بولیں،’’ وہاں تیری طرح کپڑے پر ذرا سی لکیر آ جانے سے کوئی اتنی بدتمیزیاں بھی نہیں کرتا عورت ذات سے۔ ایک تو کیا دس پتلونیں پھٹ جائیں، کسی کو پروا نہیں ہوتی۔‘‘

    ان کی اس بات پر زور کا قہقہہ پڑا۔

  • ‘امراء قسطنطنیہ کا سفر کیوں نہیں کرتے!’

    ‘امراء قسطنطنیہ کا سفر کیوں نہیں کرتے!’

    آبنائے باسفورس کی شاخ جو دور تک چلی گئی، یہ شہر اس کے دو کناروں پر آباد ہے۔ اور اس وجہ سے اس کے دو حصّے بن گئے ہیں۔

    ایک حصّہ استنبول کہلاتا ہے اور تمام بڑی بڑی مسجدیں، کتب خانے، سلاطین کے مقبرے اسی حصّہ میں ہیں۔ مسلمانوں کی آبادی بھی کثرت سے یہیں ہے۔ دوسرا حصہ پیرہ سے شروع ہوتا ہے اور اس کے انتہائی جانب پر بشک طاس وغیرہ واقع ہیں۔ جہاں سلطان کا ایوانِ شاہی اور قصرِ عدالت ہے۔ پیرہ کی دوسری طرف غلطہ ہے اور چونکہ تمام بڑے بڑے یورپین سوداگر اور سفرائے سلطنت یہیں سکونت رکھتے ہیں۔ اس کو یورپین آبادی کہنا زیادہ مناسب ہے۔

    کہتے ہیں کہ دنیا کا کوئی شہر قسطنطنیہ کے برابر خوش منظر نہیں ہے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ منظر کے لحاظ سے اس سے زیادہ خوش نما ہونا خیال میں بھی نہیں آتا۔ اسی لحاظ سے اس کی بندر گاہ کو انگریزی میں گولڈن ہارن یعنی سنہری سینگ کہتے ہیں۔ کہیں کہیں عین دریا کے کنارے پر عمارتوں کا سلسلہ ہے اور دور تک چلا گیا ہے۔ عمارتوں کے آگے جو زمین ہے وہ نہایت ہموار اور صاف ہے۔ اس کی سطح سمندر کی سطح کے بالکل برابر ہے۔ اور وہاں عجیب خوش نما منظر پیدا ہو گیا ہے۔

    شہر کی وسعتِ تمدن کا اس اسے اندازہ ہوسکتا ہے کہ خاص استنبول میں پانچ سو جامع مسجدیں۔ ایک سو اکھتّر حمام۔ تین سو چونیتیس سرائیں۔ ایک سو چونسٹھ مدارس قدیم، پانچ سو مدارس جدید۔ بارہ کالج۔ پینتالیس کتب خانے۔ تین سو پانچ خانقاہیں۔ اڑتالیس چھاپہ خانے ہیں۔

    کاروبار اور کثرتِ آمدورفت کی یہ کیفیت ہے کہ متعدد ٹراموے گاڑیاں۔ بارہ دخانی جہاز۔ زمین کے اندر کی ریل، معمولی ریلیں جو ہر آدھ گھٹنے کے بعد چھوٹتی ہیں ہر وقت چلتی رہتی ہیں۔ اور باوجود اس کے سڑکوں پر پیادہ پا چلنے والوں کا اس قدر ہجوم رہتا ہے کہ ہر وقت میلہ سا معلوم ہوتا ہے۔ غلطہ اور استنبول کے درمیان جو پل ہے اس پر سے گزرنے کا محصول فی شخص ایک پیسہ ہے۔ اس کی روزانہ کی آمدنی پانچ چھ ہزار روپے سے کم نہیں ہے۔

    قہوہ کانے نہایت کثرت سے ہیں۔ میرے تخمینہ میں چار پانچ ہزار سے کم نہ ہوں گے۔ بعض بعض نہایت عظیم الشّان ہیں۔ جن کی عمارتیں شاہی محل معلوم ہوتی ہیں۔ قہوہ خانوں میں ہمیشہ ہر قسم کے شربت اور چائے قہوہ وغیرہ مہیا رہتا ہے۔ اکثر قہوہ خانے دریا کے ساحل پر اور بعض عین دریا میں ہیں جن کے لیے لکڑی کا پل بنا ہوا ہے۔ قہوہ خانوں میں روزانہ اخبارات بھی موجود رہتے ہیں۔ لوگ قہوہ پیتے جاتے ہیں اور اخبارات دیکھے جاتے ہیں۔ قسطنطنیہ بلکہ ان تمام ممالک میں قہوہ خانے ضروریاتِ زندگی میں محسوب ہیں۔ میرے عرب احباب جب مجھ سے سنتے تھے کہ ہندوستان میں اس کا رواج نہیں تو تعجب سے کہتے تھے: "وہاں لوگ جی کیونکر بہلاتے ہیں۔”ان ملکوں میں دوستوں کے ملنے جلنے اور گرمیِ صحبت کے موقعے یہی قہوہ خانے ہیں۔

    افسوس ہے کہ ہندوستانیوں کو ان باتوں کا ذوق نہیں۔ وہ جانتے ہی نہیں کہ اس قسم کی عام صحبتیں زندگی کی دل چسپی کے لیے کس قدر ضروری ہیں۔ اور طبیعت کی شگفتگی پر ان کا کیا اثر پڑتا ہے۔ دوستانہ مجلسیں ہمارے ہاں بھی ہیں۔ جس کا طریقہ یہ ہے کہ کسی دوست کے مکان پر دو چار احباب کبھی کبھی مل بیٹھتے ہیں لیکن اس طریقہ میں دو بڑے نقص ہیں۔ اوّل تو تفریح کے جلسے پُر فضا مقامات میں ہونے چاہیئیں کہ تازہ اور لطیف ہوا کی وجہ سے صحتِ بدنی کو فائدہ پہنچے۔دوسرے سخت خرابی یہ ہے کہ یہ جلسے پرائیوٹ جلسے ہوتے ہیں اس لیے ان میں غیبت، شکایت اور اسی قسم کی لغویات کے سوا اور کوئی تذکرہ نہیں ہوتا۔ بخلاف قہوہ خانوں کے جہاں مجمعِ عام کی وجہ سے اس قسم کی باتوں کا موقع نہیں مل سکتا۔

    قسطنطنیہ اور مصر میں، مَیں ہمیشہ شام کے وقت دوستوں کے قہوہ خانوں میں بیٹھا کرتا تھا۔ لیکن میں نے سوائے کبھی اس قسم کے تذکرے نہیں سنے۔ تفریح اور بذلہ سنجی کے سوا وہاں کوئی ذکر نہیں ہوتا تھا۔ اور نہ ہو سکتا تھا۔

    قسطنطنیہ کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اگر کسی کو یورپین اور ایشیائی تمدن کی تصویر ایک مرقع میں دیکھنی ہو تو یہاں دیکھ سکتا ہے۔ کتب فروشوں کی دکانوں کی سیر کرو تو ایک طرف نہایت وسیع دکان ہے۔ سنگِ رخام کا فرش ہے۔ شیشہ کی نہایت خوبصورت الماریاں ہیں۔ کتابیں جس قدر ہیں مجلّد اور جلدیں بھی معمولی نہیں بلکہ عموماً مطلا و مذہب۔ مالکِ دکان میز کرسی لگائے بیٹھا ہے۔ دو تین کم سن خوش لباس لڑکے اِدھر اُدھر کام میں لگے ہیں۔ تم نے دکان میں قدم رکھا۔ ایک لڑکے نے کرسی لا کر سامنے رکھ دی۔ اور کتابوں کی فہرست حوالہ کی۔ قیمت فہرست میں مذکور ہے۔ اس میں کمی بیشی کا احتمال نہیں۔

    دوسری طرف سڑک کے کنارے چبوتروں پر کتابوں کا بے قاعدہ ڈھیر لگا ہے۔ زمین کا فرز اور وہ بھی اس قدر مختصر کہ تین چار آدمی سے زیادہ کی گنجائش نہیں۔ قیمت چکانے میں گھنٹوں کا عرصہ درکار ہے۔ اسی طرح پیشہ و صنعت کی دکانیں۔ دونوں نمونہ کی موجود ہیں۔ عام صفائی اور زیب و زینت کا بھی یہی حال ہے۔

    غلطہ کو دیکھو تو یورپ کا ٹکڑا معلوم ہوتا ہے۔ دکانیں بلند اور آراستہ۔ سڑکیں وسیع اور ہموار۔ کیچڑ اور نجاست کا کہیں نام نہیں۔ بخلاف اس کے استنبول میں جہاں زیادہ تر مسلمانوں کی آبادی ہے۔ اکثر سڑکیں ناصاف اور بعض بعض جگہ اس قدر ناہموار کہ چلنا مشکل۔

    اس شہر میں آ کر ایک سیاح کے دل میں غالباً جو خیال سب سے پہلے آتا ہو گا وہ یہ ہو گا کہ اس عظیم الشان دارُالسّلطنت کے دو حصوں میں اس قدر اختلافِ حالت کیوں ہے؟ چنانچہ میرے دل میں سب سے پہلے یہی خیال آیا۔ میں نے اس کے متعلق کچھ بحث و تفتیش کی۔ باشندوں کے اختلاف حالت کا سبب تو میں نے آسانی سے معلوم کر لیا۔ یعنی مسلمانوں کا افلاس اور دوسری قوموں کا تموّل۔ لیکن سڑکوں اور گزر گاہوں کی ناہمواری و غلاظت کا بظاہر یہ سبب قرار نہیں پا سکتا تھا۔ اس لیے میں نے ایک معزز ترکی افسر یعنی حسین حسیب آفندی پولیس کمشنر سے دریافت کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہماری میونسپلٹی کے ٹیکس بہت کم ہیں۔ بہت سی چیزیں محصول سے معاف ہیں۔ لیکن غلطہ میں یورپین سوداگر خود اپنی خواہش سے بڑے بڑے ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ اس لیے میونسپلٹی اس رقموں کو فیاضی سے صَرف کرسکتی ہے۔ مجھے خیال ہوا کہ یہ وہی غلطہ ہے۔ جس کی نسبت ابنِ بطوطہ نے نجاست اور میلے پن کی سخت شکایت کی ہے۔ یا اب ان کو صفائی و پاکیزگی کا یہ اہتمام ہے کہ اس کے لیے بڑے بڑے ٹیکس ادا کرتے ہیں۔

    حقیقت یہ ہے کہ صفائی اور خوش سلیقگی آج کل یورپ کا خمیر بن گیا ہے۔
    یہاں کی عمارتیں ہندوستان کی عمارتوں سے بالکل جدا وضع کی ہیں۔ مکانات عموماً منزلہ، چو منزلہ ہیں۔ صحن مطلق نہیں ہوتا۔ عمارتیں تمام لکڑی کی ہیں۔ بڑے بڑے امرا اور پاشاؤں کے محل بھی لکڑی ہی کے ہیں۔ اور یہی سبب ہے کہ یہاں اکثر آگ لگتی ہے۔ کوئی مہینہ بلکہ ہفتہ خالی نہیں جاتا کہ دو چار گھر آگ سے جل کر تباہ نہ ہوں۔ اور کبھی کبھی تو محلے کے محلے جل کر خاک و سیاہ ہو جاتے ہیں۔ آگ بجھانے کے لیے سلطنت کی طرف سے نہایت اہتمام ہے۔ کئی سو آدمی خاص اس کام پر مقرر ہیں۔ ایک نہایت بلند منارہ بنا ہوا جس پر چند ملازم ہر وقت موجود رہتے ہیں کہ جس وقت کہیں آگ لگتی دیکھیں فوراً خبر کریں۔ اس قسم کے اور بھی چھوٹے چھوٹے منارے جا بجا بنے ہوئے ہیں۔ جس وقت کہیں آگ لگتی ہے فوراً توپیں سر ہوتی ہیں اور شہر کے ہر حصّے کے آگ بجھانے والے ملازم تمام آلات کے ساتھ موقع پر پہنچ جاتے ہیں۔ ان کو حکم ہے کہ بے تحاشہ دوڑتے جائیں۔ یہاں تک اگر کوئی راہ چلتا ان کی جھپٹ میں آ کر پس جائے تو کچھ الزام نہیں۔ میں نے لوگوں سے دریافت کیا کہ پتھر کی عمارتیں کیوں نہیں بنتیں۔ معلوم ہوا کہ سردی کے موسم میں سخت تکلیف ہوتی ہے اور تندرستی کو نقصان پہنچتا ہے۔

    آب و ہوا یہاں کی نہایت عمدہ ہے۔ جاڑوں میں سخت سردی پڑتی ہے اور کبھی کبھی برف بھی گرتی ہے۔ گرمیوں کا موسم جس کا مجھ کو خود تجربہ ہوا۔ اس قدر خوش گوار ہے کہ بیان نہیں ہوسکتا۔ تعجب ہے کہ ہمارے یہاں کے امرا شملہ اور نینی تال کی بجائے قسطنطنیہ کا سفر کیوں نہیں کرتے!

  • قدیم شہر اسکندریہ، یوسف کمبل پوش اور حبشہ کا مصطفیٰ!

    قدیم شہر اسکندریہ، یوسف کمبل پوش اور حبشہ کا مصطفیٰ!

    تیرھویں تاریخ فروری سنہ 1838ء کے جہاز ہمارا شہر اسکندریہ میں پہنچا۔

    جہاز سے اتر کر مع دوست و احباب روانہ شہر ہوا۔ کنارے دریا کے لڑکے عرب کے گدھے کرائے کے لیے ہوئے کھڑے تھے۔ ہر وضع و شریف کو ان پر سوار کر کے لے جاتے۔ ہر چند ابتدا میں اس سواری سے نفرت ہوئی، لیکن بموجب ہر ملکے و ہر رسمے آخر ہم نے بھی گدھوں کی سواری کی اور سرا کی راہ لی۔

    گلی کوچے تنگ اور راہی بہت تھے۔ اس لیے لڑکے گدھے والے آگے بجائے بچو بچو کے یمشی یمشی پکارتے، لوگوں کو آگے سے ہٹاتے، نہیں تو گزرنا اس راہ سے دشوار تھا۔ بندہ راہ بھر اس شہر کا تماشا دیکھتا چلا۔ کنارے شہر کے محمد علی شاہ مصر کے دو تین مکان بنائے ہوئے نظر آئے۔ ایک قلعہ قدیمی تھا، وہیں اس میں توپیں ناقص از کارِ رفتہ پڑیں۔ محمد علی شاہ بادشاہ مصر کا ہے۔ بہتّر برس کی عمر رکھتا ہے۔ بہت صاحبِ تدبیر و انتظام ہے، جہاز جنگی اس کے پُراستحکام۔ صفائی اور سب باتوں میں مثلِ جہازِ انگریزی۔ مگر افسر و جہاز کی پوشاک نفاست میں بہ نسبت جہازیوں انگریزی کے کم تھی۔ عقلِ شاہ مصر پر صد ہزار آفریں کہ ایسی باتیں رواج دیں۔ غرض کہ دیکھتا بھالتا گدھے پر سوار سرا میں پہنچا۔ اسباب اُتارا۔ پھر سیر کرنے کنارے دریا کے آیا۔

    کپتان ملریز جہاز کے سے ملاقات ہوئی۔ اس نے نہایت اشتیاق سے یہ بات فرمائی کہ آؤ میں نے ذکر تمھارا یہاں کے بڑے صاحب سے کیا ہے اور تمھاری تلاش میں تھا۔ بندہ بپاسِ خاطر اُن کی ہمراہ ہو کر بڑے صاحب کی ملاقات کو گیا۔ بڑے صاحب اور میم اُن کی نے نہایت عنایت فرمائی اور وقت شام کے دعوت کی۔ بندے نے قبول کر کے مان لی۔ بعد اس کے صاحب موصوف سے یہ غرض کی کہ میں ارادہ رکھتا ہوں یہاں کے مکانوں اور عجائبات کو دیکھوں۔ کوئی آدمی ہوشیار اپنا میرے ساتھ کیجیے کہ ایسے مکانات اور اشیائے عجیب مجھ کو دکھلاوے۔ انھوں نے ایک آدمی رفیق اپنا میرے ساتھ کیا۔ نام اس کا مصطفیٰ تھا کہ یہ شخص اچھی طرح سے سب مکان تم کو دکھلائے گا۔

    میں نے مصطفیٰ کے ساتھ باہر آ کر پوچھا۔ وطن تیرا کہاں ہے اور نام تیرا کیا۔ اس نے کہا وطن میرا حبش ہے اور نام مصطفیٰ۔ ہندی زبان میں بات کی۔ مجھے حیرت تھی کہ رہنے والا حبش کا ہے اردو زبان کیونکر جانتا ہے۔ پھر اس نے چٹھی نیک نامی اپنی کی دکھلائی۔ اُس میں تعریف چستی اور چالاکی اُس کی لکھی تھی کہ یہ شخص بہت کار دان اور دانا ہے۔ ساتھ ہمارے ہندوستان، ایران، توران، انگلستان، فرانسیس میں پھرا ہے۔ میں نے چٹھی دیکھ کر اُس سے حال لندن کا پوچھا کہ آیا وہ شہر تجھ کو کچھ بھایا۔ کہا وصف اُس کا ہرگز نہیں قابلِ بیان ہے۔ فی الواقعی وہ ملکِ پرستان ہے۔ جن کا میں نوکر تھا انھوں نے لندن میں تین ہزار روپے مجھ کو دیے تھے۔ میں نے سب پریزادوں کی صحبت میں صرف کیے۔ یہ سن کر ہم سب ہنسے اور اُس کے ساتھ باہر آئے۔

    وہ باہر نکل کر دوڑا۔ عرب بچّوں کو جو گدھے کرائے کے اپنے ساتھ رکھتے، دو چار لات مکّے مار کر اپنے ساتھ مع تین گدھوں تیز قدم کے لایا۔ مجھ کو اور ہیڈ صاحب اور پرنکل صاحب کو ان پر سوار کر کے چلا اور گدھوں کو ہانک کر دوڑایا۔ اتنے میں ہیڈ صاحب کا گدھا ٹھوکر کھا کر گرا اور ہیڈ صاحب کو گرایا۔ وہ بچارے گر کر بہت نادم اور شرمندہ ہوئے۔ مصطفیٰ نے دو تین کوڑے اس گدھے والے کو مارے، وہ بلبلا کر زمین پر گرا۔ زمیں کا چھلا اچھل کر ہیڈ صاحب کے کپڑوں پر پڑا۔ وہ بہت ناخوش ہوئے اور جس سرا میں اترے تھے، پھر گئے۔ میں نے مصطفیٰ سے کہا اس قدر ظلم و بدعت بے جا ہے۔ کہا قومِ عرب بد ذات اور شریر ہوتے ہیں، بغیر تنبیہ کے راستی پر نہیں آتے۔ میں نے کہا تم بھی اسی قوم سے ہو، انھیں کی سی خلقت رکھتے ہو۔ جواب دیا اگرچہ وطن میرا بھی یہی ہے مگر میں نے اور شہروں میں رہ کر خُو یہاں کی سَر سے دور کی ہے۔ پھر میں نے مصطفیٰ سے کہا میرا قصد ہے حمام میں نہانے کا۔ وہ ایک حمام میں لے گیا، اندر اس کے حوض بھرا پانی کا تھا۔ راہِ فواروں سے پانی بہتا۔ کئی تُرک کنارہ اُس کے بیٹھے لطف کر رہے تھے۔ کوئی قہوہ، کوئی چپک پیتا۔ بندہ نے موافق قاعدہ مقرر کے وہاں جا کر کپڑے نکالے۔ پانچ چھے حمامی مالشِ بدن میں مشغول ہوئے۔ اپنی زبان میں کچھ گاتے جاتے مگر مضامین اس کے میری سمجھ میں نہ آتے۔ جب وہ ہنستے، میں بھی ہنستا، جب وہ چپ رہتے، میں بھی چپ رہتا۔ میں نے کہا مصطفیٰ سے کہ ان سے کہہ دے موافق رسم اس ملک کے بدن ملیں۔ کسی طرح سے کمی نہ کریں، ان رسموں سے مجھ کو پرہیز نہیں۔ مذہب سلیمانی میں ہر امر موقوف ہے ایک وقت کا۔ ایک وقت وہ ہوا کہ میں جہاز میں میلا کچیلا تھا۔ ایک وقت یہ ہے کہ نہا رہا ہوں۔ میں ان کو راضی کروں گا خوب سا انعام دوں گا۔ انھوں نے بموجب کہنے کے بدن خوب سا ملا اور اچھی طرح نہلایا۔

    بعد فراغت کے ایک اور مکان میں لے گئے۔ اس میں فرش صاف تھا۔ گرد اُس کے تکیے لگے، اس پر بٹھلا کر پوشاک پہنائی۔ مجھ کو اُس سے راحت آئی۔ بعد ایک دم کے تین لڑکے خوب صورت کشتیاں ہاتھ میں لے کر آئے۔ ایک میں قہوہ، دوسرے میں شربت، تیسرے میں قلیاں چپک رکھ لائے۔ فقیر نے شربت اور قہوہ پیا۔ حقہ چپک کا دَم کھینچا۔ پھر ایک خوشبو مانند عطر کے مانگ کر لگائی۔ بتیاں اگر وغیرہ کی جلائی۔ حمام کیا بجائے خود ایک بہشت تھا۔ دل میں خیال آیا اگر شاہدِ شیریں ادا غم زدہ ہو، یہ مقام غیرت دہِ روضۂ رضواں کا ہو۔

    دو گھڑی وہاں ٹھہرا، پھر باہر نکل کر کئی روپے حمامیوں کو دے کر بڑے صاحب کے مکان پر آیا۔ نام ان کا ٹن بن صاحب تھا۔ کپتان صاحب جنھوں نے میری تقریب کی تھی وہ بھی موجود تھے۔ جا بجا کی باتیں اور ذکر رہے۔ بعد اس کے میں نے ٹن بن صاحب سے پوچھا کہ یہاں افسران فوج سے تمھاری ملاقات ہے یا نہیں۔ انھوں نے کہا، آگے مجھ سے ان سے بہت دوستی تھی مگر ان کی حرکتوں سے طبیعت کو نفرت ہوئی۔ اس واسطے ان سے ملاقات ترک کی۔ اکثر وہ لوگ میرے مکان پر آ کر شراب برانڈی پیتے اور چپک کے اتنے دم کھینچتے کہ مکان دھویں سے سیاہ ہوتا۔ لا چار میں نے ان سے کنارہ کیا۔ اے عزیزانِ ذی شعور! اگر جناب رسول مقبول اجازت شراب نوشی کی دیتے، یہ لوگ شراب پی کر مست ہو کر کیا کیا فساد برپا کرتے۔ باوجود ممانعت کے یہ حرکتیں کرتے ہیں۔ اگر منع نہ ہوتا خدا جانے کیا فتنہ و غضب نازل کرتے، لڑ لڑ مرتے۔ چنانچہ راہ میں اکثر تُرک دیکھنے میں آئے۔ قہوہ خانوں میں شراب بھی ہوتی ہے اُس کو لے کر پیتے تھے۔

    دوسرے دن گدھے پر سوار ہو کر شہر کا تماشا دیکھنے گیا۔ آدمیوں کو میلے اور کثیف کپڑے پہنے پایا۔ اکثروں کو نابینا دیکھا۔ سبب اُس کا یہ قیاس میں آیا کہ اس شہر میں ہوا تند چلتی ہے، مٹی کنکریلی اُڑ کر آنکھوں میں پڑتی ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ لوگ وہاں کے اپنی اولاد کی ایک آنکھ یا اگلے دانت بخوفِ گرفتاریٔ نوکری فوج محمد علی شاہ کے پھوڑ توڑ ڈالتے ہیں۔ اس عیب سے نوکری بادشاہی سے کہ بدتر غلامی سے ہے، بچاتے ہیں۔ لباس وہاں کے لوگوں کا میرے پسند نہ آیا۔ کثیف اور کالا مانند لباس مشعلچیوں کے تھا۔ قواعد پلٹنوں کی دیکھی، مثل قواعد فوج انگریزی کے تھی۔ ہر ایک سپاہی کے کندھے پر بندوق فرانسیسی۔ سب جوان، جسیم اور موٹے مگر قد و قامت کے چھوٹے۔ کپڑے پرانے، سڑیل پہنے۔ افسر اُن کے بھی ویسے ہی کثیف پوش تھے۔ اگر ایسے لوگ توانا اور قوی فوجِ انگریزی میں ہوں، بادشاہِ روئے زمین کے مقابلہ میں عاجز ہوں اور زبوں۔ مگر یہاں خرابی میں مبتلا تھے، کوئی کسی کو نہ پوچھتا۔

    کوئی شخص نوکری فوجِ شاہی میں بخوشی نہیں قبول کرتا ہے۔ شاہِ مصر زبردستی نوکر رکھتا ہے اس لیے کہ خوفِ مضرت و ہلاکت و قلتِ منفعت ہے۔ لوگ اپنی اولاد کو عیبی کرتے ہیں یعنی آنکھ یا دانت توڑتے ہیں تا کہ نوکریِ سپاہ سے بچیں۔ نوکر ہونے کے ساتھی دائیں ہاتھ پر سپاہی کے بموجب حکمِ شاہی کے داغ دیا جاتا ہے۔ پھر عمر بھر اُسی نوکری میں رہتا ہے، ماں باپ عزیز و اقربا کے پاس نہیں جا سکتا ہے۔ چھاؤنی فوج کی مانند گھر سوروں کے مٹّی اینٹ سے بنی۔ ہر ایک کوٹھری میں سوا ایک آدمی کے دوسرے کی جگہ نہ تھی۔ اونچاؤ اُس کا ایسا کہ کوئی آدمی سیدھا کھڑا نہ ہو سکتا۔ کھانے کا یہ حال تھا کہ شام کو گوشت چاول کا ہریسہ سا پکتا، طباقوں میں نکال کر رکھ دیتے۔ ایک طباق میں کئی آدمیوں کو شریک کرکے کھلاتے۔

    خیر بندہ تماشا دیکھتے ہوئے باہر شہر کے گیا۔ ایک گورستان دیکھا۔ اُس میں ہزاروں قبریں نظر آئیں۔ دیکھنے والے کو باعثِ حیرت تھیں۔ میں نے لوگوں سے پوچھا اس قدر زیادتیِ قبروں کا سبب کیا۔ دریافت ہوا کہ یہاں اکثر وبا آتی ہے، ہزاروں آدمیوں کو ہلاک کرتی ہے۔ مکینوں کی اُسی سے آبادی ہے۔ اسکندریہ آباد کیا ہوا اسکندر کا ہے۔ وقت آباد کرنے کے ایک بڑا سا پتھر کھڑا کیا تھا۔ اب تلک قائم اور کھڑا ہے۔ راہوں اور کوچوں میں تنگی ہے۔ اس سبب سے بیشتر وبا آتی ہے۔ آدمی وہاں کے مفلس و پریشان اکثر تھے۔ بعضے راہ میں فاقہ مست اور خراب پڑے ہوئے مثلِ سگانِ بازاری ہندوستان کے، دیکھنے اُن کے سے سخت تنفّر ہوا۔ آگے بڑھا، ایک اور پرانا تکیہ دیکھا، وہاں فرانسیسوں نے محمد علی شاہ کی اجازت سے قبروں کو کھودا ہے۔ مُردوں کو شیشہ کے صندوق میں رکھا پایا ہے۔ ظاہراً ہزار دو ہزار برس پہلے مُردوں کو شیشے کے صندوقوں میں رکھ کے دفن کرتے تھے۔ نہیں مردے صندوقوں میں کیوں کر نکلتے۔ اگرچہ عمارت اُس شہر کی شکستہ ویران تھی۔ مگر آبادی زمانۂ سابق سے خبر دیتی۔ کئی وجہوں سے ثابت ہوتا کہ یہ شہر اگلے دنوں میں پُر عمارت اور خوب آباد ہوگا۔ اس واسطے کہ جا بجا اینٹ کا اور پتھر کا نشان تھا۔ زمین کے نیچے سے اکثر سنگِ مرمر نکلتا۔ ان دنوں کئی مکان، کوٹھی فرانسیسوں اور انگریزوں کے خوب تیّار ہوئے ہیں۔ سو اُن کے اور سب مکان ٹوٹے پھوٹے ہیں۔

    (تاریخِ یوسفی معروف بہ عجائباتِ فرنگ از یوسف خان کمبل پوش سے انتخاب، یہ سفر نامہ 1847 میں شایع ہوا تھا)

  • برطانوی تہذیب کا حال

    برطانوی تہذیب کا حال

    آنسہ عنبرہ سلام کی پیشِ نظر تحریر نیاز فتح پوری کے معروف رسالے "نگار” میں‌ 1928 میں‌ شایع ہوئی تھی۔ اس کا عنوان تھا، "بلادِ مغرب، ایک مشرقی خاتون کی نگاہ سے۔”

    یہاں‌ ہم نے اس تحریر سے جو پارہ نقل کیا ہے، اس سے یہ جاننے کا موقع ملتا ہے کہ برطانوی راج میں جب ہر ہندوستانی آزادی کا نعرہ بلند کر رہا تھا، ایک طبقہ بالخصوص مشرقی خواتین نے انگلستان کی تہذیب اور معاشرت کو کس طرح دیکھا اور اس کی خوبیوں اور اپنے مشاہدات کو کیسے بیان کیا۔ جب کہ اس دور میں‌ انگریزوں کی مخالفت عروج پر تھی۔ ہندو، مسلمان اور دیگر مذاہب کے ماننے والے ہندوستانی برطانوی تہذیب و ثقافت سے سخت نفرت کرتے تھے اور ان کی تعریف کرنے والوں کو بھی مطعون کیا جاتا تھا۔ آنسہ لکھتی ہیں:

    "انگلستان جانے کے بعد سب سے پہلے جو لفظ میں نے سنا وہ [decent] تھا۔ اس کا استعمال یہاں کے لوگ بار بار کرتے ہیں، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر چیز کا جمالی پہلو ہی ان کے سامنے رہتا ہے۔ اور مشکل سے کبھی لفظ [nasty] ان کے منہ سے سننے میں آئے گا جو اوّل الذّکر لفظ کا بالکل ضد ہے۔”

    "اس میں شک نہیں کہ اس قوم میں نقائص بھی ہیں اور برائیاں بھی ہیں لیکن کریم النّفسی کی مثالیں ان میں زیادہ پائی جاتی ہیں۔ وطن پرستی، مفادِ قومی، تعاونِ باہمی، یہ وہ خصوصیات ہیں جو ایک شخص کی کریم النّفسی پر دلالت کرتی ہیں اور یہاں کی آبادی کا غالب حصہ (مرد و عورت دونوں کا) ان صفات سے متصف نظر آتا ہے۔”

    "یہاں کی تہذیب کا یہ حال ہے کہ زندگی کے ہر شعبہ سے ظاہر ہوتی ہے۔ دکان میں مال بیچنے والا، اسٹیشن پر ٹکٹ دینے والا پہلے شکریہ ادا کرے گا اور پھر مال یا ٹکٹ دے گا۔ بلکہ اس سے زیادہ یہ کہ نوکر کا بھی شکریہ ادا کیا جاتا ہے اور ایک افسر اپنے ماتحت کی خدمت کا بھی اعتراف شکریہ سے کرتا ہے۔”

    "دوسروں کی خدمت و امداد کے لیے یہاں کے لوگ ہر وقت تیار رہتے ہیں۔ میں ایک مرتبہ رشمونڈ پارک میں ٹہل رہی تھی اور میری چھوٹی بہن جو بیمار تھی میرے بھائی کی گود میں تھی جس کو وہ بہت دیر سے لیے ہوئے تھا۔”

    "ہمارے ساتھ ہی ساتھ ایک اور مرد بزرگ بھی جس کی عمر 60 سال کی ہوگی مع اپنی بیوی ٹہل رہا تھا، صورت و لباس سے یہ لوگ بہت معزّز معلوم ہوتے تھے۔ میرے بھائی نے تھک کر چاہا کہ بچّی کو گود سے اتار دے لیکن وہ اسے زمین تک نہ لایا ہوگا کہ اسی مردِ ضعیف نے اپنی چھڑی اپنی بیوی کو دی اور بڑھ کر آگے آیا اور بولا کہ "اب اس بچّی کو گود میں لے کر چلنے کی باری میری ہے۔”

    "جانوروں کے ساتھ بھی یہاں لطف و رحم کا سلوک کیا جاتا ہے۔ میں دو سال انگلستان میں رہی لیکن اس دوران میں نے کسی کے منہ سے ایک کلمہ بھی ایسا نہیں سنا جو دل کو برا لگتا۔ میں روزانہ صبح کو ریل میں بیٹھ کر ایک گھنٹہ کے لیے سفر کو نکل جاتی تاکہ میں یہاں کے لوگوں کا زیادہ قریب سے مطالعہ کروں۔ ریل میں ہجوم کا یہ عالم ہوتا کہ تل رکھنے کو جگہ نہ ملتی لیکن میں نے بھی نہیں دیکھا کہ یہاں کے مرد عورت ریل میں بھی اپنا وقت ضائع کریں۔ جس کو دیکھیے یا تو وہ کسی اخبار کا مطالعہ کرتا ہوا ملے گا یا کوئی کتاب پڑھ رہا ہو گا۔ یہی حال عورتوں کا ہے۔”

    "ایک دود ھ بیچنے والا نکلتا ہے اور ہر دروازہ پر دودھ کی بوتلیں رکھتا ہوا چلا جاتا ہے، نہ وہ دروازہ کھٹکھٹاتا ہے اور نہ چوری کا اندیشہ اس کو ہوتا ہے۔ راستہ میں میز کے اوپر اخبار رکھے ہوئے ہیں، لوگ گزرتے ہیں، قیمت وہیں رکھ دیتے ہیں اور اخبار لے کر چلے جاتے ہیں۔”

    "پھر یہ دیانت و امانت پولیس یا قانون کے خوف سے نہیں بلکہ حقیقتاً ان کے ذہن ہی میں یہ بات نہیں آتی کہ کوئی انسان ایسی نحیف و ذلیل حرکت بھی کرسکتا ہے اور یہ نتیجہ ہے صرف ان کی اعلیٰ تربیتِ ذہنی کا۔

    برنارڈ شا کہتا ہے کہ "مدنیت نام ہی اس کا ہے کہ تم میرا اور میری خصوصیات کا احترام کرو، میں تمہارا اور تمہاری خصوصیات کا احترام کروں گا۔”

    "حقیقت یہ ہے کہ اہلِ انگلستان نے اس کو پوری طرح سمجھا اور نہایت تکمیل کے ساتھ اپنے ملک کے اندر اس پر عمل کر رہے ہیں۔”

  • سینیگال اور صوفی ازم

    سینیگال اور صوفی ازم

    افریقہ کے مغربی اور انتہائی گرم ترین علاقے میں واقع جمہوریہ سینیگال کی اکثریت اسلام کی پیروکار ہے۔ اس ملک کے دارُالحکومت کا نام ”ڈاکار“ ہے جو افریقہ کی مشہور بندر گاہوں میں سے ایک ہے۔

    کہتے ہیں ڈاکار ایک مسلمان بزرگ کا نام تھا اور بعد میں ان کے عقیدت مندوں نے یہ شہر بسایا اور اسے بزرگ سے موسوم کیا۔ سینیگال کے شمال اور شمال مشرق میں دریائے سینیگال بہتا ہے اور اس کے پڑوسی ممالک میں موریطانیہ، مالی، گنی بساؤ اور گنی شامل ہیں۔ آج ہر سال کی طرح سینیگال میں عوام قومی دن منارہے ہیں۔ یہ ایک میدانی خطّہ ہے جس کی دفتری زبان فرانسیسی ہے۔ آبادی ایک کروڑ 20 لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ یہ ملک 1960ء کو آزاد ہوا اور بعد میں الگ ریاست کے طور پر شناخت حاصل کی۔

    مونگ پھلی یہاں کی ایسی پیداوار ہے جس کے باعث سینیگال دنیا بھر میں پہچانا جاتا ہے۔ یہاں کی آب و ہوا اور موسم اس فصل کے لیے انتہائی موزوں ہے۔ مونگ پھلی کی پیداوار اور اس کی تجارت کے دور میں یہاں ہر طرف خوش حالی نظر آتی ہے اور دریاؤں پر بنے بحری اڈوں کی رونقیں عروج پر ہوتی ہیں۔

    سینیگال میں نویں صدی میں ”تکرر“ نامی خاندان برسرِ اقتدار تھا جب کہ تیرھویں اور چودھویں صدی میں یہ ملک”جولوف“ نامی ریاست کا حصّہ رہا۔ پندرھویں صدی کے وسط میں یہاں‌ پرتگالیوں نے قدم رکھا اور بعد میں فرانسیسیوں، ڈچ اور برطانوی حکم رانوں نے بھی قسمت آزمائی کی، لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ 1677ء میں فرانس یہاں بلا شرکتِ غیرے قابض ہو چکا تھا۔ یوں افریقہ سے انسانوں کو غلام بنا کر یورپ بھیجنے کا سلسلہ شروع ہوا۔

    انیسویں صدی میں مسلمانوں نے یہاں ایک زبرست تحریک چلائی اور اپنی جان و مال کی قربانیاں دیں۔ اسی تحریک کے نتیجے میں جنوری 1959 میں سوڈان اور سینیگال نے مل کر مالی فیڈریشن کی بنیاد رکھی اور فرانس سے آزادی حاصل کی۔ 4 اپریل 1960ء کو ایک معاہدے کے تحت فرانسیسیوں کا سینیگال سے انخلا مکمل ہوا جس کے بعد اسی تاریخ کو سینیگال کا یومِ آزادی منایا جاتا ہے، جب کہ چند ماہ بعد ہی متحد ممالک سینیگال اور سوڈان بھی الگ ہو گئے تھے۔ سینیگال میں پہلا دستور 1963ء میں تیار کیا گیا تھا جس میں متعدد ترامیم کی جا چکی ہیں۔

    گیارھویں صدی میں اس خطّے میں‌ اسلام متعارف ہوا تھا جسے یہاں کے لوگوں نے تیزی سے قبول کیا اور آج یہ دنیا میں‌ مسلمان اکثریتی ملک کی حیثیت سے دیکھا جاتا ہے، اور جہاں لوگ کسی نہ کسی روحانی سلسلے کے پیروکار ہیں اور صوفیائے کرام کے بڑے عقیدت مند ہیں۔

  • کیا دنیا کا بدترین کھانا لندن میں ملتا ہے؟

    کیا دنیا کا بدترین کھانا لندن میں ملتا ہے؟

    پاکستان کے باسی روشن مستقبل کی خاطر لندن اور دیگر ترقی یافتہ ملکوں کا رخ کرتے ہیں، لیکن خواجہ احمد عباس نے لندن کی سیر کرنے کے بعد اپنے سفر نامے میں جو کچھ لکھا اسے پڑھ کر آپ تذبذب کا شکار ہو سکتے ہیں۔

    کہنہ مشق صحافی، ادیب اور  فلم ساز خواجہ احمد عباس نے 17 ملکوں کے مختلف ممالک کی سیرکی تھی اور لندن میں بھی قیام اور  سیروسیاحت کا لطف اٹھایا تھا، یہ 1938 کی بات ہے. خواجہ احمد عباس نے اس زمانے میں لندن سے متعلق اپنے تجربات اور مشاہدات کو سفرنامے کی شکل دی تو  لکھا کہ لندن کو دنیا کے بدترین کھانوں کا مرکز کہا جاسکتا ہے۔

    انھوں نے اپنی کتاب میں لکھا کہ یہاں صبح و شام ابلے ہوئے گوشت، ابلے ہوئے آلو اور ابلی ہوئی گوبھی کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ بہترین کھانا صرف ہندوستانی ہوٹلوں میں ملتا ہے۔

    اپنے سفر نامے میں شگفتہ بیانی کرتے ہوئے خواجہ احمد عباس نے مزید لکھا ہے۔

    صفائی پسند انگریز دن میں صرف ایک بار منہ دھوتے ہیں اور ہفتے میں ایک بار نہاتے ہیں۔ اخبارات میں زیادہ تر خبریں قتل، ڈاکے اور بدکاری کے متعلق ہوتی ہیں۔ ہر قتل کی واردات کی تفصیل شایع کی جاتی ہے اور ہندوستان کی اہم ترین خبر ایک دو سطروں میں ٹال دی جاتی ہے۔

    خواجہ احمد عباس کو 1938 میں 17 ملکوں کی سیاحت کا موقع ملا تھا جس کے بعد ہندوستان واپسی پر انھوں نے ان ملکوں میں قیام اور سیاحت کی روداد کو شگفتہ پیرائے میں رقم کیا۔ اس سفر نامے کو مصنف کے قلم کی روانی، اسلوب کی انفرادیت اور سادہ پیرایۂ اظہار کی وجہ سے بہت پسند کیا گیا۔