Tag: سفر نامہ حجاز

  • ’’گِلِ گُل‘‘ کیا ہے اور کس کام آتی ہے؟ جانیے

    ’’گِلِ گُل‘‘ کیا ہے اور کس کام آتی ہے؟ جانیے

    شیراز کو دیکھنے کا ارمان تھا۔ ایک عمر کے بعد خدا نے پورا کیا۔

    اللہ اللہ! خواجہ حافظ اور شیخ سعدی کا پیارا وطن جس پر وہ لوگ تعریفوں اور دعاؤں کے پھول چڑھائیں۔ اس کو دیکھنے کا ارمان کیوں نہ ہو، میں نے دیکھا اور تعجب کے ساتھ دیکھا، کیوں کہ جس شیراز پر نورانی بزرگوں نے نور برسائے تھے، اُس کی رونق و آبادی ان کے ساتھ ہی رحلت کر گئی۔

    اب بڑی بڑی وسیع اور بلند پرانی مسجدیں اور کہنہ مدرسے گرے پڑے کھڑے ہیں اور بنانے والوں کی ہمّتوں پر دلائل پیش کر رہے ہیں۔

    یہ اہلِ ایران میں عام دستور ہے کہ اشرافِ سفید پوش کے مکان کے ساتھ ایک مردانہ مکان ہوتا ہے۔ وہ حرم سرائے سے زیادہ آراستہ ہوتا ہے اور ضروریات کے سامان موجود ہوتے ہیں۔

    اکثر ہوتا ہے کہ موافق طبع دوست صبح ملاقات کو آیا۔ ظہر کی نماز پڑھ کر رخصت ہوا۔ یا رات کو رہا، صبح ناشتا کر کے رخصت ہوا۔

    شیراز کے لوگ اب تک لباس و اوضاع میں اپنے بزرگوں کی تصویر ہیں۔ علما اور ثقہ لوگ عمامہ باندھتے ہیں۔ عبا پہنتے ہیں۔ خاندانی تُرک کلاہ پوست برہ کی پہنتے ہیں۔ طہران کے اوضاعِ جدید ابھی تک وہاں لذیذ نہیں ہوئے۔

    شیراز میں چھوٹی چھوٹی ٹکیاں بکتی دیکھیں کہ ان سے لوگ سَر اور داڑھیاں دھوتے تھے۔ وہ ایک قسم کی مٹّی ہے جس کی کان شہر کے پاس ہے۔ اس میں خوش بُو کے اٹھانے کی قدرتی تاثیر ہے۔ اُسے پھولوں میں بسا کر صاف کرتے ہیں اور ٹکیاں بنا کر بیچتے ہیں۔ شہروں میں تحفہ لے جاتے ہیں۔ گِلِ گُل اس کا نام ہے۔ مجھے گلستان کا سبق یاد آیا۔

    گلِ خوشبوئے در حمام روزے

    جن دنوں ہم نے پڑھا تھا تو خدا جانے کیا سمجھے تھے۔ پھر ایک خیالِ شاعرانہ سمجھتے رہے۔ اب معلوم ہوا کہ شیراز کا اصلی تحفہ ہے۔

    جاڑے کا موسمِ کوہ برف لیے سَر پر چلا آتا تھا۔ بڑھاپے نے خوف کے لحاف میں دبک کر کہا کہ شیراز تو دیکھ لیا۔ اب اصفہان کو دیکھو اور آگے بڑھو کہ تلاش کی منزل ابھی دور ہے۔

    شیراز کے دوست بہت روکتے اور رستہ کے جاڑے سے ڈراتے رہے، مگر جب کارواں چلا، مجھے اشتیاق نے اٹھا کر کجاوہ میں بٹھا دیا۔ چار چار، پانچ پانچ کوس پر شاہ عباسی سرائیں آباد، موجود تھیں جن کی پختگی اور وسعت قلعوں کو ٹکّر مارتی تھی۔ ان سراؤں میں مسافر اگر روپیہ رکھتا ہو تو خاطر خواہ سامان آسائش کا ملتا ہے، چار پانچ آنہ کو مرغ اور پیسے کے دو دو انڈے، ہر قسم کے تر و خشک میوے نہایت اعلیٰ اور نہایت ارزاں ملتے ہیں۔

    رستہ آبِ رواں سے سبزہ وار آبادیوں سے معمور تھا۔ جہاں منزل کرتا، گاؤں میں جا کر پوچھتا اور جو اہلِ علم ہوتا اُس سے ملاقات کرتا۔ چھوٹی سے چھوٹی آبادی میں بھی ایک دو عالم اور بعضے صاحبِ اجتہاد ہوتے تھے۔ ان کی حالت دیکھ کر تعجّب آتا تھا۔ مثلاً کھیت سے گائے کے لیے گھاس کندھے پر لیے آتے ہیں۔ یا نہر پر کپڑے دھو رہے ہیں۔ لڑکا گھر کی دیوار چُن رہا ہے۔ جب فارغ ہوئے تو اسے شرع لمعہ یا قوانین الاصول کا سبق پڑھانے لگے۔

    جب اُن سے پوچھتا کہ کسی شہر میں جا کر ترویج علم کیوں نہیں کرتے؟ کہ رواجِ کار بھی ہو تو کہتے کہ وہاں خلوت کا لطف نہیں رہتا، حضورِ قلب میں خلل آتا ہے، دنیا چند روز ہے۔ گزار دیں گے اور گزر جائیں گے۔ یہ علمی روشنی کل مملکتِ ایران میں عام ہے کہ شاہان سلف کی پھیلائی ہوئی ہے۔

    میں اُن سے کہتا تھا کہ ہماری تمہاری تو جس طرح گزری گزر گئی۔ لڑکوں کو طہران بھیجو اور دار الفنون پڑھواؤ کہ زمانہ کی ہوا پھر گئی ہے۔ اکثر ہنس دیتے اور میرے ساتھ ہم داستان ہو کر کہتے، انہی کو کہو کہ ان کا معاملہ ہے۔ بعضے بحثنے لگتے اور آخر اتفاق رائے کرتے۔

    میرے پاس کھانے پکانے کا سامان نہ تھا۔ وہیں بیٹھ کر کسی گھر سے روٹی مول لیتا۔ کہیں سے انڈے کہیں سے گھی۔ اشکنہ یعنی انڈوں کا قلیہ پکاتا۔ اس میں روٹی ڈبوتا، کھاتا اور شکرِ الٰہی بجا لاتا۔ اس میں بہت باتوں اور تحقیقات کے موقع ملتے تھے اور وہ لوگ ان کاموں میں میری مدد کرنی مہمان نوازی کا جزو سمجھتے تھے جو کہ حقیقت میں فرضِ مذہبی ہے۔

    (اردو زبان کے نام ور ادیب اور شاعر محمد حسین آزاد 1886ء میں سیرِ ایران کے بعد اپنے وطن (ہندوستان) لوٹے تو اس سفر کی روداد لکھی، یہ مختصر پارہ اسی تحریر سے نقل کیا گیا ہے)

  • انگریزوں کا عدن پر بزور قبضہ

    انگریزوں کا عدن پر بزور قبضہ

    محمد مصطفٰی خاں شیفتہؔ اردو ہی نہیں‌ فارسی زبان کے بھی عمدہ شاعر تھے، انھوں‌ نے شاعری کے ساتھ نثر بھی خوب لکھی اور تنقید و تذکرہ کے علاوہ حجازِ مقدس کے اپنے سفر کو بھی صبطِ تحریر میں لائے اور اسے کتابی شکل دی۔ شیفتہ نواب خاندان کے تھے اور مال و روپیہ کی کچھ کمی نہ تھی۔

    اردو ادب کے یہ نام ور اور اپنے وقت کے رئیس 1254ھ (1839ء) میں‌ بغرضِ ادائیگیِ فریضۂ حج دلّی سے روانہ ہوئے تھے۔ انھوں‌ نے اپنے اس سفر کا تمام احوال سپردِ قلم کیا ہے۔

    یہاں‌ ہم ان کے ‘سفر نامہ حجاز’ سے موجود یمن کے شہر عدن سے متعلق چند سطور نقل کررہے ہیں‌ جس سے آپ کو معلوم ہوگاکہ اس زمانے میں کس طرح انگریزوں نے عدن پر قبضہ کیا تھا اور اس ریاست کے والی سے اس کی زمین کو چھین لیا تھا۔ اگر آپ شیفتہ کے اس سفر کی مکمل روداد پڑھیں تو یہ بھی اندازہ ہو گاکہ آج سہولیات کی وجہ سے حج کتنا آسان ہوگیا ہے، لیکن ایک دور ایسا بھی تھا جب لوگ بہت سی مشکلات جھیل کر اور صعوبتیں برداشت کرکے یہ مقدس فریضہ انجام دیتے تھے۔

    سمندری جہاز دلی سے روانہ ہوا تو پروگرام کے مطابق بمبئی پہنچا اور پھر وہاں سے حجاز کے لیے یہ قافلہ آگے بڑھا تھا۔ اس بارے میں شیفتہ کی زبانی جانیے۔

    15 شعبان 1255ھ (1840ء) کو ہمارا بادبانی جہاز بمبئی سے روانہ ہوا اور 5 رمضان المبارک کو عدن کی بندرگاہ پر پہنچا۔ عدن میں چند پختہ مکانات کے سوا باقی سب مکانات خس پوش ہیں۔

    ہم نے سید زین کے ہاں قیام کیا جو اسی بستی کے سربر آوردہ مشائخ میں سے ہیں، پہلے سے کوئی واقفیت نہ ہونے کے باوجود کمال درجے کی شفقت و محبت سے پیش آئے۔

    عدن پر آج کل انگریزوں کی حکومت ہے۔ سات ماہ گزرے انہوں نے سابق حکم راں سے اس شہر کو چھین لیا۔ اس کا سبب یہ ہوا کہ انگلستان کی حکومت کو اپنے دخانی جہازوں کے لیے جو سویز کے راستے لندن آتے جاتے ہیں، ایک ایسا مقام مطلوب تھا جہاں سے سامان، "آب و آتش” آسانی سے فراہم ہو سکے، چناں چہ انہوں نے فرماں روائے عدن کو پیشکش کی کہ عدن کی آمدنی سے زیادہ ہم سے لو اور یہاں کی حکومت ہمارے حوالے کر دو۔

    امیرِ عدن ایک ناتجربہ کار سیدھا سادہ آدمی تھا، اس نے نتائج پر غور کیے بغیر معاہدہ لکھ دیا۔ جب انگریزوں نے عدن کا قبضہ مانگا تو اس کی آنکھیں کھلیں۔ قبضہ دینے سے گریز کیا، اس پر انگریزوں نے اس سے لڑائی چھیڑ دی اور عدن پر بزور قبضہ کر لیا۔

    جس رقم کا امیر سے وعدہ کیا تھا وہ بھی اسے نہ دی۔ میرے آنے سے ایک دن پہلے ایک جھڑپ ہو بھی چکی ہے۔

    عدن کا شہر سمندر کے ساحل سے تین کوس دور ہے، یہ مسافت شہر جانے والے بحری مسافروں کے لیے انتہائی تکلیف کا باعث ہے، کیوں کہ آنے جانے کے لیے خاص انتظام کرنا پڑتا ہے۔ دو رات عدن میں قیام کر کے 7 رمضان کو واپس جہاز پر آئے۔