Tag: سفر نامے

  • اردو کے چند مقبول سفر نامے

    اردو کے چند مقبول سفر نامے

    اردو زبان میں سفر نامہ کل کی طرح آج بھی قارئین میں مقبول ہے۔ سفر نامے میں کسی ملک یا شہر کی سیر کے دوران تاریخ و جغرافیے سے آگاہی کے ساتھ، اس کی معاشرت، لوگوں کا رہن سہن دیکھنے اور ان کی قدروں کو سمجھنے کی کوشش کے بعد سفر نامہ نگار اس میں اپنے احساسات اور مشاہدات کو شامل کرکے دل چسپ اور معلومات افزا انداز میں قارئین کے سامنے رکھتا ہے۔

    اردو میں اکثر سفر نامے مبالغہ آرائی اور رنگ آمیزی کی وجہ سے بھی بہت مقبول ہوئے ہیں۔ تاہم ایک اچھا اور معیاری سفر نامہ وہی ہوتا ہے جو حقائق اور واقعات میں صداقت پر مبنی ہو اور اس میں‌ قلم کار نے اپنے تاثرات کو نہایت خوبی سے داخل کیا ہو۔

    اردو میں آج سے کئی سال پہلے بعض بہت عمدہ سفر نامے لکھے گئے ہیں جنھوں نے اردو ادب کا دامن بھی وسیع کیا ہے۔

    اردو زبان میں ایک سفر نامہ یوسف خاں کمبل پوش کا عجائباتِ فرنگ ہے جو پہلی بار 1847ء میں شائع ہوا تھا۔ بعد کے برسوں میں سرسید احمد خان، محمد حسین آزاد، شبلی نعمانی اور منشی محبوب عالم کے سفرنامے شایع ہوئے۔ یہاں ہم چند اہم ادیبوں اور اہلِ‌ قلم کے سفر ناموں کا تذکرہ کررہے ہیں۔

    خواجہ احمد عباس کا سفر نامہ مسافر کی ڈائری
    خواجہ احمد عباس اردو زبان و ادب کا ہی نہیں‌ صحافت اور فلم انڈسٹری کا بھی بڑا نام ہے جنھیں ان کے نظریات اور اشتراکیت سے ان کی گہری وابستگی کی بنیاد پر بھی خاص مقام حاصل ہے۔ ان کا یہ سفر نامہ ادبی رنگ ہی نہیں، ان کے نظریات اور صحافتی طرز کا بھی نمونہ ہے۔ اس میں انھوں نے بعض مقامات پر سرمایہ دارانہ نظام کی خرابیوں کا بھی ذکر کیا ہے، لیکن یہ ایک مختلف اور جدید انداز کا سفر نامہ ہے۔

    محمود نظامی کا نظر نامہ
    1958ء میں محمود نظامی کا سفر نامہ ’’نظر نامہ‘‘ کے نام سے شایع ہوا جسے جدید سفر نامہ کہا جاتا ہے وہ اردو ہی نہیں انگریزی ادب کا بھی عمدہ مذاق رکھتے تھے اور ان کے اس سفرنامے میں ان کا ادبی اسلوب بھی نظر آتا ہے۔ انھوں نے تاریخ کو نہایت خوب صورتی سے بیان کیا ہے اور قارئین کو ماضی کی جھلکیاں دکھائی ہیں۔

    بیگم اختر ریاض الدّین کا دھنک پر قدم
    1969ء میں دھنک پر قدم کی اشاعت سے پہلے سفر نامہ نگار نے ’سات سمندر پار‘ کے عنوان سے پہلا سفر نامہ لکھا تھا جسے بہت پسند کیا گیا۔ دھنک پر قدم کو ان کے اسلوب کی وجہ سے بہت مقبولیت اور پذیرائی ملی۔

    ابنِ‌ انشا کا سفر نامہ دنیا گول ہے
    ابنِ انشا نے 1972ء میں‌ اپنے منفرد انداز میں قارئین کو جس سفر نامے سے محظوظ ہونے کا موقع دیا وہ ان کے طنز و مزاح کی وجہ سے بہت پسند کیا گیا۔ انھوں نے کئی سفر نامے لکھے۔ وہ شاعر، کالم نویس بھی تھے اور عمدہ نثر نگار بھی۔ انھیں طنز و مزاح نگاری میں‌ بہت شہرت ملی۔ دنیا گول ہے وہ سفر نامہ ہے جس میں انھوں‌ نے شگفتگی، بے ساختگی کے ساتھ روانی سے اپنے قارئین کو گرفت میں‌ لیا ہے۔

    اشفاق احمد کا سفر در سفر
    اشفاق احمد اردو کے معروف افسانہ نگار اور کہانی نویس تھے جنھوں نے حکایات اور سبق آموز واقعات کو نہایت خوب صورتی سے اپنے قلم اور لیکچرز میں بیان کیا ہے۔ انھوں‌ نے اپنے اس سفر نامے میں یہی انداز اپنایا ہے اور حالات و واقعات کے ساتھ بعض پراسرار اور دل چسپ کہانیاں پیش کی ہیں۔ ان کا یہ افسانہ 1981ء میں منظرِ عام پر آیا تھا۔

  • سوئٹزر لینڈ خوش سواد، روح افزا اور فرحت بخش ملک

    سوئٹزر لینڈ خوش سواد، روح افزا اور فرحت بخش ملک

    یورپ میں سوئٹزر لینڈ کو قریب قریب وہی حیثیت حاصل ہے جو ایشیا میں ہمالیہ اور کاکیزس ماؤنٹین (کوہ قاف) کی وادیوں کو، بلکہ بعض انگریزی سیّاح تو دعویٰ کرتے ہیں کہ سوئٹزر لینڈ کی نزہت و شادابی اور وہاں کی سینریوں کی خوش نمائی و نظر فریبی دنیا بھر کے ممالک سے بڑھی ہوئی ہے۔

    خیر اس کو تو ہم اسی خود پسندی کے اصول پر مبنی سمجھتے ہیں جس بنا پر کہ بعض وطن دوست انگریز لندن کے گرجے سینٹ پال کو روم کے سینٹ پیٹرس اور مِلا ن کے بڑے کنیسہ پر ترجیح دینے لگے ہیں، لیکن اس میں شک نہیں کہ سوئٹزر لینڈ کے سواد میں خدا نے بہت کچھ دل فریبیاں ودیعت کر رکھی ہیں۔

    کوہسار آلپس کا سلسلہ ملک کو ایک طرف سے دوسری طرف تک قطع کرتا چلا گیا ہے اور اسی کوہستان کے دامنوں اور اونچے اونچے سر بہ فلک قلوں کی گھاٹیوں میں یہ چھوٹا سا ملک آباد ہے۔

    تاہم کوہ قاف کی گھاٹیوں اور سرکیشیا کی سرزمین کی طرح یہاں یہ بات کہاں کہ نباتی پھولوں اور سبز پوشانِ چمن کی طرح انسانی چہرے بھی ہر طرف دل فریبیاں کر رہے ہوں۔ وہ پری جمال اور دل رُبا چہرے جو صد ہا سال سے ایران اور روم کی حرم سراؤں کی رونق رہا کیے ہیں اور وہ نازک اندام اور آفت زمانہ لڑکیاں جو کوہِ البرز وغیرہ کی گھاٹیوں کے لطیف آبشاروں میں ہاتھ منہ دھوتی اور مویشیوں کے گلے چراتی نظر آتی ہیں، ان کا سوئٹزر لینڈ کی بھدّی مگر توانا و تن درست عورتوں میں کہیں پتہ نہیں۔ لیکن اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ آلپس کی گھاٹیوں میں چاہے وہ دل فریب حسن و جمال نہ ہو، مگر ایسے ایسے نظر فریب منظر اور اس طرح کی جاں بخش سینریاں آنکھوں کے سامنے سے گزرتی ہیں کہ ہر مقام پر یہی جی چاہتا ہے کہ دین و دنیا چھوڑ کے یہیں بیٹھ رہیے۔

    الغرض یہ اور ایسا روح افزا اور فرحت بخش ملک ہے جہاں ہم مِلان سے ریل پر سوار ہو کے اور اٹلی کی سرحد سے نکل کے پہنچے۔ مِلان سے 4 بجے کے قریب تیسرے پہر کو سوار ہوئے تھے۔ رات ہونے تک بلکہ اس وقت تک جب کہ ہم نے لیٹ کے سونے کا تہیہ کیا، وہی اٹلی کے خوش نما، تر و تازہ اور انگور کی بیلوں سے گھرے ہوئے کھیت نظر کے سامنے تھے، جن کے دیکھنے سے آنکھیں سیر ہو گئی تھیں اور جن میں اب کوئی جدّت نہیں نظر آتی تھی۔

    صبح کو تڑکے ہی اٹھائے گئے، اس لیے کہ ٹرین چیاسو میں کھڑی ہوئی تھی جو جنوب کی طرف سوئٹزر لینڈ کا سرحدی اسٹیشن ہے اور جہاں مسافروں کے اسباب کی تلاشی لی جاتی ہے۔ ہم سب اپنا اسباب لے لے کے گاڑی سے اترے اور قیدیوں کی طرح ایک بڑے کمرے میں بند کر دیے گئے۔ چنگی وصول کرنے والوں نے صندوقوں کو کھول کھول کے دیکھا اور پاس کیا۔ اس سخت امتحان سے نجات حاصل کرتے ہی ہم ایک دوسرے دروازے سے پھر پلیٹ فارم پر آئے اور گاڑی میں اسباب رکھا۔

    یہاں کی زندگی بخش آب و ہوا نے اتنا اثر یہیں ظاہر کر دیا کہ صبح کو ہم خلافِ معمول بہت بھوکے اٹھے، کھانا ملنے میں ابھی دیر تھی اور انتظار کی طاقت نہ تھی۔ اسٹیشن پر نہایت عمدہ تر و تازہ اور شاداب انگور بکنے کو آئے جو بہت سستے تھے، ہم نے لے کے خوب سیر ہو کے کھائے اور گاڑی آگے کو روانہ ہوئی۔
    تھوڑی دیر تک تو وہی اٹلی کی سواد نظر آتی رہی، مگر دو چار گھنٹے کے بعد ہمیں کوہستان آلپس کے سلسلے کی چوٹیاں نظر آنے لگیں اور زیادہ انتظار نہیں کرنے پائے تھے کہ انھیں پہاڑیوں کے اندر ہماری ٹرین گھسنے لگی اور وہ قدرتی مناظر ہماری نظر کے سامنے تھے، جن میں انسانی کاری گری کا ہاتھ بالکل نہیں لگا تھا۔

    ریل سر سبز اور تر و تازہ پہاڑیوں کے اندر چلی جاتی ہے، کبھی بلندی پر چڑھتی ہے اور کبھی نشیب میں اترتی ہے اور پھر اسی نشیب و فراز کے درمیان میں ایسے خوش سواد اور دل میں ولولہ پیدا کرنے والے مرغزار اور قدرت کے لگائے ہوئے چمن نظر کے سامنے آتے ہیں اور کچھ ایسی کشش سے اپنی طرف بلاتے ہیں کہ ہمارے ایک ہم سفر انگلش دوست بار بار چلّا کے کہہ اٹھتے ہیں: “مجھے نہ پکڑنا، میں یہیں کودا پڑتا ہوں”۔

    جا بجا بڑے بڑے آبشار پہاڑوں کی چوٹیوں سے بہتے اور لہراتے ہوئے نیچے آتے ہیں اور ان سبزہ زاروں میں پانی پہنچا رہے ہیں۔ اکثر جگہ جہاں کہیں کوئی مسطح تختہ ہے، وہاں ایک چھوٹا شہر آباد ہے جس کی سفید سفید اور برف میں دھوئی ہوئی پختہ عمارتیں کچھ ایسی دل فریبی کرتی ہیں کہ ان پر سرور بخش اور جاں افزا وادیوں اور مرغزاروں سے بھی زیادہ بہار نظر آتی ہے۔ ہر چہار طرف سَر بہ فلک پہاڑ جو قوی ہیکل دیوؤں کی طرح سر اٹھائے کھڑے ہیں، انھوں نے بھی انسان کے مانوس بنانے کے لیے برف کے سفید اور اجلے کپڑے پہن کے بہت کچھ مہذب صورت بنالی ہے۔

    (اردو کے نام ور ادیب، مشہور ناول نگار اور جیّد صحافی عبدالحلیم شرر کے سفر نامے سے انتخاب)

  • جنوری 1838ء: شہر لزبن میں‌ ایک سیّاح نے کیا دیکھا؟

    جنوری 1838ء: شہر لزبن میں‌ ایک سیّاح نے کیا دیکھا؟

    ستائیسویں جنوری 1838ء کی شہر لزبن میں پہنچا۔ وہ ہے دارُ السلطنت پرتکیزوں کا۔ وہاں جہاز تھے اور بھی کئی۔ ایک ڈونگی پرتکیزوں کی ہمارے جہاز کو راہ بتانے آئی۔ لزبن کنارے دریا ٹیکس کے ہے۔ جب جہاز ہمارا وہاں پہنچا، ہوا کا زور تھا مگر استادیِ کپتان سے جہاز سلامت رہا۔

    نیوٹن صاحب سوداگر میرے دوست تھے۔ وہ اس شہر میں تشریف رکھتے۔ جب میرے آنے کی خبر پائی، بہت تکلف سے دعوت میری کی۔ کئی طرح کا کھانا میرے لیے پکوایا۔ جب اس کو کھایا، دل کو بھایا۔ پھر سیرِ شہر کو چلا۔ وہاں کے آدمیوں کو کج اخلاق پایا۔ حسن و جمال عورتوں کا بہ نسبت لندن کے کم تھا۔

    بار برداری کی گاڑیوں میں بیل لگے تھے۔ رستے بازار کے صاف ستھرے تھے مگر دکانیں بمقابلہ لندن اور فرانس کے بد قرینے۔ ایک کلیسا عجب وضع کا بنا تھا۔ تصویریں حضرت عیسیٰ اور مریم اور حواریوں کی نفیس بنی ہوئی رکھیں، ان پر کام سونے کا۔ دو تین باغ دیکھے، بہت اچھے تھے۔

    ایک دن ناچ گھر کا تماشا دیکھنے گیا۔ شہزادی حاکمہ بھی آئی۔ میرے قریب بیٹھی۔ شوہر اس کا ایک امیر زادہ، بہت خوب صورت اور وجیہ ہمراہ تھا۔ سن و سال میں بیس برس کا۔ بندہ آدھی رات تک کیفیت دیکھتا رہا۔ پھر اٹھ کر باہر آیا اور ملاح سے کہا کہ ناؤ پر سوار کر کے مجھ کو جہاز تک پہنچا دے۔ اس نے انکار کر کے کہا کہ رات کو ہمارے شہر میں کسی کو ناؤ پر نہیں چڑھاتے۔ یکبارگی مینھ بھی برسنے لگا۔ تب میں مجبور ہو کر سرا میں شب باش ہوا۔

    صبح اٹھ کر پھر سیر کو چلا۔ مکانات دیکھے، اوندھے پڑے۔ حال ان کا پوچھا، لوگوں نے کہا اسّی برس کا عرصہ ہوا کہ یہاں ایک بڑا زلزلہ آیا تھا، ساٹھ ہزار آدمی اس میں مر گئے، بہت مکان اس میں گر گئے۔ پانی دریا کا اپنے ٹھکانے سے ہٹ گیا تھا۔ بعد اس کے اس آبادی کا جو تم دیکھتے ہو، اتفاق ہوا۔ یہ حال دیکھ کر گھبرایا۔

    دوسرے دن تیسرے پہر تک پھر سیر کرتا رہا۔ بعد اس کے جہاز وہاں سے رواں ہوا۔ میں اس پر سوار ہوا۔ کتنے صاحب اور بی بیاں اور بھی تھیں۔ بی بی اسمٹ بھی مع دونوں بیٹیوں پری زاد کے اس پر سوار ہوئیں۔ حرکتِ جہاز سے دونوں پریاں متلی اور ابکائی میں گرفتار ہوئیں۔ جہاز پر چڑھ کر نہایت بیزار ہوئیں۔ سچ ہے سواری جہاز کی عورتوں کو بہت ایذا دیتی ہے۔ مجھ کو ان کی بے چینی سے بے قراری تھی۔

    دو تین دن میں جہاز جاتے جاتے تیسرے پہر کو قریب شہر کندس کے ٹھہرا۔ کئی اسپانیوں نے کشتیوں کو ہمارے جہاز پاس پہنچایا۔ اکثر صاحب واسطے سیرِ شہر کے ناؤ پر سوار ہوئے۔ ہم بھی مدت سے مشتاق اس شہر کے دیکھنے کے تھے۔ ناؤ پر چڑھے بعد اس کے مینھ آیا۔ ہر شخص جہاز پر پھر گیا۔ مگر بندہ ناؤ پر بیٹھا رہا۔ اسپانیل جو ملاح تھے اپنی زبان میں باہم باتیں کرتے اور میرے مونھ کی طرف دیکھتے، بلا تحاشا ناؤ کو کنارے لیے جاتے۔

    ہر چند میں نے کنارے جانے سے انکار کیا، پر انھوں نے میری بات نہ سنی۔ ظاہراً معلوم ہوتا کہ کنارے لے جا کر گھڑی اور اسباب طلائی میرا چھین لیتے اور جان سے ہلاک کرتے۔

    ناگاہ جہاز کے چھوٹے کپتان نے میرے حال پر رحم کیا، چھوٹی ناؤ پر سوار ہو کر میری ناؤ کو خارِ آہنی سے اپنی طرف کھینچ کر جہاز پر پہنچایا اور اس آفت سے مجھ کو بچایا۔ بہ سبب مینھ کے اس شہر میں جانے کا اتفاق نہ پڑا، مگر سامنے سے بخوبی نظر آتا۔ عمارت عالی شان، وہاں حسن و جمال کی کان تھی۔ بیرن شاعر نے وہاں کے حسن کی تعریف کی ہے۔ دادِ سخن وری دی ہے۔

    (یہ پارہ ‘تاریخِ یوسفی المعروف بہ عجائباتِ فرنگ’ سے نقل کیا گیا ہے، جسے اردو کا پہلا سفرنامہ کہا جاتا ہے، یوسف خان کمبل پوش نے اسے 1847ء میں شایع کروایا تھا)