Tag: سفید موتیا

  • ‘کمانِ ابرو’ اور ‘نوکِ پلک’ کو سائنس دانوں کی زبانی جانیے

    ‘کمانِ ابرو’ اور ‘نوکِ پلک’ کو سائنس دانوں کی زبانی جانیے

    اردو زبان میں شعرا نے ابرو (بھوں) اور مژہ (پلک) کو طرح طرح سے اپنے اشعار میں باندھا ہے۔ اپنے محبوب کو حُسن و جمال میں یکتا، ادا میں منفرد اور یگانہ ثابت کرنے کے لیے جانے کتنے ہی قصیدے لکھے ہیں‌، لیکن یہ اشعار اور قصائد سائنس کی نظر میں‌ کوئی اہمیت نہیں‌ رکھتے۔ سائنسی تحقیق یکسر مختلف اور عقلی دلائل کے ساتھ تجربہ گاہ کے نتائج کی روشنی میں ابرو اور پلکوں‌ کو بیان کرتی ہے۔

    آئیے جانتے ہیں‌ کہ سائنس دانوں‌ کی نظر میں‌ یہ کیسے اہم ہیں اور ہمارے چہرے پر ان کی موجودگی کا کیا مقصد ہے۔

    سائنس دانوں‌ کا خیال ہے کہ ہمارے چہرے پر موجود ابرو یا جسے ہم بھوں بھی کہتے ہیں، اس لیے ہیں کہ ہم سورج کی تیز روشنی میں‌ ہر شے کو ٹھیک اور تاحدِّ نگاہ دیکھ سکیں۔

    ہماری آنکھوں کے اوپر محراب کی صورت یہ اَبرو بارش کے وقت سَر سے ٹپکنے والے پانی یا غضب کی گرمی اور سورج کی تمازت کے سبب بہنے والے پسینے کو بھی روکتی ہیں۔

    اس سے پہلے کہ ہم مزید تفصیل میں‌ جائیں، آپ ایک چھوٹا سا، مگر دل چسپ تجربہ کرکے دیکھیے۔ اس تجربے کا نتیجہ آپ کو ابرو کی اہمیت اور اس کے کام کو سمجھنے میں‌ مدد دے گا۔

    کسی ٹیوب لائٹ یا روشن بلب وغیرہ پر نگاہ ٹکاتے ہوئے اپنی آنکھیں‌ بند کر لیں۔ آپ بند آنکھوں‌ کے ساتھ بھی مسلسل روشنی محسوس کرسکتے ہیں، لیکن جیسے ہی اپنے دونوں‌ ابرو کو نیچے کی طرف حرکت دیں گے یا پیشانی کو سکیڑیں گے تو اچانک تاریکی یا سیاہ دھبّا نظر آنے لگے گا۔ یہ ہے وہ کام جو یہ ابرو انجام دیتے ہیں۔

    اب غور کیجیے کہ جب آپ کسی ایسے مقام پر ہوں جہاں‌ دھول مٹّی اڑ رہی ہو تو اس سے بچنے کے لیے آپ اپنی آنکھیں بند کر لیتے ہیں‌، لیکن‌ اسی مقام پر اپنا راستہ یا اشیا کو دیکھنے کے لیے نیم وا آنکھوں‌ کے ساتھ اپنے ابرو کو اُسی تجربے کے مطابق مخصوص طریقے سے حرکت دیتے ہیں تو آگے بڑھ پاتے ہیں۔ یعنی یہ ابرو اس موقع پر ڈھال اور کسی محافظ کا کام انجام دیتے ہیں۔

    اب چلتے ہیں‌ پلکوں کی طرف جو کچھ اسی قسم کا کام انجام دیتی ہیں۔ ہماری آنکھوں کے پپوٹوں سے جڑی ہوئی پلکیں‌ بھی ہماری محافظ ہیں۔

    پلکیں‌ ایسے ہی ہیں جیسے بلّی یا چوہے کہ منہ پر بال (مونچھیں) ہوتی ہیں۔ یہ انتہائی حسّاس ہوتی ہیں اور مہین و معمولی شے کے چُھو جانے پر دماغ کو فوراً سگنلز بھیجتی ہیں اور اس کے نتیجے میں انسان ضروری ردّعمل ظاہر کرتا ہے۔ مثلاً اگر کوئی تنکا، دھول مٹّی آنکھوں میں پڑنے لگے تو پلکوں‌ اور دماغ کے مابین سگنل کا تبادلہ ہوتا ہے اور ہم آنکھیں‌ بند کرلیتے ہیں۔

    آپ نے کبھی فوٹو گرافر کو دیکھا ہے جو‌ بار بار مخصوص کپڑے سے کیمرے کا لینس صاف کرتا رہتا ہے؟ وہ معمولی گردوغبار اور دھول مٹّی کے ذرّات کو صاف کرتا جاتا ہے، ورنہ تصویر اچّھی نہیں‌ آئے گی۔

    ہماری پلکوں‌ کے جھپکنے کی بھی وجہ یہی ہے۔ ہم مسلسل گرد و غبار کا سامنا کرتے ہیں جس کی صفائی کا قدرت نے انتظام کر رکھا ہے۔ پلکیں‌ جھپکانے پر ہماری آنکھوں کے غدود، معمولی نمی (آنسو) چھوڑتے ہیں جو گرد و غبار کو پردہ چشم سے ہٹا دیتا ہے اور یوں اس اہم عضو میں نصب قدرتی لینس کی بدولت ہم دنیا کو دیکھتے رہتے ہیں۔

  • سفید موتیا: پاکستان میں‌ اندھے پن کی بڑی وجہ

    سفید موتیا: پاکستان میں‌ اندھے پن کی بڑی وجہ

    امراضِ چشم میں موتیا بند پاکستان میں اندھے پن کی ایک بڑی وجہ ہے۔ اسے عام طور پر سفید موتیا کہا جاتا ہے۔ اس مرض میں ہماری آنکھ کے اندر موجود عدسے پر ایک پردہ نمودار ہو جاتا ہے جس سے دیکھنے کا عمل متاثر ہوتا ہے اور ایسا فرد دھندلے پن کی شکایت کرتا ہے۔

    ماہرینِ طب کے مطابق اس بیماری کے پھیلنے کی رفتار تو سست ہوتی ہے، مگر وقت کے ساتھ ساتھ نظر کا یہ دھندلا پن تکلیف دہ ثابت ہونے لگتا ہے۔ تب ماہر معالج مریض‌ کو سرجری کروانے کا مشورہ دیتا ہے۔ ماہرینِ امراضِ چشم کہتے ہیں کہ یہ سرجری مکمل طور پر محفوظ اور مؤثر ثابت ہوتی ہے۔ اس علاج سے ایسے مریضوں کی اکثریت بینائی سے محروم ہونے سے بچ جاتی ہے۔

    آنکھ کے اس مرض کی عام علامات یہ ہو سکتی ہیں


    • دھندلا پن اور کم دکھائی دینا
    • رات کو دیکھنے میں دشواری کا سامنا
    • آنکھوں کی حساسیت میں اضافہ
    • روشنی کا پھیلنا یا برقی قمقموں کے گرد ہالہ اور دائرے دکھائی دینا
    • اکثر ایک ہی آنکھ سے دہرا نظر آنا
    • روشنی اور کسی چمکتی ہوئی چیز کو درست طریقے سے دیکھنے میں مشکل پیش آنا
    • مطالعہ کرتے ہوئے زیادہ روشنی کی ضرورت محسوس کرنا