Tag: سقراط

  • اس میل کی تمہیں کیا ضرورت؟

    اس میل کی تمہیں کیا ضرورت؟

    یہ گفتگو تقریباً تین ہزار سال پہلے دو فلسفیوں (سقراط اور گلاکن) کے درمیان ہورہی تھی۔

    سقراط : میں عرض کرتا ہوں سنیے۔ اگر کوئی گڈریا ایسے کتّے پالے جو عدم تربیت، بھوک، یا کسی بری عادت کی وجہ سے بھیڑوں پر منہ ماریں اور انہیں تنگ کریں اور حفاظت کی بجائے خود بھیڑیے کا کام کریں تو یہ کیسی لغو اور بری حرکت ہوگی۔

    گلاکن : بیشک یہ بہت بری بات ہے۔

    سقراط : چنانچہ ہمیں بھی ہر ممکن اہتمام کرنا چاہیے کہ ہمارے مددگار اور محافظ جو عام شہریوں سے زیادہ قوی ہوں کہیں ضرورت سے زیادہ قوی نہ ہوجائیں اور بجائے یار و مددگار کے ایک وحشی ظالم کا کام نہ کریں۔

    گلاکن : جی ہاں اس بارے میں بڑی احتیاط کی ضرورت ہے۔

    سقراط : اور کیا؟ ایک حقیقی عمدہ تعلیم کیا بہترین احتیاط نہیں؟

    گلاکن : ان کی عمدہ تعلیم تو ہو ہی چکی ہے۔

    سقراط : نہیں مجھے تو اس درجہ اعتماد نہیں ہے۔ ہاں میرا عقیدہ یہ ہے کہ انہیں عمدہ تعلیم یافتہ ہونا ضرور چاہیے کہ صحیح تعلیم ہی خواہ اس کی نوعیت کچھ ہو انہیں مہذب اور متمدّن بنانے اور ان کے تعلقاتِ باہمی اور زیر دستوں سے ان کے برتاؤ کو انسانیت کا رویہ بنانے میں سب سے قوی مؤثر قوت ثابت ہوگی۔

    گلاکن : بجا ہے۔

    سقراط : اور صرف تعلیم ہی نہیں ان کی تو قیام گاہیں اور ان کی تمام املاک اسی قسم کی ہونی چاہییں کہ نہ بہ حیثیت محافظ ان کے محاسن کو کم کرے اور نہ انہیں دوسرے شہریوں پر دست درازی کرنے کی ترغیب دلا سکے۔ غالباً ہر سمجھدار شخص مجھ سے اتفاق کرے گا۔

    گلاکن : لازماً۔

    سقراط : اچھا تو اگر انہیں ہمارے خیال کے مطابق پورا اترنا ہے تو دیکھیں ان کا طرزِ معاشرت کیا ہونا چاہیے۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ سوائے ضروری اشیا کے کسی کے پاس کوئی ذاتی ملک نہ ہوگی۔ نہ ان کے پاس اپنا کوئی نجی مکان ہوگا، نہ گودام جس میں کوئی دوسرا آنا چاہے اور نہ آسکے۔ ان کی غذا میں صرف ایسی چیزیں شامل ہوں گی جن کی ضرورت تربیت یافتہ اور صاحبِ جرأت و عفت جنگ آزماؤں کو ہوتی ہے۔ انہیں شہریوں سے ایک مقررہ شرح تنخواہ کے وصول کرنے کا معاہدہ کرنا چاہیے تاکہ ان کے سالانہ اخراجات کی کفالت ہوسکے، بس اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ یہ سب کے سب ایک جگہ رہیں اور ایک جگہ کھانا کھائیں جس طرح لشکر میں سپاہی کرتے ہیں۔ ہم انہیں بتلائیں گے کہ سیم و زر تو تمہیں خدا کی طرف سے عطا ہوچکا ہے۔ جب وہ اعلٰی دھات خود تمہارے اندر موجود ہے تو پھر اس میل کی تمہیں کیا ضرورت جو انسانوں میں رائج ہے۔ تم ہرگز اس عطیۂ سماوی کو اس آمیزشِ ارضی سے آلودہ اور ناپاک نہ کرو کہ یہ رائج اور عام دھات بہت سے ناپاک اعمال کی وجہ ثابت ہوتی ہے اور خالص دھات اور اعلٰی دھات تمہارے قبضہ میں ہے وہ بالکل پاک ہے۔

    چنانچہ سارے شہر میں بس انہیں لوگوں کو سونا، چاندی نہ چھونا چاہیے۔ یہ لوگ نہ تو سونا چاندی پہنیں نہ ان کے برتنوں سے کچھ کھائیں پیئیں اور نہ ہی اس چھت کے تلے رہیں جہاں سونا چاندی موجود ہے۔ ان کی نجات اسی میں ہے اور اسی طرح یہ ریاست کی نجات کرا سکتے ہیں۔ اور اگر کہیں ان کے پاس اپنے ذاتی مکانات یا زمینیں یا اپنا ذاتی زر و مال ہوا تو یہ بیشک اچھے تاجر یا کسان تو بن جائیں گے لیکن محافظ نہ رہیں گے۔ بجائے معین و مددگار ہونے کے یہ دشمن اور ظالم ہو جائیں گے۔ یہ دوسروں سے نفرت کریں گے دوسرے ان سے، یہ اوروں کے خلاف سازشیں کریں گے اور دوسرے ان کے خلاف، خارجی دشمنوں سے زیادہ اندرونی مخالفتوں کے خوف میں ان کی زندگی گزرے گی اور خود ان کی اور ریاست کی تباہی کا وقت قریب آجائے گا۔ ان وجوہ کی بنا پر کیا ہم یہ سمجھنے میں حق بجانب نہیں کہ ہماری ریاست کا ایسا ہی نظام ہونا چاہیے اور محافظین کے مکانات اور نیز دیگر امور کے متعلق بھی یہی ضوابط مقرر کرنے چاہییں۔

    گلاکن : بیشک۔

    (افلاطون کی کتاب سے اقتباس، جس کا ترجمہ ریپبلک کے نام سے کیا گیا اور مترجم ڈاکٹر ذاکر حسین تھے)

  • سقراط کا فلسفہ اور ہمارا معاشرہ

    سقراط کا فلسفہ اور ہمارا معاشرہ

    ہر فرد اپنی استعداد اور اہلیت کے مطابق کائنات اور اپنی ذات میں غور و خوض کرتا ہے۔

    ہر مفکّر اور مدبّر زندگی اور اپنے معاشرے کے افراد سے متعلق ایک خاص نظریہ اور فلسفہ رکھتا ہے اور اپنے سلیقے ذوق اور معلومات کے مطابق خوشی و غم سے لے کر مرگ و زیست تک اپنے وجود کی تاویل و تفسیر کرتا ہے۔

    جب انسان حقائق کی تلاش میں نکلتا ہے تو اس کائنات کی کوئی شے بھی اس کے تخیّل کی دست رس سے باہر نہیں رہتی اور وہ سقراط بنتا ہے۔

    جہانِ فلسفہ و دنیائے معرفت کا یہ عظیم معلّم یونان میں قبل مسیح میں پیدا ہوا۔ اس کی ابتدائی زندگی کے بارے میں دنیا کچھ نہیں جانتی، لیکن‌ افلاطون اور مابعد فلاسفہ کے حوالے بتاتے ہیں کہ وہ اپنے وقت کا ایک دانا و حکیم اور روحانی بزرگ تھا۔ وہ فطرتاً اعلیٰ اخلاقی اوصاف کا حامل، حق پرست اور منصف مزاج استاد تھا جس نے مسلسل غور و فکر کے بعد آخر عمر میں دیوتاؤں کا انکار کردیا اور اسے ایتھنز کی عدالت نے 399 قبل مسیح میں موت کی سزا سنا دی تھی۔

    سقراط کی درس گاہ کا صرف ایک اصول تھا، اور وہ تھا برداشت، یہ لوگ ایک دوسرے کے خیالات تحمل کے ساتھ سُنتے تھے، سقراط اور اس کے حلقے میں شامل افراد بڑے سے بڑے اختلاف پر بھی ایک دوسرے سے نہیں الجھتے تھے۔

    کہتے ہیں کہ سقراط کی درس گاہ کا اصول تھا کہ اس کا جو شاگرد ایک خاص حد سے اونچی آواز میں بات کرتا یا پھر دوسرے کو گالی دے دیتا یا دھمکی دیتا یا جسمانی لڑائی کی کوشش کرتا، اسے فوراً درس گاہ سے نکال دیا جاتا تھا۔

    سقراط کا کہنا تھا برداشت سوسائٹی کی روح ہوتی ہے۔ سوسائٹی میں جب برداشت کم ہوجاتی ہے تو مکالمہ کم ہوجاتا ہے اور جب مکالمہ نہیں ہوتا ہے تو معاشرے میں وحشت بڑھ جاتی ہے۔

    بقول سقراط اختلاف، دلائل اور منطق پڑھے لکھے لوگوں کا کام ہے۔ یہ فن جب تک پڑھے لکھے عالم اور فاضل لوگوں کے پاس رہتا ہے اُس وقت تک معاشرہ ترقی کرتا ہے۔ لیکن جب مکالمہ یا اختلاف جاہل لوگوں کے ہاتھ آجاتا ہے تو پھر معاشرہ انارکی کا شکار ہوجاتا ہے۔

    سقراط کا مشہور قول ہے: “اور عالم اُس وقت تک عالم نہیں ہوسکتا جب تک اس میں برداشت نہ آجائے، وہ جب تک ہاتھ اور بات میں فرق نہ رکھے۔”

  • زہر کا پیالہ سقراط کو قتل نہ کرسکا

    زہر کا پیالہ سقراط کو قتل نہ کرسکا

    آج یونان کے عظیم ترین فلسفی اور انسانیت کے محسن سقراط کی برسی ہے، اپنے وقت کے مذہبی اور سیاسی نظام پر تنقید کرنے کے سبب انہیں زہر کا پیالہ پینے پر مجبور کردیا گیا تھا۔

    فلسفے کی دنیا کا یہ عظیم استاد 470 قبل مسیح میں یونان کے مشہور ترین شہری ایتھنز میں پیدا ہوا تھا، یہ وہ دور تھا جسے یونان کے عروج کا دور کہا جاتا ہے۔ سقراط خاندانی طور پر ایک مجسمہ ساز تھے ، انہوں نے اپنے ملک کے دفاع کے لیے کئی جنگوں میں بھی بطور سپاہی حصہ لیا ، لیکن ان کی وجہ شہرت فلسفے کی دنیا میں ان کے وہ اثرات ہیں جو انہوں نے انتہائی غور و خوض کے بعد مرتب کیے ہیں۔ عظیم فلسفی افلاطون انہی کے شاگر د تھے اور ہر بات میں اپنے استاد کے حوالے دیا کرتے تھے۔

    کیونکہ سقراط اس زمانے سے تعلق رکھے ہیں جب تاریخ بہت محدود پیمانے پر مرتب کی جاتی تھی ، لہذا ان کی زندگی کے بارے میں زیادہ تر حالات و واقعات اسرار کے پردے میں ہیں۔ ہمیں ان کے افکار کا پتا ان کے شاگردوں کے کام سے چلتا ہے جس میں افلاطون سب سے آگے ہیں۔ سقراط نے از خود کوئی کتاب مرتب نہیں کی بلکہ ان کی حیثیت ایتھنز میں ایک بزرگ استاد کی سی تھی، جو کہ شہر میں درس دیا کرتے تھے۔

    ان کے اس حلقہ درس میں شامل افراد آگے جاکر یونان کی نامور شخصیات میں شامل ہوئے ۔ سقراط کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہیں الہام بھی ہوا کرتا تھا۔ کچھ مورخین کی رائے یہ ہے کہ وہ اپنے غور و فکر سے حاصل ہونے والے نتیجے کو الہام سمجھتے تھے، بہر کیف ان کے نظریات یونان کے سرکاری مذہب اور طریقِ حکومت کے عین مخالف تھے۔

    سقراط نے بڑی عمر میں زینی تھیپی نامی خاتون سے شادی کی تھی ، جن کی تنک مزاجی کے قصے مشہور ہیں۔ اس بارے میں اسکالرز کا خیال ہے کہ سقراط کیونکہ باقاعدہ کسی پیشے سے وابستہ نہیں رہے تھے ، اورمجسمہ سازی کا آبائی فن بھی انہوں نے ترک کردیا تھا جس کے سبب یقیناً ان کے گھر میں معاشی تنگی رہتی ہوگی جس کی وجہ سے زینی تھیپی کی بدمزاجی کے قصے مشہور ہوئے۔

    سقراط مناظرے کے قائل نہیں تھے بلکہ انہوں نے دنیا کو مباحثے یا گفت و شنید کے ذریعے مسائل کے حل کے ایک نئے انداز سے روشنا کرایا۔ ان کا طریقہ بحث فسطائی قسم کا تھا، مگر اسے مناظرہ نہیں کہہ سکتے کیونکہ وہ اپنی بحث سے اخلاقی نتائج تک پہنچتے اور حقیقت کو ثابت کرتے ۔ وہ پے در پے سوال کرتے اور پھر دوسروں پر ان کے دلائل کے تضادات عیاں کرتے اور یوں مسائل کی تہہ تک پہنچ کر منطقی و مدلل جواب سامنے لایا کرتے تھے۔

    سقراط کے نظریات ان کی زندگی میں ہی یونان کے معاشرے میں مقبول ہونا شروع ہوگئے تھے اور ان کےگرد رہنے والے نوجوانوں نے مذہب اور طریقِ حکومت پر سوال اٹھانا شروع کردیے تھے ، سقراط کے نظریات اس وقت کے نظام کے لیے شدید خطرہ بن گیے تھے، بالاخر ایک دن شہر کےو سط میں لگنے والی عدالت نے سقراط کو طلب کرلیا، اس موقع پر موجود جیوری ارکان کی تعداد 500 تھی۔

    سقراط پر الزام عائد کیا گیا کہ وہ مذہب سے دور ہے اور نوجوانوں کو بہکاتا ہے، جیوری کے 500 ارکان میں سے 220 نے سقراط کے حق میں اور 280 نے سقراط کے خلاف فیصلہ دیا تھا، جس کے بعد اکثریتی ارکان نے ان کے لیے سزائے موت تجویز کی ۔ جمہوریہ ایتھنز کے طریقہ کار کے مطابق سقراط کو اپنی صفائی دینےکا موقع دیا گیا اور اس موقع پر ان کی طویل تقریر تاریخِ انسانیت پر ان کا سب سے بڑا احسان ہے۔

    اپنی تقریر میں سقراط کہتے ہیں کہ’’ ایتھنز ایک عظیم شہر ہے اور یہاں رہنے والے عظیم لوگ ہیں، آج یہاں کے لوگوں کو میری بات سمجھ نہیں آرہی لیکن ایک وقت آئے گا کہ وہ میری دعوت پر غور کریں گے۔ میرے لیے ممکن ہے کہ میں اپنے لیے جیل یا ملک بدری کی سزا چن لوں لیکن جب میرے شہر کے میرے اپنے لوگ میرے نظریات کا بار نہیں اٹھاسکتے تو پھرکوئی اور شہر میرے نظریات کا بار کیسے اٹھا پائے گا۔ میں چاہوں تو اوروں کی طرح اپنے بچوں کایہاں جیوری کے ارکان کے سامنے پھراؤں اور جیوری کے ارکان سے رحم کی اپیل کروں لیکن میں ایسا ہر گز نہیں کروں گا کہ یہی وہ رسم و رواج ہیں جن کی میں نے ساری زندگی مخالفت کی ہے اور اب اس عمر میں ان سے پھر جانا میرے لیکن ممکن نہیں ہے‘‘۔

    سقراط نے جیوری کے ارکان سے سوال کیا کہ ’’آپ لوگوں نے یہ سمجھ کر میرے لیے موت کی سزا تجویز کی ہے کہ مستقبل آپ سے اس بارے میں نہیں پوچھے گا تو یہ آپ کی غلط فہمی ہے۔ آپ کو لگتا ہے کہ میری زندگی کا چراغ گل کر کے آپ اپنی غلطکاریوں پر تنقید کا راستہ روک لیں گے، تو یاد رکھیے، آنے والے وقت میں ایک نہیں کئی ہوں گے جو آپ کو مجرم ٹھہرائیں گے۔جنہوں نے مجھے مجرم ٹھہرایا ہے اور اب ان سے میرا معاملہ ختم ہوا۔ اب جانے کا وقت آگیا ہے۔ ہم اپنے اپنے راستوں کی طرف جاتے ہیں۔ میں مرنے کو اور آپ زندہ رہنے کو‘‘۔

    سقراط کی وفات کا دن تاریخ دانوں کے لیے موضوع بحث ہے کیونکہ قدیم مخطوطات سے ہمیں کوئی دن نہیں ملتا ، سمون کرچلی کی کتاب ’ بک آف ڈیڈ فلاسفرز‘ کے مطابق وہ 16 فروری 399 قبل مسیح کا دن تھا جب سقراط نے اپنے شاگردوں کو آخری درس دیا جس میں انہوں نے روح کے لافانی ہونے پر زور دیا، اور اس کے بعد زہر کا پیالہ پی کر اس دنیا سے ہمیشہ زندہ رہنے کے لیے رخصت ہوگئے، ان کے انتقال کے وقت ان کے شاگرد ان کے چہار جانب گریہ کررہے تھے۔

  • علم و دانش میں اضافہ کرنے والے عظیم فلسفی سقراط کے اقوال

    علم و دانش میں اضافہ کرنے والے عظیم فلسفی سقراط کے اقوال

    دنیا کے ذہین ترین ناموں میں سے ایک، عظیم ترین فلسفی سقراط کا نام کسی شخص کے لیے انجان نہیں ہے۔ اسے دنیائے فلسفہ کا عظیم ترین معلم مانا جاتا ہے۔

    حضرت عیسیٰ کی آمد سے 470 سال قبل یونان میں پیدا ہونے والے سقراط نے یونانی فلسفے کو نئی جہت دی اور دنیا بھر میں فلسفی، منطق اور نظریات پر اپنے اثرات مرتب کیے۔

    سقراط کے خیالات انقلابی تھے اور ایسے نظریات کی نفی کرتے تھے جس میں غلامی اور انسانی حقوق چھیننے کی حمایت کی جاتی ہو۔

    بے تحاشہ غور و فکر اور ہر شے کو منطقی انداز میں پرکھنے کی وجہ سے سقراط نے دیوتاؤں کے وجود سے بھی انکار کردیا تھا۔

    مزید پڑھیں: خلیل جبران کے اقوال

    سقراط کے خیالات کی وجہ سے نوجوان اس کے پاس کھنچے چلے آنے لگے جس کی وجہ سے یونان کے بر سر اقتدار طبقے کو محسوس ہوا کہ اگر سقراط کا قلع قمع نہ کیا گیا تو انہیں بہت جلد نوجوانوں کی بغاوت کا سامنا ہوگا۔

    چنانچہ انہوں نے اس پر مقدمہ درج کر کے اسے موت کی سزا سنا دی۔ اس وقت سزائے موت کے مجرم کو زہر کا پیالہ پینے کے لیے دیا جاتا تھا۔

    زہر پینے کے بعد سقراط نے نہایت آرام و سکون سے اپنی جان دے دی۔

    وہ اپنے بارے میں کہتا تھا، ’میں کوئی دانش مند نہیں، لیکن ان احمق لوگوں کے فیصلے سے دنیا مجھے ایک دانش مند کے نام سے یاد کرے گی‘۔

    مزید پڑھیں: ایک ماں کا اپنی بیٹی کی تربیت کا انوکھا انداز

    زہر کا پیالہ پینے کے بعد اس نے کہا، ’صرف جسم مر رہا ہے، لیکن سقراط زندہ ہے‘۔

    آج ہم سقراط کے ایسے اقوال پیش کر رہے ہیں جو یقیناً آپ کے علم و دانش میں اضافے کا باعث بنیں گے۔

    اپنے آپ کے بارے میں سوچو، اور خود کو جانو۔

    خوشی کا راز وہ نہیں جو تم دیکھتے ہو۔ خوشی زیادہ حاصل کرنے میں نہیں، بلکہ کم میں لطف اندوز ہونے میں ہے۔

    سب سے مہربانی سے ملو۔ کیونکہ ہر شخص اپنی زندگی میں کسی جنگ میں مصروف ہے۔

    میں کسی کو کچھ بھی نہیں سکھا سکتا۔ میں صرف لوگوں کو سوچنے پر مجبور کرتا ہوں۔

    ایک مصروف زندگی کے کھوکھلے پن سے خبردار رہو۔

    اصل ذہانت اس بات کو سمجھنا ہے کہ ہم زندگی، دنیا اور اپنے آپ کے بارے میں بہت کم جانتے ہیں۔

    بے قیمت انسان کھانے اور پینے کے لیے جیتے ہیں، قیمتی اور نایاب انسان جینے کے لیے کھاتے اور پیتے ہیں۔

    علم کو دولت پر فوقیت دو، کیونکہ دولت عارضی ہے، علم دائمی ہے۔

    سوال کو سمجھنا، نصف جواب کے برابر ہے۔

    اگر تم وہ حاصل نہ کر سکے جو تم چاہتے ہو تو تم تکلیف میں رہو گے۔ اگر تم وہ حاصل کرلو جو تم نہیں چاہتے تو تم تکلیف میں رہو گے۔ حتیٰ کہ تم وہی حاصل کرلو جو تم چاہتے ہو تب بھی تم تکلیف میں رہو گے کیونکہ تم اسے ہمیشہ اپنے پاس نہیں رکھ سکتے۔

    تبدیلی فطرت کا قانون ہے۔

    میں ایتھنز یا یونان سے تعلق نہیں رکھتا، بلکہ دنیا کا شہری ہوں۔

    حیرت، ذہانت کا آغاز ہے۔

    موت شاید انسان کے لیے سب سے بڑی نعمت ہے۔

    تمہارا دماغ سب کچھ ہے۔ تم جو سوچتے ہو، وہی بن جاتے ہو۔

    میں اس وقت دنیا کا سب سے عقلمند آدمی ہوں، کیونکہ میں جانتا ہوں کہ میں کچھ نہیں جانتا۔

    مزید پڑھیں: عظیم فلسفی کنفیوشس کے 12 رہنما افکار

  • امید کا دیا روشن کرنے والا لندن کا ٹیوب اسٹیشن

    امید کا دیا روشن کرنے والا لندن کا ٹیوب اسٹیشن

    لندن: برطانیہ کے دارالحکومت لندن میں ایک ٹیوب اسٹیشن پر آنے والے مسافر کبھی بھی ناامید نہیں ہوتے، کیونکہ ان کی مایوسی و ناامیدی کو ختم کرنے اور انہیں حوصلہ دینے کے لیے یہ اسٹیشن انہیں روز کسی بڑے مفکر کا کوئی قول سناتا ہے۔

    جب مسافر اپنی ٹرین پکڑنے کے لیے لندن کے اوول ٹیوب اسٹیشن کی سیڑھیوں سے نیچے اترتے ہیں تو ان کے کانوں کو بیتھووین کی موسیقی سنائی دیتی ہے، سامنے ہی ایک چھوٹی سی لائبریری نظر آتی ہے جبکہ دیوار پر کسی مفکر کا قول لکھا ہوتا ہے جو انہیں زندگی کی جدوجہد میں نئی توانائی فراہم کرتا ہے۔

    اسٹیشن کی سامنے کی دیوار پر ایک سفید بورڈ لٹکایا گیا ہے جس پر سیاہ مارکر سے سقراط سے لے کر پائلو کوہلو تک کے اقوال لکھے جاتے ہیں۔

    یہ کام دراصل اسٹیشن کی انتظامیہ نے شروع کیا ہے۔ 2004 سے شروع ہونے والے اس سلسلہ میں اب ایک لائبریری اور چند بینجوں کا بھی اضافہ ہوچکا ہے جہاں اگر لوگ چاہیں تو آرام سے بیٹھ کر مطالعہ کر سکتے ہیں۔

    oval-4

    اسٹیشن انتظامیہ کا کہنا ہے کہ وہ مذہبی، سیاسی یا نسلی و صنفی امتیاز پر مبنی اقوال لکھنے سے گریز کرتے ہیں۔

    ذرا تصور کریں، جب آپ صبح اٹھیں، اور دیر سے اٹھنے اور آفس یا کلاس کے لیے لیٹ ہونے پر خود کو کوستے ہوئے، بھاگتے ہوئے ٹیوب اسٹیشن میں داخل ہوں، اور سامنے ہی ایک رومی بادشاہ مارکوس کا قول لکھا نظر آئے، کہ ’جب آپ صبح اٹھتے ہیں تو سوچیں کہ آپ کس قدر خوش نصیب ہیں، جو زندہ ہیں، جو سوچ سکتے ہیں، جو چیزوں سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں اور جو محبت کرسکتے ہیں‘، تو کیا اس قول کو پڑھنے کے بعد بھی آپ خود کو برے القاب سے نوازیں گے؟

    oval-2

    ایک مسافر کا کہنا ہے کہ وہ روز اس ٹیوب سے سفر کرتی ہے اور جب وہ اپنے گھر سے نکلتی ہے تو اسے انتظار ہوتا ہے کہ آج اسے کس کا قول پڑھنے کو ملے گا۔

    وہ بتاتی ہے کہ ایک دن بورڈ پر برازیلین مصنف پائلو کوہلو کا مشہور قول جو ان کی شہرہ آفاق کتاب ’الکیمسٹ‘میں شامل ہے، لکھا تھا، ’دنیا میں صرف ایک چیز آپ کو اپنے خواب کی تعبیر حاصل کرنے سے روک سکتی ہے، اور وہ ہے ناکامی کا خوف‘۔ اسے پڑھنے کے بعد اس میں کام کرنے اور اپنا مقصد حاصل کرنے کا نیا جذبہ پیدا ہوگیا۔

    اس بورڈ پر مشہور افراد کے اقوال کے ساتھ کبھی کبھار انتقال کر جانے والی شخصیات کو خراج تحسین، مختلف کھیلوں میں قومی ٹیم کی حوصلہ افزائی، یا شاہی خاندان کے افراد کی سالگراہوں پر تہنیتی پیغامات بھی درج کیے جاتے ہیں۔

    oval-3

    ایک بار آسکر وائلڈ کے ایک قول کے ذریعہ معاشرے کی تلخ تصویر بیان کی گئی، ’آج کل لوگوں کو ہر شے کی قیمت تو پتہ ہے، لیکن کسی شے کی قدر نہیں‘۔

    لندن کے اوول ٹیوب اسٹیشن پر شروع ہونے والا یہ رجحان آہستہ آہستہ اب دوسری جگہوں پر بھی پھیلتا جارہا ہے۔ لندن کے کئی ریستورانوں، شراب خانوں، بس اور ٹرین اسٹیشنز پر بھی اس رجحان سے متاثر ہو کر اور گاہکوں کو متوجہ کرنے کے لیے ایسے اقوال لکھے جارہے ہیں۔

    oval-1

    جیسے شہر کے ایک پب کے باہر نصب بورڈ پر لکھا گیا، ’شراب ہر سوال کا جواب ہے، لیکن مشکل یہ ہے کہ شراب پینے کے بعد سوال یاد نہیں رہے گا‘۔

    اسی طرح ایک کیفے کے باہر گاہکوں کو تنبیہہ کی گئی، ’اگر آپ نے بدمزاجی سے بات کی تو ہم آپ کو بدمزہ ترین کافی پلائیں گے‘۔

    oval-6

    اقوال سے سجے یہ بورڈز گاہکوں، مسافروں اور دیگر غیر متعلقہ افراد کی توجہ کا فوراً مرکز بن جاتے ہیں اور وہ اس کی تصاویر کھینچ کر اپنے پاس محفوظ کر لیتے ہیں یا اسے سوشل میڈیا پر شیئر کرلیتے ہیں، یوں روشنی اور امید پھیلانے کا یہ سلسلہ دراز ہوتا جاتا ہے۔