Tag: سقوطِ غرناطہ

  • اقبال کے ‘نطشے قدم’ پر!

    یہ 1986ء کی بات ہے، جب ہمارے اندر علامہ اقبال کے خودی کے اسرار کچھ کھلنے لگے تھے۔ مستنصر حسین تارڑ کی کتاب ”نکلے تیری تلاش میں“ اور مختار مسعود کی کتاب ”سفر نصیب“ پڑھنے کے بعد ہم بھی نکل کھڑے ہوئے کسی کی تلاش میں۔

    بفضلِ تعالیٰ سفر نصیب ہوا اور ایک لمبی سیاحت حاصل کی۔ سفر کا پہلا پڑاؤ فرینکفرٹ (جرمنی) تھا۔ میرے میزبان بزلہ سنج اسلم صدیقی تھے، انھیں اقبالیات سے خاص لگاؤ تھا۔ ’پی آئی اے‘ میں کار گزاری نے انھیں ایک عالَم کی سیر کرائی تھی، ایک روز وہ مجھے فرینکفرٹ سے ہیڈلبرگ لے گئے۔ ایک پرسکون علاقے میں انھوں نے گاڑی روکی اور مجھے وہاں لے گئے، جو تمام عاشقانِ اقبال کے لیے ایک یادگاری مقام ہے۔

    کیا دیکھتا ہوں کہ لبِ ساحل ایک بورڈ آویزاں تھا، جس پر جلی حروف میں Iqbal Ufer لکھا ہوا تھا، یہی وہ جگہ تھی جہاں 1907ء میں ہیڈلبرگ کے مقام پر علّامہ اقبال زیرِ تعلیم رہے۔ اس بورڈ کے پاس کھڑے ہو کر ہماری سوچ کا دھارا علّامہ اقبال کی جانب ہو گیا، اسلم کہنے لگے کہ مغربی تنقید نگاروں کا خیال ہے کہ اقبال جرمن مفکر نطشے سے بہت متاثر تھے۔ اس نظریے کے ثبوت میں وہ اقبال کے ’مردِ مومن‘ کا نطشے کے ’سپرمین‘ سے موازنہ کرتے ہیں، جو بظاہر ایک دوسرے سے مماثل معلوم ہوتے ہیں۔ اس تصور نے خاص طور پر اس وقت جنم لیا، جب علّامہ اقبال کی ’اسرارِ خودی‘ کا انگریزی ترجمہ منظرِ عام پر آیا۔ مغربی تنقید نگاروں نے یہ ٹھپّا لگا دیا کہ اقبال نطشے کی ترجمانی کر رہے ہیں۔ اس سوچ کی تردید میں علّامہ اقبال نے خود ڈاکٹر نکسن کو اپنے ایک خط میں تحریر کیا کہ کچھ تنقید نگار میری تخلیق کو صحیح طور پر نہیں سمجھ سکے، یہی وجہ ہے کہ انھوں نے غلط بحث کر کے میرے ’مردِ مومن‘ اور جرمن مفکر نطشے کے ’فوق الانسان‘ کو ایک ہی تصور کر بیٹھے۔ میں نے اس سے پہلے انسانِ کامل کے معترفانہ عقیدے پر قلم اٹھایا تھا اور یہ وہ زمانہ ہے، جب کہ نہ تو نطشے کے عقائد کا غلغلہ میرے کانوں تک پہنچا تھا اور نہ ہی اس کی کتابیں میری نظر سے گزری تھیں۔ سوچ کی مماثلت کبھی بھی کہیں بھی اتفاقیہ ہو سکتی ہے۔

    علّامہ اقبال نے فارسی ادب اور ثقافت کا بہت گہرا اور وسیع مطالعہ کیا تھا۔ اس کا ثبوت ان کی فارسی شاعری ہے۔ اقبال کی مصر، فلسطین، ہسپانیہ، اطالیہ اور افغانستان جیسے ممالک کی سیاحت جن سے اسلامی عظمتیں وابستہ ہیں۔ ان کی طبیعت حرکتی عنصر کو اجاگر کرنے میں ان ممالک کی تاریخ اور سیر میں بڑا اہم کردار ادا کیا۔ علّامہ اقبال کے کلام اور خیالات اور فلسفے کے بغور مطالعے سے یہ بات عیاں ہے کہ علامہ اقبال کا مردِ مومن کون ہے۔ الحمدللہ ہم صاحبِ ایمان کو اس کامل ہستی کو سمجھنے کے لیے کسی نطشے یا زرتشت کی ضرورت نہیں۔ ہمارے پیارے نبیﷺ سے بڑھ کر نہ کوئی کامل ہستی تھا، نہ ہوگا۔ ہیڈلبرگ سے واپسی کے بعد میں گویا اقبال کے ‘نطشے قدم’ پر اپنی سیاحت کرتا رہا۔ علامہ اقبال کا ایک شعر ہے:
    آب رواں کبیر تیرے کنارے کوئی
    دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کا خواب

    اس شعر نے مجھے اندلس کی فضاؤں میں پہنچا دیا، جہاں آج سے صدیوں پہلے طارق بن زیاد نے ساحل پر اپنی کشتیاں جلائی تھیں۔ جہاں کی وادیاں رشک گزار ہیں، جہاں غرناطہ اور قرطبہ ہیں، جہاں اشبیلیہ ہے۔ جہاں الحمرا اور مدینۃُ الزّہرہ ہیں۔ آہ! میری روح شاید ازل سے یہاں آنے کو بے چین تھی، یہاں ایک عظیم قوم کی عظمت کی داستان ہے اور پھر ناعاقبت اندیشی سے زوال کی شرم ناک کہانی ہے۔ یہاں غرناطہ کے عالی شان محلات ہیں۔ اب ان کے در ودیوار کھڑے درسِ عبرت دے رہے ہیں۔ وہ زمانہ خواب و خیال ہو گیا، جب یہاں پتھر پتھر خوشی کے ترانے سناتا تھا۔ اے الحمرا کہاں ہے تیری وہ رعنائی، کہاں گیا تیرا وہ بانکپن۔

    اندلس کی سرزمین پر کتنی دل فریب داستانیں پوشیدہ ہیں، عبدالحلیم شرر کے ناول ”فلورا فلورنڈا“ کو کون بھول سکتا ہے۔ کون جانے تاریخ پھر اپنے آپ کو دُہرائے اور مستقبل عظمتِ رفتہ کی واپسی کا پیمبر بن کر آئے۔ قرطبہ پہنچ کر کون ہے، جسے علاّمہ اقبال کی مشہور نظم مسجدِ قرطبہ یاد نہ آئے۔ علّامہ کی نظم مسجدِ قرطبہ کا یہ سلسلۂ روز و شب بہت طویل ہے۔ بس آپ کی خدمت میں پہلا اور آخری شعر پیش خدمت ہے؎

    سلسلۂ روز و شب نقش گرِ حادثات
    سلسلۂ روز و شب اصلِ حیات و ممات

    نقش ہیں سب ناتمام خونِ جگر کے بغیر
    نغمہ ہے سودائے خام خونِ جگر کے بغیر

    (ڈاکٹر فرید اللہ صدیقی کے مضمون سے منتخب پارہ)

  • اے گلستان اندلس وہ دن ہیں یاد تجھ کو

    اے گلستان اندلس وہ دن ہیں یاد تجھ کو

    آج سقوط غرناطہ کو 527 سال مکمل ہوگئے۔ آج سے 527 سال قبل ہجری 892، سنہ 1492 میں اسپین میں عظیم مسلم اقتدار کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہوگیا اور ان کی آخری ریاست غرناطہ بھی عیسائیوں کے قبضے میں چلی گئی۔

    یورپ کے اس خطے پرمسلمانوں نے کم و بیش 7 سے 8 سو سال حکومت کی۔ سنہ 711 عیسوی میں مسلمان افواج نے طارق بن زیاد کی قیادت میں بحری جہازوں پر سوار ہو کر اسپین پر حملہ کیا، یہ کم و بیش تھا جب سندھ کے ساحلوں پر محمد بن قاسم اور افریقا کےساحلوں پر اموی کمانڈر موسیٰ بن نصیر کے پرچم لہرارہے تھے۔

    جس ساحل پر مسلمان فوجیں اتریں اسے ’جبل الطارق‘ کے نام سے موسوم کیا گیا تاہم بعد میں انگریزوں کے تعصب نے اس کو بدل کر ’جبرالٹر‘ کردیا۔

    قصر الحمرا

    ایک روایت کے مطابق اسپین پرحملے کے وقت طارق بن زیاد نے اپنی فوج کو جو حکم دیا اسے بعد کی  تاریخ میں سنہری الفاظ سے لکھا گیا۔

    ساحل پر اترنے کے بعد اس نے تمام جہازوں پر تیل چھڑک کر ان کو نذر آتش کروا دیا اور اپنے خطاب میں کہا، ’اب واپسی کے راستے مسدود ہوچکے ہیں، لڑو اور فتح یا شہادت میں سے کسی ایک کا انتخاب کرو‘۔(علامہ ادریسی)۔

    مسجدِقرطبہ کا اندرونی منظر

    اسپین پر مسلمانوں کی فتح کے بعد اس خطے کی قسمت جاگ اٹھی۔ اس سے قبل یہ یورپ کا غلیظ ترین اور مٹی و کیچڑ سے بھرا خطہ مانا جاتا تھا جہاں کے لوگوں کو تعلیم و ترقی سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔

    مسلمانوں کے برسر اقتدار آنے کے بعد یہاں تعلیم کی روشنی پھیلی اور ایک وقت ایسا آیا کہ اسپین خوبصورتی، تعلیم اور فن و ثقافت کا مرکز بن گیا۔

    اسپین میں مسلمانوں کی بے شمار تعمیرات میں سے 2 قابل ذکر تعمیرات قصر الحمرا اور مسجد قرطبہ تھیں۔ قصر الحمرا مسلمان خلفاء کی رہائش گاہ کے طور پر استعمال ہوتا تھا جسے عیسائی فتح کے بعد عیسائی شاہی خاندان کی جائے رہائش بنا دیا گیا۔

    عظیم اور خوبصورتی کا شاہکار مسجد قرطبہ اس وقت اسلامی دنیا کی سب سے عالیشان مسجد تھی، بعد ازاں اسے بھی گرجا گھر میں تبدیل کردیا گیا۔

    الحمرا کا اندرونی منظر

     

    مسلمانوں کی علم دوستی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اسپین میں مسلمانوں کے زوال کے بعد 300 سال تک جرمنی، اٹلی اور فرانس کے شاہی درباروں میں مسلمانوں کی تدوین کردہ کتب کے یورپی زبانوں میں ترجمے ہوتے رہے۔ اس کے باوجود اندلس میں کتب خانوں کے تہہ خانے مزید کتابوں سے بھرے پڑے تھے جنہیں ہاتھ تک نہ لگایا جاسکا۔

    سقوط غرناطہ کے وقت اسپین میں آخری مسلم امارت غرناطہ کے حکمران ابو عبداللہ نے تاج قشتالہ اور تاج اراغون کے عیسائی حکمرانوں ملکہ ازابیلا اور شاہ فرڈیننڈ کے سامنے ہتھیار ڈال دیے اور اس طرح اسپین میں صدیوں پر محیط عظیم مسلم اقتدار کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہوگیا۔

    مسجد قرطبہ

    شکست کے وقت کیے جانے والے معاہدے کے تحت اسپین میں مسلمانوں کو مکمل مذہبی آزادی کی یقین دہانی کروائی گئی لیکن عیسائی حکمران زیادہ عرصے اپنے وعدے پر قائم نہ رہے اور یہودیوں اور مسلمانوں کو اسپین سے بے دخل کردیا گیا۔مسلمانوں کو جبراً عیسائی بھی بنایا گیا اور جنہوں نے اس سے انکار کیا انہیں جلاوطن کردیا گیا۔