Tag: سقوط دکن

  • حیدرآباد دکن:‌ ‘جنوبی ہند کا پاکستان’ جس پر بھارت نے 17 ستمبر کو قبضہ کرلیا

    حیدرآباد دکن:‌ ‘جنوبی ہند کا پاکستان’ جس پر بھارت نے 17 ستمبر کو قبضہ کرلیا

    13 ستمبر 1948 کو بھارت نے حیدرآباد دکن پر پولیس ایکشن کی آڑ لے کر اپنی افواج داخل کردی تھیں جس کے پانچ دن بعد نظام حیدرآباد کے کمانڈر اِن چیف سید احمد العیدروس نے باضابطہ ہتھیار ڈال دیے۔ 17 ستمبر کو ہندوستان کی اس مرفّہ الحال ریاست پر بھارت قابض ہو گیا۔

    حیدرآباد دکن ہندوستان میں‌ تہذیب و ثقافت کا گہوارہ اور وہ ریاست تھی جس میں اردو کو سرکاری زبان کا درجہ حاصل تھا۔ سقوطِ دکن پر تحریروں میں اہلِ قلم نے دکن کو ‘جنوبی ہند کا پاکستان’ بھی لکھا ہے۔ اس ریاست میں مختلف زبانیں بولی جاتی تھیں، لیکن اردو کو 19 ویں صدی کے اواخر میں سرکاری زبان قرار دیا گیا تھا۔

    میر عثمان علی خان کو نظام حیدر آباد کہا جاتا تھا جو اپنے دور میں دنیا ایک امیر ترین شخص تھے جن کی سخاوت اور فیاضی بھی مشہور تھی۔ نظام کے پاس زر و جواہرات کے میں ایک ایسا ہیرا بھی تھا جس کے بارے میں‌ کہا جاتا ہے کہ وہ اسے پیپر ویٹ کے طور استعمال کرتے تھے۔

    مؤرخین نے لکھا ہے کہ حیدرآباد پر قبضہ کرنے کے لیے بھارت نے 36 ہزار فوجیوں کو اتارا تھا اور دوسری جانب نظام کے پاس صرف 24 ہزار سپاہی تھے جن میں سے مکمل تربیت یافتہ جوانوں کی تعداد صرف چھے ہزار تھی۔ اس کے علاوہ قاسم رضوی بھی اس ریاست میں تقریباً دو لاکھ رضا کاروں کے کمان دار تھے لیکن یہ سب عام شہری اور غیر تربیت یافتہ لوگ تھے جو صرف نظام کے وفادار اور ریاست کی خودمختاری کے حامی تھے۔

    جنوبی ہند کی اس مسلم ریاست پر بھارتی جارحیت اور انضمام کے اعلان کے ساتھ ہی آصف جاہی سلطنت کا خاتمہ ہو گیا جس کے بعد نظام کی حیثیت ایک گورنر جیسی ہوگئی جو مکمل طور پر بے اختیار تھا۔ ریاست پر بھارت نے یہ حملہ بانی پاکستان محمد علی جناح کی وفات کے بعد کیا تھا جو اسے ہندوستان کے قلب میں مکمل طور پر خود مختار اور آزاد مملکت کی حیثیت سے دیکھنے کے خواہش مند تھے۔

    17 ستمبر کو بھارتی جنرل چودھری نے دہلی کو اطلاع دی کہ وہ حیدر آباد پر مکمل طور پر قبضہ کرچکے ہیں اور اب نظام کی فوج یا وفاداروں کی جانب سے مزاحمت کا کوئی امکان نہیں‌ ہے۔ بعد میں ریاست کے ساتویں اور آخری سلطان میر عثمان علی خان کو ریڈیو اسٹیشن پر بھارت سے الحاق کا اعلان کرنا پڑا۔

    حیدرآباد دکن میں چھٹے حکم راں اور آخری تاجدار کے دور کو زریں عہد کہا جاتا ہے جس میں ریاست خوش حال اور ہر مذہب کے لوگ امن کے ساتھ رہتے تھے۔ میر عثمان علی خان علم پرور شخصیت کے طور پر بھی مشہور ہیں اور اکثر انھیں سلطان العلوم بھی لکھا گیا ہے جس کی وجہ یہ تھی کہ اس زمانے میں ہندوستان کے طول و عرض‌ سے علماء اور قابل شخصیات یہاں مختلف مدارس، اسکولوں اور بالخصوص 1918ء میں میر عثمان علی خان کے حکم پر قائم کی گئی جامعہ عثمانیہ میں‌ مختلف علمی و ادبی سرگرمیوں میں مشغول رہے۔ اس جامعہ میں ذریعۂ تعلیم اردو تھا۔ اس کے دارالترجمہ میں علما، فضلا نے کئی کتب کے تراجم کیے اور اردو کو ترقی اور ترویج نصیب ہوئی۔

    میر عثمان علی خان وہ شخصیت تھے جنھوں‌ نے کئی مسلم ممالک جن میں عرب سے افریقہ تک کی چھوٹی بڑی ریاستیں‌ شامل ہیں، ان کے والیان کو ضرورت اور تقاضہ کرنے پر نہ صرف مالی امداد دی بلکہ ہر جگہ علمی کام، تعلیمی اور سماجی اداروں کے قیام اور ان کو چلانے کے لیے اپنے خزانوں کے منہ کھول دیے۔ پاکستان کے قیام کے بعد میر عثمان علی خان نے پاکستان کو 20 کروڑ روپے کی امداد بھی دی تھی۔

  • ”وہ سب گھر داماد ہیں، کوئی فکر کی بات نہیں…“

    حیدر آباد کے سقوط کے بعد حکومتِ پاکستان نے مجھے یقین دلایا تھا کہ حیدرآباد پر بھارت کے قبضے سے میرا سفارتی رتبہ اور حیثیت متاثر نہیں ہوگی اور تمام مراعات برقرار رہیں گی۔

    نواب زادہ لیاقت علی خاں کو حکومت کی اس یقین دہانی کا شدت سے احساس تھا اور جن دشوار حالات میں، میں اپنے مؤقف کو نباہ رہا تھا، وہ اس کی دل سے قدر کرتے تھے۔

    حیدر آباد کے سقوط کے بعد اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل ریلوے نے مجھے ایک بڑے عہدے کی پیش کش کی۔ جب نواب زادہ صاحب کو اس کا علم ہوا تو انھوں نے مجھ سے پوچھا ”مشتاق! کیا تم اپنی ذمے داری سے دست بردار ہونا چاہتے ہو…؟“ میں نے جواب دیا ”میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے، جب تک حکومتِ پاکستان میرے اسنادِ تقرر کو تسلیم کرتی ہے، میرے لیے اپنی ذمہ داریوں سے سبک دوش ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔“

    میرے اس جواب پر لیاقت علی خاں نے خود ریلوے والوں سے کہہ کر ملازمت کی پیش کش واپس کرا دی۔ اس کے بعد وہ معمول سے بھی زیادہ میرا خیال کرنے لگے۔ اس کے برخلاف غلام محمد صاحب جن سے حیدر آباد کے معاملات میں مجھ سے براہِ راست تعلق تھا، کے روّیے سے صاف معلوم ہوتا تھا کہ ان کی خواہش ہے کہ میں کسی نہ کسی طرح اپنی ذمہ داریوں سے سبک دوش ہو جاؤں۔ چناں چہ انھوں نے خود ہی مجھے مرکزی سیکریٹریٹ میں عہدے کی پیش کش کرا دی، جسے میں نے نواب زادہ علی لیاقت علی خان سے پوچھے کے بغیر ہی مسترد کر دیا۔

    اس پر غلام محمد صاحب مجھ سے کئی دنوں تک بہت ناراض رہے۔ علاوہ ازیں بعض اعلیٰ عہدے داروں کے روّیے سے یہ تاثر ہونے لگا کہ وہ میری سفارتی پوزیشن کو کچھ اچھی نظر سے نہیں دیکھتے۔ اب تک جہاں میں ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا تھا۔ اب وہاں بے اعتنائی اور بے رخی برتی جانے لگی۔ بعض حضرات موقع محل دیکھے بغیر ایسی بات کہہ دیتے تھے، جس سے ان کے دل کی بات ظاہر ہو جاتی تھی۔ مثال کے طور پر ایک حیدر آبادی مہاجر کی شادی ایک وزیرِ مملکت کے گھرانے میں طے پائی۔ حیدر آباد کا نمائندہ ہونے کی بنا پر میں برات کا سربراہ تھا۔ جیسے ہی برات دلہن کے گھر داخل ہوئی، ایک بڑے افسر نے خواجہ ناظم الدّین صاحب کو، جو مہمان خصوصی تھے، مخاطب کر کے کہا ”لیجیے جناب اب حیدر آبادی ہماری لڑکیوں کو بھی لے جانے لگے۔“ مجھے یہ مذاق بھونڈا اور بے موقع معلوم ہوا اور میں نے جواباً عرض کیا ”مگر جنابِ عالی، وہ سب گھر داماد ہیں، کوئی فکر کی بات نہیں۔ کوئی باہر نہیں جائے گا۔“ مطلب یہ کہ آپ حیدر آبادیوں کے پاکستانی معاشرے میں ضم ہونے کو برا کیوں مناتے ہیں۔ یہ جواب سن کر وہ شرمندہ ہوگیا اور خواجہ صاحب نے اپنے مخصوص انداز میں اس جواب کو بہت سراہا۔

    ان حالات میں نواب زادہ صاحب کی شفقت اور چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کی حمایت کے باوجود میں روز بروز یہ محسوس کرنے لگا کہ وقت گزرنے کے ساتھ میرے مشن میں دل چسپی میں نمایاں کمی ہو رہی ہے اور جو مراعات مجھے شروع سے حاصل تھیں یا قاعدے کے مطابق یا انصاف کی رُو سے مجھے ملنی چاہیے تھیں، ان کے بارے میں ’احتیاط‘ برتی جانے لگی اور جو غلط استدلال میری اسناد کی پیش کشی کے وقت بروئے کار لایا گیا، وہ آہستہ آہستہ میری حاصل شدہ مراعات کو بھی متاثر کرنے لگا۔ مثلاً موٹر پر لگائی جانے والی پلیٹ کا ہی معاملہ تھا۔ میرا کہنا یہ تھا کہ جو سفارتی مراعات میرے ہم رتبہ سفیر کو نئی دہلی میں حاصل تھیں، جس میں پلیٹ کا امتیازی نشان بھی شامل تھا، مجھے بھی ملنی چاہییں، لیکن اس پر ٹال مٹول ہوتا رہا۔

    (نواب مشتاق احمد خان حیدر آباد دکن کے پاکستان میں پہلے اور آخری نمائندے تھے جن کی خود نوشت ’کاروانِ حیات‘ کے عنوان سے شایع ہوئی، یہ پارے اسی کتاب سے لیے گئے ہیں)

  • جذباتیت کے ہاتھوں ’تحریک‘ کا انجام

    جذباتیت کے ہاتھوں ’تحریک‘ کا انجام

    تقسیم کے فوراً بعد جذباتیت کا جیسا مظاہرہ حیدر آباد (دکن) کے سلسلے میں ہوا تھا، ویسا شاید ہی اور کسی مسئلے کے بارے میں ہوا ہو۔

    حیدر آباد برصغیر میں سب سے بڑی مسلمان ریاست تھی۔ ذہنی طور پر یہاں لوگ اس کے لیے بالکل تیار نہیں تھے کہ اس ریاست کا الحاق ہندوستان سے ہو جائے۔

    اتفاق سے ان دنوں ہم ایک ہفتہ وار رسالہ کے ایڈیٹر کی حیثیت سے کام کر رہے تھے اور تبادلے میں حیدر آباد کے سارے اردو اخبارات‘ روزنامے بھی اور ہفت روزے بھی ہمیں موصول ہوتے تھے اور کس انہماک سے ہم یہ ساری خبریں اور تبصرے پڑھتے تھے۔

    حیدر آباد میں ایک تنظیم تھی جس کا نام ہمیں اگر غلط یاد نہیں تو وہ تھا ’مجلس اتحاد المسلمین‘، اس کے سربراہ تھے سید قاسم رضوی۔ کیسے شعلہ فشاں خطیب تھے۔

    اپنی تقریروں میں اخباری بیانات میں انگارے اُگلتے تھے۔ اعلان کرتے تھے کہ ہم موسی ندی کو جمنا ندی سے ملا دیں گے اور لال قلعے پر ریاست عثمانیہ کا پرچم لہرائیں گے۔ ان تقریروں نے ادھر حیدر آباد میں سخت جذباتی فضا پیدا کر دی تھی۔

    ادھر پاکستان میں بھی یار لوگ یہ سمجھ رہے تھے کہ حیدر آباد کے محاذ پر بڑا معرکہ پڑنے والا ہے۔ ساتھ میں ہتھیاروں کے ایک ایجنٹ کا نام خبروں میں بہت آرہا تھا، خبریں یہ تھیں کہ حیدرآباد میں ہتھیار بہت بڑی تعداد میں پہنچ رہے ہیں۔ بس جب معرکہ پڑے گا تو دیکھنا کیا ہوتا ہے۔ نو نیزے پانی چڑھے گا۔

    نظام حیدر آباد ایسی جذباتی مخلوق کے نرغے میں تھے۔ اس کے باوصف درون پردہ افہام و تفہیم کی بہت کوششیں ہو رہی تھیں جس کے نتیجہ میں اسٹینڈ اِسٹل اگریمنٹ کے نام سے ایک سمجھوتا ہوا، جس کی رو سے یہ طے ہوا کہ اگلے پانچ سال تک ریاست حیدر آباد جوں کی توں رہے گی۔ پانچ سال کے بعد ٹھنڈے دل سے ریاست کے مسئلے پر سوچ بچار کیا جائے گا۔

    سنا گیا کہ اس سمجھوتے کے کرانے میں ہندوستان کے بعض مسلمان زعما نے یعنی نیشنلسٹ مسلمان زعما نے بہت کردار ادا کیا تھا۔ خاص طور پر دو نام لیے جا رہے تھے۔ مولانا ابوالکلام آزاد اور سر مرزا اسماعیل۔ بس ادھر پاکستان میں شور مچ گیا کہ نظام نے حیدر آباد کو بیچ ڈالا۔۔۔!

    ادھر حیدر اباد میں سید قاسم رضوی کی تنظیم نے آسمان سر پر اٹھا لیا۔ وہ مجاہد اعظم موسی ندی کو جمنا ندی سے ملانے کے لیے پر تول رہا تھا۔ حیدر آباد سے لے کر پاکستان تک ’نظام‘ پر تُھو تُھو ہونے لگی اور اب اس تنظیم کا احوال سن لیجیے۔ ہم نے ’بی بی سی‘ کے ایک نمایندے کی ایک رپورٹ ایک کتاب میں پڑھی تھی۔ اس نے اس تنظیم کے ہیڈ کوارٹر کا دورہ کیا اور سید قاسم رضوی سے ملاقات کی۔

    اس کا بیان ہے کہ یہ سب رضا کار مرنے مارنے کے لیے تیار تھے، مگر تیاری ان کی یہ تھی کہ ان کے پاس ہتھیار کے نام بلم تھے۔ رائفل اس گروہ کے پاس صرف ایک تھی۔ تو جو ہونا تھا وہی ہوا۔ یعنی ؎

    بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
    جو چیرا تو اک قطرہ خوں نہ نکلا

    جب ہندوستان کی طرف سے فوجی کارروائی ہوئی، جسے ’پولیس ایکشن‘ کا نام دیا گیا تھا، تو چند جوشیلے رضاکار ٹینکوں کی زد میں آکر کچلے گئے، کارروائی چند گھنٹوں میں مکمل ہو گئی۔

    ہندی مسلمانوں کی سیاست ہمیشہ اس طرح رنگ لائی کہ سیاسی سوجھ بوجھ کم‘ جذبات کی ندی چڑھی ہوئی، جیسے دشمنوں کو بہا کر لے جائے گی، مگر آخر میں ٹائیں ٹائیں فش۔ جذباتیت کے ہاتھوں تحریک کا انجام ہوتا ہے۔ مگر الزام دیا جاتا ہے اِکا دُکا ان افراد کو جو جذبات سے ہٹ کر زمینی حقائق کو جانچتے پرکھتے ہیں اور مفاہمت کی راہ نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ جذباتی مخلوق یہ سو لگائے بیٹھی تھی کہ حیدر آباد، پاکستان سے الحاق کا یا آزاد ریاست ہونے کا اعلان کرے گا۔

    ادھر اور ہی گُل کھلا۔ ہندوستان سے مفاہمت اور مولانا ابوالکلام آزاد کے واسطے سے۔ بھلا یہ واقعہ کیسے ہضم ہو جاتا۔ یاروں کو اس واقعے سے سازش کی بو آنے لگی۔

    حیدر آباد کے لوگوں کو جو پانچ سال کی مہلت ملی تھی وہ ہم میں سے کسی کو گوارا نہ ہوئی۔ جو شور پڑا اس میں سید قاسم رضوی خوب چمکے دمکے۔ نظام حیدر آباد سمجھوتا کر کے چور بن گئے۔ اس کے بعد وہی ہوا کہ کتنی خلقت حیدر آباد سے اُکھڑ کر پاکستان کے لیے نکل کھڑی ہوئی اور کراچی کی مہاجر کالونیوں میں ایک کالونی کا اور اضافہ ہو گیا۔ حیدر آباد کالونی۔

    (انتظار حسین کے کالم ’زوالِ حیدرآباد کی کہانی‘ سے پارہ)