Tag: سقوط ڈھاکہ

  • پاکستان کی وحدت کا قائل وہ ‘بنگالی’ جسے دو سال تک جیل میں رہنا پڑا

    پاکستان کی وحدت کا قائل وہ ‘بنگالی’ جسے دو سال تک جیل میں رہنا پڑا

    یہ سقوطِ‌ ڈھاکہ پر ایک مشہور تصنیف کے مصنف کی باتیں ہیں جس پر آج بھی دل خون کے آنسو روتا ہے۔ مصنّف ان لوگوں‌ میں سے تھے جنھوں‌ نے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنتے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔

    یہ شخصیت پروفیسر ڈاکٹر سید سجاد حسین ہیں جو سقوط مشرقی پاکستان سے پہلے صوبے کی معروف ترین ڈھاکہ یونیورسٹی کے آخری وائس چانسلر تھے۔ انگریزی ادب کے ممتاز استاد اور فلسفہ تاریخ کے ماہر پروفیسر ڈاکٹر سید سجاد حسین ضلع ماگورہ (موجودہ بنگلہ دیش) میں پیدا ہوئے۔ ڈھاکہ یونیورسٹی سے انگریزی میں ماسٹرز کیا اور ناٹنگھم یونیورسٹی (برطانیہ) سے انگریزی ادب میں پی ایچ ڈی کی۔

    وہ قائد اعظم کی ولولہ انگیز قیادت سے متاثر ہو کر تحریک آزادی کے قافلے کا حصہ بنے اور قیام پاکستان کی حمایت کرنے والے اوّلین بنگالی نوجوانوں میں سے ایک تھے۔ بنگلہ زبان میں انھوں‌ نے "پاکستان” کے نام سے پندرہ روزہ جریدہ بھی جاری کیا۔ مختلف اخبارات میں نظریۂ پاکستان کے حق میں مضامین تحریر کیے۔ 1944ء میں اسلامیہ کالج، کلکتہ میں انگلش کے لیکچرر مقرر ہوئے۔ ساری زندگی درس و تدریس میں صرف کر دی۔ راج شاہی یونیورسٹی کے وائس چانسلر رہے اور سقوط مشرقی پاکستان سے چند ماہ قبل ڈھاکہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر مقرر ہوئے تھے۔ انھوں نے بنگلہ دیش میں جو سزائیں بھگتیں اور دو سال جیل بھی کاٹی۔ اس کا تذکرہ انھوں نے اپنی یادداشتوں پر مبنی کتاب میں کیا ہے جس سے یہ پارے لیے گئے ہیں۔ پانچ کتابوں کے مصنّف کی اس کتاب کا اردو ترجمہ "شکستِ آرزو” کے نام سے ہوا تھا۔ اسے ہم ایک عاشقِ زار کے طرز فکر، جذبات اور مشاہدات کا دل گداز مرقع کہہ سکتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:

    میں نے یہ یادداشتیں ۱۹۷۳ء میں ڈھاکا جیل میں قلم بند کی تھیں، جہاں مجھے پاکستان کے خلاف چلائی جانے والی تحریک میں شیخ مجیب الرحمان کا ساتھ نہ دینے کے جرم میں قید رکھا گیا تھا۔

    میں نہ کوئی سیاست دان تھا اور نہ ہی کسی سیاسی جماعت کا کارکن۔ البتہ میں یحییٰ حکومت کی درخواست پر ۱۹۷۱ء میں برطانیہ اور امریکا گیا تھا تاکہ یہ واضح کر سکوں کہ مشرقی پاکستان میں جاری جدوجہد دراصل کن دو قوتوں کے درمیان تھی۔ ایک طرف تو وہ لوگ تھے جو پاکستان کو نقصان پہنچانا چاہتے تھے اور دوسری طرف وہ جو اِس کے نظریے سے محبت کرتے تھے۔

    جیل میں میرا موڈ شدید غصے، بدحواسی اور مایوسی کے امتزاج پر مبنی تھا۔ قتل کی ایک ناکام کوشش نے مجھے جسمانی معذوری سے بھی دوچار کر دیا تھا۔ اس پر مستزاد یہ کہ جو کچھ میرے عقائد اور نظریات پر مبنی تھا وہ میری آنکھوں کے سامنے مٹی میں مل چکا تھا۔ مجھ پر اس کا خاص نفسیاتی اثر مرتب ہوا تھا۔ دل میں یہ احساس بھی جاگزیں تھا کہ ہم ایک ایسی شکست سے دوچار ہوئے ہیں جس کے اثرات سے جان چھڑانا ممکن نظر نہیں آتا تھا کہ ۱۹۷۱ء میں جو تبدیلی رونما ہوئی تھی وہ میرے لوگوں کے لیے سود مند نہیں تھی۔ اس خیال نے مجھے خاصے دباؤ میں رکھا اس لیے کہ کہیں امید کی کوئی کرن دکھائی نہیں دیتی تھی۔ اس خاص ذہنی کیفیت اور فضا میں، میں نے ان واقعات سے متعلق یادداشتیں قلم بند کیں جو ۱۹۷۱ء کے سانحے پر منتج ہوئے۔

    میری خواہش تھی کہ تمام تکلفات کو بالائے طاق رکھ کر دل کی بات لکھوں۔ مگر اس بات کا کم ہی یقین تھا کہ جو کچھ میں لکھ رہا ہوں وہ کبھی منظرِ عام پر آ سکے گا۔ بہرحال اس بات کو میں اپنا فرض سمجھتا تھا کہ جو کچھ دیکھا اور سنا ہے اُسے ریکارڈ پر ضرور لے آؤں۔ میں نے سچ بیان کیا ہے اور اس معاملے میں کسی دوست یا دشمن کی پروا نہیں کی ہے۔ یہ سب کچھ لکھنے کا بنیادی مقصد صرف یہ تھا کہ میں بیان کر سکوں کہ ہم اُس ریاست کی حفاظت کیوں نہ کر سکے جو کروڑوں انسانوں کے خوابوں کی تعبیر تھی اور جس کے حصول کے لیے ہم نے بے حساب خون، پسینہ اور آنسو بہائے تھے۔ منافقوں کی موقع پرستی سے بھی میں بہت رنجیدہ تھا۔ میں نے ایسے بھی بہت سے لوگ دیکھے تھے جو آخری لمحات تک متحدہ پاکستان کے حامی تھے، مگر بنگلہ دیش کے معرضِ وجود میں آنے کے بعد ’’فاتحین‘‘ کو یقین دلانے میں مصروف ہو گئے کہ انہوں نے بھی اسی دن کا خواب دیکھا تھا۔

    میں نے ۷۱۔۱۹۷۰ء میں بنگلہ دیش کے قیام کی تحریک کی مخالفت کی تھی۔ تاہم میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ مشرقی بنگال کے مسلمانوں کو علیحدہ شناخت دے کر بنگالی قوم پرستی ہمیں ایک قوم کی حیثیت سے ضروری استحکام فراہم کر سکتی ہے۔ کسی بھی مسئلے کا حل مایوسی نہیں۔ ہمیں ہر حالت میں اپنے وجود پر یقین رکھنا ہے۔
    جن پر میں نے تنقید کی ہے، انہیں اگر میری زبان اور لہجے میں سختی محسوس ہو تو خیال رہے کہ میں نے یہ کتاب شدید (ذہنی و نفسیاتی) دباؤ میں لکھی تھی۔ انہیں محسوس کرنا چاہیے کہ جب خواب بکھرتے ہیں تو دل پر کیا گزرتی ہے۔ کتاب میں جابجا بیان کا خلا سا محسوس ہوگا، جس کی توضیح سے زیادہ، معذرت مناسب ہے۔ کتاب کا اختتام بھی آپ کو خاصا بے ربط سا محسوس ہوگا، اس کے لیے بھی میں معذرت خواہ ہوں۔

    کتاب میں رہ جانے والا خلا میں ۵ دسمبر ۱۹۷۳ء کو جیل سے رہائی پانے کے بعد دور کرسکتا تھا۔ مجھے یقین تھا کہ جیل میں رہائی کی امید کے نہ ہونے کی کیفیت میں، جو کچھ میں نے لکھا وہ گھر کی آزاد فضا میں لکھی جانے والی باتوں سے بہت مختلف ہو گا۔ میں اس کتاب میں ۲۵ مارچ ۱۹۷۱ء کے کریک ڈاؤن میں ذوالفقار علی بھٹو کے کردار پر بھی پوری تفصیل سے بحث نہیں کر سکا۔ میں یہ بھی بیان نہیں کر پایا کہ اس کریک ڈاؤن کی نوعیت کیا تھی؟ پاکستانی فوج نے دسمبر ۱۹۷۰ء سے ۲۵ مارچ ۱۹۷۱ء تک علیحدگی کی تحریک کو کچلنے کے لیے کوئی بھی قدم کیوں نہیں اٹھایا؟ اور پھر اچانک حرکت میں کیوں آگئی، جبکہ اس کریک ڈاؤن کے مؤثر ہونے کا خود اسے بھی کم ہی یقین تھا؟۔ ۱۹۷۰ء کے انتخابات پر بھی میں کھل کر روشنی نہیں ڈال سکا جو مشرقی پاکستان کے لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے منعقد کیے گئے تھے۔ جو شخص ۱۹۷۰ء میں زندہ و موجود رہا ہو اور اب بھی ان واقعات کو یاد کر سکتا ہو اُسے اندازہ ہو گا کہ عوامی لیگ نے انتخابات میں بھاری اکثریت پانے کے لیے کس طرح مخالفین کے خلاف بھرپور عسکری طاقت کا استعمال کیا۔ ظاہر ہے کہ اس کا مقصد فتح سے بڑھ کر، واک اوور حاصل کرنا تھا۔ لوگوں کو یہ بھی اچھی طرح یاد ہو گا کہ کھلنا اور دیگر ساحلی علاقوں میں ۱۹۷۱ء کے خوفناک سمندری طوفان کے نتیجہ میں ایک لاکھ سے زائد ہلاکتوں کے باوجود، شیخ مجیب الرحمن نے انتخابات کے انعقاد پر اصرار کیا تھا اور یحییٰ خان کو دھمکی دی تھی کہ انتخابات شیڈول کے مطابق نہ ہوئے تو ملک گیر احتجاج کیا جائے گا۔

    یہ اور بہت سے دوسرے واقعات مَیں اس لیے بیان نہیں کر سکا کہ ہمیں یہ عندیہ مل چکا تھا کہ ہم دسمبر ۱۹۷۳ء میں عام معافی کے تحت رہا کر دیے جائیں گے۔ پہلے میں نے یہ سوچا تھا کہ جیل سے باہر نکلنے پر مسوّدے میں اضافہ نہیں کروں گا، مگر پھر یہ سوچا کہ مشرقی پاکستان کے سقوط کا سبب بننے والے واقعات کے بارے میں رائے دینا ضروری ہے، خواہ بیان بے ربط ہی لگے۔

    ۱۹۷۵ء میں، میں سعودی عرب جانے کے لیے، پہلے لندن روانہ ہوا، اس وقت میں نے کتاب کا مسوّدہ عجلت میں ٹائپ کروا کے ایک دوست کے حوالے کر دیا۔ تاکہ یہ کہیں گم نہ ہو جائے۔ میں اپنے اس دوست کا شکر گزار ہوں کہ اس نے ۲۰ سال تک مسوّدے کو سنبھال کر رکھا۔ کہیں ۱۹۹۲ء میں جاکر مجھے اس کی اشاعت کا خیال آیا۔

    (پروفیسر ڈاکٹر سید سجاد حسین کی انگریزی تصنیف The Wastes of Time: Reflections on the Decline and Fall of East Pakistan کے اردو ترجمہ کے پیش لفظ سے چند پارے)

  • ’اکثریت‘ کی قیمت!

    ’اکثریت‘ کی قیمت!

    اخباری کانفرنس میں بیٹھے ہوئے صحافیوں کو اندازہ ہوگیا کہ بھٹو صاحب اقتدار میں حصہ حاصل کیے بغیر اقتدار منتقل پر رضا مند نہیں ہوں گے اور یہ کہ حصہ وہ اپنی پارٹی کی حیثیت سے زیادہ مانگ رہے ہیں۔

    مغربی پاکستان میں اپنی اکثریت کی قیمت جو انھوں نے لگائی تھی، وہ بہت بھاری تھی، ان کو بھی اندازہ تھا، لیکن وہ یہ قیمت زبردستی وصول کرنا چاہتے تھے اور اس کے لیے وہ اپنی جمہوریت نوازی بھی داؤ پر لگانے کو تیار تھے۔ غالباً فوج بھی ان سے یہی کام لینا چاہتی تھی۔ چناں چہ بھٹو صاحب کو فوج کی پشت پناہی حاصل تھی۔ یہاں تک کہ انھوں نے ایک موقعے پر یہ تک کہہ دیا کہ اگر مجیب صاحب اقتدار میں شراکت کے لیے تیار نہیں ہیں تو پھر ”اُدھر تم، اِدھر ہم۔“

    نہ صرف یہ بلکہ انھوں نے یہ دھمکی بھی دے دی کہ ”جو سیاست داں (قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے) مشرقی پاکستان جائے گا، ہم اس کی ٹانگیں توڑ دیں گے۔“ یہ وہ باتیں تھیں جو ان جیسے جمہوریت پسندی کے دعوے دار کو زیب نہیں دیتیں، لیکن اقتدار کی ہوَس اچھے اچھوں کو اندھا بنا دیتی ہے اور وہ وقتی فائدے پر مستقبل کو بھی قربان کر دیتا ہے۔ بھٹو صاحب پر یہ الزام عائد ہوتا ہے کہ انھوں نے اقتدار کی خواہش میں سیاسی اندھے پن سے کام لیا اور بہ جائے اس کے کہ جمہوری قوتوں کے ساتھ مل کر اس موقعے پر جمہوریت کو مضبوط کرتے، اپنے آپ کو مضبوط کرنے میں لگ گئے۔ پاکستان میں جمہوریت کو تقویت پہنچانے کا یہ دوسرا اہم موقع تھا، جو ضایع کر دیا گیا۔

    پہلا موقع 1956ء میں آیا تھا، جب ملک کا پہلا آئین منظور ہوا تھا اور اس کے تحت انتخاب کرانے کا اعلان کیا گیا تھا، جسے پہلے مارشل لا کے نفاذ نے تباہ کر دیا۔ دوسرا موقع یہ تھا جب جمہوری اصولوں کے تحت انتخابات کرائے گئے تھے اور کام یاب ہونے والی پارٹیوں کو عوام نے ان کے منشور سے متاثر ہو کر ووٹ دیا تھا۔ عوام کے اس فیصلے کا احترام کیا جانا چاہیے تھا۔

    (علی احمد خاں کی یادداشتوں پر مبنی کتاب ”جیون ایک کہانی“ سے انتخاب)

  • سقوط ڈھاکہ : مشرقی پاکستان میں جنگ لڑنے والے کرنل (ر)فرخ نے پس پردہ حقائق بتا دیئے

    سقوط ڈھاکہ : مشرقی پاکستان میں جنگ لڑنے والے کرنل (ر)فرخ نے پس پردہ حقائق بتا دیئے

    اسلام آباد : کرنل (ر)فرخ نے مشرقی پاکستان کے بنگلادیش بننے کے پس پردہ حقائق بتاتے ہوئے کہا صاحبزادہ یعقوب نےلکھا ملٹری آپریشن نہ کرنا، ملک ٹوٹ جائیگا، 4جرنیل وہاں تھے سب نے کہا آپریشن نہیں مذاکرات کریں ، ادھر بھٹو سمیت کچھ مشیروں نے یحیی کو پمپ کیا۔

    تفصیلات کے مطابق مشرقی پاکستان میں جنگ لڑنے والے کرنل (ر)فرخ نے اے آر وائی نیوز سے خصوصی گفتگو میں مشرقی پاکستان کےبنگلادیش بننے کے پس پردہ حقائق بیان کرتے ہوئے بتایا کہ مجھے بطورکیپٹن ہیڈ کواٹرزمیں انٹیلی جنس افسر تعینات کیاگیا، پہلے دن انٹیلی جنس رپورٹس کی فائلیں دیکھیں توہوش ٹھکانے آگیا۔

    کرنل (ر)فرخ کا کہنا تھا کہ پتہ چلااوپرسے ڈھاکہ ٹھیک لیکن اندرسے گل سڑگیا ہے، صاحبزادہ یعقوب نےلکھا ملٹری آپریشن نہ کرنا، ملک ٹوٹ جائیگا، 4جرنیل وہاں تھے سب نے کہا آپریشن نہیں مذاکرات کریں ، ادھر بھٹو سمیت کچھ مشیروں نے یحیی کو پمپ کیا۔

    انھوں نے بتایا کہ جو بندہ ہمیں ملتا تھا اسے مکتی مار دیا جاتا تھا، ایس پی کے بیٹے کو بازار میں مار دیاگیا ، آپریشن ہوگیااور ایک ماہ میں ہم نے کلیئر کیا، جس کے بعد مکتی باہنی بھارت بھاگ گئے۔

    مشرقی پاکستان میں جنگ لڑنے والے کرنل کا کہنا تھا کہ 20نومبرکوبھارتی فوج سےملکرمکتیوں نےٹینکوں کا بڑا حملہ کیا، ہمارے پاس دوسری جنگ عظیم کےبےکار ٹینک تھے، کہا جاتا ہےتین ڈویژنزتھیں لیکن حقیقت میں ایک ڈویژن ٹینک فورس تھی ، جو ڈویژنز بھیجی گئیں انکے ٹینکس کےآرٹلری گنز ہی نہ تھیں۔

    جنگ کے حوالے سے کرنل (ر)فرخ نے کہا کہ بھارت نے 20نومبر کوعید کے دن 24مقامات پر حملہ کیا، جب کہ یہاں پر جنگ ڈکلئیر ہی نہ کی گئی، جواب لینا چاہیے کہ جنگ ڈکلئیر کیوں نہ ہوئی؟13دن بعد جب ہم نے یہاں سے حملہ کیا تو جنگ قراردیا گیا۔

    ان کا کہنا تھا کہ نیوی کے پاس صرف 4گن بوٹس اورفضائیہ کے 15بڈھے جہاز تھے، ہمارے پرانے ایف86اور بھارت کے نئے Mig 21 تھے، ہم بھرپور لڑے، بھارت کے 13جہاز گرائے اورہمارے دو گرے۔

    کرنل (ر)فرخ نے بتایا کہ سمجھ آرہی تھی یہ معاملہ اب ہم سے زیادہ ہوگیا ہے، سرنڈر غیر متوقع اور پہاڑ کے طرح ہم پر گرا، بہت دکھ ہوا، یکطرفہ لڑائی تھی پھر بھی ہمارا گروپ علیحدہ لڑنےکا منصوبہ بنا رہا تھا۔

    انھوں نے مزید کہا کہ اکٹھے4 یا 10 ہزارہوتے توسرنڈر نہ ہوتا لیکن ہم ٹکڑیوں میں تقسیم تھے ، ہم43ہزار تھے8ہزار شہید ہوئے ،سویلین سمیت ہم 90ہزار تھے، مشکل ترین وقت تھا جب ڈھاکہ سے بھارت جیل میں لیکر گئے۔

    کرنل (ر)فرخ کا کہنا تھا کہ مال گاڑی کے ڈبوں میں سامان کی طرح دھکیلا اورتالا لگا دیاگیا، 3دن،4راتوں تک سفر میں بھوکے پیاسے اوروہیں پرپیشاب بھی کرتےرہے، جب تالا کھلا تو کچھ پاگل، بیہوش اور کچھ مرگئے جبکہ جیل سے 5 لوگ باتھ روم سےسرنگ کھود کر بھاگے۔

    انھوں نے اپنی محبت کے حوالے سے بتایا کہ جنگ سے پہلے پاکستانی محب وطن لڑکی سے محبت ہوئی، لڑکی کا نام سونیا تھا اور وہ بھی مجھ سے بہت پیار کرتی تھی، اس فیملی کو مکتی کہتے تھے کپتان کو مروا دو، انہیں ہمارے حوالے کرو توسب کو معاف کردیں گے ، وہ بنگالی تھی مجھے کہتی تھی مغربی پاکستان چلے جاتے ہیں۔

    کرنل (ر)فرخ نے کہا کہ پاکستانیوں کی مددکرنیوالے ڈھائی لاکھ بنگالیوں،بہاریوں کو قتل کیا گیا، ان میں سونیا کا سارا خاندان بھی قتل کردیا گیا، رہائی کے بعد ان کو بہت تلاش کیا لیکن نہیں ملے۔

  • بھارت نے بنگلہ دیش کی آزادی میں فوجی طاقت کا استعمال کیا، ائیر چیف مارشل

    بھارت نے بنگلہ دیش کی آزادی میں فوجی طاقت کا استعمال کیا، ائیر چیف مارشل

    نئی دہلی: بھارتی فضائیہ کے ائیر چیف مارشل اروپ راہا نے پاکستان کو دو لخت کرنے اور بنگلہ دیش بنانے میں بھارتی منصوبہ بے نقاب کردیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق نئی دہلی میں ایراسپیس سمینار سے خطاب کرتے ہوئے بھارتی ائیر چیف مارشل اروپ راہا نے کہا کہ ’’1965 کی جنگ میں بھارت نے پوری طرح فضائیہ کا استعمال نہیں کیا جس کی وجہ سے ملک کو نقصان بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔ پاکستانی جنگی طیاروں نے مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش) میں بمباری کر کے بھارتی ایئریسز، انفرااسٹرکچر اور ائیر کرافٹ کو نشانہ بنا کر فضائیہ کو شدید نقصان پہنچایا۔

    ائیرچیف مارشل کا کہنا تھا کہ ’’بھارت نے 1965 کا بدلہ لینے کے لیے پہلی بار 1971 میں بھارتی فضائیہ کا بھرپور استعمال کیا اور ساتھ ہی بری اور بحری فوجوں کو بھی متحرک کیا جس کی  بعد انہوں نے بنگلہ دیش بنانے میں اپنا اہم کردار ادا کیا‘‘۔

    کشمیر کے حوالے سے اروپ راہا نے کہا کہ ’’1947میں بھارت نے کشمیر میں بھارتی فوج کو مسلح کرنے کے لیے فضائی حملے کی منصوبہ بندی کی تھی تاکہ بھارتی افواج مقبوضہ وادی میں کامیابی سے پہنچ سکے تاہم اُس وقت کی حکومت نے معاملے کو فوج کے ذریعے حل کرنے کے بجائے اقوام متحدہ کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کی جب ہی یہ مسئلہ آج تک حل نہیں ہو سکا اور آزاد کشمیر اب تک ہمارے گلے میں ہڈی کی طرح پھنسا ہوا ہے۔

    اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’’بھارتی فضائیہ ملک طاقت کا استعمال کرنے کے لیے ہر لمحے تیار ہے ملک کو محفوط بنانے کے لیے ہمارا ادارہ ہر گھڑی تیار ہے تاہم سازگار ماحول بنانے کے لیے فوج کے کردار کو  بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

  • نریندرمودی کا بنگلہ دیشی وزیراعظم کو سقوط ڈھاکہ کی تصویر کا تحفہ

    نریندرمودی کا بنگلہ دیشی وزیراعظم کو سقوط ڈھاکہ کی تصویر کا تحفہ

    بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے پڑوسی ملک بنگلادیش کا دو روزہ دورہ کیا، اس موقع پر نریندر مودی نے بنگلہ دیشی وزیر اعظم کو سقوط ڈھاکہ 1971 کی تصویر تحفے میں دی۔

     گزشتہ روز بھارتی وزیر اعظم نے پاکستان کے خلاف بنگا بندھو انٹرنیشنل کنونشن سینٹر میں سخت زبان استعمال کرتے ہوئے، خطے میں بنگلا دیش کے ساتھ مل کر دہشتگردی سے مقابلہ کرنے کے عزم کا اظہار کیا، انہوں نے ڈھاکا یونیورسٹی میں الزام تراشی کرتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان آئے روز بھارت کو تنگ کرتا ہے، جو ناکو دم لا دیتا ہے، دہشتگردی کو بڑھاوا دیتا ہے۔

    نریندر مودی نے بنگلہ دیشی وزیراعظم شیخ حسینہ کو سقوط ڈھاکہ 1971 کی تصویر تحفے میں دی۔ جس میں پاکستان کی جانب سے جنرل نیازی کو ہتھیار ڈالنے کے معاہدہ پر دستخط کرتے ہوئے دیکھایا گیا ہے ،مودی نے سقوط ڈھاکا کے دوران 93000پاکستانیوں کے بھارتی قیدی بننے کے بارے کہا تھا کہ اگر ہماری ذہنیت خراب ہوتی، تو نہیں جانتے کہ اس وقت کیا فیصلہ لیتے۔

    مودی کے بیان سے ثابت ہوگیا کہ مشرقی پاکستان میں دہشتگردی اور مسلح جتھوں کو بھارتی مدد حاصل تھی، جنہوں نے حالات خراب کئے۔

  • پاکستان بھر میں مشرقی پاکستان کی یاد میں آج سقوط ڈھاکہ منایا جارہا ہے

    پاکستان بھر میں مشرقی پاکستان کی یاد میں آج سقوط ڈھاکہ منایا جارہا ہے

    اسلام آباد: سولہ دسمبر انیس سو اکہتر کے سانحہ مشرقی پاکستان کی یاد میں آج پاکستان بھر میں یوم سقوط ڈھاکہ منایا جارہا ہے۔

    بنگلہ دیش کی جنگ آزادی، جسے بنگال میں مکتی جدھو اور پاکستان میں سقوط مشرقی پاکستان یا سقوط ڈھاکہ کہا جاتا ہے، پاکستان کے دو بازوؤں یعنی مشرقی و مغربی پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والی جنگ تھی جس کے نتیجے میں مشرقی پاکستان علیحدہ ہو کر بنگلہ دیش کی صورت میں دنیا کے نقشے پر ا بھرا۔

    تینتالیس برس قبل مغربی اور مشرقی پاکستان کے درمیان بڑھتے ہوئے فاصلوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارت نے ملک کو دولخت کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ شیخ مجیب الرحمن کی مدد سے مکتی باہنی کے نام پر بھارت نے اپنی فوجیں مشرقی پاکستان میں داخل کی اور پھر حکومتِ وقت کیخلاف بغاوت کی فضا پیدا کرکے مغربی پاکستان پر بھی جنگ مسلط کر دی گئی۔

    جنگ کا آغاز 26 مارچ 1971ء کو حریت پسندوں، گوریلا گروہ اور تربیت یافتہ فوجیوں (جنہیں مجموعی طور پر مکتی باہنی کہا جاتا ہے) نے عسکری کاروائیاں شروع کیں اور پاکستان کی افواج اور وفاق پاکستان کے حکام اور وفادار اہلکاروں کا قتل عام شروع کیا۔

    مارچ سے لے کے سقوط ڈھاکہ تک تمام عرصے میں بھارت بھرپور انداز میں مکتی باہنی اور دیگر گروہوں کو عسکری، مالی اور سفارتی مدد فراہم کرتا رہا یہاں تک کے بالآخر دسمبر میں مشرقی پاکستان کی حدود میں گھس کر اس نے 16 دسمبر 1971ء کو ڈھاکہ میں افواج پاکستان کو محصور کردیا اور افواجِ پاکستان کو بھارت کے آگئے ہتھیار ڈالنے پر مجبور کردیا گیا۔

    بنگلہ دیش کے وجود میں آنے کے نتیجے میں پاکستان رقبے اور آبادی دونوں کے لحاظ سے بلاد اسلامیہ کی سب سے بڑی ریاست کے اعزاز سے محروم ہو گیا۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے اسباب جاننے کے لیے پاکستان میں اس کی حکومت نے ایک کمیشن تشکیل دیا جسے حمود الرحمٰن کمیشن کے نام سے جانا جاتا ہے، کمیشن کی رپورٹ میں ان تمام وجوہات اور واقعات کو رپورٹ کا حصہ بنایا گیا جس کے باعث سقوط ڈھاکہ ہو ا تھا۔

    آج کے ہی دن جنرل نیازی نے بھارتی جنرل اروڑا کے سامنے اپنا ریوالور رکھ کر پاک فوج کے ہتھیار پھینکنے کا باضابطہ اعلان کر دیا تھا۔ چار دہائیاں گزر جانے کے باوجود اہل وطن کے دلوں میں اس دن کی تکلیف اور اذیت زندہ ہے۔