Tag: سلجوق خاندان

  • سلطان احمد سنجر: اسلامی دنیا کے ایک بلند رتبہ حکم راں کا تذکرہ

    سلطان احمد سنجر: اسلامی دنیا کے ایک بلند رتبہ حکم راں کا تذکرہ

    سلطان احمد سنجر اسلامی دنیا کی تاریخ میں ایک قابلِ ذکر حکم راں اور بلند رتبہ شخصیت ہیں جنھیں ’’سلطانِ اعظم‘‘ کے لقب سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دولتِ عباسیہ کے زوال کے بعد سلطان احمد سنجر ہی نے آخری مرتبہ مسلمان ریاستوں‌ کو ایک مرکز پر اکٹھا کیا تھا۔

    مؤرخین کے مطابق سلطان سنجر کی شان و شوکت اور عظمت و سطوت بھی ضربُ المثل تھی۔ ان کی سلطنت مشرق وسطیٰ اور وسطی ایشیا کے علاقوں تک پھیل گئی تھی اور دولتِ عباسیہ کے خاتمے کے بعد مسلمانوں کو اسی جھنڈے تلے جمع ہونے کا موقع میّسر آیا تھا۔ مؤرخین کے نزدیک یہ سلجوق حکم راں کا وہ کارنامہ ہے جس نے دیگر مسلمان حکم رانوں کے درمیان انھیں ممتاز کیا اور عالمِ اسلام میں‌ اُن کی عزّت و توقیر میں‌ اضافہ ہوا۔

    سلجوقی سلطنت یا سلاجقۂ عظام دراصل 11 ویں تا 14 ویں صدی عیسوی کے درمیان ایک مسلم بادشاہت تھی اور یہ نسلاً اوغوز ترک تھے۔ سلطان سنجر اسی سلجوق خاندان میں سے چھٹے حکم راں تھے۔ تاہم چشمِ فلک نے سلجوقیوں کا زوال بھی دیکھا اور اس کے ساتھ ہی مسلم ریاستوں میں جو سیاسی ابتری اور مسلمانوں کی صفوں میں جس انتشار کا سلسلہ شروع ہوا، اس نے یورپ کی عیسائی طاقتوں کو ابھرنے اور مسلمانوں کے خلاف متحد ہونے کا موقع فراہم کیا اور صلیبی جنگوں کے نتیجے میں‌ بیتُ المقدس پر صلیبیوں نے قبضہ کر لیا۔

    شاعرِ مشرق علّامہ اقبال نے سلطان سنجر کی شان و شوکت کا ذکر اپنی ایک نظم میں‌ کیا ہے۔ سلطان احمد سنجر 8 مئی 1157ء کو اس دارِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔

    سلطان سنجر کی لشکر کشی اور فوجی مہّمات کے بارے میں مؤرخین لکھتے ہیں کہ وہ تقریباً‌ ہر معرکہ میں فاتح ٹھہرے، اور ان کی سلطنت خراسان، غزنی اور دریا کے پار عراق، آزربائجان، آرمینیا، شام، موصل اور گرد و نواح تک پھیل گئی تھی۔ تاریخ دان ابن خلقان نے سنجر کے بارے لکھا ہے کہ وہ انتہائی طاقت ور بادشاہ تھے اور سلجوقیوں میں سب سے زیادہ نرم مزاج اور سخی تھے۔ الذہبی کہتے ہیں کہ سلطان سنجر ایک باوقار، زندہ دل، سخی اور شفقت کرنے والا سلطان تھا۔

    سلطان احمد سنجر کو علّامہ اقبال نے اپنے اشعار میں یوں‌ سراہا ہے:

    شوکتِ سنجر و سلیم تیرے جلال کی نمود!
    فقرِ جنیدؔ و با یزیدؔ تیرا جمال بے نقاب!
    عجب نہیں کہ مسلماں کو پھر عطا کر دیں
    شکوہِ سنجر و فقرِ جنیدؒ و بسطامیؒ

    قدیم خراسان کے شہر مرو میں سلطان احمد سنجر کا مقبرہ آج بھی موجود ہے اور اب یہ علاقہ ترکمانستان کا حصّہ ہے۔ تاریخی کتب میں لکھا ہے کہ 1221ء میں تولوئی خان کی سرکردگی میں منگولوں نے اس شہر پر حملہ کیا تھا اور اس دوران سلطان احمد سنجر کے مقبرے کو بھی بڑا نقصان پہنچایا تھا۔

    احمد سنجر کا خستہ حال مزار

    مؤرخین لکھتے ہیں‌ کہ منگول سپاہیوں نے اسے آگ لگا دی تھی، مگر مقبرے کا بڑا حصّہ محفوظ رہا۔ اس مزار کے طرزِ‌ تعمیر کی ایک انفرادیت اس کے 27 میٹر بلند گنبد کے اوپر تعمیر کردہ وہ بیرونی گنبد تھا جس کی وجہ سے اسے دہرے گنبد والی عمارت کہا جاسکتا ہے۔ اس کے گرد ایک مسجد، کاروان سرائے، بازار اور دیگر مقابر کے آثار بھی ملے ہیں اور اس بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ قدیم دور میں یہ مقام آباد تھا اور یہاں آنے والوں کی بڑی تعداد مزار پر بھی فاتحہ خوانی کے لیے آتی ہوگی۔

    مرمت اور تزئین و آرائش کے بعد مزار کا بیرونی منظر

    سلجوق خاندان کے اس چھٹے سلطان کا نام اور ان کے کنیت و القاب ابو الحارث، سنجر بن ملک شاہ اوّل، بن الپ ارسلان بن داؤد بن میکائیل بن سلجوق بن دقاق درج ہیں۔ سلطان کے بعد داؤد بن محمود سلجوقی تخت نشین ہوا، لیکن مؤرخین کے مطابق سلطان احمد سنجر کے ساتھ ہی سلاجقہ کی حکومت نے بھی دَم توڑ دیا تھا۔

  • عالمِ‌اسلام کو ایک مرکز پر اکٹھا کرنے والے سلطان احمد سنجر کا تذکرہ

    عالمِ‌اسلام کو ایک مرکز پر اکٹھا کرنے والے سلطان احمد سنجر کا تذکرہ

    سلجوق سلطان احمد سنجر کی سلطنت مشرق وسطیٰ اور وسطی ایشیا کے علاقوں پر پھیلی ہوئی تھی جسے اسلامی دنیا میں اس لیے اہمیت حاصل رہی ہے کہ دولتِ عباسیہ کے خاتمے کے بعد اسی جھنڈے تلے عالمِ اسلام کو ایک مرکز میّسر آیا تھا۔ یہ سلجوق خاندان کا وہ کارنامہ ہے جو تاریخ میں ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوگیا۔

    شاعرِ مشرق علّامہ اقبال نے سلطان سنجر کی شان و شوکت کا ذکر اپنی ایک نظم میں‌ کیا ہے۔ سلطان احمد سنجر 8 مئی 1157ء کو اس دارِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔

    سلطان سنجر کو تاریخ کے ایک مشہور معزز ترک حکم ران کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ ان کی سلطنت خراسان، غزنی اور دریا کے پار عراق، آزربائیجان، آرمینیا، شام، موصل اور گرد و نواح تک پھیلی ہوئی تھی۔ سلطان سنجر کی شان و شوکت اور عظمت و سطوت ضربُ المثل ہے۔ تاریخ دان ابن خلقان نے سنجر کے بارے لکھا ہے کہ وہ انتہائی طاقت ور بادشاہ تھے اور سلجوقیوں میں سب سے زیادہ نرم مزاج اور سخی تھے۔ الذہبی کہتے ہیں کہ سلطان سنجر ایک باوقار، زندہ دل، سخی اور شفقت کرنے والا سلطان تھا۔

    علّامہ اقبال نے سلطان کو اپنے اشعار میں یوں‌ سراہا ہے۔

    شوکتِ سنجر و سلیم تیرے جلال کی نمود!
    فقر جنیدؔ و با یزیدؔ تیرا جمال بے نقاب!
    عجب نہیں کہ مسلماں کو پھر عطا کر دیں
    شکوہِ سنجر و فقرِ جنیدؒ و بسطامیؒ

    قدیم خراسان کے شہر مرو میں سلطان احمد سنجر کا مقبرہ آج بھی موجود ہے جو اب ترکمانستان کا حصّہ ہے۔ تاریخ میں‌ آیا ہے کہ 1221ء میں تولوئی خان کی سرکردگی میں منگولوں نے مرو شہر پر لشکر کشی کی تو اس مقبرے کو بھی منگولوں کے ہاتھوں بڑا نقصان پہنچا اور اسے آگ لگا دی گئی تھی، مگر مقبرے کا بڑا حصہ آگ سے محفوظ رہا۔

    سلطان احمد سنجر سلجوق خاندان کے چھٹے سلطان تھے اور ان کا نام ابو الحارث، سنجر بن ملک شاہ اول، بن الپ ارسلان بن داؤد بن میکائیل بن سلجوق بن دقاق لکھا ہے۔ سلطان سنجر کی وفات کے ساتھ ہی سلجوق سلطنت ختم ہوگئی تھی۔ ان کے بعد داؤد بن محمود سلجوقی تخت نشین ہوا۔

  • سلجوق خاندان کے برکیاروق کا تذکرہ جو محض 25 سال زندہ رہا

    سلجوق خاندان کے برکیاروق کا تذکرہ جو محض 25 سال زندہ رہا

    سلجوق حکم رانوں کو اسلامی تاریخ میں خاص مقام حاصل ہے۔ سلاجقہ ہی تھے جنھوں نے دولتِ عباسیہ کے زوال کے بعد عالمِ اسلام کو ایک مرکز پر اکٹھا کیا۔ گیارہویں صدی عیسوی میں قائم ہونے والی سلجوق سلطنت کے بانی لوگ نسلاً اوغوز ترک تھے اور اس خاندان سے چوتھا حکم راں‌ رکن الدّین برکیاروق ہوا۔

    سلطان ملک شاہ اوّل کا انتقال 1092ء میں ہوا جو برکیاروق کا باپ تھا جب کہ والدہ کا نام زبیدہ خاتون تھا۔ ملک شاہ اوّل کی وفات کے بعد سلجوق خاندان میں اقتدار کی جنگ شروع ہو گئی اور اس کا نتیجہ سلطنت کی تقسیم کی شکل میں‌ نکلا۔ اس وقت تک سلجوق سلطان وسطی ایشیا اور یوریشیا کے علاقوں میں اسلام کا پرچم بلند کرچکے تھے، مگر بعد میں سلجوق خاندان میں انتشار کے سبب کم زور ہو گئے۔

    برکیاروق کا سنہ پیدائش 1081ء بتایا جاتا ہے جب کہ اس کا اقتدار 1104ء میں اس کی وفات تک قائم رہا۔ مؤرخین نے اس کا یومِ‌ وفات 2 دسمبر لکھا ہے۔

    ملک شاہ کی وفات کے بعد برکیاروق کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ دراصل سلطان کے بعد اس کے بھائیوں اور چار بیٹوں میں اختلافات پیدا ہوگئے تھے اور ترکان خاتون جو ملک شاہ کی دوسری بیوی تھی، وہ اپنے نوعمر بیٹے کو سلطان بنانا چاہتی تھی اور امراء سے معاملات طے کرکے اس کی خواہش پر برکیاروق کو قیدی بنا لیا گیا تھا۔ محمود اس وقت نہایت کم عمر تھا اور سلطان کے طور پر اس کے نام کے اعلان کے لیے عباسی خلیفہ سے بھی اجازت لے لی گئی، لیکن صورتِ حال خراب ہوتی چلی گئی۔ ادھر برکیاروق کی حقیقی والدہ زبیدہ بیگم نے بھی اہم اور طاقت ور شخصیات سے رابطے کر کے کسی طرح اصفہان میں قید اپنے بیٹے کو آزاد کروا لیا اور انہی امراء کی پشت پناہی سے تخت پر بھی بٹھا دیا۔ مؤرخین نے لکھا ہے کہ اس وقت ترکان خاتون اپنے بیٹے محمود اول کے ساتھ دارالخلافہ بغداد میں تھی اور وہ کچھ نہ کرسکی۔ فوج نے برکیاروق کا حکم مانا اور اس کی حکومت مستحکم ہو گئی۔ تاہم اس کے لیے برکیاروق نے ترکان خاتون کی مزاحمت اور اپنے چچا کی بغاوت اور کئی سازشوں اور یورشوں کو بھی انجام کو پہنچایا۔ کئی خوں ریز تصادم، باغیوں اور سرکش گروہوں کو مٹانے کے بعد تخت کے تمام دعوے دار ختم ہو گئے، تو برکیاروق کا سلطان ملک شاہ اول کی سلطنت پر مکمل قبضہ ہوگیا۔

    عباسی خلیفہ نے سلطان برکیاروق کو بغداد طلب کرکے خلعت سے نوازا۔ اس کے نام کا خطبہ جامع بغداد میں پڑھوایا اور امورِ سلطنت اختیارات برکیاروق کو سونپتے ہوئے اس کی حکم رانی کا اعلان کیا۔

    برکیاروق نے بعد میں کئی علاقوں کو اپنا مطیع اور ان کے حکم رانوں کو اپنا تابع فرمان بنایا۔ لیکن امورِ سلطنت کو دیکھتے ہوئے دور دراز کے علاقوں پر اپنی حاکمیت اور امراء و سپاہ پر گرفت رکھنا اس کے لیے آسان نہیں رہا تھا، اسی عرصے میں اس کی ماں زبیدہ بیگم کو قتل کر دیا گیا اور حالات اتنے خراب ہوئے
    کہ خود سلطان برکیاروق کو بغداد چھوڑنا پڑا۔ بعد میں وہ لوٹا تو اسے اپنے بھائی سے جنگ لڑنا پڑی اور جنگوں کا یہ سلسلہ جانی و مالی نقصان کے ساتھ بالآخر چند شرائط کے ساتھ تمام ہوا اور محمود اور سلطان برکیاروق نے اپنے علاقوں اور شہروں کی مستقل حکم رانی کا معاہدہ کر لیا۔

    سلطان برکیاروق قید سے آزاد ہونے کے بعد اور اقتدار سنبھالتے ہی خاندان میں بغاوتوں اور جنگوں سے نمٹتا رہا اور ایک مرض میں مبتلا ہو کر دنیا سے رخصت ہوگیا۔ اس نے اپنے بیٹے ملک شاہ دوم کو اپنا ولی عہد مقرر کیا تھا جو اس وقت محض پانچ سال کا تھا۔ سلطان نے امیر ایاز کو سلطنت کے تمام اختیارات سونپے تھے
    جو اس کا قابلِ بھروسا ساتھی تھا۔ اس نے لگ بھگ بارہ برس سلجوق خاندان کے حکم راں کی حیثیت سے نہایت مشکل وقت گزارا تھا اور عین جوانی میں انتقال کیا۔ برکیاروق کی تدفین اصفہان میں کی گئی۔