Tag: سلجوق سلطنت

  • سلجوق خاندان کے برکیاروق کا تذکرہ جو محض 25 سال زندہ رہا

    سلجوق خاندان کے برکیاروق کا تذکرہ جو محض 25 سال زندہ رہا

    سلجوق حکم رانوں کو اسلامی تاریخ میں خاص مقام حاصل ہے۔ سلاجقہ ہی تھے جنھوں نے دولتِ عباسیہ کے زوال کے بعد عالمِ اسلام کو ایک مرکز پر اکٹھا کیا۔ گیارہویں صدی عیسوی میں قائم ہونے والی سلجوق سلطنت کے بانی لوگ نسلاً اوغوز ترک تھے اور اس خاندان سے چوتھا حکم راں‌ رکن الدّین برکیاروق ہوا۔

    سلطان ملک شاہ اوّل کا انتقال 1092ء میں ہوا جو برکیاروق کا باپ تھا جب کہ والدہ کا نام زبیدہ خاتون تھا۔ ملک شاہ اوّل کی وفات کے بعد سلجوق خاندان میں اقتدار کی جنگ شروع ہو گئی اور اس کا نتیجہ سلطنت کی تقسیم کی شکل میں‌ نکلا۔ اس وقت تک سلجوق سلطان وسطی ایشیا اور یوریشیا کے علاقوں میں اسلام کا پرچم بلند کرچکے تھے، مگر بعد میں سلجوق خاندان میں انتشار کے سبب کم زور ہو گئے۔

    برکیاروق کا سنہ پیدائش 1081ء بتایا جاتا ہے جب کہ اس کا اقتدار 1104ء میں اس کی وفات تک قائم رہا۔ مؤرخین نے اس کا یومِ‌ وفات 2 دسمبر لکھا ہے۔

    ملک شاہ کی وفات کے بعد برکیاروق کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ دراصل سلطان کے بعد اس کے بھائیوں اور چار بیٹوں میں اختلافات پیدا ہوگئے تھے اور ترکان خاتون جو ملک شاہ کی دوسری بیوی تھی، وہ اپنے نوعمر بیٹے کو سلطان بنانا چاہتی تھی اور امراء سے معاملات طے کرکے اس کی خواہش پر برکیاروق کو قیدی بنا لیا گیا تھا۔ محمود اس وقت نہایت کم عمر تھا اور سلطان کے طور پر اس کے نام کے اعلان کے لیے عباسی خلیفہ سے بھی اجازت لے لی گئی، لیکن صورتِ حال خراب ہوتی چلی گئی۔ ادھر برکیاروق کی حقیقی والدہ زبیدہ بیگم نے بھی اہم اور طاقت ور شخصیات سے رابطے کر کے کسی طرح اصفہان میں قید اپنے بیٹے کو آزاد کروا لیا اور انہی امراء کی پشت پناہی سے تخت پر بھی بٹھا دیا۔ مؤرخین نے لکھا ہے کہ اس وقت ترکان خاتون اپنے بیٹے محمود اول کے ساتھ دارالخلافہ بغداد میں تھی اور وہ کچھ نہ کرسکی۔ فوج نے برکیاروق کا حکم مانا اور اس کی حکومت مستحکم ہو گئی۔ تاہم اس کے لیے برکیاروق نے ترکان خاتون کی مزاحمت اور اپنے چچا کی بغاوت اور کئی سازشوں اور یورشوں کو بھی انجام کو پہنچایا۔ کئی خوں ریز تصادم، باغیوں اور سرکش گروہوں کو مٹانے کے بعد تخت کے تمام دعوے دار ختم ہو گئے، تو برکیاروق کا سلطان ملک شاہ اول کی سلطنت پر مکمل قبضہ ہوگیا۔

    عباسی خلیفہ نے سلطان برکیاروق کو بغداد طلب کرکے خلعت سے نوازا۔ اس کے نام کا خطبہ جامع بغداد میں پڑھوایا اور امورِ سلطنت اختیارات برکیاروق کو سونپتے ہوئے اس کی حکم رانی کا اعلان کیا۔

    برکیاروق نے بعد میں کئی علاقوں کو اپنا مطیع اور ان کے حکم رانوں کو اپنا تابع فرمان بنایا۔ لیکن امورِ سلطنت کو دیکھتے ہوئے دور دراز کے علاقوں پر اپنی حاکمیت اور امراء و سپاہ پر گرفت رکھنا اس کے لیے آسان نہیں رہا تھا، اسی عرصے میں اس کی ماں زبیدہ بیگم کو قتل کر دیا گیا اور حالات اتنے خراب ہوئے
    کہ خود سلطان برکیاروق کو بغداد چھوڑنا پڑا۔ بعد میں وہ لوٹا تو اسے اپنے بھائی سے جنگ لڑنا پڑی اور جنگوں کا یہ سلسلہ جانی و مالی نقصان کے ساتھ بالآخر چند شرائط کے ساتھ تمام ہوا اور محمود اور سلطان برکیاروق نے اپنے علاقوں اور شہروں کی مستقل حکم رانی کا معاہدہ کر لیا۔

    سلطان برکیاروق قید سے آزاد ہونے کے بعد اور اقتدار سنبھالتے ہی خاندان میں بغاوتوں اور جنگوں سے نمٹتا رہا اور ایک مرض میں مبتلا ہو کر دنیا سے رخصت ہوگیا۔ اس نے اپنے بیٹے ملک شاہ دوم کو اپنا ولی عہد مقرر کیا تھا جو اس وقت محض پانچ سال کا تھا۔ سلطان نے امیر ایاز کو سلطنت کے تمام اختیارات سونپے تھے
    جو اس کا قابلِ بھروسا ساتھی تھا۔ اس نے لگ بھگ بارہ برس سلجوق خاندان کے حکم راں کی حیثیت سے نہایت مشکل وقت گزارا تھا اور عین جوانی میں انتقال کیا۔ برکیاروق کی تدفین اصفہان میں کی گئی۔

  • طغرل اور چغری بیگ جنھوں نے مسلمانوں‌ کو ایک مرکز پر اکٹھا کیا

    طغرل اور چغری بیگ جنھوں نے مسلمانوں‌ کو ایک مرکز پر اکٹھا کیا

    دولتِ عباسیہ کے خاتمے کے بعد سلجوقی سلطنت نے عالمِ اسلام کو بڑی طاقت کے طور پر ایک مرکز پر جمع ہونے کا موقع دیا تھا۔ اس سلطنت کی سرحدیں ایک جانب چین سے لے کر بحیرۂ متوسط اور دوسری جانب عدن لے کر خوارزم و بخارا تک پھیلی ہوئی تھیں۔

    سلجوقی سلطنت گیارھویں تا چودھویں صدی عیسوی کے درمیان مشرقِ وسطیٰ اور وسط ایشیا میں قائم ہونے والی مسلم بادشاہت تھی جو نسلاً اوغوز ترک تھے۔ کہا جاتا ہے کہ سلجوقیوں کی کوششوں سے مسلمانوں‌ کو قوّت اور استحکام نصیب ہوا تھا۔ سلاجقہ کو مسلم تاریخ میں اس حوالے سے خاص مقام حاصل ہے۔

    حکم رانوں‌ کی غلطیاں، ریاستی امور اور سرحدوں کی طرف سے غفلت، اپنوں‌ کی سازشوں اور سیاسی انتشار نے کئی بادشاہتوں اور سلطنتوں کو کم زور کیا اور تاریخ گواہ ہے کہ دنیا نے کمال عروج کے بعد ان کا شیرازہ بکھرتا دیکھا۔ سلجوقی بھی اپنے عروج کے بعد زوال کا شکار ہوئے لیکن یہ صرف ایک سلطنت کا زوال نہیں‌ تھا بلکہ اس کی وجہ سے امتِ مسلمہ میں جو سیاسی انتشار پیدا ہوا اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے یورپ نے مسلمانوں پر صلیبی جنگ مسلط کردی اور مسلمانوں‌ کے ہاتھوں سے بیتُ المقدس بھی نکل گیا۔

    طغرل بیگ، جس کا پورا نام رکن الدین ابوطالب محمد بن میکائل تھا، پہلا سلجوق سلطان مشہور ہے۔ اس کا زمانہ 990ء سے 1063ء تک کا ہے اور اس نے ابو سلیمان داؤد چغری بیگ کے ساتھ مل کر سلجوقی سلطنت کی بنیاد رکھی تھی۔

    سلجوقی سلطنت سیاسی انتشار اور افراتفری کے بعد تیزی سے زوال کی طرف بڑھی اور ملک میں‌ پھیلی خانہ جنگی اور طوائف الملوکی نے اس سلطنت کو برباد کردیا جس نے مسلم امّہ کو ایک طاقت کے طور پر اکٹھا کیا تھا اور یورپ سمیت کسی قوم کو ان کے خلاف اٹھنے کی ہمّت نہیں‌ تھی۔ سلجوقی سلطنت کے بانیوں کی زندگی کے بعد یہ خاندان بٹ گیا تھا اور مختلف علاقوں‌ میں اپنی اپنی حکومت قائم کرلی تھی جس سے مرکزی سلطنت کم زور ہوگئی اور پھر ٹکڑوں میں‌ بٹے سلجوقی اپنے قلمرو اور مفتوحہ علاقوں سے محروم ہوتے چلے گئے۔

    اہلِ یورپ جن کی آنکھوں‌ میں سلجوق سلطنت اپنے قیام ہی سے کھٹک رہی تھی، مسلمانوں‌ کی اس افراتفری اور سیاسی انتشار کے ساتھ سلطنت کے عوام کی کم زوری سے کیسے فائدہ نہ اٹھاتے، انھوں نے مسلمانوں سے بیتُ المقدس چھیننے کی دیرینہ خواہش کی تکمیل کے لیے سازشیں شروع کیں‌، یہاں تک کہ صلیبی جنگوں کا آغاز ہوگیا جس نے کم و بیش 200 سال تک مسلمانوں کو الجھائے رکھا۔

    (سلجوق سلطنت کا زوال سے انتخاب)