Tag: سلطان ایوبی

  • فاتح بیتُ المقدس سلطان صلاح الدّین ایوبی کا یومِ وفات

    فاتح بیتُ المقدس سلطان صلاح الدّین ایوبی کا یومِ وفات

    آج اسلامی تاریخ کے ایک عظیم فاتح اور مسلمانوں کے لیے سرمایۂ افتخار سلطان صلاح الدّین ایوبی کا یومِ وفات منایا جارہا ہے جنھوں‌ نے جنگ کے بعد 1187 میں‌ قبلۂ اوّل کو صلیبیوں کے قبضے سے آزاد کروایا تھا۔

    صلاح الدّین ایّوبی نہ صرف تاریخِ اسلام بلکہ تاریخِ عالم کے نام ور حکم رانوں میں سے ایک ہیں۔ بے مثال شجاعت اور جرأت و استقلال ہی نہیں‌ فتحِ بیتُ المقدس کے موقع پر سلطان کی بالخصوص عیسائیوں اور دشمن کے ساتھ حسنِ سلوک، درگزر اور رواداری نے بھی دنیا میں‌ اسلام کی خوب صورت تصویر پیش کی۔

    صلاح الدّین ایوبی 1138ء میں تکریت میں پیدا ہوئے جو آج عراق کا حصّہ ہے۔ اُن کے باپ کا نام نجم الدّین ایوب تھا جو قلعۂ تکریت کا حاکم تھا۔ جب سلطان کی پیدائش ہوئی تو اسے اس عہدہ سے سبک دوش کر دیا گیا۔ سلطان کا بچپن اور جوانی کا ابتدائی دور دمشق اور بعلبک میں گزرا جہاں اُن کا باپ پہلے عماد الدّین اور پھر نورالدّین زنگی کے ماتحت اُن علاقوں کا گورنر رہ چکا تھا۔ سلطان نے بعلبک کے دینی مدارس اور دمشق کی جامع مسجد میں تعلیم حاصل کی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب مسلمانو‌ں کی صلیبیوں سے جنگیں زوروں پر تھیں اور نور الدّین زنگی نے میدان میں کئی کام یابیاں سمیٹی تھیں۔ صلاح الدّین نے بھی اسی حکم راں‌ کے سائے میں رہ کر اپنی شجاعت اور دلیری کو منوایا تھا۔ وہ اسی کے زمانے میں‌ ایک مہم پر اپنے چچا کے ساتھ گئے اور پھر حالات نے ایسا پلٹا کھایا کہ مصر میں ایّوبی حکومت کی بنیاد پڑگئی۔ ادھر نور الدّین زنگی کی آنکھ بند ہوئی تو کوئی تخت نہ سنبھال سکا اور آخر کار سلطان صلاح الدّین نے عنانِ حکومت سنبھال لی۔ حکم رانی اور انتظام و انصرام کے دوران اپنوں کی کم زوریوں کے ساتھ عیسائیوں کی سازشوں سے نمٹنے والے صلاح الدّین ایّوبی کو صلیبیوں‌ کے اتحاد نے جنگ کے میدان میں اترنے پر مجبور کیا تو وہ پیچھے نہ ہٹے۔ بیتُ المقدس کی فتح ان کی سب سے بڑی خواہش تھی۔ عیسائیوں کی شرانگیزیاں اور مسلمانوں‌ کے قافلوں کی لوٹ مار اور مظالم نے ان کے جذبۂ جہاد کو ہوا دی اور ایک طرف سارا یورپ اور مغرب کے عیسائی ممالک کے اتحاد کے باوجود مسلمانوں نے صلاح الدّین ایوبی کی قیادت میں‌ بیتُ المقدس کو فتح کرلیا۔ بیتُ المقدس پر سلطان کی عمل داری نے پورے یورپ کے مذہبی جذبات کو اس قدر بھڑکا دیا کہ یورپ کے تین بادشاہوں انگلستان کے بادشاہ رچرڈ شیردل، فرانس کے آگسٹن اور جرمنی کے فریڈرک باربروس نے متحد ہو کر انتقام لینے کی غرض سے جنگ کا اعلان کیا، لیکن ناکامی ان کا مقدر بنی۔ یہ جنگ کئی مقامات پر لڑی گئی اور اتحادی افواج کو سلطان کے ہاتھوں‌ شکست ہوئی جب کہ حطین کی فتح کے بعد صلاح الدّین نے بیت المقدس کی طرف رخ کیا جہاں‌ چند روز تک خوں ریز لڑائی کے بعد عیسائیوں‌ نے ہتھیار ڈال دیے اور رحم کی درخواست کی۔ بیت المقدس میں‌ سلطان کی فوج پورے 88 سال بعد داخل ہوئی اور مسلمانوں‌ نے فلسطین کی سرزمین پر قدم رکھ کر عالمِ‌ اسلام کو عظیم الشّان کام یابی کی نوید سنائی۔

    سلطان نے ہر موقع پر فراخ‌ دلی کا ثبوت دیا جس کی تاریخ شاہد ہے اور بردباری سے کام لے کر معاملات کو سلجھایا۔ صلیبی جنگ کے اختتام اور فتح کے بعد جو عزّت اور عظمت سلطان صلاح الدّین ایوبی کو نصیب ہوئی، وہ آج تک کسی فاتح کو حاصل نہ ہو سکی۔

    مؤرخ جانتھن فلپس نے سلطان صلاح الدّین کی زندگی پر اپنی کتاب ‘دی لائف اینڈ لیجنڈ آف سلطان سلاڈن (صلاح الدین) ‘میں لکھا ہے کہ ‘یروشلم کے مسیحی شہریوں کو کچھ ایسا دیکھنے کو نہیں ملا جس کی وہ توقع کر رہے تھے۔ مسلمانوں کے محاصرے کے دوران یروشلم کی عورتوں نے اپنے بال کٹوا دیے تھے کہ وہ فاتح فوج کے سپاہیوں کی نظروں میں نہ آئیں لیکن فلپس لکھتے ہیں کہ فتح اور یروشلم پر قبضے مکمل کرنے کا مرحلہ طے کرنے کے بعد سلطان صلاح الدین نے خاص طور پر عورتوں کے معاملے میں رحم دلی کا مظاہرہ کیا جس کے لیے وہ مشہور تھے۔’

    یروشلم کی فتح کے موقع پر سلطان صلاح الدین ایوبی نے ہر اس اندازے کو غلط ثابت کیا جن کی بنیاد شاید ماضی کے چند واقعات تھے اور یہی وجہ ہے کہ اسی یورپ میں جہاں سلطان کو کبھی بدنام کرنے کے لیے پروپیگنڈا کیا گیا اور ان پر عیسائیوں اور یہودیوں کے مقدس مقامات کی بے حرمتی کا جھوٹا الزام لگا کر ‘خون کا پیاسا’ اور ‘شیطان کی اولاد!’ کہا گیا، وہاں اور دنیا کے دیگر غیرمتعصب مؤرخین کی کتابوں‌ نے ان کی صحیح تصویر پیش کی اور یورپ میں انھیں ایک ہیرو کا درجہ بھی دیا گیا۔

    مسلسل یورشوں‌ کا سامنا اور جنگوں‌ سے سلطان کی صحّت خراب ہو گئی تھی اور 4 مارچ 1193ء کو صلاح الدّین نے اجل کی آواز پر لبیک کہا اور جان جانِ آفرین کے سپرد کر دی۔

  • مشہور مؤرخ بہاءُ الدّین کا تذکرہ جنھوں نے فاتح بیتُ المقدس کی سوانح عمری لکھی

    مشہور مؤرخ بہاءُ الدّین کا تذکرہ جنھوں نے فاتح بیتُ المقدس کی سوانح عمری لکھی

    بہاءُ الدّین یوسف ابنِ رفیع ابنِ شداد 12 ویں صدی عیسوی کے ایک فقیہ، عالم اور مؤرخ تھے جن کی علمیت اور مشہور تصنیف عالمِ اسلام کے عظیم حکم راں سلطان صلاح الدّین ایّوبی کی سوانح عمری ہے۔

    محققین نے بہاءُ الدّین کا سنِ پیدائش 1145 عیسوی لکھا ہے اور ان کا وطن قدیم عراق کا شہر موصل بتایا ہے تاریخی تذکروں‌ میں آیا ہے کہ بہاءُ الدّین نے موصل میں ہی ابتدائی تعلیم و تربیت مکمل کی اور پھر قرآن و حدیث کا درس لیا۔ اس کے بعد وہ بغداد چلے گئے جو اُس زمانے میں‌ اسلامی تعلیم کا مرکز سمجھا جاتا تھا اور علم و فنون سے وابستہ شخصیات کی قدر افزائی کے لیے مشہور تھا۔

    بہاءُ الدّین نے بغداد میں‌ مدرسہ نظامیہ میں مسلم قانون کا مطالعہ کیا اور بعد میں وہیں‌ درس و تدریس سے منسلک ہو گئے۔ 1173ء میں وہ اپنے آبائی شہر موصل لوٹ آئے۔

    سلطان صلاح الدّین ایّوبی کے دور میں ابنِ شداد کو حکومت کی جانب سے بڑا مقام اور دربار میں‌ زبردست پذیرائی حاصل ہوئی۔ اسلامی تاریخ کے محقّقین کے مطابق حج کے بعد 1188ء میں وطن واپسی پر بہاءُ الدّین کو سلطان ایّوبی کی جانب سے دربار میں‌ حاضر ہونے کا پیغام دیا گیا جہاں ان کی بڑی تکریم کی گئی۔ صلاح الدّین ایّوبی نے ان کی علمی کاوشوں کی تعریف کی اور بہاءُ الدّین کو مستقل طور فوج کا قاضی مقرر کردیا۔

    بہاءُ الدّین کی مشہور تصنیف سلطان صلاح الدّین ایّوبی کی سوانح عمری ہے، جس کا زیادہ تر حصّہ سوانح نگار کے ذاتی مشاہدات پر مبنی ہے۔ عربی زبان میں اس مصنّف نے متعدد مضامین سپردِ‌ قلم کیے تھے۔ تاہم ان کی یہ تصنیف سب سے زیادہ مشہور ہے۔

    ان کی متذکرہ بالا کاوش کو عالمِ اسلام کی نہایت معتبر ہستی سلطان صلاح الدّین کی شخصیت پر مستند اور قابلِ ذکر تصنیف کہا جاتا ہے۔ یہ اسلامی تاریخ کی ایک عظیم الشّان فتح کا وہ مستند حوالہ بھی ہے جس میں بیتُ‌ المقدس کے غیرمسلموں‌ کے ساتھ سلطان صلاح الدّین ایّوبی نے حسنِ خلق، درگزر اور بردباری کا مظاہرہ کیا تھا۔

    مستند تاریخی تذکروں میں‌ اس مسلمان عالم اور مؤرخ کا یومِ وفات 8 نومبر 1234ء درج ہے۔