Tag: سلطان فاتح

  • مسلمانوں کا یورپ اور سلطنتِ عثمانیہ

    مسلمانوں کا یورپ اور سلطنتِ عثمانیہ

    اگرچہ گیارہویں سے تیرہویں صدی تک جاری رہنے والی صلیبی جنگیں بالآخر ختم ہو گئی تھیں مگر عیسائی اور مسلمان اپنے اقتدار کو مضبوط بناتے ہوئے مزید فتوحات کے خواہاں تھے جس میں پورپ ترکوں کے اقتدار اور سلطنتِ عثمانیہ کی طاقت سے خوف زدہ نظر آتا تھا۔

    ابتدائے اسلام اور زمانۂ خلافت کی فتوحات اور یورپ میں‌ قدم رکھنے کے بعد مسلمانوں میں ترکوں نے دنیا کی سب سے مضبوط اور طویل عرصے تک قائم رہنے والی اسلامی سلطنت (عثمانیہ) کی بنیاد رکھی تھی اور یورپ میں نورِ اسلام کا بول بالا ہوا تھا، حجاز کی فتح کے بعد عثمانی حکم رانوں نے اقتدار کو ’’خلافتِ عثمانیہ‘‘ کا نام دے کر عالمِ اسلام کی قیادت کی۔

    مسلمانوں نے مختلف ادوار میں مختلف بحیرۂ روم کے کئی جزائر فتح کیے۔ سب سے پہلے حضرت عثمانؓ کے دور میں 653ء میں قبرص فتح ہوا۔ 672ء میں روڈس جو عہد معاویہؓ کی فتح ہے اور اسی طرح 825ء میں کریٹ، 827ء میں سسلی (صقلی)، 869ء میں مالٹا، 902ء میں جزائر بلیارک اور 1015ء میں سارڈینیا کی فتح مسلمانوں کا مقدر بنی۔ اموی دور میں مسلمانوں نے یورپ کی طرف توجہ دی تھی اور اس کے ایک بڑے حصّے کو فتح کرلیا گیا۔

    مسلمانوں نے اسپین پر آٹھ سو سال حکومت کی۔ سسلی صدیوں تک اسلامی تہذیب کا گہوارہ رہا۔ 842ء میں مسلمانوں نے اٹلی کا شہر مسینا (Messina) اور 877ء میں دارالحکومت سیراکیوز فتح کیا۔ اٹلی کے ساحلی شہر فتح کرنے کے بعد جنوبی اٹلی پر ڈیڑھ سو سال حکومت کی۔ تیرہویں صدی میں اناطولیہ میں سلطنتِ عثمانیہ قائم ہوئی اور ایک صدی تک عثمانی فوجوں نے زبردست فتوحات کے بعد 1360ء میں سلطان مراد اوّل کے عہد تک یورپ کے بڑے حصّے پر قبضہ کرلیا۔ بلغاریہ، مقدونیہ، کوسوا اور سربیا کی فتح کیا، لیکن قسطنطنیہ جو رومی سلطنت کا ایک اہم شہر تھا، اسے فتح کرنے کی کئی کوششیں ناکام ہوچکی تھیں اور آخر سلطان محمد فاتح کے دور میں‌ یہ بھی ممکن ہوا۔

    سلطان محمد فاتح کے عہد میں مشرقی یورپ کی اہم ترین ریاست کریمیا (یوکرائن) عثمان کی باجگزار بن گئی۔ سلطان محمد فاتح کے بعد بھی یورپ میں شان دار فتوحات کا سلسلہ جاری رہا۔ مختلف ادوار میں یورپ کے اہم علاقے سلطنتِ عثمانیہ کے زیرِنگین جن میں سربیا، بلغاریہ، رومانیہ، یوگو سلاویہ وغیرہ شامل ہیں۔

    (یورپ میں‌ نُور از محمد ندیم بھٹی)

  • یومِ وفات: بایزید ثانی قسطنطنیہ فتح کرنے والے سلطان محمد فاتح کے بیٹے تھے

    یومِ وفات: بایزید ثانی قسطنطنیہ فتح کرنے والے سلطان محمد فاتح کے بیٹے تھے

    سلطنتِ عثمانیہ کے اٹھویں حکم راں بایزید ثانی کو مؤرخین نے سادہ و حلیم مزاج، مذہبی رجحان اور علم و فنون کا دلدادہ لکھا ہے۔ انھیں ایک ایسا نرم خُو اور صلح جُو کہا جاتا ہے جو دلیر اور شجیع تو تھے، لیکن جنگ پسند نہیں تھے۔

    بایزید ثانی آج ہی کے دن 1512ء کو وفات پاگئے تھے۔ 26 مئی کو دنیا سے رخصت ہونے والے بایزید ثانی 21 سال کی عمر میں قسطنطنیہ فتح کرکے بازنطینی سلطنت کا خاتمہ کرنے والے سلطان فاتح کے بیٹے تھے۔

    بایزید ثانی کو تخت نشینی کے موقع پر بھی تنازع کا سامنا کرنا پڑا۔ بایزید ثانی کا عہدِ حکومت خانہ جنگی سے شروع ہوا اور اس کا خاتمہ بھی انتشار اور اندرونی خرابیوں اور حالات کی وجہ سے ہونے والی لڑائیوں پر ہوا۔ بایزید ثانی نے اپنے والد سلطان فاتح کی وفات کے بعد تخت سنبھالا تھا جب کہ ان کا ایک بھائی بھی تخت کا دعوے دار تھا اور یوں تخت نشینی آسان ثابت نہ ہوئی۔

    بایزید ثانی نے کسی طرح اقتدار حاصل کرلیا اور سلطنتِ عثمانیہ کے سلطان کی حیثیت سے 1481ء سے 1512ء تک حکم راں رہے۔ ان کے دور میں سلطنت کی بنیادیں مستحکم ہوئیں، لیکن خانہ جنگیوں کی وجہ سے مشکلات پیش آتی رہیں۔ سلطان بایزید ثانی اپنے عہدِ حکومت میں اندرونی انتشار اور خانہ جنگیوں کے علاوہ ولی عہدی کے مسئلے پر بھی الجھے رہے۔

    بایزید ثانی 1512ء میں اپنے بیٹے سلیم کے حق میں تخت سے دست بردار ہوگئے۔ مشہور ہے کہ وہ زندگی کے ماندہ ایّام ایشیائے کوچک میں گزارنے کی خواہش لیے سفر پر نکلے تھے، لیکن وہاں تک نہ پہنچ سکے اور ان کا انتقال ہوگیا۔

    بایزید ثانی کا مدفن استنبول میں بایزید مسجد کے پہلو میں موجود ہے۔