Tag: سلطان محمد فاتح

  • سلطان محمد ثانی: فاتح قسطنطنیہ کا تذکرہ

    سلطان محمد ثانی: فاتح قسطنطنیہ کا تذکرہ

    سلطان محمد ثانی کو فتحِ قسطنطنیہ کے سبب جو امتیاز حاصل ہوا، وہ سلطنتِ عثمانیہ کے حکم رانوں‌ میں کسی کا مقدر نہیں بنا۔ عالمِ اسلام میں اس فتح کے بعد ان کو بے پناہ عزّت، احترام اور مقام دیا گیا۔ انھیں آج بھی سلطان محمد فاتح کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس فتح کے ساتھ ہی صدیوں پرانی بازنطینی سلطنت کا خاتمہ ہوگیا تھا۔ آج سلطان محمد فاتح کا یومِ وفات ہے۔

    فتحِ قسطنطنیہ وہ خواب تھا جس کے لیے مسلمانوں کو سات سو سال انتظار کرنا پڑا اور اس عرصہ میں متعدد فوجی مہمّات اور لشکر کشی کی کوششیں ناکام ہوگئی تھیں‌ سلطان محمد فاتح کی قیادت میں اس فتح نے جہاں ترکوں‌ کی سلطنت اور اقتدار کو توقیر اور وسعت بخشی وہیں‌ 1480ء برس تک قائم رہنے والا اقتدار زوال پذیر ہوگیا۔ یہ فتح مسلمانوں اور عیسائیوں کے لیے مذہبی، سیاسی اور معاشرتی طور پر نہایت گہرے اثرات کی حامل تھی جس میں‌ ایک طرف مسلمانوں‌ میں‌ خوشی اور دوسری طرف صلیبیوں‌ کو بڑا صدمہ پہنچا۔

    3 مئی 1481ء کو محمد فاتح انتقال کر گئے تھے۔ انھیں‌ استنبول میں فاتح مسجد کے احاطے میں سپرد خاک کیا گیا۔ سلطان صرف اپنی فتوحات کی وجہ سے مشہور نہیں ہیں بلکہ انتظامِ سلطنت اور اپنی قابلیت کے باعث بھی جانے جاتے ہیں۔ ان کا دورِ حکومت رواداری اور برداشت کے لیے مشہور رہا۔ 1432ء میں ادرنہ میں‌ پیدا ہونے والے محمد ثانی نے نوجوانی میں‌ سلطنت سنبھالی اور عثمانی فوج کی قیادت کرتے ہوئے محض 21 سال کی عمر میں‌ 1453ء میں قسطنطنیہ فتح کیا جسے آج استنبول کہا جاتا ہے۔ عثمانی فوج کا کئی روزہ محاصرہ اور گولہ باری کے بعد اس فتح کو اُس وقت شہر میں موجود اطالوی طبیب نکولو باربیرو نے یوں‌ بیان کیا کہ سفید پگڑیاں باندھے ہوئے حملہ آور جاں نثار دستے ’بے جگری سے شیروں کی طرح حملہ کرتے تھے اور ان کے نعرے اور طبلوں کی آوازیں ایسی تھیں جیسے ان کا تعلق اس دنیا سے نہ ہو۔’

    اس روز فتح کے بعد جب سلطان محمد شہر میں‌ داخل ہوئے تو وہ سفید گھوڑے پر بیٹھے ہوئے تھے اور ان کا لشکر مع وزراء اور عمائد سب سے بڑے گرجا آیا صوفیہ پہنچا جہاں سلطان نے صدر دروازے پر اتر کر ایک مٹھی خاک اپنی پگڑی پر ڈالی اور بعد میں اسے مسجد میں‌ تبدیل کر دیا گیا۔ اس فتح کے بعد عثمانی سلطنت اپنے بامِ عروج پر پہنچی اور ترکوں نے اگلی چار صدیوں تک تین براعظموں، ایشیا، یورپ اور افریقہ کے مختلف حصّوں پر حکومت کی۔

    محمد فاتح سلطنتِ عثمانیہ کے ساتویں سلطان تھے۔ انھوں نے اپنے دور حکومت میں اینز، گلاتا اور کیفے کے علاقے عثمانی سلطنت میں شامل کیے جب کہ محاصرۂ بلغراد میں بھی حصہ لیا جہاں وہ شدید زخمی ہوگئے تھے۔ 1458ء میں ان کی سلطنت میں موریا کا بیشتر حصّہ اور ایک سال بعد سربیا شامل ہوا۔ 1461ء میں اور اس کے بعد کئی علاقے ترکوں‌ کے زیرِ نگیں‌ ہوئے۔

    محمد ثانی کی پیدائش کے وقت ادرنہ سلطنتِ عثمانیہ کا دارُالحکومت تھا۔ ان کے والد سلطان مراد ثانی اور والدہ کا نام ہما خاتون تھا۔ وہ 11 سال کے تھے جب انھیں اماسیہ بھیج دیا گیا، جہاں محمد ثانی نے حکومت اور انتظامی امور کے ساتھ فنون سیکھے اور تربیت حاصل کی۔ 1451ء میں اپنے والد سلطان مراد ثانی کی وفات کے بعد سلطان محمد ثانی نے دوسری مرتبہ تخت سنبھالا اور سلطنتِ عثمانیہ کو دنیا بھر میں عظمت اور امتیاز عطا کیا۔

    اناطولیہ اور پھر قسطنطنیہ کی فتوحات کے بعد اسے اپنا دارُ الحکومت قرار دے کر محمد ثانی نے یورپ کی طرف پیش قدمی کی اور کئی کام یاب مہمّات کے علاوہ چند علاقوں‌ میں‌ شکست بھی ہوئی، لیکن ان کے دور میں‌ عثمانی سلطنت کا رقبہ خاصا وسیع ہوگیا تھا۔

    کہا جاتا ہے کہ سلطان علما، اور ہنر مندوں کے بڑے سرپرست تھے۔ انھوں نے قسطنطنیہ کی فتح کے بعد اٹلی کے مصوروں اور یونانی دانشوروں کو اپنے دربار میں‌ بلایا اور سب کو اس شہر میں‌ بسنے کی اجازت دی اور بلاتفریق علم و فنون میں‌ یکتا اور قابل شخصیات کو نوازا۔ ان میں سائنس دان، ادیب اور ہنرمند سبھی شامل تھے۔ ان کا دور رواداری اور برداشت کا دور سمجھا جاتا ہے جس میں مفتوح بازنطینیوں کے ساتھ نیک اور مثالی سلوک کیا گیا۔ اس دور میں مسیحیوں اور یہودیوں کو ہر قسم کی آزادی اور خود مختاری حاصل تھی۔

  • فتحِ قسطنطنیہ اور سلطان محمد فاتح

    فتحِ قسطنطنیہ اور سلطان محمد فاتح

    عثمانی حکم رانوں کی تاریخ میں سلطان محمد ثانی کا امتیاز فتحِ قسطنطنیہ ہے جس نے انھیں عالمِ اسلام میں وہ عزّت و احترام اور مقام و مرتبہ عطا کیا جس کی مثال دی جاتی ہے۔ وہ سلطان محمد فاتح کے نام سے مشہور ہوئے۔

    قسطنطنیہ کی فتح ایک تاریخ ساز اور عظیم تبدیلی ثابت ہوئی جس کے ساتھ ہی نہ صرف صدیوں پرانی بازنطینی سلطنت کا خاتمہ ممکن ہوا بلکہ مذہبی، سیاسی اور معاشرتی طور پر اس فتح نے خطّے کو ایک نئی سمت اور شکل دے دی۔ 3 مئی 1481ء کو محمد فاتح وفات پاگئے تھے۔ وہ استنبول میں فاتح مسجد کے احاطے میں مدفون ہیں۔

    محققین لکھتے ہیں‌ کہ قسطنطنیہ کی فتح محض ایک شہر پر ایک بادشاہ کے اقتدار کا خاتمہ اور دوسرے کے اقتدار کا آغاز نہیں تھا۔ اس واقعے کے ساتھ ہی دنیا کی تاریخ کا ایک باب ختم ہوا اور دوسرے کی ابتدا ہوئی تھی۔ ایک طرف 27 قبلِ مسیح میں قائم ہونے والی رومن امپائر اس فتح‌ کے ساتھ اپنے انجام کو پہنچ گئی تو دوسری جانب عثمانی سلطنت نے اپنا نقطۂ عروج چھو لیا اور اسی کے بعد اگلی چار صدیوں تک عثمانیوں کی تین براعظموں، ایشیا، یورپ اور افریقہ کے بڑے حصّوں پر حکومت قائم رہی۔

    مسلمان فتحِ قسطنطنیہ کا خواب سات سو سال سے دیکھ رہے تھے اور اس عرصہ میں انھیں متعدد فوجی مہمّات میں ناکامی ہوئی تھی۔ اس فتح کے بعد امورِ‌ سلطنت میں اپنے حُسنِ انتظام اور اپنی قابلیت کی بناء پر کیے گئے کئی فیصلوں اور اقدامات کی بدولت بھی محمد ثانی الفاتح نے شہرت پائی۔ ان کا دورِ حکومت برداشت اور رواداری کے لیے مشہور تھا۔ سلطان 1432ء میں ادرنہ میں‌ پیدا ہوئے۔ وہ نوجوان تھے جب انھیں امورِ‌ سلطنت اور عثمانی فوج کی قیادت کا موقع ملا اور فتح قسطنطنیہ کے وقت وہ محض 21 برس کے تھے۔ سلطان کی فوج نے کئی روزہ محاصرے اور گولہ باری کے بعد قسطنطنیہ فتح کیا جس کے بارے میں اطالوی طبیب نکولو باربیرو آنکھوں دیکھا حال یوں‌ بیان کرتا ہے کہ سفید پگڑیاں باندھے ہوئے حملہ آور جاں نثار دستے ’بے جگری سے شیروں کی طرح حملہ کرتے تھے اور ان کے نعرے اور طبلوں کی آوازیں ایسی تھیں جیسے ان کا تعلق اس دنیا سے نہ ہو۔’

    مشہور ہے کہ فاتح کی حیثیت سے سلطان محمد شہر اپنے سفید گھوڑے پر سوار داخل ہوئے اور اس کی زمین سے مٹھی خاک اٹھا کر اپنی پگڑی پر ڈالی۔ محمد فاتح سلطنتِ عثمانیہ کے ساتویں سلطان تھے۔ ان کے دور میں اینز، گلاتا اور کیفے کے علاقے عثمانی سلطنت میں شامل ہوئے جب کہ محاصرۂ بلغراد میں انھوں نے بھی حصہ لیا اور اس موقع پر وہ شدید زخمی ہوگئے تھے۔ 1458ء میں ان کی سلطنت میں موریا کا بیشتر حصّہ اور ایک سال بعد سربیا شامل ہوا۔ 1461ء میں اور اس کے بعد کئی علاقے ترکوں‌ کے زیرِ نگیں‌ ہوئے۔

    محمد ثانی کی پیدائش کے وقت ادرنہ سلطنتِ عثمانیہ کا دارُالحکومت تھا۔ ان کے والد سلطان مراد ثانی اور والدہ کا نام ہما خاتون تھا۔ وہ 11 سال کے تھے جب انھیں اماسیہ بھیج دیا گیا، جہاں محمد ثانی نے حکومت اور انتظامی امور کے ساتھ فنون سیکھے اور حربی تربیت حاصل کی۔

    محمد ثانی نے یورپ کی طرف بھی پیش قدمی کی اور کئی کام یاب مہمّات کے علاوہ چند علاقوں‌ میں‌ عثمانی فوج کو شکست بھی ہوئی، لیکن سلطان کے دور میں‌ سلطنت وسعت بھی پاتی رہی۔

    محمد ثانی کے بارے میں‌ کہا جاتا ہے کہ وہ علم و فنون کے شیدائی اور قابل و ہنر مند شخصیات کے بڑے قدر داں اور سرپرست تھے۔ انھوں نے قسطنطنیہ کی فتح کے بعد اٹلی کے مصوروں اور یونانی دانشوروں کو اپنے دربار میں‌ بلایا اور سب کو اس شہر میں‌ بسنے کی اجازت دی اور بلا تفریق علم و فنون میں‌ یکتا اور قابل شخصیات کو نوازا۔ ان میں سائنس دان، ادیب اور ہنرمند سبھی شامل تھے۔

  • فاتحِ قسطنطنیہ محمد ثانی جو عالمِ‌ اسلام میں عظیم مجاہد اور فاتح مشہور ہیں

    فاتحِ قسطنطنیہ محمد ثانی جو عالمِ‌ اسلام میں عظیم مجاہد اور فاتح مشہور ہیں

    سلطنتِ عثمانیہ کے حکم رانوں‌ میں سلطان محمد ثانی کا امتیاز فتحِ قسطنطنیہ ہے جس نے عالمِ اسلام میں انھیں‌ وہ عزّت، احترام اور مقام و مرتبہ دیا جو بہت کم سلاطین کو نصیب ہوا ہے۔ وہ سلطان محمد فاتح کے نام سے مشہور ہوئے۔ محمد فاتح کو نہ صرف اسلامی دنیا بلکہ تاریخِ عالم میں بھی ایسے حکم راں کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا جس کی فتح کے ساتھ ہی صدیوں پرانی بازنطینی سلطنت کا خاتمہ ہوگیا تھا۔ آج سلطان محمد فاتح کا یومِ وفات ہے۔

    فتحِ قسطنطنیہ وہ خواب تھا جس کے لیے مسلمانوں کو سات سو سال انتظار کرنا پڑا اور اس عرصہ میں متعدد فوجی مہمّات اور لشکر کشی کی کوششیں ناکام ہوگئی تھیں‌ سلطان محمد فاتح کی قیادت میں اس فتح نے جہاں ترکوں‌ کی سلطنت اور اقتدار کو توقیر اور وسعت بخشی وہیں‌ 1480ء برس تک قائم رہنے والا اقتدار زوال پذیر ہوگیا۔ یہ فتح مسلمانوں اور عیسائیوں کے لیے مذہبی، سیاسی اور معاشرتی طور پر نہایت گہرے اثرات کی حامل تھی جس میں‌ ایک طرف مسلمانوں‌ میں‌ خوشی اور دوسری طرف صلیبیوں‌ کو بڑا صدمہ پہنچا۔

    سلطان محمد فاتح 3 مئی 1481ء کو انتقال کر گئے تھے۔ وہ استنبول میں فاتح مسجد کے احاطے میں ابدی نیند سو رہے ہیں۔ سلطان صرف اپنی فتوحات کی وجہ سے مشہور نہیں ہیں بلکہ انتظامِ سلطنت اور اپنی قابلیت کے باعث بھی جانے جاتے ہیں۔ ان کا دورِ حکومت رواداری اور برداشت کے لیے مشہور رہا۔ 1432ء میں ادرنہ میں‌ پیدا ہونے والے محمد ثانی نے نوجوانی میں‌ سلطنت سنبھالی اور عثمانی فوج کی قیادت کرتے ہوئے محض 21 سال کی عمر میں‌ 1453ء میں قسطنطنیہ فتح کیا جسے آج استنبول کہا جاتا ہے۔ عثمانی فوج کا کئی روزہ محاصرہ اور گولہ باری کے بعد اس فتح کو اُس وقت شہر میں موجود اطالوی طبیب نکولو باربیرو نے یوں‌ بیان کیا کہ سفید پگڑیاں باندھے ہوئے حملہ آور جاں نثار دستے ’بے جگری سے شیروں کی طرح حملہ کرتے تھے اور ان کے نعرے اور طبلوں کی آوازیں ایسی تھیں جیسے ان کا تعلق اس دنیا سے نہ ہو۔’

    اس روز فتح کے بعد جب سلطان محمد شہر میں‌ داخل ہوئے تو وہ سفید گھوڑے پر بیٹھے ہوئے تھے اور ان کا لشکر مع وزراء اور عمائد سب سے بڑے گرجا آیا صوفیہ پہنچا جہاں سلطان نے صدر دروازے پر اتر کر ایک مٹھی خاک اپنی پگڑی پر ڈالی اور بعد میں اسے مسجد میں‌ تبدیل کر دیا گیا۔ اس فتح کے بعد عثمانی سلطنت اپنے بامِ عروج پر پہنچی اور ترکوں نے اگلی چار صدیوں تک تین براعظموں، ایشیا، یورپ اور افریقہ کے مختلف حصّوں پر حکومت کی۔

    محمد فاتح سلطنتِ عثمانیہ کے ساتویں سلطان تھے۔ انھوں نے اپنے دور حکومت میں اینز، گلاتا اور کیفے کے علاقے عثمانی سلطنت میں شامل کیے جب کہ محاصرۂ بلغراد میں بھی حصہ لیا جہاں وہ شدید زخمی ہوگئے تھے۔ 1458ء میں ان کی سلطنت میں موریا کا بیشتر حصّہ اور ایک سال بعد سربیا شامل ہوا۔ 1461ء میں اور اس کے بعد کئی علاقے ترکوں‌ کے زیرِ نگیں‌ ہوئے۔

    محمد ثانی کی پیدائش کے وقت ادرنہ سلطنتِ عثمانیہ کا دارُالحکومت تھا۔ ان کے والد سلطان مراد ثانی اور والدہ کا نام ہما خاتون تھا۔ وہ 11 سال کے تھے جب انھیں اماسیہ بھیج دیا گیا، جہاں محمد ثانی نے حکومت اور انتظامی امور کے ساتھ فنون سیکھے اور تربیت حاصل کی۔ 1451ء میں اپنے والد سلطان مراد ثانی کی وفات کے بعد سلطان محمد ثانی نے دوسری مرتبہ تخت سنبھالا اور سلطنتِ عثمانیہ کو دنیا بھر میں عظمت اور امتیاز عطا کیا۔

    اناطولیہ اور پھر قسطنطنیہ کی فتوحات کے بعد اسے اپنا دارُ الحکومت قرار دے کر محمد ثانی نے یورپ کی طرف پیش قدمی کی اور کئی کام یاب مہمّات کے علاوہ چند علاقوں‌ میں‌ شکست بھی ہوئی، لیکن ان کے دور میں‌ عثمانی سلطنت کا رقبہ خاصا وسیع ہوگیا تھا۔

    محمد ثانی کے بارے میں‌ کہا جاتا ہے کہ وہ علم و ہنر کے قائل اور علما و ہنر مندوں کے سرپرست تھے۔ انھوں نے قسطنطنیہ کی فتح کے بعد اٹلی کے مصوروں اور یونانی دانشوروں کو اپنے دربار میں‌ بلایا اور سب کو اس شہر میں‌ بسنے کی اجازت دی اور بلاتفریق علم و فنون میں‌ یکتا اور قابل شخصیات کو نوازا۔ ان میں سائنس دان، ادیب اور ہنرمند سبھی شامل تھے۔

    محمد ثانی کا دور رواداری اور برداشت کا دور سمجھا جاتا ہے جس میں مفتوح بازنطینیوں کے ساتھ نیک اور مثالی سلوک کیا گیا۔ اس دور میں مسیحیوں اور یہودیوں کو ہر قسم کی آزادی اور خود مختاری حاصل تھی۔

  • یومِ وفات: بایزید ثانی قسطنطنیہ فتح کرنے والے سلطان محمد فاتح کے بیٹے تھے

    یومِ وفات: بایزید ثانی قسطنطنیہ فتح کرنے والے سلطان محمد فاتح کے بیٹے تھے

    سلطنتِ عثمانیہ کے اٹھویں حکم راں بایزید ثانی کو مؤرخین نے سادہ و حلیم مزاج، مذہبی رجحان اور علم و فنون کا دلدادہ لکھا ہے۔ انھیں ایک ایسا نرم خُو اور صلح جُو کہا جاتا ہے جو دلیر اور شجیع تو تھے، لیکن جنگ پسند نہیں تھے۔

    بایزید ثانی آج ہی کے دن 1512ء کو وفات پاگئے تھے۔ 26 مئی کو دنیا سے رخصت ہونے والے بایزید ثانی 21 سال کی عمر میں قسطنطنیہ فتح کرکے بازنطینی سلطنت کا خاتمہ کرنے والے سلطان فاتح کے بیٹے تھے۔

    بایزید ثانی کو تخت نشینی کے موقع پر بھی تنازع کا سامنا کرنا پڑا۔ بایزید ثانی کا عہدِ حکومت خانہ جنگی سے شروع ہوا اور اس کا خاتمہ بھی انتشار اور اندرونی خرابیوں اور حالات کی وجہ سے ہونے والی لڑائیوں پر ہوا۔ بایزید ثانی نے اپنے والد سلطان فاتح کی وفات کے بعد تخت سنبھالا تھا جب کہ ان کا ایک بھائی بھی تخت کا دعوے دار تھا اور یوں تخت نشینی آسان ثابت نہ ہوئی۔

    بایزید ثانی نے کسی طرح اقتدار حاصل کرلیا اور سلطنتِ عثمانیہ کے سلطان کی حیثیت سے 1481ء سے 1512ء تک حکم راں رہے۔ ان کے دور میں سلطنت کی بنیادیں مستحکم ہوئیں، لیکن خانہ جنگیوں کی وجہ سے مشکلات پیش آتی رہیں۔ سلطان بایزید ثانی اپنے عہدِ حکومت میں اندرونی انتشار اور خانہ جنگیوں کے علاوہ ولی عہدی کے مسئلے پر بھی الجھے رہے۔

    بایزید ثانی 1512ء میں اپنے بیٹے سلیم کے حق میں تخت سے دست بردار ہوگئے۔ مشہور ہے کہ وہ زندگی کے ماندہ ایّام ایشیائے کوچک میں گزارنے کی خواہش لیے سفر پر نکلے تھے، لیکن وہاں تک نہ پہنچ سکے اور ان کا انتقال ہوگیا۔

    بایزید ثانی کا مدفن استنبول میں بایزید مسجد کے پہلو میں موجود ہے۔

  • سلطان محمد فاتح کا نام عالمِ اسلام کے لیے جرات و شجاعت کا نقشِ عظیم ہے

    سلطان محمد فاتح کا نام عالمِ اسلام کے لیے جرات و شجاعت کا نقشِ عظیم ہے

    سلطان محمد فاتح (سلطان محمد الثانی) عالمِ‌ اسلام کے وہ عظیم مجاہد اور سپہ سالار ہیں‌ جنھوں‌ نے 21 سال کی عمر میں قسطنطنیہ فتح کرکے بازنطینی سلطنت کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کردیا تھا۔ سلطان محمد فاتح 3 مئی 1481ء کو انتقال کر گئے تھے۔ وہ استنبول میں فاتح مسجد کے پہلو میں ابدی نیند سو رہے ہیں۔

    محمد فاتح صرف اپنی فتوحات کی وجہ سے مشہور نہیں ہیں بلکہ انتظامِ سلطنت اور اپنی قابلیت کے باعث بھی جانے جاتے ہیں۔ ان کا دورِ حکومت رواداری اور برداشت کے لیے مشہور ہے۔

    وہ 1432ء میں پیدا ہوئے اور نوجوانی میں‌ انتظامِ سلطنت سنبھالا۔ عثمانی سلطنت میں قسطنطنیہ کی فتح کے بعد انھیں سلطان الفاتح کے لقب سے پہچانا گیا۔ سلطان محمد ثانی کو اس فتح کے بعد عالمِ اسلام میں‌ زبردست عقیدت اور پذیرائی حاصل ہوئی۔

    محمد فاتح نے اپنے دور میں کئی علاقے فتح کیے اور عثمانی سلطنت کو مضبوط کیا۔

    محمد ثانی عظیم فاتح ہونے کے ساتھ ساتھ علم و ہنر کی سرپرستی کے لیے بھی مشہور تھے۔ کہتے ہیں‌ کہ ان کے دور میں یونانی مصور اور دانشور بھی دربار کا حصّہ تھے اور علم و فنون سے وابستہ کئی قابل شخصیات ان کے ساتھ رہیں۔

  • قسطنطنیہ فتح کرنے والے عظیم سلطان کا یومِ ولادت

    قسطنطنیہ فتح کرنے والے عظیم سلطان کا یومِ ولادت

    آج حدیثِ رسول ﷺ کی تکمیل کرنے والی عثمانی بادشاہ سلطان محمد فاتح کا یومِ ولادت ہے، محمد فاتح نے قسطنطنیہ فتح کرکے قدیم بازنطینی سلطنت کا خاتمہ کیا تھا، اور یورپ میں خلافت ِعثمانیہ کے لیے شاندارِ فتوحات کی تھیں۔

    محمد ثانی 30 مارچ 1432ء کو ادرنہ میں پیدا ہوئے تھے جو اس وقت سلطنت عثمانیہ کا دار الحکومت تھا۔ ان کے والد سلطان مراد ثانی اور والدہ ہما خاتون تھیں۔ 11 سال کی عمر میں محمد ثانی کو اماسیہ بھیج دیا گیا جہاں انہوں نے حکومت سنبھالنے کی تربیت حاصل کی۔ اگست 1444ء میں مراد ثانی اناطولیہ میں امارت کرمان کے ساتھ امن معاہدے کے بعد 12 سالہ محمد ثانی کے حق میں سلطنت سے دستبردار ہو گئے تھے ۔

    اب سے 566 سال قبل سلطان محمد نے 29 مئی 1453ء کو قسطنطنیہ کو فتح کرکے تاریخ میں اپنا نام سنہری حرفوں سے لکھوایا تھا۔ صدیوں تک مسلم حکمرانوں کی کوشش کے باوجود دنیا کے اس عظیم الشان شہر کی فتح عثمانی سلطان محمد ثانی کے حصے میں آئی جو فتح کے بعد سلطان محمد فاتح کہلائے۔

    سلطنت عثمانیہ کے دورکے قسطنطنیہ کی سیرکریں

    یہاں یہ بات بھی خاص طور ملحوضِ خاطررہے کہ قسطنطنیہ کو فتح کرنے والے بادشاہ کے لیے حدیثِ رسول ﷺ بھی ہے کہ فتح قسطنطنیہ کی خوشخبری کچھ یوں بیان کی گئی تھی جس میں آنحضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ ’’تم ضرور قسطنطنیہ کو فتح کرو گے، وہ فاتح بھی کیا باکمال ہوگا اور وہ فوج بھی کیا باکمال ہوگی‘‘۔ اسی حدیث کے سبب قسطنطنیہ کی فتح کی خواہش ہر مسلم فاتح کے دل میں کروٹ لیتی رہی تھی۔

    یاد رہے کہ بازنطینی سلطنت کی تاریخ میں قسطنطنیہ کے کم از کم 24 محاصرے ہوئے ہیں۔ ان محاصروں میں دو مرتبہ قسطنطنیہ بیرونی افواج کے ہاتھوں فتح ہوا۔ ایک مرتبہ 1204ء میں چوتھی صلیبی جنگ کے دوران یورپ کے عیسائیوں نے اس کی اینٹ سے اینٹ بجائی اور دوسری مرتبہ 1453ء میں سلطان محمد فاتح کی زیر قیادت عثمانی افواج نے اسے فتح کیا۔

    مسلمانوں نے اس شہر کا پہلا محاصرہ 674ء میں اموی خلیفہ حضرت معاویہ بن ابو سفیان (رضی اللہ عنہ) کے دور میں کیا۔دوسرا محاصرہ اموی خلیفہ سلیمان بن عبدالملک کے دور میں 717ء میں کیا گیا جس کی قیادت خلیفہ کے بھائی مسلمہ بن عبدالملک نے کی۔ اس ناکام محاصرے کو عیسائی مشہور جنگ بلاط الشہداء کی طرح سمجھتے ہیں کیونکہ اس میں ناکامی کے باعث اگلے 700 سال تک یورپ میں مسلمانوں کی پیش قدمی رکی رہی اور بنو امیہ کی فتوحات کو بھی زبردست دھچکا پہنچا۔

    محاصرے کے دوران ہی سلیمان بن عبدالملک وفات پا گئے اور عمر بن عبدالعزیز نے تخت سنبھالا اور ان کے حکم پر شہر کا محاصرہ اٹھا لیا گیا۔ اس محاصرے میں مسلمانوں کا زبردست جانی نقصان ہوا۔

    مغل افواج کو شکست دینے والا مرہٹہ پیشوا باجی راؤ

    عثمانیوں نے اس شہر کے تین محاصرے کئے جن میں پہلا محاصرہ 1396ء میں کیا گیا جو سلطان بایزید یلدرم کی قیادت میں ہوا تاہم تیموری حکمران امیر تیمور بیگ گورکانی، صاحب قرن کی سلطنت عثمانیہ کے مشرقی حصوں پر حملوں کے باعث بایزید کو یہ محاصرہ اٹھانا پڑا۔ تیمور اور بایزید کا ٹکراؤ انقرہ کے قریب ہوا جس میں بایزید کو شکست ہوئی۔

    دوسرا محاصرہ 1422ء میں عثمانی سلطان مراد ثانی نے کیا تاہم بازنطینی شہر کا دفاع کرنے میں کامیاب رہے۔

    سنہ 1453ء میں سلطان محمد فاتح نے ایک اجلاس کے دوران اپنے درباریوں پر جوکہ قسطنطنیہ کو فتح کرنے کا متفقہ فیصلہ کرچکے تھے یہ واضح کیا کہ رومی سلطنت ، عثمانی تخت و تاج کے دعویداروں کو پناہ دیتی رہی تھی اور اس طرح مسلسل خانہ جنگیوں کا باعث بنی اس امر کو بھی زیر بحث لایاگیا کہ یہ رومی سلطنت ہی تھی جوجنگیں چھیڑنے میں پیش پیش تھی۔

    قسطنطنیہ کو سلونیکا کی طرح مغربی کیتھولکس کے حوالے کرنے کا یہ مطلب ہوگا کہ عثمانی سلطنت کبھی بھی مکمل طور پر خودمختار نہ ہوسکے گی۔ لہذا قسطنطنیہ کا محاصرہ کیا گیا جو 6 اپریل سے 29 مئی 1453ء تک کل 54 دن جاری رہا۔

    اناطولیہ اور قسطنطنیہ کی فتوحات اور اسے اپنا دار الحکومت قرار دینے کے بعدمحمد ثانی نے یورپ میں پیش قدمی کی۔ وہ سابق رومی سلطنت کو سلطنت عثمانیہ کے پرچم تلے لانا چاہتا تھا جس کے لیے انہوں نے 1480ء میں اٹلی پر حملہ کیا جس کا مقصد روم پرحملہ کر کے 751ء کے بعد پہلی مرتبہ رومی سلطنت کو دوبارہ یکجا کرنا تھا ۔

    صلیبی جنگوں کے فاتح صلاح الدین ایوبی

    پہلے مرحلے میں انہوں نے 1480ء میں اوٹرانٹو فتح کر لیا۔ لیکن 1443ء اور 1468ء کے بعد 1480ء میں تیسری مرتبہ البانیا میں سکندر بیگ کی بغاوت نے افواج کے رابطے کو منقطع کر دیا جس کی بدولت پوپ سکسٹس چہارم نے ایک زبردست فوج لے کر 1481ء میں اوٹرانٹو کو مسلمانوں سے چھین لیا۔

    دوسری جانب محمد ثانی نے بلقان کی تمام چھوٹی ریاستوں کو فتح کر لیا اور مشرقی یورپ میں بلغراد تک پہنچ گیا جہاں 1456ء میں بلغراد کا محاصرہ کیا لیکن جون ہونیاڈے کے خلاف کامیاب نہ ہو سکا۔ 1462ء میں اس کا افلاق کے شہزاد ولیڈ سوم ڈریکولا سے بھی تصادم ہوا۔ 1475ء میں عثمانیوں کو جنگ ویسلوئی میں مالدووا کے اسٹیفن اعظم کے ہاتھوں شکست ہوئی۔ چند شکستوں کے باوجود محمد فاتح کے دور میں عثمانی سلطنت کا رقبہ کافی وسیع ہوا۔

    سلطان نے اپنے دور میں قسطنطنیہ میں 300 سے زائد عالیشان مساجد تعمیر کروائیں جن میں سے سلطان محمد مسجد اور ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ مسجد بہت ہی مشہور ہیں۔فتح کے بعد قسطنطنیہ کو اسلامبول، یعنی اسلام کا گھر، کا نام دیا گیا جو بعد میں استنبول کہلایا جانے لگا۔

    محمد ثانی عظیم فاتح ہونے کے ساتھ ساتھ علم و ہنر کا بھی سرپرست تھا۔ اس نے قسطنطنیہ کی فتح کے بعد اٹلی کے مصوروں اور یونانی دانشوروں کو اپنے دربار کا حصہ بنایا اور مسلم سائنس دان اور ہنرمند بھی اس کے دربار سے وابستہ تھے۔ اس نے قسطنطنیہ میں ایک جامعہ قائم کی اور فاتح مسجد سمیت کئی مساجد، نہریں اور توپ کاپی محل تعمیر کرایا۔محمد فاتح صرف اپنی فتوحات کی وجہ سے مشہور نہیں ہیں بلکہ انتظام ِسلطنت اور اپنی حیرت انگیز قابلیت کے باعث بھی شہرت رکھتے ہیں۔ انہوں نے پہلی مرتبہ سلطنت عثمانیہ کے لیے باقاعدہ قوانین مرتب کیے ۔

    مسلم دنیا کے یہ عظیم حکمران سلطان محمد فاتح 3 مئی 1481ء کو انتقال کر گئے تھے ۔ ان کا مزار استنبول میں فاتح مسجد کے برابر میں ہے۔ آبنائے باسفورس پر قائم کیے جانے والا دوسرے پل کو انہی کے نام پر’سلطان محمد فاتح پل‘ کا نام دیا گیا ہے۔