Tag: سلطان محمود غزنوی

  • سلطان محمود غزنوی: الزامات اور قصّے کہانیوں‌ میں گم کردہ شخصیت

    سلطان محمود غزنوی: الزامات اور قصّے کہانیوں‌ میں گم کردہ شخصیت

    محمود غزنوی کو تاریخ کا پہلا حکم راں کہا جاتا ہے جس نے اپنے لیے سلطان کا لفظ استعمال کیا۔ مؤرخین نے اُسے سلطنتِ‌ غزنویہ کا پہلا مطلق العنان اور آزاد حکم ران بھی لکھا ہے۔

    محمود کا دورِ سلطانی 999ء سے شروع ہوتا ہے جو 1030ء میں اس کی وفات پر تمام ہوا۔ محمود غزنوی ایک بیماری میں مبتلا ہو کر آج ہی کے دن اس دارِ فانی سے کوچ کر گیا تھا۔

    برصغیر میں مسلمانوں کی فتوحات کے ابتدائی دور کی بات ہو تو سلطان محمود غزنوی کا ذکر سومناتھ میں ہندوؤں کے عظیم معبد پر سترہ حملوں کے ساتھ اس طرح کیا جاتا ہے کہ ایک طرف محمود غزنوی مثالی مسلمان حکم راں اور فاتح کے طور پر نظر آتا ہے، اور دوسری جانب اسے ہندوؤں‌ میں ایک متشدد، لٹیرا اور بربریت کا استعارہ سمجھا جاتا ہے۔ سلطان محمود غزنوی کو مسلمان ایک ایسا فاتح اور حکم راں‌ کہتے ہیں جس کے دربار میں علم و فضل کا بڑا چرچا تھا اور وہ قابل شخصیات کی قدر دانی اور ان پر اپنی مہربانیوں کے لیے بھی مشہور ہے۔ اسی سلطان کو اپنے ایک غلام ایاز کی وجہ سے بھی شہرت ملی اور محمود و ایاز کے کئی واقعات پڑھنے کو ملتے ہیں۔ تاہم تاریخ کی نہایت معتبر اور مستند کتب کے علاوہ اکثر مشہور واقعات اور قصّوں پر یقین نہیں کیا جاسکتا۔ البیرونی جیسی علمی شخصیت بھی سلطان کے دربار سے وابستہ رہی اور اسے سلطان کی علم دوستی سے جوڑا جاتا ہے۔

    سلطان محمود غزنوی اپنے باپ سبکتگین کی وفات کے بعد تخت نشین ہوا۔ اس نے اقتدار میں آکر اپنی سلطنت کو وسعت دینے اور اس کے استحکام کے لیے کئی فوجی مہمّات انجام دیں اور زیادہ تر معرکوں میں کام یابی نے اس کے قدم چومے۔ سلطان نے غیرمسلم ریاستوں کو ہی نہیں ان علاقوں پر بھی لشکر کشی کی جہاں کا حاکم مسلمان تھا۔ اس نے غزنی کے ایک طرف ‘کاشغر کی ایل خانی حکومت کو، دوسری طرف خود اپنے آقا سانیون کی سلطنت، تیسری طرف ویلمیوں اور طبرستان کی حکومت آل زیاد کو مشرقی سمت میں غوریوں کی سرزمین کو جن میں سے کچھ مسلمان ہو چکے تھے، پھر اسی مشرقی سمت میں ملتان اور سندھ کی حکومتوں کو، لاہور اور ہندوستان کے بعض دوسرے راجاﺅں کی حکومت کو ختم کر کے غزنی میں اپنے اقتدار کو عظمت اور دوام بخشا۔

    تاریخ کے اوراق میں اس حکم راں کا نام یمین الدّولہ ابو القاسم محمود ابن سبکتگین المعروف محمود غزنوی لکھا ہے۔ اس کا سنہ پیدائش 971ء ہے۔ سلطان کی تاریخِ‌ وفات 30 اپریل ہے اور اس وقت سلطان کی سلطنت ایک وسیع فوجی سلطنت میں تبدیل ہوچکی تھی۔ تاریخ بتاتی ہے کہ سلطنتِ غزنوی شمال مغربی ایران سے لے کر برصغیر میں پنجاب تک، ماوراء النہر میں خوارزم اور مکران تک پھیلی ہوئی تھی۔ محمود کی آخری مہم 1027ء میں سندھ کے کنارے جاٹ قبائل کے خلاف تھی اور اس کے بعد اس نے ہندوستان کا رخ نہیں کیا۔ بعض کتابوں میں لکھا ہے کہ آخری مرتبہ سلطان نے ایرانی علاقے رے میں فتح حاصل کی تھی۔

    محمود کی نجی زندگی کے بارے میں بہت کم معلومات ملتی ہیں تاہم اس کو خدا نے دو بیٹے عطا کیے جن میں ایک کا نام محمد اور دوسرے کا نام مسعود رکھا۔ افغانستان کے صوبے غزنی میں سلطان محمود غزنوی کا مدفن موجود ہے۔

  • ایاز نے بیش قیمت ہیرا کیوں‌ توڑ دیا؟

    ایاز نے بیش قیمت ہیرا کیوں‌ توڑ دیا؟

    تاریخ کے اوراق میں جہاں بھی افغانستان اور غزنی کا ذکر آیا ہے، وہیں اس کے حکم راں محمود غزنوی اور اس کے غلام ایاز کا نام اور ان سے متعلق کئی قصے بھی پڑھنے کو ملتے ہیں۔

    محمود غزنوی کو ایک پُرعزم اور باہمت بادشاہ کہا جاتا ہے اور تاریخ میں ہے کہ اس نے ہندوستان پر سترہ حملے کیے اور سومنات کا مندر تسخیر کیا۔ اسی لیے محمود غزنوی کو بُت شکن بھی کہا جاتا ہے۔

    اس کے ایک غلام جس کا نام ایاز تھا، کو اپنی ذہانت، قابلیت، فرض شناسی، اور ایمان داری کی وجہ سے ایک طرف محمود غزنوی کا قرب اور اہم عہدہ نصیب ہوا اور دوسری جانب بہت شہرت اور عزت اس کے حصے میں آئی۔

    کہتے ہیں کہ سلطان محمود غزنوی اپنے اس غلام ایاز پر اندھا اعتماد کرتا تھا اور ایاز نے بھی ہر موقع پر خود کو اپنے منصب اور سلطان کے اعتماد کا اہل ثابت کیا، لیکن ایاز کی یہ عزت اور توقیر دیکھ کر دوسرے درباری اور وزرا اس سے حسد محسوس کرنے لگے تھے۔

    ایک مرتبہ تمام وزرا نے سلطان کو شکایت کی کہ ایاز ایک غلام ہے اور باقی درباری بڑے نام و نسب والے ہیں، ان کے مقابلے میں ایک غلام کی اتنی عزت افزائی مناسب نہیں‌ اور کوئی غلام اس قابل نہیں ہوتا کہ اسے ایسا مقام دیا جائے۔

    محمود نے اسی وقت ایک بہت قیمتی ہیرا شاہی خزانے سے منگوایا اور ساتھ ایک ہتھوڑا بھی۔

    اب اس نے اپنے ایک عالی نسب وزیر کو بلایا اور ہیرے کو توڑ دینے کا حکم دیا۔ وزیر نے عقل مندی ظاہر کرتے ہوئے کہا۔

    بادشاہ سلامت یہ قیمتی ہیرا ہے اور ریاست کی امانت ہے۔ اس کے ٹوٹنے سے نقصان ہوگا، میرا خیال ہے کہ آپ اپنے فیصلے پر نظرِ ثانی فرما لیں۔

    محمود نے اس کی بات سن کر دوسرے وزیر کو بلایا اور وہی حکم دیا۔ اس نے بھی اسی قسم کی بات کی اور خود کو بادشاہ اور قوم کا خیر خواہ ثابت کرنے کی کوشش کی۔

    پانچ وزرا کو یہی حکم دینے اور ان سے اسی قسم کی بات سننے کے بعد سب سے آخر میں محمود نے اپنے غلام ایاز کو بلا کر وہی حکم دیا۔ ایاز نے فورا ہتھوڑا تھاما اور ضرب لگا کر ہیرا توڑ دیا۔

    پورے دربار میں شور مچ گیا کہ اس غلام سے عقل و دانش اور بڑی سوچ کی توقع ہی عبث ہے، اس نے اتنا بڑا نقصان کر دیا اور بادشاہ کو کوئی تجویز نہ دی۔ اسے کڑی سزا دینی چاہیے۔

    سلطان محمود نے ایاز سے پوچھا کہ اس نے کوئی دلیل اور منطق کیوں‌ نہ پیش کی اور کسی طرح ہیرے کو ٹوٹنے سے کیوں نہ بچایا۔

    اس غلام ایاز نے جواب دیا۔ "بادشاہ سلامت! میرے لیے تو آپ کا حکم اس ہیرے سے زیادہ وقعت رکھتا ہے اور آپ جس خواہش کا اظہار کرتے ہیں وہ میرے لیے بیش قیمت ہے۔”

    (مختلف تاریخی تذکروں، بادشاہوں اور سلاطین کی سوانح پر مشتمل کتب میں‌ یہ واقعہ نقل کیا گیا ہے، تاہم اس کی کوئی سند اور مضبوط حوالہ دست یاب نہیں)