Tag: سلطنت عثمانیہ

  • سلطنت عثمانیہ کے بانی’’عثمان بے‘‘ نے کراچی میں پڑاؤ ڈال لیا

    سلطنت عثمانیہ کے بانی’’عثمان بے‘‘ نے کراچی میں پڑاؤ ڈال لیا

    سلطنت عثمانیہ کے بانی’’عثمان بے‘‘ پاکستان پہنچ گئے، ترک ڈرامہ کورلوش عثمان کے اداکار براق کراچی پہنچ گئے۔

    ترکیہ میں بنائی جانے والی تاریخی سیریز دنیا بھر میں مشہور و معروف ہے، سلطنتِ عثمانیہ پر بننے والی ’کورولوس عثمان‘ میں مرکزی کردار ادا کرنے والے تُرک اداکار براق اپنے مداحوں سے ملنے پاکستان پہنچ چکے ہیں۔

    اپنی پاکسان آمد کے موقع پر ترک اداکار براق اوزچیویت نے کہا کہ ہمیشہ سے پاکستان آنے کی خواہش تھی، خواہش ہے پاکستان فلم اور ڈرامہ انڈسٹری کا حصہ بنوں۔

    اس سے قبل ترک اداکار نے انسٹاگرام اسٹوری شیئر کرتے ہوئے پاکستان روانگی سے متعلق آگاہ کیا تھا۔ اب سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو کلپ سے ان کے کراچی آنے کی تصدیق ہوگئی ہے۔

    ’کورلوس عثمان‘ کے مرکزی کردار سے پہلے ’ارطغرل غازی‘ کے مرکزی کردار ارطغرل غازی، ترگت الپ اور بامسی بھی پاکستان کا دورہ کرچکے ہیں۔

    براق اوزچیوت کو سلطنتِ عثمانیہ کے بانی عثمان غازی کی زندگی پر مبنی تاریخی سیریز ’ارطغرل غازی‘ کے سیکوئل ’کورولس عثمان‘ کے مرکزی کردار سے دنیا بھر میں پذیرائی ملی ہے۔ سیریز کا پانچواں سیزن 4 اکتوبر سے ناظرین کے لیے پیش کیا گیا ہے۔

  • مصر:سلطنت عثمانیہ کی یادگار مسجد عوام کے لیے کھول دی گئی

    مصر:سلطنت عثمانیہ کی یادگار مسجد عوام کے لیے کھول دی گئی

    قاہرہ: مصر میں سلطنت عثمانیہ کے دور میں تعمیر کی جانے والی مسجد کو تزین و آرائش کے بعد دوبارہ سے کھول دیا گیا، اسے 16 ویں صدی میں گورنر سلیمان پاشا ال خادم نے تعمیر کروایا تھا۔

    مسجد میں 22 سبز ٹائلوں والے گنبد اور منبر موجود ہے جب کہ اسے مشہور ’ازنک ٹائلوں‘ سے بھی آراستہ کیا گیا ہے۔ یہ قاہرہ کی ان ابتدائی مساجد میں سے ایک ہے جو عثمانی دور میں بنائی گئی۔

    سلطان سلیم کی قیادت میں عثمانی افواج نے مملوک سلطنت کا تخت الٹتے ہوئے مصر کو فتح کیا تھا جس کے گیارہ سال بعد 1528 عیسوی میں یہ مسجد بنائی گئی۔

    مسجد 2 ہزار 360 مربع میٹر پر مشتمل ہے اور فاطمی دور کے سید ساریہ کے مقبرے کی قریب واقع ہے، جو 1140 عیسوی میں تعمیر کیا گیا تھا اور اب بھی موجود ہے۔

    نوادرات کی سپریم کونسل کے سربراہ، مصطفی وزیری کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ عثمانی مساجد کو ممتاز کرنے کے لیے، مینار عموماً پنسل کی شکل کا ہوتا ہے۔ مسجد کے احاطے میں نماز کی جگہ کے علاوہ فاطمی قبرستان اور کتب (مدرسہ) بھی موجود ہے

    مسجد کو سلیمان پاشا الخادم مسجد اور ساریہ مسجد بھی کہا جاتا ہے اور یہ قاہرہ کے قلعے کے اندر موجود ہے۔ یہ قلعہ مشہور مسلمان سپہ سالار صلاح الدین ایوبی نے فاطمیوں سے قاہرہ کو فتح کرنے کے بعد بنایا تھا۔ اس جت چند سال بعد وہ یروشلم کو فتح کرنے کے لیے گئے تھے۔

    واضح رہے کہ مصر کی سپریم کونسل آف نوادرات اور فوج کی عرب تنظیم برائے صنعت کاری کی نگرانی میں مذکورہ مسجد کو دوبارہ سے بحال کرنے میں پانچ سال لگے۔

  • روسی فوج کا مقابلہ کرنے والی دلیر خاتون کا تذکرہ

    روسی فوج کا مقابلہ کرنے والی دلیر خاتون کا تذکرہ

    سلطنتِ عثمانیہ کے زمانے میں ترکی کے ایک علاقے ارضروم کی نینہ خاتون کا نام لوک ادب کا حصّہ بنا جو روسی افواج کی شورش کے خلاف لڑنے کے لیے میدان میں اتری تھیں۔

    العزيزيہ کے نام سے معروف شہر کے ایک اہم قلعہ کے قریب واقع ارضروم علاقے میں‌ ہر جوان روسی افواج کے خلاف اور سلطنتِ عثمانیہ سے وفاداری نبھانے کے لیے اپنی جان تک دینے کو تیار تھا۔ یہ 7 نومبر 1877ء کی بات ہے جب روسی فوج نے العزیزیہ قلعے پر تعینات فوجیوں پر حملہ کرکے انھیں قتل کردیا اور اس اہم مقام پر قبضہ کر لیا۔ اسی حملے میں نینہ خاتون کا بھائی بھی زخمی ہوا تھا اور بعد میں‌ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ دیا تھا۔ اس کا نام حسن تھا۔

    1877 سے 1878 تک جاری رہنے والی اس جنگ میں قلعے پر روسی فوج کے قبضے کے بعد جب حسن کی لاش اس کی بہن کے سامنے آئی تو اس نے اس کے چہرے کا بوسہ لیا اور سب کے سامنے روسیوں سے اس کا بدلہ لینے کی قسم اٹھائی۔

    اس وقت شہری بھی روسیوں کے خلاف ایک مقام پر اکٹھے ہورہے تھے اور نینہ خاتون نے بھی اپنی تین ماہ کی بیٹی اور نوعمر لڑکے کو پیار کیا، اور زندگی کی آخری سانس تک روسیوں کے خلاف جنگ لڑنے کے لیے اپنا گھر چھوڑ دیا۔

    کہتے ہیں کہ اس کے پاس بھائی کی بندوق اور ایک چھوٹی کلہاڑی تھی۔ اس علاقے میں روسیوں کو عثمانی فوج کا نہیں بلکہ ان عام شہریوں کی جانب سے سخت مزاحمت کا سامنا تھا جو اپنے دین کی سلامتی اور سلطنت کے دفاع کے لیے کلہاڑیوں اور ایسے ہی دوسرے اوزاروں سے مسلح تھے۔ یہ شہری اپنے سادہ اسلحہ کے ساتھ روسی فوج کے جدید ہتھیاروں کا مقابلہ کررہے تھے جن میں نینہ خاتون بھی شامل تھی۔

    تاریخ بتاتی ہے کہ جنگ شروع ہوئی تو سیکڑوں شہریوں کی زندگیوں کو روسیوں کی گولیوں نے نگل لیا، لیکن ان کی جانب سے مزاحمت جاری رہی۔ یہ شہری آگے بڑھتے ہوئے قلعے کے فولادی دروازے توڑ کر اندر داخل ہوگئے جس پر روسی فوجیوں نے قبضہ کرلیا تھا۔ ان کے پاس کوئی آتشیں اسلحہ نہ تھا بلکہ اکثریت ڈنڈوں، کلہاڑیوں اور چھریوں سے روسیوں پر ٹوٹی پڑی تھی۔ اس علاقے میں جاری رہنے والی اس جنگ میں لگ بھگ 2 ہزار روسی فوجی مارے گئے اور نینہ خاتون بھی زخمی ہونے کے بعد ایک مقام پر بے ہوشی کی حالت میں‌ پائی گئی۔ اس کے ہاتھ میں غلیل تھی جسے اس نے مضبوطی سے پکڑ رکھا تھا۔

    اسے وہاں کے شہریوں نے بڑی دلیری اور شجاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے دیکھا اور ان کے مطابق وہ جس بے جگری سے لڑی، اس کی مثال نہیں ملتی۔ اس خاتون کی بہادری کا اعتراف بعض روسی فوجیوں نے بھی کیا۔

    نینہ خاتون کو ترکی میں "امُّ الجیش الثالث” اور "ماؤں کی ماں” کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ 1955 میں نینہ خاتون کا انتقال ہوگیا تھا۔ وہ 1857ء میں پیدا ہوئی تھی۔ وفات کے وقت اس کی عمر 98 سال تھی۔ نینہ خاتون کے مجسمے آج بھی العزیزیہ میں اہم مقامات پر نصب ہیں۔

  • یومِ وفات: ترک حکم راں سلیم ثالث کو معزولی کے ایک سال بعد قتل کیوں کیا گیا؟

    یومِ وفات: ترک حکم راں سلیم ثالث کو معزولی کے ایک سال بعد قتل کیوں کیا گیا؟

    سلطنتِ عثمانیہ میں سلیم ثالث اپنے فہم و فراست اور سیاسی تدبّر کی وجہ سے قابلِ ذکر اور مثالی سلطانوں میں سرِفہرست ہیں۔ مؤرخین لکھتے ہیں کہ سلطنتِ عثمانیہ کے حکم رانوں کا رعب و دبدہ اپنی جگہ، لیکن وہ علم و ہنر کے قدر داں تھے جن میں سے ایک سلیم ثالث ہیں جو اس عظیم سلطنت کے 28 ویں سلطان تھے۔

    تاریخ بتاتی ہے کہ سلطنتِ عثمانیہ 1299ء سے 1922ء تک قائم رہی جس کے حکم راں ترک مسلمان تھے۔ اس سلطنت میں 1789ء سے 1807ء تک سلیم ثالث کا دورِ حکم رانی رہا جنھیں معزول کر کے قتل کردیا گیا۔

    سلیم ثالث 1761ء میں‌ پیدا ہوئے اور 1808ء میں‌ آج ہی کے دن روح نے ان کے جسم کا ساتھ چھوڑ دیا تھا۔ وہ 46 سال کی عمر میں‌ دنیا سے رخصت ہوئے۔

    سلطنتِ عثمانیہ اپنے عروج کے زمانے میں تین براعظموں پر پھیلی ہوئی تھی اور جنوب مشرقی یورپ، مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقا کا بیش تَر حصّہ اس کے زیرِ نگیں تھا۔ اس کے صوبہ جات اور باج گزار علاقے الگ تھے۔

    سلیم ثالث کے بارے میں‌ مؤرخین لکھتے ہیں کہ انھوں نے سلطنتِ عثمانیہ کا زوال روکنے اور اسے ترقّی دینے کے لیے قابلِ قدر کوششیں کیں۔ وہ علم و ادب کا رسیا، فنونِ لطیفہ کا شائق و شیدا تھا اور مذہب پسند بھی جس نے اپنے دور میں تعلیم عام کرتے ہوئے جدید علوم کی سرپرستی کی۔ اس عہد میں فنِ‌ حرب کو بھی بہت اہمیت دی گئی۔ سلیم ثالث نے عسکری معاملات پر توجہ دیتے ہوئے افواج کو نئے سرے سے منظّم کیا اور جدید خطوط پر ترقّی دی۔

    سلیم ثالث نے ملک میں اصلاحات پر زور دیا اور جاگیر داری نظام کو اس راہ میں بڑی رکاوٹ پاکر اس حکم راں نے مخالفت کے باوجود جاگیر داری نظام کو ختم کیا، لیکن یہی کوششیں‌ اس کے خلاف گئیں سلیم کو ان اصلاحات کے باوجود خاص کام یابی نہ مل سکی۔ سماج اور مختلف اداروں بالخصوص فوج کو جدید خطوط پر منظّم کرتے ہوئے طاقت وَر بنانے کے لیے اس کے بعض اقدامات کو کفّار کی تقلید یا ان سے مشابہت قرار دے کر جذبات کو بھڑکایا گیا اور اس حکم راں کو معزولی کے ایک سال بعد قتل کردیا گیا۔

  • یومِ وفات: بایزید ثانی قسطنطنیہ فتح کرنے والے سلطان محمد فاتح کے بیٹے تھے

    یومِ وفات: بایزید ثانی قسطنطنیہ فتح کرنے والے سلطان محمد فاتح کے بیٹے تھے

    سلطنتِ عثمانیہ کے اٹھویں حکم راں بایزید ثانی کو مؤرخین نے سادہ و حلیم مزاج، مذہبی رجحان اور علم و فنون کا دلدادہ لکھا ہے۔ انھیں ایک ایسا نرم خُو اور صلح جُو کہا جاتا ہے جو دلیر اور شجیع تو تھے، لیکن جنگ پسند نہیں تھے۔

    بایزید ثانی آج ہی کے دن 1512ء کو وفات پاگئے تھے۔ 26 مئی کو دنیا سے رخصت ہونے والے بایزید ثانی 21 سال کی عمر میں قسطنطنیہ فتح کرکے بازنطینی سلطنت کا خاتمہ کرنے والے سلطان فاتح کے بیٹے تھے۔

    بایزید ثانی کو تخت نشینی کے موقع پر بھی تنازع کا سامنا کرنا پڑا۔ بایزید ثانی کا عہدِ حکومت خانہ جنگی سے شروع ہوا اور اس کا خاتمہ بھی انتشار اور اندرونی خرابیوں اور حالات کی وجہ سے ہونے والی لڑائیوں پر ہوا۔ بایزید ثانی نے اپنے والد سلطان فاتح کی وفات کے بعد تخت سنبھالا تھا جب کہ ان کا ایک بھائی بھی تخت کا دعوے دار تھا اور یوں تخت نشینی آسان ثابت نہ ہوئی۔

    بایزید ثانی نے کسی طرح اقتدار حاصل کرلیا اور سلطنتِ عثمانیہ کے سلطان کی حیثیت سے 1481ء سے 1512ء تک حکم راں رہے۔ ان کے دور میں سلطنت کی بنیادیں مستحکم ہوئیں، لیکن خانہ جنگیوں کی وجہ سے مشکلات پیش آتی رہیں۔ سلطان بایزید ثانی اپنے عہدِ حکومت میں اندرونی انتشار اور خانہ جنگیوں کے علاوہ ولی عہدی کے مسئلے پر بھی الجھے رہے۔

    بایزید ثانی 1512ء میں اپنے بیٹے سلیم کے حق میں تخت سے دست بردار ہوگئے۔ مشہور ہے کہ وہ زندگی کے ماندہ ایّام ایشیائے کوچک میں گزارنے کی خواہش لیے سفر پر نکلے تھے، لیکن وہاں تک نہ پہنچ سکے اور ان کا انتقال ہوگیا۔

    بایزید ثانی کا مدفن استنبول میں بایزید مسجد کے پہلو میں موجود ہے۔

  • سلطنت عثمانیہ کے دور کے قسطنطنیہ کی سیر کریں

    سلطنت عثمانیہ کے دور کے قسطنطنیہ کی سیر کریں

    

    سلطنت عثمانیہ سنہ 1299 سے 1922 تک قائم رہنے والی مسلمان سلطنت تھی جس کے حکمران ترک تھے۔ یہ سلطنت تین براعظموں پر پھیلی ہوئی تھی اور جنوب مشرقی یورپ، مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کا بیشتر حصہ اس کے زیر نگیں تھا۔

    سنہ 1453 سے 1922 تک اس عظیم سلطنت کا دارالخلافہ قسطنطنیہ تھا جسے آج استنبول کے نام سے پکارا جاتا ہے۔

    تاہم اس شہر کی پہچان صرف یہی نہیں۔ قسطنطنیہ سنہ 330 سے 395 تک رومی سلطنت اور 395 سے 1453 تک بازنطینی سلطنت کا دارالحکومت بھی رہا۔

    اس شہر بے مثال کی بنیاد 667 قبل مسیح میں یونان کی توسیع کے ابتدائی ایام میں ڈالی گئی۔ اس وقت شہر کو اس کے بانی بائزاس کے نام پر بازنطین کا نام دیا گیا۔ 330 عیسوی میں قسطنطین کی جانب سے اسی مقام پر نئے شہر کی تعمیر کے بعد اسے قسطنطنیہ کا نام دیا گیا۔

    قسطنطنیہ کی فتح کی بشارت حضور اکرم ﷺ نے دی تھی۔ حضور ﷺ نے فرمایا تھا، ’تم ضرور قسطنطنیہ کو فتح کرو گے، وہ فاتح بھی کیا باکمال ہوگا اور وہ فوج بھی کیا باکمال ہوگی‘۔

    حضور اکرم ﷺ کی اس بشارت کے باعث قسطنطنیہ کی فتح ہر مسلمان جرنیل کا خواب تھی۔

    قسطنطنیہ پر مسلمانوں کی جنگی مہمات کا آغاز حضرت عثمان غنی ؓ کے زمانے سے ہوا تھا تاہم ان میں کوئی خاص کامیابی نہ مل سکی۔

    بالآخر ترک سلطان مراد دوئم کا ہونہار بیٹا سلطان محمد قسطنطنیہ فتح کرنے کے نکلا اور کام کو ممکن کر دکھایا۔ قسطنطنیہ کی فتح نے سلطان محمد فاتح کو راتوں رات مسلم دنیا کا مشہور ترین سلطان بنا دیا۔

    سلطان نے اپنے دور میں قسطنطنیہ میں 300 سے زائد عالیشان مساجد تعمیر کروائیں جن میں سے سلطان محمد مسجد اور ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ مسجد بہت ہی مشہور ہیں۔

    فتح کے بعد قسطنطنیہ کو اسلامبول، یعنی اسلام کا گھر، کا نام دیا گیا جو بعد میں استنبول کہلایا جانے لگا۔

    آج ہم تاریخ کے صفحات سے آپ کو قسطنطنیہ کی کچھ نادر تصاویر دکھانے جارہے ہیں۔ یہ تصاویر سلطنت عثمانیہ کے بالکل آخری ادوار کی ہیں جنہیں بہت حفاظت کے ساتھ بحال کر کے دوبارہ پیش کیا گیا ہے۔


    قسطنطنیہ کی ایک گلی


    بندرگاہ کے مناظر


    دریائے باسفورس


    فوارہ سلطان احمد


    مسجد یلدرم بایزید


    مسجد ینی کیمی جو سلطان کے والد سے منسوب ہے


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • سلطنت عثمانیہ کا آخری چشم و چراغ بھی بجھ گیا

    سلطنت عثمانیہ کا آخری چشم و چراغ بھی بجھ گیا

    اگر سلطنت عثمانیہ ابھی بھی جاری و ساری ہوتی تو عثمان بایزید اپنے تمام جاہ و جلال کے ساتھ اس سلطنت کے سلطان ہوتے لیکن وقت کی پاٹ میں پستے جلا وطن عثمان بایزید کبھی لائبریری میں کتابیں درست کرتے تو کبھی بچوں کے لیے پتلی تماشہ کرتے اور ہمہ وقت اپنی بیمار ماں(سابقہ ملکہ عالیہ سلطنت عثمانیہ) کی دیکھ بحال کرتے کرتے اس راہ عدم سے کوچ کر گئے۔

    library5

    اپنے دوستوں اور احباب میں نہایت شفیق، بذلہ سنج اور ہر ایک کے کام آنے والی شخصیت کے طور پر پہچانے جانے والے عثمان بایزید ساری عمر محنت مزدوری کرتے رہے اور شادی نہیں کی جو قلیل علالت کے بعد 6 جنوری 2017 کو92 سال کی عمر میں جہان فانی سے کوچ کر گئے یوں عثمانیہ سلطنت کا آخری وارث بھی منوں مٹی تلے دب گیا۔

    library1

    بایزید 23 جون کو جلاوطنی کے دوران پیدا ہوئے جہاں دو سال بعد ہی ان کے والد اور سلطان سلطنت عثمانیہ محمد ششم دار فانی سے کوچ کر گئے اسی طرح ایک ایک کر بچے کچے اہل خانہ بھی خالق حقیقی سے جا ملے اور آخر میں وہ اپنی والدہ کے ہمراہ اکیلے رہ گئے جو طویل علالت کے بعد انتقال کر گئیں تو سلطنت عثمانیہ کے آخری وارث عثمان بایزید تن تنہا ہی زندگی بسر کرنے لگے تھے

    library2

    سلطنت عثمانیہ ۔۔۔۔۔۔  ایک تعارف 

    سلطنت عثمانیہ یا خلافت عثمانیہ 1299ء سے 1922ء تک قائم رہنے والی ایک مسلم سلطنت تھی جس کے حکمران ترک تھے۔ اپنے عروج کے زمانے میں (16 ویں – 17 ویں صدی) یہ سلطنت تین براعظموں پر پھیلی ہوئی تھی اور جنوب مشرقی یورپ، مشرق وسطٰی اور شمالی افریقہ کا بیشتر حصہ اس کے زیر نگیں تھا۔ اس عظیم سلطنت کی سرحدیں مغرب میں آبنائے جبرالٹر، مشرق میں بحیرۂ قزوین اور خلیج فارس اور شمال میں آسٹریا کی سرحدوں، سلوواکیہ اور کریمیا (موجودہ یوکرین) سے جنوب میں سوڈان، صومالیہ اور یمن تک پھیلی ہوئی تھی۔ مالدووا، ٹرانسلوانیا اور ولاچیا کے باجگذار علاقوں کے علاوہ اس کے 29 صوبے تھے۔

    library4

    سلطنت عثمانیہ ۔۔۔۔ آغاز 

    غازی امارات کی خود مختیار ریاستیں قائم کی تھیں ان میں مغربی اناطولیہ میں ایک سردار عثمان اول حکمران تھے جو بازنطینی کی کمزور ریاست سے بھی چھوٹی تھی جس کے باعث بازنطینی کی جانب سے حملوں کا سلسلہ جاری رہتا جس کا عثمان خان اول نے بڑی بہادری اور جونمردی سے نہ صر فمقابلہ کیا بلکہ پیش قدمی کرتے ہوئے بروصہ شہر پر بھی اپنی حکمرانی قائم کی جس کے بعد عثمان خان اول کا 29 جولائی 1326 میں تو انتقال ہو گیا لیکن سلطنت عثمانیہ کی بنیاد رکھ گیا تو وقت کے ساتھ ساتھ طول پکڑتی گئی۔

    سلطنت عثمانیہ ۔۔۔ بحران شکن قوم 

    تاہم 1402 میں تیمو لنگ نے اناطولیہ پر حملہ کیا اور عثمانی سلطان بایزید یلدرم کو شکست فاش دے کر حراست میں لے لیا لیکن عثمانیوں نے ہمت نہ ہاری اور مسلسل جدو جہد اور جنگ و جدل کے بعد اپنی سلطنت کو نہ صرف بحال کر لیا بلکہ چند ہی عشروں میں قسطنطنیہ کو بھی فتح کر لیا جس کا وہرا بایزید یلدرم کے بیٹے محمد اول کے سر جاتا ہے۔

    سلطنت عثمانیہ ۔۔۔ زوال 

    ہر عروج کو زوال ہوتا ہے جس کے ہر دور میں کچھ علیحدہ علیحدہ وجوہات ہوتی ہیں جن میں داخلی و خارجی حالات بھی کار فرما ہوتے ہیں لیکن حکمرانوں کی نا اہلی، عیش و عشرت اورتساہل پسندی یکساں وجوہات میں شامل ہیں۔

    چنانچہ ترک میں آنے والی نئی تبدیلیوں کے باعث آخری سلطان محمد ششم وحید الدین 17 نومبر 1922 کو ملک چھوڑ گئے جس کے بعد 24 جولائی 1923 کو باضابطہ طور پر ترک جمہوریہ کو تسلیم کر لیا گیا اور چند ماہ بعد 3 مارچ 1924 کو خلافت کے خاتمے کا بھی اعلان کردیا گیا اور سلطان اور ان کے اہل خانہ کو ناپسندیدہ اشخاص قرار دے کر جلا وطن کر دیا گیا۔

    سلطان محمد ششم کی جلاوطنی کے تین ماہ بعد ہی عثمان بایزید کی پیدائش ہوئی اور اپنے بھائیوں اور کزن میں واحد اولاد تھے جن کی پیدائش پر توپوں کی سلامی دی گئی اور نہ شاہی انعامات و اکرام تقسیم کیے گئے اور ان کی پیدائش کے دو سال بعد ہی سلطان محمد ششم بھی انتقال کر گئےتھے۔

  • آج سلطنتِ عثمانیہ کےعظیم تاجدار’سلیمانِ اعظم‘ کی سالگرہ ہے

    آج سلطنتِ عثمانیہ کےعظیم تاجدار’سلیمانِ اعظم‘ کی سالگرہ ہے

    کراچی (ویب ڈیسک) – سلطنت عثمانیہ کے عظیم ترین تاجدار سلیمان اعظم 6 نومبر 1494ء (900ھ) میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد سلیم اول دولت عثمانیہ کے نویں سلطان تھے اور انکی والدہ کا نام عائشہ تھا۔ سلیم اول نے 8 سال تک (918ھ تا 926ھ) حکومت کی تھی۔ سلیمان نے اپنے والد سے 16سال تک جنگی فنون کی تربیت حاصل کی۔ سلیم اول نے اپنے بیٹے کو دینی و دنیاوی تعلیم دلوانے کا بھی اہتمام کیا تھا۔ سلیمان کی انتظامی صلاحیتوں کو اس وقت جلا ملی جب انہیں مختلف صوبوں میں حاکم مقرر کیا گیا۔ سب سے پہلے انہوں نے اپنے دادا سلطان بایزید ثانی کے زمانے میں کفہ کی سنجق (صوبے) میں حکمرانی کے فرائض انجام دیئے۔ انہوں نے مغنیسیا، ادرنہ اور صاروخان کی حکمرانی کی ذمہ داریاں بھی انجام دیں۔ سلیم اول نے جب ایران پر حملہ کیا تو سلیمان ہی نائب کی حیثیت سے قسطنطنیہ میں موجود تھے۔

    سن 1520ء میں سلیم اول کے انتقال کے بعد عثمانی سلطنت کی باگ ڈور سلیمان اول کے ہاتھوں میں آئی اور یہیں سے دولت عثمانیہ کے اس دور کا آغاز ہوتا ہے جو اپنی خوشحالی، استحکام اور وسعت کے اعتبار سے یادگار ہے۔ سلیمان نے اپنے 26 سالہ دور حکومت میں خلافت عثمانیہ کو سیاسی برتری دلوانے اور اسے برقرار رکھنے کے لئے جو کوشش کی وہ بلاشبہ لائق صد تحسین ہے ان کا یہ کارنامہ اس لحاظ سے بھی بے حد ممتاز ہے کہ اس دور میں مسیحی و مغربی طاقتیں بیدار اور متحد ہورہی تھیں اور بڑی بڑی شخصیات عثمانیوں کا مقابلہ کرنے کے لئے میدان میں آگئی تھیں مثلا شہنشاہ چارلس پنجم جو یورپ کے نصف سے زائد حصے پر حکمران تھا جس میں موجودہ اسپین، بیلجیئم، ہالینڈاور جرمنی شامل تھے، ادھر انگلستان میں ملکہ ایلزبتھ اول حکمران تھی اور ہنگری پر شاہ لوئی کا سکہ چل رہا تھا۔
    یہ یورپ کی بیداری کا زمانہ تھا۔ فرانس، انگلستان اور آسٹریا نے اپنے اختلافات ختم کر لئے تھے اور مسیحی طاقت متحد ہونے کی فکر میں تھیں۔ چنانچہ حکومت سنبھالنے کے بعد اپنے 26 سالہ دور حکومت میں سلیمان کسی نہ کسی جنگ یا مہم میں مصروف رہے اگرچہ درمیان میں مختصر وقفے بھی آئے لیکن جہاد کاجو جذبہ سلیمان کے سینے میں موجزن تھا اس نے انہیں آخر وقت تک میدان عمل میں مصروف رکھا حتی کہ جنگ کے دوران ہی انہوں نے داعی اجل کو لبیک کہا۔ انہوں نے ذاتی طور پر 13 بڑی جنگوں میں شرکت کی جن میں سے تین ایشیا میں اور 10 یورپ میں لڑی گئی اور اس طرح سلطنت عثمانیہ کی حدود میں 13 مرتبہ توسیع کی۔

    سن 1521ء میں سلیمان نے ہنگری کے مشہور شہر بلغراد کو فتح کیا۔ بلغراد ایک انتہائی اہم شہر تھا جو دریائے ڈینوب پر اہل یورپ کا دفاعی مورچہ تھا۔1522ء میں رہوڈس کے جزیرہ کا محاصرہ کیا جو پانچ ماہ تک جاری رہا۔ اور جب سلیمان نے دیکھا کہ محصورین کی قوت مزاحمت ختم ہوچکی ہے تو سلطان نے انتہائی فراخ دلانہ شرائط کی پیشکش کی۔ اس نے اہل رہوڈس کو اس کی اجازت دے دی کہ بارہ دن کے اندر اپنے تمام اسلحہ اور سامان کے ساتھ اپنے جہازوں میں ہی جاسکتے ہیں۔ لیکن یہ تاریخی حقیقت ہے کہ اکثریت نے ترکوں کے ماتحت جزیرہ ہی میں رہنا منظور کیا۔ انہیں مکمل مذہبی آزادی دی گئی۔ پانچ سال کے لیے ان کے ٹیکس معاف کردیے گئے۔ رہوڈس کی فتح کے بعد ’’بہادر نائٹوں‘‘ کی خاندانی روایات کی حامل ڈھالیں (جو ان کے مکانوں پر آویزاں تھیں) ویسے ہی لگی رہنے دی گئیں۔

    سن 1526ء میں سلیمانِ اعظم نے ہنگری کی جانب قدم بڑھایا جو اس کی فتوحات میں تیسرا بڑا محاذ تھا۔ ہنگری کو فوجی نقطۂ نظر سے عیسائیوں کی ایک مضبوط طاقت خیال کیا جاتا تھا۔ دو گھنٹے سے بھی کم وقت میں ہنگری کی قسمت کا فیصلہ ہوگیا اور ہنگری سلطنت عثمانیہ کا حصہ بن گیا۔1529ء میں سلیمان نے آسٹریا کی جانب پیش قدمی کی۔ آسٹریا جرمنی کی سلطنت کا ایک حصہ تھا۔ سلیمان کے دور میں چارلس پنجم یورپ کا سب سے بڑا حکمران تھا۔ اس نے اپنے بھائی فرڈیننڈ کو آسٹریا کا حکمران مقرر کیا ہوا تھا۔ ستمبر1529ء کو سلیمان اعظم آسٹریا کے دارالحکومت ویانا کی دیواروں تک پہنچ گیا۔آسٹریا نے ہر دسویں آدمی کو فوجی خدمت کے لیے طلب کرلیا۔ ہمسایہ ریاستوں سے امدادی دستے طلب کرلیے۔ شہرکے اندر پرانی فصیل کے ساتھ ایک نئی فصیل بنائی گئی۔ اپنے دفاع کو مزید تقویت دینے کے لیے شہر کے نواحی علاقے بھی تباہ کردیے تاکہ ترک ان علاقوں سے فائدہ اٹھاکرپایۂ تخت ویانا کو فتح نہ کرسکیں۔ لیکن آسٹریا والوں کی تمام دفاعی تیاریوں کے باجود سلیمان نے ویانا کا محاصرہ کرلیا۔ فرڈیننڈ محاصرے سے پہلے ہی فرار ہوگیا۔27ستمبر سے14اکتوبر1529ء تک ویا نا کا محاصر ہ جاری رہا۔اگرچہ بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر (ایک طویل عرصے سے جنگ میں مصروف رہنے، موسم کی شدت، ’’ینی چری‘‘ کی حکم عدولی اور اپنی قوت کو مزید ضائع ہونے سے بچانے کے لیے) سلیمان اعظم کو یہ محاصر ہ اٹھا ناپڑا لیکن اس کی فتوحات نے اب وسطی یورپ میں اپنی آخری حد مقرر کردی تھی۔

    سن 1565ء میں آسٹریا سے جنگ پھر شروع ہوگئی جس میں عیسائیوں نے کچھ کامیابیاں حاصل کیں۔ سلطان اس زمانے میں بیمار تھے انہیں گنٹھیا کی شکایت تھی اس کے باوجود مردانہ وار افواج کی قیادت کے لئے نکل آئے۔ آسٹریا کے قلعہ زیگیٹوارکا محاصرہ 2 اگست 1565ء کو شروع ہوا اور 8 ستمبر تک جاری رہا اور قلعہ فتح ہوگیا اور اس وقت جب لشکر اسلام کامیابی کے پھریرے لہراتا ہوا قلعے میں داخل ہورہا تھا لیکن سپاہی اس اندوہناک حقیقت سے بے خبر تھے کہ ان کا محبوب سلطان اب ان کے درمیان نہیں بلکہ وہ 9 اور 10 صفر بمطابق 5 اور 6 ستمبر کی درمیانی شب ہی انہیں چھوڑ کر اپنے خالق حقیقی سے جا ملا ہے۔ سلطان کی وفات کی خبر وزیراعظم صوقوللی پاشانے دانستہ مخفی رکھی اور فتح کے بعد اسے عام کیا۔ فتح کے شادیانے فوراًموقوف ہوگئے اور فضا سوگوار ہوگئی۔ سلطان کی میت واپس قسطنطنیہ لائی گئی جہاں خود ان کی تعمیر کردہ مسجد سلیمانیہ میں انہیں سپردخاک کیا گیا۔