Tag: سلمان ندوی

  • عمر خیّام: علمِ نجوم اور ریاضی کا ماہر شاعر

    عمر خیّام: علمِ نجوم اور ریاضی کا ماہر شاعر

    عمر خیّام کو فارسی زبان میں ان کی رباعیات کے لیے دنیا بھر میں پہچانا جاتا ہے، وہ ایک شاعر کی حیثیت سے اتنے مشہور ہوئے کہ ان کی مختلف علوم اور فنون میں مہارت پر بات ہی نہیں کی جاتی جب کہ ان کا اصل میدان علمِ نجوم، ریاضی اور فلسفہ تھا۔

    اس کی وجہ عمر خیّام کی رباعیوں کا اردو سمیت دنیا کی تقریباً سبھی بڑی زبانوں میں ترجمہ ہونا ہے جس کے سبب وہ ہر جگہ پڑھے اور سمجھے گئے۔ برصغیر پاک و ہند کے نام وَر سیرت نگار، عالم، مؤرخ اور قابل قدر کتابوں کے مصنّف سیّد سلیمان ندوی نے اس نادرِ روزگار شخصیت کی انہی علمی کاوشوں پر مضمون لکھا تھا جس سے ہم یہاں ایک پارہ نقل کررہے ہیں۔

    وہ لکھتے ہیں: عمر خیّام کو ہم جس حیثیت سے جانتے اور پہچانتے تھے، وہ یہ تھی کہ وہ شاعر ہے اور رباعی گو ہے۔ اور زیادہ سے زیادہ یہ کہ آج کل کے مذاق کے موافق آزاد خیال ہے۔

    تاریخوں اور تذکروں میں اس کی ریاضی دانی کا ذکر ضرور ہے، لیکن ہمارے خیال میں وہ اسی قسم کی بات تھی کہ علاّمہ ابنُ الہمام شارح ہدایہ موسیقی بھی جانتے تھے، لیکن یورپ کی بدولت آج ہم کو وہ کتاب ہا تھ آئی، جس سے اس کے ریاضی دانِ اعظم ہونے کا ثبوت ملتا ہے۔

    مسلمانوں نے کبھی خود یہ دعویٰ نہیں کیا کہ وہ علم و جبر و مقابلہ کے موجد ہیں، لیکن اس فن میں ان کے اس قدر انکشافات ہیں کہ اس نام سے ان کی عام شہرت ہو گئی ہے۔ اس فن میں سب سے پہلے ابو موسیٰ خوارزمی نے ایک کتاب لکھی ہے۔ عربی دان تو اس سے آج بھی ناواقف ہیں، لیکن انگریزی میں مدّت ہوئی اس کا ترجمہ ہو گیا۔ اور اصل عربی کے ساتھ چھپ کر شایع ہوا۔ چناں چہ ہماری نظر سے بھی گزر چکا ہے۔

    ابو موسیٰ کے بعد اور لوگوں نے بھی اس فن پر کتابیں لکھی ہیں۔ اور غالباً سب سے اخیر مجتہدانہ کتاب عمر خیّام کا جبر و مقابلہ ہے، جو اس وقت ہمارے سامنے ہے۔عمر خیّام کی تصنیف سے معلوم ہوتا ہے کہ قدما کی کوئی تصنیف اس کو نہیں ملی تھی۔

    ہندوستان کے ریاضی دانوں نے البتہ کچھ قاعدے لکھے تھے، لیکن وہ محض ابتدائی باتیں تھیں، چناں چہ دیباچہ میں لکھتا ہے:

    یہ کتاب فرانس کے دارُ السّلطنت پیرس میں مع فرنچ ترجمہ کے چھاپی گئی ہے، اور چھے روپے قیمت ہے۔ (رہے) باقی قدماء تو ان کا کوئی کلام ہم تک نہیں پہنچا۔ شاید ان کا ذہن باوجود غور و فکر کے اس میں کام یاب نہیں ہوا، یا ان کو اس کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ یا ان کی تصنیفات کا ترجمہ ہماری زبان میں شائع نہیں ہوا ہے۔

    ایک دوسرے موقع پر لکھتا ہے: اور ہندیوں کے یہاں مربعات اور مکعبات کے اضلاع کے نکالنے کے طریقے ہیں جو تھوڑے سے استقرا پر مبنی ہیں۔

    خیّام نے ہندی قواعد کے اثبات پر ایک مستقل کتاب لکھی ہے جس کا حوالہ اس کتاب میں دیا ہے۔

    خیّام اس فن کی ترقی کی جو تاریخ بیان کرتا ہے وہ یہ ہے کہ سب سے پہلے ماہانی نے اس اصول کی تحلیل جبر و مقابلہ کے ذریعہ سے کی، جس کو ارشمیدس نے کتاب اکرہ والاسطوانہ کے مقالہ ثانیہ کی شکل رابع میں استعما ل کیا ہے۔ اس سے کعب، مال، اعداد متعادلہ پیدا ہوئے، لیکن وہ ان کو حل نہ کر سکا۔ اور بالآخر اس نے فیصلہ کیا کہ یہ نا ممکن ہے، لیکن ابو جعفر خازن نے قطوعِ مخروطی کے ذریعہ سے اس کو حل کیا۔ اس کے بعد اور ہندسہ دانوں نے اس پر توجہ کی اور بعض مسائل حل کیے۔

  • آج عظیم عالمِ دین سلمان ندوی کا یومِ پیدائش اوربرسی ہے

    آج عظیم عالمِ دین سلمان ندوی کا یومِ پیدائش اوربرسی ہے

    آج عالم اسلام کے عظیم عالم دین سید سلیمان ندوی کی تاریخ پیدائش بھی ہے اور تاریخ وفات بھی، آپ 22 نومبر 1884ء کو صوبہ بہار کے ایک گائوں دیسنہ میں پیدا ہوئے تھے، سیرت النبی ﷺ کے علاوہ بھی آپ متعدد کتب کے مصنف ہیں۔

    ان کے والد حکیم سید ابو الحسن ایک صوفی منش انسان تھے۔تعلیم کا آغاز خلیفہ انور علی اور مولوی مقصود علی سے کیا۔ اپنے بڑے بھائی حکیم سید ابو حبیب سے بھی تعلیم حاصل کی۔ 1899ء میں پھلواری شریف (بہار (بھارت)) چلے گئے جہاں خانقاہ مجیبیہ کے مولانا محی الدین اور شاہ سلیمان پھلواری سے وابستہ ہو گئے۔ یہاں سے وہ دربھنگا چلے گئے اور مدرسہ امدادیہ میں چند ماہ رہے۔

    سنہ 1901ء میں وہ دارالعلوم ندوۃ العلماء میں داخل ہوئے ، سلمان ندوی اس عظیم الشان ادارے سے سات سال وابستہ رہے۔ بعد ازاں1913ء میں دکن کالج پونا میں معلم السنۂ مشرقیہ مقرر ہوئے۔1940ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے انہیں ڈاکٹریٹ کی اعزازی سند عطا کی۔

    سلمان ندوی کی شخصیت کی تعمیر میں علامہ شبلی نعمانی نے سب سے اہم کردار ادا کیا اور یہی سبب ہے کہ سلمان ان سے خصوصی محبت فرماتے تھے ، ان کی وفات کے بعد وہ مولانا کے قائم کردہ ادارے ندوۃ المصنّفین سے وابستہ ہو گئے۔ انہوں نے اس ادارے سے وابستگی کے دوران مولانا شبلی نعمانی کی نامکمل رہ جانے والی سیرت النبی مکمل کی، سیرت النبی ﷺ کی ابتدائی دو جلدیں شبلی نعمانی نے مرتب کی تھیں جبکہ باقی چار کی تدوین سلمان ندوی نے کی تھی۔

    قیام پاکستان کے بعد سید صاحب جون 1950ء میں پاکستان چلے آئے۔ یہاں آنے کے بعد آپ نے پاکستان کے دستور کو اسلامی خطوط پر ڈھالنے کے لیے بڑا اہم کام کیا اور مختلف مکاتب فکر کے علماء کے ساتھ مل کر دستور کے رہنما اصول مرتب کیے۔

    آپ کی تصانیف میں سیرت النبی، عرب و ہند کے تعلقات، حیات ِشبلی، رحمت عالم، نقوش سلیمان، حیات امام مالک، اہل السنہ والجماعہ، یاد رفتگاں، سیر ِافغانستان، مقالات سلیمان، خیام، دروس الادب، خطبات مدراس، ارض القرآن، ہندوؤں کی علمی و تعلیم ترقی میں مسلمان حکمرانوں کی کوششیں، اور بہائیت اور اسلام شامل ہیں۔

    سید سلیمان ندوی نے 22 نومبر 1953ء کو کراچی میں وفات پائی۔ آپ کی نماز جنازہ مفتی محمد شفیع نے پڑھائی اور اسلامیہ کالج کراچی کے احاطے میں علامہ شبیر احمد عثمانی کے پہلو میں آسودۂ خاک ہوئے۔