سلویا پلاتھ کی وجہِ شہرت اور شاعری میں انفرادیت یہ ہے کہ اس نے اپنی نظموں میں گویا اپنی ذات اور اپنے احساسات کا غیرمعمولی شدت سے اظہار کیا۔ جب کہ اس دور میں ہم عصر شعرا کے ہاں ایسی کیفیت اور اظہار دیکھنے کو نہیں ملتا۔ سلویا پلاتھ شاعرہ ہی نہیں بطور ناول نگار بھی مشہور ہوئی۔ اور اس کے سوانحی ناول کو بہت سراہا گیا۔ شاعرہ اور ناول نگار سلویا پلاتھ نے صرف 31 سال کی عمر میں اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیا۔ اس کی موت آج بھی ایک معمّہ ہے۔ اسے پولیس نے حادثہ قرار دیا تھا۔
سلویا پلاتھ اوائلِ عمری میں شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہوگئی جس کے کئی اسباب سامنے آئے۔ وہ شروع ہی سے حساس طبع تھی اور والد کی موت نے اسے شدید ذہنی صدمہ پہنچایا تھا۔ سلویا پلاتھ نے ڈپریشن کا علاج بھی کروایا۔ لیکن فائدہ نہیں ہوا۔ اس نے نوجوانی میں تین مرتبہ خود کشی کی ناکام کوشش کی۔ ماہرِ نفسیات اسے ذہنی دباؤ سے آزاد نہیں کرواسکے اور پھر سلویا کی خود کشی کی چوتھی کوشش کام یاب ہوگئی۔ اس نے اوون میں اپنا منہ رکھ کر تکلیف دہ طریقے سے زندگی ختم کی۔ 11 فروری 1963ء کو سلویا پلاتھ اپنے کمرے میں مردہ پائی گئی۔ کچھ لوگوں نے اسے قتل کی واردات کہا، کیوں کہ وہ جس کمرے میں مردہ پائی گئی تھی، اس کا دروازہ مقفل تھا اور عام طور پر وہ اپنا کمرہ لاک نہیں کرتی تھی۔
موت کے بعد اسے بے حد شہرت نصیب ہوئی اور اس کی شاعری کو ادبِ عالیہ تسلیم کیا گیا۔ 27 اکتوبر 1932ء کو امریکہ کے شہر بوسٹن میں پیدا ہونے والی سلویا پلاتھ کے والد ایک کالج میں پروفیسر اور ماہرِ حشرات تھے۔ سلویا شروع ہی سے فطرت اور حسین مناظر میں کشش محسوس کرنے لگی تھی۔ اسے زندگی کے ابتدائی برسوں ہی میں اپنے اندر ایک ایسی لڑکی مل گئی تھی جو اپنے جذبات اور محسوسات کو الفاظ میں قرینے سے ڈھالنا جانتی تھی۔ جب سلویا نے جان لیا کہ وہ شاعری کرسکتی ہے تو اس نے باقاعدہ قلم تھام لیا۔ شاعرہ سلویا پلاتھ جب آٹھ برس کی تھی تو اس کے والد فوت ہو گئے تھے۔ سلویا پر ان کی موت کا گہرا نفسیاتی اثر ہوا اور وہ بہت دکھی رہی اور یہ دکھ ڈپریشن کا روپ دھارنے لگا تھا۔ شاعری کا آغاز وہ کرچکی تھی اور 18 سال کی عمر میں اس کی پہلی نظم ایک مقامی اخبار میں شایع ہوئی۔ بعد میں اس نے نثر کی طرف توجہ دی اور آغاز بچّوں کے لیے کہانیاں لکھنے سے کیا۔ سلویا نے ایک نیم سوانحی ناول دی بیل جار لکھا جو بہت مقبول ہوا۔
1955 میں سلویا پلاتھ نے دوستوفسکی کے ناولوں پر مقالہ لکھ کر اسمتھ کالج سے بی اے کی ڈگری حاصل کی۔ وہ ذہین اور قابل لڑکی تھی اور اسی ذہانت کی وجہ سے انگلستان کا فل برائٹ اسکالر شپ حاصل کرکے انگلستان میں کیمبرج یونیورسٹی میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے میں کام یاب ہوئی۔ اس کی ملاقات اپنے وقت کے مشہور شاعر ٹیڈ ہیوز سے 1956 میں ہوئی اور دونوں ایک دوسرے کے عشق میں گرفتار ہو گئے، چند ماہ بعد انھوں نے شادی کرلی لیکن جلد ہی رومانس دم توڑ گیا اور سلویا پلاتھ کی ذاتی زندگی اتار چڑھاؤ اور تلخیوں سے کا شکار ہوکر بکھر گئی۔ اس جوڑے کے گھر دو بچّوں نے جنم لیا، مگر ایک وقت آیا جب انھوں نے علیحدگی کا فیصلہ کیا، اور پھر حساس طبع سلویا شدید نفسیاتی دباؤ کا شکار ہوتی چلی گئی۔ کہا جاتا ہے کہ سلویا پلاتھ کے مشہور ناول کے چند ابواب دراصل اس کی ذاتی زندگی کا عکس ہیں۔
سلویا پلاتھ کی نظموں کا پہلا مجموعہ 1960ء میں شایع ہوا تھا اور الم ناک موت کے بعد اس کی دیگر نظمیں کتابی شکل میں شایع ہوئیں۔ اس کی نظموں کا متعدد زبانوں میں ترجمہ کیا گیا جن میں اردو بھی شامل ہے۔ بعد از مرگ اس کے لیے پلٹزر پرائز کا اعلان کیا گیا۔
’انجیر کے درخت پر ہر شاخ تازہ جامنی انجیروں سے لدی ہوئی ہے، اسے کسی ایک انجیر کا انتخاب کرنا ہے اور اس انتخاب نے اسے سخت تذبذب میں ڈال رکھا ہے۔
ہر انجیر دوسری سے لذیذ اور خوش نما دکھائی دے رہی ہے اور اس کے انتخاب کو مشکل بنا رہی ہے، لیکن ابھی وہ کوئی ایک انجیر منتخب کر کے اس کی طرف ہاتھ بڑھاتی ہی ہے، کہ تمام انجیریں ایک بعد ایک درخت سے گرنے لگتی ہیں اور گرتے ہی سوکھ جاتی ہیں، اس نے انہیں چننے میں اتنی دیر لگائی کہ ان کی تازگی ختم ہوگئی اور وہ بدمزہ ہوگئیں۔‘
یہ منظر معروف امریکی شاعر سلویا پلاتھ کے واحد ناول دا بیل جار کا ہے اور یہ زندگی کی تمثیل ہے۔ عورت کی زندگی کے بے شمار رنگ الگ الگ انجیروں کی صورت اس کے سامنے آتے ہیں اور اسے ان میں سے کسی ایک کو چننا ہوتا ہے۔
ایک انجیر شوہر کا گھر اور گھریلو زندگی ہے، دوسری انجیر شاعر ہونا ہے، تیسری انجیر اپنی دلچسپی کے مطابق کسی شعبے میں جانا اور اس کی ماہر بننا ہے، چوتھی انجیر دنیا کے سفر پر نکلنا ہے، اور اوپر کی شاخوں پر مزید کئی خوش نما انجیریں جو ناقابل رسائی ہیں، لیکن اسے کوئی ایک انجیر چننی ہے۔
اس تمثیل میں دراصل سلویا نے بیسویں صدی کے محدود معاشرے میں جینے والی ایک عورت کی افسردگی بیان کی ہے، جس کے خیال لامحدود لیکن زندگی محدود ہے۔ جو کوئی فیصلہ کر بھی لے، تو اسے اس کے غلط ہونے کا خوف اور دوسری انجیر نہ چننے کا قلق ہے۔
اس نے ایک بار لکھا، کیا میں لباس کی طرح زندگی کو بھی بدل بدل کر دیکھ سکتی ہوں کہ کون سی میرے لیے موزوں ترین ہے؟
جسے اس بات کی خلش ہے، کہ میں زندگی کے ہر رنگ اور ہر تنوع کو بھرپور طریقے سے محسوس کرنا چاہتی ہوں، لیکن میں خوفناک حد تک محدود ہوں۔
سلویا پلاتھ 27 اکتوبر 1932 کو امریکی ریاست میساچوسٹس میں پیدا ہوئی، اس کے والد بوسٹن یونیورسٹی میں بیالوجی کے پروفیسر تھے، لیکن جب سلویا صرف 8 برس کی تھی تو وہ چل بسے۔
والد کی موت نے سلویا کو گہرا جذباتی و نفسیاتی صدمہ پہنچایا اور غالباً یہیں سے اس کی زندگی میں ایک طویل اور عذاب ناک ڈپریشن کی بنیاد پڑی، اس ڈپریشن نے اس کی زندگی کے سارے رنگوں کو پھیکا کردیا اور پیچھے رہ گئی اتھاہ سیاہ تاریکی جس میں وہ ساری زندگی ڈوبتی ابھرتی رہی۔
11 برس کی عمر سے سلویا نے ڈائری لکھنی شروع کردی تھی اور اپنے احساسات اور جذبات کو ایسے خوبصورت جملوں میں پرویا جنہیں پڑھ کر کوئی بھی اندازہ کر سکتا تھا کہ یہ بچی بڑی ہو کر لفظوں سے کھیلنے والی جادوگر بنے گی۔
18 برس کی عمر میں اس کی پہلی باقاعدہ نظم ایک مقامی اخبار میں شائع ہوئی، بعد میں سلویا نے نثر بھی لکھا اور ایک ناول اور کچھ افسانے تحریر کیے۔
دا بیل جار
سنہ 1953 میں کالج کی تعلیم کے دوران سلویا نے نیویارک میں میڈموزیل میگزین میں ملازمت کی، فیمنسٹ نظریات کا حامل یہ میگزین خواتین میں بے حد مقبول ہوا اور یہاں گزارے گئے وقت نے سلویا کے ادبی سفر کا تعین کیا۔
سلویا کے واحد ناول دا بیل جار کی داغ بیل اسی ملازمت نے ڈال دی تھی جب اس نے وہاں اعلیٰ حس مزاح اور بلند معیار سوچ رکھنے والے افراد اور خصوصاً خواتین کے ساتھ وقت گزارا۔
تصویر: ٹیڈ ایکس
دا بیل جار کی کہانی ایسٹر گرین ووڈ نامی ایک لڑکی کے گرد گھومتی ہے جو خطرناک حد تک ذہین اور بہترین حس مزاح کی حامل لیکن شدید ڈپریشن کا شکار ہے، سلویا نے دراصل اپنی زندگی کی کہانی ایسٹر کی صورت میں پیش کی اور اس میں کچھ افسانوی رنگ بھی اختیار کیا۔
سلویا کی حس ظرافت اس قدر ذومعنی تھی کہ سننے والے کو ہنسنے کے بہت دیر بعد علم ہوتا کہ کہنے والا اس کا تمسخر اڑا گیا، اس نے یہی انداز اپنے ناول کی ہیروئن کا بھی رکھا جو بہت مقبول ہوا۔
اس کے ناول نے اس وقت کی عورت کے لیے مروجہ اصول، مرد کی کھلی چھوٹ اور معاشرے کے تضادات پر بہت بے باک انداز میں سوال اٹھائے۔
یہ ناول جنوری 1963 میں سلویا کی موت سے صرف ایک ماہ قبل اس کے قلمی نام سے شائع ہوا تھا۔
ذہنی خلجان، خودکشی کی کوشش اور شاعری
سلویا کی اصل وجہ شہرت اس کی نظمیں ہیں جو اس کے ذہنی خلفشار کا تحفہ تھیں، اس کے اپنے اندر کی عکاس نظمیں جو بھیانک خالی پن، عام لوگوں کی ڈگر سے ہٹ کر مشاہدے اور ذہانت و ڈپریشن کی پیدا کردہ مختلف ڈھب کی سوچ کی تصویر ہیں۔
اس کی شاعری نے عورت کے دکھوں، ان کہے جذبات اور جنسیت کے گرد قائم خاموشی کا حصار توڑا اور اس کا نڈر اظہار کیا۔
ذہنی خلجان اور ڈپریشن کے باعث سلویا ہمیشہ بے چینی کا شکار رہی، اس میں خودکشی کا رجحان بھی موجود تھا اور عام افراد کے برعکس موت اسے خوفزدہ کرنے والی شے نہیں لگتی تھی۔
سنہ 1954 میں وہ ایک بار خودکشی کی کوشش بھی کر چکی تھی جس کے بعد کئی ماہ اسے نفسیاتی اسپتال میں گزارنے پڑے، ڈپریشن کی گولیاں تو ہمیشہ ہی اس کی ساتھی رہیں۔
اس کی ایک نہایت مشہور نظم لیڈی لازرس جسے شاہکار کی حیثیت حاصل ہے، بائبل کے ایک کردار پر مبنی ہے جو فنا ہو کر پھر سے جی اٹھتا ہے۔ سلویا نے یہ نظم اپنی موت سے چند ماہ قبل اس وقت لکھی جب وہ اپنی زندگی کے مشکل ترین دور سے گزر رہی تھی۔
خود کو لیڈی لازرس سے تشبیہ دیتے ہوئے اس نے لکھا، مرنا بھی ایک آرٹ ہے۔
اس نے ایک بار اپنی ذہنی کیفیت کے بارے میں لکھا، میں یا تو لمحے بھر میں بے حد خوش اور سرگرم رہ سکتی ہوں، یا پھر بے حد سست اور غمگین ہو سکتی ہوں، ان دونوں کیفیات کے بیچ معلق رہنا مجھے پاگل بنا دے گا۔
ایک بار اس نے کہا، کیا سوچوں سے باہر جانے کا کوئی راستہ ہے؟
محبت، جو اسے موت تک لے گئی
سنہ 1956 میں سلویا کی ملاقات انگریزی کے معروف شاعر ٹیڈ ہیوز سے ہوئی، دونوں ایک دوسرے سے متاثر اور پھر ایک دوسرے کی محبت میں مبتلا ہوئے اور محبت ناموں سے شروع ہونے والا یہ سلسلہ شادی پر منتج ہوا۔
جلد ہی دونوں میں اختلافات سامنے آنے لگے۔ اس دوران دونوں کے یہاں ایک بیٹی فریڈا اور بیٹا نکولس پیدا ہوئے۔
لیکن اصل طوفان شادی کے 6 برس بعد تب آیا جب یہ دونوں ڈیوڈ وول اور آسیا وول نامی ایک جوڑے کے گھر کے ایک حصے میں کرائے پر رہنے لگے اور ٹیڈ آسیا کی زلف کے اسیر ہوگئے۔
سلویا کو جب ٹیڈ کی اس بے وفائی کا علم ہو تو وہ بے حد دل برداشتہ اور رنجیدہ ہوئی، شوہر سے جھگڑے کے بعد سنہ 1962 میں وہ بچوں کو لے کر انگلینڈ چلی آئی، یہاں نئی زندگی کی مشکلات، ڈپریشن اور نفسیاتی دوروں کا جن منہ کھولے کھڑا تھا اور اب سلویا کے لیے ان سے نمٹنا آسان نہ تھا۔
اپنے ذہنی خلجان اور غم کی کیفیت میں سلویا نے ایک کے بعد ایک نظم لکھ ڈالی، لیڈی لازرس انہی دنوں کی تخلیق ہے۔ ان دنوں میں تخلیق کی گئی اس کی نظموں کا مجموعہ بعد از مرگ ایریل کے نام سے شائع ہوا۔
ان دنوں سلویا کے ڈاکٹر نے اس کی ذہنی کیفیت کے پیش نظر اسے اسپتال میں داخل ہونے کا مشورہ دیا لیکن سلویا نے اینٹی ڈپریسنٹس تک کھانا چھوڑ دی تھیں۔
5 ماہ تک رنج، تنہائی اور ذہنی خلفشار سے لڑتے رہنے کے بعد بالآخر ایک دن سلویا نے اس کے آگے ہتھیار ڈال دیے، فروری 1963 کی ایک صبح، جب اس کے دونوں بچے سو رہے تھے، اس نے بچوں کا ناشتہ بنا کر ان کے سرہانے رکھا اور گیس اوون کھول کر اپنا سر اس میں گھسا دیا، کاربن مونو آکسائیڈ کے زہر نے جلد اسے تمام تکلیفوں سے نجات دلا دی۔
بچے اٹھے تو وہ اپنی ماں کو ہمیشہ کے لیے کھو چکے تھے۔ اپنی موت کے وقت سلویا کی عمر صرف 31 برس تھی۔
سلویا کی زیادہ تر نظمیں ان کی موت کے بعد شائع ہوئیں جنہیں عام لوگوں نے بھی پسند کیا اور ادبی حلقے بھی ان کی اختراعی سوچ اور بے باکی پر دم بخود رہ گئے، سنہ 1971 میں ان کا ناول دا بیل جار ان کے اصل نام سے شائع ہوا۔
سنہ 1982 میں سلویا کی نظموں کے مجموعے کو پلٹزر پوئٹری پرائز بھی ملا۔
سلویا کی موت ان کے شوہر ٹیڈ کے لیے بھی مشکلات لے آئی، ادبی طبقے کی خواتین نے انہیں سلویا کی خودکشی کا ذمہ دار ٹھہرایا اور ٹیڈ کو قتل کی دھمکیاں تک موصول ہوئیں۔
دوسری طرف آسیا وول بھی احساس جرم کا شکار رہی اور 6 سال بعد اس نے بالکل اسی طرح خودکشی کرلی جیسے سلویا نے کی تھی، ساتھ ہی اپنی 4 سالہ بیٹی کو بھی مار ڈالا، گیس سے بھرے بند کچن سے دونوں کی لاشیں برآمد ہوئیں۔
سلویا کا ذہنی خلفشار اور خودکشی کا رجحان صرف اس تک محدود نہ رہا، اس کے بچوں نے اس کی دیوانگی، ذہانت اور فن سب ہی وراثت میں پایا، بیٹی فریڈا شاعر اور مصور بنی، بیٹے نکولس نے جو ایک پروفیسر تھا، سنہ 2009 میں 47 سال کی عمر میں خودکشی کرلی۔
سلویا نے ایک بار کہا تھا، مجھے ان چیزوں کی خواہش ہے جو مجھے آخر میں مار ڈالیں گی، کون جانے کہ اسے خوشی کی خواہش تھی جس کی تلاش میں وہ تمام عمر سرگرداں رہی، یا پھر یہ اذیت اور بے چینی خود اسی کی منتخب کردہ تھی جو اسے موت تک لے آئی۔
اپنے پیاروں کی موت کا دکھ اور صدمہ جھیلتے ہوئے جب ہم کسی قبرستان میں ان کی تدفین کے بعد قبر پر کتبہ ضرور لگاتے ہیں۔ یہ ایک قدیم روایت ہے جو وسیع رقبے پر پھیلے ہوئے قبرستان میں مردے کی شناخت یا پہچان کو آسان بنا دیتی ہے۔
پوری دنیا میں کسی بھی قوم اور مذہب یا عقیدے کے ماننے والے اپنی زبان میں اور مقامی روایات کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے ایسے کتبوں پر نام کے ساتھ مختلف مذہبی اور مقدّس عبارتیں تحریر کرواتے ہیں۔ بعض لوگ اپنی زندگی ہی میں اپنا کتبہ لکھوا کر رکھ دیتے ہیں۔ تاہم عام لوگوں کے برعکس ادیب، شاعر اور فن کاروں میں یہ رجحان زیادہ پایا جاتا ہے۔ ادب کی تاریخ میں بہت سے کتبے آج بھی اپنی عبارتوں کی وجہ سے لائقِ مطالعہ اور اہمیت کے حامل ہیں اور آج بھی تحریر و تقریر میں ان کا حوالہ دیا جاتا ہے۔
یہاں ہم دو ایسے تخلیق کاروں کے مرقد پر نصب کتبوں کی بات کررہے ہیں جنھیں عالمی سطح پر ان کی تحریروں کی وجہ سے شناخت ملی۔ ان میں سے ایک نام سلویا پلاتھ اور دوسرا رابرٹ فراسٹ کا ہے۔ ان کی قبر کے کتبے پر جو تحریر موجود ہے، وہ ایک خوب صورت پیغام ہے جو زندگی کے اس سفر میں ہماری راہ نمائی کرسکتا ہے۔
سلویا پلاتھ معروف امریکی ادیب اور شاعرہ تھی۔ اس نے ناول، شارٹ اسٹوریز کے علاوہ اپنی نظموں کی وجہ سے خوب شہرت پائی، لیکن اس کی ذاتی زندگی کچھ ایسی تلخیوں اور ناکامیوں کا شکار ہوئی کہ اس نے اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیا۔ ایک روز سلویا اپنے کمرے میں مردہ پائی گئی اور پولیس کے مطابق اس نے خود کو گیس اوون میں جھونک دیا تھا۔
سلویا پلاتھ نے 1963 میں موت کو گلے لگایا اور اس وقت وہ عمرِ رواں کی 31 ویں منزل پر تھی۔ اس کم عمری میں زندگی سے منہ موڑ لینے والی سلویا پلاتھ کی آخری آرام گاہ کے کتبے پر تحریر ہے:
” شعلوں کے درمیان بھی سنہری رنگ کے کنول کے پھول کھلائے جا سکتے ہیں۔“
رابرٹ فراسٹ نہ صرف امریکہ بلکہ دنیا بھر میں ایک تخلیق کار کی حیثیت سے بڑا مقام و مرتبہ رکھتے تھے۔ ان کی شاعری میں مقامی رنگ اور اپنے خطّے کی مٹی سے محبت کا اظہار ہوتا ہے۔ اسی وصف کی بنا پر رابرٹ فراسٹ کو امریکا میں بہت سراہا اور پسند کیا جاتا ہے۔ ان کے مدفن کے کتبے پر یہ یادگار الفاظ درج ہیں جو شاعر کی منفرد اور خوب صورت فکر اور خوب صورت جذبات کے عکاس ہیں۔
”میں نے دنیا کے ساتھ ایک عاشق کی طرح لڑائی کی ہے۔”
سلویا پلاتھ کو اس کی منفرد شاعری نے دنیا بھر میں پہچان دی۔ اس نے کہانیاں اور ایک ناول بھی تخلیق کیا۔ محض 31 سال کی عمر میں دنیا سے رخصت ہوجانے والی سلویا پلاتھ کی موت آج بھی ایک معمّہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس نے خود کُشی کرلی تھی۔
یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں تھی کہ سلویا پلاتھ ایک عرصے تک شدید ذہنی دباؤ کا شکار رہی۔ وہ تین مرتبہ اپنی زندگی کا خاتمہ کرنے کی ناکام کوشش کرچکی تھی۔ اس نے ماہرِ نفسیات سے اپنا علاج بھی کروایا تھا، مگر ڈپریشن سے مکمل نجات حاصل نہیں کرسکی اور ایک روز اس کی موت کی خبر آئی۔
اس منفرد شاعرہ اور باکمال کہانی نویس نے کم عمری میں شہرت حاصل کر لی تھی۔ 27 اکتوبر 1932ء کو پیدا ہونے والی سلویا پلاتھ کے والد ایک کالج میں پروفیسر اور ماہرِ حشرات تھے۔ سلویا شروع ہی سے فطرت اور حسین مناظر میں کشش محسوس کرنے لگی تھی۔ اسے زندگی کے ابتدائی برسوں ہی میں اپنے اندر ایک ایسی لڑکی مل گئی تھی جو اپنے جذبات اور محسوسات کو الفاظ میں قرینے سے ڈھالنا جانتی تھی۔ جب سلویا نے جان لیا کہ وہ شاعری کرسکتی ہے تو اس نے باقاعدہ قلم تھام لیا۔ وہ 18 سال کی تھی جب ایک مقامی اخبار میں اس کی پہلی نظم شایع ہوئی۔ بعد میں اس نے نثر کی طرف توجہ دی اور آغاز بچّوں کے لیے کہانیاں لکھنے سے کیا۔ اس نے ایک ناول دی بیل جار کے نام بھی لکھا اور شاعری کے علاوہ یہ بھی اس کی ایک وجہِ شہرت ہے۔
کہا جاتا ہے کہ اس ناول کے چند ابواب دراصل سلویا پلاتھ کی ذاتی زندگی کا عکس ہیں۔ اس کی نظموں کا پہلا مجموعہ 1960ء میں شایع ہوا تھا۔ سلویا کی الم ناک موت کے بعد کے برسوں بعد اس کی دیگر نظموں کو کتابی شکل میں شایع کیا گیا تھا۔ اس شاعرہ کی نظموں کا متعدد زبانوں میں ترجمہ کیا گیا جن میں اردو بھی شامل ہے۔ بعد از مرگ سلویا پلاتھ کو اس کی شاعری پر پلٹزر پرائز دیا گیا تھا۔
شاعرہ اور ناول نگار سلویا پلاتھ کی ذاتی زندگی اتار چڑھاؤ اور تلخیوں سے بھری پڑی ہے۔ اس نے اپنے زمانے کے مشہور برطانوی شاعر ٹیڈ ہیوگس سے شادی کی تھی اور اس جوڑے کے گھر دو بچّوں نے جنم لیا، لیکن ان کی یہ رفاقت تلخیوں کا شکار ہوگئی اور ایک وقت آیا جب انھوں نے علیحدگی کا فیصلہ کر لیا، اس کے بعد حساس طبع سلویا پلاتھ شدید نفسیاتی دباؤ کا شکار ہوگئی اور خود کو سمیٹ نہ پائی۔ خیال ہے کہ ماضی کی تکلیف دہ یادوں نے اسے موت کو گلے لگانے پر اکسایا ہوگا۔ وہ 11 فروری 1963ء کو اپنے گھر میں مردہ پائی گئی تھی۔
کچھ لوگوں کا کہنا تھاکہ سلویا نے خود کُشی نہیں کی تھی، اور اس کی موت ایک حادثے کے سبب ہوئی، لیکن سوال یہ ہے کہ اس نے اپنے کمرے کا دروازہ کیوں مقفل کیا تھا؟ وہ تو اس کی عادی نہیں تھی۔
یہی نہیں بلکہ اس درد ناک موت کو خود کُشی ماننے کے سوا کوئی راستہ یوں بھی نہیں بچتا تھا کہ سلویا پہلے بھی تین مرتبہ اپنی زندگی کا خاتمہ کرنے کی کوشش کرچکی تھی۔ وہ ذہنی مرض کا شکار رہی تھی اور ماہرِ نفسیات سے علاج بھی کروایا تھا، مگر ڈپریشن سے مکمل نجات نہیں مل سکی تھی اور فقط 30 سال کی عمر میں موت کو گلے لگا لیا۔
سلویا پلاتھ نے ایک منفرد شاعرہ اور باکمال ادیب کی حیثیت سے کم عمری میں شہرت حاصل کر لی تھی۔ وہ امریکا میں 27 اکتوبر 1932 کو پیدا ہوئی۔ والد ایک کالج میں پروفیسر اور ماہرِ حشرات تھے۔ سلویا شروع ہی سے فطرت اور مناظر میں کشش محسوس کرتی تھی۔ زندگی کے ابتدائی برسوں ہی میں اس نے اپنے اندر ایک شاعرہ دریافت کرلی۔ 18 سال کی عمر میں ایک مقامی اخبار میں اس کی پہلی نظم شایع ہوئی۔ بعد کے برسوں میں نثر کی طرف متوجہ ہوئی اور آغاز بچوں کے لیے کہانیاں لکھنے سے کیا۔ پھر ایک ناول The Bell Jar بھی لکھ ڈالا جو اس کی شہرت کا سبب بنا۔
کہتے ہیں کہ اس ناول کے چند ابواب سلویا پلاتھ کی ذاتی زندگی کا عکس ہیں۔ اس کی نظموں کا پہلا مجموعہ 1960 میں شایع ہوا۔ دیگر شعری مجموعے سلویا کی الم ناک موت کے بعد کے برسوں میں شایع ہوئے۔ اس امریکی تخلیق کار کی نظموں کا متعدد زبانوں میں ترجمہ ہوا جن میں اردو بھی شامل ہے۔ بعدازمرگ اسے پلٹزر پرائز دیا گیا۔
سلویا پلاتھ کی نجی زندگی اتار چڑھاؤ اور تلخیوں سے بھری پڑی ہے۔ مشہور برطانوی شاعر ٹیڈ ہیوگس سے شادی اور دو بچوں کی ماں بننے کے بعد جب یہ رفاقت تلخیوں کی نذر ہوکر ختم ہوئی تو حساس طبع اور زود رنج سلویا خود کو سمیٹ نہ پائی۔ خیال ہے کہ ماضی کی تکلیف دہ یادوں نے اسے موت کو گلے لگانے پر اکسایا ہوگا۔ یہ 1963 کی بات ہے جب وہ ایک روز مردہ پائی گئی۔