Tag: سلیم احمد

  • سلیم احمد: شاعر اور نقّاد جس نے مقبولِ‌ عام  نظریات سے انحراف کیا

    سلیم احمد: شاعر اور نقّاد جس نے مقبولِ‌ عام نظریات سے انحراف کیا

    سلیم احمد کو اگر ادبی مفکر کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ انھوں نے اپنی نکتہ بینی، تجزیاتی بصیرت اور قوّتِ مشاہدہ سے کام لے کر جن موضوعات پر خیال آرائی کی، وہ انھیں اس کا اہل ثابت کرتے ہیں۔ سلیم احمد نے شاعر، نقّاد، ڈرامہ نویس اور کالم نگار کے طور پر ادبی دنیا میں نام و مقام پایا اور بالخصوص تنقید کے میدان میں ان کا کام ان کی پہچان بنا۔ مگر ساتھ ہی ان کا ادب کی دنیا میں کئی شخصیات سے زبردست اختلاف بھی رہا اور یہ سب ادبی تاریخ کا‌ حصّہ ہے۔

    سلیم احمد یکم ستمبر 1983ء کو وفات پاگئے تھے۔ وہ بلاشبہ اپنی تنقید میں معنیٰ و اسلوب کی سطح پر منفرد بھی ہیں اور مؤثر بھی۔ ان کی تنقید میں اچھوتا پن اور گہرائی ہے۔ اسی طرح ان کی شاعری بھی ندرتِ خیال اور موضوعات کی رنگارنگی سے آراستہ ہے۔ سلیم احمد نے اپنے دور میں تنقید لکھتے ہوئے مقبولِ عام نظریات سے انحراف کیا اور اس پر انھیں اعتراضات اور نکتہ چینی کا سامنا کرنا پڑا۔

    اردو کے اس معروف شاعر اور نقّاد کے بارے میں‌ اُن کے ہم عصروں کی رائے بہت اہمیت کی حامل ہے۔ ڈاکٹر سہیل احمد خاں کہتے ہیں: سلیم احمد کی تنقیدی تحریریں میرے لیے ادب کے ایک عام قاری کی حیثیت سے قابلِ توجہ رہی ہیں۔ وہ ایسے نقاد ہیں جنھیں بار بار پڑھا جا سکتا ہے اور ادبی اور فکری معاملات میں ان کی بصیرت سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ فراقؔ اور عسکری کو ایک طرف رہنے دیں، اردو کے اور کتنے نقادوں کے بارے میں یہ بات آسانی سے کہی جا سکتی ہے؟ ظاہر ہے کہ بنیادی طور پر اُن کا اُسلوب جس میں سلیم احمد کا مکالمہ کرتا ہوا باتونی لہجہ بنیادی شناخت رکھتا ہے، انھیں قابلِ توجہ بناتا ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ میں اُن سوالوں کو جو سلیم احمد اپنی تنقید میں اٹھاتے ہیں، اس دور کے بنیادی فکری سوالات سمجھتا ہوں۔

    ڈاکٹر تحسین فراقی نے یوں کہا ہے: محمد حسن عسکری کے بعد اگر نگاہ کسی اردو نقاد پر ٹھہرتی ہے، جو ہمیں نو بہ نو ادبی، علمی اور تہذیبی سوالوں سے دو چار کرتی ہے اور مدرس نقاد کی پھبتی سے بچ سکتا ہے تو وہ ایک دو مستثنیات کے علاوہ سلیم احمد ہیں۔

    سلیم احمد نے ضلع بارہ بنکی کے ایک نواحی علاقے میں‌ 27 نومبر1927 کو آنکھ کھولی تھی۔ زمانۂ طالب علمی میں قابل اور نام ور ادبی شخصیات کی رفاقت نے ان کو غور و فکر اور لکھنے پر مائل کیا۔ قیام پاکستان کے بعد سلیم احمد ہجرت کرکے کراچی آگئے اور 1950ء میں ریڈیو پاکستان سے منسلک ہوئے۔

    انھیں‌ منفرد لب و لہجے اور مضامینِ تازہ کا شاعر تو کہا جاتا ہے، مگر شعر و سخن کی دنیا میں‌ ان کی تنقیدی بصیرت کو مسترد کرتے ہوئے ان کے خلاف باتیں‌ کی جاتی رہیں۔ اس کی ایک وجہ سلیم احمد کا بے لاگ انداز اور کڑی تنقید تھی جس نے ادبی دنیا میں‌ ان کی مخالفت بڑھائی۔

    وہ ایک بہت اچھے ڈرامہ نگار بھی تھے۔ انھوں نے ریڈیو اور ٹیلی وژن کے لیے متعدد ڈرامے تحریر کیے، اور پاکستان کی پہلی جاسوسی فلم ’’راز کی کہانی‘‘ بھی سلیم احمد ہی نے لکھی تھی جس پر ان کو نگار ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔

    سلیم احمد کے شعری مجموعوں میں بیاض، اکائی، چراغَِ نیم شب اور مشرق جب کہ تنقیدی مضامین کے مجموعوں میں ادبی اقدار، نئی نظم اور پورا آدمی، غالب کون؟ ادھوری جدیدیت، اقبال ایک شاعر، محمد حسن عسکری آدمی یا انسان شامل ہیں۔

    سلیم احمد کا یہ شعر بہت مشہور ہے

    شاید کوئی بندۂ خدا آئے
    صحرا میں اذان دے رہا ہوں

  • سلیم احمد: ادب میں روایت سے انحراف اور اختلافِ رائے کا خوگر

    سلیم احمد: ادب میں روایت سے انحراف اور اختلافِ رائے کا خوگر

    اردو ادب میں سلیم احمد ایک منفرد شخصیت کے مالک ایسے تخلیق کار کے طور پر پہچانے گئے جو نکتہ بیں، لطیف مشاہدہ اور تجزیاتی دماغ رکھتے تھے۔ انھیں ادبی مفکر بھی کہا جاسکتا ہے جو بہ یک وقت شاعر، نقّاد، ڈرامہ نویس اور کالم نگار تھے۔ تنقید ان کا خاص میدان رہا جس میں انھوں نے اپنے لیے ستائش بھی سمیٹی اور ادب کی دنیا میں ان کی فکر اور نظریے سے کئی شخصیات نے اختلاف بھی کیا۔

    سلیم احمد کا یہ تذکرہ ان کے یومِ وفات کی مناسبت سے کیا جارہا ہے۔ وہ یکم ستمبر 1983ء کو انتقال کرگئے تھے۔ سلیم احمد بلاشبہ اپنی تنقید میں معنیٰ و اسلوب کی سطح پر منفرد بھی ہیں اور مؤثر بھی۔ ان کی تنقید میں اچھوتا پن اور گہرائی ہے۔ اسی طرح ان کی شاعری بھی ندرتِ خیال اور موضوعات کی رنگارنگی سے آراستہ ہے۔ سلیم احمد نے اپنی تنقید میں‌ مقبولِ عام نظریات سے انحراف کیا جس پر ان کو اعتراضات اور نکتہ چینی کا سامنا بھی کرنا پڑا۔

    اردو کے اس معروف شاعر اور نقّاد کے بارے میں‌ اُن کے ہم عصروں کی رائے بہت اہمیت کی حامل ہے۔ ڈاکٹر سہیل احمد خاں کہتے ہیں: سلیم احمد کی تنقیدی تحریریں میرے لیے ادب کے ایک عام قاری کی حیثیت سے قابلِ توجہ رہی ہیں۔ وہ ایسے نقاد ہیں جنھیں بار بار پڑھا جا سکتا ہے اور ادبی اور فکری معاملات میں ان کی بصیرت سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ فراقؔ اور عسکری کو ایک طرف رہنے دیں، اردو کے اور کتنے نقادوں کے بارے میں یہ بات آسانی سے کہی جا سکتی ہے؟ ظاہر ہے کہ بنیادی طور پر اُن کا اُسلوب جس میں سلیم احمد کا مکالمہ کرتا ہوا باتونی لہجہ بنیادی شناخت رکھتا ہے، انھیں قابلِ توجہ بناتا ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ میں اُن سوالوں کو جو سلیم احمد اپنی تنقید میں اٹھاتے ہیں، اس دور کے بنیادی فکری سوالات سمجھتا ہوں۔

    ڈاکٹر تحسین فراقی نے یوں کہا ہے: محمد حسن عسکری کے بعد اگر نگاہ کسی اردو نقاد پر ٹھہرتی ہے، جو ہمیں نو بہ نو ادبی، علمی اور تہذیبی سوالوں سے دو چار کرتی ہے اور مدرس نقاد کی پھبتی سے بچ سکتا ہے تو وہ ایک دو مستثنیات کے علاوہ سلیم احمد ہیں۔

    سلیم احمد نے ضلع بارہ بنکی کے ایک نواحی علاقے میں‌ 27 نومبر1927 کو آنکھ کھولی۔ زمانۂ طالب علمی میں قابل اور نام ور ادبی شخصیات کی رفاقت نے ان کو غور و فکر اور لکھنے پر مائل کیا۔ قیام پاکستان کے بعد سلیم احمد ہجرت کرکے کراچی آگئے اور 1950ء میں ریڈیو پاکستان سے منسلک ہوئے۔

    انھیں‌ منفرد لب و لہجے اور مضامینِ تازہ کا شاعر تو کہا جاتا ہے، مگر شعر و سخن کی دنیا میں‌ ان کی تنقیدی بصیرت کو مسترد کرتے ہوئے ان کے خلاف باتیں‌ کی جاتی رہیں۔ اس کی ایک وجہ سلیم احمد کا بے لاگ انداز اور کڑی تنقید تھی جس نے ادبی دنیا میں‌ ان کی مخالفت بڑھائی۔

    سلیم احمد ایک بہت اچھے ڈرامہ نگار بھی تھے۔ انھوں نے ریڈیو اور ٹیلی وژن کے لیے متعدد ڈرامے تحریر کیے، اور پاکستان کی پہلی جاسوسی فلم ’’راز کی کہانی‘‘ بھی سلیم احمد ہی نے لکھی اور اس پر انھیں نگار ایوارڈ سے نوازا گیا۔

    سلیم احمد کے شعری مجموعوں میں بیاض، اکائی، چراغَِ نیم شب اور مشرق جب کہ تنقیدی مضامین کے مجموعوں میں ادبی اقدار، نئی نظم اور پورا آدمی، غالب کون؟ ادھوری جدیدیت، اقبال ایک شاعر، محمد حسن عسکری آدمی یا انسان شامل ہیں۔

    ان کی غزل کے دو شعر دیکھیے۔

    جانے کس نے کیا کہا تیز ہوا کے شور میں
    مجھ سے سنا نہیں گیا تیز ہوا کے شور میں
    میں بھی تجھے نہ سن سکا تُو بھی مجھے نہ سن سکا
    تجھ سے ہُوا مکالمہ تیز ہوا کے شور میں

    سلیم احمد کا یہ شعر بہت مشہور ہے

    شاید کوئی بندۂ خدا آئے
    صحرا میں اذان دے رہا ہوں

  • مشفق خواجہ کا ‘سنجیدہ’ کالم

    مشفق خواجہ کا ‘سنجیدہ’ کالم

    مشفق خواجہ صرف ادبی کالم لکھا کرتے تھے، جن لوگوں نے پڑھے ہیں۔ وہی جانتے ہیں کہ وہ کیسے کالم لکھنے والے تھے۔ شاید ہزار برس تک ایسا کالم نگار پیدا نہ ہو۔

    ایک دن انھی مشفق خواجہ سے میں نے پوچھا ”آپ نے طنز و مزاح میں تو جو کالم لکھے ہیں، سو لکھے ہیں، آپ نے کبھی کوئی سنجیدہ کالم بھی لکھا ہے؟“

    مشفق خواجہ نے جو کچھ میرے سوال کے جواب میں کہا اس نے مجھے حیرت میں ڈال دیا، کیوں کہ ابھی کچھ ہی دیر پہلے وہ کہہ رہے تھے۔ انہیں مجموع کرنے اور بھیڑ جمع کرنے والے لوگ کبھی اچھے نہیں لگتے اور کہہ رہے تھے میں نے جو واحد سنجیدہ کالم لکھا ہے، وہ سلیم احمد کے بارے میں لکھا ہے، جب وہ وفات پا گئے۔ یہ تھے سلیم احمد، منہ چڑھا کر مشفق خواجہ ایسے شخص سے اپنے بارے میں وہ کالم لکھوا لیا، جو پھر کبھی انھوں نے نہیں لکھا۔ خود اپنے بارے میں وہ لکھ ہی نہیں سکتے تھے۔ کالم لکھنا کجا۔ وہ اپنے بارے میں کچھ پڑھنا بھی پسند نہیں کرتے تھے۔ سب عجیب ہی تھے۔ ان دنوں میں سلیم احمد کے کالم پڑھ رہا تھا۔ وہ کالم جو بعنوان ”جھلکیاں“ روزنامہ حریت کراچی میں لکھا کرتے تھے۔ ان میں تین طرح کے کمال ہوا کرتے تھے۔ اوّل کالم کا مستقل عنوان ”جھلکیاں“ ہوا کرتا تھا۔ مگر اس کے ساتھ کوئی اور شہ سرخی یا عنوان نہیں ہوا کرتا تھا۔ جیسا کہ معروف کالم نگاروں کے کالم میں ہوتا ہے۔ بس اوپر ”جھلکیاں“ لکھا ہے۔ اب آپ کی مرضی ہے پڑھ ڈالیں یا نہ پڑھیں۔ دوسرے کالم ہمیشہ ایک کالم میں اوپر سے نیچے تک لکھا کرتے تھے۔ تیسرے کا ذکر کرتے ہوئے دل خون کے آنسو روتا ہے۔ سلیم احمد، حریت میں ایک محدود سرکولیشن کے حامل اخبار میں صرف اس لئے لکھا کرتے تھے کہ انھیں وہاں سے پیسے ملا کرتے تھے۔ اس وقت ’حریت‘ کا دامن اس حوالے سے انتہائی کشادہ ہوا کرتا تھا کہ وہ اپنے ہر لکھنے والے کو معاوضہ دیا کرتا تھا۔ اور سلیم احمد کی مجبوری اور ہائے کیسی مجبوری تھی۔ اللہ اکبر کہ انہیں اپنا گھر چلانے اور بچوں کی تعلیم اور دال دلیے کی خاطر پیسے کی اور معاوضے کی بہرصورت ضرورت ہوا کرتی تھی اور اس بات نے ان کا وجود پارہ پارہ کر ڈالا تھا۔ وہ دنیائے ادب کا ایک بڑا نام تھے۔ اتنا سرو قد نام کہ مشفق خواجہ ایسے بااصول ادیب کو ان کی وفات پر پہلی بار ایک سنجیدہ کالم لکھنا پڑا۔ پھر کتنے ہی وقت کے عظیم شاعر لوگ گزرگئے۔ مگر انھوں نے کالم نہیں لکھا۔

    (از قلم: فیاض اعوان)

  • سلیم احمد:‌ ایک خوب صورت شاعر اور نقّاد

    سلیم احمد:‌ ایک خوب صورت شاعر اور نقّاد

    اردو ادب میں سلیم احمد کی ایک منفرد شخصیت کے مالک، بڑے نکتہ بیں گزرے ہیں جو اپنی قوت مشاہدہ اور تجزیاتی فکر کی بدولت ادب میں نمایاں ہوئے۔ سلیم احمد بہ یک وقت شاعر، نقّاد، ڈرامہ اور کالم نگار بھی تھے اور انھیں ادبی مفکر بھی کہا جاتا ہے۔

    سلیم احمد کا یہ تذکرہ ان کے یومِ وفات کی مناسبت سے کیا جارہا ہے۔ یکم ستمبر 1983ء کو چمنستانِ‌ ادب کا یہ پھول بادِ صرصر کی نذر ہوگیا تھا۔ سلیم احمد بلاشبہ اپنی تنقید میں معنیٰ و اسلوب کی سطح پر منفرد بھی ہیں اور مؤثر بھی۔ ان کی تنقید میں اچھوتا پن اور گہرائی ہے۔ اسی طرح ان کی شاعری بھی ندرتِ خیال اور موضوعات کی رنگارنگی سے آراستہ ہے۔ سلیم احمد نے اپنی تنقید میں‌ مقبولِ عام نظریات سے انحراف کیا جس پر ان کو اعتراضات اور نکتہ چینی کا سامنا بھی کرنا پڑا۔

    اردو کے اس معروف شاعر اور نقّاد کے بارے میں‌ اُن کے ہم عصروں کی رائے بہت اہمیت کی حامل ہے۔ ڈاکٹر سہیل احمد خاں کہتے ہیں:

    سلیم احمد کی تنقیدی تحریریں میرے لیے ادب کے ایک عام قاری کی حیثیت سے قابلِ توجہ رہی ہیں۔ وہ ایسے نقاد ہیں جنھیں بار بار پڑھا جا سکتا ہے اور ادبی اور فکری معاملات میں ان کی بصیرت سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ فراقؔ اور عسکری کو ایک طرف رہنے دیں، اردو کے اور کتنے نقادوں کے بارے میں یہ بات آسانی سے کہی جا سکتی ہے؟ ظاہر ہے کہ بنیادی طور پر اُن کا اُسلوب جس میں سلیم احمد کا مکالمہ کرتا ہوا باتونی لہجہ بنیادی شناخت رکھتا ہے، انھیں قابلِ توجہ بناتا ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ میں اُن سوالوں کو جو سلیم احمد اپنی تنقید میں اٹھاتے ہیں، اس دور کے بنیادی فکری سوالات سمجھتا ہوں۔

    ڈاکٹر تحسین فراقی نے یوں کہا ہے: محمد حسن عسکری کے بعد اگر نگاہ کسی اردو نقاد پر ٹھہرتی ہے، جو ہمیں نو بہ نو ادبی، علمی اور تہذیبی سوالوں سے دو چار کرتی ہے اور مدرس نقاد کی پھبتی سے بچ سکتا ہے تو وہ ایک دو مستثنیات کے علاوہ سلیم احمد ہیں۔

    سلیم احمد نے ضلع بارہ بنکی کے ایک نواحی علاقے میں‌ 27 نومبر1927 کو آنکھ کھولی۔ زمانۂ طالب علمی میں قابل اور نام ور ادبی شخصیات کی رفاقت نے ان کو غور و فکر اور لکھنے پر مائل کیا۔ قیام پاکستان کے بعد سلیم احمد ہجرت کرکے کراچی آگئے اور 1950ء میں ریڈیو پاکستان سے منسلک ہوئے۔

    انھیں‌ منفرد لب و لہجے اور مضامینِ تازہ کا شاعر تو کہا جاتا ہے، مگر شعر و سخن کی دنیا میں‌ ان پر اعتراضات کیے گئے اور ان کی تنقیدی بصیرت کو مسترد کرتے ہوئے ان کے خلاف باتیں‌ کی جاتی رہیں۔ اس کی ایک وجہ سلیم احمد کا بے لاگ انداز اور کڑی تنقید تھی جس نے ادبی دنیا میں‌ ان کی مخالفت بڑھائی۔

    سلیم احمد ایک بہت اچھے ڈرامہ نگار بھی تھے۔ انھوں نے ریڈیو اور ٹیلی وژن کے لیے متعدد ڈرامے تحریر کیے، اور پاکستان کی پہلی جاسوسی فلم ’’راز کی کہانی‘‘ بھی سلیم احمد ہی نے لکھی اور اس پر انھیں نگار ایوارڈ سے نوازا گیا۔

    سلیم احمد کے شعری مجموعوں میں بیاض، اکائی، چراغَِ نیم شب اور مشرق جب کہ تنقیدی مضامین کے مجموعوں میں ادبی اقدار، نئی نظم اور پورا آدمی، غالب کون؟ ادھوری جدیدیت، اقبال ایک شاعر، محمد حسن عسکری آدمی یا انسان شامل ہیں۔

    سلیم احمد کی غزل کے دو شعر دیکھیے۔

    جانے کس نے کیا کہا تیز ہوا کے شور میں
    مجھ سے سنا نہیں گیا تیز ہوا کے شور میں
    میں بھی تجھے نہ سن سکا تُو بھی مجھے نہ سن سکا
    تجھ سے ہُوا مکالمہ تیز ہوا کے شور میں

    ان کا ایک مشہور شعر ہے

    شاید کوئی بندۂ خدا آئے
    صحرا میں اذان دے رہا ہوں

  • جہانگیر کوارٹرز کا Oracle

    جہانگیر کوارٹرز کا Oracle

    وہ سلیم احمد کا زمانہ تھا۔ کراچی میں ادب اور شعر لکھنے والوں کے لیے سب رستے جہانگیر کوارٹرز کو جاتے تھے۔

    ہم نے اپنی زندگی کی دوسری یا تیسری نظم لکھی تھی اور دوستوں کو سنائی تھی۔ دوستوں نے دانش مندی سے سَر ہلائے تھے اور کہا تھا کہ اسد محمد خاں اب وقت آگیا ہے، تمہیں جہانگیر کوارٹرز لے جا کر سلیم احمد سے ملوا دیا جائے۔

    سید سلیم احمد ان سب کے لیے Oracle کی حیثیت رکھتے تھے۔ انہیں دوست اور بھائی تو اس لیے کہا جاتا تھا کہ اُس وقت تک اُن کے لیے کوئی مناسب لفظ کُوائین نہیں کیا جا سکا تھا۔ اس لیے سلیم احمد کی اتھاہ محبت سے اشارہ پا کر سب انہیں سلیم بھائی کہنے لگے۔ پھر آپا مرحومہ نے اپنی شفقتوں کا سایہ پھیلا کر اس رشتے کو وہ تصدیق عطا کردی جسے بخشنے پر صرف مائیں قادر ہوتی ہیں۔

    مگر وہ بھائی اور دوست سے آگے کے کسی منصب پر فائز تھے۔ ڈیلفی کے سروشِ غیبی کی طرح وہ جہانگیر کوارٹرز کے Oracle تھے۔

    اب خیال ہوتا ہے کہ اگر کسی نے آریکل کے قریب ترین کوئی لفظ استعمال کیا تھا تو سعید الکریم نگار صہبائی نے استعمال کیا تھا۔ وہ سلیم احمد کو ’استاد‘ کہتے تھے۔ ہر چند کہ یہ غریب لفظ تھا اور از کارِ رفتہ تھا اور سب سے بڑی بات یہ کہ نامکمل تھا۔ سلیم احمد کے سوا کسی نے اس لفظ کو منہ بھی نہیں لگایا تھا۔ مگر اب خیال ہوتا ہے کہ عامیانہ اور از کارِ رفتہ اور غریب اور نامکمل سہی مگر ایک یہی لفظ تھا جو سلیم احمد کی زندگی میں اُن کے لیے تقریباً درست استعمال کیا گیا۔

    سلیم احمد اپنے ہم عصروں اور چھوٹوں اور بعض حالتوں میں اپنے بڑوں کے بھی گرو اور ہادی تھے۔ اور وہ دارُالاستخارہ تھے جہاں سے روشنی اور مشورے اور پیش گوئیاں طلب کی جاتی تھیں۔ کچھ بھی کہنے اور لکھنے کے بعد انہیں سنا کر یا پڑھوا کر اُن کے چہرے کی طرف دیکھا جاتا تھا۔

    سلیم احمد نے ایک عجب چکر چلا رکھا تھا۔ انہوں نے بہت سے ذہین و فطین اور خطرناک آدمیوں کو Talent Hunting کے لیے شہر میں چھوڑ رکھا تھا۔ یہ اُن کے Talent Scouts تھے جو باہر کے اندھیرے پر کڑی نظر رکھتے تھے اور جیسے ہی کوئی جگنو اپنی دُم چمکاتا ہوا نظر آتا تھا یہ پکڑ کر اُسے اپنی ٹوپی میں چھپا لیتے تھے اور گرو کے حوالے کر دیتے تھے۔

    جی ہاں، ہم نے زندگی کی دوسری یا تیسری نظم لکھی تھی اور اطہر نفیس اور ساقی فاروقی کو سنائی تھی۔ انہوں نے دانش مندی میں سر ہلائے تھے اور کہا تھا اب وقت آگیا ہے کہ تمہیں سلیم احمد سے ملوا دیا جائے۔ چنانچہ شام کے وقت یہ دونوں ہمیں جہانگیر کوارٹرز لے گئے اور سلیم احمد کو ہمارا نام بتا دیا۔ انہوں نے ہمارے شانے پر ہاتھ رکھا۔ بڑے پیار اور نرمی اور بے زاری سے اپنی آنکھیں نیم وا کر کے ہمارے ’جوہرِ قابل‘ پر نظر ڈالی۔ ہماری تینوں نظمیں سن لیں اور داد دی۔ پھر انہوں نے اطہر یا ساقی کو گمبھیرتا سے گھورتے ہوئے کوئی سگنل دیا۔ اطہر یا ساقی نے، اب یاد نہیں کہ دونوں میں سے کس نے سگنل ریسیو کیا اور جواب میں کوئی سگنل دیا، پھر یہ دونوں سلیم احمد کے دائیں بائیں جا بیٹھے اور زور و شور سے کسی ایسے کی غیبت شروع کر دی جسے ہم اُس وقت نہیں جانتے تھے۔

    ہم رات کے گیارہ بجے تک سلیم بھائی کے گھر بیٹھے رہے۔ مگر اُس دن ہماری تینوں ’لازوال‘ نظموں پر یا کائنات میں ہماری موجودگی سے جو خوب صورت اضافہ ہوا ہے اُس پر جہانگیر روڈ کے اُس مکان میں اور کوئی بات نہ ہوئی۔

    ہمارا پہلا تاثر مایوسی کا تھا جس کا اظہار ہم نے دوسرے دن اطہر اور ساقی سے کر دیا۔
    ہمیں اعتراض تھا کہ سلیم احمد ہماری تینوں نظمیں سن کر یوریکا یوریکا کہتے ہوئے گھر سے باہر کیوں نہ نکل پڑے۔ وہ نسبتاً خاموش کیوں رہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ ہماری اس شاعرانہ حیثیت کو (جس کا قیام پچھلے ڈھائی تین مہینوں کے دوران عمل میں آچکا ہے) تسلیم نہیں کرتے۔ ہم جاننا چاہتے تھے کہ سلیم احمد ہماری اُن بے مثال نظموں کو اردو شاعری میں کیا مقام دیتے ہیں اور اگر کوئی مقام نہیں دیتے تو اطہر اور ساقی سے ہمارا سوال تھا کہ تم لوگ آخر ہمیں ایسی جگہ لے کیوں گئے؟

    اطہر نفیس کو پانی پیتے ہوئے اُچُھّو ہوگیا۔ ساقی فاروقی ہنستے ہنستے کرسی سے گر گیا پھر اُس نے دری پر لوٹیں لگانی شروع کر دیں۔ آخر وہ اٹھا، بہ مشکل کرسی پر بیٹھا اور جیسا کہ اس خبیث کی عادت ہے مالوے بندیل کھنڈ کے ایک شہر میں پیدا ہونے والے پٹھانوں کے بارے میں غیر پارلیمانی بلکہ Un printable الفاظ استعمال کرتے ہوئے ان کی اجتماعی عقل و فہم سے متعلق شکوک و شبہات کا اظہار کرنے لگا۔

    اس بات کو سال ہا سال گزر چکے ہیں۔ بندیل کھنڈ مالوے کے اس شہر میں پیدا ہونے والے اس کم تاب کو جہانگیر کوارٹرز کے سیّد نے کس کس طرح نوازا اور نہال کیا یہ بہت کمال کی کہانی ہے….توفیق ہوئی تو لکھیں گے۔

    خاص طور پر مخاطب کیے بنا سیّد نے اس خاکسار کو سمجھایا کہ اپنے قامت سے ناانصافی کیے بغیر، بے برادر! انکسار اور فروتنی اختیار کر اور فلاں ابنِ فلاں کی طرح لاف زنی کو وتیرہ نہ بنا اور پڑھ اور پڑھ اور پڑھ اور اے عزیز! دونوں ہاتھوں سے لکھ اس لیے کہ تو غریب گھر میں پیدا ہوا ہے اور زمین سے اکھڑا ہوا شجر ہے، سو اپنے سیدھے ہاتھ سے وہ لکھ جو تیری muse اور تیرا مقدر تجھ سے لکھائے اور اپنے الٹے ہاتھ سے وہ لکھ جو سیٹھ تجھ سے لکھائے۔ تاہم اِن دونوں لکھتوں میں confusion پیدا نہ ہونے دے۔ سیٹھ کے لیے دیانت داری سے اور پوری تجارتی معاملہ داری سے لکھ اور کچھ ایسا کر کہ تیرا گاہک بار بار تیرے ہی پاس آوے اور جب تو اپنے لیے لکھ رہا ہو تو اے برادر اپنے ادبی ضمیر کے سوا کسی کو رہ نما نہ بنا۔ علاقے کا ایس ایچ او خفا ہوتا ہے خفا ہونے دے۔ بال بچے ناراض ہوتے ہیں، پروا مت کر۔

    کس لیے کہ لکھنے والے کا ایک الگ یومِ حساب ہوتا ہے، جہاں عجب نفسا نفسی کا عالم ہے اور کوئی سفارش کام نہیں آتی۔ بس تیرے اعمال کام آتے ہیں۔ یعنی وہ بے ریا عبادت جو تو سادہ صفحہ پر سَر جھکائے کر رہا ہوتا ہے۔ اور اے پسرِ عشق بیاموز اور اے بھائی وقت کو غنیمت جان اسے ضائع نہ ہونے دے اور اے عزیز خدا کرے کہ کتاب سے تیری محبت کبھی کم نہ ہو مگر ایک بات یاد رکھیو کہ فلاں ابنِ فلاں کو کتاب دینے میں احتیاط کر۔ کس لیے کہ وہ ایک بار لے جاتا ہے تو لوٹاتا نہیں۔ پس اے میرے بھائی! میں نے نہیں کیا تو حذر بکنید۔

    یہ ساری باتیں سید سلیم احمد نے مختلف تقریروں میں نہیں کیں۔ کبھی چھٹے سہ ماہے ایک آدھ فقرے میں چلتے چلتے کچھ کہہ دیا تو کہہ دیا ورنہ وہ تو اپنے گھر کے باہر کے کمرے میں ایک زندگی گزاررہے تھے۔ شفاف شیشے کی طرح جس کے آر پار دیکھا جاسکتا تھا۔ اور وہ لفظ برت رہے تھے جو ہر قسم کے ذہنی تحفظات سے پا ک ہوتے تھے اور ان کے شب و روز منافقت اور خوف اور حزن سے آزاد تھے۔ ہر آدمی کی طرح گھر چلانے کے لیے انہیں بھی پیسوں کی ضرورت ہوتی تھی تو وہ کسبِ معاش کررہے تھے اور اپنی محنت میں پھل پھول رہے تھے اور معاش کے اس کوچے میں چل اس طرح رہے تھے جیسے للی پٹ جزیرے میں گُلیور اپنے پورے قامت سے چل پھر رہا ہو۔ احتیاط سے پھونک پھونک کر قدم دھرتے ہوئے کہ کہیں کوئی پیروں تلے آکرروندا نہ جائے۔

    سلیم احمد کے بارے میں افواہیں اُڑانے کا موقع کبھی کسی کو نہ مل سکا۔ کیوں کہ جو آدمی ٹرانسپیرنٹ مٹیریل سے بنا ہو اور چوپال میں زندگی گزاررہا ہوں اور اپنے لفظوں کو کسی مکر چاندنی میں اور کونوں کھدروں میں ٹانگنے کی بجائے انہیں تیز دھوپ میں پھیلا پھیلا کر بات کرتا ہو اس کا کوئی کیا بگاڑ سکتا ہے۔ بہت سے تنازعات البتہ سلیم احمد سے منسوب ہوئے۔ تو یہ بات سلیم احمد خود بھی چاہتے تھے کیوں کہ منمناتی ہوئی بَھلمَنسی اور جماہیاں لیتی دفع الوقتی میں نہ کبھی کوئی مسئلہ پیدا ہوتا ہے نہ حل ہوتا ہے۔ سلیم احمد ادب میں مسائل اٹھانے، انہیں حل کرنے یا کم سے کم ان کی Anatonmy سمجھنے کے قائل تھے انہیں متنازع تو بننا ہی تھا۔

    مگر ایک بات اب متنازع نہیں ہے۔ وہ یہ کہ سلیم احمد برگد کا چھتنار تھے۔ کتنی ہی یادوں کے محیط میں تادیر وہ اپنی چھاﺅں پھیلاتے رہیں گے۔ رہے نام سائیں کا۔

    (از: اسد محمد خان)

  • انسانوں کے درمیان انفرادیت اور شخصیت کی دیوار!

    انسانوں کے درمیان انفرادیت اور شخصیت کی دیوار!

    اپنے خیالات و جذبات، اپنے دکھ سکھ، اپنے غم و مسرت کو اتنی اہمیت دینا کہ آدمی انہی کا ہو کر رہ جائے، ایک قسم کی ذہنی بیماری ہے۔

    غموں کو اتنی زیادہ اہمیت دینے سے آدمی میں دنیا بے زاری، کلبیّت، جھلاہٹ اور مایوسی پیدا ہوتی ہے اور خوشیوں کو اتنا اہم سمجھنے سے خود غرضی، خود پرستی اور خود بینی جنم لیتی ہے۔ بس اتنا ہی تو ہے کہ ہمارے غم ہمیں تباہ کر دیتے ہیں، ہماری شخصیت کو مٹا دیتے ہیں اور ہماری خوشیاں ہمیں جِلا دیتی ہیں، بنا سنوار دیتی ہیں، لیکن ہمارا بننا سنورنا، ہمارا مٹنا مٹانا دوسروں کی زندگی پر کیا اثر ڈالتا ہے؟

    ہم رو رہے ہیں تو دوسرے ہمارے ساتھ کیوں روئیں؟ ہم ہنس رہے ہیں تو دوسرے ہمارے ساتھ کیوں ہنسیں؟ ہمارے پاؤں میں کانٹا گڑا ہے تو دوسروں کو تکلیف کیوں پہنچے؟ ہمیں پھولوں کی سیج میسر ہے تو دوسروں کو راحت کیوں ہو؟

    انسان، انسان کے درمیان انفرادیت اور شخصیت کی دیوار کھنچی ہوئی ہے۔ ادب اس دیوار کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کا کام نہیں کرتا، ادب شخصی اور ذاتی غموں اور مسرتوں کی ڈائری نہیں ہوتا۔ اس کا کام تو انسان کو انسان کے قریب لانا ہے۔

    انسان انسان کے درمیان کھنچی ہوئی شخصیت کی دیوار کو توڑ کر انہیں ایک دوسرے کے دکھ سکھ کا ساتھی بنانا ہے۔ وہ اپنے دکھ سکھ کو دوسروں کی نظر سے دیکھنے اور دوسروں کے دلوں میں جھانک کر ان کے دکھ سکھ کو سمجھنے کی ایک مقدس اور مبارک کوشش ہے۔

    ادب کی سب سے بڑی قدر اس کی انسانیت، اس کی مخلوق دوستی، اس کی انسانوں کو ایک دوسرے سے قریب لانے کی خواہش ہے۔ ہر بڑا شاعر اور ادیب اپنی آواز کو، اپنے دل کی دھڑکنوں کو، عام انسانوں کی آواز، عام انسانوں کے دلوں کی دھڑکنوں سے ملانے، عام انسانوں کے دکھ سکھ، امیدوں اور آرزوؤں کی ترجمانی کرنے، عالمِ خارجی کے گوناگوں پہلوؤں اور حیات و کائنات کے رنگا رنگ مظہروں سے دل چسپی رکھنے اور اپنی شخصیت اور عالمِ خارجی کے درمیان توازن قائم رکھنے کی وجہ سے بڑا ہے۔

    زندگی کے انفرادی شعور سے ایک فرد کے ذاتی غموں اور خوشیوں، آرزوؤں اور حسرتوں، امیدوں اور مایوسیوں، ناکامیوں اور کامرانیوں غرض ایک فرد کی زندگی میں پیش آنے والے واقعات اور حادثوں کی ڈائری تو لکھی جا سکتی ہے، لیکن زندگی کی تنقید، زندگی کے مستقبل کے امکانات کا اندازہ، زندگی کے ماضی و حال کے صالح عناصر کی پرکھ، ایک بہتر انسان اور بہتر معاشرے کا تصور انفرادی شعور کے بس کی بات نہیں۔

    یہ بصیرت تو صرف انسانی ذہن کے اجتماعی طرزِ فکر اور انسانی زندگی کے اجتماعی ذہنی و عملی رجحانات کے علم ہی سے حاصل ہو سکتی ہے اور کسی طرح نہیں۔

    (اردو زبان میں تنقید، نظم اور نثر میں اپنی تخلیقات اور روایتی ڈگر سے ہٹ کر فکر کا اظہار کرنے والے سلیم احمد کے ایک مضمون سے انتخاب)