Tag: سلیم احمد کی برسی

  • سلیم احمد: شاعر اور نقّاد جس نے مقبولِ‌ عام  نظریات سے انحراف کیا

    سلیم احمد: شاعر اور نقّاد جس نے مقبولِ‌ عام نظریات سے انحراف کیا

    سلیم احمد کو اگر ادبی مفکر کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ انھوں نے اپنی نکتہ بینی، تجزیاتی بصیرت اور قوّتِ مشاہدہ سے کام لے کر جن موضوعات پر خیال آرائی کی، وہ انھیں اس کا اہل ثابت کرتے ہیں۔ سلیم احمد نے شاعر، نقّاد، ڈرامہ نویس اور کالم نگار کے طور پر ادبی دنیا میں نام و مقام پایا اور بالخصوص تنقید کے میدان میں ان کا کام ان کی پہچان بنا۔ مگر ساتھ ہی ان کا ادب کی دنیا میں کئی شخصیات سے زبردست اختلاف بھی رہا اور یہ سب ادبی تاریخ کا‌ حصّہ ہے۔

    سلیم احمد یکم ستمبر 1983ء کو وفات پاگئے تھے۔ وہ بلاشبہ اپنی تنقید میں معنیٰ و اسلوب کی سطح پر منفرد بھی ہیں اور مؤثر بھی۔ ان کی تنقید میں اچھوتا پن اور گہرائی ہے۔ اسی طرح ان کی شاعری بھی ندرتِ خیال اور موضوعات کی رنگارنگی سے آراستہ ہے۔ سلیم احمد نے اپنے دور میں تنقید لکھتے ہوئے مقبولِ عام نظریات سے انحراف کیا اور اس پر انھیں اعتراضات اور نکتہ چینی کا سامنا کرنا پڑا۔

    اردو کے اس معروف شاعر اور نقّاد کے بارے میں‌ اُن کے ہم عصروں کی رائے بہت اہمیت کی حامل ہے۔ ڈاکٹر سہیل احمد خاں کہتے ہیں: سلیم احمد کی تنقیدی تحریریں میرے لیے ادب کے ایک عام قاری کی حیثیت سے قابلِ توجہ رہی ہیں۔ وہ ایسے نقاد ہیں جنھیں بار بار پڑھا جا سکتا ہے اور ادبی اور فکری معاملات میں ان کی بصیرت سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ فراقؔ اور عسکری کو ایک طرف رہنے دیں، اردو کے اور کتنے نقادوں کے بارے میں یہ بات آسانی سے کہی جا سکتی ہے؟ ظاہر ہے کہ بنیادی طور پر اُن کا اُسلوب جس میں سلیم احمد کا مکالمہ کرتا ہوا باتونی لہجہ بنیادی شناخت رکھتا ہے، انھیں قابلِ توجہ بناتا ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ میں اُن سوالوں کو جو سلیم احمد اپنی تنقید میں اٹھاتے ہیں، اس دور کے بنیادی فکری سوالات سمجھتا ہوں۔

    ڈاکٹر تحسین فراقی نے یوں کہا ہے: محمد حسن عسکری کے بعد اگر نگاہ کسی اردو نقاد پر ٹھہرتی ہے، جو ہمیں نو بہ نو ادبی، علمی اور تہذیبی سوالوں سے دو چار کرتی ہے اور مدرس نقاد کی پھبتی سے بچ سکتا ہے تو وہ ایک دو مستثنیات کے علاوہ سلیم احمد ہیں۔

    سلیم احمد نے ضلع بارہ بنکی کے ایک نواحی علاقے میں‌ 27 نومبر1927 کو آنکھ کھولی تھی۔ زمانۂ طالب علمی میں قابل اور نام ور ادبی شخصیات کی رفاقت نے ان کو غور و فکر اور لکھنے پر مائل کیا۔ قیام پاکستان کے بعد سلیم احمد ہجرت کرکے کراچی آگئے اور 1950ء میں ریڈیو پاکستان سے منسلک ہوئے۔

    انھیں‌ منفرد لب و لہجے اور مضامینِ تازہ کا شاعر تو کہا جاتا ہے، مگر شعر و سخن کی دنیا میں‌ ان کی تنقیدی بصیرت کو مسترد کرتے ہوئے ان کے خلاف باتیں‌ کی جاتی رہیں۔ اس کی ایک وجہ سلیم احمد کا بے لاگ انداز اور کڑی تنقید تھی جس نے ادبی دنیا میں‌ ان کی مخالفت بڑھائی۔

    وہ ایک بہت اچھے ڈرامہ نگار بھی تھے۔ انھوں نے ریڈیو اور ٹیلی وژن کے لیے متعدد ڈرامے تحریر کیے، اور پاکستان کی پہلی جاسوسی فلم ’’راز کی کہانی‘‘ بھی سلیم احمد ہی نے لکھی تھی جس پر ان کو نگار ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔

    سلیم احمد کے شعری مجموعوں میں بیاض، اکائی، چراغَِ نیم شب اور مشرق جب کہ تنقیدی مضامین کے مجموعوں میں ادبی اقدار، نئی نظم اور پورا آدمی، غالب کون؟ ادھوری جدیدیت، اقبال ایک شاعر، محمد حسن عسکری آدمی یا انسان شامل ہیں۔

    سلیم احمد کا یہ شعر بہت مشہور ہے

    شاید کوئی بندۂ خدا آئے
    صحرا میں اذان دے رہا ہوں

  • سلیم احمد:‌ ایک خوب صورت شاعر اور نقّاد

    سلیم احمد:‌ ایک خوب صورت شاعر اور نقّاد

    اردو ادب میں سلیم احمد کی ایک منفرد شخصیت کے مالک، بڑے نکتہ بیں گزرے ہیں جو اپنی قوت مشاہدہ اور تجزیاتی فکر کی بدولت ادب میں نمایاں ہوئے۔ سلیم احمد بہ یک وقت شاعر، نقّاد، ڈرامہ اور کالم نگار بھی تھے اور انھیں ادبی مفکر بھی کہا جاتا ہے۔

    سلیم احمد کا یہ تذکرہ ان کے یومِ وفات کی مناسبت سے کیا جارہا ہے۔ یکم ستمبر 1983ء کو چمنستانِ‌ ادب کا یہ پھول بادِ صرصر کی نذر ہوگیا تھا۔ سلیم احمد بلاشبہ اپنی تنقید میں معنیٰ و اسلوب کی سطح پر منفرد بھی ہیں اور مؤثر بھی۔ ان کی تنقید میں اچھوتا پن اور گہرائی ہے۔ اسی طرح ان کی شاعری بھی ندرتِ خیال اور موضوعات کی رنگارنگی سے آراستہ ہے۔ سلیم احمد نے اپنی تنقید میں‌ مقبولِ عام نظریات سے انحراف کیا جس پر ان کو اعتراضات اور نکتہ چینی کا سامنا بھی کرنا پڑا۔

    اردو کے اس معروف شاعر اور نقّاد کے بارے میں‌ اُن کے ہم عصروں کی رائے بہت اہمیت کی حامل ہے۔ ڈاکٹر سہیل احمد خاں کہتے ہیں:

    سلیم احمد کی تنقیدی تحریریں میرے لیے ادب کے ایک عام قاری کی حیثیت سے قابلِ توجہ رہی ہیں۔ وہ ایسے نقاد ہیں جنھیں بار بار پڑھا جا سکتا ہے اور ادبی اور فکری معاملات میں ان کی بصیرت سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ فراقؔ اور عسکری کو ایک طرف رہنے دیں، اردو کے اور کتنے نقادوں کے بارے میں یہ بات آسانی سے کہی جا سکتی ہے؟ ظاہر ہے کہ بنیادی طور پر اُن کا اُسلوب جس میں سلیم احمد کا مکالمہ کرتا ہوا باتونی لہجہ بنیادی شناخت رکھتا ہے، انھیں قابلِ توجہ بناتا ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ میں اُن سوالوں کو جو سلیم احمد اپنی تنقید میں اٹھاتے ہیں، اس دور کے بنیادی فکری سوالات سمجھتا ہوں۔

    ڈاکٹر تحسین فراقی نے یوں کہا ہے: محمد حسن عسکری کے بعد اگر نگاہ کسی اردو نقاد پر ٹھہرتی ہے، جو ہمیں نو بہ نو ادبی، علمی اور تہذیبی سوالوں سے دو چار کرتی ہے اور مدرس نقاد کی پھبتی سے بچ سکتا ہے تو وہ ایک دو مستثنیات کے علاوہ سلیم احمد ہیں۔

    سلیم احمد نے ضلع بارہ بنکی کے ایک نواحی علاقے میں‌ 27 نومبر1927 کو آنکھ کھولی۔ زمانۂ طالب علمی میں قابل اور نام ور ادبی شخصیات کی رفاقت نے ان کو غور و فکر اور لکھنے پر مائل کیا۔ قیام پاکستان کے بعد سلیم احمد ہجرت کرکے کراچی آگئے اور 1950ء میں ریڈیو پاکستان سے منسلک ہوئے۔

    انھیں‌ منفرد لب و لہجے اور مضامینِ تازہ کا شاعر تو کہا جاتا ہے، مگر شعر و سخن کی دنیا میں‌ ان پر اعتراضات کیے گئے اور ان کی تنقیدی بصیرت کو مسترد کرتے ہوئے ان کے خلاف باتیں‌ کی جاتی رہیں۔ اس کی ایک وجہ سلیم احمد کا بے لاگ انداز اور کڑی تنقید تھی جس نے ادبی دنیا میں‌ ان کی مخالفت بڑھائی۔

    سلیم احمد ایک بہت اچھے ڈرامہ نگار بھی تھے۔ انھوں نے ریڈیو اور ٹیلی وژن کے لیے متعدد ڈرامے تحریر کیے، اور پاکستان کی پہلی جاسوسی فلم ’’راز کی کہانی‘‘ بھی سلیم احمد ہی نے لکھی اور اس پر انھیں نگار ایوارڈ سے نوازا گیا۔

    سلیم احمد کے شعری مجموعوں میں بیاض، اکائی، چراغَِ نیم شب اور مشرق جب کہ تنقیدی مضامین کے مجموعوں میں ادبی اقدار، نئی نظم اور پورا آدمی، غالب کون؟ ادھوری جدیدیت، اقبال ایک شاعر، محمد حسن عسکری آدمی یا انسان شامل ہیں۔

    سلیم احمد کی غزل کے دو شعر دیکھیے۔

    جانے کس نے کیا کہا تیز ہوا کے شور میں
    مجھ سے سنا نہیں گیا تیز ہوا کے شور میں
    میں بھی تجھے نہ سن سکا تُو بھی مجھے نہ سن سکا
    تجھ سے ہُوا مکالمہ تیز ہوا کے شور میں

    ان کا ایک مشہور شعر ہے

    شاید کوئی بندۂ خدا آئے
    صحرا میں اذان دے رہا ہوں

  • یومِ وفات: پاکستان کی پہلی جاسوسی فلم کی کہانی سلیم احمد نے لکھی تھی

    یومِ وفات: پاکستان کی پہلی جاسوسی فلم کی کہانی سلیم احمد نے لکھی تھی

    ممتاز نقّاد، شاعر، ڈراما نگار، کالم نویس سلیم احمد نے جہاں اپنی فکر و تخلیق اور تنقیدی بصیرت سے کام لے کر اردو ادب میں مختلف کتابیں یادگار چھوڑی ہیں، وہیں ان کی شخصیت کا کھرا پن، بے لاگ تبصرے اور تنقیدی مضامین تنازع و مباحث کا سبب بھی بنے۔

    سلیم احمد یکم ستمبر 1983ء کو کراچی میں‌ وفات پاگئے تھے۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ انھوں نے ضلع بارہ بنکی کے ایک نواحی علاقے میں‌ 27 نومبر1927 کو آنکھ کھولی۔ تعلیم حاصل کرنے کے دوران علم و ادب کی کئی نام ور ہستیوں کی رفاقت نصیب ہوئی، جن سے ان کی فکر و تخیل کو توانائی ملتی رہی، قیام پاکستان کے بعد ہجرت کی اور یہاں آکر 1950ء میں ریڈیو پاکستان سے منسلک ہوگئے۔

    انھیں‌ منفرد لب و لہجے اور مضامینِ تازہ کا شاعر تو کہا جاتا ہے، مگر شعروسخن کی دنیا میں‌ وہ ہمیشہ اعتراضات اور تنقید کی زد پر رہے۔ ان کی شاعری پر کڑے اعتراضات کیے گئے۔

    سلیم احمد ایک بہت اچھے ڈرامہ نگار بھی تھے۔ انھوں نے ریڈیو اور ٹیلی وژن کے لیے متعدد ڈرامے تحریر کیے، اور پاکستان کی پہلی جاسوسی فلم ’’راز کی کہانی‘‘ بھی لکھی جس پر انھیں نگار ایوارڈ بھی دیا گیا۔

    سلیم احمد کے شعری مجموعوں میں بیاض، اکائی، چراغَِ نیم شب اور مشرق اور تنقیدی مضامین کے مجموعوں میں ادبی اقدار، نئی نظم اور پورا آدمی، غالب کون؟ ادھوری جدیدیت، اقبال ایک شاعر، محمد حسن عسکری آدمی یا انسان شامل ہیں۔

    سلیم احمد کی غزل کے دو شعر دیکھیے۔

    جانے کس نے کیا کہا تیز ہوا کے شور میں
    مجھ سے سنا نہیں گیا تیز ہوا کے شور میں
    میں بھی تجھے نہ سن سکا تُو بھی مجھے نہ سن سکا
    تجھ سے ہوا مکالمہ تیز ہوا کے شور میں

    ان کا یہ شعر بہت مشہور ہوا اور اسے ہر خاص و عام نے موضوع کے اعتبار سے اپنی تحریر اور تقریر میں استعمال کیا ہے۔

    شاید کوئی بندۂ خدا آئے
    صحرا میں اذان دے رہا ہوں