Tag: سماجی مسائل

  • کم عمری کی شادی پر پابندی کا بل: قومی اسمبلی میں اکثریت نے حمایت کردی، بل قائمہ کمیٹی کو بھیج دیا گیا

    کم عمری کی شادی پر پابندی کا بل: قومی اسمبلی میں اکثریت نے حمایت کردی، بل قائمہ کمیٹی کو بھیج دیا گیا

    اسلام آباد: قومی اسمبلی نے کم عمری کی شادی پر پابندی کے ترمیمی بل کی حمایت کر دی، اکثریت کی حمایت کی بنیاد پر پابندیٔ ازدواج اطفال کا ترمیمی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کو بھیج دیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق قومی اسمبلی میں اکثریت نے اقلیتی رکن رمیش کمار کے پیش کردہ پابندیٔ ازدواج اطفال کے ترمیمی بل کی حمایت کر دی، یہ بل گزشتہ روز سینیٹ میں شیری رحمان نے پیش کیا تھا جہاں سے منظور ہونے کے بعد قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا۔

    پی ٹی آئی کے وفاقی وزرا بل کی حمایت اور مخالفت میں ایک دوسرے کے آمنے سامنے آ گئے، وزیر مذہبی امور نورالحق قادری، وزیر پارلیمانی امور علی محمد خان اور وفاقی وزیر داخلہ اعجاز شاہ نے بل کی مخالفت کی جب کہ شیریں مزاری نے حمایت کی۔

    قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر نے حمایت اور مخالفت کا ملا جلا رجحان دیکھ کر بل پر ووٹنگ کرا دی جس پر بل کے حق میں 72 اور مخالفت میں 50 ارکان نے ووٹ دیے۔

    وزیر مذہبی امور نے کہا کہ موجودہ شکل میں بل قبول نہیں، بل کو اسلامی نظریاتی کونسل کو بھیجا جائے، وزیر پارلیمانی امور علی محمد خان نے کہا کہ بل اسلام اور سنت سے متصادم ہے، اسلام کے خلاف قانون سازی نہیں ہو سکتی، ماضی میں اسلامی نظریاتی کونسل اس بل کی مخالفت کر چکی ہے۔

    تاہم وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری نے بل کی حمایت کی اور کہا کہ فرد واحد کو اسلام کے فیصلے کرنے کا اختیار نہیں، اس سلسلے میں قانون سازی کے لیے پارلیمنٹ سپریم ہے، وہ فیصلہ کر سکتی ہے، شادی کے لیے 18 سال کی عمر کا تعین ترکی اور بنگلہ دیش میں بھی ہے، ایسا ہی فتویٰ جامع الازہر نے بھی دیا، کیا وہ خلافِ اسلام تھا؟

    یہ بھی پڑھیں:  پابندی ازدواج اطفال ترمیمی بل 2018 کی منظوری کی تحریک سینیٹ میں پیش

    خیال رہے کہ گزشتہ روز پابندی ازدواج اطفال ترمیمی بل 2018 کی منظوری کی تحریک سینیٹ میں پیش کی گئی تھی، سینیٹر شیری رحمان نے بل کے حوالے سے کہا کہ ہم معاشرے میں مغربی اقدار نہیں لا رہے، ہر 20 منٹ میں زچگی میں کم عمری سے اموات ہو رہی ہیں، سعودی شوریٰ کونسل نے شادی کی عمر 18 سال مقرر کرنے کی سفارش کی ہے۔

    دوسری طرف جمعیت علماے اسلام (ف) نے پابندی ازدواج اطفال ترمیمی بل کے لیے بنائی گئی کمیٹی پر اعتراض کیا تھا، عبد الغفور حیدری نے کہا کہ کمیٹی نے ہمیں نہیں بلایا، بل نظریاتی کونسل میں جانا چاہیے تھا۔

    سینیٹر عطا الرحمان نے بھی کہا کہ ترمیمی بل کو نظریاتی کونسل میں بھیج دیا جائے، کونسل سے اس پر شرعی رائے لی جائے، اسلام کے مطابق تو بلوغت کے بعد شادی کر دینی چاہیے۔

    جب کہ علی محمد خان نے بھی بل کے نظریاتی کونسل بھیجے جانے کی حمایت کی، اور کہا کہ آئین پاکستان ہمیں شرعی رائے لینے کا پابند کرتا ہے، تاہم انھوں نے بلوغت کے حوالے سے کہا کہ اسلام میں بچے کی بلوغت کا تعلق عمر سے نہیں ہے۔

  • شرمین عبید چنائے نے ایک اور عالمی ایوارڈ جیت لیا

    شرمین عبید چنائے نے ایک اور عالمی ایوارڈ جیت لیا

    نیویارک: آسکر ایوارڈ یافتہ پاکستانی فلم میکر شرمین عبید چنائے نے ٹالبرگ فاؤنڈیشن کی طرف سے ایلیاسن گلوبل لیڈر شپ ایوارڈ برائے 2018 جیت لیا۔

    تفصیلات کے مطابق شرمین عبید چنائے پہلی پاکستانی خاتون ہیں جنھوں نے ایلیاسن گلوبل لیڈر شپ ایوارڈ اپنے نام کر لیا ہے، یہ ایوارڈ انھیں فلم سازی کے ذریعے سماجی مسائل کو بہترین طریقے سے اجاگر کرنے پر دیا گیا۔

    ججز کے مطابق شرمین عبید کو ان کی بڑھتی ہوئی مستحکم اور مؤثر لیڈر شپ پر ایوارڈ کے لیے چنا گیا جو نہ صرف دماغوں کو تبدیل کرنے کا باعث بنی بلکہ ایسے حقائق سامنے لائی جن کے نتائج اکیسویں صدی میں نا قابلِ قبول ہونے چاہیئں۔

    شرمین عبید نے کہا ’مجھے یہ ایوارڈ ایک ایسے موقع پر ملا ہے جب سماج کے سامنے آئینہ لے کر کھڑی ہوں، جو بہت بڑی قیمت چکا رہا ہے، میرے ساتھی دنیا بھر میں سچ کی پاداش میں جیلوں میں ڈالے اور قتل کیے جا رہے ہیں۔‘


    یہ بھی پڑھیں:  شرمین عبید چنائے کی آسکرایوارڈیافتہ فلم ’اے گرل ان دا ریور‘ نے ایمی ایوارڈ جیت لیا


    انھوں نے کہا کہ ہمیں مسلسل اپنا کام جاری رکھنے کا حوصلہ درکار ہے، میں مشکل مسائل پر اپنا کام جاری رکھوں گی، اس امید پر کہ جو مکالمہ پیدا ہوگا وہ دنیا کو بدل دے گا۔

    شرمین عبید کا کہنا تھا کہ ایلیاسن گلوبل لیڈر شپ ایوارڈ جین ایلیاسن کے اعزاز میں شروع کیا گیا ہے جو اپنے وقت کے سب سے قابل عالمی سفارت کاروں میں سے ایک ہیں۔

    یاد رہے کہ فلموں کے ذریعے سماجی مسائل کو نمایاں کرنے والی فلم ساز شرمین عبید چنائے متعدد ایوارڈ یافتہ فلمیں بنا چکی ہیں، جن میں سیونگ فیس، آ جرنی آف تھاؤزینٹ مائلز: پیس کیپرز، اور آ گرل اِن دا ریور: دی پرائس آف فارگیونس شامل ہیں۔

  • بھارت میں نوجوان عورتوں میں خود کشی کی شرح خطرناک حد تک بڑھ گئی

    بھارت میں نوجوان عورتوں میں خود کشی کی شرح خطرناک حد تک بڑھ گئی

    انڈیا: برطانوی طبی جریدے کی تازہ تحقیق میں کہا گیا ہے کہ بھارت میں نوجوان خواتین میں خود کشی کی شرح حیران کن طور پر 40 فی صد ہے۔

    تفصیلات کے مطابق طبی جریدے دی لانسیٹ نے ان عوامل پر روشنی ڈالی ہے کہ بھارتی نوجوان عورتوں میں خود کشی کا رجحان اتنا زیادہ کیوں ہے۔طبی جریدے نے تحقیق کے بعد انکشاف کیا ہے کہ دنیا بھر میں جتنی خواتین ایک سال میں خود کشی کرتی ہیں ان میں سے تقریباً 40 فی صد ہندوستانی خواتین ہوتی ہیں۔

    دی لانسیٹ کی تحقیق کے مطابق انڈیا میں ہر ایک لاکھ خواتین میں سے 15 خود کشی کر لیتی ہیں، یہ تعداد دنیا میں پائے جانے والے اعداد و شمار کی دگنی تعداد ہے، یعنی دنیا میں اوسطاً ہر ایک لاکھ میں 7 خواتین خود کشی کر لیتی ہیں۔

    دوسری طرف بھارت میں مردوں میں بھی خود کشی کا رجحان کچھ کم نہیں ہے، رپورٹ کے مطابق مردوں کے خود کشی کرنے کے معاملے میں انڈیا کا حصہ 24 فی صد ہے۔ مذکورہ تحقیق سے جڑی محققہ راکھی داندونا نے بتایا کہ انڈیا خواتین کے خود کشی کے واقعات میں کمی لانے میں کام یاب ہوا ہے لیکن اس کی رفتار زیادہ تیز نہیں ہے۔

    طبی جریدے نے انکشاف کیا کہ خود کشی کے رجحان میں اضافے کی ایک وجہ صحتِ عامہ کی خراب صورتِ حال ہے، بھارت میں عوام کو غربت کی وجہ سے صحت برقرار رکھنے کی سہولتیں دستیاب نہیں ہیں۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ زیادہ تر خود کشی کرنے والی عورتیں شادی شدہ ہوتی ہیں، یہ شادیاں والدین کی مرضی سے کی جانے والی شادیاں ہیں جن کا انجام افسوس ناک نکل آتا ہے۔


    یہ بھی پڑھیں:  سیکولر بھارت کا مکروہ چہرہ، بیویاں کرائے پر دستیاب


    خود کشی کی دیگر وجوہ میں ڈپریشن، نفسیاتی طبی سہولیات کی عدم دستیابی، خواتین کی سماجی حیثیت وغیرہ بھی شامل ہیں، ایک وجہ خواتین کی بڑی خواہشوں کو بھی قرار دیا گیا۔

    تحقیق میں کہا گیا ہے کہ پسند کی شادیاں اور ذہنی طبی سہولیات اور بہتر ملازمتوں کی فراہمی کے ذریعے اور خواتین کی شکایات کے اندراج کے نظام کی سہولت کے ذریعے خود کشیوں پر قابو پایا جاسکتا ہے۔