Tag: سماعت

  • میمو گیٹ اسکینڈل، سماعت 8 فروری کو ہوگی، حسین حقانی کو نوٹس جاری

    میمو گیٹ اسکینڈل، سماعت 8 فروری کو ہوگی، حسین حقانی کو نوٹس جاری

    اسلام آباد : چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بنچ میمو گیٹ اسکینڈل کی سماعت 8 فروری کو کرے گا جس کے لیے سابق سفیر برائے امریکا حسین حقانی کو نوٹس جاری کردیئے گئے ہیں.

    تفصیلات کے مطابق مشہور زمانہ میمو گیٹ اسکینڈل مقدمے کی سماعت کے لیے سپریم کورٹ نے چیف جسٹس کی سربراہی تین رکنی بنچ تشکیل دے دیا گیا ہے جو 8 فروری کو مقدمے کی سماعت کرے گی.

    ذرائع کے مطابق میمو گیٹ اسکینڈل کی ازسرنو سماعت کے لیے سپریم کورٹ کی جانب سے امریکا میں تعینات سابق پاکستانی سفیرحسین حقانی کو 8 فروری کو طلب کرلیا ہے.

    پاکستان پیپلز پارٹی کے سابق رہنما اور امریکا میں پاکستان کے سفیر حسین حقانی کو آصف زرداری نے صدر پاکستان بننے کے بعد تعینات کیا تھا تاہم میمو گیٹ اسکینڈل کے بعد سے حسین حقانی پاکستان واپس نہیں آئے.

    خیال رہے کہ دو روز قبل سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران موجود چیف جسٹس ثاقب نثار کا میمو گیٹ اسکینڈل کے التواء پر ریمارکس دیتے ہوئے کہنا تھا کہ کیا حسین حقانی کو بھی ووٹ کا حق دینا چاہیئے؟

    انہوں نے مزید کہا تھا کہ کئی لوگ پاکستان میں کیس چھوڑ کر واپس بیرون ملک چلے گئے اور تاحال واپس نہیں آئے ہیں چنانچہ جن کا پاکستان سے تعلق نہیں ہے ان کو ووٹ کا حق کیسے دے سکتے ہیں؟

    اس دوران چیف جسٹس ثاقب نثار نے یہ سوال بھی اُٹھایا تھا کہ میمو گیٹ میں کیوں نہ حسین حقانی کو نوٹس کریں کہ وہ امریکا سے واپس پاکستان آکر کیس سنیں اور عدالت کے سوالوں کے جواب دیں.


    اسی سے متعلق : حقانی وزیراعظم گیلانی کو بھی رپورٹ نہیں‌ کرتے تھے، قریشی کا انکشاف 


    یاد رہے کہ 2011 میں امریکا میں تعین پاکستان کے سفیر اور اُس وقت کے صدر آصف زرداری کے قریبی دوست حسین حقانی کی جانب سے امریکی صدر کو خفیہ پیغام پہنچانے کا الزام سامنے آیا تھا جس میں قومی اداروں کے بارے میں منفی تاثر اور حکومت کی مدد کرنے کی التجا کی گئی تھی.

    یہ بھی ذہن نشین رہے کہ حسین حقانی نے امریکی صدر تک رسائی حاصل کرنے کے لیے جس شخص کو استعمال کرنا چاہا تھا وہ پاکستانی نژاد امریکی تاجر منصوراعجاز تھے جنہوں نے بعد ازاں بلیک بیری پر ہونے والی پیغاماتی گفتگو بطور ثبوت پیش کیے تھے.

    اُس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری نے کیس سماعت کا آغاز کیا تھا اور اعجاز منصور کا بیان ویڈیو لنک کے ذریعے قلم بند کروایا تھا تاہم حسین حقانی مقدمے کا سامنے کرنے کے بجائے امریکا روانہ ہو گئے تھے اور تاحال وہیں مقیم ہیں.


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • شریف خاندان کےخلاف نیب ریفرنسزکی سماعت 30 جنوری تک ملتوی

    شریف خاندان کےخلاف نیب ریفرنسزکی سماعت 30 جنوری تک ملتوی

    اسلام آباد : احتساب عدالت نے شریف خاندان کے خلاف نیب ریفرنسز کی سماعت 30 جنوری تک ملتوی کرتے ہوئے آئندہ سماعت پر استغاثہ کے مزید گواہان کوطلب کرلیا۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے شریف خاندان کے خلاف نیب ریفرنسز کی سماعت کی۔

    احتساب عدالت میں نا اہل وزیراعظم نوازشریف، مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر موجود تھے۔

    عدالت میں سماعت کے آغاز پر استغاثہ کے 2 گواہان نجی بینک کے افسر غلام مصطفیٰ اور یاسرشبیرکے بیانات ریکارڈ کیے گئے جبکہ گواہ آفاق احمد کا مکمل بیان ریکارڈ نہیں ہوسکا۔

    گواہ آفاق احمد نے عدالت کو بتایا کہ سپریم کورٹ سے ابھی تک ریکارڈ موصول نہیں ہوا۔

    استغاثہ کے گواہ نے عدالت کو بتایا کہ 22 اگست 2017 کو نیب راولپنڈی میں پیش ہوا اور نواز شریف کے بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات تفتیشی افسرکو پیش کیں۔

    نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ ضمنی ریفرنس پڑھنا ہے، وقت دیا جائے، نیب نے4 ماہ بعد ضمنی ریفرنس دائر کیا۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ ہمیں 7 دن کا وقت نہیں دیا جا رہا جس پرنیب پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ سپریم کورٹ کی ہدایت ہے کیس 6 ماہ میں مکمل کیا جائے۔

    نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ آئندہ سماعت پرضمنی ریفرنس کے گواہان طلب کرلیتے ہیں۔

    احتساب عدالت نے نوازشریف، مریم نوازاور کیپٹن صفدر کے خلاف نیب ریفرنسز کی سماعت 30 جنوری تک ملتوی کرتے ہوئے آئندہ سماعت پرمزید گواہ طلب کرلیے۔

    خیال رہے کہ العزیزیہ ریفرنس کی آج 25 ویں، فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس کی 22 ویں جبکہ لندن فلیٹس ریفرنس کی 21 ویں سماعت ہوئی۔

    واضح رہے کہ سابق وزیراعظم نوازشریف 14 ویں، مریم نواز16 ویں جبکہ کیپٹن ریٹائرڈ صفدر 18 ویں مرتبہ آج احتساب عدالت میں پیش ہوئے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • اثاثہ جات ریفرنس : اسحاق ڈارکےخلاف سماعت 18 جنوری تک ملتوی کردی

    اثاثہ جات ریفرنس : اسحاق ڈارکےخلاف سماعت 18 جنوری تک ملتوی کردی

    اسلام آباد : احتساب عدالت نے سابق وزیرخزانہ اسحاق ڈار کے خلاف اثاثہ جات ریفرنس کی سماعت 18 جنوری تک ملتوی کردی۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے اسحاق ڈار کے خلاف آمدن سے زائد اثاثے بنانے کی نیب ریفرنس کی سماعت کی۔

    سماعت کے آغاز پر نیب کے اسپیشل پراسیکیوٹر عمران شفیق نے ہائی کورٹ کی جانب سے اسحاق ڈار کو اشتہاری قرار دینے اور ان کے نا قابل ضمانت وارنٹ پرحکم امتناع کے فیصلے کی مصدقہ نقول عدالت میں کاپی پیش کی۔


    نیب کو اسحاق ڈارکیخلاف کارروائی سے روکنے کا عدالتی حکم


    نیب پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے 17 جنوری تک اسٹے آرڈر دے رکھا ہے جس کے بعد عدالت نے سماعت 18 جنوری تک ملتوی کردی۔

    خیال رہے کہ اسحاق ڈار کے وکیل نے ناقابل ضمانت وارنٹ اور اشتہاری قرار دینے کے احتساب عدالت کے حکم کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا جس پرعدالت نے 17 جنوری تک حکم امتناع جاری کیا تھا۔


    آمدن سے زائد اثاثہ جات ریفرنس کیس ، اسحاق ڈار اشتہاری قرار


    یاد رہے کہ احتساب عدالت نے 11 دسمبر کو آمدن سے زائد اثاثوں کے ریفرنس میں سماعت کے دوران مسلسل غیرحاضری پراسحاق ڈار کو اشتہاری قرار دیا تھا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • احتساب عدالت میں اثاثہ جات ریفرنس کی سماعت جاری

    احتساب عدالت میں اثاثہ جات ریفرنس کی سماعت جاری

    اسلام آباد : وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے خلاف احتساب عدالت میں اثاثہ جات ریفرنس کی سماعت جاری ہے۔

    تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت میں اسحاق ڈارکے خلاف اثاثہ جات ریفرنس کی سماعت شروع ہوگئی، ریفرنس کی سماعت احتساب عدالت کے جج محمد بشیرکررہے ہیں۔

    احتساب عدالت میں استغاثہ کے 2 گواہوں کے بیانات قلمبند کیے جائیں گے، اسحاق ڈار کے وکیل کی جانب سے گواہوں پر جرح کی جائے گی۔

    اسحاق ڈار کے وکیل نے آج کے لیے حاضری سے استثنیٰ کی درخواست کرتے ہوئے کہا موکل نے کیبنٹ کی میٹنگ میں شرکت کے لیے جانا ہے جس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ ملزم کے لیے بچاؤ کا کوئی کام اہمیت نہیں رکھتا۔

    نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ اگر کوئی بیمار ہو تو استثنیٰ دیا جا سکتا ہے جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ ہمیشہ کے لیے استثنیٰ نہیں مانگ رہے۔

    احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے ریماکیس دیے کہ کیبنٹ میٹنگ شروع نہیں ہوئی ،سماعت شروع کریں دیکھتے ہیں، سماعت کے دوران نیب کےگواہ طارق جاوید نے ای میل کا ریکارڈ پیش کردیا جسے عدالت نے گزشتہ سماعت پر مانگا تھا۔

    اسحاق ڈار کے وکیل خواجہ حارث اورنیب پراسیکیوٹرمیں سماعت کے دوران تلخ جملوں کا تبادلہ، نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ خواجہ حارث کا کہنا تھا گواہ کوای میل ہی نہیں ملے گا۔

    نیب پراسیکیوٹرعمران شفیق نے کہا کہ گواہ نےتفصیلات عدالت میں پیش کردی اب وہ عدالت کا وقت ضائع نہ کریں۔

    خواجہ حارث نے کہا آپ بیٹھ جائیں گواہ پر مجھےجرح کرنے دیں جس پر نیب پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ آپ کی توخواہش ہے ہم عدالت سے ہی چلےجائیں، گزشتہ سماعت میں بھی ہمیں کورٹ سےنکالنےکی کوشش کی گئی۔

    اسحاق ڈار کے وکیل نے کہا کہ نیب کےخط میں5 چیزیں مانگی گئیں،ایک جھوٹ چھپانے کے لیے دوسراجھوٹ بولنا پڑتا ہے جس پرنیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ یہ بات غلط ہے جھوٹ کی بات نہیں، انہوں نے ای میل مانگی وہ لےآئے ہیں۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ گواہ جھوٹ بول رہا ہے جس پر نیب پراسیکیوٹرنے کہا کہ عدالتی حکم پرکراچی ہیڈآفس سے ریکارڈ منگوا کرپیش کردیا۔

    اسحاق ڈار کے وکیل نے کہا کہ 12بجکر45 منٹ پرطلب تفصیلات12بجکر53منٹ پربھجوا دی، کیا یہ درست ہے؟ جس پر گواہ طارق جاوید نے کہا کہ یہ بات درست نہیں ہے۔

    طارق جاوید نے کہا کہ 12بجکر45 منٹ پربھیجی گئی ای میل کاجواب 2 گھنٹےبعد دیا جبکہ ہیڈ آفس کے ساتھ ای میلزکے تبادلےکا ریکارڈ پیش کردیا ہے۔

    استغاثہ کے گواہ نے کہا کہ اس کےعلاوہ اورکوئی ای میل نہیں، نیب کے16 اگست کے خط کی کاپی بھی عدالت میں پیش کردی گئی۔ انہوں نے کہا کہ خط کی کاپی والیم 15 کےصفحہ 8 پرموجود ہے۔

    طارق جاوید نے کہا کہ ریفرنس سے منسلک خط اورآج پیش کی گئی کاپی میں فرق نہیں ہے۔ انہوں نےکہا کہ میرے سامنے کوئی اکاؤنٹ نہیں کھولا گیا جبکہ جن بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات پیش کیں وہ میں نے نہیں کھولے۔

    نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ گواہ کمپنی قانون کےماہرنہیں ہیں جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ میں ان کے پیش کیے گئے ریکارڈ کی بات کررہا ہوں، اگرآنکھیں بند کرکے ریکارڈ پیش کیا ہےتوبتا دیں۔

    طارق جاوید نے کہا کہ کہ میں نےصرف اکاؤنٹس کی بینک ریکارڈ سےتصدیق کی،فرسٹ ہجویری مضاربہ کی دستاویزات پیش کیں۔ انہوں نے کہا کہ تمام دستاویزات نہیں پڑھیں صرف سرسری جائزہ لیا۔

    استغاثہ کے گواہ نے کہا کہ مضاربہ کمپنیوں کا ریکارڈ پیش کیامگرنہیں جانتا کیسے کام کرتی ہیں، نیب پراسیکیوٹرنے کہا کہ کوئی کمپنی کیسے کام کرتی ہے یہ بتانا کسی بینک افسرکا کام نہیں، یہ ایس ای سی پی کے بتانےکا کام ہے۔


    احتساب عدالت میں اسحاق ڈارکےخلاف سماعت12 بجے تک ملتوی


    اس سے قبل آج عدالت میں وزیرخزانہ اسحاق ڈار کے وکیل خواجہ حارث کے معاون قوسین فیصل نے اسحاق ڈار کے استثنیٰ کے حوالے سے عدالت میں درخواست جمع کرائی تھی۔

    اسحاق ڈار کے وکیل کی جانب سے درخواست میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ وزیرخزانہ اسحاق ڈار کو وزارت کے امور چلانے کےلیے استثیٰ دیا جائے تاہم عدالت نے درخواست خارج کردی۔

    درخواست مسترد ہونے کے بعد خواجہ حارث کے معاون قوسین فیصل نے عدالت کو بتایا کہ استثیٰ کی استدعا دوبارہ کی جائے گی جس پر جج محمد بشیر نے ریماکس دیتےہوئے کہا کہ استثیٰ پر بات خواجہ حارث کی موجودگی میں ہوگی۔

    اسحاق ڈار کی پیشی کے موقع پر جوڈیشل کمپلیکس کے اطراف سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں، پولیس اور ایف سی کے اہلکار تعینات ہیں۔


    احتساب عدالت میں اسحٰق ڈار کے بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات جمع


    خیال رہے کہ احتساب عدالت میں گزشتہ سماعت پر استغاثہ کے دو گواہان طارق جاوید اور شاہد عزیز نے عدالت کے سامنے اپنے بیانات قلمبند کروائے تھے۔ طارق جاوید نجی بینک کے افسر جبکہ شاہد عزیز نیشنل انسویسٹمنٹ ٹرسٹ کے افسر ہیں۔

    اس سے قبل 3 اکتوبر کو وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی ہائی کورٹ نے وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار پر فرد جرم کے خلاف ان کی دائر کردہ درخواست مسترد کردی تھی۔ وزیر خزانہ نے احتساب عدالت کے اقدام کو چیلنج کیا تھا۔


    وزیرخزانہ اسحاق ڈار پرفرد جرم عائد


    واضح رہے کہ گزشتہ ماہ 27 ستمبر کواحتساب عدالت نے آمدن سے زائد اثاثوں کے نیب ریفرنس میں وفاقی وزیرخزانہ اسحاق ڈار پرفرد جرم عائد کی تھی۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • جے آئی ٹی دستاویزات کےمطابق نوازشریف نے تنخواہ وصول کی‘ سپریم کورٹ

    جے آئی ٹی دستاویزات کےمطابق نوازشریف نے تنخواہ وصول کی‘ سپریم کورٹ

    اسلام آباد : پاناما کیس فیصلے پر نظرثانی سے متعلق درخواستوں پر سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے ریماکس دیے کہ دستاویزات کہتی ہیں کہ نوازشریف نے ملازم کی حیثیت سے تنخواہ وصول کی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں 5رکنی لارجر بینچ پاناما کیس فیصلے پر نظرثانی سے متعلق درخواستوں پر سماعت کا آغاز کردیا۔


    نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث کے دلائل


    سابق وزیراعظم نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث سماعت کے آغاز پر دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اثاثے مکمل چھپانے سےمتعلق بھی قانون موجود ہے جبکہ آرٹیکل 62 ون ایف صرف اثاثے چھپانےپراستعمال نہیں ہوتا۔

    نوازشریف کے وکیل نے کہا کہ تاحیات نااہلی کے سنگین نتائج برآمد ہوتے ہیں،نااہلی کے لیے قانون میں واضح طریقہ کار درج ہے۔

    خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کالعدم ہوتا تونا اہلی ایک ٹرم کے لیے ہوتی جبکہ نواز شریف کو اقامہ، تنخواہ ظاہر نہ کرنے پرنا اہل کیا گیا۔

    سابق وزیراعظم نوازشریف کے وکیل نے کہا کہ نااہلی کے لیے بلیک لا ڈکشنری میں موجود تعریف استعمال کی گئی۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ نواشریف نے کبھی تنخواہ کا دعویٰ نہیں کیا تھا اور کبھی تنخواہ کو اثاثہ سمجھا ہی نہیں، سمجھنے میں غلطی پرکہا گیا کہ صادق اورامین نہیں رہے۔

    نوازشریف کے وکیل نے کہا کہ غلطی کرنے پر آرٹیکل 62 ون ایف کا اطلاق نہیں ہوسکتا،جس پرجسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ معاہدے میں لکھا تھا نوازشریف کو10ہزاردرہم تنخواہ ملے گی۔

    جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ ہم کیسےمان لیں کہ وہ تنخواہ کواثاثہ نہیں سمجھتےتھےجبکہ قانونی شہادت کےمطاق تحریرکوزبان پرفوقیت حاصل ہے۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ معاہدےاوراس کی کسی شق سے انکار نہیں کررہا،جس پرجسٹس اعجازافضل نے کہا کہ معاہدےمیں تنخواہ نہ لینےکا ارادہ کہیں شامل نہیں ہے۔

    نوازشریف کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ نوازشریف نے بیٹے کوشروع میں ہی کہہ دیا تھا کہ تنخواہ نہیں لیں گے، جسٹس اعجازافضل نے کہا کہ بیٹے کے ساتھ زبانی معاہدے کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔

    جسٹس اعجازافضل نے کہا کہ جسٹس رمدے نے حلف سے پہلےکہا تنخواہ ٹرسٹ میں جائے گی بطورایڈ ہاک جج جسٹس رمدے کی تنخواہ ٹرسٹ میں جاتی رہی۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ نوازشریف کو صفائی کا موقع ملتا تو صورتحال مختلف ہوتی، خواجہ حارث نے کہا کہ نوازشریف کےاکاؤنٹ میں تنخواہ کا ایک روپیہ بھی نہیں آیا۔

    جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ نوازشریف نے تنخواہ والا اکاؤنٹ ظاہر نہیں کیا جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ جے آئی ٹی نے یہ نہیں کہا کہ کوئی اکاؤنٹ چھپایا گیا۔

    جسٹس اعجاز الحسن نے کہا کہ جے آئی ٹی کے مطابق والیم نائن میں تمام ریکارڈ موجود ہے جبکہ 194811 نواز شریف کا ایمپلائی نمبر تھا۔

    انہوں نے کہا کہ نوازشریف کے نام پر ایک ذیلی اکاؤنٹ کھولا گیا تھا، دستاویزات کے مطابق تو تنخواہ وصول کی گئی تھے۔

    جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ عدالت نے فیصلہ تسلیم شدہ حقائق پر کیا تھا، خواجہ حارث نے کہا کہ سوال صرف یہ ہے 62 ون ایف کا اطلاق ہوتا ہےکہ نہیں۔

    نوازشریف کے وکیل نے کہا کہ ذیلی اکاؤنٹ نوازشریف کا نہیں کمپنی کا ہے،جسٹس اعجازافضل نے کہا کہ اثاثے چھپانے پرصرف الیکشن کالعدم نہیں ہوتا اثاثے چھپانے والا نمائندگی کا حقدار نہیں رہتا۔

    خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ نواز شریف کے کسی اکاؤنٹ میں ایف زیڈ ای سے رقم منتقل نہیں ہوئی، جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ فیصلے میں اکاؤنٹ کا ذکرنہیں اس لیے اس پر بات نہ کریں۔

    نوازشریف کے وکیل نے کہا کہ ہر آمدن اثاثہ نہیں ہوتی،اثاثہ آمدن بینک میں ہوتی ہے یا کیش کی صورت میں ہوتی ہے۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ کوئی عدالتی مثال نہیں کہ ایک اثاثہ ظاہرنہ کرنے پرنا اہلی ہو،انہوں نے کہا نیب کوبراہ راست ریفرنس دائر کرنے کا حکم دیا گیا۔


    پاناما کیس فیصلہ پر نظرثانی درخواستوں پر سماعت


    نوازشریف کے وکیل نے کہا کہ جے آئی ٹی رپورٹ کی بنیاد پر ریفرنس دائر نہیں ہوسکتا، جے آئی ٹی نے زیادہ تردستاویزات ذرائع سے حاصل کیں۔

    جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ جے آئی ٹی رپورٹ میں خامیاں ہیں اس کا فائدہ آپ کو ہوگا جبکہ ٹرائل کورٹ میں آپ کو جرح کا موقع ملے گا۔

    انہوں نے کہا کہ جے آئی ٹی رپورٹ کو ناقابل تردید سچ تسلیم نہیں کیا، جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ رپورٹ کی بنیاد پرنواز شریف کومجرم قرار نہیں دیا۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ جے آئی ٹی کو مکمل رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا گیا تھا جبکہ جے آئی ٹی نے نامکمل رپورٹ دی جس پر فیصلہ نہیں ہوسکتا۔

    جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ آپ چاہتے ہیں جے آئی ٹی کو تحقیقات جاری رکھنے کا حکم دیں؟ جس پر نوازشریف کے وکیل نے کہا کہ نامکمل رپورٹ پر عدالت نے ریفرنس دائر کرنے کا حکم کیسے دیا۔

    جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ جسٹس آف پیس بھی بادی النظرمیں کیس بنتا ہوتومقدمےکا حکم دیتا ہے جبکہ مقدمہ درج کرنے کا حکم ٹرائل اورقانونی عمل سےنہیں روکتا۔

    جسٹس اعجازافضل نے کہا کہ ریفرنس دائر کرنے کا حکم ٹرائل کومتاثر نہیں کرتا جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ عدالتی حکم سے ٹرائل شفاف نہیں ہوگا۔

    انہوں نے کہا کہ ٹرائل کورٹ آزادی سے جو چاہے گی فیصلہ کرے گی،ٹرائل کورٹ کو شواہد کا جائزہ لینے دیں۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ ٹرائل کورٹ فیصلہ کرے گی کہ کیس بنتا ہے یا نہیں۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ نیب اپنا کام کرتا تو معاملہ سپریم کورٹ نہ آتا، چیئرمین نیب نےخود کہا کہ وہ کچھ نہیں کرسکتے۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ تمام ججز نے اس معاملہ پر کھل کر اپنی رائے دی ہے،انہوں نے کہا کہ ڈر تھا چیئرمین نیب اسپینش زبان میں ریفرنس دائر نہ کردیتے۔

    جسٹس اعجازافضل نے کہا کہ عدالتی فیصلے کےپیراگراف 9 میں آپ کےسوالات کےجواب ہیں جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ عدالت نے کہا کہ بادی النظر میں کیس بنتا ہے۔

    جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ ٹرائل تو شواہد کی بنیاد پر ہوگا جبکہ عدالتی آبزرویشن ٹرائل کورٹ پر اثر انداز نہیں ہوں گی۔

    جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ فیصلے میں پہلے بھی لکھا تھا اب دوبارہ لکھ دیں گے، جسٹس کھوسہ نے کہا کہ ہائی کورٹ بھی فوجداری مقدمات میں چالان پیشی کا حکم دیتی ہے۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ عدالت نے کہا چیئرمین نیب کچھ کرنا ہی نہیں چاہتے، انہوں نے کہا کہ جہاں تحقیقاتی ادارہ بھاگ رہا ہو وہاں عدالت حکم دیتی ہے۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ عدالت نے کبھی مخصوص افراد کے خلاف چالان کا حکم نہیں دیا، جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ آمدن سےزائد اثاثوں کا کیس مخصوص افراد کےخلاف ہی بنتا ہے۔

    نوازشریف کے وکیل نے کہا کہ آپ نے بچوں پر بھی ریفرنس دائر کرنے کا حکم دیا،جس پر جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ بچہ کوئی بھی نہیں ہے، وہ سب بچوں والے ہیں۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ عدالت کو کہنا چاہیے تھا کہ کیس بنتا ہے تو ریفرنس دائر کریں،جسٹس اعجاز الحسن نے کہا کہ چیئرمین نیب کی جانبداری پر کئی فیصلے دے چکے ہیں۔

    جسٹس اعجاز الحسن نے کہا کہ آپ چاہتے ہیں ریفرنس کا معاملہ چیئرمین نیب پر چھوڑ دیتے، انہوں نے کہا کہ چیئرمین نیب کا بیک گراؤنڈ اور کنڈکٹ بھی ذہن میں رکھیں۔

    جسٹس اعجازافضل نے کہا کہ 28 جولائی کےفیصلہ میں 20 اپریل کےحکم کا حوالہ موجود ہے، جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ عدالتی فیصلہ واضح ہے کس کے خلاف کیا کارروائی ہونی ہے۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ 28جولائی کا حکم اس جملےسےشروع ہوا یہ سابق فیصلےکا تسلسل ہے،خواجہ حارث نے کہا کہ 2 ججز کے دستخط سے ان کا فیصلہ بھی حتمی فیصلے کا حصہ بن گیا۔

    نوازشریف کے وکیل نےکہا کہ عدالت نے 6 ماہ میں فیصلے کا حکم دیا جو نہیں دینا چاہیے تھا،جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ نیب قانون کے مطابق 6 ماہ میں ٹرائل مکمل ہونا چاہیے۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ عدالت نے فیصلے میں لکھا ہے کہ ایک ماہ میں فیصلہ ہونا ممکن نہیں، انہوں نے کہا کہ جے آئی ٹی رپورٹ پر ریفرنس ایک دن میں ختم ہوسکتا ہے۔

    جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ ریفرنس ختم ہوسکتا ہے تو مسئلہ کیا ہے، جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آپ کو قانون سے بڑھ کروقت دیا ہے۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ وقت درکار ہو تو ٹرائل کورٹ درخواست دیتی ہےجس پر خواجہ حارث نےکہا کہ ریفرنس میں جو کچھ لکھا گیا ہے اس میں عدالت کا قصور نہیں ہے۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ مخصوص ٹرائل کی نگرانی کےلیےکبھی نگران جج تعینات نہیں کیا گیا، جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ پنجاب کے لیے مجھے اےٹی سی کا نگران جج بنایا گیا تھا۔

    جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ احتساب عدالتوں کےلیےبھی جج ہوتے ہیں، نگران جج کی تعیناتی کوئی نئی بات نہیں ہے،خواجہ حارث نے کہا کہ نگران جج ہوتےہیں لیکن مخصوص کیس کےلیےتعیناتی نہیں ہوتی۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ شیخ لیاقت حسین کیس میں بھی نگران جج تعینات کیاگیا،اس کیس میں بھی عدالتی ہدایات پرعملدرآمدکامعاملہ تھا۔

    جسٹس اعجازافضل نے کہا کہ ٹرائل کورٹ کوآزادانہ فیصلہ کی آبزرویشن بھی دیں گے، خواجہ حارث نےمخصوص کیس کے لیےنگران جج نہ مقررکرنےکی استدعا کردی۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ چاہتےہیں نوازشریف سےبھی عام شہری جیسا برتاؤ ہو، جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ماضی میں نوازشریف کےمقدمات آتے رہے ہیں اورنوازشریف کوریلیف بھی اسی عدالت میں ملتا رہا۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ یہ نہ کہیں کہ سپریم کورٹ مدعی بن گئی ہےجب بھی نوازشریف کے حقوق متاثرہوئےعدالت نے ریسکیو کیا۔

    انہوں نے کہا کہ ٹرائل میں زیادتی ہوئی توسپریم کورٹ ریسکیوکرے گی ہم ہرشہری کےحقوق کاتحفظ کریں گے،جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ ہم پریقین کریں سڑکوں پرنہیں۔


    اسحاق ڈار کے وکیل شاہد حامد کے دلائل


    وزیرحزانہ اسحاق ڈار کے وکیل نے دلائل کا آغاز کیا تو جسٹس عظمت سعید شیخ نے سوال کیا کہ اسحاق ڈارکا پہلے وکیل کون تھا؟ جس پر شاہد حامد نےکہا کہ جےآئی ٹی سے پہلےمیں ہی ان کا وکیل تھا۔

    اسحاق ڈار کے وکیل نے کہا کہ جےآئی ٹی رپورٹ کےبعد ملک سےباہرتھا،جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ آپ کوسپریم کورٹ کےقوانین کاعلم ہے۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آپ پہلےپیش ہوتےرہے اس لیے دلائل کا آغازکریں، شاہد حامد نے کہا کہ میرےپاس ریفرنس کی کاپی نہیں ہے۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آپ نظرثانی 28جولائی کےحکم پرچاہتےہیں،انہوں نے کہا کہ فیصلےکےبعد واقعات کی بنیاد پرنظرثانی نہیں ہوسکتی۔

    جسٹس آصف سعیدکھوسہ نے کہا کہ ریفرنس عدالتی فیصلےکےبعد دائرہوا ہے،جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ پاناماکیس میں نیب بطورادارہ مکمل طورپرناکام ہوا۔

    جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ کیا ریاست بھی نیب کےساتھ ناکام ہوجاتی ہے،کیا پاکستان اورعدلیہ بھی نیب کےساتھ فیل ہوجائیں۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ عدالتیں اپنی آنکھیں بند نہیں کرسکتیں،انصاف اندھا ہوسکتاہے ججزنہیں۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ آپ شاید چاہتےہیں ہم کوئی فیصلہ بھی دیں،ہم نےفیصلہ کیا توبہت خطرناک کام ہوگا۔

    شاہد حامد نے کہا کہ ججزپہلے کہہ چکےہیں کہ ہم نےمحتاط زبان استعمال کی جبکہ احتیاط کےباوجود بعض حقائق کومدنظرنہیں رکھا گیا۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آپ چاہتے ہیں ہم ریفرنس میں ترمیم کریں، ریفرنس میں ترمیم ہمارااختیارنہیں اس کے لیے متعلقہ فورم سے رجوع کریں۔

    انہوں نے کہا کہ نگران جج نہ ہوتا تو یہ ریفرنس بھی دائرنہ ہوتے،جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آج آپ کےخلاف فیصلہ آیاہےتوخدشات کا شکارنہ ہوں۔

    جسٹس آصف سعیدکھوسہ نے کہا کہ آپ کی حکومت آئین اورقانون کوبدل بھی سکتی ہے، آئین پرجولکھا ہےاس پرچلیں گے۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آئین پرچلنا کسی کوبرا لگتاہےتولگے، آپ کوجوشق پسند نہیں اس میں ترمیم کردیں۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ 90لاکھ کےاثاثے900 نوےلاکھ کےہوئےتوحساب مانگا گیا اور جوتین خطوط لگائےگئےان پرعرب خلیفہ کا نام بھی غلط ہے۔

    جسٹس گلزاراحمد نے کہا کہ جوحساب نیب میں دیناہےوہ آپ یہاں دیناچاہتےہیں، جس پر اسحاق ڈار کے وکیل نے کہا کہ اثاثےمختصروقت میں نہیں،15سال میں بڑھے۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آپ کی بحث پرکچھ لکھا توٹرائل پراثرپڑےگا، لگتاہےکہ آپ چاہتےہیں ہم کچھ لکھیں۔

    وزیرخزانہ اسحاق ڈار کے وکیل نے کہا کہ جےآئی ٹی کواسحاق ڈارسےمتعلق ہدایات نہیں دی گئی تھیں،جےآئی ٹی نےاپنےمینڈیٹ سےتجاوزکیا۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ سارامعاملہ ریکارڈ کےدوران سامنےآیا تھا،جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ آپ مقدمےمیں فریق تھے اور تمام مقدمات آپس میں منسلک تھے۔

    جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ آپ چاہتےہیں معاملےپرعدالت آنکھیں بندرکھتی، 15سال میں 91 گنا اضافےپرعدالت خاموش رہتی؟۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ کیا کبھی اسحاق ڈارنےاعترافی بیان کوچیلنج کیا، جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ اسحاق ڈارنے3خطوط کےعلاوہ وضاحت نہیں دی۔

    اسحاق ڈار کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ہائی کورٹ کہہ چکی ہےاعترافی بیان کی کوئی اہمیت نہیں جس پرجسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ہائی کورٹ میں اسحاق ڈارنہیں کوئی اورگیا تھا۔

    شاہدحامد نے کہا کہ اسحاق ڈا باقاعدگی سےگوشوارےجمع کراتےہیں اور گوشواروں میں بیرون ملک آمدنی کی تفصیلات ظاہرکی گئی ہیں۔

    جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ قانونی نکات پربات کریں حقائق پرنہیں، ہم سےحقائق پرکیوں کچھ لکھوانا چاہتے ہیں۔

    وزیرخزانی اسحاق ڈار کے وکیل نے کہا کہ ریفرنس دائرکرنےکےحکم کی قانونی بنیاد نہیں جبکہ عدالت کےدائرہ اختیارپراعتراض نہیں کیا تھا۔

    جسٹس آصف سعیدکھوسہ نے کہا کہ اعتراض پہلےنہیں کیا تھا تواب کیوں کررہے ہیں جس پر اسحاق ڈار کے وکیل نے کہا کہ اعتراض کسی بھی وقت کیا جاسکتا ہے۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ جواعتراض پہلےنہیں کیا گیا وہ نظرثانی پربھی نہیں ہوسکتا، جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ عدالت کےخلاف مہم کونوازشریف اسحاق ڈارنےلیڈ کیا جیسا کروگے ویسا بھرو گے۔

    وزیرخزانہ اسحاق ڈار کےوکیل نے کہا کہ عدالت کواپنی حدود طےکرنا ہوگی جس پرجسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ حدودکا تعین یہ کیس ٹوکیس ہوتا ہے۔

    شاہد حامد نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ حکمران جماعت کا رشتہ دارہونا بھی کیس بنانے کے لیےکافی نہیں جبکہ آرٹیکل 10اے اسحاق ڈارکوشفاف ٹرائل کاحق دیتا ہے۔

    اسحاق ڈار کے وکیل نے کہ 2016میں نیب نےتحقیقات میں اسحاق ڈارکوبےقصورقراردیا تھا،جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ کیا ہمیں نیب پرمزید کچھ بولنےکی ضرورت ہے۔

    واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے پاناما فیصلے کے خلاف نظرثانی درخواستوں کی سماعت کل تک ملتوی کردی،وزیراعظم کے بچوں کے وکیل سلمان اکرم راجہ کل اپنے دلائل دیں گے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں۔

  • رپورٹ اورشواہد کےبعد فیصلہ کریں گے معاملہ نیب کوبھیجیں یانااہلی کافیصلہ کریں‘ سپریم کورٹ

    رپورٹ اورشواہد کےبعد فیصلہ کریں گے معاملہ نیب کوبھیجیں یانااہلی کافیصلہ کریں‘ سپریم کورٹ

    اسلام آباد : سپریم کورٹ آف پاکستان میں پاناما کیس کی جے آئی ٹی رپورٹ پرسماعت کل تک ملتوی ہوگئی۔

    تفصیلات کےمطابق جسٹس اعجاز افضل خان کی سربراہی میں جسٹس عظمت سعید شیخ اورجسٹس اعجازالاحسن پرمشتمل سپریم کورٹ کے 3 رکنی عمل درآمد بینچ نے پاناما کیس کی جے آئی ٹی رپورٹ پرسماعت کی۔

    پاناما کیس کی جے آئی ٹی رپورٹ پر سماعت کےآغازپروزیراعظم میاں محمدنوازشریف کےوکیل خواجہ حارث نے اپنے دلائل دیے۔

    وزیراعظم کےوکیل خواجہ حارث نے20اپریل کاسپریم کورٹ کا حکم پڑھ کرسنایا کہ عدالت نےجےآئی ٹی کو کیامینڈیٹ دیاتھا۔انہوں نےکہاکہ بتاؤں گاعدالت نےکس قسم کی تحقیقات جےآئی ٹی کوسونپی تھیں۔

    انہوں نےکہاکہ جےآئی ٹی نےسرمایہ بیرون ملک جانے کی تحقیقات کیں جبکہ 20 اپریل کےفیصلےمیں تحقیقات کی سمت کا تعین کیا گیا تھا۔

    وزیراعظم کے وکیل نےدلائل کےدوران کہاکہ عدالت کےفیصلےمیں 13سوالات کیےگئے تھے،سوالات گلف اسٹیل، جدہ اسٹیل،لندن فلیٹس اورقطری خط سےمتعلق تھے۔

    خواجہ حارث نےکہاکہ قطری خط کے درست یاغلط ہونے پرسوال کیاگیاتھا،بیئریرسرٹیفکیٹ کےبارےمیں پوچھا گیا۔انہوں نےکہاکہ فلیٹ کی خریداری کےطریقےکارکےبارےمیں پوچھاگیاتھا۔

    وزیراعظم کےوکیل نےکہاکہ بیٹوں نےوزیراعظم کوتحائف کیسے دیےیہ سوالات کیےگئےتھے۔ انہوں نےکہاکہ نیب اورایف آئی اے میں مختلف نوعیت کےمقدمات زیرالتواء تھے۔

    انہوں نےکہاکہ جے آئی ٹی نے13 سوالات کےبجائے 15کردیے،جےآئی ٹی نےآمدن سےزائد اثاثوں کابھی سوال بنا دیا۔ جس پرجسٹس شیخ عظمت نےکہاکہ مزیدجائیداد کی نشاندہی کرناکیاجےآئی ٹی کامینڈیٹ نہیں تھا؟ ۔

    خواجہ حارث نےکہاکہ جومقدمات ختم ہوچکےتھےان کی جانچ پڑتال بھی کی گئی،انہوں نےکہاکہ ایک کیس جس کا فیصلہ ہوچکا، اس کودوبارہ کھولنےکا نہیں کیا گیا۔

    جسٹس اعجازافضل نےکہاکہ حدیبہ پیپرملزکی اپیل دائر کرنے کی کیا استدعا کی گئی تھی، جس پروزیراعظم کےوکیل نےکہاکہ 13سوالات کی روشنی حدیبیہ پیپرملزدوبارہ نہیں کھولاجاسکتا۔

    جسٹس اعجازافضل نےکہاکہ میری یادداشت کےمطابق لندن فلیٹ پہلےبھی مقدمات کا حصہ رہےجس پرخواجہ حارث نےکہاکہ ختم مقدمات کو دوبارہ نہیں کھولا جاسکتا۔

    جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ تمام مقدمات کا ایک دوسرے سے تعلق تھا،انہوں نےکہاکہ ان معاملا ت کاتعلق لندن فلیٹ سےہوتوکیا کیا جائے۔جس پرخواجہ حارث نےکہاکہ جائزہ لیناالگ بات اورازسرنوتفتیش کرنا الگ بات ہے۔

    جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ التوفیق کیس پر عدالت کا فیصلہ موجود ہے،انہوں نےکہاکہ اسحاق ڈار کا بیان التوفیق کمپنی سےمنسلک ہے۔

    جسٹس عظمت سعید نےکہاکہ جےآئی ٹی اپنی تجاویز اورسفارشات دے سکتی تھی،انہوں نےکہاکہ جےآئی ٹی نےجو بہترسمجھا اس کی سفارش کردی۔

    انہوں نےکہاکہ سفارش پرعمل کرنا ہےیانہیں، فیصلہ عدالت نےکرناہے،عدالت نےاپنےمرتب سوالوں کےجواب دیکھنا ہیں۔جسٹس اعجاز الاحسن نےکہاکہ تمام مواد کا جائزہ لیے بغیرتحقیقات آگےنہیں بڑھ سکتی۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نےکہاکہ منی ٹریل آج تک ایک راز ہے،لندن فلیٹ کی منی ٹریل کا جائزہ لینا ہوگا،جس پروزیراعظم کےوکیل نےکہاکہ رپورٹ پرفیصلہ ٹرائل کورٹ کرسکتی ہے سپریم کورٹ نہیں۔

    خواجہ حارث نےکہاکہ سپریم کورٹ تب فیصلہ کرےگی جن ٹرائل کورٹ کےفیصلےپراعتراض ہو۔ جسٹس عظمت نےکہاکہ 17سال پہلےکیس کاجائزہ لیاجاتاتوچیئرمین نیب یہاں نہ ہوتے۔

    جسٹس شیخ عظمت سعید نےکہاکہ کیا چیئرمین نیب ٹی وی نہیں دیکھتے؟اخبار نہیں پڑھتے۔ جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ جےآئی ٹی نےکسی قسم کا فیصلہ جاری نہیں کیا۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نےکہاکہ جےآئی ٹی نےسفارشات دیں فیصلہ عدالت کرےگی ،جس پرخواجہ حارث نےکہاکہ جےآئی ٹی کا مینڈیٹ یہ نہیں تھا کہ وہ سفارشات دے۔

    وزیراعظم کےوکیل نےکہاکہ یک طرفہ طورپرنہیں ہوسکتیں،تحقیقات خفیہ طورپرنہیں ہوسکتیں،انہوں نےکہاکہ تحقیقات قانون اورعدالت کےحکم کےمطابق ہی ہوسکتی ہیں۔

    جسٹس اعجازافضل نےکہاکہ رپورٹ کےکسی ایک حصےکو درست یا غلط کیسےقرار دے دیں،جس پرخواجہ حارث نےکہاکہ جےآئی ٹی کوحدیبیہ پیپرملز کھولنے کی سفارش کا اختیار نہیں تھا۔

    جسٹس شیخ عظمت نےکہاکہ آپ کی بات ہم نےسن لی اورنوٹ بھی کرلی،جس پروزیراعظم کےوکیل نےکہاکہ شریف خاندان کےخلاف مقدمات کی تمام تفصیلات طلب کی گئیں۔

    وزیراعظم کےوکیل نےکہاکہ چیئرمین نیب کوکہاگیامقدمات پراپنی رائے دیں، جسٹس شیخ عظمت سعید نےکہاکہ جے آئی ٹی نےسفارش کردی تو کیا برا کیا۔

    جسٹس اعجاز الاحسن جےآئی ٹی نےصرف سفارش کی ہےحکم نہیں دیا،جسٹس شیخ عظمت نےکہاکہ جےآئی ٹی سفارش سے زیادہ عدالت کا حکم اہم ہوگا۔

    جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ آپ کہتے ہیں ہم کو پوچھا نہیں گیا ،سوالات کےجوابات میں کہا گیا کہ میں نہیں جانتا۔ انہوں نےکہاکہ تمام افراد کوجواب، دستاویز،منی ٹریل کےلیےواضح موقع دیاگیا۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نےکہاکہ جےآئی ٹی سےحقائق چھپائے گئے،انہوں نےکہاکہ جےآئی ٹی سوالات کےجواب میں کہا گیا ہمیں معلوم نہیں ہے۔ جسٹس عظمت سعید نےکہاکہ آپ نےاپنےجواب میں دستاویزات کی تردید نہیں کی۔

    خواجہ حارث نےکہاکہ ہماری درخواست قانونی نکات پرہے،جے آئی ٹی کی رائےکی قانون میں کوئی نظیرنہیں۔ جسٹس اعجاز افضل نےکہاکہ ہم نے جے آئی ٹی کی رائے نہیں میٹیریل دیکھنا ہے۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نےکہاکہ وزیراعظم سے لندن فلیٹ سےمتعلق پوچھا گیا،انہوں نےکہاکہ لندن فلیٹ شاید حسین نواز کا ہے۔ جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ ہم آپ کو وہ بتارہےجووزیراعظم اوربچوں نےجےآئی ٹی میں کہا۔

    جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ جب ہربات کی تردید ہوتوجےآئی ٹی کوکیاکرناچاہیےتھا،وزیراعظم سے پوچھا توکہا یاد نہیں شاید ریکارڈ اسپیکرکو دیا ہو۔

    جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ وزیراعظم نےخط قطری نہ دیکھنے کا موقف اپنایا،جس پروزیراعظم کےوکیل نےکہاکہ ہمیں کوئی دستایزات نہیں دکھائی گئیں۔

    جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہاکہ وزیراعظم توکہتے رہےہمیں معلوم ہی کچھ نہیں،جس پر خواجہ حارث نےکہاکہ 1995سے وزیراعظم کاروبار سے لاتعلق ہوگئےتھے۔

    وزیراعظم کےوکیل نےکہاکہ وزیراعظم کی تنخواہ والےمعاملے پرابھی بات نہیں کروں گا،انہوں نے کہا میرے ذرائع آمدن گوشواروں میں موجود ہیں۔

    خواجہ حارث نےکہاکہ وزیراعظم نےکہا ان کےاوراثاثے ہیں توسامنےلائیں،وزیراعظم سے ایف زیڈکمپنی سے متعلق سوال نہیں کیاگیا۔جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ کہا جاتا ہے کہ گھر میں ہر بات ہوتی ہے۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نےکہاکہ صرف کہا گیا لندن فلیٹس کس کی ملکیت ہےعلم نہیں،وزیراعظم نےکہا فلیٹس حسن یاحسین کی ملکیت ہیں۔ خواجہ حارث نےکہاکہ جے آئی ٹی کی تحقیقات شفاف نہیں،وزیراعظم سے دستاویزات پر موقف نہیں لیا گیا۔

    وزیراعظم کےوکیل نےکہاکہ عدالت ایسی رپورٹ پر حکم ہی نہیں جاری کرسکتی،انہوں نےکہاکہ جے آئی ٹی نے کہا 27 ملین وزیراعظم کو پارٹی سے واپس ملے۔

    خواجہ حارث نےکہاکہ وزیراعظم سے یہ سوال پوچھا ہی نہیں گیا، انہوں نےکہاکہ ریکارڈ کے مطابق 100 ملین نہیں،145ملین پارٹی کودیاگیا۔

    وزیراعظم کے وکیل نےکہاکہ 45ملین روپےقرضہ تھا،100 ملین چندہ دیا گیا،انہوں نےکہاکہ عدالت جب چاہےتمام دستاویزات کاجائزہ لےسکتی ہے۔

    جسٹس شیخ عظمت نےکہاکہ ہیل میٹل سے پیسے پاکستان کیسے آئے،انہوں نےکہاکہ یہ بات آپ نےخود عدالت میں بتائی تھی۔ جسٹس اعجاز الاحسن نےکہاکہ وزیراعظم نےآمدن سیاسی مقاصد کےلیےاستعمال کرنےکی تردید کی۔

    جسٹس شیخ عظمت نےکہاکہ حسن نواز کا وزیراعظم سے کیا تعلق ہے؟ انہوں نےکہاکہ کیا وزیراعظم حسن کےوالد اورایف زیڈ ای کےچیئرمین نہیں؟۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نےکہاکہ کیا وزیراعظم نے اقامہ نہیں لیا تھا؟جسٹس شیخ عظمت نےکہاکہ اقامہ ان دستاویزات پرلیا گیا جس میں املاکی بھی غلطی تھی۔

    جسٹس شیخ عظمت نےکہاکہ جو باتیں جےآئی ٹی نے نہیں پوچھی تھیں آج ہم نے پوچھ لیں،انہوں نےکہاکہ کیاوزیراعظم کا ال راجھی بینک میں اکاؤنٹ تھا۔

    خواجہ حارث نےکہاکہ جی وزیراعظم کاال راجھی بینک میں اکاؤنٹ تھا،جسٹس عظمت سعید نےکہاکہ والیم 10میں لکھاہےکتنی قانونی معاونت آتی ہےکتنی نہیں۔

    جسٹس شیخ عظمت سعید نےکہاکہ والیم 10خفیہ کیوں ہے معلوم نہیں،جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ والیم 10میں شواہد نہیں ہیں شاید اسی لیےبندہے۔

    جسٹس عظمت سعید نےکہاکہ والیم10کاہمیں نہیں معلوم سربمہر کیوں ہے،انہوں نےکہاکہ اصرار کریں تو والیم 10بھی کھولا جا سکتا ہے۔

    وزیراعظم کےوکیل نےکہاکہ وزیراعظم نےایف زیڈای کی بنیاد پراقامہ2012میں لیاتھا،انہوں نےکہاکہ وزیراعظم ایف زیڈای سے تنخواہ نہیں لیتے۔

    خواجہ حارث نےکہاکہ اثاثےآمدن سےزائدہوں توبھی صفائی کاموقع ملتاہے،جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ یہی بات توہم ایک سال سےکررہےہیں۔

    جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ ہمیں تومنی ٹریل اورآمدنی کےذرائع کاپہلےدن سےانتظارہے،جس پرخواجہ حارث نےکہاکہ جےآئی ٹی نےکسی فریق سےدستاویزات پروضاحت ہی نہیں مانگی۔

    جسٹس عظمت سعید نےکہاکہ آپ اپنا جواب ہمارےپاس دےدیں،انہوں نےکہاکہ آپ نےاپنےجواب میں کسی دستاویزکی تردیدنہیں کی۔

    انہوں نےکہاکہ آپ چاہیں تومتفرق درخواست میں دستاویزات چیلنج کرسکتےہیں،جس پر خواجہ حارث نےکہاکہ وزیراعظم نہ توکسی آف شورکمپنی کےمالک ہیں نہ تنخواہ وصول کی۔

    جسٹس عظمت سعید نےکہاکہ جوباتیں جےآئی ٹی نےنہیں پوچھی وہ ہم نےپوچھ لیں بات ختم،وزیراعظم کےوکیل نےکہاکہ عدالت ایسی رپورٹ پرحکم جاری نہیں کرسکتی۔

    جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ وزیراعظم نےجےآئی ٹی کوکہاقطری خطوط نہیں دیکھے،انہوں نےکہاکہ کوئی چیزخفیہ نہیں ضرورت پڑنےپروالیم10کھول دیں گے۔

    جسٹس اعجازافضل نےکہاکہ کہہ چکےہیں کچھ بھی رازمیں نہیں رکھاجائےگا،جسٹس عظمت سعید نےکہاکہ والیم10کوخفیہ جےآئی ٹی نےکیا ہم نےنہیں۔

    جسٹس اعجازافضل نےکہاکہ جےآئی ٹی کی تحقیقات جاری نہیں دفترخالی کرنےکاکہہ دیاہے،انہوں نے کہاکہ بیرون ملک جواب تاخیرسےآیاتویقیناً اس کوآپ سےشیئرکیاجائےگا۔

    جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ جےآئی ٹی نےسوئٹزرلینڈسےجواب مانگاہےجونہیں آیا،انہوں نےکہاکہ آپ کےحق میں بعدمیں کوئی چیزآتی ہےتوکیاہم چھپالیں گے۔

    خواجہ حارث نےکہاکہ عدالت نےطےکرناتھاگلف اسٹیل مل کیسےبنی اورکیسےفروخت ہوئی،انہوں نےکہاکہ عدالت نےطےکرناتھا پیسہ جدہ،لندن اورقطرکیسےگیا۔

    جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ جب تک مکمل تحقیقات نہ ہوں معاملےکودیکھناہوگا،انہوں نےکہاکہ دیکھناتھاکہ رقم کہاں سےآئی۔

    جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ اصل چیزمنی ٹریل کا سراغ لگانا تھا۔ عدالت عظمیٰ نےکہاکہ آپ کہناچاہ رہےہیں جے آئی ٹی کاکسی جائیدادکی تحقیقات کرنامینڈیٹ نہیں تھا۔

    عدالت عظمیٰ نےکہاکہ فیصلےمیں لکھاہےایف آئی اےکےپاس ثبوت ہوں تواس کاجائزہ لیاجاسکتاہے،جس پرخواجہ حارث نےکہاکہ جے آئی ٹی نےآمدن سےزائداثاثوں کوبھی سوال بنالیا۔

    جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ بہت سارےمعاملات کیس میں 13سوالوں سےمطابقت رکھتے ہیں،انہوں نےکہاکہ 13سوالوں کےبغیرتفتیش مکمل نہیں ہو سکتی۔

    جسٹس اعجازالااحسن نےکہاکہ وزیراعظم فلیٹس میں جاتے رہے اورملکیت کاعلم نہیں، انہوں نےکہاکہ یہی بات توہم ایک سال سےکررہےہیں۔جسٹس عظمت سعید نےکہاکہ آپ اپناجواب دےدیں۔

    جسٹس عظمت سعید نےکہاکہ آپ چاہیں تومتفرق درخواست میں دستاویزات چیلنج کرسکتےہیں،انہوں نےکہاکہ آپ کےلیےدروازےبندنہیں کررہے۔

    جسٹس عظمت سعید نےکہاکہ آپ نےاپنےجواب میں کسی دستاویزکی تردیدنہیں کی،انہوں نےکہاکہ کیا آپ کہتےہیں شریف خاندان پرالزامات غلط ہیں۔

    وزیراعظم کےوکیل خواجہ حارث نےکہاکہ جی ہاں الزامات غلط ہیں کاغذات بھی یہی کہتےہیں۔ جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ قانونی معاونت کےمعاہدےکاجائزہ لیاجاسکتاہے۔

    جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ دستاویزات اصل ہوں توسفارت خانے کی تصدیق ضروری نہیں،جس پروزیراعظم کےوکیل نےکہاکہ سفارت خانےکی تصدیق کےبغیردستاویزات کودرست نہیں ماناجاتا۔

    جسٹس شیخ عظمت نےکہاکہ سری لنکاکےایک ریسٹورنٹ کانام منسٹری آف کریب ہے۔ انہوں نےکہاکہ کیکڑوں کی وزارت کےخطوط کاجواب یہاں کونسی وزارت دےسکتی ہے؟۔

    خواجہ حارث نےکہاکہ نجی فرم سےحاصل دستاویزات مصدقہ نہیں،انہوں نےکہاکہ برطانیہ کےتحقیقاتی ادارےکی خدمات جےآئی ٹی نےحاصل کیں۔

    عدالت کی جانب سے کہاگیاکہ کیاآپ کامطلب ہےدستاویزباہمی قانونی تعاون سےحاصل نہیں کی گئیں،جس پروزیراعظم کےوکیل نےکہاکہ قانون سورس دستاویزکی اجازت نہیں دیتا۔

    جسٹس اعجازافضل نےکہاکہ کیاصرف ذرائع سےحاصل دستاویزپرشک کرسکتےہیں،جس پر خواجہ حارث نےکہاکہ دستاویزوزارت خارجہ کےذریعےآتی تومصدقہ ہوتیں۔

    جسٹس عظمت سعید نے خواجہ حارث سےاستفسارکیاکہ دستاویزات کےلیےملکہ برطانیہ کوتوخط نہیں لکھیں گےنا۔ عدالت نےکہاکہ نجی فرم ملکی قانون کےمطابق دستاویزبھجوائےتب بھی مستردکی جاسکتی ہے۔

    خواجہ حارث نےجواب دیاکہ دستاویزات کامتعلقہ حکومت کےذریعےہی ارسال کیاجاناضروری ہے،انہوں نےکہاکہ متعلقہ حکومت نجی فرم سےدستاویزات لےتوتسلیم ہوسکتی ہیں۔

    وزیراعظم کےوکیل نےکہاکہ جےآئی ٹی نےکسی غیرملکی حکومت سےبراہ راست قانونی مددنہیں لی۔

    جسٹس اعجاز نےکہاکہ اثاثوں کوتسلیم کیاگیااب2ہی معاملات ہیں،ہم دیکھیں یااحتساب انہوں نےکہاکہ جےآئی ٹی کامقصد تھاوزیراعظم اورفریقین کوصفائی کاموقع دیاجائے۔

    جسٹس اعجازافضل نےکہاکہ جےآئی ٹی کا مقصدتھا فریقین مؤقف پیش کریں اورثبوت دےسکیں۔ انہوں نےکہاکہ اثاثےتسلیم،رپورٹ کےکسی حصےکی تردیدنہیں کی گئی۔

    جسٹس اعجازافضل نےکہاکہ اثاثوں کوتسلیم ہی نہیں کیاگیا،دستاویزات کےہونےکابھی کہاگیا،جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ وزیراعظم،مریم،حسن اورحسین نےملکیت تسلیم کی۔

    جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ آپ نےخودشواہدکابوجھ اپنےسراٹھایا،انہوں نےکہاکہ آپ کومزیدایک موقع دیاگیاتاکہ دستاویزات جمع کرا سکیں۔

    جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ اپنی حدتک کہہ رہاہوں تاکہ سب دفاع کاموقع حاصل کریں،انہوں نےکہاکہ خیال یہی تھاکہ سب اپنےمؤقف کھل کرپیش کریں گے۔

    جسٹس اعجاز نےکہاکہ وزیراعظم نےخطاب میں دعویٰ کیاجائیدادآمدن کاریکارڈموجودہے،انہوں نےکہاکہ اسپیکرکودستاویزات دی گئیں توپھرہمیں اورجےآئی ٹی کوکیوں نہیں دی گئیں۔

    جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ کہاگیامنی ٹریل موجودہےپھروہ کیوں نہیں دی گئی، عدالت نےکہاکہ کیاآپ امیدکرتےہیں وزیراعظم خطاب میں کچھ کہےاورثبوت نہ ہوں۔

    جسٹس اعجاز افضل نےکہاکہ کیاکوئی دستاویزاس لئےردکی جائےکہ اسےایک فردلےکرآیا،جسٹس عظمت سعید نےکہاکہ 17سال سےنیب بیٹھاہواہےاس کوکچھ پتہ نہیں؟۔

    جسٹس عظمت سعیدشیخ نےکہاکہ بتائیں کیاکریں ہمیں بھی کچھ نہیں بتایا گیا،انہوں نےکہاکہ فلیٹس کامعاہدہ پیش کردیاجاتاتوبات ختم ہوجاتی۔

    جسٹس عظمت سعید نےکہاکہ فلیٹس خریدنےکےذرائع ہمیں اورجےآئی ٹی کونہیں دیےگئے،جسٹس اعجاز الاحسن نےکہاکہ وزیراعظم مریم اورحسن نےکہادستاویزات پیش کریں گے۔

    جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ بارثبوت خودشریف خاندان نےاپنےسرلیاتھا،انہوں نےکہاکہ شریف خاندان نےمنی ٹریل اورذرائع آمدن بتانےکاذمہ لیا۔

    جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ جےآئی ٹی کامقصدشریف خاندان کوموقع دیناتھا،انہوں نےکہاکہ تمام دستاویزات دینےکاموقع فراہم کیاگیا۔ جس پر خواجہ حارث نےکہاکہ جےآئی ٹی نےایساموقع نہیں دیاکسی دستاویزکی وضاحت نہیں مانگی۔

    جسٹس عظمت سعیدشیخ نےکہاکہ اصل معاملہ4فلیٹس کےگردگھومتاہے،انہوں نےکہاکہ سروسزفراہم کرنےکامعاہدہ پیش نہیں ہوا۔

    جسٹس عظمت سعید سےکہاکہ یہاں سےہی مسائل شروع ہوئے،انہوں نےکہاکہ حسین نوازکےمالک ہونےکی ایک بھی دستاویزنہیں دی گئی۔

    جسٹس عظمت سعید نےکہاکہ عدالت میں صرف ٹرسٹ ڈیڈپیش کی گئی،انہوں نےکہاکہ ملکیت کےبغیرٹرسٹ ڈیڈکی کوئی اہمیت نہیں۔

    جسٹس عظمت سعید نےکہاکہ نیب کیس پرسےہلنےکابھی نام نہیں لےرہا،جس پر خواجہ حارث نےکہاکہ یہ جائیدادیں اورملزوزیراعظم کی ملکیت نہیں۔

    جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ ثبوت عدالت کونہیں توجےآئی ٹی کوہی فراہم کردیتے،انہوں نےکہاکہ وزیراعظم نےتمام دستاویزات دینےسےانکارکیا۔

    وزیراعظم کےوکیل نےکہاکہ عدالت تقریر میں تضاد پرکوئی حکم جاری نہیں کرسکتی،انہوں نےکہاکہ عدالت اپنےہی حکم پرنظر ثانی نہیں کرسکتی۔

    جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ مزیداطمینان کےلیےآپ کوموقع فراہم کیاتھا،انہوں نےکہاکہ آپ دستاویزات نہیں دیں گےتوکوئی نکال لےگا۔

    جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ وزیراعظم نےپہلےکہا دستاویزات ہیں اورپھرکہانہیں ہیں،جس پر خواجہ حارث نےکہاکہ عدالت کاحکم وزیراعظم کی تقریرکی بنیادپرنہیں تھا۔

    جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ وزیراعظم کی تقریرریکارڈکاحصہ ہے،انہوں نےکہاکہ ملک کےوزیراعظم نےقومی اسمبلی میں واضح بیان دیاتھا۔

    عدالت عظمیٰ نےکہاکہ رپورٹ اورشواہد کےبعد فیصلہ کریں معاملہ نیب کوبھیجیں یانااہلی کافیصلہ کریں۔ جسٹس عظمت سعید نےکہاکہ عدالت مطمئن نہیں تھی اس لیےدرخواستوں کوخارج نہیں کیا۔

    وزیراعظم کےوکیل نےکہاکہ دستاویزات وزیراعظم کوکیوں نہیں دکھائی گئے،جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ وزیراعظم دستاویزات دینےکےبیان سےبری الذمہ نہیں ہوسکتے۔

    خواجہ حارث نےکہاکہ عدالتی احکامات میں ایسا کچھ نہیں تھا،انہوں نےکہاکہ وزیراعظم کےاثاثےآمدن سےزیادہ تھےتوجے آئی ٹی بتاتی۔

    جسٹس اعجازافضل نےکہاکہ ویزاعظم کاکام تھالندن فلیٹس کی خریداری کےذرائع بتاتے،انہوں نےکہاکہ گلف اسٹیل ملزکےمالک کےسوال پرکہاگیاکہ شاید حسن ہیں۔

    جسٹس اعجازافضل نےکہاکہ لندن فلیٹس کی خریداری کےوقت بچوں کی آمدنی نہیں تھی، انہوں نےکہاکہ وزیراعظم نےتقریرمیں کہا تھاذرائع اوروسائل کاریکارڈ موجودہے۔

    جسٹس اعجازافضل نےکہاکہ سوال یہ ہےمعاملہ احتساب عدالت بھیجناہےیاخودفیصلہ کرناہے،انہوں نےکہاکہ آپ یہاں پردستاویزات سےثابت کریں یاٹرائل کورٹ میں کریں گے۔

    جسٹس شیخ عظمت نےکہاکہ جےآئی ٹی فائنڈنگزنہیں سامنےآنےوالامواداہمیت کاحامل ہے، انہوں نےکہاکہ شریف خاندان کےوکلاکےدلائل بھی جےآئی ٹی کی وجہ بنے۔

    خواجہ حارث نےکہاکہ دستاویزات پرجےآئی ٹی نےجرح نہیں کی،انہوں نےکہاکہ جرح کےبغیرتمام رپورٹ یکطرفہ ہے۔

    وزیراعظم کےوکیل نےکہاکہ رپورٹ کی بنیادپرٹرائل شفاف نہیں ہوسکتا،جسٹس اعجازافضل نےکہاکہ لندن فلیٹس کی خریداری کےوقت بچوں کی آمدنی نہیں تھی۔

    جسٹس اعجازافضل نےکہاکہ ایک جواب سےسب مسئلہ حل ہوسکتاہے،بتادیں یہ اثاثےہیں اوریہ وسائل ہیں۔ جسٹس شیخ عظمت نےکہاکہ سارےثبوت شریف خاندان پرہی ہیں۔

    خواجہ حارث نےکہاکہ جےآئی ٹی نےنوازشریف سےیہ نہیں پوچھا،جس پرجسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ سپریم کورٹ ایک سال سےپوچھ رہی ہےاب بتادیں۔

    وزیراعظم کےوکیل نےکہاکہ عدالت موقع دےگی توضروربتاؤں گا،انہوں نےکہاکہ حکم جاری کرنےسےپہلےکسی فورم نےتوہمیں سنناہے۔

    خواجہ حارث نےکہاکہ جرح کےبغیردستاویزات تسلیم ہوسکتےہیں نہ حکم جاری ہوسکتاہے،جس پر جسٹس اعجازافضل نےکہاکہ آپ کےمطابق جےآئی ٹی نےمینڈیٹ سےتجاوزکیا؟۔

    خیال رہےکہ گزشتہ روز جے آئی ٹی کی حتمی رپورٹ پرسپریم کورٹ میں پہلی سماعت ہوئی تھی،سماعت سے قبل وزیراعظم اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے جےآئی ٹی رپورٹ پر اپنے اعتراضات جمع کروائےتھے۔


    وزیراعظم کے اعتراضات


    سماعت سے قبل وزیراعظم نواز شریف نے جے آئی ٹی رپورٹ پر اپنے اعتراضات جمع کروائے، جس میں موقف اختیار کیا گیا تھاکہ جے آئی ٹی کو عدالت نے 13 سوالات کی تحقیقات کا حکم دیا تھا لیکن ٹیم نے مینڈیٹ سے تجاوز کیا اور باہمی قانونی معاونت کے لیے برطانیہ میں جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء کے کزن کی خدمات لی گئیں۔


    اسحٰاق ڈار کے اعتراضات


    دوسری جانب وزیرخزانہ اسحٰق ڈار نے تحریری اعتراض میں موقف اختیار کیاتھا کہ جے آئی ٹی نے حقائق کو جھٹلا کر غلط بیانی سے کام لیا کہ میں نے ریٹرن فائل نہیں کیے۔

    ان کا مزید کہناتھاکہ جے آئی ٹی کے الزامات غلط اور بے بنیاد ہیں، میرے اور میری اہلیہ سے متعلق ٹیکس ریکارڈ کی تفتیش نیب کرچکا ہے، میرے تمام اثاثے جائز اور ریٹرن میں ظاہر ہیں۔


    پاناما عمل درآمد کیس : پی ٹی آئی کے وکیل کی عدالت سے نوازشریف کو طلب کرنے کی استدعا


    واضح رہےکہ گزشتہ سماعت پرجسٹس اعجاز افضل خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی عمل درآمد بینچ نے مذکورہ کیس کی سماعت کی تھی۔

    سماعت کے دوران پاکستان تحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری، جماعت اسلامی کے وکیل توفیق آصف اور عوامی مسلم لیگ کے شیخ رشید نے دلائل دیےتھے۔

    اپنے دلائل کے دوران پی ٹی آئی وکیل نعیم بخاری نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ وزیراعظم نواز شریف کو عدالت طلب کیا جائے تاکہ ان سے جرح کی جاسکے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • دانیال عزیز کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت 13 جون تک ملتوی

    دانیال عزیز کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت 13 جون تک ملتوی

    اسلام آباد: الیکشن کمیشن نے توہین عدالت کیس میں مسلم لیگ ن کے رہنما دانیال عزیز کو 13 جون تک جواب جمع کرانے کی مہلت دے دی۔

    تفصیلات کےمطابق الیکشن کمیشن آف پاکستان میں مسلم لیگ ن کے رہنما دانیال عزیزکے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت ہوئی،اس دوران چیف الیکشن کمشنر نے دانیال عزیز سے استفسار کیا کہ کیا آپ اپنا جواب جمع کرائیں گے۔

    چیف الیکشن کمشنر کے استفسارپر دانیال عزیز نےکہاکہ الیکشن کمیشن میں میرے خلاف توہین عدالت کی درخواست پردکھ ہوا ہے۔انہوں نےکہا کہ میں وہ شخص ہوں جس نے عدلیہ کی خدمت کی ہے،میں نے تو کہا تھا کہ الیکشن کمیشن ہی سماعت کا اختیار رکھتا ہے۔

    مسلم لیگ ن کے رکن قومی اسمبلی دانیال عزیز کا کہناتھاکہ میرے بیان کو توڑموڑ کرپیش کیا گیا، میں اس درخواست کا جواب دینا چاہتا ہوں،اس لیے وقت دیا جائے۔

    الیکشن کمیشن کے باہر میڈیا سے گفتگوکرتے ہوئے دانیال عزیز کا کہناتھاکہ مجھےالیکشن کمیشن سے کل شام نوٹس ملااورآج حاضرہوگیا۔انہوں نےکہاکہ مجھےراہ سےہٹانےکےلیےوزیربنانےکی مہم شروع کی گئی۔


    تاثر دیا جارہا ہے کہ ن لیگ اداروں کی تذلیل کررہی ہے جبکہ تذلیل اوروں نے کی


    واضح رہےکہ گزشتہ ہفتے دانیال عزیزکا کہنا تھا کہ یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ ن لیگ اداروں کی تذلیل کررہی ہے حکومتی اداروں کی تذلیل اوروں نے کی ہے۔


    اگرآپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پرشیئرکریں۔

  • حسین نواز کا پاناماکیس کی تحقیقاتی ٹیم کےدو ممبران پراعتراض ‘درخواست کی سماعت آج ہو گی

    حسین نواز کا پاناماکیس کی تحقیقاتی ٹیم کےدو ممبران پراعتراض ‘درخواست کی سماعت آج ہو گی

    اسلام آباد: سپریم کورٹ وزیراعظم نوازشریف کے صاحبزادے حسین نوازکی جانب سےپاناماکیس کی تحقیقات کرنے والی 6رکنی ٹیم کے دوارکان پراعتراض سے متعلق درخواست کی سماعت آج کرے گی۔

    تفصیلات کےمطابق حسین نواز نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی جس میں سکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن کے اہلکار بلال رسول اور اسٹیٹ بینک کے عامر عزیز پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔

    وزیراعظم نوازشریف کے بیٹے کی جانب سے دائر درخواست میں موقف یہ اختیار کیا گیا ہے کہ دونوں افراد کا تعلق سابق فوجی حکمران پرویز مشرف اور سابق حکمران جماعت مسلم لیگ ق سے ہے جبکہ سکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن کے اہلکار بلال رسول کی اہلیہ 2013 کے انتخابات میں مسلم لیگ ق کی جانب سے خواتین کی مخصوص نشستوں پر امیدوار بھی تھیں۔

    حسین نواز کی جانب سے درخواست میں کہا گیا تھا کہ عامر عزیزنے ان کے والد نواز شریف کے خلاف حدیبہ پیپرز ملز کے مقدمے میں تحقیقات کی تھی لہذٰا ایسے حالات میں مذکورہ افسر جانبداری کا مظاہرہ کریں گا اور اس سے نہ صرف مقدمہ اثر انداز ہو گا بلکہ یہ آئین اور قانون کے بھی منافی ہو گا۔


    حسین نواز نے بیان ریکارڈ کرادیا،30 مئی کو دوبارہ طلبی


    یاد رہےکہ گزشتہ روز پاناما کیس کی تحقیقات کرنے والی چھ رکنی جے آئی ٹی ٹیم کے سامنے وزیراعظم نوازشریف کے بیٹے حسین نواز نے جوڈیشل اکیڈمی میں اپنا بیان ریکارڈ کرایاتھا بعد ازاں انہیں سوال نامہ دیا گیا اور 30 مئی کو دوبارہ طلب کیا گیا ہے۔

    واضح رہےکہ 22 مئی کو وزیراعظم اور اُن کے دو بیٹوں کے خلاف پاناما لیکس سے متعلق تحقیقات کرنے والی ٹیم پرسپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے واضح کیا تھا کہ تحقیقاتی ٹیم کو اپنا کام مکمل کرنے کے لیے 60 روز سے زیادہ کی مہلت نہیں دی جا سکتی۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں

  • الیکشن کمیشن میں عمران خان کی نااہلی کےلیےدائردرخواست بحال

    الیکشن کمیشن میں عمران خان کی نااہلی کےلیےدائردرخواست بحال

    اسلام آباد: الیکشن کمیشن آف پاکستان نےعمران خان کی نااہلی کے لیےدائر درخواست کو بحال کرتے ہوئے 23 مئی تک جواب طلب کرلیا۔
    تفصیلات کےمطابق الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پارٹی فنڈنگ کیس میں چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی نااہلی کے لیے ہاشم علی بھٹہ کی دائرپٹیشن کو بحال کرتے ہوئے 23 مئی تک جواب طلب کرلیا۔

    چیف الیکشن کمشنر جسٹس ریٹائرد سردار رضا خان کی سربراہی میں الیکشن کمیشن کے 5 رکنی بینچ نے عمران خان کی نااہلی کے لیے دائردرخواست کو سماعت کے لیے بحال کیا۔

    درخواست گزارہاشم علی بھٹہ نے موقف ہےکہ عمران خان نے الیکشن کمیشن کے روبرو جھوٹ بولا جس کے بعد وہ آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 پرپورا نہیں اترتے اس لیےانہیں نااہل قرار دیا جائے۔

    خیال رہے کہ الیکشن کمیشن نے رواں سال 16 جنوری کو عدم پیروی اور ہاشم علی بھٹہ اور ان کے وکیل کے کمیشن کےسامنے پیش نہ ہونے پر درخواست کو خارج کردیا تھا۔

    بعد ازاں درخواست گزار کے وکیل شرافت چوہدری نےدوبارہ بحالی کے لیے درخواست دی تھی۔


    فنڈز خوردبرد کیس، چیف الیکشن کمشنر نے پی ٹی آئی کو 17 مئی کی آخری مہلت دے دی


    دوسری جانب عمران خان کے وکیل شاہد گوندل نے کمیشن سے اس پٹیشن کو خارج کرنے کی استدعا کی تھی۔ان کاکہناتھاکہ سپریم کورٹ میں بھی اسی نوعیت کی ایک پٹیشن زیرسماعت ہے۔

    شاہد گوندل کا کہناتھاکہ حنیف عباسی اسی نوعیت کی درخواست سپریم کورٹ میں دائر کرچکے ہیں لہذا کمیشن کو اس کے فیصلے کا انتظار کرنا چاہیئے۔

    درخواست گزار کےوکیل شرافت چوہدری کاکہناتھاکہ میری پٹیشن پی ٹی آئی کی غیرملکی فنڈنگ کے حوالے سے نہیں میرا ماننا ہے کہ عمران خان نے غیرقانونی ذرائع سے پارٹی فنڈز اکھٹا کیے اور جعلی حلف نامہ جمع کرایا۔

    واضح رہےکہ الیکشن کمیشن نے عمران خان کی نااہلی کے لیے دائر درخواست کو بحال کرتے ہوئے جواب 23مئی تک جواب طلب کرلیا۔

  • پاناماکیس : نام آگئےجےآئی ٹی آج ہی تشکیل دی جائے گی‘سپریم کورٹ

    پاناماکیس : نام آگئےجےآئی ٹی آج ہی تشکیل دی جائے گی‘سپریم کورٹ

    اسلام آباد :سپریم کورٹ کےتین رکنی بینچ نےپاناماکیس کی سماعت مکمل کرلی۔عدالت عظمی کاکہناہےکہ نام آگئے ہیں اور جے آئی ٹی آج ہی تشکیل دی جائے گی۔

    تفصیلات کےمطابق پاناماکیس میں سپریم کورٹ کے تین رکنی خصوصی بینچ نےجسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں جے آئی ٹی کی تشکیل کےحوالےسےسماعت کی۔

    سپریم کورٹ میں سماعت کےدوران قائم مقام گورنراسٹیٹ بینک اور چیئرمین ایس ای سی پی عدالت میں پیش ہوئے۔دونوں اداروں میں کام کرنےوالےگریڈ18کےافسران کی فہرست عدالت میں پیش کی گئی۔

    جے آئی ٹی کی تشکیل کے لیے سماعت کےدوران جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ جے آئی ٹی کےلیے بھیجے گئے نام باہرکیسے نکلے؟ادارے سیکریسی برقرار کیوں نہیں رکھ سکتے؟

    جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ فہرست عدالت پہنچنے سے پہلے اداروں نے نام خود آؤٹ کیے۔انہوں نےکہاکہ آپ کے بھیجےہوئے ناموں کی تصدیق کرائی گئی ہے۔

    عدالت عظمیٰ میں سماعت کےدوران جسٹس اعجازالاحسن نے ریماکس دیے کہآپ کے بھیجے ہوئے ناموں کی تصدیق کرائی گئی ہے۔انہوں نےکہاکہ ایسے لگا ہمارے ساتھ کھیل کھیلا جارہا ہے۔

    جسٹس عظمت سعید شیخ نے سماعت کےدوران ریماکس دیےناموں کی سیاسی وابستگی سے متعلق منفی رپورٹ ملی ہےجبکہ نام لیک ہونے کے ذمہ دار اداروں کے سربراہ ہیں۔جسٹس اعجازالاحسن نے سوال کیا کہ متنازع کمیشن کا فائدہ کس کو ہوگا؟۔


    پاناما کیس : سپریم کورٹ نے دو جے آئی ٹی ممبران کے نام مسترد کردیے


    خیال رہےکہ 3مئی 2017 کوسپریم کورٹ نے پاناماکیس میں جے آئی ٹی کے لیے اسٹیٹ بینک اور ایس ای سی پی کی جانب سے بھیجے گئے ناموں کو مستردکردیاتھاجبکہ دیگر چار اداروں كی طرف سے بھجوائے گئے نام عدالت عظمی نے منظور کرلیےتھے۔

    یاد رہےکہ پاناماکیس میں سپریم کورٹ کے20اپریل کے فیصلےپر عمل درآمد کرانے کےلیےعدالت عظمیٰ کےلارجربینچ نے چیف جسٹس پاکستان سے خصوصی بینچ تشکیل دینے کی درخواست کی تھی۔

    سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نےفیصلے میں شریف خاندان پرلندن جائیدادوں کےحوالےسےلگائےگئے الزامات کی تحقیقات کےلیےمشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دینے کا حکم بھی دیا گیا تھا۔

    واضح رہےکہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے تین رکنی بینچ کی جانب سےجے آئی ٹی تشکیل دے گی جو 15 روز بعد اپنی عبوری رپورٹ عدالت میں پیش کرے گی جبکہ 60 روز میں تحقیقات مکمل کرکے اپنی حتمی رپورٹ بینچ کےسامنےجمع کرائے گی۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔