Tag: سماعت

  • وزیراعظم نے سرکاری حیثیت کوذاتی مفاد کےلیےاستعمال کیا،سراج الحق

    وزیراعظم نے سرکاری حیثیت کوذاتی مفاد کےلیےاستعمال کیا،سراج الحق

    اسلام آباد: جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کا کہناہےکہ سپریم کورٹ میں ہماراکیس فرد نہیں کرپشن کے خلاف ہے،انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے سرکاری حیثیت کو ذاتی مفاد کے لیے استعمال کیا۔

    تفصیلات کےمطابق سپریم کورٹ میں پاناماکیس کی سماعت کے بعد میڈیا سےگفتگوکرتے ہوئے جماعت اسلامی کے سربراہ سراج الحق نے کہا کہ ہمارا کیس ملک کو خوشحال بنانے کے لیے ہیں۔

    سراج الحق کا کہناتھاکہ جب کسی بڑے کوسزا ہوئی قانون کی عملداری قائم ہوجائے گی،انہوں نے کہا کہ اچھی قوم بننے کے لیے صاف ستھری قیادت کی ضرورت ہے۔

    جماعت اسلامی کے امیر نے کہاکہ ہم سمجھتے ہیں حکومت پاناما اسکینڈل میں بری طرح پھنس گئی ہے،جبکہ حکومت کے پاس سچ بولنے کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے۔

    سراج الحق نے کہا کہ وکیل پرپورا اعتماد ہے وہ بھرپور تیاری کےساتھ بول رہے ہیں،انہوں نے کہا کہ عدالت عظمیٰ حق وسچ کافیصلہ کرے گی۔

    واضح رہےکہ پاناماکیس میں جماعت اسلامی کے وکیل نے وزیراعظم کی نااہلی سے متعلق درخواست پر دلائل دیے جس کے بعد سماعت پیر تک ملتوی کردی گئی۔

  • آف شور کمپنیاں بنانا غیر قانونی نہیں‘ٹیکس اور اثاثے چھپانا غیر قانونی ہے‘جسٹس آصف سعید کھوسہ

    آف شور کمپنیاں بنانا غیر قانونی نہیں‘ٹیکس اور اثاثے چھپانا غیر قانونی ہے‘جسٹس آصف سعید کھوسہ

    اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان میں پاناماکیس کل تک کے لیےہوگئی،وزیراعظم کے وکیل مخدوم علی خان کے دلائل مکمل ہوگئے۔

    تفصیلات کےمطابق سپریم کورٹ میں پاناماکیس کی سماعت جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں عدالت کے پانچ رکنی لارجر بینچ نےکی۔

    پاناماکیس کی سماعت کے آغاز پر مریم صفدر کے وکیل کی جانب سے وزیراعظم کی بیٹی کے نام خریدی گئی جائیداد کی دستاویزات عدالت میں پیش کی گئی۔

    وزیراعظم کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل کا آغازکرتے ہوئے کہاکہ والد نے بیٹی کے نام زمین خریدی،مریم نے قیمت ادا کی تو جائیداد بیٹی کو ٹرانسفر کر دی گئی۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ الزام بے نامی جائیداد کی خریداری کا ہے،جسٹس اعجازافضل نےکہاکہ ان عدالتی فیصلوں میں دو فریقین کے درمیان تنازع تھا۔

    جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ اس کیس میں فریقین کے درمیان جائیداد کی ملکیت کا کوئی تنازع نہیں،جسٹس گلزاراحمد نےکہاکہ زیر کفالت ہونے کا فیصلہ حقائق کی بنیاد پر کرسکتے ہیں۔

    جسٹس گلزار احمد نےکہا کہ ہماری تشویش زیر کفالت سے متعلق حقائق پر ہے،اس حوالے سے حقائق پیش کیے جائیں۔جس پر وزیراعظم کے وکیل نے کہاکہ مریم نواز کسی کے کفالت نہیں ،مالی طور پر خود مختار ہیں۔

    مخدوم علی خان نے کہا کہ مریم کے اثاثوں سے اندازہ لگایا جاسکتا ہےوہ اخراجات کیسے برداشت کرتی ہیں،انہوں نے کہاکہ اس ضمن میں مزید حقائق شامد حامد پیش کریں گے۔

    مخدوم علی خان نے دلائل دیتےہوئے کہاکہ ہر ٹرانزیکشن کو بے نامی نہیں کہا جاسکتا،جبکہ بے نامی ٹرانزیکشن کی قانون میں باقاعدہ تعریف ہے۔

    وزیر اعظم کے وکیل نے بے نامی جائیداد سے متعلق ایک فیصلے کا حوالہ بھی دیا،جس پر جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ وکیل صاحب آپ نے خود کہا جائیداد نام پر رکھی گئی۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نےکہاکہ مریم کو تحفے میں رقم دی گئی جو اس نے بعد میں والد کوواپس کی،انہوں نے کہا کہ تحفے میں دی گئی رقم کی واپسی کے بعد جائیداد مریم کو مل گئی۔اس سے لگتا ہے مریم نواز والد کی زیر کفالت ہیں۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نےکہا کہ مریم نواز کے مالی حالات میں 2011 کے بعد بہت تبدیلی آئی،جس پر وزیراعظم کے وکیل نے کہا کہ مریم نواز 2010 میں بھی والد کے زیر کفالت نہیں تھیں۔

    جسٹس شیخ عظمت کہا کہ معاملہ الیکشن کا نہیں نواز شریف کی بطور وزیر اعظم اہلیت کا ہے،وزیر اعظم کے عہدہ رکھنے کو چیلنج کیا گیاہے۔

    وزیراعظم کے وکیل نے کہا کہ محمود اختر نقوی کیس میں ارکان اسمبلی کو نااہل کیا گیا تھاوزیر اعظم کو نہیں،نواز شریف کی نااہلی بطور رکن اسمبلی ہو سکتی ہے۔

    جسٹس شیخ عظمت نے کہا کہ دوسرے فریق کا کہنا ہےنواز شریف اب رکن قومی اسمبلی نہیں رہے،جسٹس آصف سعید کھوسہ نےکہا کہ یہاں پر معاملہ رٹ آف کو وارنٹو سے بالاتر ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ عوامی اہمیت کا کیس ہے۔

    پاناماکیس کی سماعت کے وقفے کےدوران مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کی میڈیا سے گفتگو

    سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے دانیال عزیز کا کہناہے کہ کل کےدلائل پرآج وضاحت دی گئی،انہوں نے کہا کہ عمران خان اپنی پٹیشن میں کرپشن، ٹیکس چوری سے ہٹ چکے۔

    مسلم لیگ ن کے رہنما دانیال عزیزکا کہناتھا کہ عمران خان کہتے ہیں ہمارا کیس غلط بیانی کا ہے،انہوں نے کہا کہ رپورٹ کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جارہا ہے۔

    دانیال عزیز کا کہناہے کہ تحریک انصاف مقدمے سے متعلق تذبذب کا شکار ہے،انہوں نے کہا کہ نوازشریف عدالت کے سامنے سرجھکائے کھڑے ہیں۔

    مسلم لیگ ن کے رہنما کا کہناہے کہ عمران خان کہتے ہیں میں پاناما پرکمیشن نہیں بننے دوں گا،انہوں نےکہا کہ گالی گلوچ کے ذریعے اداروں کودباؤ میں لانے کی کوشش کی جارہی ہے۔

    دانیال عزیز کا کہناہےکہ وزیراعظم کے خلاف بغیرثبوت مقدمہ چلایا جارہا ہے،انہوں نے کہا کہ منفی ہتھکنڈے اور وارداتیں کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

    مسلم لیگ ن کے رہنما طارق فضل چوہدری کا کہناہےکہ تحریک انصاف مقدمے کو غلط رنگ دینے کی کوشش کررہی ہے،انہوں نےکہا کہ پی ٹی آئی کا ہر لیڈر سماعت کو اپنا ایک رنگ دیتا ہے۔

    طارق فضل چوہدری نے کہا کہ تحریک انصاف عدالت عظمیٰ کو دباؤ میں لانے کی کوشش کررہی ہے،انہوں نےکہا کہ عدالتیں دباؤ میں نہیں آیا کرتیں لیکن پی ٹی آئی کی کوشش پوری ہے۔

    تحریک انصاف کے رہنما کی سپریم کورٹ کے باہرمیڈیا سے گفتگو

    تحریک انصاف کے رہنما فواد چودھری نے سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئےکہا کہ وزیراعظم کے وکیل نے ایک بھی سوال کاحقائق پرمبنی جواب نہیں دیا۔

    فواد چودھری کا کہناتھاکہ یہ کہتے ہیں وزیراعظم کی تقریر کو ریکارڈ پرنہ لایا جائے،انہوں نے کہا کہ پہلے پیسے باہر گئے،پھر بیٹے نے اپنے والد کو بھیجے۔والد نے اپنی بیٹی کو دیے،بیٹی نے والد سے زمین خریدلی۔

    پاناماکیس کی سماعت کی وقفے کےبعد دوبارہ آغاز پر جسٹس آٓف سعید کھوسہ نے کہا کہ آف شور کمپنیاں بنانا غیر قانونی نہیں،انہوں نے کہا کہ ٹیکس اور اثاثے چھپانا غیر قانونی ہے۔

    وزیراعظم کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ 184/3کا اختیار یقینی طور پر عدالت قانون کے مطابق استعمال کرے گی۔جسٹس اعجاز افضل نے کہاکہ جب تک کسی دستاویز کی تصدیق نہ ہو جائے فیصلے کا حصہ نہیں بنایا جا سکتا۔

    مخدوم علی خان نے کہا کہ دوسری جانب سے کتابوں کے حوالے دیے گئے ہیں، انہوں نے کہا کہ میں بھی کتاب عدالت کے سامنے رکھتا ہوں۔جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نےکہا کہ کتاب میں مصنف کی رائے پر یقین نہیں کر سکتے۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ نےکہا کہ مقدمہ ہائی کورٹ میں ہو اور سپریم کورٹ میں آجائے تو کیا کہیں گے،انہوں نے کہا کہ 1993میں نواز شریف حکومت کے خاتمے کا مقدمہ سپریم کورٹ میں سناگیا۔

    جسٹس اعجاز افضل نےکہاکہ ہائی کورٹ کا فیصلہ ہو تو کیاپھربھی ایسا کیس سپریم کورٹ سن سکتی ہے،انہوں نے کہاکہ فوجداری کیس میں کسی کتاب کے مصنف کو بھی بلانا پڑتا ہے۔

    وزیراعظم کے وکیل نے کہا کہ معاملات برسوں ہائی کورٹ میں رہیں تو سپریم کورٹ سماعت کر سکتی ہے،انہوں نے کہا کہ عدالتی فیصلوں کے تحت اخباری خبریں شواہد نہیں،قانون شہادت کے تحت خبروں کو قانون کے تناظر میں دیکھا جاتا ہے۔

    مخدوم علی خان نے کہا کہ 184/3کے تحت اخباری خبر کوعدالت مختلف انداز سے دیکھتی ہے،جس پر جسٹس عظمت شیخ نے کہاکہ 184/3کے کچھ مقدمات میں سپریم کورٹ نے اپنے اختیار کو وسیع کیا۔

    جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ ان مقدمات میں شواہد کا جائزہ لے کرحقائق تک پہنچاگیا۔عدالت نےکہا کہ اٹھاون ٹوبی کے تحت سپریم کورٹ نےحکومتوں کی برطرفی کے مقدمات سنےاورفیصلے کیے۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ نےکہا کہ کیا عدالت واقعاتی یا نتیجہ شہادت کا جائزہ نہیں لے سکتی ہے،جس پران مقدمات میں جائزہ لیا فیصلہ لیتے وقت صدرکے سامنے کوئی مواد تھا یا نہیں۔جسٹس اعجاز افضل نےکہاکہ جرم کی سزا پانچ سال ہے تو براہ راست نااہلی کی سزا ہمیشہ کے لیے ہو گی۔

    واضح رہے کہ پاناما کیس میں وزیراعظم کے دلائل مکمل ہوگئے،سپریم کورٹ نے سماعت کل تک لیے ملتوی کردی۔

  • پاناماکیس: وزیراعظم کے وکیل بھارتی آئین کےحوالے دینے لگے

    پاناماکیس: وزیراعظم کے وکیل بھارتی آئین کےحوالے دینے لگے

    اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان میں پاناماکیس کی سماعت کل تک کے لیے ملتوی ہوگئی،وزیراعظم نوازشریف کے وکیل کل بھی اپنےدلائل دیں گے۔

    تفصیلات کےمطابق سپریم کورٹ آف پاکستان میں جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں عدالت کے پانچ رکنی لارجربینچ نے کیس کی سماعت کی۔

    پاناماکیس کی سماعت کے آغاز پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے وزیراعظم کے وکیل سے کہاکہ آپ کو کتنا وقت لگےگا،جس پر انہوں نے کہا کہ تقاریر میں تضاد،زیر کفالت اور دائرہ اختیار پر بات کروں گا۔

    مخدوم علی خان نے کہا کہ کوشش ہوگی آج63،62پردلائل مکمل کروں،جبکہ انہوں نے کہا کہ وکلا نے آج عدالت میں داخلے سےروکا۔وکلاکاکہناہےشام تک مطالبات منظورنہ ہوئےتوکل نہیں آنےدیں گے۔

    وزیراعظم کے وکیل مخدوم علی خان نے کہاکہ وعدہ کرتا ہوں بطور وکیل اپنے دلائل نہیں دہراؤں گا۔

    مخدوم علی خان نے دلائل دیتے ہوئےڈاکٹرمبشرحسن کیس کافیصلہ پڑھ کرسنایا،مبشرحسن کیس میں وفاق کو جاری ہدایت پرعمل نہ ہوا۔

    وزیراعظم کے وکیل نے کہاکہ یکم اپریل کوعدالت نےوفاق کوسوئس حکام کوخط لکھنےکاکہا تو26اپریل 2012 کووزیر اعظم کوسزاسنائی گئی۔

    مخدوم علی خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ 4مئی کواسپیکر نےرولنگ دی تومعاملہ سپریم کورٹ آیا،جبکہ 19جون کوعدالت نےیوسف رضاگیلانی کوہٹانے کاحکم دیا۔

    وزیراعظم کے وکیل نے کہاکہ نااہلی کےتمام مقدمات میں فیصلہ شواہدریکارڈکرنےکےبعدہوا۔جسٹس شیخ عظمت سعید نےکہا کہ دہری شہریت کافیصلہ سپریم کورٹ نےکیاتھا،آپ اس نکتےکوکیوں بھول جاتےہیں؟۔

    مخدوم علی خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ یوسف رضا گیلانی کیس میں 7رکنی بینچ نے فیصلہ دیا تھا،لارجر بینچ کے فیصلے کی روشنی میں یوسف رضا گیلانی کی نااہلی کا فیصلہ آیا۔

    وزیراعظم کے وکیل کے دلائل کے دوران جماعت اسلامی کے وکیل ڈائس پر آگئے،انہوں نے کہاکہ جن فیصلوں کاحوالا دیا جارہا ہے ان کی نقول فراہم کی جائیں۔

    جسٹس شیخ عظمت نےکہا کہ آپ اپنا کیس پیش نہیں کررہے تو نقول کاکیاکریں گے،جس پر جماعت اسلامی کے وکیل توصیف آصف نے کہا کہ ایک2 روز میں درخواست جمع کر ادیں گے۔

    مخدوم علی خان نے کہا کہ دہری شہریت کے حوالے سے آرٹیکل تریسٹھ ون سی واضح ہے،جس پر جسٹس عظمت نے کہا کہ دہری شہریت کے فیصلے میں یہ بھی واضح ہےعدالت دائرہ اختیاررکھتی ہے۔

    جسٹس عظمت نے کہا کہ عدالت نے صرف یہ دیکھنا ہوتا ہے ریکارڈ سے کیس ثابت ہوتا ہے یا نہیں،جس کےجواب میں وزیراعظم کے وکیل نے کہاکہ عدالت نے ہر کیس کا حقائق کے مطابق جائزہ لیا تھا۔

    مخدوم علی خان نے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ دہری شہریت کے حامل افراد کو صفائی کا موقع بھی دیا گیا،دہری شہریت کے فیصلےکی بنیاد پر تقاریر پر نااہلی نہیں ہوسکتی۔

    جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہاکہ عدالت نے اپنے اطمینان کے بعد کیسوں کی سماعت کی،جن اراکین نے دہری شہریت سے انکار کیا ان کے مقدمات بھی سنے گئے۔

    وزیراعظم کے وکیل نے کہا کہ میرے دلائل کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ سپریم کورٹ کیس نہیں سن سکتی،انہوں نے کہا کہ 62/1ایف، 63/1اطلاق کے طریقے کار مختلف ہیں۔

    جسٹس آصف سیعد کھوسہ نے کہا کہ62/1 کے حوالے سے کوئی طے شدہ پیٹرن نہیں،ممکن ہے اس حوالے سے آئندہ بھی متعدد فیصلے آئیں۔انہوں نے کہا کہ 62،63 کا اطلاق کیس کے حقائق کے مطابق ہوتا ہے۔

    مخدوم علی خان نے کہا کہ رینٹل پاور کیس میں عدالت نے راجہ پرویز اشرف کے خلاف آبزرویشن دی،جس کے باوجودراجہ پرویز اشرف کے خلاف نا اہلی کا فیصلہ نہیں دیا۔

    سپریم کورٹ کےباہرتحریک انصاف کے رہنماؤں کی میڈیا سے گفتگو

    تحریک انصاف کے ترجمان نعیم الحق کا سپریم کورٹ کےباہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہناتھاکہ سپریم کورٹ بار کےساتھ دھوکا کرنے والوں کو شرم آنی چاہیے۔

    تحریک انصاف کے رہنما نعیم الحق کا کہناتھاکہ پاناما کیس کاتاریخی فیصلہ اسی ہفتے آئے گا۔بعدازاں میڈیاسے گفتگوکرتے ہوئے فواد چوہدری کا کہناتھاکہ مخدوم علی خان کہہ رہے ہیں عدالت سچ تک نہ پہنچے۔

    انہوں نے کہا کہ مخدوم علی خان جوکتابیں پڑھ رہے ہیں ان کاکیس سے تعلق نہیں،جبکہ مخدوم علی خان کے دلائل کے دوران لوگ سو رہےتھے۔

    تحریک انصاف کے رہنما کا کہناتھاکہ سپریم کورٹ کا وقت قیمتی ہے اس کوضائع نہ کیاجائے،انہوں نے کہا کہ امید کرتے ہیں مخدوم علی خان ٹیکنیکل باتوں کے پیچھے نہیں چھپیں گے۔

    فواد چوہدری کا کہناتھاکہ نوازشریف کے بچوں کے پاس اربوں روپے کہاں سے آئے،وزیراعظم کےوکیل کو چار سوالات کاجواب ضروردیناہوگا۔

    سپریم کورٹ کے بعد مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کی میڈیاسےگفتگو

    سپریم کورٹ کےباہر میڈیا سےگفتگوکرتےہوئےمسلم لیگ ن کے رہنما دانیال عزیز کاکہناتھاکہ عمران خان کے پیش کئے گئے ثبوت غیرمعیاری ہیں،وزیراعظم کے وکیل نے کیس کوقابل سماعت ہونے کوچیلنج نہیں کیا۔

    دانیال عزیز کا کہناتھاکہ پی ٹی آئی والے مانتے ہیں نوازشریف کاپاناما میں نام نہیں ہے،انہوں نے کہا کہ یہ لوگ عوام کو ایک شکل دکھاتے ہیں،عدالت میں بھیس بدل کرآتے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف کے پاس کسی قسم کاکوئی ثبوت نہیں ہے،یہ لوگ حیلے بہانوں سے عدالت کی کارروائی سے فرار ہورہے ہیں۔

    مسلم لیگ ن کے رہنما دانیال عزیز کا کہناتھاکہ وزیراعظم نے پہلے دن کہاتھا وہ خودکوعدالت کے سامنے پیش کرتے ہیں۔

    مسلم لیگ ن کی رہنما مائزہ حمید کا کہناتھاکہ عمران خان اپنی جائیدادیں چھپانے کی کوشش کررہے ہیں،انہوں نے کہاکہ خان صاحب یہ چھپنے والا نہیں سب کچھ عدالت میں آگیا ہے۔

    پاناما لیکس سےمتعلق درخواست پروقفے کےبعد دوبارہ سماعت پرعدالت نےکا کہاکہ آپ کہنا چارہے ہیں 184/3کے تحت عدالت تصدیق شدہ حقائق سن سکتی۔

    مخدوم علی خان نے دلائل دیتےہوئے کہاکہ تقریر، ٹیکس،مریم نوازکا زیر کفالت ہونا تین مختلف معاملات ہیں،ہر پہلو پر الگ الگ دلائل دوں گا۔

    وزیراعظم کےوکیل نے دلائل دیتےہوئے کہا کہ جہاں ریکارڈ متنازع ہو وہاں سپریم کورٹ براہ راست کارروائی نہیں کرسکتی۔

    جسٹس شیخ عظمت نےکہا کہ سپریم کورٹ ایک عدالت ہے اور کئی کیسز میں ڈکلیریشن دے چکی ہے۔

    وزیراعظم کے وکیل نے کہا کہ عدلیہ مخالف تقاریر پر رفیق تارڑ کے کاغذات مسترد ہوئے تھے،عدالت نےقرار دیا اخباری تراشوں پر کسی کو ڈی سیٹ نہیں کیا جاسکتا۔

    جسٹس عظمت سعید نے کہاکہ صدر رفیق تارڑ نے کیا اپنی تقریر کی تردید کی تھی،کیا آپ وزیر اعظم کی تقریر کی تردید کر رہے ہیں؟۔

    جسٹس اعجاز الاحسن استفسار کیا کہ آپ انٹرویوز سے انکار کر رہے ہیں جو تقریر کے مطابق نہیں؟جس پرمخدوم علی خان آرٹیکل 66 کے تحت اسمبلی کارروائی کو عدالت میں نہیں لایا جاسکتا۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ وزیر اعظم نے خود ہی استثنیٰ لینے سے انکار کیا تھا،جسٹس عظمت سعید نےکہا کہ کیا اس استثنیٰ کو ختم کیا جاسکتا ہے؟۔

    وزیراعظم کے وکیل نے کہا کہ یہ استثنیٰ پارلیمنٹ کو حاصل ہے وہی اس کو ختم کر سکتی ہے،جس پر جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ استثنیٰ اور استحقاق میں کچھ تو فرق ہوتا ہے؟۔مخدوم علی خان نے کہا کہ عدالت کو تعین کرنا ہوگا دو افراد میں کون سچا ہے۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ زیر سماعت مقدمہ مختلف نوعیت کاہے،انہوں نےکہا کہ تقریر کسی موقف کو ثابت کرنے کے لئے کی گئی تھی۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ایک طرف آپ کہتے ہیں جھوٹ نہیں بولا دوسری طرف استثنیٰ مانگ رہے ہیں۔جسٹس گلزار نے کہا کہ آرٹیکل 66 کو شامل کرنے کا مقصد اراکین کو آزادی اظہار رائے کا حق دینا تھا۔

    جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ آرٹیکل 66 آزادی اظہار رائے کو تسلیم کرتا ہے،آزادی اظہار رائے الگ تقریر عدالتی کارروائی میں شامل کرنا الگ ہے۔

    جسٹس کھوسہ نے کہا کہ ان تقاریر سے صرف معاملے کا اندازہ لگانے کی کوشش کی جارہی ہے،جس پر وزیراعظم کے وکیل نے کہا کہ پارلیمنٹ میں صرف ججز کے کنڈکٹ پر بات نہیں کی جاسکتی۔

    مخدوم علی خان نے کہا کہ مجلس شوری میں اظہار رائے کی مکمل آزادی ہوتی ہے،جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہاکہ وزیر اعظم کی تقریر کی حیثیت صرف اسمبلی کا بیان نہیں،عدالت میں وزیراعظم کی تقریر پر انحصار کیا جارہا ہے۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ پہلے آپ نے کہا کہ کوئی غلط بیانی نہیں کی،بعد میں کہہ رہے ہیں اگر غلط بیانی کی بھی ہے تو استثنیٰ حاصل ہے۔

    جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ اسمبلی میں تقریر کو استثنیٰ حاصل ہے،انہوں نے کہاکہ کیا اس تقریر کو عدالت میں کیس کی بنیاد بنایا جاسکتا ہے؟۔

    جسٹس آصف کھوسہ نے کہاکہ عدالت میں معاملہ صرف تقریر پر کارروائی کا نہیں ہے، مخدوم علی خان نے کہا کہ وزیراعظم کی تقاریر کا جائزہ آئین کے مطابق ہی لیا جا سکتا ہے۔

    جسٹس شیخ عظمت سعیدنے کہا کہ آرٹیکل باسٹھ بھی آئین کا ہی حصہ ہے،جس پر مخدوم علی خان نے کہاکہ آئین کے مطابق جائزہ لینے کے معاملے پر عدالتی فیصلے موجود ہیں۔

    جسٹس شیخ عظمت نے استفسار کیا کہ کیا اسمبلی میں کی گئی غلط بیانی پر آرٹیکل 62کا اطلاق نہیں ہوتا؟۔جس پر وزیراعظم کےوکیل نے کہا کہ بھارتی عدالتوں کے ایسے فیصلے موجود ہیں کہ اطلاق نہیں ہوتا۔

    جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ کیا بھارتی آئین میں بھی آرٹیکل باسٹھ ہے؟ ۔مخدوم علی خان نے کہاکہ بھارتی آئین میں صادق اور امین کے الفاظ موجود ہیں۔

    وزیراعظم کے وکیل نے کہا کہ وزیراعظم کے بیان میں نہ کوئی تضاد ہے نہ غلط بیانی،انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے اپنے خطاب میں کوئی جھوٹ نہیں بولا۔

    واضح رہے کہ سپریم کورٹ میں پاناماکیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی گئی،کل بھی وزیراعظم کے وکیل اپنے دلائل دیں گے۔

  • سپریم کورٹ میں پاناماکیس کی سماعت پیر تک ملتوی

    سپریم کورٹ میں پاناماکیس کی سماعت پیر تک ملتوی

    اسلام آباد : سپریم کورٹ آف پاکستان میں پاناما کیس کی سماعت پیر تک کے لیے ملتوی کردی گئی،وزیراعظم کے وکیل مخدوم علی خان اگلی سماعت پر اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔

    تفصیلات کےمطابق سپریم کورٹ آف پاکستان میں جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں عدالت کے لارجر بینچ نےسماعت کی۔

    پاناماکیس کی سماعت کے آغاز پر وزیراعظم کے وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل62،63کے تخت نا اہلی کےلیے عدالت سے سزا یافتہ ہونا ضروری ہے۔

    وزیراعظم کے وکیل کا کہناہےکہ تعلیمی قابلیت کے جعلی ہونے پرآرٹیکل 62کے تخت نااہلی ہوسکتی ہے،اثاثے چھپانے کے معاملے پر نااہلی آرٹیکل 62کے تحت ہو سکتی ہے۔

    مخدوم علی خان کا کہناہےکہ الیکشن کے بعد نااہلی کا معیار کم نہیں ہوسکتا،الیکشن کے بعد کووارنٹو کی درخواست دائر ہو سکتی ہے۔

    وزیراعظم کے وکیل نے دلائل دیتےہوئے کہاکہ جعلی ڈگری کے معاملات بھی ٹریبونل کی سطح پر طے ہوئے،جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آپ جن مقدمات کا حوالہ دے رہے ہیں وہ الیکشن کمیشن کے خلاف تھے۔

    پاناماکیس کی سماعت کےدوران مخدوم علی خان نے جہانگیر ترین کیس کا حوالہ دیا،انہوں نے کہا کہ صدیق بلوچ کی نااہلی کا فیصلہ ٹریبونل سطح پر ہوا،جبکہ سپریم کورٹ نے ٹریبونل کا فیصلہ کالعدم قرار دیا تھا۔

    وزیراعظم کے وکیل نے کہا کہ اراکین اسمبلی کی نااہلی کے لئے ٹھوس شواہد کی ضرورت ہوتی ہے،ٹریبونل نے صدیق بلوچ سے انگریزی کے مضمون کے بنیادی سوال پوچھے تھے۔

    مخدوم علی خان نے کہا کہ سپریم کورٹ نے سوالات کی بنیا د پر نااہلی کو ختم کیاتھا،سپریم کورٹ نے الیکشن کا دوبارہ حکم دیا تھا۔

    وزیراعظم کے وکیل نے کہا کہ غلط بیانی اور جھوٹ کے تعین کے لیے بھی ضابطہ موجود ہے،وزیراعظم کے قومی اسمبلی سے خطاب کو ماضی میں بھی چیلنج کیا گیا۔

    جسٹس شیخ عظمت نے کہا کہ یہ شاید وہی خطاب تھا جو وزیراعظم نے دھرنے کے دوران کیا،جس پر مخدوم علی خان نے کہا کہ اس وقت بھی وزیراعظم پر سچ نہ بولنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔

    مخدوم علی خان نے کہا کہ اسپیکر نے ڈیکلریشن کے بغیر ریفرنس مسترد کر دیا تھا،انہوں نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ نے اسپیکر کے فیصلے کو قانون کے مطابق قرار دیا تھا۔

    وزیراعظم کےوکیل نے کہا کہ سپریم کورٹ نے بھی لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھاتھا۔انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ اسپیکر کے خلاف درخواستیں خارج کرچکی ہے۔

    مخدوم علی خان نے کہا کہ عدالت نے فیصلے میں قرار دیا نااہلی کے لیے مناسب فورم کون ساہے یہ طے کرنا باقی ہے۔

    اس سے قبل سپریم کورٹ کے باہر تحریک انصاف کے سربراہ عمران کا میڈیا سےبات کرتے ہوئے کہناتھاکہ میاں صاحب کےبینک اکاؤنٹ میں ڈیولپمنٹ نہیں ہورہی،جس پرمیاں صاحب کو مشکل ہورہی ہے۔

    عمران خان کا کہناتھاکہ میاں صاحب میری برائی کرتےہیں تو اپنےلئےاعزازسمجھتاہوں،اگروزیراعظم میری تعریف کریں گے تو میں گھبرا جاؤں گا۔

    اس سےقبل گزشتہ سماعت کے آغاز پر وزیراعظم کے وکیل مخدوم علی خان نے کہا تھاکہ وزیر اعظم پر ٹیکس چوری کا الزام عائد کیا گیاہے۔الزام میں کہاگیا بیٹے حسین نواز نے باپ کو رقم تحفے میں دی۔

    وزیراعظم کے وکیل نے موقف اختیارکیاتھا کہ الزام میں موقف میں اختیارکیاگیاکہ تحائف دینے والے کا ٹیکس نمبر موجود نہیں،جبکہ حسین نواز کا ٹیکس نمبر موجود ہے۔

    مخدوم علی خان نے کہا تھاکہ تحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری نےعدالت میں تسلیم کیاحسین نواز کا ٹیکس نمبر ہے۔

    حکومت کے وکیل نے کہاتھا کہ یہ بھی الزام عائد کیا گیا کہ مریم نواز والد کے زیر کفالت ہیں اور کہاگیاکہ وزیر اعظم اثاثے ظاہر نہ کرنے پر اسمبلی رکنیت کے اہل نہیں۔

    سماعت کے دوران جسٹس گلزار احمد نے استفسار کیاتھا کہ کیا دبئی مل کا وجود تھا بھی یا نہیں؟جس پر حکومتی وکیل نے کہا کہ یہ ثابت کرنا درخواست گزار کا کام ہے۔

    وزیراعظم کے وکیل نے کہا تھاکہ عدالت کمیشن بنائےجو دوبئی جاکر جائزہ لے،جس پر جسٹس اعجازالحسن نے کہا کہ وزیراعطم نے خود دوبئی فیکٹری کا اعتراف کیا اور یہ بھی کہا کہ تمام ریکارڈ موجود ہے،اور اعتراف کے بعدبار ثبوت آپ پرہے۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا تھاکہ یہ بتائیں لندن جائیداد وزیر اعظم کے بچوں کی ہے یا کسی اور کی ؟۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ عدالت کو یہ معلومات آپ سے درکار ہوں گی۔

    جسٹس گلزا ر نےاستفسار کیاتھا کہ کیا دبئی مل کا وجود تھا بھی یا نہیں ؟۔جسٹس اعجاز افضل نے کہاجانناچاہتے ہیں کاروبار میاں شریف کا تھا۔

    جسٹس اعجاز افضل نے کہاتھا کہ دبئی فیکٹری کے لئے رقم کیسے گئی؟۔وزیراعظم کے وکیل نے کہا کہ دبئی فیکٹری قرض لے کر بنائی گئی تھی۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہاتھا کہ دبئی فیکٹری کے 25 فیصد شیئرزمیاں شریف کے نہیں طارق شفیع کے تھے،آپ کی دستاویزات سے بھی بظاہر واضح نہیں ہوتا۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ نے وزیراعظم کے وکیل مخدوم علی خان کو کہاتھا کہ آپ عدالت کو مطمئن کریں۔

    جسٹس عظمت سعید شیخ نےکہاتھا کہ کیس یہ ہے کہ نواز شریف نے تقریر میں غلط بیانی کی،اگر غلط بیانی نہیں ہوئی تو آپ کو ثابت کرنا ہے۔

    اس موقع پر جسٹس کھوسہ نے کہاتھا کہ ہم تقریر کو غلط نہیں مانتے لیکن اگر کوئی چیز چھپائی گئی ہے تو پھر اسے آدھا سچ مانیں گے۔

    مزید پڑھیں:پاناماکیس میں بارثبوت اب وزیراعظم کےوکلاپرہے‘سپریم کورٹ

    وزیراعظم کے وکیل نے کہا تھاکہ تفصیلات کا نہ بتانا جھوٹ کے زمرے میں نہیں آتا، وزیراعظم پارلیمنٹ میں اپنے خاندان کے کاروبار کا عمومی جائزہ دے رہے تھے،وہ کسی دعویٰ کا بیان حلفی نہیں تھا کہ وہ کسی مخصوص سوال کا جواب دے رہے ہوں۔

    وزیراعظم کے وکیل نے موقف اختیار کیا تھاکہ صادق اور امین کی تشریح پرٹیسٹ صرف وزیراعظم نہیں تمام ارکان پارلیمنٹ کا ہوگا۔

    واضح رہےکہ پاناماکیس میں تحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری،جماعت اسلامی اور عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے اپنے دلائل مکمل کرلیے،آج بھی وزیراعظم کے وکیل مخدوم علی خان اپنے دلائل دیں گے۔

  • سپریم کورٹ میں حج کرپشن کیس کی سماعت 1ہفتےکیلئےملتوی

    سپریم کورٹ میں حج کرپشن کیس کی سماعت 1ہفتےکیلئےملتوی

    اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان میں حج کرپشن کیس کی سماعت ایک ہفتے کے لیے ملتوی کردی گئی۔

    تفصیلات کےمطابق سپریم کورٹ آف پاکستان میں حج کرپشن کیس کی سماعت جسٹس مشیر عالم اور جسٹس دوست محمد خان پر مشتمل عدالت عظمی کے دو رکنی بینچ نے کی۔

    سپریم کورٹ میں حامد سعید کاظمی کی جانب سے سردارلطیف کھوسہ ایڈووکیٹ پیش ہوئے،جبکہ دوسری جانب ایف آئی کے جانب سے پراسیکیوٹراظہر چوہدری نے پیش ہوناتھا۔

    اظہر چوہدری بیماری کی وجہ سے عدالت نہ آسکے اور ان کی جانب سے کیس کی سماعت ملتوی کرنے کی استدعا کی گئی تھی جس پر عدالت نے سماعت ایک ہفتے کے لیےملتوی کردی گئی۔

    یاد رہے کہ سپریم کورٹ میں حج کرپشن کیس میں سزایافتہ سابق وفاقی وزیر مذہبی امور حامد سعید کاظمی کی سزا کالعدم قرار دینے کیلئے دائر کی گئی تھی۔

    واضح رہے کہ گزشتہ سال 3جون کوحج کرپشن کیس میں سابق وفاقی وزیر مذہبی امور حامد سعید کاظمی کو جرم ثابت ہونے پر 16 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

  • پاناماکیس میں بارثبوت اب وزیراعظم کےوکلاپرہے‘سپریم کورٹ

    پاناماکیس میں بارثبوت اب وزیراعظم کےوکلاپرہے‘سپریم کورٹ

    اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان کا کہناہے کہ پاناماکیس میں بار ثبوت اب وزیراعظم نوازشریف کے وکلا پر ہے۔

    تفصیلات کےمطابق جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کےلارجر بینچ نےپاناماکیس کی سماعت کی۔وزیراعظم نوازشریف کے وکیل مخدوم علی خان آج کی سماعت میں اپنے دلائل دیے۔

    سماعت کے آغاز پر وزیراعظم کے وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ وزیر اعظم پر ٹیکس چوری کا الزام عائد کیا گیاہے۔الزام میں کہاگیا بیٹے حسین نواز نے باپ کو رقم تحفے میں دی۔

    وزیراعظم کے وکیل نے موقف اختیارکیا کہ الزام میں موقف میں اختیارکیاگیاکہ تحائف دینے والے کا ٹیکس نمبر موجود نہیں،جبکہ حسین نواز کا ٹیکس نمبر موجود ہے۔

    مخدوم علی خان نے کہا کہ تحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری نےعدالت میں تسلیم کیاحسین نواز کا ٹیکس نمبر ہے۔

    حکومت کے وکیل نے کہا کہ یہ بھی الزام عائد کیا گیا کہ مریم نواز والد کے زیر کفالت ہیں اور کہاگیاکہ وزیر اعظم اثاثے ظاہر نہ کرنے پر اسمبلی رکنیت کے اہل نہیں۔

    سماعت کے دوران جسٹس گلزار احمد نے استفسار کیا کہ کیا دبئی مل کا وجود تھا بھی یا نہیں؟جس پر حکومتی وکیل نے کہا کہ یہ ثابت کرنا درخواست گزار کا کام ہے۔

    وزیراعظم کے وکیل نے کہا کہ عدالت کمیشن بنائےجو دوبئی جاکر جائزہ لے،جس پر جسٹس اعجازالحسن نے کہا کہ وزیراعطم نے خود دوبئی فیکٹری کا اعتراف کیا اور یہ بھی کہا کہ تمام ریکارڈ موجود ہے،اور اعتراف کے بعدبار ثبوت آپ پرہے۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ یہ بتائیں لندن جائیداد وزیر اعظم کے بچوں کی ہے یا کسی اور کی ؟۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ عدالت کو یہ معلومات آپ سے درکار ہوں گی۔

    جسٹس گلزا ر نےاستفسار کیا کہ کیا دبئی مل کا وجود تھا بھی یا نہیں ؟۔جسٹس اعجاز افضل نے کہاجانناچاہتے ہیں کاروبار میاں شریف کا تھا۔

    جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ دبئی فیکٹری کے لئے رقم کیسے گئی؟۔وزیراعظم کے وکیل نے کہا کہ دبئی فیکٹری قرض لے کر بنائی گئی تھی۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ دبئی فیکٹری کے 25 فیصد شیئرزمیاں شریف کے نہیں طارق شفیع کے تھے،آپ کی دستاویزات سے بھی بظاہر واضح نہیں ہوتا۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ نے وزیراعظم کے وکیل مخدوم علی خان کو کہا کہ آپ عدالت کو مطمئن کریں۔

    جسٹس عظمت سعید شیخ نےکہا کہ کیس یہ ہے کہ نواز شریف نے تقریر میں غلط بیانی کی،اگر غلط بیانی نہیں ہوئی تو آپ کو ثابت کرنا ہے۔

    اس موقع پر جسٹس کھوسہ نے کہا کہ ہم تقریر کو غلط نہیں مانتے لیکن اگر کوئی چیز چھپائی گئی ہے تو پھر اسے آدھا سچ مانیں گے۔

    وزیراعظم کے وکیل نے کہا کہ تفصیلات کا نہ بتانا جھوٹ کے زمرے میں نہیں آتا، وزیراعظم پارلیمنٹ میں اپنے خاندان کے کاروبار کا عمومی جائزہ دے رہے تھے،وہ کسی دعویٰ کا بیان حلفی نہیں تھا کہ وہ کسی مخصوص سوال کا جواب دے رہے ہوں۔

    وزیراعظم کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ صادق اور امین کی تشریح پرٹیسٹ صرف وزیراعظم نہیں تمام ارکان پارلیمنٹ کا ہوگا۔

    کیس کی سماعت کل تک کے لیے ملتوی کردی گئی، وزیراعظم کے وکیل مخدوم علی خان کل بھی اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔

    تحریک انصاف کے رہنماؤں کی میڈیا سےگفتگو

    پاناما کیس میں وقفے کے دوران میڈ یا سے گفتگو کرتے ہو ئے نعیم الحق کا کہناتھاکہ میاں شریف نے جتنے بھی کاروبار کیے،ان میں تمام بچوں کو حصہ دیا گیا۔

    انہوں نےکہا نواز شریف چونکہ سیاست میں آچکے تھےاس لیے جان بوجھ کر ان کا نام باہر رکھا گیا۔

    نعیم الحق کا کہناتھاکہ شریف خاندان میں روایت ہے کہ جو بھی کاروبار شروع کرتے ہیں،اس میں ساری فیملی شامل ہوتی ہے۔

    تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری کا کہناتھا کہ آج عدالت میں تین موضوعات پر بات ہوئی،جن میں حسین نواز کی جانب سے نواز شریف کو دیے جانے74کروڑ روپے پر ٹیکس ادا نہ کرنا ،مریم نواز کی کفالت اور وزیراعظم نواز شریف کی پارلیمنٹ اور قوم کے سامنے خطابات میں تضاد شامل ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ وزیراعظم کے وکیل کا کہنا ہے کہ نواز شریف اپنے والد اور بچوں کے پیسے کا حساب دینے کے ذمہ دار نہیں ہیں۔

    مسلم لیگ ن کے رہنما کی میڈیا سےگفتگو

    مسلم لیگ ن کے رہنما دانیال عزیزکا کہنا تھا کہ وزیراعظم کی اسمبلی میں تقریراورعدالت میں موقف میں کوئی تضادنہیں،ہمارے پاس تمام ثبوت موجود ہیں۔

    دانیال عزیز کا کہناتھاکہ عدالت نے تسلیم کیا کہ وزیراعظم کے موقف میں کوئی تضاد نہیں۔پی ٹی آئی قیادت عدالتی کارروائی سے بھاگنا چاہتی ہے۔

    سراج الحق کی میڈیا سےگفتگو

    سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئےجماعت اسلامی کے امیرسراج الحق کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم کے وکیل نے شواہد کی بجائے الفاظ کا سہارا لیا۔سرکاری وکیل ایک کمزور کیس لڑ رہے ہیں۔

    سراج الحق کا مزید کہنا تھاکہ کرپشن کے خلاف جماعت اسلامی عدالت میں دلائل کےساتھ موجود ہے۔

    اس سے قبل گزشتہ سماعت پر تحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری نےپاناماکیس کی سماعت پر دلائل دیتے ہوئے کہاتھاکہ نوازشریف اور ان کے بچوں کےبیانات میں تضاد ہے۔

    پی ٹی آئی کے وکیل نے کہاتھا کہ بیریئر سرٹیفکیٹ پرائز بانڈ نہیں ہوتا جس کے پاس ہو آف شور کمپنی اس کی ہوگی،قانون کےمطابق بیریئر سرٹیفکیٹ سے متعلق آگاہ کرنا ضروری ہے۔

    نعیم بخاری نے کہاتھا کہ قانون کے اطلاق سے فلیٹس کے ٹرانسفر تک بیریئر کا ریکارڈ دینا ہو گا،جس پرجسٹس گلزار احمدنے کہا کہ یہ قانون غالباً 2002 میں آیا تھا۔

    تحریک انصاف کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہاتھا کہ شریف خاندان کو سرٹیفکیٹ کا قطری خاندان کے پاس ہونے کا ثبوت دینا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ رجسٹریشن کے نئے قانون کا اطلاق سب پر ہوتا ہے۔

    نعیم بخاری کا کہناتھاکہ شریف خاندان کےبقول 2006 سےقبل بیریئر سرٹیفکیٹ قطری خاندان کےپاس تھے،انہوں نےکہاکہ شریف خاندان کو ثابت کرنا ہوگا کہ ان کا ہر کام قانون کے مطابق ہوا۔

    تحریک انصاف کے وکیل نےکہاتھا کہ بلیک لاڈکشنری کےمطابق زیرکفالت وہ ہوتا ہےجس کےاخراجات دوسرابرداشت کرے۔

    انہوں نے کہا تھاکہ نواز شریف نے مریم کو کروڑوں روپے بطور تحفہ دیے،آف شور کمپنیوں کے لیے بھی مریم کو رقم نوازشریف نے دی۔

    جسٹس شیخ عظمت نے استفسار کیا تھاکہ بخاری صاحب آپ کی تعریف مان لیں توکیامریم حسین نواز کےزیر کفالت ہیں؟۔

    نعیم بخاری نے کہاتھاکہ ہر شخص چاہتا ہے کہ اس کی بیٹی کی شادی کے بعد کفالت اس کا شوہر کرے،جبکہ ریکارڈ کےمطابق کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کی کوئی آمدن نہیں تھی۔

    جسٹس عظمت شیخ نے ریماکس دیے کہ ابھی بھی یہ تعین ہونا باقی ہے کہ فلیٹس کب خریدے گئے؟۔جس پر نعیم بخاری نے کہاتھا کہ عدالت سے وزیر اعظم کی نا اہلی کا فیصلہ چاہتے ہیں۔

    جسٹس عظمت نے کہاتھاکہ بخاری صاحب آپ کے بقول شریف خاندان نے فلیٹس1993 اور1996 کے درمیان خریدے،جبکہ شریف فیملی کے بقول انھیں فلیٹس 2006 میں منتقل ہوئے۔

    سپریم کورٹ کے لارجر بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریماکس دیےکہ یہ باتیں پہلے بھی ہو چکی ہیں کوئی نیا نقطہ بیان کریں۔

    تحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری نےاپنے دلائل مکمل کیےجس کےبعدعوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید اپنے دلائل کا آغازکیاتھا۔

    شیخ رشید کا کہنا تھا کہ ایک طرف مریم نواز کہتی ہے کہ ان کی آمدن نہیں دوسری طرف وہ امیر ترین خاتون ہیں، عدالت سب کچھ جانتی ہے ہم صرف معاونت کے لیے آتے ہیں اور یہ مقدمہ 20 کروڑ عوام کا ہے۔

    عوامی مسلم لیگ کےسربراہ شیخ رشید کا کہنا تھا کہ آپ نے انصاف فراہم کرنے کا حلف لیا ہے اور عوام کی نظریں عدالت پر ہیں۔

    شیخ رشید کا کہنا تھا کہ وہ نعیم بخاری کے دلائل کی مکمل تائید کرتے ہیں اور اگر کوئی کسی کے زیر سایہ ہے تو وہ زیرِکفالت کہلائے گا۔

    عوامی مسلم لیگ کےسربراہ نےکہاتھاکہ وکالت کا تجربہ نہیں، غلطی ہو تو معافی چاہتا ہوں،میرا کوئی بچہ یا فیملی نہیں لیکن یہ قوم ہی میری فیملی ہے۔

    شیخ رشیدنےکہاتھا کہ شریف خاندان قطری خط کے پیچھے چھپ رہا ہے جبکہ قطری خط رضیہ بٹ کا ناول ہے۔

    انہوں نے کہا تھاکہ نواز شریف پاناما کیس میں براہ راست ملوث ہیں اور اسحاق ڈار نے خود اربوں روپے دبئی منتقل کرنے کا اعتراف کیا ہے۔

    شیخ رشید کے دلچسب دلائل پر عدالت میں قہقہے بلند ہونے پرجسٹس شیخ عظمت نے برہمی کا اظہار کیااور کہا کہ عدالت میں موجود لوگ سنجیدہ ہوں، ورنہ عدالت خود سنجیدہ کرے گی۔

    عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے مزید کہا تھاکہ نیب حدیبیہ پیپرملز کیس میں اپیل کرتا تو آج سپریم کورٹ نہ آتے۔

    انہوں نےکہاتھا کہ بیوروکریسی نے کہا جو کرنا ہے کر لو،میں حلفیہ یہ کہتا ہوں کہ ساڑھے تین سال میں تمام تعیناتیاں وفاداری کی بنیاد پر ہوئیں اور تمام تحقیقاتی ادارے حکومت کی جیب میں ہیں۔

    شیخ رشید نے کہا کہ قطری نوازشریف کو انتخابات میں بھی مدد فراہم کرتے ہیں جس پر جسٹس آصف کھوسہ نے انہیں قانونی باتوں پر آنے کا مشورہ دیا۔

    عوامی مسلم لیگ کےسربراہ نے عدالت سے درخواست کی کہ اسحاق ڈار کو بھی شامل تفتیش کیا جائے جس پر جسٹس آصف کھوسہ کا کہنا تھا کہ اسحاق ڈار پہلے ہی مقدمہ میں فریق ہیں۔

    حکومتی وکیل کے دلائل

    بعدازاں وزیراعظم نواز شریف کے وکیل مخدوم علی خان نے اختتامی وقت میں دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ میں سات روز سے دلائل سن رہا ہوں اور اب تمام حقائق سے پردہ اٹھانا چاہتا ہوں۔مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ وہ خود کوصرف وزیراعظم تک محدود رکھیں گے۔

    تحریک انصاف کے رہنماؤں کی میڈیا سے گفتگو

    سماعت میں وقفے کے دوران میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے وکیل نعیم بخاری نے امید ظاہر کی کہ سپریم کورٹ جلد ہی کیس کا فیصلہ سنادے گا اور یہ فیصلہ پاناما کا سچ قوم اور دنیا کے سامنے ظاہر ہوجائےگا۔

    فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ قطری شہزادےکو فلیٹس کی ملکیت ظاہرکرنی ہوگی کیونکہ نائن الیون کے بعد بیریئرسرٹیفکیٹس کی رجسٹریشن لازمی قراردی گئی تھی۔

    مسلم لیگ ن کے رہنما دانیال عزیز کی میڈیا سےگفتگو

    مسلم لیگ (ن) کے رہنما دانیال گیلانی کا میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کل نعیم بخاری کہہ گئے تھے وکیل نہیں موکل ہارتا ہے مگر آج ہم نے وکیل کو ہارتے دیکھا، ہم دعا کرتے ہیں اللہ نعیم بخاری کو صحت اور ہدایت دے۔

    مسلم لیگ ن کے رہنما دانیال گیلانی نے شیخ رشید کی غیرسنجیدگی پر عدالت کےبرہم ہونےکا حوالہ بھی دیا۔

    واضح رہےکہ پاناماکیس میں تحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری،جماعت اسلامی اور عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے اپنے دلائل مکمل کرلیے،آج وزیراعظم کے وکیل مخدوم علی خان اپنے دلائل دیں گے۔

  • پاناما کیس کی روازنہ سماعت بڑی کامیابی: تحریک انصاف

    پاناما کیس کی روازنہ سماعت بڑی کامیابی: تحریک انصاف

    اسلام آباد: تحریک انصاف نے پاناما کیس کی روازنہ سماعت کو بڑی کامیابی قرار دے دیا۔ تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری کہتے ہیں کہ عدالت وزیر اعظم کو بیانات کی وضاحت کے لیے بلا بھی سکتی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کی پاناما لیکس کیس کی روزانہ سماعت کو تحریک انصاف نے بڑی کامیابی قرار دے دیا۔

    پاکستان تحریک انصاف کے ترجمان فواد چوہدری نے ن لیگ کو وکیل کے بجائے قیادت کی تبدیلی کا مشورہ دے دیا۔

    شاہ محمود قریشی نے کہا کہ لگتا ہے رت بدلنے والی ہے۔ جہانگیر ترین کا کہنا تھا کہ 3 وکلا کی تبدیلی نواز حکومت کی بوکھلاہٹ کو ثابت کرتی ہے۔

    تحریک انصاف کے رہنماؤں نے امید ظاہر کی کہ سماعت یوں ہی جاری رہی تو معاملہ ایک مہینے میں نمٹ جائے گا۔

  • افتخارچوہدری بلٹ پروف گاڑی کیس،جسٹس شوکت عزیزصدیقی کاسماعت سے انکار

    افتخارچوہدری بلٹ پروف گاڑی کیس،جسٹس شوکت عزیزصدیقی کاسماعت سے انکار

    اسلام آباد: اسلام آباد ہائی کورٹ کےجسٹس شوکت عزیزصدیقی نے سابق چیف جسٹس پاکستان افتخار چوہدری کی بلٹ پروف گاڑی کاکیس مزید سننےسےانکار کردیا۔

    تفصیلات کےمطابق آج اسلام آباد ہائی کورٹ میں سابق چیف جسٹس پاکستان کی بلٹ پروف گاڑی کےکیس کی سماعت کے دوران عدالت کا کہنا تھا کہ فیصلے کےمطابق آج افتخارچوہدری کی گاڑی عدالت میں جمع کراناتھی۔

    سماعت کے دوران شیخ احسن الدین نے کہا کہ سنگل رکنی بنچ کافیصلہ ڈویژن بنچ نےکالعدم قراردیاتھا۔کیس کی سماعت کےلیےتاریخ دیں دلائل دیں گے۔

    جسٹس شوکت عزیزصدیقی نے کہا کہ کیس کی سماعت پندرہ تاریخ کو کریں گے جس پر شیخ احسن الدین نے کہا کہ پندرہ تاریخ کو میرے بھائی کا چہلم ہے نہیں آسکتا۔

    اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیزصدیقی نےکیس کی مزیدسماعت سےانکارکردیا۔نئے بنچ مقررکرنے کےلیے کیس چیف جسٹس انورخان کاسی کےپاس منتقل کردیاگیا۔

    یاد رہے کہ 2 دسمبر کو عدالت عالیہ کے سنگل بنچ نے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو دی جانےوالی بلٹ پروف گاڑی 8 دسمبر کو عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔

    واضح رہےکہ مذکورہ حکم نامے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل دائر کی گئی تھی۔انٹرا کورٹ اپیل کی سماعت جسٹس نور الحق این قریشی اور جسٹس عامر فاروق پر مشتمل ڈویژن بنچ نے کی تھی جس میں سابق چیف جسٹس کے وکلاشیخ احسن الدین،توفیق آصف،عامر مغل ایڈووکیٹ پیش ہوئے تھے۔

  • کرپٹ حکمرانوں کا تابوت سپریم کورٹ سے نکلے گا:‌ شیخ رشید

    کرپٹ حکمرانوں کا تابوت سپریم کورٹ سے نکلے گا:‌ شیخ رشید

    اسلام آباد: عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید کا کہنا ہے کہ کرپٹ حکمرانوں کا تابوت سپریم کورٹ سے نکلے گا۔ سنہ 1993 سے کرپشن کا آغاز ہوا اور اب اس کا اختتام ہوگا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں پاناما کیس کی سماعت کے بعد عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید کا کہنا تھا کہ ان کرپٹ حکمرانوں کا تابوت سپریم کورٹ سے نکلے گا۔

    انہوں نے کہا کہ نروس قیادت ہر روز نئے دستاویزات عدالت میں پیش کرتی ہے۔

    شیخ رشید کا کہنا تھا کہ 20 کروڑ لوگ یہ کیس دیکھ رہے ہیں اور انہیں توقع ہے کہ انصاف پر مبنی فیصلہ آئے گا۔ ان کا ایمان ہے کہ یہ پلاٹس قطری شہزادے کے نہیں ہیں بلکہ نواز شریف کے ہیں۔

    انہوں نے مزید کہا کہ جس عمر میں جائیداد ان بچوں کو دی گئیں اس عمر میں تو بچوں کی اسکولنگ بھی پوری نہیں ہوتی۔

    شیخ رشید نے 1993 کے سال کو پاکستان میں کرپشن کے آغاز کا سال قرار دیا۔ ’1993 موٹر وے کے ٹینڈر کا سال تھا۔ اس سال سے ملک میں کرپشن کی ابتدا ہوئی۔‘

    انہوں نے کہا کہ اب حکمرانوں کی کرپشن کا خاتمہ قریب ہے۔

    واضح رہے کہ آج سپریم کورٹ میں پاناما کیس کی سماعت ہوئی۔ عدالت نے حکومت کو تین اہم سوالات کے جواب دینے کا حکم دیتے ہوئے سماعت کل تک کے لیے ملتوی کردی۔

  • پاناماکیس میں سپریم کورٹ کے3سوال،سماعت کل تک ملتوی

    پاناماکیس میں سپریم کورٹ کے3سوال،سماعت کل تک ملتوی

    اسلام آباد: پاناماکیس میں سپریم کورٹ نےتین سوال اٹھادیےاور سماعت کل صبح تک کےلیے ملتوی کردی گئی۔

    تفصیلات کےمطابق سپریم کورٹ میں پاناماکیس سےمتعلق درخواستوں کی سماعت چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں 5رکنی لارجر بنچ نے کی۔

    عمران خان کی جانب سے نعیم بخاری اور وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے سلمان اسلم بٹ پیش ہوئے،اس موقع پر چیئرمین تحریک انصاف عمران خان اور پارٹی رہنماؤں سمیت حکومتی وزراء بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔

    پاکستان تحریک انصاف کے وکیل اور وزیراعظم نوازشریف کے وکیل کی جانب سے دلائل سننے کے بعدجسٹس آصف سعید کھوسہ کی جانب سے3 سوالات اٹھائےگئے۔

    پہلاسوال وزیراعظم کے بچوں نے کمپنیاں کیسے بنائیں؟۔دوسراسوال زیر کفالت ہونے کا معاملہ؟ جبکہ تیسراسوال وزیراعظم کی تقریروں میں سچ بتایا گیا ہے یا نہیں؟۔

    خیال رہے کہ اس سے قبل پاناماکیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس انور ظہیرجمالی نے ریماکس دیےکہ نیب،ایف بی آراور ایف آئی اے نے کچھ نہیں کیا،جب ہم نےدیکھا کہ کہیں کوئی کارروائی نہیں ہورہی تو یہ معاملہ اپنے ہاتھ لیا۔

    چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ ادارےقومی خزانےپربوجھ بن گئے ہیں،اگر انہیں کوئی کام نہیں کرنا توان کو بند کردیں۔

    تحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری کےدلائل

    تحریک انصاف کے وکیل نے اپنے دلائل میں موقف اختیار کہ وزیر اعظم کی پہلی تقریر میں سعودیہ مل کی فروخت کی تاریخ نہیں دی گئی جبکہ لندن فلیٹس سعودی مل بیچ کر خریدے یا دبئی مل فروخت کرکے بیان میں تضاد ہے۔

    نعیم بخاری نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ نوازشریف نےکہاتھا کہ لندن فلیٹ جدہ اور دبئی ملوں کی فروخت سےلیے۔انہوں نے کہاکہ 33 ملین درہم میں دبئی اسٹیل مل فروخت ہوئی اور یہ قیمت وزیر اعظم نے بتائی۔

    پی ٹی آئی کے وکیل نے سماعت کے دوران دلائل دیےکہ حسین نواز کےمطابق لندن فلیٹ قطرسرمایہ کاری کے بدلے حاصل ہوئے۔

    انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم نے مسلسل ٹیکس چوری کی ہے جبکہ2014 اور 2105 میں حسین نواز نے اپنےوالد نوازشریف کو 74 کروڑ کے تحفے دیئےجس پر وزیراعظم نے ٹیکس ادا نہیں کیا۔

    جسٹس اعجاز الحسن نے استفسار کیا کہ وزیر اعظم کے گوشواروں میں کہاں لکھا ہے کہ مریم نواز ان کے زیر کفالت ہیں۔جس پر نعیم بخاری نے کہا کہ ان کے پاس مریم کے والد کے زیر کفالت ہونے کے واضع ثبوت ہیں۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ نے نعیم بخاری کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ آپ کے د لائل سے ظاہر ہوتا ہے کہ مریم نواز زیر کفالت ہیں لیکن ابھی یہ تعین کرنا ہے کہ مریم نواز کس کے زیر کفالت ہیں۔

    جسٹس شیخ عظمت نے ریمارکس دیئےکہ زیر کفالت ہونے کا معاملہ اہمیت کا حامل ہے،ہمیں جائزہ لینا ہوگا کہ ملک کے قانون میں زیر کفالت کی کیا تعریف کی گئی ہے۔

    حکومت وکیل سلمان اسلم بٹ کے دلائل

    دوسری جانب وقفے کے بعد جب کیس کی سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو وزیراعظم کے وکیل سلمان اسلم بٹ نے دلائل دیئے اور کہا کہ درخواست گزاروں نے کوئی ثبوت فراہم نہیں کیے۔

    سلمان اسلم بٹ کا کہنا تھا کہ 1992 میں مریم نواز کی شادی کےبعد وہ وزیراعظم کی زیر کفالت نہیں، اس طرح یہ دلائل کےمریم نواز 2011 اور 2012 میں وزیر اعظم کے زیر کفالت تھیں، درست نہیں ہیں۔

    سلمان اسلم بٹ کا کہنا تھا کہ کاغذات نامزدگی جمع کراتے وقت صرف بیگم کلثوم نواز زیر کفالت تھیں۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ نے سلمان اسلم بٹ کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ پیسہ کہاں سے آیا یہ آپ نے ثابت کرنا ہے۔

    سلمان اسلم بٹ نے کہا کہ مریم نواز کی جائیداد کی تفصیلات فراہم کرنے کے لیےکوئی اورکالم موجود نہیں تھا۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کہ اگر کوئی مخصوص کالم نہیں تھا تو نام لکھنےکی کیا ضرورت تھی،اگر نام لکھنا ضروری تھا تو کسی اور کالم میں لکھ دیتے۔

    بعدازاں عدالت نے پوچھے گئے تینوں سوالوں کا جواب مانگتے ہوئے کیس کی سماعت کل7 دسمبرتک کے لیے ملتوی کردی،سلمان اسلم بٹ کل اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔

    یاد رہےکہ اس سےقبل وزیر اعظم نواز شریف کے بچوں حسین،حسن اور مریم نواز کی جانب سے سپریم کورٹ میں دائر کی گئی درخواست میں کہا گیاتھاکہ پاناما کیس انتہائی اہم کیس اور تاثردیا جارہا کہ وزیراعظم اور ان کے اہل خانہ کی جانب سے تاریخیں لی جارہی ہیں۔

    واضح رہے کہ وزیراعظم کے بچوں نےسپریم کورٹ سے استدعا کی ہےکہ پاناماکیس کی سماعت روزانہ کی بنیادوں پر کی جائے۔