Tag: سمندر

  • 54 مراکشی بچے سمندر میں تیر کر اسپین پہنچ گئے، حیران کن ویڈیو

    54 مراکشی بچے سمندر میں تیر کر اسپین پہنچ گئے، حیران کن ویڈیو

    یورپی ممالک میں غیر قانونی طریقہ سے داخل ہونا عام ہے لیکن مراکش کے 54 بچوں نے سمندر میں تیراکی کر کے اسپین پہنچ کر سب کو حیران کر دیا۔

    دنیا کے بالخصوص ترقی پذیر ممالک سے لوگوں کے غیر قانونی طریقہ سے یورپی ممالک میں داخل ہونے کی خبریں منظر عام پر آتی رہتی ہیں۔ ان واقعات میں بعض اوقات لوگ اپنی جانیں بھی گنوا دیتے ہیں اور پکڑے جانے پر جیل یا ڈی پورٹ کیے جاتے ہیں۔ تاہم یہ سلسلہ تھمتا نہیں۔

    لیکن ہم یہاں آپ کو یورپ پہنچنے کی ایسی انوکھی کوشش کے بارے میں بتا رہے ہیں، جس کو جان پر آپ بھی حیرت سے گنگ رہ جائیں گے۔

    برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق 54 مراکشی بچے سمندر میں تیراکی کرتے ہوئے اسپین پہنچے ہیں۔ انکے ساتھ تقریباً 30 دیگر افراد نے بھی خراب موسم اور دھند کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مراکش سے اسپین کے شمالی افریقہ علاقہ سیئوتا تک کا سفر کیا ہے۔

    ہسپانوی ٹی وی چینل نے بچوں کی سمندر میں تیراکی کر کے اپیشن پہنچنے کی ویڈیو بھی جاری کی ہے۔ اس ویڈیو میں سول گارڈ کی کشتیاں تیراک بچوں کو محفوظ مقام پر منتقل کرنے کے لیے انہیں بچانے کی کوشش کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔

    رپورٹ کے مطابق اسپین پہنچنے والے زیادہ تر بچے مراکسی ہیں اور انہیں سیئوتا میں قائم عارضی سینٹرز میں لے جایا گیا ہے جب کہ حکام نے اس معاملے کے حل کے لیے حکومت سے مدد بھی طلب کی ہے۔

     

    مقامی پولیس کے مطابق گزشتہ برس 26 اگست کو بھی سینکڑوں تارکینِ وطن نے دھند کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہمسایہ ملک مراکش سے تیراکی کرتے ہوئے سیئوتا پہنچنے کی کوشش کی تھی۔ جب کہ 2021 میں بھی ایک لڑکے کو خالی پلاسٹک کی بوتلوں پر تیرتے ہوئے سیئوتا پہنچنے کی کوشش کرتے دیکھا گیا تھا۔

    واضح رہے کہ بحیرۂ روم کے ساحل پر واقع اسپین کے دو چھوٹے علاقے سیئوتا اور میلیلا، یورپی یونین کی افریقہ کے ساتھ واحد زمینی سرحدیں ہیں۔ ان علاقوں میں وقتاً فوقتاً ایسے واقعات پیش آتے ہیں جن میں تارکینِ وطن یورپ پہنچنے کی کوشش میں سرحد عبور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

    تاہم سرحد عبور کرنے کے دوران گرفتار کیے گئے مراکشی شہریوں کو فوراً واپس مراکش بھیج دیا جاتا ہے، بشرط یہ کہ وہ نابالغ یا پناہ کے متلاشی نہ ہوں۔

  • گوادر کے کھلے سمندر میں ڈوبنے والے 5 ماہی گیروں کی لاشیں مل گئیں

    گوادر کے کھلے سمندر میں ڈوبنے والے 5 ماہی گیروں کی لاشیں مل گئیں

    (27 جولائی 2025): گوادر کے کھلے سمندر میں پیش آنے والے حادثے میں 6 ماہی گیر ڈوب گئے تھے، جن میں سے ایک کو زندہ بچا لیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی سے تعلق رکھنے والے ماہی گیروں کی کشتی بلوچستان میں گوادر کے قریب ڈوب گئی تھی، جس میں 5 ماہی گیر جاں بحق جبکہ ایک کو زندہ بچا لیا گیا ہے۔

    گوادر کے سمندر میں ڈوبنے والے چھ ماہی گیروں میں سے ایک ماہی گیر کی لاش کل ملی تھی جبکہ آج مزید چار لاشیں نکالی گئیں، دو لاشیں کراچی پہنچا دی گئیں جبکہ تین لاشیں ایدھی کے پاس گوادر میں موجود ہیں۔

    ابراہیم حیدری علی اکبر شاہ گوٹھ کے ایک ماہی گیر کی لاش ورثا کے حوالے کر دی گئی ہے، ان کی نماز جنازہ بعد نماز ظہر ادا کردی گئی۔

    پیپلز پارٹی کے جنرل کونسلر شمس عالم فاروقی متاثرہ خاندانوں کی مدد میں مصروف ہیں اور حکومت سندھ سے امداد کی اپیل کی ہے۔

  • اسرائیلی فوج نے مظلوم فلسطینیوں پر بڑی پابندی لگادی

    اسرائیلی فوج نے مظلوم فلسطینیوں پر بڑی پابندی لگادی

    اسرائیلی فوج نے غزہ میں بسے مظلوم فلسطینیوں کے لیے سمندر تک رسائی پر بھی پابندی لگادی ہے۔

    غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے مطابق اسرائیلی فوج نے وارننگ جاری کردی ہے کہ غزہ کے ساحل پر بیٹھنا یا مچھلی پکڑنا خطرناک ہے۔

    اسرائیلی فوج نے فلسطینیوں کا غزہ کے ساحل پر جانا، نہانا اور بیٹھنا ’موت کو دعوت‘ دینے کے مترادف قرار دیا ہے۔

    بھوک و افلاس کا شکار فلسطینیوں پر خوراک کا آخری سمندری ذریعہ بھی بند کر کے ان کی سمندر تک رسائی پر مکمل پابندی لگادی گئی ہے، ماہی گیری پر پابندی کی وجہ سے ہزاروں فلسطینی واحد روزگار سے بھی محروم ہوگئے ہیں۔

    اماراتی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق سمندر کنارے بیٹھے فلسطینیوں پر اسرائیلی فوج متعدد ہولناک حملے کرچکی ہے۔

    اسرائیل نے بمباری سے فلسطینی ماہی گیروں کی کشتیاں تک تباہ کردی ہیں، اسرائیل اب تک فلسطینیوں کی 95 فیصد کشتیاں تباہ اور 210 فلسطینی ماہی گیروں کو موت کے گھاٹ اتارا جا چکا ہے۔

    اماراتی اخبار کے مطابق فلسطینیوں نے شکوہ کیا ہے کہ سمندر کے بغیر بھوک سے مر جائیں گے، سمندر ہمارا واحد سہارا تھا، وہ بھی چھین لیا گیا ہے۔

    دوسری جانب غزہ کی پٹی میں اسرائیلی فوج کے مظالم کا سلسلہ تھم نہ سکا، پیر کو فجر کے وقت سے اب تک جاری اسرائیلی فضائی حملوں کے باعث شہید فلسطینیوں کی تعداد 100 تک پہنچ گئی ہے۔

    رپورٹ کے مطابق ابتدائی طور پر شہادتوں کی تعداد 32 بتائی گئی تھی، جو وقت گزرنے کے ساتھ بڑھ کر 88 ہوئی اور اب 100 سے تجاوز کر چکی ہے۔

    شام، سویدا میں دو گروپوں میں مسلح تصادم، ہلاکتوں کی تعداد 89 ہوگئی

    رپورٹس کے مطابق اسرائیلی بم باری غزہ کی پٹی کے شمالی علاقوں پر کی گئی، جہاں گزشتہ رپورٹوں کے مطابق 15 افراد شہید ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ جنوبی علاقوں میں خان یونس اور رفح، اور مشرقی جانب التفاح اور الشجاعیہ کے علاقوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔

  • ٹیکنالوجی کی ترقی کے باوجود سمندروں کی دریافت میں رکاوٹیں کیوں؟ اہم معلوماتی تحریر

    ٹیکنالوجی کی ترقی کے باوجود سمندروں کی دریافت میں رکاوٹیں کیوں؟ اہم معلوماتی تحریر

    پانی سے ہی زندگی ہے اور تازہ پانی بقا، صحت، خوراک کی پیداوار، اقتصادی استحکام اور ماحولیاتی توازن کے لیے ناگزیر ہے۔

    زراعت عالمی میٹھے پانی کا تقریباً 70 فی صد استعمال کرتی ہے، آب پاشی فصل کی نشوونما کو سہارا دیتی ہے اور خوراک کی پیداوار کو یقینی بناتی ہے۔ پانی کی کمی سے غذائی تحفظ کو خطرہ ہوتا ہے، جو ممکنہ طور پر قحط، اور سماجی و اقتصادی عدم استحکام کا باعث بنتا ہے۔

    پانی کی کمی صحت کے شدید مسائل یا اموات کا باعث بن سکتی ہے جب کہ صاف میٹھے پانی تک رسائی پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کو روکتی ہے جیسا کہ ہیضہ، پیچش، جو کہ اموات کی بڑی وجوہ میں شامل ہیں، خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں صفائی کی ناکافی سہولیات ہیں۔

    اسی طرح پانی کا استعمال صنعتوں میں کولنگ، اور توانائی کی پیداوار کے لیے بھی ہوتا ہے (مثلاً، ہائیڈرو الیکٹرک پاور، تھرمل پلانٹس)۔ پانی کی قلت سپلائی چینز اور انرجی گرڈز میں خلل ڈال سکتی ہے اور زرعی و صنعتی پیداوار، افرادی قوت کی صحت کو محدود کر کے معاشی ترقی میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔

    میٹھے پانی کی کمی


    حالاں کہ پانی پر بڑے پیمانے پر جنگیں نہیں ہوئی ہیں، تاہم یہ اکثر وسیع تر تنازعات میں ایک اہم عنصر، اسٹریٹجک ہدف، یا آلہ رہا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ تازہ پانی کے ذخائر میں کمی ہو رہی ہے، اور ریسرچ اسٹڈیز اور رپورٹس میٹھے پانی کی دست یابی میں کمی کی نشان دہی کرتی ہیں۔ آبادی میں مسلسل اضافے کے باعث میٹھے پانی کے محدود وسائل پر دباؤ بڑھ رہا ہے اور آنے والے وقتوں میں طلب میں اصافہ اور سپلائی میں کمی کی وجہ سے حکومتوں، صنعتوں اور سول سوسائٹیوں کو پانی کی کمی کا سامنا کرنا پڑے گا۔

    کھارا پانی


    دوسری طرف کھارا پانی یعنی کہ سمندروں کی اچھی صحت کا براہ راست تعلق انسانی بقا، معاشی استحکام اور ماحولیاتی توازن سے ہے۔ سمندر ہمیں آکسیجن فراہم کرتا ہے، غذا دیتا ہے، گرمی کو جذب کر کے ماحول میں توازن بناتا ہے، اور بخارات کی صورت میں بارشیں برساتا ہے۔ عالمی تجارت کا 90 فی صد سمندری راستوں سے ہوتا ہے، جو معیشتوں کو جوڑتا ہے اور وسائل کی تقسیم کو فعال کرتا ہے۔

    بچپن سے ہم سنتے آ رہے ہیں کہ ہماری زمین کا 3 فی صد حصہ پانی اور صرف ایک فی صد خشکی پر مشتمل ہے۔ امریکی سرکاری ادارے نیشنل اوشیانک اینڈ ایٹموسفیرک ایڈمنسٹریشن (NOAA) کے مطابق زمین کا 71 فی صد حصہ پانی اور 29 فی صد خشکی پر مشتمل ہے، لیکن ہماری یہ معلومات عام طور سے یہیں تک محدود ہوتی ہے۔


    کون سا سمندر کہاں واقع ہے، کن ممالک کی سرحدیں کس سمندر سے ملتی ہیں؟ مکمل معلومات


    امریکی سائنسی ایجنسی ’’یو ایس جیولوجیکل سروے‘‘ (USGS) کے مطابق زمین کے 71 فی صد پانی میں سے 97 فی صد کھارے پانی یعنی کہ سمندری پانی اور صرف 3 فی صد میٹھے پانی پر مشتمل ہے۔ اس میٹھے پانی میں سے بھی 68 فی صد سے زیادہ برف اور گلیشیئرز میں بند ہے، جب کہ مزید 30 فی صد میٹھا پانی زیر زمین ہے۔

    سطح کے تازہ پانی کے ذرائع جیسا کہ دریا اور جھیلیں صرف 22,300 کیوبک میل (93,100 مکعب کلومیٹر) پر مشتمل ہیں، جو کہ کُل پانی کے ایک فی صد کا تقریباً 1/150 واں حصہ ہے۔ اس طرح تمام میٹھے پانی کا صرف 1.2 فی صد سے تھوڑا زیادہ سطح کا حصہ ہمیں میسر ہے، جو ہماری زندگی کی زیادہ تر ضروریات کو پورا کرتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہم یہ بھی سنتے آ رہے ہیں کہ مستقبل میں جنگیں پانی پر ہوں گی۔

    سمندروں کی نقشہ سازی اور نئی انواع


    کھارے پانی کی بات کریں تو امریکی حکومتی ادارے نیشنل اوشیانک اینڈ ایٹموسفیرک ایڈمنسٹریشن کے مطابق سمندروں کا 80 فی صد سے زیادہ حصہ بغیر نقشے کے، غیر مشاہدہ شدہ اور غیر دریافت شدہ ہے اور یہ کہ 91 فی صد سمندری انواع کی درجہ بندی ابھی ہونا باقی ہے۔

    بیلجیم کے ادارے ورلڈ رجسٹر آف میرین اسپیسیز (WoRMS) کے مطابق اب تک تقریباً 2 لاکھ 42,500 سمندری انواع دریافت کی جا چکی ہیں۔ اس رجسٹر میں ان ناموں کا یہ اندراج دنیا بھر سے سائنس دانوں نے کیا ہے اور ہر سال تقریباً 2000 نئی سمندری انواع کا اندارج اس رجسٹر میں ہوتا رہتا ہے۔

    سوال یہ ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی اتنی ترقی کرنے کے باوجود آخر اب تک سمندروں کا 80 فی صد سے زیادہ حصہ غیر دریافت شدہ کیوں ہے؟

    غیر دریافت شدہ سمندر


    اس راز سے پردہ اٹھاتے ہوئے ناسا کے گوڈارڈ اسپیس فلائٹ سینٹر کے ماہر بحریات ڈاکٹر جین کارل فیلڈمین سمندروں کے تحفظ کی سب سے بڑی بین الاقوامی تنظیم ’اوشیانا‘ کو بتاتے ہیں: ’’سمندر کی گہرائیوں میں پانی کا شدید دباؤ اور سرد درجہ حرارت تلاش کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔‘‘

    فیلڈ مین نے اوشیانا کو مزید بتایا کہ سمندر کی تہہ تک جانے کے مقابلے میں خلا میں جانا بہت آسان ہے۔ سمندر کی سطح پر انسانی جسم پر ہوا کا دباؤ تقریباً 15 پاؤنڈ فی مربع انچ ہے اور خلا میں زمین کے ماحول کے اوپر دباؤ کم ہو کر صفر ہو جاتا ہے، جب کہ غوطہ خوری کرنے یا پانی کے اندر موجود گاڑی میں سواری کر کے گہرائیوں میں جانے پر دباؤ بڑھنا شروع ہو جاتا ہے۔

    انھوں نے اب تک سمندر کی سب سے گہری دریافت شدہ جگہ ماریانا گھاٹی (Mariana Trench) کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ ماریانا گھاٹی کے نیچے غوطہ لگانے پر، جو تقریباً 7 میل (11.265 کلو میڑ) گہری ہے، سطح کے مقابلے میں تقریباً ایک ہزار گنا زیادہ دباؤ محسوس ہوتا ہے۔ یہ دباؤ انسانی جسم پر 50 جمبو جیٹ رکھے جانے کے وزن کے برابر ہے۔

    سمندر کی گہرائیوں میں شدید دباؤ، سرد درجہ حرارت اور مکمل اندھیرا، ان چیلنجوں سے ماہرین بحریات جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے کتنی جلدی نمٹ کر سمندروں کو دریافت کر پاتے ہیں یہ تو صرف وقت ہی بتا سکتا ہے۔

  • کون سا سمندر کہاں واقع ہے، کن ممالک کی سرحدیں کس سمندر سے ملتی ہیں؟ مکمل معلومات

    کون سا سمندر کہاں واقع ہے، کن ممالک کی سرحدیں کس سمندر سے ملتی ہیں؟ مکمل معلومات

    فرید الحق حقی

    سمندر دنیا کی سطح پر پھیلے ہوئے بڑے آبی ذخائر ہیں جو زمین کے مختلف حصوں کو گھیرے ہوئے ہیں۔ سمندر براعظموں کے ساتھ جڑے ہوتے ہیں اور کئی جگہوں پر خلیجوں، آبناؤں اور چھوٹے سمندروں کی شکل میں تقسیم ہو جاتے ہیں۔ سمندر بین الاقوامی تجارت، ماحولیاتی نظام، اور موسمی تبدیلیوں میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ بڑی بندرگاہیں جیسے کراچی، شنگھائی، نیویارک، سنگاپور سمندری نقل و حمل کے بڑے مراکز ہیں۔

    مغربی بحر اوقیانوس (Western Atlantic Ocean)


    اس سے مراد بحر اوقیانوس کا وہ حصہ ہے جو امریکا سے ملحق ہے، جو شمالی، وسطی اور جنوبی امریکا کے مشرقی ساحلوں سے تقریباً وسط بحر اوقیانوس کے کنارے تک پھیلا ہوا ہے۔

    محل وقوع

    شمالی نصف کرہ، آرکٹک سرکل (گرین لینڈ اور کینیڈا کے قریب) سے جنوب کی طرف خط استوا تک پھیلی ہے، جو مشرقی امریکا، خلیج میکسیکو، بحیرہ کیریبین اور مشرقی کینیڈا سے متصل ہے۔ جنوبی نصف کرہ، جو خط استوا سے بحرِ جنوبی تک پھیلی ہے، برازیل، یوراگوئے اور ارجنٹائن سے ملحق ہے۔

    بڑے خطے

    خلیج میکسیکو کے بڑے علاقے، جنوبی امریکا، میکسیکو اور کیوبا سے متصل۔ کیریبین سمندر، کیوبا، جمیکا، پورٹو ریکو، اور لیزر اینٹیلز جیسے جزیروں کو گھیرے ہوئے ہے۔ سرگاسو سمندر، ایمیزون دریا کا منہ، جہاں ایمیزون برازیل سے دور بحر اوقیانوس میں خارج ہوتا ہے۔

    سرحدی ممالک

    شمالی امریکا میں: امریکا (مشرقی ساحل)، کینیڈا (میری ٹائم صوبے)، میکسیکو (خلیجی ساحل)، کیریبین، کیوبا، ڈومینیکن ریپبلک، بہاماس، جمیکا، اور دیگر۔ جنوبی امریکا میں: برازیل، وینزویلا، کولمبیا، گیانا، سورینام، فرانسیسی گیانا، ارجنٹائن اور یوراگوئے۔ جزائر میں: آرکیپیلاگوس برمودا، بہاماس، گریٹر اینڈ لیزر اینٹیلز، فرنینڈو ڈی نورونہا (برازیل)۔

    مغربی-ہند بحرالکاہل (Indo-West Pacific)


    یہ ایک وسیع سمندری جیو جغرافیائی خطہ ہے، جو اپنی غیر معمولی حیاتیاتی تنوع کے لیے مشہور ہے، خاص طور پر مرجان کی چٹانوں کے ماحولیاتی نظام میں۔ یہ دو بڑے سمندری طاسوں ٹراپیکل اور سب ٹراپیکل پانیوں پر پھیلا ہوا ہے اور اس میں درج ذیل اہم علاقے شامل ہیں:

    محل وقوع

    مغربی سرحد افریقہ کے مشرقی ساحل سے شروع ہوتی ہے، بشمول بحیرہ احمر، مشرقی افریقی ساحل (مثلاً، موزمبیق، تنزانیہ)، مڈغاسکر، اور بحیرہ عرب کی مشرقی حد جو وسطی بحر الکاہل تک پھیلی ہوئی ہے، جس میں فجی اور ساموا جیسے جزائر شامل ہیں۔ ٹونگا، اور مائیکرونیشیا کے کچھ حصے (مثلاً، پالاؤ، مارشل جزائر)۔

    شمالی اور جنوبی حدود: جنوبی جاپان اور جنوبی بحیرہ چین سے شمالی آسٹریلیا (مثلاً، گریٹ بیریئر ریف) اور نیو کیلیڈونیا تک پہنچتی ہیں۔

    بنیادی ذیلی علاقے: مغربی ہند-بحرالکاہل میں بحیرہ احمر، خلیج عرب، اور مشرقی افریقی سواحل شامل ہیں۔ اس میں 40 سے زیادہ ممالک کے علاقے شامل ہیں، بشمول انڈونیشیا، فلپائن، آسٹریلیا، پاپوا نیو گنی وغیرہ۔

    ہند بحر الکاہل (Indo-Pacific)


    یہ ایک وسیع اور تزویراتی لحاظ سے اہم خطہ ہے جو دو بڑے سمندروں اور ان کے آس پاس کے علاقوں پر پھیلا ہوا ہے۔

    محل وقوع

    مشرقی افریقہ سے بحرالکاہل کے جزیرے تک افریقہ کے مشرقی ساحل (بشمول کینیا، تنزانیہ اور جنوبی افریقہ) سے بحر ہند کے اس پار تک اس کا پھیلاؤ ہے۔

    جنوبی اور جنوب مشرقی ایشیا میں جنوبی ایشیائی ممالک (مثلاً، بھارت، سری لنکا)، جنوب مشرقی ایشیا (مثلاً، انڈونیشیا، ملائیشیا، فلپائن)، اور مشرقی ایشیا (مثلاً، جاپان، جنوبی کوریا) اوشیانا اور بحرالکاہل شامل ہیں- آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، اور بحر الکاہل کے جزیرے کے ممالک (مثال کے طور پر، فجی، پاپوا نیو گنی)۔

    بحیرہ احمر ( Red Sea)


    یہ افریقہ اور ایشیا کے براعظموں کے درمیان واقع پانی کا ایک اسٹریٹجک لحاظ سے اہم خطہ ہے۔

    محل وقوع

    شمال میں: مصر میں نہر سویز کے ذریعے بحیرہ روم سے جڑتا ہے۔ جنوب میں آبنائے باب المندب کے ذریعے بحر ہند سے جڑا ہے اور خلیج عدن کی طرف جاتا ہے۔ اس کا افریقی ساحل مصر، سوڈان، ایریٹیریا، اور جبوتی سے متصل ہے، اور ایشیائی ساحل (جزیرہ نما عرب) سعودی عرب اور یمن سے۔ شمال مشرقی (خلف عقبہ) سریل اور اردن سے۔

    بحیرہ عرب (Arabian Sea)


    یہ شمالی بحر ہند کا ایک خطہ ہے جو درج ذیل جغرافیائی ممالک سے گھرا ہوا ہے۔

    مشرق میں جزیرہ نما بھارت (بھارت کا مغربی ساحل)، پاکستان اور ایران کے شمالی جنوبی ساحل۔ مغرب میں عرب جزیرہ نما (عمان، یمن) اور ہارن آف افریقہ (صومالیہ) جنوبی بحر ہند میں کھلتا ہے، جس کی سرحد کو اکثر بھارت کے جنوبی سرے (کنیا کماری) سے صومالیہ (کیپ گارڈافوئی) کے مشرقی سرے تک ایک لکیر سمجھا جاتا ہے۔

    کلیدی رابطے: خلیج عمان آبنائے ہرمز کے ذریعے خلیج فارس سے جڑتا ہے، اور خلیج عدن کا تعلق بحیرہ احمر سے آبنائے باب المندب کے ذریعے۔ اہم بندرگاہوں اور شہروں میں ممبئی (انڈیا)، کراچی (پاکستان)، مسقط (عمان)، اور عدن (یمن) شامل ہیں۔

    خلیج فارس (Persian Gulf)


    یہ مشرق وسطیٰ میں واقع پانی کا اسٹریٹجک لحاظ سے ایک اہم خطہ ہے، جس کا جغرافیائی محل وقوع یوں ہے:

    یہ جزیرہ نما عرب (جنوب اور مغرب میں) اور ایران (شمال اور مشرق میں) کے درمیان رابطہ قائم کرتا ہے۔ بحر ہند کے کچھ سمندر کا حصہ بھی اس سے ملا ہوا ہے۔

    سرحدی ممالک: شمالی/مشرقی ساحل پر ایران، جنوبی/مغربی ساحل پر سعودی عرب، کویت، بحرین، قطر، متحدہ عرب امارات (یو اے ای) اور عراق، (شط العرب دریائے ڈیلٹا کے قریب چھوٹی ساحلی پٹی)۔ عمان کی موجودگی آبنائے ہرمز کے قریب ہے، لیکن بنیادی طور پر یہ خلیج عمان سے متصل ہے۔


    30 کلو کی خطرناک شکاری شارک مچھلی 30 گرام کی ننھی سی مچھلی کی محتاج کیوں؟


  • چھوٹی سی کشتی اور تنہائی، 3 ماہ سمندر میں بھٹکنے والا شخص کیسے زندہ رہا؟ حیرت انگیز کہانی

    چھوٹی سی کشتی اور تنہائی، 3 ماہ سمندر میں بھٹکنے والا شخص کیسے زندہ رہا؟ حیرت انگیز کہانی

    طوفانی لہروں میں بہہ جانے والے ماہی گیر کو تین ماہ بعد گہرے سمندر سے تلاش کر لیا گیا جس کو ایک یاد نے زندہ رکھا۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق گزشتہ دنوں ایکواڈور کے نیوی حکام کو سمندر میں ایک چھوٹی کشتی ڈولتی دکھائی دی اور جب وہ اس کے قریب پہنچے تو کشتی میں ایک شخص کو انتہائی تشویشناک حالت میں پایا۔

    نیوی حکام نے اس کو فوری ریسکیو کیا اور علاج کے لیے اسپتال منتقل کیا ابتدا میں اس کی حالت انتہائی خراب تھی تاہم اب طبیعت میں مسلسل بہتری آ رہی ہے۔

    خستہ حالت میں ملنے والا یہ شخص 61 برس کا میسکیمو ناپا تھا، جو تین ماہ قبل مچھلیوں کے شکار کے لیے ایک چھوٹی کشتی میں سمندر میں نکلا تھا تاہم تند وتیز لہریں کشتی کو بہا کر ساحل سے دور گہرے سمندر میں لے گئیں۔

    ریسکیو کے بعد لوکل میڈیا سے گفتگو میں مذکورہ شخص نے روتے ہوئے بتایا کہ اس نے تین ماہ بعد تکلیف میں گزارے۔

    میسکیمو نے بتایا کہ اس نے خود کو زندہ رکھنے کے لیے پرندوں کے ساتھ کیڑے مکوڑے اور کچھوے تک کھائے اور صرف بارش کے پانی پر گزارا کیا۔ اس دوران 15 روز تو کچھ بھی کھانے کو نہیں ملا اور اسے بھوکا ہی رہنا پڑا۔

    اس کا کہنا تھا کہ تاہم مجھے اتنے سخت حالات میں بھی اپنی ماں کی یاد زندہ رکھے ہوئے تھے۔ میں اپنی ماں اور پوتی کے لیے جینا چاہتا تھا۔ میں ہر وقت ان کے بارے میں سوچتا رہتا تھا اور یہی میرے زندہ رہنے کی وجہ بنی۔

    ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ میکسیمو ناپا کی حالت کافی بہتر ہو گئی ہے، اب وہ چل پھر سکتا اور اپنے کام خود کر سکتا ہے۔

     

    واضح رہے کہ میکسیمو گزشتہ برس 7 دسمبر کو سین جوان کے ساحل سے مچھلیاں پکڑنے روانہ ہوا، مگر خراب موسم کے باعث وہ اپنی سمت کھو بیٹھا جب کہ سمندر کی طوفانی لہروں نے اس کی کشتی کو ساحل سے دور بیچ سمندر میں لا پھینکا۔

  • ویڈیو: سمندر میں کچھ بڑا اور خطرناک ہونے والا ہے؟

    ویڈیو: سمندر میں کچھ بڑا اور خطرناک ہونے والا ہے؟

    رواں برس تواتر کے ساتھ سمندر اور آبی حیات سے متعلق کچھ ایسے غیر معمولی واقعات ہوئے ہیں جس سے کئی قیاس آرائیوں نے جنم لیا ہے۔

    رواں سال 2025 کی ابتدا سے سمندر اور آبی حیات سے متعلق کچھ غیر معمولی واقعات تسلسل کے ساتھ رونما ہو رہے ہیں جس کے باعث مختلف قیاس آرائیاں جنم لے رہی ہیں۔

    سال کے پہلے ماہ جنوری میں نایاب اینگلر فش کو پہلی بار سطح سمندر میں دیکھا گیا جب کہ یہ مچھلی گہرے پانی میں 200 سے 2 ہزار فٹ کی گہرائی میں پائی جاتی ہے، جہاں سورج کی روشنی نہیں پہنچ پاتی۔

    No photo description available.

    اسی طرح میکسیکو کے ساحل پر بھی حیرت انگیز طور پر اورفش دیکھی گئی۔ یہ مچھلی بھی سمندر میں 15 ہزار میٹر کی گہرائی میں تاریک ماحول میں رہتی ہے اور شاذ ونادر ہی سطح آب پر آتی ہے۔

    دیگر معلومات (090) - آئیے oarfish - Digandnity کے بارے میں سیکھتے ہیں۔

    اسپین کے ساحل پر چمکدار لمبی مچھلی نمودار ہوئی جس کو قیامت کی مچھلی بھی کہا جاتا ہے۔

    سپین ،ساحل سمندر پر پراسرار قیامت کی مچھلی کا ظہور

    اسی طرح گزشتہ ماہ آسٹریلوی ساحلوں پر ڈیڑھ سو سے زائد ویلز مردہ حالت میں پائی گئیں۔

    ڈولفنز

    روس میں ایک بھوت نما مچھلی بھی پکڑی گئی جس کو دیکھ کر سب خوفزدہ ہوگئے۔
    اس کے علاوہ دنیا کے دیگر ممالک کی ساحلی پٹی پر بھی معمول سے ہٹ کر کئی مناظر دیکھے گئے ہیں۔ اس کے بعد سوشل میڈیا پر یہ معاملہ نہ صرف زیر بحث ہے بلکہ اس حوالے سے مختلف قیاس آرائیاں بھی کی جارہی ہیں۔

    کچھ صارفین کا کہنا ہے کہ سمندر میں کچھ بڑا اور خطرناک ہونے والا ہے اس لیے نایاب آبی حیات سطح سمندر پر آرہی ہیں، جبکہ کچھ سوشل میڈیا صارفین اسے ایک خوفناک سمندری مخلوق لیوی ایتھن سے جوڑ رہے ہیں۔

     

    اس حوالے سے ماہرین کا کہنا ہے کہ گہرے پانیوں کی مخلوق کا ساحل سمندر پر آنا صرف موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہے۔

    https://urdu.arynews.tv/viral-video-fish-or-alien/

     

  • سمندر میں کشتی میں اچانک آگ بھڑک اُٹھی، ویڈیو وائرل

    سمندر میں کشتی میں اچانک آگ بھڑک اُٹھی، ویڈیو وائرل

    بھارت میں ممبئی کے علی باغ کے قریب سمندر میں ایک کشتی میں اچانک خوفناک آگ بھڑک اُٹھی، جس کی ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر گردش کررہی ہے۔

    بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق کشتی میں آگ لگنے کا واقعہ صبح کے وقت پیش آیا، اس دوران کشتی کا تقریباً 80 فیصد حصہ جل کر خاکستر ہوگیا۔ آگ کی لپیٹ میں آکر کشتی میں موجود مچھلی پکڑنے کے جال بھی جل کر راکھ ہوگئے۔

    رپورٹس کے مطابق کشتی پر 18 سے 20 ماہی گیر سوار تھے، تاہم خوش قسمتی کوئی جانی نقصان نہیں ہوا، آگ لگنے کی اصل وجہ تاحال معلوم نہیں ہوسکی، لیکن ابتدائی معلومات کے مطابق آگ ممکنہ طور پر شارٹ سرکٹ کے سبب لگی، کشتی ساکھر گاؤں کے رہائشی راکیش ماروتی گن کی بتائی جا رہی ہے۔

    کشتی کو مقامی لوگوں کی مدد سے کنارے تک پہنچایا گیا اور آگ کو بجھایا گیا، سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ سمندر کے بیچ میں یہ شپ آگ کے شعلوں میں گھر گئی تھی، آگ کی شدت بہت زیادہ تھی، جس کے باعث آگ بجھانے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

    پولیس کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ علی باغ کے ساحل سے تقریباً 6 سے 7 سمندری میل دور راکیش گن نامی ماہی گیر کی شپ میں علی الصبح 3 سے 4 بجے کے درمیان آگ لگنے کا واقعہ رونما ہوا، تاہم، انڈین کوسٹ گارڈ اور بھارتی نیوی کی بروقت کارروائی سے تمام 18 ماہی گیروں کی زندگیاں بچالی گئیں۔

    گلیشئر گرنے سے 47 مزدور دب گئے

    خبر رساں ایجنسی کی جانب سے جاری کی گئی ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ شپ مکمل طور پر تباہ شدہ حالت میں موجود ہے، اور سمندر میں ایک طرف جھکی ہوئی ہے۔

  • سمندر، سندھ کی تاریخی شہروں کے قدیم آثار بھی نگلنے لگا

    سمندر، سندھ کی تاریخی شہروں کے قدیم آثار بھی نگلنے لگا

    دریائے سندھ کا ڈیلٹا موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ختم ہو رہا ہے اس کے ساتھ ساتھ سمندر صوبے کے تاریخی شہروں کے قدیم آثار بھی نگل رہا ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث دریائے سندھ کا ڈیلٹا ختم ہورہا ہے۔ جہاں کئی ڈیلٹائی علاقے اب تک سمندر برد ہوچکے ہیں وہیں سمندر صوبے کے تاریخی شہروں کے قدیم آثار نگل رہا ہے۔

    سمندر برد ہونے والے تاریخی شہروں کے قدیم اثاثے دکھانے اور بچ جانے والے اثاثوں کے تحفظ کے لیے کراچی میگنی فائی سائنس سینٹر میں انڈس ڈیلٹا کے کھوئے ہوئے شہر کو تصاویر کے ذریعے پیش کرنے کے ساتھ ساتھ یجیٹل ہیریٹیج ٹریلز پروجیکٹ کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ اس پراجیکٹ کے تحت مختلف آثار قدیمہ کے مقامات کو ڈیجیٹلی ریکارڈ کیا گیا ہے۔

    کراچی کے میگنی فائی سائنس سینٹر میں قدیمی ورثے کی حالت زار پر تھری ڈی فلم ذریعے دکھایا گیا۔

    دستاویزی فلم میں ماہرین کی جانب سے سندھ کے ڈیلٹا میں واقع قدیم شہروں کی حالت پر تحقیق کی گئی۔ اس تحقیق جس کے مطابق سطح سمندر کے بڑھنے اور دریائے سندھ کے پانی کی قلت کی وجہ سے ڈیلٹا ختم ہو رہا ہے اور قدیم شہروں کے آثار بھی سمندر کے نیچے جا رہے ہیں۔

    ماہر آثار قدیمہ طارق الیگزینڈر قیصر کا کہنا ہے کہ ڈیلٹا کا بہت نقصان ہو چکا، لیکن مکمل تباہی سے بچنے کے لیے اب بھی اب بھی ہلکی سے امید باقی ہے۔

    اس موقع پر پینل ڈسکشن کا انعقاد کیا گیا۔ تقریب کے آخر میں معروف سندھی لوک گلوکار الن فقیر مرحوم کے صاحبزادے فہیم الن فقیر نے روایتی لوک گیت بھی پیش کیے۔

  • سمندر سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے لیے اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے، صدر آصف زرداری

    سمندر سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے لیے اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے، صدر آصف زرداری

    اسلام آباد: صدر پاکستان آصف علی زرداری نے بلیو اکانومی تعاون پر تیسرے چین بحر ہند علاقائی فورم سے ویڈیو خطاب کیا، اس فورم کا انعقاد چین کی عالمی ترقیاتی تعاون ایجنسی نے چین کے شہر کُن مِنگ میں کیا۔

    ویڈیو خطاب میں آصف علی زرداری نے کہا پاکستان بحر ہند کے علاقے میں سمندری تعاون کے فروغ کے لیے پرعزم ہے، سمندر سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے لیے اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے۔

    انھوں نے کہا کہ ماحولیاتی تبدیلی، آلودگی اور ماحولیاتی نظام کی تنزلی جیسے مسائل حل کرنے ہوں گے، پاکستان بحری شعبے میں تعاون کے فروغ کے لیے اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ شراکت کا خواہاں ہے، پاکستان چاہتا ہے کہ ہمارا خطہ امن، ترقی اور پائیداری کا گڑھ بنا رہے۔

    صدر آصف زرداری کا کہنا تھا کہ مستقبل کی عالمی معاشی ترقی مشرقی ممالک پر انحصار کرے گی، دنیا کی بڑی آبادی چین اور ہمارے خطے کے دیگر ممالک میں رہتی ہے۔

    صدر مملکت نے ویڈیو پیغام میں بحر ہند میں امن، ترقی اور پائیداری کے لیے پاکستان کے عزم کا اعادہ کیا اور کہا پاک چین اقتصادی راہداری کے تحت گوادر پورٹ کو ترقی دی جا رہی ہے، گوادر پورٹ کو علاقائی روابط کے مرکز میں بدلا جا رہا ہے، بندرگاہ سے تجارت اور سمندری اقتصادی ترقی کو فروغ حاصل ہوگا۔

    انھوں نے کہا کہ پاکستان نے نیشنل میری ٹائم پالیسی متعارف کرائی، اور پائیدار ماہی گیری اور سمندری تحفظ کے لیے اقدامات کیے گئے۔