Tag: سمندروں کا عالمی دن

  • ’بیمار‘ سمندر ہمیں صحت مند کیسے رکھ سکیں گے؟

    ’بیمار‘ سمندر ہمیں صحت مند کیسے رکھ سکیں گے؟

    آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں سمندروں کا عالمی دن منایا جا رہا ہے، زمین کے 70 فیصد حصے پر ہونے کی وجہ سے ہمارے سمندر، جنگلات سے کہیں زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرتے ہیں۔

    سمندروں کا عالمی دن منانے کی تجویز سنہ 1992 میں دی گئی تھی اور تب سے اسے مختلف ممالک میں انفرادی طور پر منایا جارہا تھا تاہم 2008 میں اقوام متحدہ نے اس دن کی منظوری دی جس کے بعد سے اس دن کو باقاعدہ طور پر پوری دنیا میں منایا جانے لگا۔

    اس دن کو منانے کا مقصد انسانی زندگی میں سمندروں کی اہمیت، آبی جانوروں کے تحفظ اور سمندری آلودگی میں کمی کے حوالے سے شعور اجاگر کرنا ہے۔

    انسانی زندگی اور زمین کی بقا کے لیے ضروری سمندر پلاسٹک کی تباہ کن آلودگی سے اٹ چکے ہیں۔

    نیدر لینڈز کے ماحولیاتی ادارے گرین پیس کے مطابق دنیا بھر میں 26 کروڑ ٹن پلاسٹک پیدا کیا جاتا ہے جس میں سے 10 فیصد ہمارے سمندروں میں چلا جاتا ہے۔

    اقوام متحدہ کے مطابق سنہ 2050 تک ہمارے سمندروں میں آبی حیات سے زیادہ پلاسٹک موجود ہوگی، پلاسٹک سمندروں میں موجود آبی حیات کی بقا کے لیے سخت خطرات کا باعث بن رہی ہے۔

    زیادہ تر جاندار پلاسٹک کو غذائی اشیا سمجھ کر نگل جاتے ہیں جو ان کے جسم میں ہی رہ جاتا ہے نتیجتاً ان کا جسم پلاسٹک سے بھرنے لگتا ہے اور یہ جاندار بھوک کی حالت میں مر جاتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہماری زمین پر پیدا ہونے والی کاربن کو جنگلات سے زیادہ سمندر جذب کرتے ہیں کیونکہ یہ تعداد اور مقدار میں جنگلات سے کیں زیادہ ہیں۔

    ایک تحقیق کے مطابق سنہ 1994 سے 2007 کے دوران سمندروں نے 34 گیگا ٹن کاربن جذب کیا۔

    سنہ 2016 میں پیش کی گئی دہائیوں کی تحقیق کو دیکھتے ہوئے ماہرین کا کہنا تھا کہ عالمی درجہ حرارت میں اضافہ یعنی گلوبل وارمنگ سمندروں کو بیمار بنا رہا ہے جس سے سمندری جاندار اور سمندر کے قریب رہنے والے انسان بھی بیمار ہو رہے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ سمندر ہماری کائنات کی طویل المعری اور پائیداری کا سبب ہیں، سمندروں کو پہنچنے والے نقصان سے ہم بھی محفوظ نہیں رہ سکیں گے۔

    دوسری جانب اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ کلائمٹ چینج کے خطرات میں کمی کرنا اور آلودگی کم کرنے سے ہی ہم اپنے سمندروں کو بچا سکیں گے۔

  • وزیر خارجہ کا سمندر میں بڑی مچھلیوں کی تعداد میں 90 فی صد کمی کا انکشاف

    وزیر خارجہ کا سمندر میں بڑی مچھلیوں کی تعداد میں 90 فی صد کمی کا انکشاف

    اسلام آباد: وزیر خارجہ پاکستان بلاول بھٹو زرداری نے سمندروں کے عالمی دن کے موقع پر اپنے پیغام میں سمندر میں بڑی مچھلیوں کی تعداد میں 90 فی صد کمی کا انکشاف کیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج اقوام متحدہ کے تحت ورلڈ اوشینز ڈے منایا جا رہا ہے، پی پی پی چیئرمین اور ملک کے وزیرِ خارجہ بلاول نے اس دن کی مناسبت سے ایک اہم پیغام جاری کیا ہے۔

    انھوں نے کہا کہ رپورٹس ہیں کہ سمندر میں بڑی مچھلیوں کی تعداد میں 90 فی صد کمی ہوئی ہے اور مونگے کی چٹانوں کی آبادی 50 فی صد تباہ ہو چکی ہے۔

    بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ سمندری کٹاؤ کی موجودہ شرح برقرار رہی تو 2050 تک سمندر ٹھٹھہ شہر تک پہنچ جانے کا خدشہ ہے، یہ صورت حال پاکستان سمیت عالمی برادری کے لیے انتہائی تشویش ناک ہے۔

    وزیر خارجہ نے کہا سمندر کرۂ ارض پر 50 فی صد آکسیجن پیدا کرتے ہیں، اور کاربن ڈائی آکسائڈ کا 30 فی صد جذب کرتے ہیں، اب سمندروں کے ڈیلٹائی علاقے تیزی سے ختم ہو رہے ہیں، ایک تحقیق کے مطابق انڈس ڈیلٹا کا 2.4 ملین ایکڑ رقبہ سمندر برد ہو چکا ہے۔

    بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ انسانی خود غرضی کی وجہ سے پیدا ہونے والے نقصانات سے سمندروں کو بچانے کے لیے عالمی برادری اور سمندری حیاتیات کے ماہرین مِل بیٹھیں۔

    انھوں نے یقین دہانی کرائی کہ پاکستان بطور ایک ذمہ دار ملک اقوام متحدہ کی اس دن کی خصوصی تھیم ‘حیات نو: سمندر کے لیے اجتماعی اقدام’ کو اجاگر کرنے میں اپنا کردار ادا کرے گا۔

  • سمندروں کا عالمی دن: ماس ٹرالنگ اور پلاسٹک کا کچرا سمندروں کو نقصان پہنچانے کا سبب

    سمندروں کا عالمی دن: ماس ٹرالنگ اور پلاسٹک کا کچرا سمندروں کو نقصان پہنچانے کا سبب

    آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں سمندروں کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ رواں برس یہ دن سمندر: زندگی اور ذریعہ معاش کے عنوان کے تحت منایا جارہا ہے۔

    سمندروں کا عالمی دن منانے کی تجویز سنہ 1992 میں دی گئی تھی اور تب سے اسے مختلف ممالک میں انفرادی طور پر منایا جارہا تھا تاہم 2008 میں اقوام متحدہ نے اس دن کی منظوری دی جس کے بعد سے اس دن کو باقاعدہ طور پر پوری دنیا میں منایا جانے لگا۔

    اس دن کو منانے کا مقصد انسانی زندگی میں سمندروں کی اہمیت، آبی جانوروں کے تحفظ اور سمندری آلودگی میں کمی کے حوالے سے شعور اجاگر کرنا ہے۔

    سمندروں کو زمین کے پھیپھڑے کہا جاتا ہے، سمندر آبی حیات کے مرکز سے لے کر ہمیں غذا اور دواؤں کا بڑا حصہ فراہم کرتے ہیں۔

    اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ مقامی مچھلیوں کو بطور غذا استعمال کرنے (جس سے مقامی ماہی گیروں اور معیشت کو فائدہ ہو)، سے لے کر سمندروں کو پلاسٹک سمیت ہر طرح کی آلودگی سے بچانے کے لیے ہمیں اپنا کردار ادا کرنا ضروری ہے۔

    ماہی گیری کی صنعت پاکستان سمیت دنیا بھر کی معیشت کا ایک اہم حصہ ہے۔

    پاکستانی ماہی گیروں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ماہی گیری کی صنعت بغیر کسی قواعد و ضوابط کے ملکی جی ڈی پی میں 100 ارب روپے سے زائد ریونیو کی حصے دار ہے، اگر اسے منظم اور جدید خطوط پر استوار کیا جائے تو یہ ملکی معیشت کا اہم ستون ثابت ہوگی۔

    پاکستانی سمندروں میں اس وقت غیر ملکی افراد کو ٹرالنگ کی اجازت دینے کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے وہ ہمارے سمندروں کے لیے سخت نقصان دہ ہے۔

    مزید پڑھیں: سمندر میں ہلکورے لیتی کشتیاں، جن کے ملاح کچھوؤں کی بددعاؤں سے خوفزدہ ہیں

    ماہی گیروں کے مطابق وہ اسے ماس کلنگ کا نام دیتے ہیں، ہیوی مشینری کے ذریعے ٹرالنگ کرنے سے اس جگہ موجود تمام سمندری حیات اوپر آجاتی ہے جن کی مقدار ہزاروں ٹن تک ہوتی ہے۔ بعد ازاں اس میں سے قابل فروخت مچھلیاں اور جھینگے وغیرہ نکال کر بقیہ مردہ جاندار واپس سمندر میں ڈال دیے جاتے ہیں۔

    ان کا کہنا ہے کہ یہ مردہ جاندار سمندر کی آلودگی میں اضافے کا باعث ہیں، ٹرالنگ ہمارے سمندری وسائل کے لیے سخت نقصان دہ ہے۔

    دوسری جانب اقوام متحدہ نے پلاسٹک کی آلودگی کو سمندروں کے لیے بڑا خطرہ قرار دیا ہے، اقوام متحدہ کے مطابق سنہ 2050 تک ہمارے سمندروں میں آبی حیات سے زیادہ پلاسٹک موجود ہوگی۔

  • سمندری وسائل کے دیرپا استعمال اور بقا کیلئے اپنےعزم کا اعادہ کرتے ہیں، نیول چیف

    سمندری وسائل کے دیرپا استعمال اور بقا کیلئے اپنےعزم کا اعادہ کرتے ہیں، نیول چیف

    اسلام آباد : نیول چیف ایڈمرل ظفر محمود عباسی نےسمندروں کےعالمی دن کے موقع پر اپنے پیغام میں کہاکہ ہم سمندری وسائل کے دیرپا استعمال اور بقا کے لیے اپنے عزم کا اعادہ کرتے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق پاک بحریہ اقوام عالم کے ساتھ آج سمندروں کا عالمی دن منا رہی ہے، سمندروں کے عالمی دن کے لیے اقوام متحدہ کا منتخب موضوع "صنف اورسمندر ” ہے۔

    نیول چیف ایڈمرل ظفر محمود عباسی نے سمندروں کے عالمی دن پر پیغام میں کہا سمندروں سے جڑی معیشت میں خواتین کا کردار اہم ہے، سمندری وسا ئل کے دیرپا استعمال اور بقا کے لیے اپنے عزم کا اعادہ کرتے ہیں۔

    ترجمان پاک بحریہ نے کہا دن کو منانے کا مقصداس شعبےمیں خواتین کےکردارکی حوصلہ افزائی ، سمندروں کی اہمیت کو اجاگر کرنا اور انسانی سرگرمیوں کے سمندر  پراثرات سےعالمی برادری کوروشناس کرانا ہے۔

    ترجمان کا کہنا تھا سمندری وسائل کے دیرپا استعمال کےفروغ میں مرکزی کردار ادا کر رہے ہیں۔

    ساحل کی صفائی، سمندری وسائل سے آگاہی کے لیے واک اورسیمینارزکیے جارہے ہیں جبکہ سمندر اور سمندری وسائل سے آگاہی کے لیے پاک بحریہ نے مختصر ویڈیو بھی ریلیز کی ہے۔

    خیال رہے سمندروں کاعالمی دن 1992 میں ریوڈی جینرو میں ہونے والی زمین کے نام سے منعقد کی جانے والی کانفرنس سے منانے کا آغاز ہوا جبکہ یہ دن اقوام متحدہ کے تحت 2008 سے ہرسال سمندر کے تحفظ کا شعوراجاگر کرنے کے لئے منایا جاتا ہے۔

  • پلاسٹک کا گڑھ بنتے ہمارے سمندر

    پلاسٹک کا گڑھ بنتے ہمارے سمندر

    آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں سمندروں کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ رواں برس یہ دن سمندروں کو پلاسٹک کی آلودگی سے بچانے کے خیال کے تحت منایا جارہا ہے۔

    سمندروں کا عالمی دن منانے کی تجویز سنہ 1992 میں دی گئی تھی اور تب سے اسے مختلف ممالک میں انفرادی طور پر منایا جارہا تھا تاہم 2008 میں اقوام متحدہ نے اس دن کی منظوری دی جس کے بعد سے اس دن کو باقاعدہ طور پر پوری دنیا میں منایا جانے لگا۔

    اس دن کو منانے کا مقصد انسانی زندگی میں سمندروں کی اہمیت، آبی جانوروں کے تحفظ اور سمندری آلودگی میں کمی کے حوالے سے شعور اجاگر کرنا ہے۔

    انسانی زندگی اور زمین کی بقا کے لیے ضروری سمندر پلاسٹک کی تباہ کن آلودگی سے اٹ چکے ہیں۔

    نیدر لینڈز کے ماحولیاتی ادارے گرین پیس کے مطابق دنیا بھر میں 26 کروڑ ٹن پلاسٹک پیدا کیا جاتا ہے جس میں سے 10 فیصد ہمارے سمندروں میں چلا جاتا ہے۔

    اقوام متحدہ کے مطابق سنہ 2050 تک ہمارے سمندروں میں آبی حیات سے زیادہ پلاسٹک موجود ہوگی۔

    کچھ عرصہ قبل عالمی اقتصادی فورم نے دنیا بھر کے سمندروں میں پائے جانے والے پلاسٹک کی تعداد پیش کی تھی۔

    عالمی اقتصادی فورم کے مطابق جنوبی بحر اوقیانوس میں پلاسٹک کے 297 ارب ٹکڑے موجود ہیں۔

    جنوبی بحر الکاہل میں 491 ارب پلاسٹک کے ٹکڑے پھینکے گئے ہیں۔

    شمالی بحر اوقیانوس میں 930 ارب پلاسٹک کے ٹکڑے سمندر کو آلودہ کیے ہوئے ہیں۔

    بحرہ ہند میں 1 اعشاریہ 3 کھرب پلاسٹک کے ٹکڑے موجود ہیں۔

    سب سے زیادہ پلاسٹک کے ٹکڑے شمالی بحر اوقیانوس میں موجود ہیں جن کی تعداد 2 کھرب ہے۔

    پلاسٹک سمندروں میں موجود آبی حیات کی بقا کے لیے بھی سخت خطرات کا باعث بن رہی ہے۔

    زیادہ تر جاندار پلاسٹک کو غذائی اشیا سمجھ کر نگل جاتے ہیں جو ان کے جسم میں ہی رہ جاتا ہے نتیجتاً ان کا جسم پلاسٹک سے بھرنے لگتا ہے اور یہ جاندار بھوک کی حالت میں مر جاتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: پلاسٹک نے بے زبان وہیل کی جان لے لی

    اسی طرح یہ جاندار پلاسٹک کے ٹکڑوں میں پھنس جاتے ہیں جس سے ان کے جسم کی ساخت بگڑ جاتی ہے۔ پلاسٹک میں پھنس جانے والے جاندار بعض اوقات ہلاک بھی ہوجاتے ہیں۔

    پلاسٹک کی تباہ کاری کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔