Tag: سمندری حیات

  • ایران، اسرائیل جنگ کے پاکستانی ماہی گیروں پر اثرات

    ایران، اسرائیل جنگ کے پاکستانی ماہی گیروں پر اثرات

    “جب ہماری کشتیاں ساحل پر کھڑی رہتی ہیں، تو ہمارے چولھے بجھ جاتے ہیں۔” لطیفہ ناصر کہتی ہیں۔ “میرے بچے ایک مہینے سے اسکول نہیں گئے، اور ہم اب قرضوں پر زندگی گزار رہے ہیں۔”

    لطیفہ ناصر اورمارہ کوآپریٹو سوسائٹی کی رکن ہیں ( اور ماہی گیر برادری سے تعلق کی بنا پر مستفید ہونے والوں میں بھی شامل ہیں) یہ سوسائٹی ایک مقامی غیر سرکاری تنظیم ہے جو ماہی گیروں کی فلاح و بہبود اور معاشی حالات کی بہتری کے لیے کام کرتی ہے۔ لطیفہ ناصر کا خاندان بلوچستان کے ضلع گوادر کے ساحلی شہر اورمارہ میں رہتا ہے۔ ان کے شوہر ماہی گیر ہیں، اور علاقے کے بیشتر ماہی گیروں کی طرح ان کا بھی روزگار ایران ،اسرائیل جنگ کے باعث بحران کا شکار ہے۔

    جنوب مغربی پاکستان میں مچھلی اور ایندھن کی ایک اہم تجارت ایران کے ساتھ بند سرحدوں کے باعث مفلوج ہو کر رہ گئی ہے۔

    ایران، اسرائیل تنازع کے بعد پاکستان نے ایران کے ساتھ اپنی سرحد بند کر دی، جس سے ایندھن کی فراہمی اور مچھلی کی برآمد دونوں متاثر ہوئیں۔ یہ دہرا جھٹکا پہلے ہی موسمیاتی تبدیلی اور حد سے زیادہ شکار سے متاثر ماہی گیر برادریوں کے لیے تباہ کن ثابت ہوا ہے۔

    بحیرۂ عرب کے کنارے، بلوچستان کا 770 کلومیٹر طویل ساحل ملکی ماہی گیری میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

    بلوچستان فشریز اور کوسٹل ڈیولپمنٹ ڈیپارٹمنٹ کے ایک اعلیٰ عہدیدار علاﺅالدین ککر نے ڈائیلاگ ارتھ کو بتایا ” صوبے کے ماہی گیر ہر سال تقریباً 3 لاکھ 40 ہزار ٹن مچھلی پکڑتے ہیں، جس کی مارکیٹ ویلیو تقریباً 19.9 ارب روپے (70.1 ملین ڈالر) ہے۔ اس میں مچھلیوں کی بہت سی قیمتی انواع جیسے ٹونا، اسپینش میکریل، کراکر، انڈین آئل سارڈین اور انڈین میکریل شامل ہیں۔ بلوچستان میں 16,000 رجسٹرڈ اور 6,000 غیر رجسٹرڈ کشتیاں مچھلی کے شکار میں مصروف ہیں، جو ہزاروں خاندانوں کا ذریعۂ معاش ہیں۔“

    علاﺅالدین ککر کے مطابق ”اس گراں قدر معاشی اہمیت کے باوجود یہ شعبہ بدانتظامی، فنڈنگ کی کمی اور بیرونی جھٹکوں کے خطرات سے دوچار ہے۔ “

    گوادر چیمبر آف کامرس کے چیئرمین شمس الحق کلمتی کے مطابق ”ایران اور اسرائیل کے درمیان 12 دن کی جنگ سے اس شعبے کو شدید جھٹکا لگا ہے۔ اس سے پہلے ماہی گیر اپنی کشتیاں ایرانی پیٹرول اور ڈیزل سے چلاتے تھے جو غیر قانونی طور پر مگر آسانی سے دستیاب تھا۔ اب سرحدوں کی بندش کے باعث یہ سپلائی چین منہدم ہو گئی ہے۔ اب یہ ایرانی ایندھن یا تو دستیاب نہیں ہے یا پھر خاصا مہنگا ہوچکا ہے مثلا فی لیٹر ایندھن کی قیمت 150 (USD 0.53) روپے سے بڑھ کر 180-200 (USD 0.63-0.70) روپے ہو چکی ہے۔“

    مقامی ذرائع کے مطابق، بلوچستان میں ایرانی ایندھن کی روزانہ درآمد 6 لاکھ بیرل سے گھٹ کر 1 لاکھ 40 ہزار بیرل رہ گئی ہے۔ سرحد بند ہونے سے پہلے گوادر اور آس پاس کے علاقوں میں 300 سے زائد بڑے آئل ڈپو، 1000 پمپس اور 2000 دکانیں تقریباً مکمل طور پر ایرانی ایندھن فروخت کرتی تھیں، جبکہ پاکستانی پیٹرول فروخت کرنے والے پمپس صرف دو تھے۔

    تاہم گوادر کے ڈپٹی کمشنر حمود الرحمن کہتے ہیں کہ “صور ت حال اب معمول پر آ چکی ہے اور کوئی بڑا مسئلہ نہیں۔”

    ماہی گیری صنعت پر اثرات

    ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے سمندری امور کے تکنیکی مشیر محمد معظم خان کا کہنا ہے “یہ بحران صرف معاشی نہیں بلکہ ماحولیاتی بھی ہے۔”

    ان کا کہنا ہے کہ ایندھن کی قیمتوں میں اضافے کے باعث اچانک ٹونا جیسی بڑی مچھلیوں کے شکار کا رک جانا سمندری ماحولیاتی توازن کو متاثر کر سکتا ہے۔

    معظم خان کے مطابق موجودہ جغرافیائی کشیدگی نے پاکستان کی ساحلی اور گہرے سمندر کی ماہی گیری کو شدید متاثر کیا ہے، خاص طور پر ٹونا مچھلی کی انواع کو، ہر سال پاکستانی ماہی گیر تقریباً 50 سے 60 ٹن ٹونا اور اس جیسی مچھلیاں پکڑتے ہیں، جن کی زیادہ تر مقدار براہِ راست ایران کو فروخت کی جاتی ہے۔ اگرچہ یہ برآمد غیر قانونی ہے، بالکل اسی طرح جیسے ایندھن کی اسمگلنگ جو اس کے برعکس سمت میں ہوتی ہے، لیکن سرحد پار ان مچھلیوں کے اچھے دام ملتے ہیں۔

    معظم خان کے مطابق بلوچستان کی ٹونا مچھلی عموماً بین الاقوامی منڈیوں کے معیار پر پورا نہیں اترتی، اس لیے ایران ان چند ممالک میں شامل ہے جو اسے اچھے داموں خریدنے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ ایران میں ٹونا کی فی کلو قیمت 300 سے 700 روپے (1.06 سے 2.47 امریکی ڈالر) تک ہے، اور اس برآمدی تجارت کی سالانہ مالیت تقریباً 1.5 کروڑ سے 3.5 کروڑ روپے (52,900 سے 123,300 امریکی ڈالر) کے درمیان بتائی جاتی ہے۔

    معظم خان کہتے ہیں: ”اگر ایرانی مارکیٹ تک رسائی نہ رہی تو پورا ٹونا فشریز سیکٹر تباہی کے دہانے پر پہنچ جائے گا، جو ان متاثرہ برادریوں کی آمدنی اور روزگار دونوں کے لیے خطرہ بن جائے گا۔“

    طاہر رشید بلوچستان رورل سپورٹ پروگرام کے سی ای او ہیں، جو صوبے کے دیہی غریب اور پسماندہ لوگوں کی مدد کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم ہے۔ وہ معظم صاحب کی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے ”بلوچستان سے زیادہ تر ٹونا اور دیگر تجارتی مچھلیاں ایران کو بارٹر سسٹم کے تحت بھیجی جاتی ہیں، جہاں ماہی گیر اپنی پکڑی ہوئی مچھلی، بشمول ٹونا، کے بدلے پیٹرول اور ڈیزل حاصل کرتے ہیں۔“

    یہ بارٹر تجارت عام طور پر ایرانی اسپیڈ بوٹس کے ذریعے کی جاتی ہے، جو ایران اور پاکستان دونوں میں رجسٹرڈ ہوتی ہیں۔ یہ کشتیاں پاکستانی ماہی گیروں سے مچھلی لینے کے لیے دونوں ممالک کی سمندری سرحد کے قریب اور بلوچستان کے مختلف مقامات جیسے گوادر اور جیوانی تک جاتی ہیں۔

    غریب ماہی گیر، اب غریب تر!

    ٹونا مچھلی کی فروخت کے علاوہ، اس خطے میں پکڑی جانے والی کچھ مچھلیوں کے مختلف حصے (سوئم بلیڈرز) مشرقی اور جنوب مشرقی ایشیائی منڈیوں میں قیمتی خوراک سمجھے جاتے ہیں مگر سرحد بند ہونے کے باعث ایندھن کی قیمتوں میں اضافہ ہو گیا ہے جس کی وجہ سے زمین اور سمندر دونوں کے ذریعے نقل و حمل کے اخراجات بڑھ گئے ہیں۔ نتیجتاً ہزاروں کلوگرام قیمتی تازہ مچھلی فروخت نہیں ہو پا رہی۔

    گوادر کے ماہی گیر نا خدا داد کریم کے مطابق، مقامی منڈی اتنی مضبوط نہیں کہ اضافی مال خرید سکے اور خاص طور پر دور دراز ساحلی قصبوں میں کولڈ اسٹوریج کی سہولتیں بھی نہایت محدود ہیں۔

    مچھلی کو برآمد کے لیے محفوظ کرنے کے طریقوں جیسے کیننگ یا فریزنگ کی کمی یا کہیں کہیں عدم موجودگی کے باعث یہ بحران بلوچستان کی معیشت کے مختلف شعبوں تک پھیل رہا ہے۔

    کلمتی کا کہنا ہے ”باقاعدہ تجارتی راستوں اور مچھلی محفوظ کرنے کے مناسب انتظامات کے بغیر پوری سپلائی چین تباہ ہو رہی ہے۔ برف بنانے والی فیکٹریاں، مچھلی لے جانے والے، پروسیسنگ فیکٹریوں کے مالکان اور کشتیوں کے مکینک ، سبھی متاثر ہو رہے ہیں۔ یہ صرف ماہی گیری کا بحران نہیں بلکہ ایک مکمل اقتصادی ایمرجنسی ہے۔”

    اس تمام صورت حال نے ماہی گیروں کی پکڑی ہوئی مچھلی کی قیمتیں مزید گرا دی ہیں۔

    کریم کہتے ہیں ”میں چالیس سال سے سمندر میں جا رہا ہوں، لیکن کبھی اتنے خراب حالات نہیں دیکھے۔ پہلے ہم ایک سفر پر تقریباً 15,000 روپے (53 ڈالر) خرچ کرتے تھے اور اتنی مچھلی پکڑ لاتے کہ تھوڑا بہت منافع ہو جاتا۔ اب تو صرف ایندھن کا خرچ 30,000 روپے (106 ڈالر) سے تجاوز کر گیا ہے، اور ہم اب اپنی پکڑی ہوئی مچھلی بھی اچھی قیمت پر نہیں بیچ سکتے۔ ہر سمندری سفر میں ایسا لگتا ہے جیسے ہم اپنے مستقبل کو داﺅ پر لگا رہے ہوں۔”

    ناخداداد کریم جیسے بہت سے ماہی گیر اب اپنے خاندان کا پیٹ پالنے کے لیے سخت جدوجہد کر رہے ہیں۔ ان کا چھوٹا بیٹا، جو ان ہی کی کشتی پر ان کے ساتھ ماہی گیری میں ہاتھ بٹاتا تھا، اب تعمیراتی کام میں مزدوری کا سوچ رہا ہے کیونکہ وہاں مواقع نسبتاً بہتر ہیں۔

    جمایت جانگیر بلوچ گوادر کے ایک ماہی گیر اور ”مول ہولڈر“ ہیں، یعنی وہ سرکاری طور پر تصدیق شدہ مچھلی کے تاجر ہیں۔

    وہ کہتے ہیں، ”ہم میں سے کچھ لوگوں نے سمندر میں جانا چھوڑ دیا ہے، نقصان اٹھانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ پہلے ہم اسپینش میکریل، باراکوڈا، بڑی کراکر مچھلیاں اور ٹونا ایرانی خریداروں کو بیچتے تھے۔ وہ ہمیں نقد اچھے دام دیتے تھے۔ اب کوئی خریدنے والا ہی نہیں، اور مقامی تاجر بھی آدھی قیمت لگا رہے ہیں۔“

    خشکی پر خواتین کے دکھ!

    اگرچہ سمندر میں جا کر مچھلی پکڑنے کا کام زیادہ تر مرد کرتے ہیں، لیکن اس بحران سے خواتین بھی بری طرح متاثر ہوئی ہیں۔

    گوادر سے تعلق رکھنے والی حلیمہ بلوچ کہتی ہیں”یہاں خواتین مچھلی نہیں پکڑتیں، لیکن ہم مچھلیوں کی درجہ بندی کرتے ہیں، انہیں سکھا کر بیچتے ہیں۔ اب جب کاروبار ٹھپ ہو گیا ہے تو ہماری مزدوری بھی ختم ہو گئی ہے۔“

    ایندھن کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور مچھلی کی برآمدی منڈی کے ختم ہو جانے سے بہت سی کشتیاں سمندر میں جانا بند ہو گئی ہیں، جس کی وجہ سے ساحلی برادریاں سستی مچھلی سے بھی محروم ہو گئی ہیں جس پر ان کا روزگار اور خوراک دونوں کا انحصار تھا۔

    پاکستان فشر فوک فورم کے طالب کچھی، جو ماہی گیر برادریوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم کے رکن ہیں، ڈائیلاگ ارتھ کو بتاتے ہیں کہ یہ برادریاں صرف پیسے ہی نہیں بلکہ اپنی خوراک کا ذریعہ بھی کھو رہی ہیں۔

    وہ کہتے ہیں، ”جو خواتین آزادانہ طور پر مچھلی فروخت کرکے کچھ پیسے کماتیں اور اپنے خاندان کے لیے خوراک کا انتظام کرلیتی تھیں ، وہ اب پریشان ہیں ، اب وہ سستی ترین مچھلیاں جیسے سارڈین اور انڈین میکریل خریدنے کے قابل بھی نہیں رہیں، جس کی وجہ سے کم آمدنی والے طبقے کے لیے خوراک تک رسائی محدود ہو گئی ہے۔”

    فشر فوک کوآپریٹو سوسائٹی گوادر کے جنرل سیکریٹری سمیع گل کا کہنا ہے،”مچھلی پروسیسنگ کرنے والی خواتین کی اجرتوں میں بھی کمی آ رہی ہے، اور چھوٹے دکان داروں کو فروخت کے لیے سستی مچھلی نہیں مل رہی۔“

    وہ مزید کہتے ہیں ”غریب لوگ مرغی یا گوشت خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے لہذا اگر یہی صورت حال جاری رہی تو یہ ایک سنگین غذائی قلت اور غذائی بحران کو جنم دے سکتی ہے۔“

    گوادر چیمبر آف کامرس کے کلمتی کا مطالبہ ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں فوری مداخلت کریں، ماہی گیروں کے لیے ایندھن پر زر تلافی کا اعلان کریں اور سرحد کو کھول کر باقاعدہ ضابطے کے تحت تجارت بحال کریں۔

    سرکاری عہدیدار علاﺅالدین ککر بھی اس بحران کی سنگینی کو تسلیم کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ”ہم نے 38 کروڑ روپے (1.34 ملین امریکی ڈالر) کے اعانتی فنڈ کی تجویز پیش کی ہے، جس کا مقصد ماہی گیری شعبے میں ایمرجنسی بنیادوں پر مہنگے ایندھن کے لیے زر تلافی، فلاحی اسکیمیں اور متاثرہ ماہی گیروں کے لیے معاوضے کی ادائیگی ہے۔

    بلوچستان رورل سپورٹ پروگرام کے طاہر رشید کہتے ہیں کہ اگر صوبے میں کولڈ اسٹوریج، کیننگ اور دیگر جدید بنیادی سہولتیں فراہم کی جائیں تو ماہی گیری کی صنعت کو ایک منافع بخش برآمدی شعبے میں بدلا جا سکتا ہے۔ اس سے بارٹر سسٹم پر انحصار کم ہوگا اور معیشت کو فائدہ پہنچے گا۔ لیکن وہ خبردار کرتے ہیں ”ہمیں فوری طور پر اقدام کرنا ہوگا۔“

    بلوچستان کی ماہی گیری کی صنعت، جو کبھی ساحلی معیشت کا ستون تھی، اب تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے۔ اگر بروقت اور مربوط اقدامات نہ کیے گئے تو اس کے اثرات صوبے کی سرحدوں سے کہیں آگے تک محسوس ہوں گے۔

    (شبینہ فراز اور عبدالرحیم کی یہ رپورٹ ڈائلاگ ارتھ پر شایع ہوچکی ہے اور اس لنک کی مدد سے پڑھی جاسکتی ہے)

  • 2080 میں‌ مچھلیوں کی بڑی پریشانی کیا ہوگی؟

    2080 میں‌ مچھلیوں کی بڑی پریشانی کیا ہوگی؟

    شنگھائی: چینی بحری محققین کا کہنا ہے کہ 2080 میں‌ مچھلیوں کی بڑی پریشانی ان کے سانس لینے سے متعلق ہوگی، سمندر ان کے لیے خطرناک بنتا جا رہا ہے، اور ساٹھ عشروں بعد 70 فی صد آکسیجن کی کمی کی وجہ سے مچھلیوں کی سانسیں پھولنے لگیں گی۔

    اس سلسلے میں چین میں ایک تحقیقی مطالعہ کیا گیا ہے، جس پر مبنی مقالہ امریکن جیوفزیکل یونین نامی جریدے میں چھپا ہے، اس میں کہا گیا ہے کہ مچھلیوں کے لیے آنے والے دن آسان نہیں ہوں گے، سمندروں میں دو ہزار اسّی تک ستّر فی صد آکسیجن کم ہو جائے گی، جس کی وجہ سے سمندری حیات کی کئی نسلیں تباہ ہو جائیں گی۔

    اس تحقیقی مطالعے کے مرکزی مصنف اور شنگھائی جیاؤ ٹونگ یونیورسٹی میں بحری جغرافیے کے ماہر یونتاؤ زھاؤ کا کہنا ہے کہ سمندروں کے درمیان والا حصہ، جہاں پر سب سے زیادہ مچھلیاں پائی جاتی ہیں، وہاں پر لگاتار آکسیجن کی کمی دیکھنے کو مل رہی ہے، اور آکسیجن کم ہونے کی شرح کی رفتار غیر فطری ہے۔

    تحقیقی ریسرچ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ سال 2021 میں دنیا بھر کے سمندروں میں آکسیجن سنگین سطح پر پہنچ گئی ہے، انسانوں نے آلودگی اس قدر پھیلا رکھی ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی کا اثر سمندروں پر بھی پڑنا شروع ہو گیا ہے۔

    ماہرین کے مطابق سمندروں میں آکسیجن گھلی ہوئی شکل میں ہوتی ہے، وہ بھی گیس کی شکل میں، جس طرح زمین پر جانوروں کو سانس لینے کے لیے آکسیجن کی ضرورت ہوتی ہے، اسی طرح سمندری جانداروں کو بھی آکسیجن کی ضرورت ہوتی ہے۔

    ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے سمندر میں گرمی پیدا ہو رہی ہے، اس کا اثر یہ ہو رہا ہے کہ پانی میں گھلی ہوئی آکسیجن کی مقدار لگاتار کم ہوتی جا رہی ہے، مقالے کے مطابق سائنس دان دہائیوں سے لگاتار سمندر میں کم ہو رہی آکسیجن کو ٹریک کر رہے ہیں۔

    سائنس دانوں نے کلائمٹ ماڈلز کے ذریعے بتایا کہ سمندروں میں ڈی آکسیجنیشن کا عمل تیز ہو جائے گا، اور پوری دنیا کے سمندر اس سے متاثر ہوں گے، ماہرین کے مطابق سمندروں میں گھلی ہوئی آکسیجن ایک بار ختم یا کم ہو جائے تو پھر اسے واپس پہلی والی صورت میں لانا ناممکن ہو جائے گا۔

  • وہ آبی مخلوق جو خوف ناک ہی نہیں‌ ‘دھوکے باز’ بھی ہے

    وہ آبی مخلوق جو خوف ناک ہی نہیں‌ ‘دھوکے باز’ بھی ہے

    روئے زمین پر موجود قسم ہا قسم کی جنگلی حیات دانہ دنکا، اناج، سبزہ اور مختلف چھوٹے حشرات، کیڑے مکوڑوں یا نباتات ہی سے اپنا پیٹ نہیں بھرتی بلکہ ان میں درندے اور ایسے بڑے جانور بھی شامل ہیں‌ جو گوشت خور ہوتے ہیں اور شکار کرکے کھاتے ہیں۔

    شیر جیسے درندے کی بات کی جائے تو یہ کھلے میدان میں پھرنے والے ہرن، زرافہ، گائے، بھیڑ اور مختلف جانوروں کا شکار کرکے اپنی بھوک مٹاتا ہے، لیکن بعض چوپائے بہروپ بھر کے اور دھوکے سے شکار کو اپنی جانب متوجہ کرتے ہیں اور موقع پاتے ہی اسے ہڑپ کرجاتے ہیں۔ اسی طرح آبی مخلوقات میں مچھلیوں کی کئی اقسام ایسی ہیں‌ جنھیں‌ آپ ‘دھوکے باز’ کہہ سکتے ہیں۔

    زیرِ آب بڑے چھوٹے کیڑے مکوڑوں یا مچھلیوں اور دوسری آبی مخلوقات سے اپنا پیٹ بھرنے کے لیے انھیں‌ دھوکے سے اپنے قریب بلانے میں‌ بنسی باز مچھلی (Angler Fish) مشہور ہے۔

    اینگلر فش کے سَر پر ٹھیک آنکھوں کے اوپر ایک قدرے لمبا چھڑی نما عضو لہراتا رہتا ہے جس کا سِرا گوشت کے چھوٹے سے لوتھڑے سے مشابہ ہوتا ہے۔ یہ چھڑی نما عضو چاروں طرف حرکت کرسکتا ہے اور اس کے سرے پر موجود گوشت کا لوتھڑا دور سے چھوٹا سا قابلِ شکار جانور دکھائی دیتا ہے۔ یہ مچھلی اپنے اسی عضو کی مدد سے دھوکا دے کر دوسرے شکاری جانوروں کو قریب آنے پر مجبور کرتی ہے۔

    جب بنسی باز مچھلی کو بھوک ستاتی ہے تو وہ مخصوص طریقے سے اپنے اس عضو کو حرکت دینے لگتی ہے اور دوسری چھوٹی آبی مخلوق اس گوشت کے لوتھڑے کو چھوٹا شکار سمجھ کر جیسے ہی قریب آتی ہے، اس ‘دھوکے باز’ کا خوف ناک منہ کھلتا ہے اور اپنی بھوک مٹانے کے لیے آنے والا خود اس مچھلی کا کا نوالہ بن جاتا ہے۔

    اس مچھلی کی مختلف اقسام ہیں جو دنیا بھر میں پائی جاتی ہیں۔

  • سمندر سے عجیب و غریب مخلوق برآمد، کمزور دل افراد نہ دیکھیں

    سمندر سے عجیب و غریب مخلوق برآمد، کمزور دل افراد نہ دیکھیں

    جنوبی افریقہ میں سمندر سے ساحل پر آجانے والی عجیب و غریب سمندری حیات نے مقامی افراد کو خوفزدہ کردیا۔

    جنوبی افریقہ کے شہر کیپ ٹاؤن کے ساحل پر چہل قدمی کرتے افراد نے نیلے رنگ کے اس آبی جاندار کو دیکھا جو دیکھنے میں ڈریگن کی طرح ہے۔

    مشہور تصوراتی جانور ڈریگن سے اس کی شباہت کی وجہ سے اسے بلو ڈریگن کہا جاتا ہے جبکہ اسے سمندر کا حسین ترین قاتل بھی مانا جاتا ہے۔

    ان ڈریگنز کی غذا سمندر کے زہریلے جاندار ہیں جنہیں کھانے کے بعد یہ خود بھی زہریلے بن جاتے ہیں، اگر یہ کسی انسان کو ڈنک مار دیں تو وہ متلی اور درد میں مبتلا ہوجاتا ہے۔

    بظاہر دیکھنے میں ڈریگن کی طرح معلوم ہونے والے اس جاندار کے جسم کے دیگر اعضا بھی پرندوں، چھپکلی اور ہشت پا کی طرح ہیں۔

    ان کی جسامت ایک انچ ہوتی ہے جبکہ یہ اوپر سے نیلے اور نیچے سے سفید ہوتے ہیں۔

    مقامی افراد کا کہنا ہے کہ سمندر سے اکثر اوقات مختلف اقسام کی آبی حیات ساحل پر آجاتی ہے تاہم وہ انہیں خالی ہاتھ سے واپس سمندر میں ڈالنے سے پرہیز کرتے ہیں کہ کہیں وہ زہریلے نہ ہوں۔

    مقامی افراد کی جانب سے بلو ڈریگن کی تصاویر سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئیں جو بے حد وائرل ہورہی ہیں۔

  • سائنس دانوں نے کرونا وائرس کی ایک اور تباہ کن ’صلاحیت‘ کا انکشاف کر دیا

    سائنس دانوں نے کرونا وائرس کی ایک اور تباہ کن ’صلاحیت‘ کا انکشاف کر دیا

    کینیڈا: میرین سائنٹسٹس نے کرونا وائرس کی ایک اور تباہ کن ’صلاحیت‘ کا انکشاف کر دیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس بحری ممالیہ جانوروں کو بھی اپنا شکار بنا سکتا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق کینیڈا کی ہیلی فیکس ڈیل ہاؤس یونی ورسٹی میں وہیل، ڈولفن اور سیل جیسے بحری ممالیہ جانوروں میں کو وِڈ 19 کے احتمال پر تحقیق کی گئی ہے، جس کے بعد یہ امر سامنے آیا کہ بحری ممالیہ جانور پانی کے ذریعے کرونا وائرس کا شکار ہو سکتے ہیں۔

    بحری حیات کے ماہرین (میرین بائیو لوجسٹس) کا کہنا ہے کہ سمندروں میں آلودہ پانی کی نکاسی کی وجہ سے ممالیہ سمندری جانور کرونا وائرس کا شکار ہو سکتے ہیں۔

    جریدے دی ٹوٹل انوائرمنٹ میں شایع ہونے والی تحقیق میں 36 بحری ممالیہ جانوروں کے جینوم کا مشاہدہ کیا گیا اور کم از کم 15 ممالیہ اقسام کو کو وِڈ 19 کا خطرہ لاحق ہونے کا نتیجہ اخذ کیا گیا، جو بلاشبہ فکر انگیز ہے۔

    ماہرین نے دعویٰ کیا ہے کہ بحری ممالیہ جانوروں کے ACE2 نامی پروٹین انزائمز ان میں وبا کا سبب بن سکتے ہیں، ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ سمندری جانور انسانوں کے مقابلے میں وبا کے آگے زیادہ بے بس ہیں، کیوں کہ وہ وبا کے خطرے سے آگاہ نہیں ہو پاتے۔

    تحقیق کے بعد ماہرین نے وارننگ دی کہ سمندروں میں آلودہ پانی کی نکاسی کے سبب وہیل، ڈولفن اور فوک جیسے ممالیہ کی نسل کو خاتمے کا خطرہ لاحق ہے، واضح رہے کہ اسی تحقیقی ٹیم نے یہ بھی کہا ہے کہ سمندری حیات پہلے بھی مختلف اقسام کے کو وِڈ نائٹین کا شکار ہوتی رہی ہے۔

    محققین کے مطابق اس سے قبل کرونا وائرسز ممالیہ جانوروں کے پھیپھڑوں اور جگر کو شدید نقصان پہنچا چکے ہیں۔

  • سمندر میں پرستان

    سمندر میں پرستان

    ایک وقت ایسا بھی تھا کہ سمندر میں کوئی پری نہیں رہتی تھی۔

    سمندر میں رہنے والی مخلوق کو معلوم تھا کہ پریاں تمام جان دار چیزوں پر نہایت مہربان ہوتی ہیں۔ جب ان میں کوئی دکھ بیماری یا مصیبت ہوتی ہے تو وہ ان کا پورا پورا خیال رکھتی ہیں، اس لیے سب رنجیدہ تھے کہ ہم نے ایسی کیا خطا کی ہے، جو ہمارے ہاں پریاں آ کر نہیں رہتیں۔

    چناں چہ سمندر کے سارے رہنے والوں نے پرستان میں اپنا ایلچی بھیجا اور وہاں کے بادشاہ سے درخواست کی کہ کچھ پریاں سمندر میں بھی بسنے کے لیے بھیج دی جائیں، تاکہ ہمارے آڑے وقتوں پر کام آ جائیں۔

    ایلچی نے بادشاہ کی خدمت میں عرض کی "جو پریاں ہمارے ہاں آ کر رہیں گی، ہم ان کے ساتھ نہایت مہربانی سے پیش آئیں گے اور انھیں خوش رکھنے میں حتی المقدور کوئی کسر نہیں اٹھا رکھیں گے۔”

    بادشاہ پریوں سے مخاطب ہو کر بولا "تم نے سنا، سمندر کا ایلچی ہمارے پاس کیا درخواست لے کر آیا ہے؟

    اب بتاؤ، تم وہاں جانا اور نیلے سمندر کے پانی کے نیچے رہنا پسند کرتی ہو؟”

    پریوں نے کانپ کر کہا "ہم وہاں جانے اور رہنے کے لیے بالکل تیار نہیں۔ ہم یہیں خوش ہیں۔”

    اس کے بعد بادشاہ نے جنگل کی پریوں کو بلایا اور ان سے پوچھا کہ سمندر میں جا کر رہنے میں تمھاری کیا مرضی ہے؟

    وہ بھی سب سر ہلا کر کہنے لگیں کہ کہیں جانا ہمیں گوارا نہیں۔

    بادشاہ نے باری باری تمام پریوں کی مرضی معلوم کی اور اب صرف پانی کی پریاں رہ گئی تھیں۔

    آخر میں بادشاہ ان سے مخاطب ہوا، وہ بلا جھجک فوراً تیار ہو گئیں اور کہنے لگیں "ہم تو خدا سے چاہتے تھے کہ کسی طرح ان ندی نالوں، تالابوں، کنوؤں اور باؤلیوں سے باہر نکلیں۔

    گھر بیٹھے ہماری مراد پوری ہوئی۔ اتنے لمبے چوڑے اور گہرے سمندر کا کیا کہنا ہے۔ ہمارے اچھلنے کودنے، بھاگنے دوڑنے کے لیے اس سے زیادہ اچھی کون سی جگہ ہو سکتی ہے؟ وہاں ہزاروں لاکھوں قسم کی مچھلیاں ہیں اور مچھلیوں کے علاوہ طرح طرح کے عجائبات۔

    حضور! ہماری اس سے بڑھ کر کوئی تمنا نہیں کہ ہم سمندر کی پریاں بن جائیں۔ ہاں ایک بات کا خیال رہے کہ ہم پانی میں کس طرح رہ سکیں گے؟ دوسرے اپنے تمام زندگی بھر کے ساتھیوں کو اچانک چھوڑنے کے خیال سے دل دکھتا ہے۔ ہمیشہ کے لیے ہم کو انھیں خدا حافظ کہنا پڑے گا اور پھر ہم اپنے پیارے بادشاہ اور ملکہ کی صورت بھی شاید کبھی نہ دیکھ سکیں۔”

    بادشاہ نے کہا "نہیں، ایسا نہیں ہو گا۔ جب تمھارا دل چاہے، رات کے وقت تم اوپر آ سکتی ہو اور چاندنی رات میں ہم میں سے بعض پریاں سمندر کے کنارے ریت پر جا کر تمھارے ساتھ کھیلا کودا اور گایا بجایا کریں گی، لیکن دن میں ہم سب اپنا اپنا کام کریں گے۔

    البتہ ہمارا ایک دوسرے سے ملنا دشوار ہے۔ رہا سمندر کے اندر ہر وقت رہنا، یہ معمولی بات ہے۔ میں تمھاری موجودہ صورت تبدیل کر دوں گا اور تم کو پانی میں رہنے سے کوئی دقت نہیں اٹھانا پڑے گی۔ پاؤں کی جگہ تمھاری مچھلیوں کی سی دمیں پیدا ہو جائیں گی اور پھر تم سمندر کی ہر مخلوق کی طرح بخوبی تیرا کرو گی۔ بلکہ ان سے بھی زیادہ پُھرتی کے ساتھ۔”

    چناں چہ جب یہ پانی کی پریاں سمندر کے کنارے پہنچیں تو ان کے چھوٹے چھوٹے پاؤں آپس میں جڑ کر ایسی خوبصورت چھوٹی چھوٹی مچھلیوں کی دمیں بن گئے کہ ان کے تصور میں بھی نہیں آ سکتا تھا اور وہ اپنے ہاتھوں سے پانی چیرتی اور تیرتی ہوئی اپنے گھر کی طرف چلی گئیں۔

    پریوں کو سمندر میں بے انتہا کام تھے، کیوں کہ سارے بڑے جانور چھوٹوں کو ستایا اور مار ڈالا کرتے تھے۔ اب تک وہاں کوئی ایسا نہ تھا، جو ان باتوں کا انتظام کرتا، ظالموں سے مظلوموں کو بچاتا اور جسے سمندر کی سطح پر امن قائم کرنے کا خیال آتا۔

    پریوں کے لیے یہ کام کم نہ تھے، امن و امان پیدا کرنا چھوٹی سی بات نہیں، لیکن تم جانتے ہو کہ پریوں کے پاس وقت کی کمی نہیں اور وہ کبھی تھکتی نہیں، اس لیے مصروف ہو کر وہ اتنی خوش ہوئیں کہ پورے ایک مہینے تک چاندنی رات میں بھی کھیلنے کودنے کے لیے سمندر کے کنارے پر نہ آئیں۔

    جب تیس راتیں لگا تار گزر گئیں اور کوئی پری باہر نہ آئی تو بادشاہ نے ان کی خبر لینے کے لیے اپنا ایلچی بھیجا۔

    ایلچی سمندر میں پریوں کے پاس پہنچا اور بادشاہ کا پیغام دیا۔ پریوں نے کہا: ” ہم کو یہاں آکر اتنی خوشی اور اس قدر مصروفیت رہی کہ معلوم نہ ہوا اتنا وقت گزر گیا ہے۔ آج رات ہم ضرور حاضر ہوں گے اور اب تک جو گزرا وہ سنائیں گے۔”

    رات کو پریاں سمندر سے باہر نکل آئیں۔ سارا پرستان ان سے ملنے جمع ہو گیا اور انھوں نے سمندر کی تہ کے عجیب و غریب حالات اور وہاں کی مخلوق کا ذکر کیا تو بادشاہ، ملکہ اور سب حیران رہ گئے اور بڑی دل چسپی لی۔

    بادشاہ نے کہا: "تم بڑی اچھی نیک دل پریاں ہو۔ تم کو اس کا صلہ ملنا چاہیے۔مناسب ہے کہ تم اپنا بادشاہ الگ بنا لو اور لہروں کے نیچے اپنی سلطنت قائم کر لو۔ شاہی خاندان میں سے ایک شہزادہ تمھارا بادشاہ بن سکتا ہے، تم اس کے رہنے کے لیے ایک محل بناؤ، جس میں جا کر وہ رہے اور تم پر حکومت کرے۔”

    سمندر کی پریاں خوش ہو گئیں کہ انھیں اپنی سلطنت اور بادشاہ ملا اور وہ محل تعمیر کرنے سمندر میں چلی گئیں۔ ایک مہینے کے اندر ہی محل تیار ہو گیا۔

    محل کے درو دیوار چمکیلی سیپ کے تھے اور اس کی چھتیں سفید باریک چاندنی جیسی ریت کی۔

    دیواروں پر رنگ رنگ کی نازک نازک سمندری بیلیں چڑھی ہوئی تھیں۔ کہیں سرخ، کہیں سبزی مائل زرد تو کہیں قرمزی۔ جتنے کمرے تھے، اتنے ہی رنگ کی آرائش۔ تخت شاہی اور دربار کی نشستیں عنبر کی۔ تاج بڑے بڑے موتیوں کا۔

    سفید محل کے چاروں طرف باغات تھے۔ رات کو مچھلیاں ہر طرف اپنے چمکیلے جسموں سے روشنی پھیلاتی پھرتیں اور جہاں ہر وقت اجالے کی ضرورت تھی، وہاں شعلہ نکالنے والی مچھلیوں کو سمندری بیلوں سے باندھا گیا تھا تاکہ لیمپوں کا کام دیں۔

    محل کی گھر داری کا انتظام پرانے پرانے کیکڑوں کے سپرد تھا، جو اندر یا باہر برابر پھرتے رہتے اور صفائی ستھرائی وغیرہ کے کام اس قدر مستعدی کے ساتھ انجام دیتے کہ سیکڑوں لونڈیاں، باندیاں بھی نہ کر سکتیں۔

    وہ آدمیوں کو چمٹنا اور شرارت کرنا قطعی بھول گئے تھے، پریوں کی تربیت نے انھیں پہلے سے بہت بہتر بنا دیا تھا۔

    محل اب ہر طرح سے آراستہ اور نئے بادشاہ کے قابل ہو گیا تھا۔ کام باقی تھا تو صرف دعوت کی تیاری کا۔ ایک بوڑھے دریائی بچھڑے کی ہدایت سے پریوں نے دعوت کا شان دار انتظام کر لیا۔

    سمندر کے پھل اور سمندر کی جلیبیاں وغیرہ، جو چیز کھانے میں مزیدار سمجھی یا دیکھنے میں اچھی معلوم ہوئی، جمع کر لی گئی اور چوں کہ امید تھی کہ ان گنت مہمان آئیں گے، اس لیے کام کاج کے لیے ایک فوج کی فوج سمندری مخلوق کی بلا لی گئی، تاکہ مہمانوں کی خدمت میں کمر بستہ کھڑے رہیں۔

    سمندر کے کنارے سے پانی کی نیلی نیلی لہروں میں بادشاہ کو لانے کے لیے چھ سمندری گھوڑے ساز لگے ایک گاڑی میں جتے کھڑے تھے۔ یہ گاڑی خالص سونے کی تھی، جس کے اندر نرم نرم سمندری گھاس کا فرش تھا اور ننھے ننھے گھونگوں سے سجی ہوئی تھی۔

    سب سے عجیب بات یہ تھی کہ یہ ننھے ننھے گھونگے سب زندہ تھے۔ انھوں نے نہایت خوشی کے ساتھ گاڑی کی سجاوٹ میں حصہ لیا تھا، کیوں کہ پریوں نے یہ احتیاط رکھی تھی کہ کوئی انھیں کسی طرح تکلیف نہ دے۔

    آخر کار بادشاہ سلامت آئے اور اپنے ساتھ ملکہ کو بھی لائے۔ تمام پریاں خوش تھیں۔ سمندر کی مخلوق خوشی کے ساتھ جوش میں غوطے لگانے لگی۔ ہر ایک نے پورے دن کی چھٹی منائی، سوائے کیکڑوں کے، جو قدرتاً کام کرنے کے ایسے عادی تھے کہ بےکار رہنا ان کے لیے عذاب تھا۔ دعوت بھی اس ٹھاٹھ کی ہوئی کہ نہ ایسا سلیقہ کسی نے دیکھا ہو گا، نہ ایسے کھانے کھائے ہوں گے۔

    دوسرے دن سلطنت کا نظام قائم کیا گیا۔ پریوں میں جو سب سے زیادہ سمجھدار تھی، وہ بادشاہ کی وزیر مقرر ہوئی اور خوب صورت سے خوب صورت اور نیک سے نیک کم عمر پریاں ملکہ کی خدمت گار بنائی گئیں۔ پرستان میں نر ہو یا مادہ، جتنی خوب صورت شکل ہو گی، اسی قدر خوش اخلاق اور سلیقہ شعار بھی ہو گی۔ اس لیے سمجھ لو کہ ملکہ کی خدمت میں رہنے کے لیے کن کو چنا ہو گا۔

    بادشاہ اور ملکہ کو وہاں جتنے ایک بادشاہت میں کام ہوا کرتے ہیں، اتنے ہی یہاں بھی کام تھے۔ وہ اپنی عمل داری میں دورے کرتے کہ کہیں کوئی ایک دوسرے پر ظلم تو نہیں کرتا۔

    بڑی دیکھ بھال یہ کرنی تھی کہ ظالم شارک اور اڑہ مچھلیاں ضعیف اور کمزور مچھلیوں کے ساتھ تو شرارت نہیں کرتیں یا دوسری مخلوق کا حد سے زیادہ تو خون نہیں کرتیں۔

    ان باتوں کے سوا یہ کام بھی تھا کہ جانوروں کے جھگڑوں کا تصفیہ کریں اور پریوں میں سے جو کام میں سست ہو یا شرارت کرے اس کو سزا دیں۔

    اچھا ان کی سزا کا کیا طریقہ تھا؟ پریوں یا سمندر کی مخلوق کو وہ سزا کیا دیتے؟

    شریر پریوں کو یہ سزا ملتی کہ اوپر سمندر کے کنارے جانا اور سنہری ریت پر کھیلنا کودنا، بالوں میں کنگھی کرنا اور گانا بجانا بند۔ پانی کے اندر پڑی ترسا کریں۔

    بد ذات جانوروں کی یہ سزا ہوتی کہ وہ کچھ عرصے کے لیے کیکڑوں کا ہاتھ بٹانے پر مجبور کر دیے جاتے۔ کیکڑے ان کو کیکڑے جیسا سیدھا کر دیتے کہ پھر ان سے کوئی قصور سرزد نہیں ہوتا۔

    شریروں اور نافرمان جانوروں کو جس طرح سزا ملتی، اسی طرح اچھا کام کرنے والوں اور حکم ماننے والوں کو انعامات بھی دیے جاتے۔

    سب سے بڑا انعام یا صلہ یہ تھا کہ درباریوں میں جگہ دی جاتی۔ وہ بادشاہ کے سمندری سلطنت کے بڑے بڑے دوروں پر ان کے ساتھ ہوتے اور جہاں ان کا جی چاہتا، سیر کرتے پھرتے۔

    جب کبھی طوفان آتے تو پریاں پانی کی سطح پر پہنچ جاتیں اور بڑے بڑے جہازوں کو چٹانوں سے ٹکرانے اور ریت میں دھنس جانے سے بچانے کی بے انتہا کوشش کرتیں، پھر اگر ان کی کوشش ناکام رہتی، ڈوبنے والے جہاز ڈوب ہی جاتے تو نہایت سریلی آوازوں میں ان کا مرثیہ پڑھتیں اور ڈوبے ہوئے ملاحوں کو ریت میں دفن کر دیتیں۔

    کبھی کبھی جہاز راں اور ملاح بھی ان کی جھلک دیکھ لیتے انھیں جل پری یا جل مانس کہتے اور کبھی ان کو نہیں ستاتے۔ صرف دیکھتے، خوش ہوتے اور گزر جاتے۔

    اب آپ نے جان لیا کہ سمندر میں پریاں کس طرح اور کیوں کر آ گئیں؟

    (عالمی ادب سے انتخاب)

  • ڈی آئی خان سے کروڑوں سال پرانی سمندری حیات کی باقیات دریافت

    ڈی آئی خان سے کروڑوں سال پرانی سمندری حیات کی باقیات دریافت

    ڈیرہ اسماعیل خان: خیبرپختونخواہ اور بلوچستان کے سرحدی علاقے درازندہ سے پچاس سے زائد اقسام کے فوسلز دریافت ہوئے۔

    محکمہ آثار قدیمہ کے ماہرین نے انکشاف کیا ہے کہ برآمد ہونے والے فوسلز لگ بھگ 6 کروڑ 60 لاکھ سال قدیم ہیں جس سے اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ لاکھوں سال قبل اس علاقے میں سمندر تھا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ درازندہ میں واقع سمندر موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے اپنی جگہ سے پیچھے ہٹ گیا جس کے باعث سمندری حیات یہاں رہ گئیں۔

    ماہرین کے مطابق کھدائی کے دوران نکالے جانے والے پتھروں کو صاف کیا تو اُن میں سے سیپیاں بھی برآمد ہوئیں۔ پروجیکٹ کے سربراہ اور بائیولوجی کے پروفیسر اطلس خان کا کہنا ہے کہ ہمیں کئی اقسام کے جاندار ملے جن میں کیکڑے، مچھلیاں، گھونگے اور ان کے انڈے شامل ہیں۔

    محکمہ آثار قدیمہ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ درازندہ خیبرپختونخواہ کے ہزارہ ڈویژن میں واقع ڈیرہ اسماعیل خان (ڈی آئی خان) کے پہاڑی علاقے میں واقع ہیں جہاں سے 50 سے زائد اقسام کی باقیات ملیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ابتدائی تحقیق میں اس نتیجے پر پہنچے کہ لاکھوں سال قبل ڈی آئی خان کی جگہ سمندر تھا مگر جغرافیائی تبدیلیوں کی وجہ سے پانی سیکڑوں کلومیٹر پیچھے ہٹ گیا۔

  • اگر وہیل کسی انسان کو نگل لے تو اس شخص کے ساتھ کیا ہوگا؟

    اگر وہیل کسی انسان کو نگل لے تو اس شخص کے ساتھ کیا ہوگا؟

    سمندر میں جانے والے غوطہ خوروں کو اکثر اوقات شارک اور وہیلز کا سامنا کرنا پڑ جاتا ہے، ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کوئی سمندری جانور کسی انسان کو نگل لے اور وہ زندہ سلامت اس کے منہ سے واپس آجائے۔

    سمندر میں خوف کی علامت شارک انسان کو چیر پھاڑ کر رکھ دیتی ہے لیکن اس کے برعکس وہیل ایسا کوئی شوق نہیں رکھتی، وہ جارح بھی نہیں ہوتی اور حملہ کرنے کے بجائے صرف اپنا بڑا سا منہ کھول دیتی ہے جس سے ڈھیر سارے جانور اس کے منہ کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں۔

    کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ اگر کوئی وہیل کسی انسان کو نگل لے تو اس انسان کے ساتھ کیا ہوگا؟ آئیں آج ہم آپ کو بتاتے ہیں۔

    انسان کے مقابلے میں وہیل بہت بڑی ہوتی ہے اور وہ بیک وقت کئی انسانوں کو نگل سکتی ہے۔ بلیو وہیل کو زمین پر موجود سب سے بڑا جانور قرار دیا جاتا ہے۔ بلیو وہیل کی صرف زبان کا وزن ہاتھی کے برابر ہوتا ہے جبکہ اس کے منہ میں بیک وقت 400 سے 500 افراد سما سکتے ہیں۔

    البتہ بلیو وہیل کا جسمانی نظام انہیں اس قدر بڑا جاندار (انسان) نگلنے کی اجازت نہیں دیتا، تاہم اس کے خاندان کی دیگر وہیلز جیسے اسپرم وہیل باآسانی انسان کو نگل سکتی ہے۔

    سنہ 1981 میں کچھ رپورٹس سامنے آئیں کہ سمندر میں سفر کرنے والے جیمز برٹلے نامی شخص کو وہیل نے نگل لیا ہے۔ جیمز کی کشتی پر وہیل نے حملہ کیا تھا اور اسے نگل لیا، اگلے دن کشتی کے دیگر عملے نے وہیل کو مار ڈالا۔

    وہ اسے کھینچ کر خشکی پر لائے اور اس کا پیٹ چیرا تو اندر سے جیمز بے ہوش لیکن زندہ حالت میں ملا، وہیل کے معدے میں موجود تیزاب کی وجہ سے جیمز کا چہرہ اور بازو سفید ہوگئے تھے جبکہ وہ اندھا بھی ہوچکا تھا۔

    کچھ عرصے بعد لوگوں نے سوال اٹھانا شروع کیا کہ آیا واقعی جیمز کو وہیل نے نگلا تھا یا نہیں، اگر ہاں تو ان کے خیال میں وہیل کا تیزاب اس سے کہیں زیادہ جیمز کو نقصان پہنچا سکتا تھا۔ جدید دور میں سائنس نے اس سوال کا مفصل جواب دے دیا ہے۔

    فرض کیا کہ کسی انسان کو وہیل نے زندہ نگل لیا، سب سے پہلے اس کا سامنا وہیل کے خطرناک دانتوں سے ہوگا۔ اسپرم وہیل کے منہ میں موجود دانت نہایت تیز دھار ہوتے ہیں اور ہر دانت 20 سینٹی میٹرز طویل ہوتا ہے۔

    یہ دانت ایسا ہوتا ہے جیسے کسی شیف کے زیر استعمال تیز دھار چھری، وہیل کے منہ میں ایسے 40 سے 50 دانت موجود ہوتے ہیں اور وہیل کے نگلتے ہی یہ دانت کسی بھی شے کو کاٹ کر ٹکڑوں میں تقسیم کردیتے ہیں۔

    فرض کیا کہ کوئی خوش قسمت شخص ان دانتوں سے بچ کر وہیل کے حلق میں پھسل گیا، اب یہاں اندھیرا ہوگا اور آکسیجن کی کمی اور میتھین کی زیادتی کی وجہ سے اسے سانس لینے میں بے حد مشکل ہوگی۔

    وہیل کے منہ میں موجود سلائیوا انسان کو نیچے دھکیلتا جائے گا۔ اب وہاں موجود ہائیڈرو کلورک تیزاب سے اس شخص کو اپنی جلد پگھلتی محسوس ہوگی۔

    اس کے بعد یہ شخص وہیل کے پہلے اور سب سے بڑی معدے میں گرے گا، یہاں اس کے استقبال کو وہ ننھے سمندری جانور موجود ہوں گے جن سے روشنی پھوٹتی ہے اور انہی وہیل بہت شوق سے کھاتی ہے۔ جب بھی معدے میں کوئی شے پہنچتی ہے تو یہ جانور اسے دیکھنے آتے ہیں کہ آیا وہ اسے کھا سکتے ہیں یا نہیں۔

    ان جانوروں کے فیصلے سے قبل معدے میں موجود مائع انسان کو دوسرے، اور پھر تیسرے معدے میں دھکیل دے گا۔ اس دوران تیزاب سے اس کی پوری جلد پگھل چکی ہوگی اور صرف ہڈیاں باقی رہ گئی ہوں گی جو کسی بھی لمحے وہیل کے فضلے کے ساتھ اس کے جسم سے خارج ہوجائیں گی۔

    اس ساری تحقیق سے ثابت ہوا کہ وہیل کے نگلے جانے کے بعد کوئی شخص اس حالت میں نہیں رہ سکتا کہ واپس لوٹ کر اپنے اس سفر کی کہانیاں سنا سکے، ایسا دعویٰ کرنے والے جیمز کو بھی سائنس نے جھوٹا قرار دے دیا۔

    خوش آئند بات یہ ہے کہ وہیل مچھلیاں انسانوں کو نگلنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتیں، البتہ آپ کو کبھی زیر آب جانے کا اتفاق ہو اور آپ کی مڈبھیڑ وہیل سے ہوجائے تو اس سے فاصلے پر رہیں کہ کہیں پانی کا دباؤ آپ کو اس کے کھلے منہ میں نہ پہنچا دے۔

  • ڈولفن کی شکاری کانٹے سے رہائی

    ڈولفن کی شکاری کانٹے سے رہائی

    پلاسٹک کی اشیا اور مچھلی پکڑنے کی ڈوریاں، کانٹے اور جال یوں تو بے ضرر لگتے ہیں تاہم یہ آبی حیات کے لیے نہایت خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔

    اکثر سمندری جانور ان جالوں اور کانٹوں کا شکار نہ بھی ہوں تب بھی ان کی وجہ سے پھنس جاتے ہیں جس کی وجہ سے وہ تیر نہیں سکتے۔ ایسی ہی کچھ صورتحال امریکی ریاست ہوائی کے سمندروں میں پیش آئی۔

    ہوائی کے سمندر میں ڈائیونگ کرتے ہوئے ایک ڈائیور نے دیکھا کہ اس کے قریب تیرتی ڈولفن اپنے ایک بازو کو حرکت نہیں دے پارہی۔ ڈائیور نے غور سے اس کے بازو کا مشاہدہ کیا تو اس نے دیکھا کہ مچھلی پکڑنے کے کانٹے کا ہک ڈولفن کے بازو کے گرد پھنسا ہوا تھا۔

    ڈائیور نے ہک کو پہلے ہاتھ سے نکالنے کی کوشش کی، جب وہ ناکام رہا تو اس نے اپنے سامان سے کٹر نکال کر اس ہک کو کاٹنا شروع کیا۔

    اس دوران ڈولفن صبر سے وہیں موجود رہی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ یہ اسی کی مدد کی جارہی ہے۔

    ڈائیور نے نہایت احتیاط سے اس ہک کو کاٹا اور ڈولفن کے منہ میں اٹکا ہوا تار بھی نکال دیا جس کے بعد ڈولفن کا بازو حرکت کرنے لگا۔ ڈولفن نے شکر گزاری کے اظہار کے طور پر ڈائیور کے گرد چکر لگائے اس کے بعد گہرے سمندروں میں گم ہوگئی۔

  • ’انسانی دانتوں‘ والی مچھلی نے لوگوں کو حیران کر دیا

    ’انسانی دانتوں‘ والی مچھلی نے لوگوں کو حیران کر دیا

    جارجیا: امریکا کے ایک جزیرے پر ’انسانی دانتوں‘ والی مچھلی نے لوگوں کو حیران کر دیا، انسانی دانتوں سے حیران کن مشابہت رکھنے والی مچھلی ساحل پر نکل آئی تھی۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی ریاست جارجیا میں ساحل پر ایک ایسی مچھلی مردہ حالت میں پڑی ملی جس کے دانت انسانی دانتوں کی طرح تھے۔

    ساحل پر پڑی مچھلی کا انکشاف ایک خاتون نے کیا جو اپنے بچے کے ساتھ سیر کرنے نکلی تھیں، خاتون نے مچھلی کی متعدد تصاویر بنا کر سوشل میڈیا پر شیئر کر دیں۔

    خاتون کا کہنا تھا کہ پہلے جب اس نے مچھلی دیکھی تو کوئی توجہ نہیں دی، لیکن قریب جا کر دیکھا تو حیران رہ گئی، اس کے دانت بالکل انسانی دانتوں جیسے قطار میں تھے۔

    خاتون نے بتایا کہ اس نے مچھلی کی تصاویر لیں اور جس کو بھی دکھائیں، اس نے حیرانی کا اظہار کیا، ایسی مچھلی ہم نے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔

    ماہرین آبی حیات کا کہنا ہے کہ یہ دراصل شیپ ہیڈ مچھلی ہے، جو اپنے عجیب دانتوں سے کئی اہم کام لیتی ہے، جن میں جھینگے، گھونگھے اور کیکڑوں کو پیسنا بھی شامل ہیں۔

    شیپ ہیڈ مچھلی کے دانت اس وقت سے نکلنے لگتے ہیں جب یہ صرف 4.5 ملی میٹر لمبی ہوتی ہے، اور جب یہ 15 ملی میٹر ہو جاتی ہے تو اس کے دانتوں کا سیٹ مکمل ہو چکا ہوتا ہے۔

    یہ مچھلی 76 سینٹی میٹر تک لمبی ہو سکتی ہے، اور کبھی کبھی آدھے میٹر تک بھی اس کا سائز چلا جاتا ہے۔ یہ خلیج اور امریکی اٹلانٹک سواحل پر پائی جاتی ہے، امریکا میں اسی مچھلی کے نام پر شیپس ہیڈ بے رکھا گیا۔