کیا آپ جانتے ہیں ہمارے کپڑے دھوئے جانے کا عمل آبی حیات کی موت کا سبب بن سکتا ہے؟ اور صرف یہی نہیں بلکہ یہ ہمیں خطرناک طور پر بیمار بھی کرسکتا ہے۔
ہمارے کپڑے عموماً کچھ مخصوص مٹیریل سے بنتے ہیں جن میں نائلون، پولیسٹر، فلیس اور اسپینڈکس شامل ہیں۔ شاید آپ کو اس کا علم نہ ہو مگر ان تمام مٹیریلز کی تیاری میں پلاسٹک کا بڑا حصہ استعمال ہوتا ہے۔
جب ہم واشنگ مشین میں کپڑوں کو دھوتے ہیں تو کپڑوں کے نہایت ننھے ننھے ذرات جھڑ کر پانی میں شامل ہوجاتے ہیں جس کے بعد یہ سیوریج اور بعد ازاں ندی نالوں اور سمندروں میں جا پہنچتے ہیں۔
یہ ذرات معمولی ذرات نہیں ہوتے۔ پلاسٹک سے بنے ہونے کی وجہ سے یہ ناقابل تحلیل ہوتے ہیں اور یہی آبی حیات کو خطرناک نقصانات حتیٰ کہ موت تک کا شکار کرنے کا سبب بنتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ذرات آبی حیات کے جسم کا حصہ بن جاتے ہیں جس کے بعد یہ ہماری خوراک کا حصہ بھی بنتے ہیں۔
سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ ماحول میں موجود زہریلے عناصر ان پلاسٹک کے ننھے ذرات سے کسی مقناطیس کی طرح چمٹ جاتے ہیں جو ہمیں خطرناک بیماریوں میں مبتلا کرنے کا سبب بن سکتے ہیں۔
خیال رہے کہ پلاسٹک کے ننھے ننھے ذرات جنہیں مائیکرو پلاسٹک کہا جاتا ہے ہر قسم کے فلٹر پلانٹ سے باآسانی گزر جاتے ہیں اور جھیلوں، دریاؤں میں شامل ہو کر اور مٹی میں شامل رہ کر ان کی آلودگی میں اضافہ کرتے ہیں جس کے بعد یہ ہر قسم کی زندگی کے لیے خطرہ بن جاتے ہیں۔
جنوبی امریکا کے ملک برازیل میں واقع ایمازون کے جنگل میں ہمپ بیک وہیل مردہ پائی گئی جس نے ماہرین کو حیران کردیا۔
11 میٹر طویل اور 10 ٹن وزنی یہ وہیل ایمازون جنگلات کے درمیان ایک جزیرے میں پائی گئی جہاں تیمر کے جنگلات موجود ہیں۔
گو کہ سمندری حیات کا ساحل پر آجانا کوئی غیر معمولی بات نہیں تاہم ماہرین حیران ہیں کہ یہ وہیل جنگل کے اتنے اندر تک کیسے آگئی۔
مقامی حکام کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس مقام پر پرندوں کے جھنڈ دیکھے جو وہیل کی لاش کھانے کے لیے وہاں اترے ہوئے تھے۔ پرندوں کو دیکھتے ہوئے انہیں کچھ غیر معمولی حالات کا احساس ہوا جس کے بعد وہ وہاں پہنچے۔
وہیل کی لاش کا معائنہ کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ لاش کئی دن پرانی ہے۔ رناتا ایمن نامی ایک وائلڈ لائف پروفیسر کا کہنا ہے کہ ممکن ہے کہ وہیل ساحل تک آگئی ہو جس کے بعد کسی اونچی لہر نے اسے جنگل میں اٹھا پھینکا ہو۔
نہ صرف اس وہیل کے جنگل کے اس حصے تک پہنچنے، بلکہ اس علاقے میں وہیل کی موجودگی نے ہی ماہرین کو حیران کر رکھا ہے۔
ماہرین کے مطابق ہمپ بیک وہیل عام طور پر اگست سے نومبر کے درمیان جنوبی برازیل کے ساحلوں پر ہوتی ہیں۔ ان کا اتنی دور ہزاروں کلومیٹر شمال تک سفر کر کے آنا وہ بھی اس موسم میں نہایت حیران کن ہے۔
تاحال وہیل کی موت کا سبب بھی اندھیرے میں ہے، مقامی حکام کے مطابق اس مقام تک پہنچنا اور پھر وہاں سے وہیل کی لاش کو اٹھانا نہایت مشکل عمل ہے کیونکہ یہ سارا علاقہ دلدلی ہے۔
میامی: ایک سائنسی تحقیق کے مطابق گرین لینڈ میں پائی جانے والی شارک کی عمر 400 سال تک طویل ہوسکتی ہے۔ اس طرح یہ زمین پر سب سے طویل العمر ریڑھ کی ہڈی والے جاندار ہوسکتے ہیں۔
یہ تحقیق گرین لینڈ انسٹیٹیوٹ آف نیچرل ریسورسز میں کی گئی۔ اس سے قبل کوپن ہیگن کی یونیورسٹی میں کی جانے والی تحقیق کے مطابق ان مچھلیوں کی عمر کا دورانیہ 272 سال ہوتا ہے۔
سائنسدانوں کے مطابق ان شارکس کی افزائش بہت سستی سے ہوتی ہے اور ان کی جسمانی لمبائی میں صرف ایک سینٹی میٹر سالانہ اضافہ ہوتا ہے۔ یہی ان کی طویل العمری کی وجہ ہے۔
تازہ تحقیق میں بتایا گیا کہ یہ شارکس اپنی بلوغت کی عمر کو پہنچنے میں طویل عرصہ لگاتی ہیں اور یہ عرصہ عموماً 150 سال پر محیط ہوتا ہے۔
یہ تحقیق اس وقت عمل میں لائی گئی جب کچھ شارکس اتفاقاً مچھیروں کے ہاتھ لگ گئیں۔ ماہرین کے مطابق اس اقسام کی اب تک 2 طویل ترین شارکس دیکھی جا چکی ہیں جن کی لمبائی 16 فٹ ہے۔ ان شارکس کی عمر کا اندازہ 335 سے 392 سال کے درمیان لگایا گیا۔
اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔
قدیم حکایات میں کچھوا کائنات کی علامت تھا۔ مشہور صوفی شاعر وارث شاہ اپنی نظم ’ہیر‘ میں لکھتے ہیں کہ دریا ہماری کائنات کو دو حصوں میں تقسیم کردیتا ہے۔ ایک فانی انسانوں کی سرزمین، اور دوسرا حصہ محبوب کا دیار۔ وہ اپنی شاعری میں جب ہیر کے دریا میں سفر کی منظر کشی کرتے ہیں، تو ہیر کی کشتی کو ایک کچھوا سہارا دیے ہوتا ہے۔
معروف صحافی و شاعر مصدق سانول کے مجموعے ’یہ ناتمام سی اک زندگی جو گزری ہے‘ کا پس ورق۔ مصور: صابر نذر
وارث شاہ کی اس لازوال نظم کے علاوہ حقیقت میں بھی کچھوا زمین پر پائے جانے والے سب سے قدیم ترین رینگنے والے جانداروں میں سے ایک ہے۔ یہ ہماری زمین پر آج سے لگ بھگ 21 کروڑ سال قبل وجود میں آیا تھا۔
اپنے اندر بے شمار انوکھی خصوصیات رکھنے والا یہ جاندار آہستہ آستہ معدومی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ گو کہ مادہ کچھوا ایک وقت میں 60 سے 100 انڈے دیتی ہے لیکن ان انڈوں میں سے نکلنے والے 1 یا 2 بچے ہی زندہ رہ پاتے ہیں۔
کچھوے کی بقا کیوں ضروری؟
کچھوے کو آبی خاکروب کا نام دیا جاتا ہے۔ کچھوے سمندر میں موجود کائی، غیر ضروری گھاس اور آبی حیات کے لیے دیگر مضر صحت اجسام کو کھا لیتے ہیں جس کی وجہ سے سمندر یا دریا صاف ستھرا رہتا ہے۔
کچھوؤں کی خوراک میں جیلی فش بھی شامل ہے جو آلودگی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔
ماہرین کے مطابق جیلی فش آکسیجن کے بغیر، گندگی اور آلودگی میں باآسانی افزائش پاتی ہیں یہی وجہ ہے کہ گزشتہ کچھ عرصے میں بڑھتی ہوئی ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے دنیا بھر میں جیلی فش کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔
کچھوے اس جیلی فش کو کھا کر سمندر کو ان سے محفوظ رکھتے تھے تاہم اب جیلی فش میں اضافے کی ایک وجہ کچھوؤں کی تعداد کا کم ہونا بھی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر کچھوے پانی کی کائی اور گھاس کو نہ کھائیں تو سمندر میں موجود آبی حیات کا نظام زندگی اور ایکو سسٹم غیر متوازن ہوسکتا ہے جس کا اثر پہلے آبی حیات اور بعد میں انسانوں تک بھی پہنچے گا۔
سندھ وائلڈ لائف کے مطابق کراچی میں 2 سے 3 سال قبل نگلیریا وائرس کے پھیلنے کی وجہ بھی کچھوؤں کی تعداد میں کمی تھی۔ اس وقت اگر بڑی تعداد میں کچھوے سمندروں اور آبی ذخائر میں چھوڑ دیے جاتے تو وہ پہلے ہی اس وائرس کو کھا کر اسے طاقتور ہونے اور انسانی جانوں کے زیاں کا سبب بننے سے روک دیتے۔
کچھوا معدومی کی طرف کیوں بڑھ رہا ہے؟
کچھوے کی تیزی سے رونما ہوتی معدومی کی وجہ جاننے کے لیے آپ کو ان کی افزائش نسل کا مرحلہ سمجھنا ہوگا۔
دنیا بھر میں ہر سال مادہ کچھوا اگست سے دسمبر کے مہینوں میں انڈے دینے کے لیے ساحلوں پر آتی ہیں۔ واضح رہے کہ دنیا بھر میں سمندری کچھوؤں کی 7 اقسام پائی جاتی ہیں جن میں سے 2 اقسام سبز کچھوا (گرین ٹرٹل) اور اولیو ریڈلی ٹرٹل کچھوا پاکستانی ساحلوں پر پائے جاتے ہیں۔
پاکستان میں ان کچھوؤں کے انڈے دینے کے مقامات میں صوبہ سندھ کے شہر کراچی کا سینڈز پٹ اور ہاکس بے کا ساحل، جبکہ صوبہ بلوچستان میں جیوانی، استولا جزیرہ اور ارماڑا کا ساحل شامل ہیں۔
مادہ کچھوا رات کی تاریکی اور سناٹے میں انڈے دینے کے لیے ساحل کی طرف آتی ہے۔ یہاں وہ ریت میں ایک گہرا گڑھا کھودتی ہے، اس کے بعد اس گڑھے میں جا کر انڈے دیتی ہے جن کی تعداد 60 سے 100 کے قریب ہوتی ہے، اس کے بعد وہ اس گڑھے کو دوبارہ مٹی سے ڈھانپ کر واپس سمندر کی طرف چلی جاتی ہے۔
اس تمام عمل میں ایک سے 2 گھنٹے کا وقت لگتا ہے۔
اب یہ انڈے سورج کی روشنی اور ریت کی گرمائش سے حرارت پا کر خود ہی تیار ہوجاتے ہیں اور ان میں سے ننھے کچھوے باہر نکل آتے ہیں۔ یہ ننھے کچھوے سمندر کی طرف جاتے ہیں۔
اس سفر میں اکثر ننھے کچھوے ہلاک ہوجاتے ہیں اور 60 سے 100 بچوں میں سے صرف ایک یا 2 ہی سمندر تک پہنچنے میں کامیاب ہو پاتے ہیں جو بعد ازاں طویل عمر پاتے ہیں۔
لیکن خطرہ کیا ہے؟
تاہم یہ سارا عمل اتنا آسان نہیں۔ مادہ کچھوے کو انڈے دینے کے لیے مکمل تنہائی، خاموشی اور اندھیرا درکار ہوتا ہے اور جیسے ہی اس میں کوئی خلل، شور شرابہ یا روشنی پیدا ہو تو وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر واپس سمندر میں چلی جاتی ہے۔
سب سے پہلی مشکل اسے اس وقت پیش آتی ہے جب وہ گڑھا تیار کرنے کے لیے ریت میں کھدائی کرتی ہے اور ریت کے نیچے سے کچرا، پلاسٹک، ریپرز یا کوئی پتھر نکل آئے۔
مادہ کچھوا ان اشیا کو ہٹا نہیں سکتی کیونکہ اس سے اس کے بازو زخمی ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ وہ ایک گڑھا چھوڑ کر دوسری جگہ جا کر گڑھا کھودنا شروع کرتی ہے۔
وہاں بھی یہی مشکل پیش آئے تو وہ تیسری جگہ جاتی ہے جہاں سے ناکامی کے بعد وہ انڈے دیے بغیر واپس سمندر میں چلی جاتی ہے۔
یہ سلسلہ 3 روز تک چلتا ہے۔ اگر کسی مادہ کچھوا کو 3 روز تک انڈے دینے کی مناسب جگہ نہ مل سکے تو وہ پھر وہ کبھی نہ آنے کے لیے واپس چلی جاتی ہے۔ اس کے جسم کے اندر موجود انڈے آہستہ آہستہ تحلیل ہونے لگتے ہیں یوں وہ انڈے ضائع ہوجاتے ہیں۔
کچھوؤں کی نسل کو لاحق خطرات کا جائزہ لینے کے لیے جب کراچی کے سینڈز پٹ ساحل کا دورہ کیا گیا تو دیکھا گیا کہ وہاں آوارہ کتوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔
یہ کتے تفریح کے لیے آنے والے افراد کی جانب سے پھینکے گئے کچرے کے لالچ میں یہاں کا رخ کرتے ہیں اور یہیں انہیں کچھوے کے انڈے بیٹھے بٹھائے کھانے کو مل جاتے ہیں۔
جیسے ہی مادہ کچھوا انڈے دے کر وہاں سے روانہ ہوتی ہے، یہ کتے اس گڑھے کو باآسانی کھود کر انڈوں کو نکال کر کھا لیتے ہیں۔
مداخلت کے باعث مادہ کچھوا کے گڑھا کھلا چھوڑ جانے کے بعد کتوں نے اس کے انڈے کھا لیے
اگر کچھ خوش نصیب انڈے ان کتوں کی دست برد سے محفوظ رہ جائیں اور ان سے ننھے کچھوے باہر نکل آئیں تو سمندر کی طرف جاتے ہوئے ننھے ننھے کمزور کچھوے ان کتوں، کووں یا چیلوں کی خوراک بن جاتے ہیں۔
کچھ ننھے کچھوے ساحل پر پھینکے گئے کچرے میں پھنس کر مر جاتے ہیں۔ کچھ پلاسٹک کو جیلی فش سمجھ کر کھاتے ہیں اور فوری طور پر ان کی موت واقع ہوجاتی ہے۔
ایسے موقع پر اگر بدقسمتی سے وہاں کچھ لوگ موجود ہوں تو اکثر لوگ ان ننھے کچھوؤں کو پکڑ کر بازار میں بیچ دیتے ہیں یا پالنے کے لیے گھر لے آتے ہیں، جہاں یہ چند دن جینے کے بعد بالآخر مر جاتے ہیں۔
ساحل پر تفریح کے لیے آنے والے افراد مادہ کچھوا کے انڈے دینے کے عمل میں بھی مداخلت کرتے ہیں، ان کی تصاویر کھینچتے ہیں، ان پر روشنی ڈالتے ہیں اور شور مچاتے ہیں جس کی وجہ سے مادہ کچھوا گھبرا کر واپس سمندر میں چلی جاتی ہے۔
چاندنی راتوں میں ساحل پر انڈے دینے کے لیے آنے والے کچھوے جب ساحل پر چہل پہل اور لوگوں کی آمد و رفت دیکھتے ہیں تب وہ سمندر سے ہی واپس پلٹ جاتے ہیں یوں ان کے انڈے ان کے جسم کے اندر ہی ضائع ہوجاتے ہیں۔
پلاسٹک خطرہ جان
صرف کراچی یا پاکستان میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں ساحلوں پر پھینکا گیا کچرا خصوصاً پلاسٹک کچھوؤں سمیت دیگر آبی حیات کے لیے موت کا پروانہ ہے۔
اس پلاسٹک کو کھا کھا کر یہ آبی جانوروں کے جسم میں جمع ہونے لگتا ہے، جس کے بعد ان آبی جانوروں کا جسم پھولنے لگتا ہے اور وہ کچھ اور نہیں کھا سکتے نتیجتاً ان کی موت اس طرح واقع ہوتی ہے کہ ان کا پیٹ بھرا ہوتا ہے لیکن وہ بھوک سے مرجاتے ہیں۔
کچھ جانور اس پلاسٹک میں پھنس جاتے ہیں اور ساری عمر نہیں نکل پاتے جس کی وجہ سے ان کے جسم کی ساخت بگڑ جاتی ہے۔ پلاسٹک میں پھنسنے سے کچھوؤں اور دیگر آبی جانداروں کی موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اگلے چند برسوں میں ہمارے سمندر، سمندری حیات کی جگہ پلاسٹک سے بھرے ہوں گے۔
گو کہ دنیا بھر میں پلاسٹک کے پھیلاؤ کو روکنے اور کچھوے سمیت دیگر آبی جانداروں کے تحفظ کے لیے اقدامات کیے جارہے ہیں، لیکن پلاسٹک کے بے تحاشہ استعمال کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ یہ اقدامات ناکافی ہیں۔
حب: بلوچستان کے ساحلوں پر نایاب اسپرم وہیل مچھلیوں نے پہنچ کر مقامی آبادی کو خوشگوار حیرت میں مبتلا کردیا۔
اپنے منفرد گول ماتھے کی وجہ سے مشہور نایاب نسل کی یہ وہیل مچھلیاں جنہیں اسپرم وہیل کہا جاتا ہے گزشتہ روز کراچی سے 22 کلومیٹر دور دیکھی گئی تھیں۔
بعد ازاں آج یہ بلوچستان کے ساحلوں سنارا بیچ اور جیوانی میں بھی دیکھی گئیں۔
خاص بات یہ رہی کہ اس نوعیت کی نایاب وہیلوں کو اکثر جال کے ذریعے پانی سے باہر کھینچ لیا جاتا ہے جس کے بعد مردہ وہیلیں مقامی افراد کی تفریح کا ذریعہ بن جاتی ہیں۔
تاہم اس بار کراچی سے لے کر بلوچستان تک جن ماہی گیروں نے اسے دیکھا انہوں نے اس کی حفاظت کی اور اسے نقصان پہنچانے کی کوشش نہیں کی۔
ماہی گیروں اور مقامی افراد نے ان وہیلوں کی تصاویر اور ویڈیوز بھی بنائیں۔
واضح رہے کہ اسپرم وہیل کے دانت تمام وہیل مچھلیوں میں سب سے بڑے ہوتے ہیں اور اسے سب سے بڑی دانتوں والی شکاری مچھلی بھی کہا جاتا ہے۔
یہ اسپرم وہیل کی نسل کے 3 خاندانوں میں واحد قسم ہے جو حیات ہے، بقیہ 2 اسپرم وہیل کی انواع معدوم ہوچکی ہیں۔
یہ وہیل دنیا بھر کے سمندروں میں موجود ہوتی ہے اور افزائش نسل یا موسم کی وجہ سے ایک سے دوسرے سمندر میں ہجرت بھی کرتی ہیں۔
اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔
ایک بہتے ہوئے سمندر کے نیچے رنگ برنگے پھولوں کا کھلنا اور دیگر خوبصورت جانداروں کو موجودگی تو ایک عام بات ہے، لیکن کیا آپ جانتے ہیں کسی برفانی سمندر کے نیچے کیا ہوسکتا ہے؟
برفانی خطہ انٹارکٹیکا میں 2 آسٹریلوی سائنسدانوں نے برفانی پانی کا تجزیہ کرنے کے لیے اس میں ایک روبوٹ کو اندر اتارا۔ مگر اس روبوٹ سے جو تصاویر حاصل ہوئیں انہیں دیکھ کر وہ دنگ رہ گئے۔
اس برفانی سمندر کے اندر زندگی اپنی پوری آب و تاب سے رواں تھی اور وہاں مختلف پودے اور خوبصورت سمندری حیات موجود تھی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ جب کوئی برفانی تودہ اپنی جگہ سے حرکت کرتا ہے تو اس کے نیچے موجود سمندری حیات بھی تباہی سے دو چار ہوتی ہے، لیکن سمندر پر جمی برف انہیں کسی قدر تحفظ فراہم کرتی ہے اور انہیں مختلف آفات سے بچاتی ہے۔
البتہ ماہرین کا کہنا ہے کہ سمندری آلودگی اور درجہ حرارت میں اضافے کے باعث زمین پر رہنے والی جنگلی حیات کے ساتھ ساتھ سمندری حیات کو بھی معدومی کا خطرہ لاحق ہے۔
واشنگٹن: دنیا کی معلوم عمر رسیدہ ترین اور بہت معروف جنگلی وہیل گرینی ’لاپتہ‘ ہوگئی جس کے بعد ماہرین نے اسے مردہ قرار دے دیا۔
گرینی نامی اس وہیل کی عمر 95 سے 105 سال کے درمیان تھی تاہم اس کی یہ عمر بھی غیر مستند قرار دی جاتی ہے۔ امریکا کے سینٹر فار وہیل ریسرچ کا کہنا ہے کہ کافی عرصے سے اس وہیل کو سمندر کی سطح سے باہر نہیں دیکھا گیا جس کے بعد رواں ماہ بالآخر انہوں نے اسے مردہ قرار دے دیا۔
سائنسدان اس وہیل کی شناخت اس کے فن (وہیل کی پشت پر بنے حصہ) میں موجود دانت نما ہڈی اور دیگر نشانات کی مدد سے کرتے تھے۔
کئی دہائیوں قبل جب دنیا بھر کے سمندروں میں وہیلوں کی تعداد کا ریکارڈ رکھنے کے لیے ان کی نمبر شماری کی گئی تھی تو اس کا آغاز گرینی اور اس کے خاندان سے کیا گیا تھا۔
گرینی کو جے 2 نمبر دیا گیا جبکہ اس کے بچے رفلز کو جے 1 نمبر دیا گیا۔ رفلز وہیل بھی سنہ 2010 میں 59 سال کی عمر میں مرگئی تھی۔
گرینی کے اور بھی کئی بچے تھے جنہیں مختلف نمبر دیے گئے۔
سینٹر فار وہیل ریسرچ کا کہنا ہے کہ گرینی کی طبعی عمر پوی ہوچکی تھی۔ وہ جانتے تھے کہ یہ دن آئے گا، یہ وہیل بالآخر موت کا شکار ہوجائے گی۔ وہ بوجھل دل کے ساتھ اسے الوداع کہہ رہے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ وہیل ٹائی ٹینک جہاز سے بھی زیادہ پرانی تھی۔
لندن: برطانیہ سے تعلق رکھنے والے ایک شخص بین ہوپر کا عزم ہے کہ وہ دنیا کا دوسرا بڑا سمندر بحر اوقیانوس تیر کر پار کرے گا، لیکن اس کے اس عزم میں مختلف سمندری حیات رکاوٹ بن رہی ہیں۔
اڑتیس سالہ بین ہوپر جو پیشے کے لحاظ سے ایک پولیس افسر ہے، بحر اوقیانوس کو تیر کر پار کرنا چاہتا ہے تاکہ دنیا کو بتا سکے کہ اگر کچھ کرنا چاہیں تو کچھ بھی ناممکن نہیں۔
وہ رانولف فنیز نامی مہم جو کو اپنا آئیڈیل سمجھتا ہے جس نے انٹارکٹک کے برفانی خطے کا پیدل سفر طے کیا تھا۔
بین نے اپنا سفر مغربی افریقی ملک سینیگال سے شروع کیا جو برازیل پر اختتام پذیر ہونا تھا۔ بین اور ان کی ٹیم کے اندازوں کے مطابق یہ سفر 4 سے 5 ماہ میں مکمل ہوجانا چاہیئے۔
تاہم یہ اتنا آسان نہیں ہے۔
بین نے جب اپنا سفر شروع کیا تو بہ مشکل 67 ناٹیکل میل کے فاصلے کے بعد ہی اسے مختلف سمندری حیات سے پالا پڑگیا جنہوں نے اس کے سفر کو ناکام بنانے کی کوشش شروع کردی۔
اس کا کہنا ہے کہ اسے روزانہ جیلی فش کے ڈنک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بین نے دو بار مختلف مقامات پر شارکس کو بھی دیکھا۔ ’یہ اس سے کہیں زیادہ مشکل ہے جتنا ہم نے سوچا تھا‘۔
بین سنہ 2013 سے اس کی مشق کر رہے ہیں لیکن اب اصل امتحان کافی سخت ہے۔ لیکن بین کا عزم ہے کہ وہ اپنے ارادے کی تکمیل کرے گا اور بحر اوقیانوس کو پار کر کے رہے گا۔
بین چاہتا ہے کہ وہ دنیا کاپہلا شخص بنے جو بحر اوقیانوس کو تیر کر پار کرے۔
واضح رہے کہ بحر اوقیانوس دنیا کا دوسرا بڑا سمندر ہے جو 10 کروڑ سے بھی زائد اسکوائر کلومیٹر کے رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔
ایک نئی تحقیق کے مطابق بحری جہازوں اور کشتیوں سے پیدا ہونے والا شور وہیل مچھلی کی غذائی عادات میں تبدیلی کر رہا ہے اور ان کی صحت پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔
اس تحقیق کے لیے ماہرین نے 10 وہیل مچھلیوں کے اندر سینسرز لگائے۔ ان سینسرز کی مدد سے سمندر کے اندر مختلف آوازیں اور وہیل مچھلیوں کی نقل و حرکت ریکارڈ کی گئی۔
سائنسدانوں نے دیکھا کہ وہیل مچھلی کے شکار کرنے کے دوران اگر جہاز کی تیز آواز آئے تو یہ شکار اور وہیل دونوں کو متاثر کرتی ہے اور وہیل مچھلیاں چند لمحوں کے لیے کچھ کرنے کے قابل نہیں ہوتی۔
ماہرین کے مطابق کھلے پانیوں میں چونکہ مستقل جہازوں کی آمد و رفت جاری رہتی ہے لہٰذا یہ مستقل بنیادوں پر وہیل مچھلیوں کی صحت پر منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔
برطانیہ کے کرسٹوفر سوان فطرت اور جنگلی حیات کے دلدادہ ہیں۔ پیشہ کے لحاظ سے وہ ایک فوٹوگرافر ہیں۔ اپنے کیمرے کے ذریعہ انہوں نے قدرت اور جنگلی حیات کو خوبصورت انداز میں عکس بند کیا ہے۔
انہوں نے وہیلز اور ڈولفنز کی خوبصورت تصاویر کھینچی ہیں۔
کرسٹوفر کے مطابق انہیں ان تصاویر کو کھینچنے کے لیے خوبصورت لمحات کا انتظار کرنے میں 25 برس کا عرصہ لگا۔
وہ بتاتے ہیں، ’سمندر کی سطح پر ایک بڑی سی مخلوق، اس نظارے سے بہتر دنیا کا کوئی اور نظارہ نہیں ہوسکتا‘۔