Tag: سمندر

  • وزیر خارجہ کا سمندر میں بڑی مچھلیوں کی تعداد میں 90 فی صد کمی کا انکشاف

    وزیر خارجہ کا سمندر میں بڑی مچھلیوں کی تعداد میں 90 فی صد کمی کا انکشاف

    اسلام آباد: وزیر خارجہ پاکستان بلاول بھٹو زرداری نے سمندروں کے عالمی دن کے موقع پر اپنے پیغام میں سمندر میں بڑی مچھلیوں کی تعداد میں 90 فی صد کمی کا انکشاف کیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج اقوام متحدہ کے تحت ورلڈ اوشینز ڈے منایا جا رہا ہے، پی پی پی چیئرمین اور ملک کے وزیرِ خارجہ بلاول نے اس دن کی مناسبت سے ایک اہم پیغام جاری کیا ہے۔

    انھوں نے کہا کہ رپورٹس ہیں کہ سمندر میں بڑی مچھلیوں کی تعداد میں 90 فی صد کمی ہوئی ہے اور مونگے کی چٹانوں کی آبادی 50 فی صد تباہ ہو چکی ہے۔

    بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ سمندری کٹاؤ کی موجودہ شرح برقرار رہی تو 2050 تک سمندر ٹھٹھہ شہر تک پہنچ جانے کا خدشہ ہے، یہ صورت حال پاکستان سمیت عالمی برادری کے لیے انتہائی تشویش ناک ہے۔

    وزیر خارجہ نے کہا سمندر کرۂ ارض پر 50 فی صد آکسیجن پیدا کرتے ہیں، اور کاربن ڈائی آکسائڈ کا 30 فی صد جذب کرتے ہیں، اب سمندروں کے ڈیلٹائی علاقے تیزی سے ختم ہو رہے ہیں، ایک تحقیق کے مطابق انڈس ڈیلٹا کا 2.4 ملین ایکڑ رقبہ سمندر برد ہو چکا ہے۔

    بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ انسانی خود غرضی کی وجہ سے پیدا ہونے والے نقصانات سے سمندروں کو بچانے کے لیے عالمی برادری اور سمندری حیاتیات کے ماہرین مِل بیٹھیں۔

    انھوں نے یقین دہانی کرائی کہ پاکستان بطور ایک ذمہ دار ملک اقوام متحدہ کی اس دن کی خصوصی تھیم ‘حیات نو: سمندر کے لیے اجتماعی اقدام’ کو اجاگر کرنے میں اپنا کردار ادا کرے گا۔

  • لوگوں کی جان بچانے والے ہیرو کو اپنی زندگی کے لالے پڑ گئے

    لوگوں کی جان بچانے والے ہیرو کو اپنی زندگی کے لالے پڑ گئے

    ساحل پر موجود لائف گارڈز کو ہیرو قرار دیا جاتا ہے جو لوگوں کی جانیں بچانے کا کام کرتے ہیں، تاہم ایسے ہی ایک ہیرو کو خود مدد کی ضرورت پڑ گئی جب وہ منہ زور لہروں کا شکار بن گیا۔

    سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر شیئر کی گئی ایک ویڈیو نے لوگوں کے دل دہلا دیے۔

    یہ ویڈیو ایک سرفنگ کے مقابلے کے دوران کی ہے جہاں کسی ناخوشگوار صورتحال سے نمٹنے کے لیے لائف گارڈز موجود ہیں، ایک گارڈ پانی کے اندر سے پتھریلے ساحل کی طرف آرہا ہے۔

    لیکن اچانک ایک بڑی لہر آتی ہے اور گارڈ کو اپنے ساتھ بہا کر لے جاتی ہے۔

    وہاں موجود ایک سرفر یہ صورتحال دیکھ کر تیزی سے پانی کی طرف بھاگتا ہے اور لائف گارڈ کی جان بچاتا ہے۔

    حادثے میں لائف گارڈ کو معمولی چوٹیں آئیں جس کے بعد اسے ہیلی کاپٹر کے ذریعے اسپتال منتقل کردیا گیا۔

    ٹویٹر صارفین نے اس ویڈیو کو بے حد سراہا، لوگوں نے کہا کہ ایک ہیرو نے دوسرے ہیرو کی جان بچائی ہے۔ لوگوں نے لائف گارڈ کے مشکل کام اور حوصلے کی بھی تعریف کی جو لوگوں کو سمندر میں ڈوبنے سے بچاتے ہیں۔

  • خلا سے گرتا کچرا کہاں جارہا ہے؟

    خلا سے گرتا کچرا کہاں جارہا ہے؟

    گزشتہ کچھ عرصے میں خلا میں ہونے والی سرگرمیوں میں بے حد اضافہ ہوگیا ہے، تاہم اب خلا میں موجود کچرا زمین کے سمندروں کے لیے خطرہ بنتا جارہا ہے۔

    بین االاقوامی ویب سائٹ کے مطابق خلائی تحقیق میں ہونے والی پیش رفت اور خلا میں کی جانے والی کمرشل سرگرمیوں نے دنیا بھر کے سمندروں کو زمینی آلودگی کے ساتھ ساتھ خلائی آلودگی کے خطرے سے بھی دو چار کردیا ہے۔

    انسانوں کی خلا میں بڑھتی ہوئی سرگرمیوں سے وہاں خلائی کچرے کی مقدار میں بھی دن بہ دن اضافہ ہوتا جارہا ہے، خلا میں ناکارہ ہونے والے بڑے جہاز، راکٹ اور دیگر ملبے کے لیے زمین پر پہلے ہی آلودگی کے شکار سمندروں کو قبرستان میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔

    روس گزشتہ کئی دہائیوں سے بین الاقوامی خلائی اسٹیشن سے پیدا ہونے والے ٹنوں وزنی ملبے کو بحرالکاہل میں ڈبو رہا ہے۔

    لیکن یہ معاملہ صرف روس یا بحر الکاہل تک ہی محدود نہیں ہے، ماضی میں روس کے خلائی اسٹیشن اور چین کے تیانگ گونگ ون کی زندگی کا اختتام بھی سمندر کے پانیوں میں کیا گیا۔

    اسی طرح 1979 میں امریکا کا تجرباتی خلائی اسٹیشن اسکائی لیب بھی ٹکڑوں کی شکل میں آسٹریلیا کے ساحلوں پر بکھر گیا تھا۔ آنے والے چند سالوں میں خلائی کچرے کا ایک اور بڑا ٹکڑا زمین پر واپس آنے والا ہے۔

    سائنس دان 2030 میں اپنی عمر تمام کرنے والے 500 ٹن وزنی بین الاقوامی خلائی اسٹیشن کو بحرالکاہل کے جنوبی حصے میں اس جگہ گرانے کی تیاری کر رہے ہیں جسے پوائنٹ نیمو کے نام سے جاتا ہے۔

    یہ دنیا کا سب سے غیر آباد اور ناقابل رسائی علاقہ تصور کیا جاتاہے، اس جگہ سے قریب ترین سمندری حصہ بھی 1450 ناٹیکل میل (2 ہزار 685 کلو میٹر) کے فاصلے پر ہے۔

  • کراچی کے قریب سمندر میں دیو ہیکل مخلوق دیکھی گئی (ویڈیو)

    کراچی کے قریب سمندر میں دیو ہیکل مخلوق دیکھی گئی (ویڈیو)

    کراچی: دو دیوہیکل مانٹا مچھلیاں 6 سال بعد کراچی کے قریب سمندر میں دیکھی گئی ہیں۔

    ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کا کہنا ہے کہ کراچی کے جنوب مغربی بحیرۂ عرب میں 50 ناٹیکل میل کے مقام پر 2 عدد مانٹا ریز کو ریکارڈ کیا گیا ہے۔

    ادارے کے مطابق دو دیوہیکل مانٹاز کا ایک ساتھ ہونا انتہائی غیر معمولی ہے، مانٹا رے مچھلی شارک اور اسٹنگ رے کی نسل سے تعلق رکھتی ہے، ان کی ویڈیو ہفتے کو کیپٹن صمد بلوانی نے بنائی۔

    ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کا کہنا ہے کہ آئی یو سی این نے حال ہی میں مانٹا رے کی اس نسل کو خطرے سے دوچار نوع قرار دیا ہے، یہ پاکستان میں عام طور پر پائی جاتی تھی لیکن اب یہ انتہائی نایاب ہوتی جا رہی ہے۔

    مانٹا رے کا آخری بار نظارہ اکتوبر 2016 میں چرنا جزیرے کے قریب کیا گیا تھا، پاکستان میں ماہی گیر مانٹا رے کا شکار نہیں کرتے، یہ اکثر جال میں پھنس کر مر جاتی ہیں۔

    ترجمان ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے مطابق 20 سالوں میں ان کی تعداد میں کمی آئی ہے۔

  • یورپ پہنچنے کی کوشش کرنے والے پناہ گزینوں کی اموات میں اضافہ

    یورپ پہنچنے کی کوشش کرنے والے پناہ گزینوں کی اموات میں اضافہ

    پناہ گزینوں کی صورتحال پر نظر رکھنے والے مانیٹرنگ گروپ واکنگ بارڈرز کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غیر قانونی طور پر یورپ میں داخل ہونے والے پناہ گزینوں کی اموات میں اضافہ ہوا ہے۔

    بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق مختلف سمندری راستوں سے غیر قانونی طور پر یورپ میں داخل ہونے والے پناہ گزینوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔

    گزشتہ برس کے دوران صرف اسپین میں داخلے کی کوشش کے دوران 44 سو افراد سمندر میں لاپتہ ہوئے جن میں کم از کم 205 بچے بھی شامل تھے۔

    پناہ گزینوں کی صورتحال پر نظر رکھنے والے مانیٹرنگ گروپ واکنگ بارڈرز کی ایک رپورٹ کے مطابق سنہ 2021 میں اسپین پہنچنے کے لیے سمندر میں کھو جانے والے افراد کی تعداد گزشتہ برس کی نسبت دو گنا رہی۔

    واکنگ بارڈرز نے پناہ گزینوں کے لاپتہ ہونے کی وجہ خطرناک سمندری راستوں اور کمزور کشتیوں کو قرار دیا ہے۔

    اسپین کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سنہ 2021 کے دوران 3 ہزار 900 غیر قانونی تارکین وطن سمندری اور زمینی راستوں سے ملک میں داخل ہوئے، حکام کے مطابق اتنی ہی تعداد میں غیر قانونی پناہ گزین اس سے پچھلے برس بھی اسپین میں داخل ہوئے تھے۔

    واکنگ بارڈرز کے مطابق زیادہ تر پناہ گزین بحر الکاہل میں اسپین کے جزیرے کینرے والے روٹ سے داخلے کی کوشش میں ہلاک یا لاپتہ ہوئے۔

    افریقی ساحل سے اس جزیرے کی جانب رخ کرنے والے پناہ گزینوں کی زیادہ تر کشتیوں کو حادثات پیش آتے رہے۔ افریقہ، ایشیا اور یورپ کے درمیان بحیرہ روم کے راستے سے اسپین میں داخلے کی کوشش کرنے والے پناہ گزینوں کی تعداد کم ہے۔

    واکنگ بارڈرز کی بانی ہیلینا مالینو کا کہنا ہے کہ انہوں نے یہ اعداد و شمار پناہ گزینوں کے لیے قائم ہاٹ لائن اور مشکلات میں گھری کشتیوں کے رابطوں اور اور لاپتہ پناہ گزینوں کے اہل خانہ سے اکھٹے کیے ہیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ گروپ نے ہر کشتی کی منزل یا قسمت کا پتہ لگانے کی کوشش کی اور ان تحقیقات میں یہ اخذ کیا گیا کہ جو پناہ گزین ایک ماہ تک سمندر میں لاپتہ رہے ان کو مردہتصور کیا جائے۔

    اقوام متحدہ کی تنظیم برائ ے پناہ گزین کے مطابق اسپین کے کینرے جزیرے کے قریب حادثے کا شکار ہونے والی صرف ایک کشتی میں 955 افراد مارے گئے تھے۔ تنظیم نے کہا کہ سمندر میں مرنے والے پناہ گزینوں کی اصل تعداد بہت زیادہ ہو سکتی ہے۔

    دوسری جانب اسپین کی حکومت اپنے ساحلوں کی جانب آنے کی کوشش میں مرنے والے پناہ گزینوں کا ریکارڈ مرتب نہیں کرتی اور وزارت داخلہ نے اس حوالے سے تازہ اعداد و شمار پر تبصرے سے انکار کیا ہے۔

  • سمندر کے بیچ بنا ہوا ’فنگر پرنٹ‘

    سمندر کے بیچ بنا ہوا ’فنگر پرنٹ‘

    زغرب: وسطی اور جنوب مشرقی یورپ کے سنگم پر واقع ملک جمہوریہ کروشیا کے سمندر میں ایک ایسا جزیرہ پایا جاتا ہے جو فضا سے بالکل انسانی فنگر پرنٹ کی مانند دکھائی دیتا ہے۔

    بحیرہ ایڈریاٹک (بحیرۂ روم کا ایک بازو) میں ایک چھوٹے سے ویران جزیرے ’بالژیناک‘ کو تصاویر میں دیکھ کر جب لوگوں کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ انسانی انگلی کا نشان نہیں بلکہ ’فنگرپرنٹ جزیرہ‘ ہے، تو وہ حیران رہ جاتے ہیں۔

    اپنی اسی شکل کی وجہ سے یہ جزیرہ اپنے اصل نام بالژیناک (Baljenac) کی بجائے ’فنگر پرنٹ جزیرہ‘ کے نام سے مشہور ہے، فضا سے دیکھنے پر یہاں جو نشانات نظر آتے ہیں، وہ دراصل سفید پتھروں سے بنائی گئی چھوٹی چھوٹی دیواریں ہیں جن کی اونچائی بمشکل تین سے چار فٹ ہے۔

    ان سفید دیواروں سے متعلق کروشیائی مؤرخین کا کہنا ہے کہ انیسویں صدی میں قریبی ساحل پر رہنے والے لوگوں نے اس جزیرے پر یہ دیواریں بنائی تھیں تاکہ تیز سمندری ہواؤں کی شدت کم کرتے ہوئے یہاں مختلف فصلیں اگائی جا سکیں۔

    ایک مفروضہ یہ بھی ہے کہ بالژیناک جزیرے پر یہ دیواریں سلطنتِ عثمانیہ کے فوجی حملوں سے بچاؤ کےلیے بنائی گئی تھیں لیکن اس خیال کی تائید یہاں موجود دوسرے آثارِ قدیمہ سے نہیں ہوتی۔

    اس طرح کی دیواریں مختلف یورپی ممالک میں بھی بنائی گئی ہیں لیکن بالژیناک جزیرے پر یہ دیواریں پیچ در پیچ انداز میں اتنی زیادہ ہوگئی ہیں کہ انھوں نے پورے جزیرے کو اپنے گھیرے میں لے لیا، دل چسپ امر یہ ہے اگرچہ اس جزیرے کا رقبہ صرف 0.14 مربع کلومیٹر ہے لیکن یہاں دیواروں کے جال کی مجموعی لمبائی تقریباً 23 کلو میٹر ہے۔

    ہر سال یہاں آنے والے سیاحوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے، کروشیائی حکومت نے یونیسکو سے درخواست کی ہے کہ بالژیناک جزیرے کو ’عالمی ورثے‘ میں شامل کیا جائے۔

  • سطح سمندر پر اچانک قدیم تباہ شدہ 24 بحری جہاز نمودار، لوگ خوف زدہ ہو گئے

    سطح سمندر پر اچانک قدیم تباہ شدہ 24 بحری جہاز نمودار، لوگ خوف زدہ ہو گئے

    ٹوکیو: جاپان میں دوسری جنگ عظیم غرق شدہ 24 بحری جہاز اچانک سطح سمندر پر نمودار ہو گئے۔

    تفصیلات کے مطابق اگست میں جاپان میں زیر آب آتش فشاں پھٹنے سے دوسری جنگ عظیم کے دوران ڈوبنے والے چوبیس بحری جہاز حیران کن طور پر سمندر کی سطح پر نمودار ہوگئے ہیں۔

    ان بحری جہازوں کو امریکی فوج نے دوسری جنگ عظیم میں نشانہ بنا کر ڈبویا تھا، تباہ ہونے کے بعد تب سے اب تک یہ سمندر کی تہ میں پڑے رہے تھے۔

    جاپان: سمندر میں ہلال کی شکل کا جزیرہ نمودار (ویڈیو)

    تاہم حال ہی میں جاپان کے جنوب میں زیر آب سوری باشی پہاڑ سے آتش فشاں پھٹنے سے راکھ اور بہتے لاوے کی وجہ سے سمندر کی تہ (بیڈ) بلند ہو گئی ہے، اور اس وجہ سے غرق شدہ بحری جہازوں کا ملبہ بھی اوپر آ گیا ہے۔

    سیٹلائٹ سے غرق شدہ بحری جہازوں کی تصاویر بھی حاصل کی گئی ہیں، جنھیں دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جہازوں کا یہ ملبہ آتش فشاں کی راکھ کے اوپر موجود ہے۔

    1945 میں دوسری جنگ عظیم کے دوران امریکا نے جاپانی جزیرے ایو جیما (سلفر آئی لینڈ) پر قبضہ کر لیا تھا، تاہم امریکا نے 1968 میں یہ جزیرہ جاپان کو واپس کر دیا تھا جس کے بعد سے یہ جاپانی فوج کے زیر تسلط ہے۔

    یاد رہے کہ اگست ہی میں فوکوٹوکو اوکانوبا (Fukutoku-Okanoba) آتش فشاں پھٹنے سے بھی ایک ہلال نما جزیرہ نمودار ہوا تھا، یہ نیا جزیرہ ہلال کی مانند ہے، جسے نجیما (Niijima) کا نام دیا گیا ہے، جس کا مطلب بھی نیا جزیرہ ہے، یہ قطر میں 0.6 میل ہے، اور سلفر آئی لینڈ سے محض 5 کلومیٹر دوری پر ہے۔

    دوسری جنگ عظیم کا ایک سپاہی جو جنگ ختم ہونے کے بعد بھی برسوں لڑتا رہا

  • سمندری لہروں سے بجلی بنانے والی دنیا کی طاقتور ترین ٹربائن

    سمندری لہروں سے بجلی بنانے والی دنیا کی طاقتور ترین ٹربائن

    ایڈنبرا: اسکاٹ لینڈ میں سمندری لہروں سے بجلی بنانے والی دنیا کی طاقتور ترین ٹربائن نے کام شروع کردیا، یہ ٹربائن سمندر کی تیز لہروں اور ہواؤں کی مدد سے بجلی بناتی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق سمندری لہروں سے بجلی بنانے والی دنیا کی طاقتور ترین ٹربائن نے پیداوار شروع کردی، خوبصورت ڈیزائن والی اس ٹربائن کا وزن 680 ٹن ہے جو اگلے 15 برس تک 2 ہزار گھروں کو بجلی فراہم کرے گی۔

    اسکاٹ لینڈ کے ساحلوں سے پرے نصب اس ٹائیڈل ٹربائن کو آربیٹل او ٹو کا نام دیا گیا ہے جس پر دس سال سے تحقیق جاری تھی، اس کی مکمل تیاری اور تنصیب میں 18 ماہ کا عرصہ صرف ہوا ہے۔

    اپنے غیر معمولی اسٹرکچر کی بنا پر یہ دو میگا واٹ بجلی بناتی ہے جسے مئی میں سمندر میں اتارا گیا اور اب زیر آب کیبل کی تنصیب کے بعد ٹربائن سے بجلی کی فراہمی شروع ہوگئی ہے۔

    لہروں کی آمد و رفت سے اس کا اندرونی نظام اوپر نیچے اٹھتا ہے اور کسی ٹربائن کی طرح کام کرتے ہوئے بجلی بناتا ہے۔

    لہریں ماند پڑجاتی ہیں تو اس کی پنکھڑیاں گھوم کر بجلی بنانا شروع کردیتی ہیں اور ظاہر ہے یہ کام سمندر کی تیز ہواؤں کی بدولت ہی ممکن ہوتا ہے۔ اسے آربٹل او ٹو نامی کمپنی نے ڈیزائن کیا ہے۔

    کمپنی کے مطابق یہ ماحول دوست بجلی بنانے کا ایک بہت حوصلہ افزا منصوبہ ہے جس سے پوری دنیا کو فائدہ ہوسکتا ہے کیونکہ زمین کے 70 فیصد رقبے پر سمندر موجود ہے۔

    اسے ایک طرح کی زیرِ آب ٹربائن بھی کہا جاسکتا ہے جو سمندری لہروں کے نشیب و فراز کے تحت کام کرتی ہے، اسے سنبھالنے کے لیے چار مقامات پر آہنی زنجیریں لگائی گئی ہیں۔

  • دو منزلہ مکان سمندر میں جا گرا، خوفناک ویڈیو وائرل

    دو منزلہ مکان سمندر میں جا گرا، خوفناک ویڈیو وائرل

    بیونس آئرس: سوشل میڈیا پر وائرل ایک ویڈیو نے لوگوں کو خوفزدہ کر دیا جس میں ایک دو منزلہ مکان سمندر میں گرتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔

    بین الاقوامی میڈیا کے مطابق یہ ویڈیو جنوبی امریکی ملک ارجنٹینا کے دارالحکومت بیونس آئرس کی ہے۔ مذکورہ مکان سمندر سے کچھ دور واقع تھا تاہم سطح سمندر میں اضافے کے باعث سمندر کی لہریں گھر تک آ پہنچی تھیں۔

    ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ سمندر کی زور دار لہریں گھر کی بنیادوں سے ٹکرا رہی ہیں جو مستقل ٹکراؤ سے کمزور ہوچکی ہیں، دیکھتے ہی دیکھتے دو منزلہ مکان اپنی جگہ چھوڑ دیتا ہے اور دھماکے سے سمندر میں جا گرتا ہے۔

    مقامی میڈیا رپورٹ کے مطابق واقعے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا، گھر کے مالکان اور رہائشی خوش قسمتی سے اس وقت گھر میں موجود نہیں تھے۔

  • سمندروں کا عالمی دن: ماس ٹرالنگ اور پلاسٹک کا کچرا سمندروں کو نقصان پہنچانے کا سبب

    سمندروں کا عالمی دن: ماس ٹرالنگ اور پلاسٹک کا کچرا سمندروں کو نقصان پہنچانے کا سبب

    آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں سمندروں کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ رواں برس یہ دن سمندر: زندگی اور ذریعہ معاش کے عنوان کے تحت منایا جارہا ہے۔

    سمندروں کا عالمی دن منانے کی تجویز سنہ 1992 میں دی گئی تھی اور تب سے اسے مختلف ممالک میں انفرادی طور پر منایا جارہا تھا تاہم 2008 میں اقوام متحدہ نے اس دن کی منظوری دی جس کے بعد سے اس دن کو باقاعدہ طور پر پوری دنیا میں منایا جانے لگا۔

    اس دن کو منانے کا مقصد انسانی زندگی میں سمندروں کی اہمیت، آبی جانوروں کے تحفظ اور سمندری آلودگی میں کمی کے حوالے سے شعور اجاگر کرنا ہے۔

    سمندروں کو زمین کے پھیپھڑے کہا جاتا ہے، سمندر آبی حیات کے مرکز سے لے کر ہمیں غذا اور دواؤں کا بڑا حصہ فراہم کرتے ہیں۔

    اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ مقامی مچھلیوں کو بطور غذا استعمال کرنے (جس سے مقامی ماہی گیروں اور معیشت کو فائدہ ہو)، سے لے کر سمندروں کو پلاسٹک سمیت ہر طرح کی آلودگی سے بچانے کے لیے ہمیں اپنا کردار ادا کرنا ضروری ہے۔

    ماہی گیری کی صنعت پاکستان سمیت دنیا بھر کی معیشت کا ایک اہم حصہ ہے۔

    پاکستانی ماہی گیروں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ماہی گیری کی صنعت بغیر کسی قواعد و ضوابط کے ملکی جی ڈی پی میں 100 ارب روپے سے زائد ریونیو کی حصے دار ہے، اگر اسے منظم اور جدید خطوط پر استوار کیا جائے تو یہ ملکی معیشت کا اہم ستون ثابت ہوگی۔

    پاکستانی سمندروں میں اس وقت غیر ملکی افراد کو ٹرالنگ کی اجازت دینے کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے وہ ہمارے سمندروں کے لیے سخت نقصان دہ ہے۔

    مزید پڑھیں: سمندر میں ہلکورے لیتی کشتیاں، جن کے ملاح کچھوؤں کی بددعاؤں سے خوفزدہ ہیں

    ماہی گیروں کے مطابق وہ اسے ماس کلنگ کا نام دیتے ہیں، ہیوی مشینری کے ذریعے ٹرالنگ کرنے سے اس جگہ موجود تمام سمندری حیات اوپر آجاتی ہے جن کی مقدار ہزاروں ٹن تک ہوتی ہے۔ بعد ازاں اس میں سے قابل فروخت مچھلیاں اور جھینگے وغیرہ نکال کر بقیہ مردہ جاندار واپس سمندر میں ڈال دیے جاتے ہیں۔

    ان کا کہنا ہے کہ یہ مردہ جاندار سمندر کی آلودگی میں اضافے کا باعث ہیں، ٹرالنگ ہمارے سمندری وسائل کے لیے سخت نقصان دہ ہے۔

    دوسری جانب اقوام متحدہ نے پلاسٹک کی آلودگی کو سمندروں کے لیے بڑا خطرہ قرار دیا ہے، اقوام متحدہ کے مطابق سنہ 2050 تک ہمارے سمندروں میں آبی حیات سے زیادہ پلاسٹک موجود ہوگی۔