Tag: سمندر

  • روسی جدید ٹیکنالوجی کا ایک اور شاہکار، زیر آب جانے والا بحری جہاز جلد منظر عام پر ہوگا

    روسی جدید ٹیکنالوجی کا ایک اور شاہکار، زیر آب جانے والا بحری جہاز جلد منظر عام پر ہوگا

    ماسکو: روس میں ایسا بحری جہاز بنایا جارہا ہے جو غوطہ لگا کر آبدوز بھی بن سکے گا، یہ اس نوعیت کا دنیا کا پہلا بحری جہاز ہوگا جس کی قیمت نہایت کم رکھی جائے گی۔

    روسی میڈیا کے مطابق روسی سب میرین ڈیزائنر سینٹر، روبین سینٹرل ڈیزائن بیورو (یونائیٹڈ شپ بلڈنگ کارپوریشن) غوطہ لگانے کی صلاحیت رکھنے والا دنیا کا پہلا بحری جہاز تیار کررہا ہے۔

    سینٹر کی جانب سے کہا گیا ہے کہ روبین ایک سب مرس ایبل گشت کرنے والا بحری جہاز پیش کرنے جا رہا ہے جس میں بیک وقت آبدوز اور پانی کی سطح پر گشت والے جہاز کی صلاحیتیں موجود ہوں گی، یہ اپنی نوعیت کا دنیا کا واحد بحری جہاز ہوگا۔

    روبین نے بتایا کہ اس منصوبے کو اسٹراز کا نام دیا گیا ہے اور اسے بارڈر اور آف شور سب مرس ایبل سینٹری کے نام سے عالمی منڈی میں فروغ دیا جائے گا، اس جدید روسی پیٹرولنگ جہاز کی قیمت عالمی منڈی میں نسبتاً کم ہوگی جس کی وجہ سے یہ بحری جہاز چھوٹے بجٹ والے ممالک کی دسترس میں بھی ہوگا۔

    کمپنی کی جانب سے کہا گیا ہے کہ اس بحری جہاز کے آپریشن کو غیر قانونی شکار اور دیگر معاشی جرائم کی روک تھام کے لیے استعمال کیا جا سکے گا، اس نوعیت کے بحری جہاز ملٹی فنکشنل ہیں اور انہیں تحفظ، ریسکیو یا بطور ریسرچ جہاز بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔

    اس بحری جہاز میں جدید ترین آلات نصب ہوں گے، جو انتہائی خراب موسم میں سمندری طوفان کے دوران بھی اپنے مشن کو باآسانی انجام دینے کی صلاحیت رکھتا ہے، اس کے علاوہ اس سب مرس ایبل بحری جہاز کو آبدوز کے طور پر جاسوسی اور دوسرے کاموں کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔

    بحری جہاز کا عملہ بھی دیگر جہازوں کے عملے سے مختلف اور تکنیکی مہارت پر عبور رکھتا ہوگا۔ خیال رہے کہ جوہری توانائی سے چلنے والی روایتی آبدوزوں اور سمندری ہارڈویئر بنانے میں روس کا روبین سینٹرل ڈیزائن بیورو دنیا کے اہم شراکت داروں میں شامل ہے۔

  • 13 ماہ تک سمندر میں بھٹکنے والا شخص

    13 ماہ تک سمندر میں بھٹکنے والا شخص

    راستہ بھٹکنے اور اپنے اپنوں سے بچھڑ جانے کا تصور نہایت روح فرسا ہے، اور جب راستہ زمین پر نہیں بلکہ سمندر پر بھٹک جائیں تو زندگی کے بھی لالے پڑ جاتے ہیں، تاہم ایک باہمت شخص ایسا ہے جو سمندر میں راستہ بھٹک کر 13 ماہ تک سمندر کی لہروں پر ڈولتا رہا اور خود کو زندہ رکھنے میں کامیاب رہا۔

    بین الاقوامی میڈیا رپورٹ کے مطابق 35 سالہ جوز سلواڈور 438 روز تک سمندر میں بھٹکتا رہا۔

    17 نومبر 2012 کو جوز سلواڈور اپنے ایک نوجوان ساتھی ازیکیوئل کورڈوبا کے ساتھ مچھلیوں کے شکار کے لیے جنوبی میکسیکو کے ایک گاؤں سے بحر الکاہل سے روانہ ہوا۔

    یہ دونوں ماہی گیر سمندر میں 3 گھنٹے تک شکار کرنے کا منصوبہ بنا کر روانہ ہوئے تھے، مگر سفر کے آغاز پر چند گھنٹوں بعد ہی طوفان کا سامنا ہوا جو 7 دن تک ان کی کشتی کو دھکیلتا رہا اور وہ اپنے راستے سے بھٹک گئے۔

    25 فٹ طویل اس کشتی میں بادبان یا موٹر بھی نہیں تھی تو ان کی مشکلات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

    جوز سلواڈور کی عمر اس وقت 35 سال تھی جبکہ اس کا نا تجربہ کار ساتھی 22 سال کا تھا، دونوں کو طوفان کا علم پہلے سے تھا مگر وہ اس سے بھی سخت موسم کا سامنا کرچکے تھے۔

    سمندری لہریں بہت زیادہ بپھری ہوئی تھیں اور ایک موقع پر ازیکیوئل کورڈوبا پانی میں گرگیا تھا اور جوز نے اس کی جان سر کے بال کھینچ کر بچائی۔

    انجن کے ساتھ ساتھ ان ماہی گیروں کو ریڈیو اور مچھلی پکڑنے کے آلات سے محرومی کا بھی سامنا ہوا، کشتی پر کوئی کور نہیں تھا، بس ایک آئس باکس، ایک مچھلی رکھنے والا بڑا صندوق اور ایک بالٹی ان کے پاس تھی۔

    جب طوفان تھم گیا تو جوز کو معلوم تھا کہ وہ میکسیکو سے بہت دور جاچکے ہیں، وہ اپنے سروں پر طیاروں کو پرواز کرتے دیکھ رہے تھے مگر مدد کا سگنل دینے کا کوئی سامان موجود نہیں تھا، جس کی وجہ سے سمندر میں پھنسی یہ کشتی نادیدہ ہوگئی۔

    جوز کا کہنا ہے کہ شروع میں تو ہم نے بھوک کے بارے میں سوچا نہیں تھا، بلکہ پیاس نے ہمیں پریشان کیا ہوا تھا، طوفان کے بعد ہم اپنا پیشاب پینے پر مجبور ہوگئے، ایک ماہ بعد جا کر ہمیں کچھ بارش کا پانی میسر آیا۔

    اپنے آبائی ملک ایل سلواڈور میں جوز نے سیکھا تھا کہ مچھلی کو بغیر کانٹے کے صرف ہاتھوں سے کیسے پکڑا جاسکتا ہے اور بحرالکاہل کی گہرائیوں میں مچھلی اس کے ہاتھوں سے پھسل جاتی تھی اور انگلیوں میں پھنسانا پڑتا تھا۔

    مگر کچھ مچھلیوں کو پکڑنا کافی نہیں تھا، ان کے جسم پانی اور پروٹین کی کمی کا شکار ہو رہے تھے بلکہ جوز کو احساس ہوتا تھا کہ حلق سکڑ کر منہ کے قریب پہنچ گیا ہے۔ سورج کی شدید تمازت ان کے جسموں کو جلا دیتی تھی اور آئس باکس کے نیچے چھپ کر کچھ بچت ہوتی تھی۔

    سمندری پرندے ان کی کشتی کے ارگرد جمع ہونے لگے اور وہ اس کو سمندر میں آرام کی ایک غیر متوقع جگہ تصور کرنے لگے۔

    جب جوز نے پہلی بار ایک پرندے کو پکڑا تو ازیکیوئل کورڈوبا خوف کے عالم میں یہ سب دیکھ رہا تھا کیونکہ کسی زندہ مرغی کی طرح جوز نے اس کے ٹکڑے کردیئے تھے، ان پرندوں کے خون سے ان کو زندگی بچانے کا قیمتی سیال بھی ملا۔

    جوز کے مطابق ہم ان کے گلے کاٹ کر خون پی لیتے، جس سے حالت بہتر محسوس ہونے لگی، شدید بھوک کے باعث وہ ان کمزور پرندوں کا معدے کو چھوڑ کر ہر حصہ کھالیتے۔

    درحقیقت سمندر میں موجود ہر چیز انہیں خوراک کا ذریعہ محسوس ہونے لگی، سمندری کچھوے، چھوٹی شارک مچھلیاں اور سمندری کائی وغیرہ، مگر زیادہ تر ان کو خوراک سے محروم رہنا پڑتا جیسے 3 دن میں ایک مچھلی یا 2 پرندے ان کے ہاتھ لگتے۔

    جوز کہتا ہے کہ میں نے خود سے کہا کہ مجھے بزدل نہیں بننا، میں بہت زیادہ دعائیں کرتا تھا اور میں نے خدا سے صبر کی درخواست کی۔ مگر اس کے ساتھی کا صبر ختم ہوچکا تھا اور وہ بہت زیادہ روتا تھا۔

    جوز کے مطابق میں جس حد تک ہوسکتا تھا اس کی مدد کرتا ہے، میں اسے دلاسہ دیتا، میں اسے بتاتا کہ جلد ہمیں بچالیا جائے گا، ہم جلد کسی جزیرے تک پہنچ جائیں گے، مگر کئی بار اس کا رویہ پرتشدد ہوجاتا اور وہ چیخ کر کہتا کہ ہم مرنے والے ہیں۔

    جس دن ازیکیوئل کورڈوبا ہلاک ہوا، بارش ہورہی تھی، دونوں ماہی گیر آئس باکس کے اندر موجود تھے اور دعا کر رہے تھے، اس موقع پر ازیکیوئل نے جوز کو کہا کہ وہ اس کی ماں سے مل کر اسے بتائے گا کہ اس کا بیٹا اب خدا کے پاس ہے۔

    ساتھی کی موت کے بعد جوز پر حسد کا غلبہ ہوگیا اور اس نے اپنے دوست کی لاش سمندر کی نذر کرنے کے بعد کئی روز تک خودکشی کا سوچا مگر اسے ڈر تھا کہ ایسا کرنے پر اسے جہنم میں جانا پڑے گا۔

    جوز نے خوراک کی تلاش پر توجہ مرکوز کی اور سمندر میں تباہ کن ایام کے دوران بھی خدا سے دعاؤں کا سلسلہ جاری رکھا۔

    اسے یاد ہے کہ متعدد مال بردار بحری جہاز اس کے پاس سے گزرے، مگر اسے علم نہیں تھا کہ یہ جہاز اصلی تھے یا اس کا خیال، میں نے ان کو سگنل دیا مگر کچھ بھی نہیں ہوا، مجھے لگتا کہ خدا نے فیصلہ کرلیا ہے کہ کونسی کشتی مجھے بچائے گی۔

    آخر کار ایک کشتی نے نہیں بلکہ سرزمین نے جوز کی زندگی کو بچایا۔

    سمندر میں 438 دن گرنے کے بعد اسے پہاڑیاں نظر آئیں اور اسے لگا کہ وہ بہت قریب ہیں، جس کے بعد اس نے پانی میں چھلانگ لگائی اور اس طرف تیرنے لگا، جس کے بارے میں بعد میں علم ہوا کہ وہ مارشل آئی لینڈز کا حصہ تھیں۔

    جوز نے بتایا کہ میں پہلے زمین تک پہنچا اور میری کشتی بعد میں، میں لہروں کو محسوس کررہا تھا، میں ریت کو محسوس کررہا تھا اور میں نے ساحل کو محسوس کیا، میں اتنا خوش تھا کہ ریت پر گر کر بے ہوش ہوگیا، مجھے فکر نہیں تھی کہ میں وہاں مرسکتا ہوں، میں جانتا تھا کہ اب مجھے اپنی مرضی کے خلاف مزید مچھلی نہیں کھانی پڑے گی۔

    جوز نے ساحل کے قریب موجود بستی کے لوگوں سے رابطہ کیا، جہاں وہ 29 جنوری 2014 کو پہنچا تھا۔

    اس بستی میں کوئی بھی اسپینش زبان نہیں جانتا تھا تو ہاتھوں کے اشاروں سے ایک دوسرے سے بات کی، جوز کو پانی دیا گیا جس کو پی کر طبیعت خراب ہوگئی۔ ایسا ہونے پر رہائشیوں نے میئر کے دفتر سے رابطہ کیا اور اسے ایک بڑی شپنگ بوٹ پر بٹھا کر مارشل آئی لینڈز کے سب سے بڑے اسپتال تک پہنچایا۔

    جب وہ اس اسپتال سے باہر نکلا تو اس کا سامنا کیمروں اور صحافیوں سے ہوا۔

    جوز نے خود کو ایسا قیدی قرار دیا جو رضا کارانہ طور پر ایک سال سے زیادہ عرصے تک قید میں رہا اور اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیسے رویے کا مظاہرہ کرے، اس نے کہا کہ میں بہت خوفزدہ تھا، مجھے لوگوں سے ڈر لگ رہا تھا، اتنے عرصے تک تنہا رہنے کے بعد مجھے بات کرنے کے لیے الفاظ سمجھ نہیں آرہے تھے۔

    اس حیران کن سفر کی داستان اور جوز کی تصاویر دنیا بھر میں پھیل گئی تھیں اور جب اسے واپس ایل سلواڈور کے لیے طیارے پر روانہ کیا گیا تو صحافی اس کے قریب بیٹھے اس کی تصاویر کھینچنے کی کوشش کررہے تھے۔

    جوز کو پروا نہیں تھی کہ صحافیوں کو اس کی کہانی پر یقین ہے یا نہیں، تاہم سائنسدانوں نے بعد میں کہا کہ جوز کا 6 ہزار میل طویل سفر ممکن ہے۔ بعد ازاں جوز نے ایک صحافی جوناتھن فرینکلن کے تعاون سے ایک کتاب 438 ڈیز کو شائع کروایا۔

    اپنے ساتھی کا وعدہ پورا کرتے ہوئے اس نے میکسیکو میں اس کی ماں سے ملاقات کی اور پھر ایل سلواڈور میں منتقل ہوگیا، اب وہ سمندر میں داخل ہونے کی ہمت بھی نہیں کرتا اور مچھلیاں نہیں پکڑتا۔ وہ کہتا تھا کہ اب بھی اس کی راتوں کی نیند اڑ جاتی ہے اور سمندر کے خواب آ کر اسے پریشان کردیتے ہیں۔

  • غوطہ خور کے کیمرے نے اسے شارک کے حملے سے بچا لیا

    غوطہ خور کے کیمرے نے اسے شارک کے حملے سے بچا لیا

    ایک آسٹریلوی ڈائیور شارک کا نشانہ بننے سے بال بال بچا جب اپنے کیمرے سے اس نے شارک کو خود سے دور رکھا اور اپنی جان بچائی۔

    آسٹریلیا کے شہر کوئنز لینڈ کے سمندر میں ڈیون کریک نامی یہ غوطہ خور اکیلا زیر آب اترا تھا۔

    ایک ٹی وی انٹرویو میں اس نے بتایا کہ جب وہ اپنا کیمرہ ایڈجسٹ کر رہا تھا تو اچانک ہیمر ہیڈ شارک اس پر حملہ آور ہوئی۔

    غوطہ خور کا کہنا تھا کہ اس نے اپنے کیمرے کی اسٹک سے اسے کئی بار پیچھے دھکیلا۔

    انہوں نے بتایا کہ وہ اس وقت زیر آب واحد انسان تھے جبکہ سطح آب پر ان کے 2 ساتھی کشتی میں ان کا انتظار کر رہے تھے۔

    غوطہ خور کا کہنا تھا کہ وہ اپنے زندہ بچ جانے پر خود کو خوش قسمت محسوس کر رہے ہیں، اگلی بار وہ مزید حفاظتی اقدامات کے ساتھ زیر آب جائیں گے۔

  • 1 ارب روپے مالیت کے اس پرس کی خاص بات کیا ہے؟

    1 ارب روپے مالیت کے اس پرس کی خاص بات کیا ہے؟

    اٹلی کے ایک برینڈ نے دنیا کے مہنگے ترین ہینڈ بیگ کی رونمائی کردی، اس ہینڈ بیگ کی قیمت 60 لاکھ یوروز یعنی 1 ارب پاکستانی روپے سے زائد ہے۔

    اطالوی برینڈ بورینی میلانیز نے دنیا کے مہنگے ترین پرس کی رونمائی کی ہے، قیمتی ہیرے جواہرات جڑے یہ ہینڈ بیگز صرف 3 بنائے گئے ہیں اور ہر بیگ کی تیاری میں 1 ہزار گھنٹے صرف ہوئے ہیں۔

    اس بیش قیمت ہینڈ بیگ کو بنانے کا ایک مقصد ہے، سماجی رابطے کی ویب سائٹ انسٹاگرام پر اس بیگ کی ویڈیو جاری کرتے ہوئے بورینی میلانیز نے لکھا کہ یہ دنیا کا مہنگا ترین بیگ ہے اور اسے بنانے کا مقصد سمندروں کی حفاظت کی طرف توجہ دلانا ہے جو پلاسٹک کے کچرے کی وجہ سے سخت خطرات کا شکار ہیں۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by BOARINI MILANESI (@boarinimilanesi)

    میلانیز کی جانب سے لکھا گیا کہ ان بیگز کی آمدنی کا ایک حصہ سمندروں کی صفائی کے لیے عطیہ کیا جائے گا۔

    یہ بیش قیمت پرس مگر مچھ کی کھال سے بنایا گیا ہے اور اس کا رنگ سمندر سے ملتا جلتا چمکدار نیلگوں ہے، اس پر موجود تتلیاں وائٹ گولڈ سے بنائی گئی ہیں جبکہ اس کا کلپ ہیرے سے بنایا گیا ہے۔

    تتلیوں کے اندر بھی ہیرے اور قیمتی نیلم جڑے ہیں۔

    بیگ کی ڈیزائنر کیرولینا بورینی کہتی ہیں کہ اس کا سبز، نیلا اور سفید رنگ ان سمندروں کی طرف اشارہ ہے جو آلودگی سے قبل صاف شفاف تھے۔

    اس مہنگے ترین پرس کی قیمت 60 لاکھ یوروز یعنی پاکستانی 1 ارب 14 کروڑ 45 لاکھ 71 ہزار 962 روپے ہے۔

    یاد رہے کہ ہمارے سمندر اس وقت پلاسٹک کے کچرے کا گڑھ بنتے جارہے ہیں، نیدر لینڈز کے ماحولیاتی ادارے گرین پیس کے مطابق دنیا بھر میں 26 کروڑ ٹن پلاسٹک پیدا کیا جاتا ہے جس میں سے 10 فیصد ہمارے سمندروں میں چلا جاتا ہے۔

    اقوام متحدہ کے مطابق سنہ 2050 تک ہمارے سمندروں میں مچھلیوں اور دیگر آبی حیات سے زیادہ پلاسٹک موجود ہوگی۔

  • سمندروں کی صفائی کرنے والا منفرد آلہ تیار

    سمندروں کی صفائی کرنے والا منفرد آلہ تیار

    آٹو موبائل کمپنی سوزوکی نے سمندری آلودگی میں کمی کے لیے ایک ایسا آلہ تیار کیا ہے جو سمندر سے پلاسٹک کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے صاف کرسکے گا۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق جاپان کی سوزوکی موٹرز نے اعلان کیا ہے کہ اس نے ایک آلہ تیار کیا ہے جو کشتیوں کے باہر نصب موٹر کو مائیکرو پلاسٹک جمع کرنے کے قابل بناتا ہے۔

    مائیکرو پلاسٹک، پلاسٹک کے ننھے ننھے ٹکڑے ہوتے ہیں، چونکہ یہ بہت چھوٹے ہوتے ہیں لہٰذا یہ ہر قسم کے فلٹر پلانٹ سے باآسانی گزر جاتے ہیں اور جھیلوں اور دریاؤں میں شامل ہو جاتے ہیں جہاں سے یہ سمندری حیات کے لیے خطرہ بن جاتے ہیں۔

    سوزوکی کمپنی پلاسٹک کے کوڑے سے ہونے والی آبی آلودگی کے مسئلے کے حل کے لیے کئی سال سے تحقیق کر رہی تھی۔

    موٹر گاڑیاں بنانے والی اس کمپنی کے مطابق اس نے کشتیوں اور بحری جہازوں کے باہر لگی ہوئی ان موٹروں پر توجہ مرکوز کی جو انجن کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے ٹنوں کے حساب سے پانی پمپ کرتی ہیں۔

    سوزوکی کا بنایا جانے والا یہ نیا آلہ ان پمپس سے خارج ہونے والے پانی کو فلٹر کرے گا اور پانی میں موجود کچرے کو جمع کرے گا۔ کمپنی کے مطابق، محض کشتی چلانے سے ارد گرد پانی کی سطح پر موجود مائیکرو پلاسٹک جمع کیا جا سکے گا۔

    منگل کے روز سوزوکی کے عملے نے شزواوکا پریفیکچر میں واقع جھیل ہامانا میں نئے آلے کی آزمائش کی۔ آلے نے مائیکرو پلاسٹک باور کیے جانے والے اجزا کے علاوہ کائی اور ریت بھی جمع کی۔

    سوزوکی کمپنی، اس نئے آلے کو اگلے سال کے اندر اندر فروخت کے لیے پیش کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

  • مشکوک لانچ کے خفیہ ٹینکوں سے ساڑھے 7 ہزار لیٹر ایرانی ڈیزل برآمد

    مشکوک لانچ کے خفیہ ٹینکوں سے ساڑھے 7 ہزار لیٹر ایرانی ڈیزل برآمد

    کراچی: کھلے سمندر میں مشکوک لانچ کے خفیہ ٹینکوں سے ساڑھے 7 ہزار لیٹر ایرانی ڈیزل برآمد کر لیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان میری ٹائم سیکورٹی ایجنسی نے سمندر میں اسمگلنگ کے خلاف کارروائی کے دوران ایک لانچ سے ہزاروں لیٹر ایرانی ڈیزل برآمد کر لیا۔

    میری ٹائم سیکورٹی ایجنسی کے جہاز نے کھلے سمندر میں پیٹرولنگ کے دوران ایک مشکوک لانچ پر کارروائی کی، الرحیمی نامی مشکوک لانچ کے خفیہ ٹینکوں سے اسمگل شدہ 7500 لیٹر ایرانی ڈیزل برآمد ہوا۔

    میری ٹائم سیکورٹی ایجنسی نے اسمگل شدہ ڈیزل اور لانچ تحویل میں لیتے ہوئے 7 اسمگلروں کو گرفتار کر لیا۔

    ترجمان ایم ایس اے کا کہنا تھا کہ ڈیزل اور لانچ کو اسمگلروں سمیت مزید قانونی کارروائی کے لیے پاکستان کسٹم کے حوالے کر دیا گیا ہے-

    یاد رہے کہ 13 اگست کو میری ٹائم سیکورٹی ایجنسی نے سمندر میں ریسکیو آپریشن کے دوران سمندر میں پھنسی ہوئی ماہی گیروں کی کشتی کو بچایا تھا۔

    میری ٹائم کے ترجمان کا کہنا تھا کہ سمندر میں کشتی فنی خرابی کے باعث پھنس گئی تھی، میری ٹائم کے جہاز اور تیز رفتار کشتیوں نے ریسکیو آپریشن میں حصہ لیا، اور کشتی پر سوار 23 ماہی گیروں کو بچا کر کراچی پہنچایا گیا۔

  • کراچی: سی ویو کے قریب کشتی الٹ گئی، فیصل ایدھی سمیت 6 افراد کو بچا لیا گیا

    کراچی: سی ویو کے قریب کشتی الٹ گئی، فیصل ایدھی سمیت 6 افراد کو بچا لیا گیا

    کراچی: شہر قائد میں سی ویو کے قریب ایدھی کے کشتی الٹ گئی، فیصل ایدھی سمیت 6 افراد کو بچا لیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان کے معروف فلاحی ادارے ایدھی فاؤنڈیشن کے سربراہ فیصل ایدھی کی کشتی سی ویو کے قریب الٹ گئی، کشتی میں سوار فیصل ایدھی سمیت 6 افراد کو ریسکیو کر لیا گیا۔

    فیصل ایدھی اور دیگر افراد کو قریب موجود ماہی گیروں نے ریسکیو کیا،فیصل ایدھی پانی میں ڈوبے ایک شخص کی تلاش کے لیے گئے تھے۔

    ایدھی فاؤنڈیشن کے سربراہ فیصل ایدھی اور دیگر افراد کو ابراہیم حیدری جیٹی منتقل کیا جا رہا ہے۔

    فیصل ایدھی کرونا وائرس سے صحت یاب ہوگئے

    یاد رہے 21 اپریل کو ایدھی فاؤنڈیشن کے سربراہ فیصل ایدھی میں کرونا کی تشخیص ہوئی تھی،ان کا ٹیسٹ شفا انٹرنیشنل اسپتال اسلام آباد میں کیا گیا تھا، جس کے بعد فیصل ایدھی نے خود ٹیسٹ پازیٹو آنے کی تصدیق کی تھی اور قرنطینہ میں چلے گئے تھے۔

    بعدازاں 6 مئی کو ایدھی فاؤنڈیشن کے سربراہ فیصل ایدھی کی کرونا ٹیسٹ رپورٹ منفی آگئی تھی۔

  • سمندر میں اچانک نایاب سفید وہیل نظر آگئی، شہری چونک اٹھے

    سمندر میں اچانک نایاب سفید وہیل نظر آگئی، شہری چونک اٹھے

    سڈنی: آسٹریلیا کے سمندر میں نایاب نسل کی سفید وہیل کے نظارے نے ناظرین کو ورطہ حیرت میں مبتلا کردیا، ویڈیو اور تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئیں۔

    غیرملکی خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق آسٹریلو ریاست ’نیوویلز ساؤتھ‘ کے سمندر میں ’میگالو‘ نامی سفید وہیل نظر آئی، دیوقامت وہیل دیکھنے والے افراد چونک اٹھے اور حیرت کا اظہار کیا۔

    رپورٹ کے مطابق میگالو سمیت دیگر نایاب نسل کی وہیل مچھلیاں سالانہ ہجرت کرتی ہیں، اس دوران وہ ایک سمندری حدود کو چھوڑ دوسرے حدود میں داخل ہوتی ہیں، اس طویل سفر کے دوران انہیں کئی دن بھی لگتے ہیں۔

    مذکورہ وہیل بھی ’انٹراٹیکا‘ کا سمندر چھوڑ کر ’کوئنس لینڈ‘ کی طرف ہجرت کررہی تھی کہ اسی دوران حیران انگیز مناظر کیمرے کی آنکھ میں قید ہوگئے اور ویڈیو، تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئیں۔

  • کراچی: 5 افراد سمندر میں ڈوب گئے

    کراچی: 5 افراد سمندر میں ڈوب گئے

    کراچی: شہرقائد میں ابراہیم حیدری بنگالی جیٹی کے قریب سمندر میں 5 افراد ڈوب گئے۔

    تفصیلات کے مطابق واقعے کے فوری بعد ریسکیو عملہ جائے وقوعہ پر پہنچا اور 3 افراد کو بحفاظت سمندر سے نکال لیا، بدقسمتی سے ایک نوجوان ہلاک ہوگیا۔

    ریسکیو ذرائع کا کہنا ہے کہ ڈوبنے والے 2نوجوانوں میں سے ایک آصف کی لاش نکال لی گئی، دوسرے 15 سالہ فیضان کی تلاش جاری ہے۔ سمندر میں ڈوبنے والے 3افراد کو فوری بچالیا گیا تھا۔

    بنگالی پاڑے کے رہائشی تمام افراد تفریح کے لیے سمندر میں نہا رہے تھے، تمام افراد 3بجے کے قریب سمندر میں ڈوبے تھے۔ پولیس نے لاش کو تحویل میں لے کر دیگر قانونی کارروائی کا آغاز کردیا ہے۔

    خیال رہے کہ گزشتہ سال کینجھر جھیل اور حب ندی میں الگ الگ واقعات میں 7 افراد ڈوب کر ہلاک ہوئے تھے۔

  • جواہرات

    جواہرات

    نیلگوں آسمان پر سفید سفید بادل تیر رہے تھے۔ آمدِ سحر کی خبر پاکر چاند کا رنگ فق ہوگیا اور اس نے بادل کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے کے پیچھے اپنا منہ چھپا لیا۔

    مرمریں محل کی ایک کھڑکی کے پاس جس کے نیچے روپہلی ندی گنگناتی بہتی چلی جارہی تھی۔ ایک نوعروس، صبح کی پُرتبسم فضا میں بُت بنی کھڑی تھی۔ بلبلیں قفس کے گوشے میں آرام کررہی تھیں۔ محل کے دروازے کے سامنے کشتیاں نسیمِ سحر کی پیدا کی ہوئی ہلکی ہلکی موجوں کے بہاﺅ میں لڑکھڑاتے ہوئے جارہی تھیں۔

    دلہن کے پیچھے ایک پلنگ پر لباسِ عروسی پڑا تھا۔ ایک زمرد کی ترشی ہوئی صندوقچی پر زیورات پریشان تھے۔

    دلہن اپنے ہاتھوں میں جواہرات کا ایک ہار لیے ہوئے تھی۔ کمرے کی تاریک فضا میں اس ہار کے دانے اس طرح دمک رہے تھے جیسے کسی مقدس بزرگ کے پُرنور چہرے کے گرد روشن حلقہ بنایا ہوا ہو۔

    اس نے اپنی نازک گردن میں اس ہار کو پہنا اور پھر اتار دیا اور ندی میں طلوعِ آفتاب کا نظارہ کرنے کے لیے دریچے سے جھانکنے لگی۔ ندی میں سے سورج کا لرزتا ہوا عکس اس کے سنہری بالوں کو الگ الگ کرکے منور کررہا تھا۔

    دلہن اس قدر مسرور تھی کہ اس کے ذہن میں کسی ایک خیال کی گنجائش نہ تھی اور دھندلی فضا میں ندی کے آس پاس جھلملاتی ہوئی بستی کا خوب صورت نظارہ اس کی مستور مسرتوں کا ایک پرتو تھا۔ جب سورج نے دور اُفق پر درختوں کے جھنڈ سے سَر نکالا۔ سپید ہار کے دانے اور بھی جگمگانے لگے۔

    ایک سبک رفتار کشتی بادل کے سائے کے مانند محل کے اس طرف نمودار ہوئی۔ دلہن کی نگاہ اس پر پڑی، کشتی کے اندر کافوری کفن میں لپٹا ہوا ایک جنازہ رکھا تھا اور اس کے سرہانے ایک عورت بنفشی لباس پہنے رو رہی تھی۔ کفن پر کچھ زرد رنگ کے پھول پڑے تھے۔

    اس درد ناک منظر نے دلہن کے نازک دل پر اس قدر اثر کیا کہ اس کا تمام جسم کانپ اٹھا اور اس کے ہاتھوں سے زمرد کی مالا گر کر کشتی میں بیٹھی ہوئی غمگین عورت کی گود میں جا پڑی۔ کشتی تھوڑی دیر میں سورج کی شعاعوں میں غائب ہوگئی۔

    دلہن کو ہار کے کھو جانے کی کوئی خبر نہ تھی۔ غم زدہ ماں اور جنازے نے اس کے مضطر خوابوں کو آوارہ کر دیا تھا۔ اس نے محسوس کیا کہ مہیب ہاتھ اس کی راحتوں اور امیدوں کو چھیننے کے لیے رات کی سیاہی کی طرح آہستہ آہستہ اس طرف بڑھتا چلا آرہا ہے۔

    وہ معمورۂ عالم میں تنِ تنہا، رنج اور دہشت سے کانپ رہی تھی اور سورج کی کرنیں جو تھوڑی دیر پہلے جواہرات کو منور کررہی تھیں اس کے آنسوﺅں میں چمکنے لگیں۔

    دوسری طرف وہ عورت تھی جو کشتی میں اپنے مردہ بیٹے کے غم میں نڈھال بیٹھی تھی۔ اس نے ہار کو اپنی گود میں گرتے ہی دبوچا اور جب اس نے ایسے انمول جواہرات کو اپنے قبضے میں پایا جن کا ثانی اسے تمام عمر نصیب نہ ہوا تھا، اس کے پُر درد آنسوﺅں میں ایک مسکراہٹ نمودار ہوگئی۔

    ملاح سے نظر بچا کر اس نے بچے کے کفن کی طرح سپید ہار کو اپنے بنفشی لباس میں چھپا لیا اور نعمتِ غیر مترقبہ نے اس کے دل سے سب رنج و غم مٹا دیا۔

    اس کہانی کی برطانوی مصنف مارجوری بوون (Marjorie Bowen) تاریخی واقعات اور مہم جوئی پر مبنی قصوں‌ کے علاوہ پُراسرار، ڈراؤنی اور مافوق الفطرت کہانیاں تخلیق کرنے کے لیے مشہور ہیں۔ ان کی پیشِ نظر کہانی کو بدرالدین نے اردو کے قالب میں‌ ڈھالا ہے۔