Tag: سمندر

  • ساحلی پٹی پر بڑی تعداد میں کرمبیونیلا اور بلوم جیلی فش

    ساحلی پٹی پر بڑی تعداد میں کرمبیونیلا اور بلوم جیلی فش

    کراچی: پاکستان کی مختلف ساحلی پٹی پر بڑی تعداد میں کرمبیونیلا اور بلوم نامی جیلی فش دیکھی گئی۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق ڈبلیو ڈبلیو ایف کا کہنا ہے کہ بلوچستان کی ساحلی پٹی پر بڑے پیمانے پر کرمبیونیلا اور بلوم جیلی فش دیکھی گئی۔ اس سے قبل یہ جیلی فش سال2002 اور 2003 میں بھی اس علاقے میں دیکھی گئی تھی۔

    محکمہ وائیلڈ لائف کے مطابق جیلی فش نے ماہی گیروں کے کام کو بری طرح متاثر کیا ہوا ہے۔ بحیرہ عرب اور خلیج عمان میں سمندر کنارے2019 میں جیلی فش کی بڑی تعداد دیکھی گئی تھی۔

    ڈبلیو ڈبلیو ایف نے دسمبر2019 میں بحیرہ عرب میں کرمبیونیلا اور سینی کی تصدیق کی تھی۔

    خیال رہے کہ ایک تحقیق کے مطابق جیلی فش تقریباً 92 فیصد پانی کی بنی ہوتی ہے اور اس کی 85 مختلف اقسام پائی جاتی ہیں۔ اس جاندار کا دماغ، سانس، حسیات اور ہاضمے کا مکمل نظام موجود نہیں ہوتا اس کے باوجود جیلی فش دن کے 24 گھنٹے خوراک کھاتی ہے۔

    ماہرین کے مطابق جیلی فش آکسیجن کے بغیر، گندگی اور آلودگی میں بہ آسانی افزائش پاتی ہیں یہی وجہ ہے کہ گزشتہ کچھ عرصے میں بڑھتی ہوئی ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے دنیا بھر میں جیلی فش کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔

  • تیرتا ہوا شہر حقیقت بننے والا ہے؟

    تیرتا ہوا شہر حقیقت بننے والا ہے؟

    دنیا بھر میں موسمی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج اور اس کے بدترین اثرات کو دیکھتے ہوئے ان سے بچاؤ اور مطابقت کے لیے نئے نئے منصوبے بنائے جارہے ہیں اور انہی میں سے ایک ’تیرتا ہوا شہر‘ بھی ہے جو جلد حقیقت بننے والا ہے۔

    کچھ عرصے پہلے اس کا تصور پیش کیے جانے کے بعد اسے دیوانے کی بڑ قرار دیا گیا تھا، تاہم اب اقوام متحدہ نے خود اس منصوبے کی سرپرستی لے لی ہے اور اسی دہائی میں یہ منصوبہ مکمل کردیے جانے کا امکان ہے جس کے بعد تیرتے ہوئے شہر ایک حقیقت بن جائیں گے۔

    اس شہر کی تعمیر سطح سمندر میں اضافے کو مدنظر رکھتے ہوئے کی جارہی ہے، گلیشیئرز کے پگھلنے اور سمندر کی سطح بلند ہونے سے دنیا کے 90 فیصد شہروں کے زیر آب آجانے کا خدشہ ہے۔

    منصوبے کے ابتدائی خاکے کے مطابق یہاں ہزاروں افراد کے رہنے کے لیے گھر ہوں گے، جبکہ یہاں ٹاؤن اسکوائرز اور مارکیٹس بھی بنائی جائیں گی۔

    اقوام متحدہ کے صدر دفتر میں ہونے والی ایک میٹنگ میں اس منصوبے کی تکمیل کے لیے 10 سال کا عرصہ پیش کیا گیا ہے۔

    یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ شہرسونامی اور دیگر خطرناک سمندری طوفانوں کے دوران قائم رہ سکیں گے؟

    اس حوالے سے پروجیکٹ کی ٹیم میسا چوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی) کے شعبہ اوشیئن انجینئرنگ کے ساتھ بھی کام کر رہی ہے اور ان کی کوشش ہے کہ اس شہر کو ایسا بنایا جائے کہ یہ درجہ 5 کے طوفانوں میںبھی  قائم رہ سکے۔

    کہا جارہا ہے کہ اس طرح کے تعمیراتی منصوبے بنانے کا مقصد کلائمٹ چینج کی اصل وجوہات اور انہیں کم کرنے کے اقدامات سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہیں۔

    ایک اور خدشہ یہ بھی ظاہر کیا جارہا ہے کہ یہ منصوبہ صرف امرا کے لیے مخصوص ہوجائے گا جیسا اس سے قبل دبئی میں ہوچکا ہے اور غریب افراد زمین پر کلائمٹ چینج کے شدید اثرات سہنے کے لیے رہ جائیں گے۔

    مذکورہ عالیشان منصوبے کے حوالے سے پیش رفت اقدامات جلد سامنے آنے شروع ہوجائیں گے۔

  • بولان: دو سگے بھائی ندی میں ڈوب کر جاں بحق

    بولان: دو سگے بھائی ندی میں ڈوب کر جاں بحق

    کوئٹہ: بلوچستان میں والدین پر قیامت ڈھا گئی، دو سگے بھائی ندی میں ڈوب کر جاں بحق ہوگئے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق بلوچستان کے ضلع بولان میں ندی میں نہاتے ہوئے دو سگے بھائی موت کے منہ میں چلے گئے، ڈوبنے والے افراد کا تعلق کوئٹہ سے ہے، ندی سے لاشیں نکال لی گئیں۔

    لیویز ذرائع کا کہنا ہے کہ ورثا کے احتجاج کے بعد لاشیں آبائی علاقے روانہ کر دی گئیں۔

    گزشتہ سال نومبر میں کراچی میں منوڑہ جزیرہ کے قریب پکنک منانے والے 3 دوست ڈوب کر جاں بحق ہوگئے تھے۔

    ڈوبنے والے نوجوانوں کی شناخت ملہار، مہران خان اور فہد کے نام سے ہوئی تھی۔

    کراچی میں 3 دوست سمندر میں ڈوب کر جاں بحق

    خیال رہے کہ ندی میں ڈوب کر ہلاکت کا یہ کوئی نیا واقعہ نہیں اس سے قبل بھی متعدد بار ایسے واقعات سامنے آچکے ہیں۔ ندی، نہر یا پھر شہرقائد میں سمندر میں ڈوب کر کئی افراد زندگی کی بازی ہار چکے ہیں۔

  • بحرِ ہند: سونامی کی لہریں کتنی دیر میں کراچی تک پہنچ سکتی ہیں؟

    بحرِ ہند: سونامی کی لہریں کتنی دیر میں کراچی تک پہنچ سکتی ہیں؟

    دنیا بھر میں موسمی اور ماحولیاتی تبدیلیوں نے زمین اور اس پر سانس لیتی ہر نوع کی مخلوق کو خطرے سے دوچار کر دیا ہے۔ پاکستان کا شمار ان ملکوں میں ہوتا ہے جہاں ماحول کے لیے خطرہ اور آلودگی بڑھ رہی ہے۔

    2018 کے گلوبل کلائمٹ رسک انڈيکس ميں پاکستان کو ان ممالک کی فہرست ميں شامل کیا گیا تھا جو موسمی تبديليوں سے سب سے زيادہ متاثر ہوں گے۔ جغرافيائی لحاظ سے پاکستان جس خطے میں واقع ہے، اس میں ماہرین کی پيش گوئيوں کے مطابق درجۂ حرارت ميں اضافے کی رفتار سب سے زيادہ رہے گی۔

    2018 کے ایک جائزے کے مطابق پاکستان میں‌ دو دہائیوں کے دوران موسمی تبديليوں کی وجہ سے طوفان، سيلاب اور ديگر قدرتی آفات کی وجہ سے جانی اور مالی نقصانات بھی ہوئے ہیں۔

    اگر بات کریں‌ کراچی کی تو 1945 ميں اس شہر نے سونامی کا سامنا کیا تھا۔ عالمی اداروں کے ماہرین کا کہنا ہے کہ کبھی بحرِ ہند ميں بڑا زلزلہ آیا تو سونامی کی لہريں صرف ايک سے ڈيڑھ گھٹنے ميں کراچی کے ساحل تک پہنچ سکتی ہيں جو پورے شہر کو لے ڈوبيں گی۔

    ماہرین کے مطابق پاکستان بھر ميں کبھی چار لاکھ ہيکٹر زمين پر مينگرو کے جنگلات تھے جو گھٹ کر ستر ہزار ہيکٹر تک محدود ہو گئے ہیں۔ مينگرو کے درخت سونامی جيسی قدرتی آفات میں دفاع کا کام کرتے ہيں۔
    عالمی حدت اور موسمی تغیرات کی وجہ سے پاکستان میں زراعت بھی متاثر ہے۔ مختلف فصلوں کی پیداوار پر منفی اثرات کے باعث خدشہ ہے کہ آئندہ برسوں میں پاکستان کو غذائی قلت کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔

  • کراچی میں 3 دوست سمندر میں ڈوب کر جاں بحق

    کراچی میں 3 دوست سمندر میں ڈوب کر جاں بحق

    کراچی میں منوڑہ جزیرہ کے قریب پکنک منانے والے 3 دوست ڈوب کر جاں بحق ہوگئے۔

    تفصیلات کے مطابق واقعہ پی این ایس ہمالیہ کے قریب پیش آیا جہاں نہاتے ہوئے تین نوجوان بے رحم موجوں کی نذر ہوگئے۔

    اطلاع ملنے پر رفاحی ادارے کے غوطہ خور پہنچ گئے اور رضاکاروں نے تینوں لاشوں کو سمندر سے نکال کرسول اسپتال منتقل کردیا۔

    ڈوبنے والے نوجوانوں کی شناخت ملہار ، مہران خان اور فہد کے نام سے ہوئی ہے ،تینوں دوست ایک دوسرے کو بچاتے ہوئے ڈوبے۔

    پولیس نے ضابطے کی کارروائی کے بعد لاشوں کو ورثاء کے حوالے کردیا ہے۔ متوفی فہد کے بھائی نے بتایا تینوں دوست مورو سے پکنک منانے آئے تھے اور ان کی لاشوں کو مورو منتقل کیا جارہاہے۔

  • اٹلی میں آتش فشاں پھٹنے سے سیاح خوفزدہ، سمندر میں چھلانگ لگادی

    اٹلی میں آتش فشاں پھٹنے سے سیاح خوفزدہ، سمندر میں چھلانگ لگادی

    روم : آتش فشاں پہاڑ پھٹنے کے عینی شاہدین نے بتایا کہ آسمان پر ایک بڑا سیاہ رنگ کا بادل نمودار ہوتے ہوئے دیکھا جس سے ہمیں آتش فشاں پھٹنے کا اندازہ ہو گیا تھا۔

    تفصیلات کے مطابق اٹلی کے جزیرے اسٹروم بولی میں آتش فشاں پہاڑ پھٹ پڑا جس کے باعث سیاحت کے لئے آئے لوگوں نے ڈر کر قریبی سمندر میں چھلانگ لگا دی، آتش فشاں پہاڑ پھٹنے کے وقت اس جزیرے پر موجود لوگوں نے آسمان پر ابھرتے ہوئے سیاہ بادلوں اور اڑتی ہوئی چنگاریوں کو دیکھا جس سے پورے علاقے میں خوف و ہراس پھیل گیا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ جزیرے پر موجود اس واقعے کے عینی شاہد نے مقامی میڈیا کو بتایا کہ ہم لوگ دن کا کھانا کھا رہے تھے کہ اچانک ہم نے دیکھا کہ تمام لوگ ایک رخ کی جانب گردن گھما کر دیکھ رہے ہیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ ہم نے آسمان پر ایک بڑا سیاہ رنگ کا بادل نمودار ہوتے ہوئے دیکھا جس سے مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ آتش فشاں پہاڑ پھٹ چکا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ آتش فشاں پھٹنے کے باعث ایک جان سے ہاتھ دھو بیٹھا، ریسکیو ذرائع نے بتایا کہ مذکورہ شخص آتش فشاں کی جانب بڑھ رہا کہ پھتروں سے ٹکرانے کے باعث ہلاک ہوا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ انتظامیہ کی جانب سے جزیرے پر موجود تمام لوگوں کو بحفاظت نکال لیا گیا ہے، اسٹروم بولی بحیرہ روم میں واقع ایک چھوٹا سا جزیرہ ہے جو سیاحت کے لئے دنیا بھر میں مقبول ہے۔

  • ڈولفن کی شکاری کانٹے سے رہائی

    ڈولفن کی شکاری کانٹے سے رہائی

    پلاسٹک کی اشیا اور مچھلی پکڑنے کی ڈوریاں، کانٹے اور جال یوں تو بے ضرر لگتے ہیں تاہم یہ آبی حیات کے لیے نہایت خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔

    اکثر سمندری جانور ان جالوں اور کانٹوں کا شکار نہ بھی ہوں تب بھی ان کی وجہ سے پھنس جاتے ہیں جس کی وجہ سے وہ تیر نہیں سکتے۔ ایسی ہی کچھ صورتحال امریکی ریاست ہوائی کے سمندروں میں پیش آئی۔

    ہوائی کے سمندر میں ڈائیونگ کرتے ہوئے ایک ڈائیور نے دیکھا کہ اس کے قریب تیرتی ڈولفن اپنے ایک بازو کو حرکت نہیں دے پارہی۔ ڈائیور نے غور سے اس کے بازو کا مشاہدہ کیا تو اس نے دیکھا کہ مچھلی پکڑنے کے کانٹے کا ہک ڈولفن کے بازو کے گرد پھنسا ہوا تھا۔

    ڈائیور نے ہک کو پہلے ہاتھ سے نکالنے کی کوشش کی، جب وہ ناکام رہا تو اس نے اپنے سامان سے کٹر نکال کر اس ہک کو کاٹنا شروع کیا۔

    اس دوران ڈولفن صبر سے وہیں موجود رہی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ یہ اسی کی مدد کی جارہی ہے۔

    ڈائیور نے نہایت احتیاط سے اس ہک کو کاٹا اور ڈولفن کے منہ میں اٹکا ہوا تار بھی نکال دیا جس کے بعد ڈولفن کا بازو حرکت کرنے لگا۔ ڈولفن نے شکر گزاری کے اظہار کے طور پر ڈائیور کے گرد چکر لگائے اس کے بعد گہرے سمندروں میں گم ہوگئی۔

  • امریکی ساحل وہیل کے لیے قتل گاہ بن گئے

    امریکی ساحل وہیل کے لیے قتل گاہ بن گئے

    واشنگٹن: امریکی ساحلوں پر وہیل کی اموات میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے اور 6 ماہ میں مختلف ساحلوں پر 70 مردہ وہیلز پائی گئی ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق امریکا کے مغربی ساحلوں (ویسٹ کوسٹ) پر اب تک 70 گرے وہیل مردہ پائی گئی ہیں جس سے ایک جانب تو سمندری حیات کے ماہرین پریشان ہیں تو دوسری جانب ان مردہ وہیلوں کو تلف کرنا بھی ایک اہم مسئلہ بن چکا ہے۔

    امریکی اداروں نے سمندر کے کنارے جائیدادوں کے مالک سے کہا ہے کہ وہ وہیل کے لیے کچھ جگہ چھوڑیں تاکہ وہ قدرتی طور پر گل سڑ کر تلف ہوسکیں۔

    ماہرین نے اعتراف کیا ہے کہ گزشتہ 20 سال میں وہیل کی ہلاکتوں کا یہ سب سے بڑا واقعہ ہے۔ ماہرین ابھی اس پر غور کر رہے ہیں لیکن خیال ہے کہ یہ عظیم الجثہ جاندار بھوک سے مرے ہیں کیونکہ آب و ہوا میں تبدیلی سے سمندروں میں اتنے بڑے جانداروں کے لیے غذائی قلت پیدا ہوگئی ہے۔

    اگرچہ وہیل کی لاشوں پر مردار خور پرندے اور دیگر جانور آرہے ہیں تاہم اس کے باوجود وہیل کو تلف ہونے میں وقت لگے گا اور ان کا تعفن ناقابل برداشت ہوتا جارہا ہے۔ سب سے زیادہ وہیل ریاست واشنگٹن کے ساحلوں پر ملی ہیں جن کی تعداد 30 ہے۔

    دوسرے نمبر پر کیلی فورنیا ہے جہاں 37 مردہ وہیل پائی گئیں، جبکہ 3 وہیل اوریگون میں پائی گئی ہیں۔

    سائنسدانوں نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ شاید اگلے چند ماہ میں مزید وہیلوں کی ہلاکت کے واقعات ہوسکتے ہیں، یہ بھی ممکن ہے کہ ان کی بڑی تعداد مرنے کے بعد دور افتادہ چھوٹے جزیروں پر جمع ہو رہی ہو اور یوں اصل نقصان کا اندازہ لگانا محال ہے۔

    ایک خیال یہ ہے کہ گرے وہیل روزانہ بڑی مقدار میں کرل اور ایمفی پوڈز نامی سمندری جاندار کھاتی ہیں لیکن سمندروں کا درجہ حرارت بڑھنے سے ان جانوروں کی تعداد ختم ہو رہی ہے اور نتیجہ وہیل کی بھوک کے باعث اموات کی صورت میں ظاہر ہورہا ہے۔

  • کلائمٹ چینج سے سمندر کی تہہ کو نقصان

    کلائمٹ چینج سے سمندر کی تہہ کو نقصان

    کلائمٹ چینج جہاں دنیا بھر میں نقصانات کی تاریخ رقم کر رہا ہے وہیں سمندر کی تہہ بھی اس سے محفوظ نہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق کلائمٹ چینج کی وجہ سے سمندر کی تہہ کو بے حد نقصان پہنچ رہا ہے جس سے آبی حیات کو خطرات لاحق ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ زمین پر موجود زیادہ تر کاربن سمندر کی تہہ میں تحلیل ہوجاتی ہے۔ سمندر کی تہہ میں کیلشیئم کاربونیٹ موجود ہوتی ہے اور یہ دونوں گیسیں مل کر سمندر میں کاربن کو توازن میں رکھتے ہیں۔

    تاہم فضا میں کاربن کی بڑھتی ہوئی مقدار کی وجہ سے یہ توازن خراب ہورہا ہے۔

    اب سمندر کی تہہ میں کاربن کی مقدار زیادہ اور کیلشیئم کاربونیٹ کی کم ہوگئی ہے جس سے سمندر کی تہہ میں تیزابیت بڑھ رہی ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ عمل سمندر کی تہہ میں پائی جانے والی آبی حیات و نباتات کے لیے سخت خطرناک ہے۔

    سمندر میں بڑھنے والی تیزابیت سے مونگے کی چٹانیں بھی خطرے کی زد میں ہیں جبکہ ان چٹانوں پر انحصار کرنے والی آبی حیات کو خطرات لاحق ہیں۔

    مزید پڑھیں: مرتی ہوئی مونگے کی چٹانوں کو بچانے کی کوشش

    سائنسی ماہرین کا کہنا ہے کہ پوری زمین پر موجود سمندر کی تہہ کا مکمل جائزہ لینا تو مشکل ہے تاہم ایک اندازے کے مطابق سمندر کی 40 فیصد زمین کاربن کے اس اضافے سے بری طرح متاثر ہورہی ہے۔

  • کیکڑا ون میں تیل اور گیس، مزید 55 میٹر کھدائی کی جائے گی

    کیکڑا ون میں تیل اور گیس، مزید 55 میٹر کھدائی کی جائے گی

    اسلام آباد: وزارت پٹرولیم نے کیکڑا ون میں تیل اور گیس نہ ملنے کی تصدیق کر دی ہے تاہم ترجمان نے کہا ہے کہ ابھی 55 میٹر مزید کھدائی کی جائے گی۔

    تفصیلات کے مطابق وزارتِ پٹرولیم نے تصدیق کر دی ہے کہ سمندر میں تیل اور گیس کے ذخائر نہیں ملے، 55 میٹر مزید کھدائی کے بعد کنواں بند کر دیا جائے گا۔

    ترجمان وزارت پٹرولیم نے کہا کہ کیکڑا ون میں موجود ذخائر میں پانی کا تناسب زیادہ ہے، ہائیڈرو کاربن کا مطلوبہ ذخیرہ نہ مل سکا۔

    پیٹرولیم ڈویژن کے ترجمان نے کہا کہ کنوئیں کی گہرائی 5634 میٹر ہے، مزید پچپن میٹر کھدائی کر کے دیکھا جائے گا اس کے بعد کنواں بند کر دیں گے۔

    یہ بھی پڑھیں:  تیل و گیس کے ذخائر: چند دنوں میں قوم کو بڑی خوشخبری ملنے والی ہے، عمران خان

    یاد رہے کہ گزشتہ روز وزارت پٹرولیم کے اعلیٰ‌ حکام نے ڈرلنگ روکنے کی تصدیق کر دی تھی اور ابتدائی نتائج سے ڈی جی پٹرولیم کو آگاہ کر دیا گیا تھا۔

    اسی طرح کی ایک کوشش ماضی میں بھی کی گئی تھی جو نا کامی سے دوچار ہو گئی تھی۔

    سمندر میں کیکڑا ون کے مقام پر ڈرلنگ کے لیے اٹلی کی کمپنی ای این آئی اور امریکی کمپنی ایگزون موبل کی خدمات حاصل کی گئی تھیں، اس منصوبے میں او جی ڈی سی اور پی پی ایل شامل تھے، ڈرلنگ کے منصوبے پر لاگت کا تخمینہ 10 کروڑ ڈالر سے زائد ہے۔