Tag: سمندر

  • رات کی تاریکی میں اچانک سمندر پر نیلی روشنی نمودار

    رات کی تاریکی میں اچانک سمندر پر نیلی روشنی نمودار

    کیلی فورنیا: سین ڈیگو کے ساحل پر رات کے پہر انتہائی خوبصورت اور دلکش قدرتی منظر دیکھا گیا جس نے لہروں کو رنگین بنادیا۔

    تفصیلات کے مطابق کیلی فورنیا کے ساحل پر گزشتہ شب دلکش اور قدرتی منظر نمودار ہوا جسے دیکھنے والے آنکھیں جھپکنا بھول گئے، رات کی تاریکی میں اچانک سمندر حیران کن طور پر روشن ہوگیا۔

    امریکی میڈیا کے مطابق شب کے درمیانی حصے میں گہرے اور شفاف پانی پر نیلے رنگ کی چمک اور روشنی دور دور تک واضح طور پر نظر آئی جس کی وجہ سے منظر انتہائی دلکش ہوگیا۔اتفاق سے ساحل پر پہنچے ہوئے فوٹو گرافر نے اس تمام قدرتی منظر کو اپنے کیمرے میں محفوظ کیا جس کو دیکھنے والے واقعی سحر میں گرفتار ہوگئے۔

    ماہرین کے مطابق سمندر میں بننے والی یہ روشنی قدرتی عمل سے پیدا ہونے والے بائیولیومن کا نتیجہ ہے جسے دیکھنے کے لیے کہی دہائیاں درکار ہوتی ہیں۔

    کیلی فورنیا کے جنوبی علاقے میں واقع سین ڈیگو کے ساحل پر آنے والی لہروں پر نیلے رنگ کی روشنی جن لوگوں نے دیکھی وہ ماہرین کی رائے کے بعد اپنے آپ کو دنیا کا خوش قسمت انسان سمجھنے لگے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • روزانہ ساحل سمندر کی سیر پر جانا حیران کن فوائد کا باعث

    روزانہ ساحل سمندر کی سیر پر جانا حیران کن فوائد کا باعث

    گھر سے باہر کھلی فضا میں وقت گزارنا دماغی و جسمانی دونوں طرح کی صحت کے لیے بہتر ہے، تاہم حال ہی میں ماہرین نے روزانہ ساحل سمندر پر کچھ وقت گزارنے کے حیران کن فوائد بتائے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق ساحل سمندر پر وقت گزارنا دماغ کو نہایت پرسکون کردیتا ہے جسے ماہرین بلیو اسپیس کا نام دیتے ہیں۔

    ان کے مطابق سمندر کی لہروں کی آواز، پانی اور ریت کی خوشبو دماغ پر خوشگوار اثرات مرتب کرتی ہے۔

    مزید پڑھیں: فطرت کے قریب وقت گزارنا بے شمار فوائد کا باعث

    ایک تحقیق کے مطابق پانی ذہنی دباؤ کم کرنے میں بے حد معاون ثابت ہوتا ہے۔ ساحل سمندر پر جا کر چاہے آپ تیراکی کریں یا صرف پانی میں اپنے پاؤں ڈبوئیں، سمندر کا پانی ذہنی دباؤ کو حیران کن حد تک کم کردیتا ہے۔

    ایک اور تحقیق کے مطابق ساحل سمندر پر جانا آپ کے دماغ پر چھائی دھند اور غبار کو کم کرسکتا ہے اور آپ کا دماغ تازہ دم ہو کر نئے سرے سے کام کرنے لگتا ہے۔

    ماہرین کی تجویز ہے کہ اگر آپ کوئی نیا اور تخلیقی کام کرنا چاہ رہے ہیں تو سمندر پر جانا آپ کے کام کی شروعات کو آسان بنا سکتا ہے۔

    مجموعی طور پر ساحل سمندر کی سیر آپ کو اندرونی طور پر پرسکون کرتی ہے جس سے آپ زندگی کو ایک نئے زاویے سے دیکھتے ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • انسانوں کو لوٹنے والے بندروں کے ساتھ تفریح کیجیئے

    انسانوں کو لوٹنے والے بندروں کے ساتھ تفریح کیجیئے

    فطرت کے قریب مقامات جیسے سمندر، پہاڑ، جنگلات وغیرہ میں جاتے ہوئے سیاحوں کو ذہنی طور پر تیار رہنا چاہیئے کہ وہ جہاں جا رہے ہیں وہ کوئی خالی جگہ نہیں بلکہ ’ کسی‘ کی ملکیت ہے، اور وہاں مختلف اقسام کی سمندری و جنگلی حیات رہائش پذیر ہوگی۔

    اکثر جانور انسانوں کو اپنے گھر میں دیکھ کر سیخ پا ہوجاتے ہیں اور ان پر حملہ کر دیتے ہیں۔ لیکن تھائی لینڈ کا یہ ساحل اس حوالے سے منفرد ہے کہ یہاں کے رہائشی نہایت کھلے دل سے انسانوں کو خوش آمدید کہتے ہیں۔

    monkey-2

    یہ رہائشی یہاں رہنے والے بندر ہیں۔ بندروں کی انسان سے دوستی تو ویسے بھی مشہور ہے کیونکہ وہ انہیں مزیدار کھانے پینے اور کھیلنے کے لیے چیزیں دیتے ہیں۔

    monkey-4

    تھائی لینڈ کا کو فیفی ڈون نامی ساحل بے شمار بندروں کی آماجگاہ ہے۔ یہ بندر ساحل سے قریب واقع پہاڑوں میں رہتے ہیں اور اکثر ساحل پر سیر و تفریح یا کھانے پینے کی اشیا کی تلاش میں گھومتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔

    monkey-3

    یہ یہاں آنے والے سیاحوں کو کوئی نقصان تو نہیں پہنچاتے مگر ان کے پاس موجود کھانے پینے کا سامان اور دیگر اشیا لے اڑتے ہیں۔

    ایک بار جب وہ سیاحوں کو لوٹ لیتے ہیں تو اس کے بعد انہیں کوئی سروکار نہیں ہوتا کہ وہ سیاح وہاں کیا کر رہے ہیں۔

    monkey-5

    گویا اس خوبصورت ساحل پر گھومنے پھرنے کی قیمت اپنے پاس موجود تمام سامان ان بندروں کے حوالے کردینا ہے۔

    کیا آپ اس قیمت پر اس ساحل پر جانے کو تیار ہیں؟


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • شارک جو 400 سال تک زندہ رہ سکتی ہے

    شارک جو 400 سال تک زندہ رہ سکتی ہے

    میامی: ایک سائنسی تحقیق کے مطابق گرین لینڈ میں پائی جانے والی شارک کی عمر 400 سال تک طویل ہوسکتی ہے۔ اس طرح یہ زمین پر سب سے طویل العمر ریڑھ کی ہڈی والے جاندار ہوسکتے ہیں۔

    یہ تحقیق گرین لینڈ انسٹیٹیوٹ آف نیچرل ریسورسز میں کی گئی۔ اس سے قبل کوپن ہیگن کی یونیورسٹی میں کی جانے والی تحقیق کے مطابق ان مچھلیوں کی عمر کا دورانیہ 272 سال ہوتا ہے۔

    مزید پڑھیں: جہازوں کا شور وہیل مچھلی کی صحت پر منفی اثرات کا باعث

    سائنسدانوں کے مطابق ان شارکس کی افزائش بہت سستی سے ہوتی ہے اور ان کی جسمانی لمبائی میں صرف ایک سینٹی میٹر سالانہ اضافہ ہوتا ہے۔ یہی ان کی طویل العمری کی وجہ ہے۔

    whale-2

    تازہ تحقیق میں بتایا گیا کہ یہ شارکس اپنی بلوغت کی عمر کو پہنچنے میں طویل عرصہ لگاتی ہیں اور یہ عرصہ عموماً 150 سال پر محیط ہوتا ہے۔

    مزید پڑھیں: مچھلیاں انسانی چہروں کو شناخت کرسکتی ہیں

    یہ تحقیق اس وقت عمل میں لائی گئی جب کچھ شارکس اتفاقاً مچھیروں کے ہاتھ لگ گئیں۔ ماہرین کے مطابق اس اقسام کی اب تک 2 طویل ترین شارکس دیکھی جا چکی ہیں جن کی لمبائی 16 فٹ ہے۔ ان شارکس کی عمر کا اندازہ 335 سے 392 سال کے درمیان لگایا گیا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • آکٹوپس حیران کن صلاحیتوں اور ذہانت کا حامل

    آکٹوپس حیران کن صلاحیتوں اور ذہانت کا حامل

    سمندر میں رہنے والا آکٹوپس جسے اپنی 8 ٹانگوں کی وجہ سے ہشت پا بھی کہا جاتا ہے، بظاہر ایک بے ضرر جاندار ہے۔

    لیکن کیا آپ جانتے ہیں یہ سمندری جانور انتہائی ذہین ہے؟

    اب سے 40 کروڑ سال قبل وجود میں آنے والا یہ جانور زمین کے اولین ذہین جانوروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ یعنی جس وقت یہ زمین پر موجود تھا، اس وقت ذہانت میں اس کے ہم پلہ دوسرا اور کوئی جانور موجود نہیں تھا۔

    آکٹوپس میں ایک خاصا بڑا دماغ پایا جاتا ہے جس میں نصف ارب دماغی خلیات (نیورونز) موجود ہوتے ہیں۔

    ان کے اندر انسانوں سے 10 ہزار زائد جینز موجود ہوتے ہیں جنہیں یہ اپنے مطابق تبدیل بھی کر سکتے ہیں۔

    آکٹوپس موقع کے حساب سے اپنے آپ کو ڈھالنے کی شاندار صلاحیت رکھتا ہے۔

    یہ نہ صرف رنگ بدل سکتا ہے بلکہ اپنی جلد کی بناوٹ بھی بدل لیتا ہے اور ایسی شکلیں اختیار کر لیتا ہے کہ دشمن یا شکار نزدیک ہونے کے باوجود بھی دھوکہ کھا جاتا ہے۔

    اگر آپ آکٹوپس کو کسی جار میں بند کر کے اوپر سے ڈھکن لگا دیں تو یہ تھوڑی سی کوشش کے بعد اس ڈھکن کو باآسانی کھول کر آزاد ہوجائے گا۔

    اسی طرح یہ معمولی نوعیت کے پزل بھی حل کرسکتے ہیں۔

    آکٹوپس کو پالتو جانوروں کی صورت میں بھی رکھا جاتا ہے۔ ایسی صورت میں یہ اپنے مالک کو پہچاننے کی حیران کن صلاحیت رکھتے ہیں۔

    یہ جانور محسوس کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں لہٰذا برطانیہ اور یورپی یونین کے ممالک میں آکٹوپس کو بے ہوش کیے بغیر تحقیقی مقاصد کے لیے ان کے جسم کے ساتھ چیر پھاڑ کرنا قانوناً جرم ہے۔

    آکٹوپس غیر فقاری (ان ورٹی بریٹس) جانور ہیں یعنی ان میں ریڑھ کی ہڈی موجود نہیں، اور یہ اس اقسام کے جانوروں میں ذہین ترین سمجھے جاتے ہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔ 

  • رنگوں بھری افشاں سمندری آلودگی میں اضافے کا سبب

    رنگوں بھری افشاں سمندری آلودگی میں اضافے کا سبب

    آپ نے اکثر ایسی آرائشی اشیا دیکھی ہوں گی جنہیں رنگوں بھری چمکیلی افشاں یا گلیٹرز سے سجایا جاتا ہے۔ اگر آپ اپنے گھر میں ایسی آرائشی اشیا سجانے کے عادی ہیں تو جان لیں کہ آپ سمندروں میں آلودگی کی وجہ بن رہے ہیں۔

    حال ہی میں کی جانے والی ایک تحقیق میں ماہرین نے ان گلیٹرز کو سمندروں اور آبی حیات کے لیے سخت نقصان دہ قرار دیا ہے۔

    اس کی وجہ یہ ہے کہ پلاسٹک کی طرح یہ گلیٹر بھی کسی صورت زمین یا پانی میں حل یا تلف نہیں ہوتے اور جوں کے توں موجود رہتے ہیں۔

    گلیٹرز کو پلاسٹک کی چھوٹی قسم یعنی مائیکرو پلاسٹک بھی کہا جاتا ہے۔

    ان کی سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ یہ فلٹر سے بھی باآسانی گزر جاتے ہیں۔

    سمندر میں جانے کے بعد یہ آبی حیات کی خوراک کا حصہ بن جاتے ہیں اور یوں ان کے جسم میں پلاسٹک جمع ہوتا رہتا ہے جو بالآخر ان کی موت کا سبب بن جاتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ پلاسٹک کی طرح گلیٹرز پر بھی پابندی عائد کی جائے تاکہ سمندری آلودگی میں کمی اور آبی حیات کی حفاظت کی جا سکے۔

    پلاسٹک کی تباہ کاری کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • ریاض: ستاسی میٹر طویل پرچم 87 میٹر گہرائی میں اتارنے کا ورلڈ ریکارڈ

    ریاض: ستاسی میٹر طویل پرچم 87 میٹر گہرائی میں اتارنے کا ورلڈ ریکارڈ

    ریاض: سعودی عرب کے قیام کو 87 برس پورے ہونے کی خوش میں 87 غوطہ خوروں نے 87 میٹر طویل سعودی پرچم سمندر میں 87 میٹر کی گہرائی تک پہنچا کر ورلڈ ریکارڈ قائم کردیا۔

    العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق سعودی عرب میں 87 غوطہ خوروں نے 87 میٹر طویل ملکی پرچم بحرِ احمر میں 87 میٹر کی گہرائی تک پہنچانے کا منفرد کارنامہ انجام دیا ہے،یہ قدم سعودی عرب کے قیام کے 87 برس پورے ہونے کی خوشی میں اٹھایا گیا ہے۔

    saudi arab

    اس سرگرمی کو سمندر کی گہرائی میں پرچم اتارے جانے کی سب سے بڑی کارروائی کے طور پر درج کر لیا گیا ہے، گینز بک آف ورلڈ ریکارڈز کی جیوری ٹیم کی جانب سے اس نئے ریکارڈ کی تصدیق کر دی گئی ہے۔

    اس کارروائی کے منتظم اعلیٰ کیپٹن ربحی سکیک نے بتایا کہ "گینز کے منتظمین نے ہم سے مطالبہ کیا تھا کہ ریکارڈ قائم کرنے کے لیے صرف 65 میٹر کی گہرائی تک جانا ہو گا تاہم ہم نے مشکل کا سامنا کرنے کے باوجود اس فاصلے کو 87 میٹر تک طویل کر دیا”۔

    منصوبے کے ایک معاون سیف الصاعدی کا کہنا ہے کہ "ہم نے یہ کارنامہ اپنے وطن اور عوام کی محبت میں انجام دیا ہے یہ خادم حرمین اور ان کے ولی عہد کے لیے ہماری وفاداری کی تجدید بھی ہے”۔

  • ہر مچھلی کی اپنی علیحدہ شخصیت ہونے کا انکشاف

    ہر مچھلی کی اپنی علیحدہ شخصیت ہونے کا انکشاف

    کیا آپ جانتے ہیں سمندر میں رہنے والی چھوٹی بڑی تمام مچھلیوں کی ’شخصیت‘ ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہے، بالکل ویسے ہی جیسے انسانوں کی ہوتی ہے۔

    یہ دعویٰ ساؤتھ ویسٹ انگلینڈ کی ایگزیٹر یونیورسٹی کے سائنس دانوں کی جانب سے آیا ہے جن کا کہنا ہے کہ مچھلیاں مختلف قسم کے حالات میں مختلف ردعمل ظاہر کرتی ہیں اور تمام مچھلیوں کا رد عمل ایک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔

    سائنسدانوں نے اس مقصد کے لیے سمندر کی کچھ مچھلیوں کو پانی کے ایک ٹینک میں منتقل کیا اور پانی میں مصنوعی طور پر پریشان کن ہلچل پیدا کی۔ ماہرین نے دیکھا کہ ہر مچھلی نے مختلف ردعمل کا اظہار کیا۔

    انہوں نے یہ مشاہدہ بھی کیا کہ کچھ مچھلیوں نے اس ہلچل کے مقام پر رہ کر اس کا مقابلہ کیا، جبکہ کچھ وہاں سے دور پرسکون مقام پر چلی گئیں۔

    مذکورہ یونیورسٹی کے سینٹر فار ایکولوجی اینڈ کنزرویشن کے پروفیسر ٹام ہوزلے کے مطابق جب مچھلیوں کو کسی نامانوس ماحول پر رکھا جائے تو تمام مچھلیاں مختلف رد عمل دیتی ہیں۔

    مزید پڑھیں: مچھلیاں انسانی چہروں کو شناخت کرسکتی ہیں

    ان کے مطابق مختلف ماحول یا کسی بڑی مچھلی کی جانب سے حملے کے خطرے کا احساس ہوتے ہی کچھ مچھلیاں چھپنے کی کوشش کرتی ہیں، کچھ وہاں سے بچنے کی کوشش کرتی ہیں، جبکہ کچھ مچھلیاں محتاط ہو کر اسی مقام پر موجود رہتی ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ مچھلیوں کا یہ ردعمل مچھلی اور دیگر آبی جانداروں کے جینیاتی مطالعے میں معاون ثابت ہوگی۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • کان کی صفائی کرنے والی روئی میں پھنسا ہوا ننھا سمندری گھوڑا

    کان کی صفائی کرنے والی روئی میں پھنسا ہوا ننھا سمندری گھوڑا

    سمندروں کی آلودگی کا مسئلہ نیا نہیں اور اب یہ اس قدر بڑھ چکا ہے کہ ماہرین کے مطابق اگلے چند برسوں میں ہمارے سمندروں میں پانی سے زیادہ کچرا اور پلاسٹک بھرا ہوا ہوگا۔

    تاہم حال ہی میں ایک سیاح نے ایک ایسی تصویر کھینچی ہے جو بظاہر تو بہت منفرد معلوم ہو رہی ہے لیکن اس کا پس منظر نہایت خوفناک ہے۔

    سماجی رابطوں کی ویب سائٹ انسٹاگرام پر یہ تصویر ٹوئٹ کرتے ہوئے جسٹن ہوف مین نامی سیاح اور ماحولیاتی کارکن نے لکھا کہ کاش یہ منظر مجھے دیکھنے کو نہ ملتا، مگر اب میں اسے پوری دنیا کو دکھانا چاہتا ہوں۔

    It’s a photo that I wish didn’t exist but now that it does I want everyone to see it. What started as an opportunity to photograph a cute little sea horse turned into one of frustration and sadness as the incoming tide brought with it countless pieces of trash and sewage. This sea horse drifts long with the trash day in and day out as it rides the currents that flow along the Indonesian archipelago. This photo serves as an allegory for the current and future state of our oceans. What sort of future are we creating? How can your actions shape our planet?
.
thanks to @eyosexpeditions for getting me there and to @nhm_wpy and @sea_legacy for getting this photo in front of as many eyes as possible. Go to @sea_legacy to see how you can make a difference. . #plastic #seahorse #wpy53 #wildlifephotography #conservation @nhm_wpy @noaadebris #switchthestick

    A post shared by Justin Hofman (@justinhofman) on

    انہوں نے لکھا کہ سمندر کی لہروں کے ساتھ بے تحاشہ کچرا بھی سمندر کے اندر آجاتا ہے جو آبی حیات کو نقصان پہنچاتا ہے۔

    ان کے مطابق انڈونیشیائی جزیروں کے پانیوں میں کھینچی جانے والی اس تصویر میں موجود یہ ننھا سا سمندری گھوڑا بھی اسی کچرے زدہ پانی سے گزر کر آیا ہوگا اور واپسی پر یہ کانوں کی صفائی کرنے والی ایئر بڈ میں پھنس گیا ہے۔

    مزید پڑھیں: سمندروں اور دریاؤں کی صفائی کرنے والا پہیہ

    اب یہ خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ یہ اس سے زور آزمائی کر کے اس سے پیچھا چھڑانا چاہتا ہے یا اسے کوئی دلچسپ چیز سمجھ کر اس پر سواری کر رہا ہے۔

    جسٹن ہوف کا کہنا ہے کہ یہ تصویر ہمارے خوفناک مستقبل کی ایک مثال ہے۔ ’یہ کیسی ترقی ہے جو ہم کر رہے ہیں؟ اپنے ماحول، فطرت اور جنگلی حیات کو نقصان پہنچا کر کی جانے والی ترقی کسی کام کی نہیں‘۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • کراچی میں اچانک اتنی بارشیں کیوں ہونے لگیں؟

    کراچی میں اچانک اتنی بارشیں کیوں ہونے لگیں؟

    گزشتہ چند سالوں سے کراچی میں بارشوں کے نہ ہونے یا بہت کم ہونے کے بعد اب یکایک کراچی میں بہت زیادہ بارشیں ہونے لگی ہیں۔ گزشتہ سال موسم سرما کے بعد اب رواں سال بھی معمول سے زیادہ بارش ہوئی۔

    ان بارشوں نے ایک طرف تو کراچی والوں کو خوشی سے نہال کردیا دوسری جانب یہ تاثر بھی پیدا ہوا کہ شاید اب کراچی کا موسم معمول پر آرہا ہے اور اب کراچی میں بھی ملک کے دیگر حصوں کی طرح بارشیں ہوں گی۔

    لیکن شاید ایسا نہیں ہے۔

    کراچی کے موسم میں اس اچانک تبدیلی کی وجہ جاننے کے لیے اے آر وائی نیوز نے سابق چیف میٹرولوجسٹ توصیف عالم سے رابطہ کیا اور انہوں نے اس کی جو وجوہات بتائیں وہ زیادہ امید افزا نہیں ہیں۔

    کلائمٹ چینج سب سے بڑی وجہ

    سابق چیف میٹرولوجسٹ توصیف عالم کے مطابق موسم میں اس اچانک تبدیلی کی پہلی اور سب سے بڑی وجہ تو موسمیاتی تغیرات کلائمٹ چینج ہے۔

    ہم جانتے ہیں کہ دنیا بھر میں کلائمٹ چینج بہت تیزی سے واقع ہو رہا ہے جس کے باعث دنیا کے ہرخطے کا موسم غیر متوقع طور پر تبدیل ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی شدت میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔

    توصیف عالم کے مطابق، ’کلائمٹ چینج نے دنیا بھر کے موسم کو تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔ صحراؤں میں برف باری اور بارشیں ہورہی ہیں، شدید سرد علاقوں میں گرمی پڑنے لگی ہے۔ جو علاقے گرم ہوتے تھے وہاں بھی اب ناقابل برداشت سردی پڑتی ہے۔ یہ سب کلائمٹ چینج کی کرامات ہیں‘۔

    ان کا کہنا تھا کہ ہماری تیز رفتار ترقی نے فطرت کو تبدیل کردیا ہے جس کے نتائج اب غیر متوقع موسموں کی صورت میں سامنے آرہے ہیں۔

    موسم کی پیش گوئی دشوار

    توصیف عالم کے مطابق کلائمٹ چینج نے اب دنیا بھر کے موسم کو بالکل غیر متوقع، ناقابل بھروسہ اور ناقابل پیشن گوئی بنا دیا ہے۔ ’اب یہ ناممکن ہے کہ آپ قطعیت کے ساتھ کہہ دیں کہ اگلے برس اس شہر میں ایسا موسم ہوگا، بارشیں ہوں گی یا نہیں، اور آئندہ آنے والے چند برسوں کے موسم کی پیشن گوئی کرنا تو بالکل ناممکن ہے‘۔

    یہی صورتحال کراچی کے موسم کی ہے۔ کراچی میں بارشوں کا سلسلہ اب باقاعدہ طور پر جاری رہے گا یا نہیں، اس بارے میں بھی ماہرین اندھیرے میں ہیں۔ ’کچھ کہہ نہیں سکتے کہ آیا اگلے برس بھی ایسی ہی بارشیں ہوں گی یا نہیں۔ ہوسکتا ہے اگلے برس اس سے زیادہ بارشیں ہوں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بالکل بارش نہ ہو‘۔

    ان کے مطابق یہ صورتحال صرف کراچی پر ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے موسم پر لاگو ہوتی ہے۔

    ایل نینو کا اثر

    توصیف عالم کے مطابق بارشوں کے پیٹرن میں تبدیلی کی ایک وجہ ایل نینو بھی ہے۔

    ایل نینو بحر الکاہل (پیسیفک) کے درجہ حرارت میں اضافہ کو کہتے ہیں جس کے باعث بحر الکاہل میں پانی غیر معمولی طور پر گرم ہو جاتا ہے اور دنیا بھر میں موسمی بگاڑ کا باعث بنتا ہے۔

    یہ عمل ہر 4 سے 5 سال بعد رونما ہوتا ہے جو گرم ممالک میں قحط، خشک سالیوں اور سیلاب کا سبب بنتا ہے۔

    مزید پڑھیں: تاریخی دریائے نیل کلائمٹ چینج کی ستم ظریفی کا شکار

    ایل نینو کاربن کو جذب کرنے والے قدرتی ’سنک‘ جیسے جنگلات، سمندر اور دیگر نباتات کی صلاحیت پر بھی منفی اثر ڈالتا ہے جس کے باعث وہ پہلے کی طرح کاربن کو جذب نہیں کرسکتے اور یوں درجہ حرارت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔

    ایل نینو دنیا بھر کے موسم پر اثر انداز ہوتا ہے لہٰذا اس کی وجہ سے مون سون کے سائیکل بھی متاثر ہوتے ہیں۔

    سب سے زیادہ بارشیں کہاں ہوتی ہیں؟

    ایک عام خیال ہے (جو پاکستان میں ابھی تک سائنس کی کتابوں میں بھی پڑھایا جاتا ہے) کہ سب سے زیادہ بارشیں ساحلی علاقوں میں ہوتی ہیں۔

    اس کی وجہ یہ ہے کہ سمندر کا پانی بخارات بن کر اوپر جاتا ہے، وہ بخارات بادل بنتے ہیں پھر وہی بادل بارش برساتے ہیں۔

    لیکن ماہرین اس کی نفی کرتے ہیں۔ ان کے مطابق سمندر سے بادل بننے تک کا عمل تو درست ہے، لیکن یہ بادل بارش برسانے جیسے نہیں ہوتے۔ یہ زیادہ اونچائی تک نہیں جاسکتے علاوہ ازیں سمندری ہوا کی وجہ سے یہ بکھر بھی جاتے ہیں لہٰذا یہ بارش برسانے کے قابل نہیں ہوتے۔

    اس بارے میں توصیف عالم کا کہنا ہے کہ سب سے زیادہ بارشیں پہاڑی علاقوں میں ہوتی ہیں۔ جیسے جیسے ہوا اوپر (پہاڑ) کی طرف جاتی ہے ویسے ویسے ہوا میں نمی کا تناسب بڑھتا جاتا ہے۔

    ان کے مطابق دنیا بھر کے پہاڑوں اور بلندی پر موجود علاقوں میں زیادہ بارشیں ہوتی ہیں۔

    اس کے بعد زیادہ بارشیں جنگلات والے علاقوں میں ہوتی ہیں۔ کسی علاقے میں موجود جنگل اور ہریالی بارش لانے کا سبب بنتے ہیں۔ دنیا بھر کے برساتی جنگلات (رین فاریسٹ) میں بے تحاشہ بارشیں ہوتی ہیں جن میں سرفہرست برازیل کے امیزون کے جنگلات ہیں۔

    امیزون کے جنگلات دنیا بھر کے برساتی جنگلات کا ایک تہائی حصہ ہیں اور یہاں سالانہ 15 سو سے 3 ہزار ملی میٹر بارشیں ہوتی ہیں۔

    سب سے کم بارشیں ساحلی علاقوں میں ہوتی ہیں جن میں کراچی بھی شامل ہے۔

    فطرت کی رفو گری

    کراچی کی حالیہ بارشوں سے ایک تاثر یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ موسم کے درست ہونے کا یہ عمل قدرتی ہے۔ گویا فطرت اپنے آپ کو درست کر رہی ہے۔ لیکن کیا واقعی ایسا ہے؟

    اس بارے میں ماہر ماحولیات شبینہ فراز کہتی ہیں، ’فطرت کا اپنے آپ کو رفو کرنا قابل فہم بات تو ہے، لیکن یہ عمل اتنا آسان نہیں۔ اول تو یہ کہ ہم جس قدر تباہی و بربادی پھیلا چکے ہیں اس حساب سے اگر فطرت اپنے آپ کو درست کر بھی رہی ہے تو اس کی شرح بہت کم ہے جسے ہم صفر اعشاریہ چند فیصد کہہ سکتے ہیں‘۔

    ان کے مطابق، ’یہ درستی اگر ہو بھی رہی ہے تو قابل مشاہدہ نہیں ہے کیونکہ جس وقت فطرت اپنے آپ کو رفو کرتی ہے، ہم اس سے اگلے ہی لمحے دوگنی چوگنی خرابی پیدا کردیتے ہیں‘۔

    شبینہ فراز کا کہنا ہے، ’جب زمین پر رہنے والے جاندار بہت زیادہ تباہی مچادیں تو فطرت اپنی اصل کی طرف پلٹنے کے لیے ایک خوفناک سرجری کے عمل سے گزرتی ہے اور اب بھی ایسا ممکن ہے۔ ہو سکتا ہے سب کچھ ٹھیک ہونے سے قبل بے شمار طوفان آئیں، سمندر کناروں سے باہر نکل کر ہر شے کو تباہ کردے، ہر وہ شے جو فطرت کو نقصان پہنچا رہی ہے تباہ ہوجائے، اس کے بعد فطرت اپنی اصل حالت پر تو واپس آجائے گی، درخت بھی ہوں گے، موسم بھی ٹھیک ہوگا، اور سمندر بھی اپنی حدوں میں ہوگا لیکن پھر انسان کہیں نہیں ہوگا‘۔

    ماہرین کے مطابق کراچی سمیت پورے ملک کا موسم اب ایسے ہی ناقابل پیشن گوئی رہے گا اور اس سے نمٹنے کی ایک ہی صورت ہے کہ ہم ہر لمحہ ہر قسم کی صورتحال کے لیے تیار رہیں۔