Tag: سمندر

  • بیچ سمندر میں ڈوبنے والے ہاتھی کو سری لنکن نیوی نے بچا لیا

    بیچ سمندر میں ڈوبنے والے ہاتھی کو سری لنکن نیوی نے بچا لیا

    کولمبو: سری لنکا کی بحری فوج کے جانباز سپاہیوں نے بیج سمندر میں ڈوبتے ایک ہاتھی کو جان توڑ کوششوں کے بعد بچالیا۔ ہاتھی کو کھینچ کر ساحل تک لانے میں انہیں 12 گھنٹے لگے۔

    نیوی ذرائع کے مطابق ہاتھی اس وقت ڈوبا جب وہ جنگل کے بیچ سمندر سے متصل کوکیلائی نامی جھیل کو پار کر رہا تھا۔ پانی کے تیز بہاؤ سے وہ اپنا توازن کھو بیٹھا اور بہتا ہوا بیچ سمندر میں آنکلا جہاں دور دور تک خشکی نہیں تھی۔

    ان کے مطابق ہاتھی اور دیگر جانور عموماً اس جھیل کو باآسانی پار کرلیتے ہیں۔

    نیوی اہلکاروں کی جانب سے ہاتھی کو دیکھ لیے جانے کے بعد وہ اسے بمشکل کھینچ کر ساحل تک لائے جو 8 کلومیٹر کے فاصلے پر تھا اور اس میں 12 گھنٹے لگے۔

    اس دوران ہاتھی نے اپنی سونڈ پانی سے باہر رکھی جس کے ذریعے وہ سانس لیتا رہا۔

    ساحل پر پہنچنے کے بعد وائلڈ لائف اہلکاروں نے رسیوں کی مدد سے کھینچ کر ہاتھی کو پانی سے باہر نکالا اور اسے طبی امداد دی۔

    نیوی اہلکاروں نے ہاتھی کو بچنے کو معجزہ قرار دیا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • قاتل پلاسٹک نے ایک اور نایاب مچھلی کی جان لے لی

    قاتل پلاسٹک نے ایک اور نایاب مچھلی کی جان لے لی

    کراچی: صوبہ سندھ کے ساحلی دارالحکومت کراچی کے ساحل پر پلاسٹک کی بہتات نے ایک اور نایاب نڈل مچھلی کی جان لے لی۔ مچھلی سمندر میں پھینکے جانے والے پلاسٹک کے کپ میں پھنس گئی تھی۔

    جنگلی حیات کے تحفظ کی عالمی تنظیم ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق نایاب نڈل فش پلاسٹک کے کپ میں پھنس گئی تھی۔

    ماہی گیروں نے پھنسی ہوئی مچھلی کو نکالنے کی کوشش کی لیکن وہ بچ نہ سکی۔

    ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق سمندر میں پھینکے جانے والے پلاسٹک نے ایک طرف تو سمندر کو آلودہ ترین کردیا ہے، دوسری جانب مختلف آبی حیات کو نہایت خطرے میں ڈال دیا ہے۔

    ساحل پر سیر و تفریح کے لیے آنے والے افراد کھانے پینے کی اشیا کا پلاسٹک ریپر سمندر میں بہا دیتے ہیں جس کے باعث سمندر آہستہ آہستہ پلاسٹک کے سمندر میں تبدیل ہوتا جارہا ہے۔

    ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق کراچی کے ساحل پر 200 کلومیٹر تک پلاسٹک کا کچرا پھیلا ہوا ہے۔

    یہ پلاسٹک آبی حیات کے لیے زہر قاتل کی حیثیت رکھتا ہے۔

    اکثر مچھلیاں اور دیگر آبی جاندار اس پلاسٹک کو نگل لیتے ہیں جو ان کے جسم میں رہ جاتی ہے، جس کے بعد ان کا جسم پھولنے لگتا ہے، بھوک لگنے کی صورت میں وہ کچھ بھی نہیں کھا سکتے کیونکہ پلاسٹک ان کے معدے کی ساری جگہ گھیر چکا ہوتا ہے۔

    یوں آہستہ آہستہ وہ بھوک اور پلاسٹک کے باعث ہلاکت کے دہانے پر پہنچ جاتے ہیں اور بالآخر مر جاتے ہیں۔

    اکثر سمندری جانور پلاسٹک کے ٹکڑوں میں بھی پھنس جاتے ہیں اور اپنی ساری زندگی نہیں نکل پاتے۔ اس کی وجہ سے ان کی جسمانی ساخت ہی تبدیل ہوجاتی ہے۔

    اس صورت میں اگر یہ پلاسٹک ان کے نظام تنفس کو متاثر کرے تو یہ پلاسٹک میں پھنسنے کے باعث بھی مرجاتے ہیں جیسے کراچی کی اس نڈل مچھلی کے ساتھ ہوا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ سمندر میں براہ راست پھینکے جانے والے پلاسٹک کے علاوہ، زمین پر استعمال کیے جانے والے پلاسٹک کا بھی 80 فیصد حصہ سمندر میں چلا جاتا ہے۔ ان میں زیادہ تر پلاسٹک کی بوتلیں اور تھیلیاں شامل ہوتی ہیں۔

    یاد رہے کہ پلاسٹک ایک تباہ کن عنصر اس لیے ہے کیونکہ دیگر اشیا کے برعکس یہ زمین میں تلف نہیں ہوسکتا۔ ایسا کوئی خورد بینی جاندار نہیں جو اسے کھا کر اسے زمین کا حصہ بناسکے۔

    ماہرین کے مطابق پلاسٹک کو زمین میں تلف ہونے کے لیے 1 سے 2 ہزار سال لگ سکتے ہیں۔

    پلاسٹک کی تباہ کاریوں کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • چین نے مقامی طور پر تیار کردہ پہلا بحری بیڑا سمندر میں اتار دیا

    چین نے مقامی طور پر تیار کردہ پہلا بحری بیڑا سمندر میں اتار دیا

    بیجنگ: چین نےاپنی بڑھتی ہوئی فوجی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئےملک میں تیار کیا جانے والا طیارہ بردار بحری جہاز پانی میں اتار دیا ہے۔

    تفصیلات کےمطابق بحری بیڑے کو سمندر میں اتارنے کی تقریب بحیرہ بوہائی کی بندرگاہ ڈالیان میں منعقد کی گئی جس میں وائس چیئرمین سینٹرل ملٹری کمیشن چین بحریہ سمیت دیگراعلیٰ حکام نےتقریب میں شرکت کی۔

    چین کے سرکاری میڈیا نے عسکری ماہرین کے حوالے سے بتایا کہ یہ طیارہ بردار بحری بیڑے کی تعمیر 2013 میں شروع ہوئی تھی جبکہ 2012 میں روس کا تیار کردہ بحری بیڑا چین کی بحریہ کا حصہ بنا تھا۔

    بحری بیڑہ 50 ہزار ٹن وزن اٹھانے کی صلاحیت رکھتا ہےجس میں ایک وقت میں 36 جہاز کھڑے ہو سکتے ہیں۔

    چینی حکام کا یہ بھی کہنا تھا کہ نیا بحری بیڑہ جوہری توانائی کے بجائے توانائی کے روایتی ذرائع سے چلایا جائے گا۔

    امریکہ شمالی کوریا کے میزائل خطرے سے نمٹنے کے لیےتیار

    واضح رہےکہ چین کی سرکاری خبر رساں ایجنسی شنہوا کی رپورٹ کے مطابق ایئرکرافٹ کیریئر مکمل طور پر تیار ہے اور اس کے پروپلژن، پاور اور دیگر اہم سسٹمز نصب کیے گئے ہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں

  • سمندر کے پانی کو قابل استعمال بنانے کے لیے چھلنی تیار

    سمندر کے پانی کو قابل استعمال بنانے کے لیے چھلنی تیار

    پانی وہ نعمت جس کے بغیر زندگی کا تصور نا ممکن ہے جب کہ بڑھتی ہوئی آبادی اور صنعتی سرگرمیوں میں اضافے کی وجہ سے دنیا میں پانی کی کمی کا خدشہ بڑھتا جا رہا ہے جس کے لیے سائنس دانوں نے نئی منصوبہ بندی شروع کردی ہے جس کے تحت سمندر کے پانی کو استعمال کے قابل بنایا جا رہا ہے۔

    سمندر کے پانی کو استعمال کے قابل بنانے کے لیے کئی طریقے پہلے سے ہی استعمال کیے جا رہے ہیں جن میں سے ایک گریفین آکسائڈ بھی ہے جس کی مدد سے سمندر کے پانی سے نمک کو نکال کر اسے پینے کے قابل بنایا جا سکتا ہے تاہم یہ طریقہ قدرے مہنگا ثابت ہو رہا ہے اس لیے قبولِ سند عام نہیں مل سکی ہے۔
    sea1
    ایک تحقیقی جریدے کے مطابق سائنس دان ڈاکٹر راہل نائر کی قیادت میں یونیورسٹی آف مانچسٹر کے سائنسدانوں کی ٹیم نے گریفین آکسائڈ سے کھارے پانی کو پینے لائق بنانا کا آسان اور سستا طریقہ ایجاد کیا ہے جس کے بعد امید کی جا رہی ہے کہ یہ ٹیکنالوجی بڑے پیمانے پر استعمال ہو سکے گی۔

    ڈاکٹر نائر نے بین الاقوامی میڈیا سے گفتگو کے دوران بتایا کہ اس طریقے میں گریفين آکسائڈ کو لیب میں عمل تکسید کے ذریعے بہ آسانی تیار کیا جا سکتا ہے اور کسی جال یا چھلنی میں چھڑک اس سے سمندر کے پانی کو گذارا جائے گا جس کے دوران چھلنی میں موجود گریفین آکسائڈ پانی میں سے نمک کو علیحدہ کر لے گی۔
    sea2
    واضح رہے اقوام متحدہ ایک سروے کے مطابق 2025 تک دنیا کی 14 فیصد آبادی کو پانی کے بحران کا سامنا ہوگااور پانی کی اتنی کمی پیدا ہوجائے گی کہ آئندہ ہونے والی جنگیں پانی کے مسئلے پر ہوا کریں گی۔

    یاد رہے کہ سمندر کے کھارے پانی کو پینے کے قابل بنانے کے لیے جو ٹیکنالوجی استعمال کی جا رہی ہے اس میں پولیمر فلٹر استعمال کیا جاتا ہے جو مہنگا بھی پڑتا ہے اور بڑے پیمانے اس کا استعمال قریبآ نا ممکن ہے اور دنیا میں پانی صاف کرنے کی موجودہ ٹیکنالوجی پولیمر فلٹر پر مبنی ہے۔

  • فطرت کے قریب وقت گزارنے والی حاملہ ماؤں کے بچے صحت مند

    فطرت کے قریب وقت گزارنے والی حاملہ ماؤں کے بچے صحت مند

    یوں تو فطری ماحول، درختوں، پہاڑوں یا سبزے کے درمیان رہنا دماغی و جسمانی صحت پر مفید اثرات مرتب کرتا ہے، تاہم حال ہی میں ایک تحقیق میں انکشاف ہوا کہ وہ حاملہ مائیں جو اپنا زیادہ وقت فطرت کے قریب گزارتی ہیں، وہ صحت مند بچوں کو جنم دیتی ہیں۔

    برطانیہ کی بریڈ فورڈ یونیورسٹی کی جانب سے کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق وہ حاملہ خواتین جو اپنے حمل کا زیادہ تر وقت پرسکون و سر سبز مقامات پر گزارتی ہیں، ان کا بلڈ پریشر معمول کے مطابق رہتا ہے اور وہ صحت مند بچوں کو جنم دیتی ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے بچوں میں بڑے ہونے کے بعد بھی مختلف دماغی امراض لاحق ہونے کا خطرہ کم ہوتا ہے۔

    مزید پڑھیں: سبزہ زار بچوں کی ذہنی استعداد میں اضافے کا سبب

    تحقیق میں یہ بھی دیکھا گیا کہ فطرت کے قریب رہنا آپ کو موٹاپے اور ڈپریشن سے بھی بچاتا ہے۔

    مذکورہ تحقیق کے لیے درمیانی عمر کے ان افراد کا تجزیہ کیا گیا جو سبزے سے گھرے ہوئے مقامات پر رہائش پذیر تھے۔ ماہرین نے دیکھا کہ ان میں مختلف بیماریوں کے باعث موت کا امکان پرہجوم شہروں میں رہنے والے افراد کی نسبت 16 فیصد کم تھا۔

    woman-2

    ماہرین نے بتایا کہ ان کے ارد گرد کا فطری ماحول انہیں فعال ہونے کی طرف راغب کرتا ہے، جبکہ وہ ذہنی دباؤ کا شکار بھی کم ہوتے ہیں۔

    ایسے افراد شہروں میں رہنے والے افراد کی نسبت دواؤں پر انحصار کم کرتے ہیں۔

    تحقیق میں کہا گیا کہ لوگ جتنا زیادہ فطرت سے منسلک ہوں گے اتنا ہی زیادہ وہ جسمانی و دماغی طور پر صحت مند ہوں گے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ سرسبز مقامات پر زندگی گزارنے کے علاوہ، اگر لوگ پر ہجوم شہروں میں رہتے ہیں تب بھی انہیں سال میں ایک سے دو مرتبہ کسی فطری مقام پر وقت ضرور گزارنا چاہیئے۔

    مزید پڑھیں: فطرت کے قریب وقت گزارنا بے شمار فوائد کا باعث

    ان کے مطابق روزمرہ کی زندگی میں ہمارا دماغ بہت زیادہ کام کرتا ہے اور اسے اس کا مطلوبہ آرام نہیں مل پاتا۔ دماغ کو پرسکون کرنے کے لیے سب سے بہترین علاج کسی جنگل میں، درختوں کے درمیان، پہاڑی مقام پر یا کسی سمندر کے قریب وقت گزارنا ہے۔

    اس سے دماغ پرسکون ہو کر تازہ دم ہوگا اور ہم نئے سرے سے کام کرنے کے قابل ہوسکیں گے۔

  • درجنوں وہیل مچھلیاں بہہ کر ساحل پر آگئیں

    درجنوں وہیل مچھلیاں بہہ کر ساحل پر آگئیں

    ویلنگٹن: نیوزی لینڈ کے ایک ساحل پر درجنوں وہیل مچھلیاں بہہ کر ساحل پر آگئیں۔ ساحل پر آنے والی ان وہیل مچھلیوں میں سے بیشتر پانی میں واپس ڈالے جانے سے قبل دم توڑ گئیں۔

    نیوزی لینڈ کے جنوبی جزیرے پر واقع گولڈن بے کے فیئرویل اسپٹ پر یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب آدھی رات کو درجنوں وہیل مچھلیاں بہہ کر ساحل پر آگئیں۔

    whale-2

    صبح ساحل پر آنے والے افراد نے انہیں دیکھا تو ریسکیو اداروں کو طلب کیا گیا۔ جس وقت ریسکیو اہلکاروں نے ان مچھلیوں کو واپس پانی میں ڈالنے کا کام شروع کیا اس وقت تک 75 فیصد وہیل مچھلیاں مر چکی تھیں۔

    whale-3

    امدادی کاموں میں شامل ایک رضا کار کا کہنا تھا کہ یہ واقعہ سمندر کی بلند لہروں کے باعث آیا جس نے اتنی بڑی تعداد میں وہیل مچھلیوں کو ساحل پر لا پھینکا۔ ایک اندازے کے مطابق ان وہیل مچھلیوں کی تعداد 200 سے زائد تھی۔

    whale-4

    نیوزی لینڈ کے مذکورہ ساحل پر سمندر کی تنگ کھاڑی موجود ہے جس کے باعث اس سے قبل بھی بڑی مچھلیوں اور دیگر آبی جانوروں کے ساحل پر آنے کے واقعات پیش آچکے ہیں۔

  • برفانی سمندر کے نیچے رنگین زندگی

    برفانی سمندر کے نیچے رنگین زندگی

    ایک بہتے ہوئے سمندر کے نیچے رنگ برنگے پھولوں کا کھلنا اور دیگر خوبصورت جانداروں کو موجودگی تو ایک عام بات ہے، لیکن کیا آپ جانتے ہیں کسی برفانی سمندر کے نیچے کیا ہوسکتا ہے؟

    برفانی خطہ انٹارکٹیکا میں 2 آسٹریلوی سائنسدانوں نے برفانی پانی کا تجزیہ کرنے کے لیے اس میں ایک روبوٹ کو اندر اتارا۔ مگر اس روبوٹ سے جو تصاویر حاصل ہوئیں انہیں دیکھ کر وہ دنگ رہ گئے۔

    اس برفانی سمندر کے اندر زندگی اپنی پوری آب و تاب سے رواں تھی اور وہاں مختلف پودے اور خوبصورت سمندری حیات موجود تھی۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ جب کوئی برفانی تودہ اپنی جگہ سے حرکت کرتا ہے تو اس کے نیچے موجود سمندری حیات بھی تباہی سے دو چار ہوتی ہے، لیکن سمندر پر جمی برف انہیں کسی قدر تحفظ فراہم کرتی ہے اور انہیں مختلف آفات سے بچاتی ہے۔

    البتہ ماہرین کا کہنا ہے کہ سمندری آلودگی اور درجہ حرارت میں اضافے کے باعث زمین پر رہنے والی جنگلی حیات کے ساتھ ساتھ سمندری حیات کو بھی معدومی کا خطرہ لاحق ہے۔

  • دنیا کا پہلا تیرتا شہر

    دنیا کا پہلا تیرتا شہر

    پیرس: دنیا کی آبادی میں تیزی سے ہوتے اضافے اور اس کی رہائش و دیگر ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے فرانس نے دنیا کا پہلا سطح سمندر پر قائم شہر تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

    دنیا کا پہلا تیرتا ہوا شہر بحر الکاہل پر فرنچ پولی نیسیا نامی جزیرے کے قریب بنانے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ اس کے لیے فرانس نے ایک امریکی تعمیراتی فرم سے معاہدہ بھی کرلیا ہے۔

    city-2

    city-3

    سطح سمندر پر قائم اس شہر کی تعمیر سنہ 2019 میں شروع کردی جائے گی۔

    city-4

    اس سے قبل گزشتہ 5 سال تک تحقیق کی جاتی رہی کہ سمندر پر پائیدار، مضبوط اور جدید تعمیرات کیسے کی جائیں۔

    city-5

    فرانسیسی حکام کا کہنا ہے کہ وہ ایسا جدید اور وسیع تخلیقی منصوبہ سمندر کے وسط میں شروع نہیں کرنا چاہتے۔ گو کہ یہ تکنیکی طور پر تو ممکن ہے مگر اس کے لیے کثیر زر مبادلہ چاہیئے۔

  • سال 2016 تاریخ کا متواتر تیسرا گرم ترین سال

    سال 2016 تاریخ کا متواتر تیسرا گرم ترین سال

    امریکی ماہرین کا کہنا ہے کہ سال 2016 جدید تاریخ کا گرم ترین سال تھا اور یہ مسلسل تیسرا سال ہے جس میں درجہ حرارت میں غیر معمولی اضافہ دیکھا گیا۔

    امریکا کے نیشنل اوشینک اینڈ ایٹموسفیریک ایڈمنسٹریشن کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس بھارت، کویت اور ایران میں غیر معمولی اور قیامت خیز گرمی دیکھی گئی۔ دوسری جانب قطب شمالی میں برف پگھلنے کی رفتار میں بھی خطرناک اضافہ ہوگیا۔

    مذکورہ رپورٹ کے لیے سال بھر میں زمین اور سمندر کے اوسط درجہ حرارت کا جائزہ لیا گیا۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ سنہ 1880 سے جب سے موسم کا ریکارڈ رکھنے کا آغاز ہوا ہے تب سے یہ تاریخ کا گرم ترین سال ہے۔

    امریکی ماہرین کی اس تحقیق سے موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کی تیز رفتاری کی طرف پریشان کن اشارہ ملتا ہے۔ یاد رہے کہ اس سے قبل سال 2014 اور 2015 کو بھی گرم ترین سال قرار دیا گیا تاہم 2016 ان سے بھی زیادہ گرم رہا۔

    earth-heat

    ماہرین کا کہنا ہے کہ گو یہ اضافہ نہایت معمولی سا ہے تاہم مجموعی طور پر یہ خاصی اہمیت رکھتا ہے اور اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کلائمٹ چینج کس قدر تیزی سے رونما ہورہا ہے۔

    نواا کا کہنا ہے کہ اکیسویں صدی کے آغاز کے بعد سے سب سے زیادہ درجہ حرارت کا ریکارڈ 5 بار ٹوٹ چکا ہے۔ سنہ 2005، سنہ 2010، اور اس کے بعد متواتر گزشتہ تینوں سال سنہ 2014، سنہ 2015 اور سنہ 2016۔

    رپورٹ کے مطابق درجہ حرارت میں اس اضافے کی وجہ تیل اور گیس کا استعمال ہے جن کے باعث کاربن ڈائی آکسائیڈ، میتھین اور دیگر زہریلی (گرین ہاؤس گیسیں) پیدا ہوتی ہیں۔

    ایک اور وجہ ایل نینو بھی ہے جو سال 2015 سے شروع ہو کر 2016 کے وسط تک رہا۔ ایل نینو بحر الکاہل کے درجہ حرارت میں اضافہ کو کہتے ہیں جس کے باعث پوری دنیا کے موسم پر منفی اثر پڑتا ہے۔

    مزید پڑھیں: کلائمٹ چینج سے مطابقت کیسے کی جائے؟

    یہ عمل ہر 4 سے 5 سال بعد رونما ہوتا ہے جو گرم ممالک میں قحط اور خشک سالیوں کا سبب بنتا ہے جبکہ یہ کاربن کو جذب کرنے والے قدرتی ’سنک‘ جیسے جنگلات، سمندر اور دیگر نباتات کی صلاحیت پر بھی منفی اثر ڈالتا ہے جس کے باعث وہ پہلے کی طرح کاربن کو جذب نہیں کرسکتے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ بے تحاشہ تیز رفتار صنعتی ترقی بھی زمین کے قدرتی توازن کو بگاڑ رہی ہے۔

    رپورٹ میں بتایا گیا کہ رواں سال پچھلے سال کے مقابلے میں سرد ہونے کا امکان ہے تاہم ’لا نینا‘ کا کوئی خدشہ موجود نہیں۔ لا نینا ایل نینو کے برعکس زمین کو سرد کرنے والا عمل ہے۔

    مذکورہ رپورٹ جاری کرنے والے ادارے نواا نے کچھ عرصہ قبل ایک اور رپورٹ جاری کی تھی جس میں دنیا بھر میں ہونے والے 24 سے 30 ایسے غیر معمولی واقعات کی فہرست بنائی گئی تھی جو اس سے پہلے کبھی ان علاقوں میں نہیں دیکھے گئے۔

    یہ غیر معمولی مظاہر سال 2015 میں رونما ہوئے تھے۔ ان میں کراچی کے 2000 شہریوں کو موت کے منہ میں دھکیلنے والی قیامت خیز ہیٹ ویو بھی شامل ہے۔

    ادارے کے پروفیسر اور رپورٹ کے نگران اسٹیفنی ہیئرنگ کا کہنا تھا کہ دنیا کو تیزی سے اپنا نشانہ بناتا کلائمٹ چینج دراصل قدرتی عمل سے زیادہ انسانوں کا تخلیق کردہ ہے اور ہم اپنی ترقی کی قیمت اپنے ماحول اور فطرت کی تباہی کی صورت میں ادا کر رہے ہیں۔

    پروفیسر اسٹیفنی کا کہنا ہے کہ یہ سب کچھ غیر معمولی تو ضرور ہے تاہم غیر متوقع ہرگز نہیں اور اب ہمیں ہر سال اسی قسم کے واقعات کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہنا ہوگا۔

  • کیا ٹائی ٹینک واقعی برفانی تودے سے ٹکرایا تھا؟

    کیا ٹائی ٹینک واقعی برفانی تودے سے ٹکرایا تھا؟

    نیویارک: بیسویں صدی کی ایک عظیم تخلیق بحری جہاز ٹائی ٹینک کے بارے میں ایک عام خیال ہے کہ یہ عظیم جہاز ایک برفانی تودے سے ٹکرا کر پاش پاش ہوا۔

    سنہ 1912 میں جب 882 فٹ لمبے اس جہاز نے اپنے پہلے سفر کا آغاز کیا تو صرف 4 دن بعد ہی ایک بڑے گلیشیئر سے ٹکرا کر ایک خوفناک حادثے کا شکار ہوگیا، لیکن حال ہی میں ملنے والے کچھ ثبوتوں نے اس دعوے کی سچائی پر سوالیہ نشان کھڑا کردیا ہے۔

    ship-1

    انگلینڈ کے شہر ساؤتھ ہمپٹن سے امریکی شہر نیویارک جانے والا ٹائی ٹینک جب سمندر میں ڈوبا تو اس پر ڈھائی ہزار کے قریب افراد سوار تھے، جن میں سے 15 سو مسافر اس سانحے میں اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

    حال ہی میں ماہرین نے دعویٰ کیا ہے کہ ٹائی ٹینک کے ڈوبنے کی وجہ اس کے برفانی گلیشیئر سے ٹکرانا نہیں تھا، بلکہ جہاز میں ہولناک آتشزدگی پیش آگئی تھی جس کے باعث جہاز ڈوب گیا۔

    ship-2

    ٹائی ٹینک کے حادثے پر 30 برس تک تحقیق کرنے والے ایک آئرش صحافی سینن مولونی کا کہنا ہے کہ جہاز کے ڈھانچے پر آگ لگنے کے نشانات ملے ہیں، جسے اس وقت دیکھا نہیں جاسکا تھا۔

    ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے جہاز کے چیف الیکٹریکل انجینئر کی ان تصاویر کا بغور جائزہ لیا ہے جو جہاز کا سفر شروع ہونے سے پہلے لی گئیں۔ ان تصاویر میں جہاز کے ایک کونے پر 30 فٹ لمبے سیاہ نشانات نظر آرہے ہیں۔

    ان کے مطابق یہ حصہ آگ لگنے کی وجہ سے پہلے ہی کمزور ہوچکا تھا، اور جہاز جیسے ہی برفانی تودے سے ٹکرایا، سب سے پہلے یہ حصہ ٹوٹ کر جہاز کو غیر متوازن کرگیا۔

    ship-3

    ان کا کہنا ہے کہ آگ جہاز کے فیول ذخیرہ کرنے کے گودام میں بھڑکی تھی۔ جہاز میں 12 افراد پر مشتمل ٹیم نے اس آگ کو بجھانے کی کوشش کی لیکن وہ ان کے بس سے باہر ہوچکی تھی اور آگ کی وجہ سے اس جگہ کا درجہ حرارت بھی نہایت گرم ہوچکا تھا۔

    ماہرین نے بتایا کہ انہوں نے حادثے کی تحقیقاتی دستاویزات کا جائزہ لیا تو انہیں علم ہوا کہ جہاز کو بنانے والی کمپنی کے صدر جے بروس آئیزمی نے جہاز کے عملے کو سختی سے منع کیا تھا کہ آگ لگنے کا علم جہاز میں سوار ڈھائی ہزار مسافروں کو ہرگز نہ ہونے پائے۔

    حالیہ تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا کہ آگ کے بے قابو ہونے کے بعد جہاز کا رخ واپس ساؤتھ ہمپٹن کی جانب موڑ دیا گیا تھا لیکن وہاں پہنچنے سے قبل ہی وہ حادثے کا شکار ہوگیا۔

    ship-4

    اپنا تحقیقاتی مقالہ پیش کرتے ہوئے مولونی نے کہا، ’ٹائی ٹینک کے ڈوبنے کو خدا کی مرضی قرار دیا جاتا ہے۔ یہ اتنا آسان نہیں ہے کہ ایک عظیم الجثہ جہاز ایک بڑے گلیشیئر سے ٹکرایا اور سمندر میں ڈوب گیا۔ اس حادثے کی کئی وجوہات تھیں، گلیشیئر سے ٹکرانا، آتش زدگی اور ساتھ ساتھ مجرمانہ غفلت‘۔

    یاد رہے کہ 3 منزلہ بحری جہاز ٹائی ٹینک کے حادثے میں 15 سو مسافر ہلاک ہوگئے تھے اور اسے جدید دور میں دوران امن پیش آنے والا ہولناک ترین سانحہ یا آفت قرار دیا جاتا ہے۔