Tag: سنتوش کمار

  • سنتوش کمار:‌ مردارنہ وجاہت اور شستہ لب و لہجہ اس اداکار کی وجہِ شہرت تھا!

    سنتوش کمار:‌ مردارنہ وجاہت اور شستہ لب و لہجہ اس اداکار کی وجہِ شہرت تھا!

    مردانہ وجاہت کا نمونہ، نفیس شخصیت کے مالک اور شستہ زبان کے حامل سنتوش کمار نے پاکستانی فلم انڈسٹری میں رومانوی ہیرو کے روپ میں مقبولیت کے جھنڈے گاڑے۔ وہ تقسیمِ ہند سے قبل ہی فلمی دنیا میں قدم رکھ چکے تھے اور اپنی پُرکشش شخصیت کی وجہ سے مقبول تھے۔

    اس اداکار کا اصل نام موسیٰ رضا تھا اور فلمی دنیا میں سنتوش کے نام سے شہرت پائی۔ اس بارے میں معروف صحافی اور کالم نگار مسعود اشعر 1982 کے روزنامہ امروز میں لکھتے ہیں:
    ’اس زمانے میں مسلمان اداکار اپنا اصلی نام ظاہر کرنا معیوب خیال کرتے تھے۔ اشوک کمار اور دلیپ کمار اتنے مشہور ہو چکے تھے کہ ان کے نام پر اپنا فلمی نام رکھنا لوگ اپنی عزت اور نیک شگون سمجھتے تھے۔ موسیٰ رضا نے ممبئی کی فلمی زندگی میں اس روایت کے زیرِ اثر اپنا نام سنتوش کمار رکھ لیا۔

    اداکار سنتوش کی پہلی پاکستانی فلم بیلی (1950) تھی۔ آخری مرتبہ وہ فلم آنگن (1982) میں اسکرین پر جلوہ گر ہوئے۔ سنتوش کمار کے ساتھ ایک اور نام بالخصوص پچھلی نسل کے حافظے میں محفوظ ہے اور وہ ہے صبیحہ خانم کا جو پاکستانی فلم انڈسٹری کی ایک کام یاب ہیروئن اور اپنے وقت کی مشہور اداکارہ تھیں۔ ان سے سنتوش کمار نے دوسری شادی کی تھی۔

    سنتوش کمار کا تعلق لاہور کے ایک تعلیم یافتہ گھرانے سے تھا۔ ان کا اصل نام سیّد موسیٰ رضا تھا۔ 25 دسمبر 1926ء کو پیدا ہونے والے سنتوش کمار کے والد کاروباری شخصیت تھے۔ وہ تقسیم سے قبل اپنے خاندان کے ساتھ حیدرآباد دکن منتقل ہوگئے تھے۔ موسیٰ رضا نے عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد دکن سے گریجویشن کیا۔ مقابلے کا امتحان پاس کرکے تحصیل دار کے عہدے کے لیے بھی منتخب ہوگئے تھے، مگر نوکری کے بجائے فلمی دنیا سے وابستگی اختیار کی۔

    سنتوش کمار نے بمبئی کی فلمی صنعت کے لیے دو فلموں ’’اہنسا‘‘ اور ’’میری کہانی‘‘ میں کردار نبھائے۔ پاکستان ہجرت کر کے آنے کے بعد مسعود پرویز کی فلم ’’بیلی‘‘ سے اپنا کیریئر یہاں شروع کیا۔ سعادت حسن منٹو کی کہانی پر بنائی گئی اس فلم میں صبیحہ نے سائیڈ ہیروئن کا کردار ادا کیا تھا۔ ’’بیلی’’ کام یاب فلم نہیں تھی، لیکن اس کے بعد ’’دو آنسو‘‘ اور ’’چن وے‘‘ نے سنتوش کمار کے کیریئر کو بڑا سہارا دیا۔ اس سفر میں آگے بڑھتے ہوئے سنتوش نے شہری بابو، غلام، قاتل، انتقام، سرفروش، عشق لیلیٰ، حمیدہ، سات لاکھ، وعدہ، سوال، مکھڑا اور موسیقار جیسی فلموں‌ میں‌ کام کر کے خود کو بڑا اداکار ثابت کیا۔

    شادی سے پہلے سنتوش اور صبیحہ خانم نے اکٹھے فلموں‌ میں‌ کام کیا تھا، اور پھر ہمیشہ کے لیے ایک دوسرے کا ہاتھ تھام لیا۔ پردۂ سیمیں پر اپنی بہترین پرفارمنس سے شائقین کو اپنا مداح بنانے والے ان فن کاروں کی حقیقی زندگی بھی مثالی اور قابلِ رشک ثابت ہوئی۔ صبیحہ اور سنتوش نے دو دہائیوں تک پاکستانی فلموں پر راج کیا۔ سنتوش کمار نے اپنے دور کی مشہور اداکاراؤں کے ساتھ یادگار کردار ادا کیے۔ ان میں سورن لتا، شمیم آرا، شمی، مسرت نذیر، آشا بھوسلے، مینا شوری، اور راگنی شامل ہیں جن کے ساتھ سنتوش کی درجنوں رومانوی فلموں نے شائقین کو اپنے سحر میں جکڑے رکھا۔

    اداکار سنتوش کمار کی یادگار فلموں میں دامن، کنیز، دیور بھابی، تصویر، شام ڈھلے، انجمن، نائلہ، چنگاری، لوری، گھونگھٹ اور پاک دامن شامل ہیں۔ مجموعی طور پر 92 فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھانے والے سنتوش کمار نے بہترین اداکاری پر تین نگار ایوارڈ بھی حاصل کیے۔ 1978ء میں سنتوش نے آج ہی کے دن یہ دنیا چھوڑ دی تھی۔

    اداکار سنتوش کمار لاہور میں مسلم ٹاؤن کے قبرستان میں ابدی نیند سو رہے ہیں۔

  • صبیحہ خانم کا تذکرہ جنھیں‌ پاکستانی فلموں‌ کی ’خاتونِ اوّل‘ کہا جاتا ہے

    صبیحہ خانم کا تذکرہ جنھیں‌ پاکستانی فلموں‌ کی ’خاتونِ اوّل‘ کہا جاتا ہے

    ’سسی‘ پاکستانی فلمی صنعت کی کام یاب ترین اور یادگار فلم تھی جس پر 1954ء میں ساڑھے تین لاکھ روپے لاگت آئی تھی۔ یہ وہ دور تھا جب فلم ساز ایک لاکھ روپے سے کم رقم فلم پر لگاتے تھے۔ فلم سپر ہٹ ثابت ہوئی جو صبیحہ خانم کے کیریئر کی بھی اہم اور یادگار فلم بن گئی۔

    پاکستانی فلموں کی ’خاتونِ اوّل‘ کے لقب سے یاد کی جانے والی صبیحہ خانم کی آج برسی منائی جارہی ہے۔ تقریباً تین دہائیوں پر محیط اپنے فلمی کیریئر میں صبیحہ خانم نے فلم بینوں کے دلوں پر راج کیا۔

    صبیحہ خانم کی خوش نصیبی تھی کہ انھیں اپنے وقت منجھے ہوئے فلم سازوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا جن میں داؤد چاند، ایم اے خان، سلطان کھوسٹ اور دیگر ایسے نام شامل ہیں جو برطانیہ سے فلم سازی کی تکنیک سیکھ کر آئے تھے اور خداداد صلاحیتوں کے حامل تھے۔ ان کے ساتھ کام کرتے ہوئے صبیحہ خانم کی اداکاری میں بھی وقت کے ساتھ نکھار آیا۔ مذکورہ فلم میں جہاں صبیحہ خانم کی اپنی معصومانہ اداؤں کے ساتھ اسکرین پر جلوہ گر تھیں، وہیں مکالموں کی بے ساختہ ادائیگی نے شائقین کو بہت محظوظ کیا۔ کہتے ہیں فلم سسی نے 40 لاکھ روپے کا منافع کمایا۔ ملک بھر میں صبیحہ خانم کی اداکاری کی دھوم مچ گئی۔

    اس سے قبل صبیحہ خانم نے 1950 میں فلم بیلی میں کام کیا تھا جو بری طرح فلاپ ہوئی اور اس کے بعد بھی چند فلموں میں صبیحہ خانم نے ناکامی سمیٹی۔ مگر وہ اس لیے خوش قسمت تھیں‌ کہ وہ سلطان کھوسٹ اور نفیس خلیلی کی نظر میں‌ آگئی تھیں جنھوں نے یہ جان لیا تھاکہ وہ باصلاحیت ہیں۔ انھوں نے صبیحہ خانم کو اداکاری کی تربیت دی اور پھر نفیس خلیلی نے انھیں ایک ڈرامے ’بت شکن‘ میں کردار سونپ دیا۔

    صبیحہ خانم کا اصل نام مختار بیگم تھا۔ اس ڈرامے میں انھیں صبیحہ خانم کے نام سے متعارف کروایا گیا اور یہی فلمی دنیا میں ان کی پہچان بنا۔ ’بت شکن‘ کے بعد صبیحہ خانم کو ایک فلم میں‌ سائڈ ہیروئن کا رول ملا اور پھر یہ سلسلہ کئی کام یاب اور سپر ہٹ فلموں تک دراز ہوگیا۔ فلمی اعداد و شمار کے مطابق صبیحہ نے مجموعی طور پر 202 فلموں میں کام کیا۔ صبیحہ خانم نے اپنی شان دار کارکردگی پر پانچ نگار ایوارڈ بھی حاصل کیے۔ انھیں نگار ایوارڈ سات لاکھ، شکوہ، دیور بھابی میں بہترین اداکارہ، سنگ دل میں بہترین معاون اداکارہ اور اک گناہ اور سہی میں خصوصی اداکاری کے زمرے میں دیے گئے تھے۔

    صبیحہ خانم کی ذاتی زندگی پر نظر ڈالیں تو ان کا سنہ پیدائش 1935ء ہے، وہ پنجاب کے شہر گجرات کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئیں، والد کا نام محمد علی اور والدہ کا اقبال بیگم تھا جو اسٹیج اور فلم کی اداکارہ تھیں۔ کم عمری میں صبیحہ خانم اپنی والدہ کے سائے سے محروم ہوگئیں۔ صبیحہ پندرہ سال کی تھیں جب والد انھیں فلموں میں کام دلوانے کے لیے کوشش کرنے لگے۔ فلم نگری میں اپنی بیٹی کے لیے ان کی یہ بھاگ دوڑ کام یاب رہی اور صبیحہ انڈسٹری کی مقبول ہیروئن بنیں۔ فلم بیلی سے اپنی اداکاری کا آغاز کرنے والی صبیحہ خانم نے پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں اپنے کیریئر کا عروج دیکھا۔ کہتے ہیں کہ اس وقت بننے والی ہر دس فلموں میں‌ سے سات فلموں میں صبیحہ ہی ہیروئن کے روپ میں‌ نظر آتی تھیں۔ صبیحہ خانم کی اداکاری کی سب سے اچھی بات ان کی بے ساختگی اور فطری پن تھا۔

    اداکارہ کی محبّت اور شادی کی بات کریں‌ تو اس میں‌ ان کے شریکِ سفر سنتوش کمار کے علاوہ درپن کا نام بھی آئے گا۔ سنتوش کمار اپنے وقت کے مقبول فلمی ہیرو تھے جن کا اصل نام موسیٰ رضا تھا اور ان سے اداکارہ کی طوفانی محبّت کے قصّے فلمی صحافیوں کے توسط سے ان دونوں کے مداحوں تک پہنچے۔ ایک روز سنتوش کمار کو یہ اعتراف کرنا پڑا کہ وہ صبیحہ خانم سے نکاح کرچکے ہیں۔ یہ سنتوش کمار کی دوسری شادی تھی۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ اس سے قبل صبیحہ خانم اور درپن کے درمیان رومان چل رہا تھا جو ستنوش کمار کے بھائی تھے۔ یہ بھی عجیب بات ہے کہ اپنے بھائی درپن کو اداکارہ صبیحہ خانم سے شادی نہ کرنے پر قائل کرنے والے سنتوش کمار بعد میں صبیحہ خانم کی محبّت میں گرفتار ہوگئے اور ان سے شادی بھی کر لی۔ کہتے ہیں‌ کہ درپن کو سنتوش کمار نے یہ کہہ کر فلمی دنیا کی ایک لڑکی سے شادی نہ کرنے پر آمادہ کیا تھا کہ وہ ایک شریف اور سنجیدہ گھرانے کے فرد ہیں جب کہ صبیحہ فلمی دنیا سے تعلق رکھتی ہے۔ بہرحال، صبیحہ اور سنتوش حقیقی زندگی میں کام یاب رہے اور ایک دوسرے کا ساتھ دیا۔ صبیحہ خانم ایک باوقار اور شائستہ خاتون تھیں جو 1958ء میں‌ سنتوش جیسے کام یاب فلمی ہیرو سے رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوئیں۔ اس جوڑے کے ہاں تین بچّوں کی پیدائش ہوئی۔

    11 جون 1982ء کو سنتوش کمار انتقال کرگئے تھے جس کے بعد صبیحہ خانم بھی فلمی دنیا سے دور ہوگئی تھیں، بعد میں وہ امریکا چلی گئیں جہاں‌ ان کی زندگی کا سفر تمام ہوا۔

    فلموں کے بعد وہ ٹیلی ویژن پر اداکاری کرتی نظر آئیں۔ ان کے مشہور ٹی وی ڈراموں میں ’احساس‘ اور ‘دشت’ کے نام لیے جاسکتے ہیں۔ انھوں نے پاکستان ٹیلی ویژن پر اپنی آواز کا جادو بھی جگایا، اور صبیحہ خانم کے گائے ہوئے دو ملّی نغمے ’جُگ جُگ جیوے میرا پیارا وطن‘ اور ’سوہنی دھرتی اللہ رکھے‘ بھی مقبول ہیں۔

    فلمی دنیا میں کام یابی کے جھنڈے گاڑنے والی صبیحہ خانم 82 سال کی تھیں اور ذیابیطس اور بلڈ پریشر جیسے امراض کا شکار تھیں۔ لیکن اس عمر میں بھی خاصی متحرک رہیں۔ وہ زندگی کے آخری سال تک امریکا میں مختلف تقاریب میں شریک ہوتی رہیں اور تہواروں پر مسلم کمیونٹی کی جانب سے دعوت قبول کرتی تھیں۔ وہ 1999 میں امریکا، ورجینیا منتقل ہوئی تھیں۔ صبیحہ خانم 13 جون 2020ء کو اس دنیا سے رخصت ہوگئیں۔

    حکومتِ پاکستان کی جانب سے اداکارہ کو تمغائے حسنِ کارکردگی دیا گیا تھا۔ صبیحہ خانم کی تدفین امریکا ہی میں‌ کی گئی۔

  • نام وَر اداکار اور پاکستانی فلموں کے مقبول ہیرو سنتوش کمار کی برسی

    نام وَر اداکار اور پاکستانی فلموں کے مقبول ہیرو سنتوش کمار کی برسی

    11 جون 1982ء کو پاکستانی فلم نگری کے مقبول ہیرو اور نام وَر اداکار سنتوش کمار نے ہمیشہ کے لیے آنکھیں موند لی تھیں۔ سنتوش کمار نے صبیحہ خانم سے شادی کی تھی جو اپنے وقت کی مشہور اداکارہ تھیں۔

    سنتوش کمار کا تعلق ایک تعلیم یافتہ گھرانے سے تھا۔ ان کا اصل نام سید موسیٰ رضا تھا۔ وہ 25 دسمبر 1926ء کو پیدا ہوئے تھے۔ عثمانیہ یونیورسٹی سے گریجویشن کرنے والے سنتوش کمار نے اپنے ایک دوست کے اصرار پر ایک فلم میں ہیرو کا رول قبول کیا اور بمبئی کی فلمی صنعت کی دو فلموں ’’اہنسا‘‘ اور ’’میری کہانی‘‘ میں کام کیا۔

    تقسیمِ ہند کے بعد وہ پاکستان چلے آئے جہاں مسعود پرویز کی فلم ’’بیلی‘‘ سے اپنا سفر شروع کیا۔ سعادت حسن منٹو کی کہانی پر بنائی گئی اس فلم میں صبیحہ نے سائیڈ ہیروئن کا کردار ادا کیا تھا۔ ’’بیلی’’ کام یاب فلم نہیں تھی، لیکن اس کے بعد ’’دو آنسو‘‘ اور ’’چن وے‘‘ نے سنتوش کمار کے کیریئر کو بڑا سہارا دیا۔ اس سفر میں آگے بڑھتے ہوئے سنتوش نے شہری بابو، غلام، قاتل، انتقام، سرفروش، عشق لیلیٰ، حمیدہ، سات لاکھ، وعدہ، سوال، مکھڑا اور موسیقار جیسی فلموں‌ میں‌ کام کرکے خود کو بڑا اداکار ثابت کردیا۔

    شادی سے پہلے سنتوش اور صبیحہ خانم نے اکٹھے فلموں‌ میں‌ کام کیا تھا، اور جہاں پردۂ سیمیں پر اپنی بہترین پرفارمنس سے شائقین کو اپنا مداح بنایا تھا، وہیں حقیقی زندگی میں بھی ان کی جوڑی مثالی اور قابلِ رشک ثابت ہوئی۔

    سنتوش کمار کی دیگر اہم فلموں میں دامن، کنیز، دیور بھابی، تصویر، شام ڈھلے، انجمن، نائلہ، چنگاری، لوری، گھونگھٹ اور پاک دامن شامل ہیں۔ مجموعی طور پر 92 فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھانے والے سنتوش کمار نے بہترین اداکاری پر تین نگار ایوارڈ بھی حاصل کیے۔

    پاکستان فلم انڈسٹری کے اس نام وَر اداکار کو لاہور میں مسلم ٹاؤن کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • سنتوش کمار: فلم انڈسٹری کے باکمال اداکار کی برسی

    سنتوش کمار: فلم انڈسٹری کے باکمال اداکار کی برسی

    پاکستانی فلم انڈسٹری کے نام ور اداکار سنتوش کمار کی برسی آج منائی جارہی ہے۔ ان کا انتقال 11 جون 1982 کو ہوا تھا۔

    سنتوش کمار کا اصل نام سید موسیٰ رضا تھا۔ انھیں فلمی دنیا اور ان کے مداح ایک باکمال اداکار ہی نہیں‌ بلکہ بااخلاق اور نہایت شائستہ و مہذب انسان کے طور پر بھی یاد کرتے ہیں۔

    رومانوی کرداروں کو اپنی اداکاری سے یادگار بنا دینے والے سنتوش کمار نے کئی اداکارائوں کے ساتھ کام کیا، لیکن صبیحہ خانم فلم انڈسٹری کا وہ نام ہیں جن کے آگے سنتوش نے اپنا دل ہار دیا اور وہ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئے۔

    سنتوش کمار نے جہاں فلمی دنیا پر اپنی پرفارمنس سے راج کیا، وہیں اپنے کردار سے ہر دل میں جگہ بنائی اور وہ عزت اور مقام حاصل کیا جو بہت کم اداکاروں کو نصیب ہوا۔

    1950 سے 1982 تک انھوں نے 84 فلموں میں اداکاری کی۔ انتقال کے وقت سنتوش کی عمر 56 سال تھی۔

    سنتوش کمار کی کام یاب فلموں میں گھونگھٹ، رشتہ، دامن، سیما، سفید خون، بیس دن، آزاد، چنگاری جیسی فلمیں شامل ہیں۔

  • رومانوی اداکار سنتوش کمار کو مداحوں سے بچھڑے 37 برس بیت گئے

    رومانوی اداکار سنتوش کمار کو مداحوں سے بچھڑے 37 برس بیت گئے

    لاہور: ملکی تاریخ کے پہلے نگار ایوارڈ یافتہ نامور پاکستانی اداکار سنتوش کمار کو مداحوں سے بچھڑے 37 برس بیت گئے۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستانی فلم انڈسٹری کے نامور رومانوی اداکار سنتوش کمار نے بے شمار فلموں میں کام کیا اور فلم ’’وعدہ‘‘ میں اداکاری کے جوہر دکھا کر انڈسٹری میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا بھی منوایا۔

    انہیں فلم وعدہ میں باکمال اداکاری کے اعزاز میں پاکستان کا پہلا نگار ایوارڈ بھی دیا گیا تھا،وہ 25 دسمبر 1925 کو لاہور میں پیدا ہوئے، اُن کا اصل نام سید موسیٰ رضا تھا۔

    سید موسیٰ رضا عرف سنتوش کمار نے اپنے فلمی کریئر کا آغاز فلم ’’آہستہ‘‘ سے کیا،انہوں نے اداکارہ صبیحہ خانم کے ساتھ پچاس سے زائد فلموں میں کام کیا اسی دوران دونوں ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار ہوئے پھر اس فنکار جوڑی نے ازدواجی سفر کا آغاز کیا۔

    سنتوش کمار 1950 میں ریلیز ہونے والی پنجابی فلم ببلی میں اُس وقت بطور ہیرو آئے جب اُن کی عمر محض 25 برس تھی ، اسی برس انہوں نے اردو زبان میں ریلیز ہونے والی فلم ’دو آنسو‘ میں بھی بطور ہیرو کردار ادا کیا جسے مداح آج بھی فراموش نہیں‌کرسکے۔

    انہوں نے متعدد فلموں میں کام کیا جن میں سے موسیقار، گھونگھٹ، رشتہ، دامن، حویلی، فیشن، دو آنسو، وعدہ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔قابل قدر فنی خدمات انجام دینے پر سنتوش کمار کو حکومت نے نگار سمیت بے شمار ایوارڈز اور اعزازات سے نوازا۔

    پاکستانی فلم انڈسٹری میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے والا درخشندہ ستارہ 11 جون 1982 کو دنیا سے رخصت ہوا تاہم وہ آج بھی مداحوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔