Tag: سنجے دت

  • مشہورِ زمانہ فلم ’کھل نائیک‘ کا سیکوئل بنے گا یا نہیں؟ ڈائریکٹر نے بتا دیا

    مشہورِ زمانہ فلم ’کھل نائیک‘ کا سیکوئل بنے گا یا نہیں؟ ڈائریکٹر نے بتا دیا

    سنجے دت کی مشہورِ زمانہ فلم ’کھل نائیک‘ کے سیکوئل کے حوالے سے ڈائریکٹر سبھاش گھائی نے تصدیق کی ہے کہ وہ 30 سال قبل ریلیز ہونے والی ہِٹ فلم کے سیکوئل کی اسکرپٹ پر پچھلے تین سال سے کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔

    گذشتہ کئی دنوں سے اس فلم کے سیکوئل کے حوالے سے افواہیں گردش کر رہی تھیں، سنجو بابا، مادھوری اور جیکی شروف کی فلم ’کھل نائیک‘ 1993 میں ریلیز ہوئی تھی اور اس فلم کو آج تک کلاسِک کا درجہ حاصل ہے۔

    ایک انسٹاگرام پوسٹ میں فلم کے ہدایت کار سبھاش گھائی کا کہنا تھا کہ ’میڈیا میں آنے والی اطلاعات کے برعکس میں یہ وضاحت دینا چاہوں گا کہ مُکتا آرٹس نے کھل نائیک 2 کے لیے کسی اداکار سے معاہدہ نہیں کیا۔‘

    سبھاش گھائی کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم گذشتہ تین سال سے اس فلم کے سکرپٹ پر کام کر رہے ہیں لیکن اس فلم کی فوری شوٹنگ شروع کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں۔‘انہوں نے کہا کہ اگر ایسا کچھ ہوا تو ضرور آگاہ کیا جائے گا۔

    انڈین ہدایت کار کا ’کھل نائیک‘ فلم کی ریلیز کے 30 سال مکمل ہونے پر کہنا تھا کہ فلم کی پوری کاسٹ 4 ستمبر کو ممبئی میں جمع ہوگی اور تین دہائیاں مکمل ہونے پر جشن کا اہتمام ہوگا۔

    فلم کے مرکزی کردار سنجے دت نے رواں سال جون میں اپنی انسٹاگرام پوسٹ میں ساتھی اداکاروں اور سبھاش گھائی کو ’کھل نائیک‘ فلم کے 30 سال پورے ہونے پر مبارک باد دی تھی۔

    سنجے دت کا کہنا تھا کہ 30بیت گئے ہیں مگر آج بھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے یہ فلم کل ہی بنائی گئی ہے۔

  • سنجے دت کی منفرد انداز میں ورزش کرنے کی ویڈیو وائرل

    سنجے دت کی منفرد انداز میں ورزش کرنے کی ویڈیو وائرل

    بالی وڈ کے سارے ہی اداکار ہ و اداکار اپنے آپ کو فٹ رکھنے کے لیے کئی طرح کی ورزش کرتے ہیں لیکن سنجے دت نے منفرد انداز میں ورک آؤٹ کرنے کی ویڈیو وائرل ہوگئی۔

    بالی وڈ کے ’سنجو بابا‘ سے مشہور اداکار سنجے دت نے فوٹو اینڈ شیئرنگ ایپ انسٹاگرام پر اپنی ایک ویڈیو شیئر کی ہے جسے دیکھ کر صارفین خیران رہ گئے۔

    سنجے دت ایک ایسے اداکار ہیں جو اپنے ورزش اور توانائی سے لوگوں کو حیران کردیتے ہیں، اداکار نے ایک بار پھر ثابت کردیا کہ وہ ورک آؤٹ کرنے کے معاملے میں سب سے آگے ہیں۔

    بالی وڈ کے 63 سالہ اداکار سنجے دت کی یہ ویڈیو اس لیے بھی منفرد ہے کیوں کہ اس میں انہیں کلہاڑی سے ٹکرے کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by Sanjay Dutt (@duttsanjay)

    ویڈیو کو شیئر کرتے ہوئے اداکار  نے کیپشن میں لکھا کہ’ جو پہلے کرتا تھا وہ ہی کرتا ہوں، لکڑی کاٹنا ورزش کرنے کے بہترین طریقے میں سے ایک ہے، یہ جسم کے اوپری حصے کو مضبوط بناتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ’ یہ اچھی ورزش ہے، اس طرح آپ بھی یہ ورک آؤٹ ضرور کریں، آُ کو بھی مزہ آئے گا، اداکار کی اس ویڈیو کو ان کے مداحوں کی جانب سے خوب پسند کیا جارہا ہے۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by Sanjay Dutt (@duttsanjay)

    ایک صارف نے اداکار پر طنز کرتے ہوئے لکھا کہ’ سنجو بابا وہی کررہے ہیں جو وہ جیل میں کیا کرتے تھے، ایک اور صارف نے لکھا کہ’ جو کام آپ کررہے ہیں وہی کام ہم نے اپنے دادا کے ساتھ کیا ہےفرق صرف اتنا ہے کہ آپ باڈی بنانے کے لیے یہ کررہے ہیں جبکہ ہم اپنی زندگی گزارنے کے لیے کرتے تھے‘۔

    یاد رہے بالی وڈ کے سپر اسٹار اداکار سنجے دت نے 42 ماہ جیل میں گزارا ہے، جس سے متعلق انہوں نے کئی شوز میں بات کی ہے۔

  • سنیل دت: فٹ پاتھ سے فلمی دنیا کے آسمان تک

    سنیل دت: فٹ پاتھ سے فلمی دنیا کے آسمان تک

    قیام پاکستان سے پہلے کا زمانہ بمبئی کی فلمی صنعت کے لئے ایک سنہری دور تھا۔ بڑے بڑے نامور اور کامیاب ہدایت کار، اداکار، موسیقار اور گلوکار اس دور میں انڈین فلمی صنعت میں موجود تھے۔ ہر شعبے میں دیو قامت اور انتہائی قابل قدر ہستیاں موجود تھیں۔

    اس زمانے میں جو بھی فلموں میں کام کرنا چاہتا تھا، ٹکٹ کٹا کر سیدھا بمبئی کا راستہ لیتا تھا۔ ان لوگوں کے پاس نہ پیسہ ہوتا تھا، نہ سفارش اور نہ ہی تجربہ، مگر قسمت آزمائی کا شوق انہیں بمبئی لے جاتا تھا۔ ہندوستان کے مختلف حصوں سے ہزاروں نوجوان اداکار بننے کی تمنا لے کر اس شہر پہنچتے تھے۔

    ان میں سے اکثر خالی ہاتھ اور خالی جیب ہوتے تھے۔ بمبئی جیسے بڑے وسیع شہر میں کسی انجانے کم عمر لڑکے کو رہنے سہنے اور کھانے پینے کے لالے پڑ جاتے تھے۔

    یہی لوگ آج انڈین فلم انڈسٹری کے چاند سورج کہے جاتے ہیں جنہوں نے بے شمار چمک دار ستاروں کو روشنی دے کر صنعت کے آسمان پر جگمگا دیا۔ ( ہندوستان اور پاکستان کے بھی) اکثر بڑے ممتاز، مشہور اور معروف لوگوں کی زندگیاں ایسے ہی واقعات سے بھری ہوئی ہیں۔

    آئیے آج آپ کو ایک ایسے ہی معروف اور ممتاز آدمی کی کہانی سناتے ہیں جسے بر صغیر کا بچہ بچہ جانتا ہے لیکن یہ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ یہ لوگ کون ہیں؟ کہاں سے آئے تھے، اور کیسے کیسے امتحانوں اور آزمائشوں سے انہیں گزرنا پڑا۔

    یہ قصہ سنیل دت کا ہے۔ سنیل دت ہندوستانی لوک سبھا کا رکن رہا، نرگس بھی لوک سبھا کی رکن رہی تھی۔ ہندوستان کی وزیراعظم اندرا گاندھی سے ان کی بہت دوستی تھی اب نرگس رہیں نہ اندرا گاندھی، سنیل دت بھی نہیں رہے۔

    سنیل دت کے بارے میں علی سفیان آفاقی کا یہ مضمون اداکار کے یومِ وفات کی مناسبت سے پیش کیا جارہا ہے۔ بولی وڈ کے معروف اداکار اور کئی کام یاب فلموں کے ہیرو سنیل دت 6 جون 1929 کو جہلم میں‌ پیدا ہوئے تھے۔ ان کی زندگی کا سفر 25 مئی 2005 کو تمام ہوگیا تھا۔

    علی سفیان آفاقی اپنے مضمون میں‌ لکھتے ہیں، 0سنیل دت نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ جب وہ بمبئی پہنچے تو ان کی عمر سترہ اٹھارہ سال تھی۔ یہ انٹرویو بمبئی کی ایک فلمی صحافی لتا چندنی نے لیا تھا اور یہ سنیل دت کا آخری انٹرویو تھا۔ سنیل دت جب بمبئی پہنچے تو ان کی جیب میں پندرہ بیس روپے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ بمبئی میں در بدر پھرتے رہے۔ سب سے پہلا مسئلہ تو سَر چھپانے کا تھا۔ بمبئی میں سردی تو نہیں ہوتی لیکن بارش ہوتی رہتی ہے جو فٹ پاتھوں پر سونے والوں کے لئے ایک مسئلہ ہوتا ہے۔ بارش ہو جائے تو یا تو وہ سامنے کی عمارتوں کے برآمدے وغیرہ میں پناہ لیتے ہیں یا پھر فٹ پاتھوں پر ہی بھیگتے رہتے ہیں۔

    سوال: تو پھر آپ نے کیا کیا۔ کہاں رہے؟
    جواب: رہنا کیا تھا۔ فٹ پاتھوں پر راتیں گزارتا رہا۔ کبھی یہاں کبھی وہاں۔ دن کے وقت فلم اسٹوڈیوز کے چکر لگاتا رہا مگر اندر داخل ہونے کا موقع نہ مل سکا۔ آخر مجھے کالا گھوڑا کے علاقے میں ایک عمارت میں ایک کمرا مل گیا مگر یہ کمرا تنہا میرا نہیں تھا۔ اس ایک کمرے میں آٹھ افراد رہتے تھے جن میں درزی، نائی ہر قسم کے لوگ رات گزارنے کے لئے رہتے تھے۔

    میں نے اپنے گھر والوں سے رابطہ کیا تو انہوں نے مجھے ہر مہینے کچھ روپیہ بھیجنا شروع کر دیا۔ میں نے جے ہند کالج میں داخلہ لے لیا تاکہ کم از کم بی اے تو کرلوں۔ میرا ہمیشہ عقیدہ رہا ہے کہ آپ خواہ ہندو ہوں، مسلمان، سکھ، عیسائی کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں مگر ایک دوسرے سے محبت کریں۔ ہر مذہب محبت اور پیار کرنا سکھاتا ہے۔ لڑائی جھگڑا اور نفرت کرنا نہیں۔ میں کالج میں پڑھنے کے ساتھ ہی بمبئی ٹرانسپورٹ کمپنی میں بھی کام کرتا تھا۔ میں اپنا بوجھ خود اٹھانا چاہتا تھا اور گھر والوں پر بوجھ نہیں بننا چاہتا تھا۔

    ان دنوں بمبئی میں بہت سخت گرمی پڑ رہی تھی۔ اتنی شدید گرمی میں ایک ہی کمرے میں آٹھ آدمی کیسے سو سکتے تھے۔ گرمی کی وجہ سے ہمارا دم گھٹنے لگتا تھا تو ہم رات کو سونے کے لئے فٹ پاتھ پر چلے جاتے تھے۔ یہ فٹ پاتھ ایک ایرانی ہوٹل کے سامنے تھا۔ ایرانی ہوٹل صبح ساڑھے پانچ بجے کھلتا تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ ہمیں ساڑھے پانچ بجے بیدار ہوجانا چاہیے تھا۔ ہوٹل کھلتے ہی ہماری آنکھ بھی کھل جاتی تھی۔ ایرانی ہوٹل کا مالک ہمیں دیکھ کر مسکراتا اور چائے بنانے میں مصروف ہوجاتا ۔ ہم سب اٹھ کر اس کے چھوٹے سے ریستوران میں چلے جاتے اور گرم گرم چائے کی ایک پیالی پیتے۔ اس طرح ہم ایرانی ہوٹل کے مالک کے سب سے پہلے گاہک ہوا کرتے تھے۔ وہ ہم سے بہت محبت سے پیش آتا تھا اور اکثر ہماری حوصلہ افزائی کے لئے کہا کرتا تھا کہ فکر نہ کرو، اللہ نے چاہا تو تم کسی دن بڑے آدمی بن جاؤ گے۔ دیکھو جب بڑے آدمی بن جاؤ تو مجھے بھول نہ جانا، کبھی کبھی ایرانی چائے پینے اور مجھ سے ملنے کے لئے آجایا کرنا۔

    دوسروں کا علم تو نہیں مگر میں کبھی کبھی جنوبی بمبئی میں اس سے ملنے اور ایک کپ ایرانی چائے پینے کے لئے چلا جاتا تھا۔ وہ مجھ سے مل کر بہت خوش ہوتا تھا۔ میری ترقی پر وہ بہت خوش تھا۔

    ایرانی چائے پینے کے بعد میں اپنی صبح کی کلاس کے لئے کالج چلا جاتا تھا۔ وہ بھی خوب دن تھے، اب یاد کرتا ہوں تو بہت لطف آتا ہے۔

    ان دنوں میرے پاس زیادہ پیسے نہیں ہوتے تھے، اس لئے میں کم سے کم خرچ کرتا تھا اور کالج جانے کے لئے بھی سب سے سستا ٹکٹ خریدا کرتا تھا۔ بعض اوقات تو میں پیسے نہ ہونے کی وجہ سے اپنے اسٹاپ سے پہلے ہی اتر کر پیدل کالج چلا جاتا تھا۔

    اس وقت ہماری جیب صرف ایرانی کیفے میں کھانے پینے کی ہی اجازت دیتی تھی۔ آج کے نوجوان فائیو اسٹار ہوٹلوں میں جاکر لطف اٹھاتے ہیں مگر ان دنوں ایرانی کیفے ہی ہمارے لئے کھانے پینے اور گپ شپ کرنے کی بہترین جگہ تھی۔ مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوتی تھی کہ ویٹر ایک کے اوپر ایک بارہ چائے کی پیالیاں رکھ کر کیسے گاہکوں کو تقسیم کرتا تھا۔ ایسا تو کوئی سرکس کا جوکر ہی کرسکتا ہے۔ اس کا یہ تماشا بار بار دیکھنے کے لئے بار بار اس سے چائے منگواتا تھا حالانکہ بجٹ اجازت نہیں دیتا تھا۔

    ایرانی ہوٹل اس زمانے میں مجھ ایسے جدوجہد کرنے والے خالی جیب لوگوں کے لئے بہت بڑا سہارا ہوتے تھے۔ میں سوچتا ہوں کہ اگربمبئی میں ایرانی ہوٹل نہ ہوتے تو میرے جیسے ہزاروں لاکھوں لوگ تو مر ہی جاتے۔

    میں پچاس سال کے بعد اپنا آبائی گاؤں دیکھنے گیا جو کہ اب پاکستان میں ہے۔ مجھے یاد ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف نے مجھے مدعو کیا تھا۔ میں نے ان سے درخواست کی کہ میں اپنا آبائی گاؤں دیکھنا چاہتا ہوں۔ وہ بہت مہربان اور شفیق ہیں۔انہوں نے میرے لئے تمام انتظامات کرا دیے۔ میرے گاؤں کا نام خورد ہے ۔ یہ جہلم شہر سے چودہ میل کے فاصلے پر ہے۔ میرا گاؤں دریائے جہلم کے کنارے پر ہے اور یہ بہت خوبصورت جگہ ہے۔ گاؤں سے نکلتے ہی جہلم کے پانی کا بہتا ہوا نظارہ قابل دید ہے۔

    میرے گاؤں میں بہت جوش و خروش اور محبت ملی۔ وہ سب لڑکے جو میرے ساتھ پڑھا کرتے تھے مجھ سے ملنے کے لئے آئے اور ہم نے پرانی یادیں تازہ کیں۔ میں ان عورتوں سے بھی ملا جنہیں میں نے دس بارہ سال کی بچیاں دیکھا تھا مگر اب وہ ساٹھ پینسٹھ سال کی بوڑھی عورتیں ہوچکی تھیں۔ اب میرے ساتھ کھیلنے والی بچیاں نانی دادی بن چکی تھیں۔ انہوں نے بھی بچپن کے بہت سے دلچسپ واقعات اور شرارتوں کی یادیں تازہ کیں۔

    پاکستان سے جانے کے بعد میں کبھی لاہور نہیں آیا۔ کراچی تو آنا ہوا تھا۔ کراچی میں مجھے بے نظیر بھٹو کی شادی میں مدعو کیا گیا تھا۔ میری بیوی نرگس میرا گاؤں دیکھنا چاہتی تھیں۔ میں بھی اپنا گاؤں دیکھنا چاہتا تھا۔ پرانے دوستوں سے مل کر پرانی یادیں تازہ کرنا چاہتا تھا۔ وہ جاننا چاہتی تھیں کہ میں کون سے اسکول میں پڑھتا تھا اور اسکول کس طرح جایا کرتا تھا۔

    میں ڈی اے وی اسکول میں پڑھتا تھا، اور چھٹی جماعت تک گھوڑے پر بیٹھ کر اسکول جاتا تھا، میرا اسکول اٹھ میل دور تھا۔ اسکول جانے کے لئے کوئی دوسرا ذریعہ نہ تھا۔ میرے پتا جی زمیندار تھے۔ ہمارے گھر میں بہت سے گھوڑے تھے۔ مجھے اسکول لے جانے والا گھوڑا سب سے الگ رکھا جاتا تھا۔

    سنیل دت نے اپنی تعلیم کا سلسلہ بھی محنت مزدوری اور جدو جہد کے زمانے میں جاری رکھا تھا جو ایک دانش مندانہ فیصلہ تھا۔ بی اے کرنے کے بعد انہوں نے بہت سے چھوٹے موٹے کام کیے، فٹ پاتھوں پر سوئے لیکن ہمت نہیں ہاری۔

    آپ کو یاد ہوگا کہ ایک زمانے میں "ریڈیو سیلون” سے فلمی گانوں کا ایک پروگرام ہر روز پیش کیا جاتا تھا، جسے پاکستان اور ہندوستان میں موسیقی کے شوقین باقاعدگی سے سنا کرتے تھے۔ سیلون کا نام بعد میں سری لنکا ہوگیا۔ یہ دراصل ایک جزیرہ ہے جنوبی ہندوستان میں تامل ناڈو کے ساحل سے صرف 25 میل کے فاصلے پر۔ انگریزوں کی حکومت کے زمانے میں سارا ہندوستان ایک تھا اور سلطنت برطانیہ کے زمانے میں سیلون کو ہندوستان ہی کا حصہ سمجھا جاتا تھا، اب یہ سری لنکا ہوگیا۔

    ریڈیو سیلون کو اپنا پروگرام پیش کرنے کے لئے ایک موزوں شخص کی ضرورت تھی جو بہترین نغمات پروڈدیوسرز سے حاصل بھی کرسکے۔ سنیل دت نے بھی اس کے لئے درخواست دے دی۔ صورت شکل اچھی تھی اور پنجابی ہونے کے باوجود ان کا اردو تلفظ و لب و لہجہ بہت اچھا تھا۔ اس طرح انہیں منتخب کر لیا گیا اور کافی عرصہ تک وہ ریڈیو سیلون سے گیتوں کی مالا پیش کرتے رہے۔ یہ فلم سازوں کے لئے سستی پبلسٹی تھی، اس لئے بھارتی فلم سازوں نے اس سے بہت فائدہ اٹھایا اور کشمیر سے راس کماری تک ان کے فلمی نغمات گونجنے لگے۔ جب نخشب صاحب پاکستان آئے اور انہوں نے فلم میخانہ بنائی تو اس فلم کے گانے ریڈیو سیلون سے پیش کیے گئے جس کی وجہ سے سننے والے بے چینی سے فلم کی نمائش کا انتظار کرتے رہے لیکن جب فلم ریلیز ہوئی تو بری طرح فلاپ ہوگئی حالانہ ناشاد صاحب نے اس فلم کے نغموں کی بہت اچھی دھنیں بنائی تھیں۔

    ماخوذ از ماہنامہ ‘سرگزشت’ (پاکستان)

  • سنجے دت کو موت کو گلے لگانے کی خواہش کب اور کیوں ہوئی؟

    نئی دہلی: تنازعوں اور تلخ و شیریں اونچ نیچ سے بھرپور زندگی گزارنے والے بھارتی اداکار سنجے دت کا کہنا ہے کہ جب انہیں اپنے کینسر کا علم ہوا تو وہ مرنے کی خواہش کرنے لگے تھے۔

    بھارتی اداکار سنجے دت نے انکشاف کیا ہے کہ وہ کینسر کے علاج کے بجائے موت کو گلے لگانا چاہتے تھے۔

    سنہ 2020 میں فلم شمشیرا کی شوٹنگ کے دوران اداکار میں پھیپھڑوں کے کینسر کی تشخیص ہوئی تھی لیکن چند ماہ بعد ہی انہوں نے علاج کے ذریعے کینسر کو شکست دے دی تھی۔

    حال ہی میں دیے گئے ایک انٹرویو میں سنجے دت نے بتایا کہ جب انہیں پہلی مرتبہ معلوم ہوا کہ انہیں کینسر ہے تو کیمو تھراپی کے بجائے انہوں نے مرنے کو ترجیح دی تھی۔

    انہوں نے بتایا کہ جس وقت مجھے کینسر کی خبر دی گئی میرے پاس میری بیوی، میری فیملی اور میری بہنوں میں سے کوئی نہیں تھا، میں اکیلا تھا کہ مجھے ایک لڑکے نے آ کر کینسر کی خبر دی۔

    اداکار نے بتایا کہ میری والدہ اور میری اہلیہ کا انتقال کینسر سے ہوا تھا اس لیے جب مجھے کینسر کا پتہ چلا تو میں نے فیصلہ کیا کہ مرجاؤں گا لیکن کیمو تھراپی نہیں کرواؤں گا۔

    تاہم اداکار نے اپنی اہلیہ منیاتا دتہ کے حوصلہ دینے پر اپنا علاج شروع کروایا اور اکتوبر 2020 میں انہوں نے اعلان کیا کہ وہ کینسر سے نجات حاصل کرچکے ہیں۔

  • نرگس موسمِ بہار کی کلی تھی!

    نرگس موسمِ بہار کی کلی تھی!

    ہر عہد جو دس، بیس، تیس سال پر محیط ہوتا ہے اپنا الگ موسم رکھتا ہے۔

    کسی عہد پر بہار کی حکومت ہوتی ہے اور کسی عہد پر خزاں کا راج ہوتا ہے۔ اور اس کے اثرات زندگی کے ہر شعبے میں نظر آتے ہیں۔ کسی عہد میں دیو زاد ہستیاں ابھرتی ہیں اور کسی عہد میں بونے پیدا ہوتے ہیں اور دوسرے تیسرے درجہ کے لوگ اپنی بڑائی کی ڈینگ ہانکتے رہتے ہیں۔ نرگس موسمِ بہار کی کلی تھی۔

    یہ وہ عہد تھا جس میں سیاست کی دنیا پر مہاتما گاندھی، جواہر لال نہرو، مولانا ابوالکلام آزاد جیسی شخصیتوں کا سایہ تھا۔ ادب میں ٹیگور اور اقبال کے انتقال کے بعد بھی انہیں کی حکم رانی تھی اور جوش ملیح آبادی کا جاہ و جلال تھا۔ فلمی دنیا کے ڈائریکٹروں اور پروڈیوسروں میں محبوب خاں اور شانتا رام کا سکہ چلتا تھا۔ ان کے بعد والی نسل میں جو نرگس کی ہم عمر تھی راج کپور، دلیپ کمار اور گرو دَت جیسے فن کار تھے اور ان کے پیش رو سہگل، پرتھوی راج اور اشوک کمار تھے۔

    نرگس کی ہم عمر ہیروئنوں میں مینا کماری جیسی باکمال اور وجنتی مالا جیسی دلنواز ہستیاں تھیں۔ ستاروں کے اس خوب صورت جھرمٹ میں نرگس اپنے نور کے ساتھ جگمگا رہی تھی۔ نرگس کے چہرے میں وہ چیز نہیں تھی جس کو عام فلمی زبان میں گلیمر (GLAMOUR) کہا جاتا ہے۔ اس کی پوری شخصیت میں ایک سنجیدگی اور وقار تھا جس کی وجہ سے لوگ احترام کرنے پر مجبور ہو جاتے تھے۔ نرگس کے فن کے پرستاروں میں جواہر لال نہرو اور ترکی کے شاعر ناظم حکمت جیسی عظیم شخصیتیں تھیں۔

    میں نے نرگس کو سب سے پہلے اس عمر میں دیکھا تھا جب یہ کہنا مشکل تھا کہ وہ فن کی اُن بلندیوں کو چُھوئے گی جن کی حسرت میں نہ جانے کتنے فن کار اپنی عمریں گنوا دیتے ہیں۔

    1942ء میں جب میں بمبئی آیا تھا تو دو تین سال کے اندر نرگس کی والدہ جدن بائی کا نام سنا۔ وہ مرین ڈرائیو کے ایک فلیٹ میں رہتی تھیں اور مجھے کئی بار جوش ملیح آبادی کے ساتھ شیٹو ونڈسر میں جانے کا موقع ملا۔ جدن بائی خود ایک باوقار شخصیت کی مالک تھیں اور ان کی زندگی میں ایک خاص قسم کا رکھ رکھاؤ تھا۔ ورنہ جوش ملیح آبادی جیسا تنک مزاج اور بلند مرتبہ شاعر وہاں ہرگز نہ جاتا۔ میں نے وہاں نرگس کو کم عمری کے عالم میں دیکھا تھا۔

    وہ زمانہ ترقی پسند تحریک کے شباب کا زمانہ تھا اور جدن بائی بھی اکثر نرگس کے ساتھ ہمارے جلسوں میں شریک ہوتی تھیں۔ اس زمانے کی ایک تصویر میرے پاس تھی جس میں جدن بائی اور نرگس بیٹھی ہوئی سجاد ظہیر کی تقریر سن رہی ہیں۔ ہم ترقی پسند مشاعروں اور جلسوں کے لیے جدن بائی سے چندہ بھی حاصل کرتے تھے۔ 1947ء سے پہلے بمبئی کی ایک پنجاب ایسوسی ایشن ہر سال یومِ اقبال مناتی تھی۔ نرگس جدن بائی کے ساتھ ان جلسوں میں بھی شریک ہوتی تھی۔ فلمی زندگی کی مصروفیات کے باوجود ادب اور شاعری کا یہ ذوق نرگس میں آخر وقت تک باقی رہا۔

    میں نے نرگس کو ایک اچھی اداکارہ کی حیثیت سے سب سے پہلے قریب سے احمد عباس کی فلم ‘انہونی’ میں دیکھا جس کا ایک گیت "دل شاد بھی ہے ناشاد بھی ہے” میں نے لکھا تھا۔ اس میں نرگس کا رول دہرا تھا اور اس نے اپنے فن کے کمال کا پہلا بڑا مظاہرہ کیا تھا۔ اس نے دو لڑکیوں کا کردار ادا کیا تھا جن میں سے ایک "شریف زادی” ہے اور دوسری "طوائف”۔ خواجہ احمد عباس نے اس کہانی میں ماحول کے اثر پر زور دیا تھا۔ یہ فلم عباس کی بہترین فلموں میں شمار کی جاتی ہے۔ اور اس کا شمار نرگس کی بھی بہترین فلموں میں کیا جائے گا۔

    نرگس کے فن میں کیا جادو تھا اس کا مظاہرہ میں نے 1953ء میں دیکھا۔ اکتوبر یا نومبر 1953ء میں پہلا فلمی ڈیلیگیشن ہندوستان سے سوویت یونین گیا۔ ڈیلیگیشن کے لیڈر خواجہ احمد عباس تھے۔ اور اراکین میں بمل رائے، راج کپور، نرگس بلراج ساہنی وغیرہ تھے۔ وہاں راج کپور کی فلم ‘آوارہ’ دکھائی گئی جس کی کہانی خواجہ احمد عباس نے لکھی تھی۔ اس فلم نے سارے سوویت یونین کا دل جیت لیا۔ راج کپور اور نرگس، نرگس اور راج کپور۔ یہ دو نام ہر دل کے ساتھ دھڑک رہے تھے۔ اور ہر طرف فلم کا گانا ‘آوارہ ہوں…ٔ گایا جا رہا تھا۔

    جب میں دسمبر 1953ء میں سوویت یونین گیا تو لوگ مجھ سے پوچھتے تھے آپ نرگس کو جانتے ہیں۔ آپ راجک پور سے ملے ہیں؟ اور جب میں ہاں کہتا تو ان کی نظروں میں میرا وقار بڑھ جاتا تھا۔ ابھی دو تین ماہ پہلے جب میں سوویت یونین گیا تو تقریباً تیس سال بعد بھی نئی نسل کے نوجوان نرگس کے نام سے واقف تھے۔

    ایک روز دسمبر 1953ء میں، مَیں ماسکو کے ایک ہوٹل میں چلی کے شاعر پابلو نرودا، ترکی کے شاعر ناظم حکمت، سویت ادیب ایلیا اہرن برگ اور میکسیکو کے ناول نگار امارد کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ دورانِ گفتگو "آوارہ” کا ذکر آیا۔ ناظم حکمت جو ایک صوفے پر لیٹا ہوا تھا ایک دم سے اٹھ کر بیٹھ گیا اور کہنے لگا کہ اتنی خوب صورت لڑکی اس سے پہلے اسکرین پر نہیں آئی تھی۔ میں حیران رہ گیا کہ نرگس کے سادہ اور پُر وقار چہرے میں وہ کون سا حُسن آگیا جس نے ناظم حکمت کو تڑپا دیا اور سوویت یونین کے نوجوانوں کو دیوانہ کر دیا۔ یہ اس کے فن کا حُسن تھا جس نے اس کی پوری شخصیت کو بدل دیا تھا۔ اور چہرے کو وہ تاب ناکی دے دی تھی جو صرف عظیم فن کاروں کو فطرت کی طرف سے عطیہ کے طور پر ملتی ہے۔ نرگس کو جو مقبولیت سوویت یونین میں ملی، وہی مقبولیت ہندوستان میں بھی حاصل تھی لیکن یہ سستی قسم کی فلمی مقبولیت نہیں تھی۔ لوگوں کی نظروں میں نرگس کا احترام تھا۔

    فلمی دنیا بڑی حد تک نمائشی ہے جس کو شو بزنس کہا جاتا ہے اور اپنی مقبولیت کے زمانے میں بہت سے فلمی ستاروں کو اس بات کا اندازہ نہیں رہ جاتا کہ ان کی مقبولیت میں نمائش کا کتنا بڑا ہاتھ ہے۔ اور وہ اپنا توازن کھو دیتے ہیں اور فن اور زندگی کے دوسرے شعبوں کی بڑی ہستیوں کو خاطر میں نہیں لاتے اور جب ان کے عروج کا زمانہ ختم ہو جاتا ہے تو احساسِ کمتری میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ لیکن نرگس کا مزاج یہ نہیں تھا۔ اس نے اپنی انتہائی مقبولیت کے زمانے میں بھی اپنے ذہنی توازن کو برقرار رکھا اور اپنی شخصیت کے وقار کو باقی رکھا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ نرگس کو اپنی فلمی زندگی کے ساتھ ساتھ سماجی کاموں میں بھی دل چسپی تھی، سیاست سے بھی لگاؤ تھا۔

    نرگس کی آخری اور شہکار فلم ‘مدر انڈیا’ ہے۔ اس میں نرگس کے فن نے اپنی آخری بلندیوں کو چھو لیا ہے۔ ماں کے کردار کے لیے محبوب خاں کی نگاہِ انتخاب نرگس پر پڑی اور وہ سب سے زیادہ صحیح انتخاب تھا۔ اور نرگس نے بھی کمال کر دیا۔ اپنی معراج پر پہنچنے کے بعد نرگس نے فلمی کام ہمیشہ کے لیے ترک کر دیا۔ اس فیصلے میں بھی نرگس کی عظمت جھلکتی ہے۔ وہ چیز جس کو "موہ مایا” کہا جاتا ہے نرگس اس سے بہت بلند تھی۔

    مدر انڈیا نے نرگس کو عظمت کی جو بلندی عطا کی اس کے ساتھ ایک وفادار اور محبت کرنے والا شوہر بھی دیا۔ نرگس کی بیماری کے آخری زمانے میں سنیل دت نے جس طرح اپنے تن من دھن کے ساتھ نرگس کی خدمت کی ہے اس کی تعریف کرنے کے لیے ہماری زبان میں الفاظ نہیں ہیں۔ نرگس اور سنیل دت کا فن ان کے بیٹے کو ورثے میں ملا ہے اور اگر سنجے دَت نے اپنی اس وراثت کا احترام کیا تو ایک دن وہ بھی عظمت کی بلندیوں کو چُھو لے گا۔

    (ممتاز ترقی پسند شاعر علی سردار جعفری کے مضمون سے اقتباس)

  • جب بالی وڈ کے معروف اداکار سنیل دت پاکستان آئے…

    جب بالی وڈ کے معروف اداکار سنیل دت پاکستان آئے…

    قیامِ پاکستان سے پہلے کا زمانہ بمبئی کی فلمی صنعت کے لئے ایک سنہری دور تھا۔ بڑے بڑے نام ور اور کام یاب ہدایت کار، اداکار، موسیقار اور گلو کار اس دور میں انڈین فلمی صنعت میں موجود تھے۔ ہر شعبے میں دیو قامت اور انتہائی قابلِ قدر ہستیاں موجود تھیں۔

    قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ ہندوستان کی فلمی صنعت کے ناقابلِ فراموش اور انتہائی اعلیٰ کارکردگی دکھانے والے لوگ ایسے تھے جنہوں نے کبھی کسی انسٹی ٹیوٹ یا فلم کی تعلیم دینے والے ادارے کا منہ تک نہیں دیکھا تھا۔ انہوں نے اپنی خدا داد صلاحیتوں اور تجربہ کار لوگوں سے یہ فن سیکھا تھا۔ پونا فلم انسٹی ٹیوٹ کا قیام تو کافی عرصے بعد عمل میں آیا تھا۔ اس سے پہلے پرانے تجربہ کار استاد ہی اپنے شاگردوں کو سکھایا کرتے تھے۔

    دل چسپ بات یہ ہے کہ اس دور میں ہندوستان کی فلمی صنعت نے بہت ہنر مند اور ایسے فن کار پیدا کیے جن کی مثال آج بھی پیش نہیں کی جاسکی۔ ذرا غور کیجئے کہ محبوب خان، شانتا رام، بمل رائے ، گرودت، کمال امروہوی، راج کپور، اے آر کار دار جیسے ہدایت کار آج کیوں نظر نہیں آتے۔ حالانکہ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے کسی اسکول یا کالج میں فلم کی تعلیم حاصل نہیں کی تھی۔ اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ان میں بیشتر لوگ وہ تھے جنہوں نے باقاعدہ اسکولوں اور کالجوں میں تعلیم تک حاصل نہیں کی۔ انہیں قدرت نے خود تعلیم دی تھی۔ صلاحیتیں عطا کی تھیں اور انہیں اپنے اپنے فن میں کمال حاصل تھا۔ مثال کے طور پر محمود خان جیسے ہدایت کار گجراتی کے سوا کوئی اور زبان نہیں جانتے تھے۔ لیکن انہوں نے ہندوستان کی فلمی صنعت میں جو انوکھے تجربات کیے اور جو بے مثال فلمیں بنائیں انہیں دیکھ کر کوئی یقین نہیں کرسکتا کہ اردو فلمیں بنانے والا یہ عظیم ہدایت کار اردو زبان نہ پڑھ سکتا تھا اور نہ ہی لکھ سکتا تھا۔

    اس زمانے میں جو بھی فلموں میں کام کرنا چاہتا تھا ٹکٹ کٹا کرسیدھا بمبئی کا راستہ لیتا تھا۔ ان لوگوں کے پاس نہ پیسا ہوتا تھا نہ سفارش اور نہ ہی تجربہ مگر قسمت آزمائی کا شوق انہیں بمبئی لے جاتا تھا۔ ہندوستان کے مختلف حصوں سے ہزاروں نوجوان اداکار بننے کی تمنا لے کر اس شہر پہنچے تھے۔

    ان میں سے اکثر خالی ہاتھ اور خالی جیب ہوتے تھے۔ بمبئی جیسے بڑے وسیع شہر میں کسی انجانے کم عمر لڑکے کو رہنے سہنے اور کھانے پینے کے لالے پڑ جاتے تھے۔ عموماً ان کی جیبوں میں ایک روپیہ بھی نہیں ہوتا تھا۔ اللہ پر توکل کی مثال اس سے زیادہ اور کیا ہو گی کہ بمبئی جیسے لاکھوں انسانوں کے سمندر میں یہ کود پڑتے تھے۔

    محبوب خان اپنے گاؤں سے چند روپے لے کر بمبئی گئے تھے۔ ان کی عمر پندرہ سال کے لگ بھگ تھی۔ انہوں نے مسجدوں میں بسیرا کیا۔ راتوں کو بمبئی کی کشادہ سڑکوں کے فٹ پاتھوں پر بغیر بستر کے سوئے۔ درجنوں پھیرے لگانے کے بعد فلم اسٹوڈیو کے اندر داخل ہونے کی سعادت نصیب ہوئی تو وہاں مزدوروں، قلیوں اور سامان اٹھانے کا کام کرنے کو ملا۔ قسمت نے یاوری کی کہ ایکسٹرا کے طور پر کام کرنے لگے۔ پھر قدرت نے مزید مواقع فراہم کئے، محبوب خان کی کہانی انوکھی نہیں ہے۔ ہمارے فلم سازو ہدایت کار لقمان دہلی سے چند روپے لے کر بمبئی پہنچے۔ فلموں کا جنون تھا، اس وقت اس کی عمر پندرہ برس ہوگی۔ انہوں نے بھی بمبئی میں فلموں کے اسٹوڈیو کے اندر قدم رکھنے کے لئے بہت پاپڑ بیلے۔ ان کی اور محبو ب خان کی کہانی معمولی سے فرق کے ساتھ ایک جیسی ہے۔ فلم اسٹوڈیو کے اندر داخل ہونے کا موقع ملا تو انہوں نے بھی مزدوروں اور قلیوں جیسے کام کیے۔ پھر کس طرح قسمت نے مہربانی کی یہ کہانی آپ پہلے سن چکے ہیں۔ ان کی تعلیم بھی اردو لکھنے پڑھنے تک محدود تھی۔

    1940ء کے بعد سے لے کر قیام پاکستان تک اور اس کے بعد کا دور انڈین فلم انڈسٹری میں عروج اور کام یابیوں کا دور تھا۔ یہ سب کارنامے ایسے ہی سر پھروں نے سر انجام دیے تھے، آج ان کے نام کا ڈنکا بجتا ہے۔ ان کے بارے میں کتابیں لکھی جاتی ہیں۔ انہیں انڈین فلموں کے عظیم ترین نام کہاجاتا ہے مگر ان میں سے کسی نے کسی فلم انسٹی ٹیوٹ میں قدم بھی نہیں رکھا۔ جو بھی سیکھا اپنے استادوں سے سیکھا جنہوں نے اپنے استادوں سے سیکھا تھا۔ یہی لوگ آج انڈین فلم انڈسٹری کے چاند سورج کہے جاتے ہیں جنہوں نے بے شمار چمکدار ستاروں کو روشنی دے کر صنعت کے آسمان پر جگمگا دیا۔ ( ہندوستان اور پاکستان کے بھی) اکثر بڑے ممتاز، مشہور اور معروف لوگوں کی زندگیاں ایسے ہی واقعات سے بھری ہوئی ہیں۔

    آئیے، آج آپ کو ایک ایسے ہی معروف اور ممتاز آدمی کی کہانی سناتے ہیں۔ جسے بر صغیر کا بچّہ بچّہ جانتا ہے لیکن یہ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ یہ لوگ کون ہیں؟ کہاں سے آئے تھے، اور کیسے کیسے امتحانوں اور آزمائشوں سے انہیں گزرنا پڑا۔

    یہ قصّہ سنیل دت کا ہے، سنیل دت نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ جب وہ بمبئی پہنچے تو ان کی عمر سترہ اٹھارہ سال تھی۔ یہ انٹرویو بمبئی کی ایک فلمی صحافی لتا چندنی نے لیا تھا اور یہ سنیل دت کا آخری انٹر ویو تھا۔

    سنیل دت جب بمبئی پہنچے تو ان کی جیب میں پندرہ بیس روپے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ بمبئی میں در بدر پھرتے رہے۔ سب سے پہلا مسئلہ تو سر چھپانے کا تھا۔ بمبئی میں سردی تو نہیں ہوتی لیکن بارش ہوتی رہتی ہے جو فٹ پاتھوں پر سونے والوں کے لئے ایک مسئلہ ہوتا ہے۔ بارش ہو جائے تو یا تو وہ سامنے کی عمارتوں کے برآمدے وغیرہ میں پناہ لیتے ہیں یا پھر فٹ پاتھوں پر ہی بھیگتے رہتے ہیں۔

    وہ کہاں رہے؟ اس کا جواب تھا، "رہنا کیا تھا۔ فٹ پاتھوں پر راتیں گزارتا رہا۔ کبھی یہاں کبھی وہاں۔ دن کے وقت فلم اسٹوڈیوز کے چکر لگاتا رہا مگر اندر داخل ہونے کا موقع نہ مل سکا۔ آخر مجھے کالا گھوڑا کے علاقے میں ایک عمارت میں ایک کمرا مل گیا۔ مگر یہ کمرا تنہا میرا نہیں تھا۔ اس ایک کمرے میں آٹھ افراد رہتے تھے جن میں درزی، نائی ہر قسم کے لوگ رات گزارنے کے لئے رہتے تھے۔
    میں نے اپنے گھر والوں سے رابطہ کیا تو انہوں نے مجھے ہر مہینے کچھ روپیا بھیجنا شروع کر دیا۔ میں نے جے ہند کالج میں داخلہ لے لیا تاکہ کم از کم بی اے تو کرلوں۔

    میرا ہمیشہ عقیدہ رہا ہے کہ آپ خواہ ہندو ہوں، مسلمان، سکھ، عیسائی کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں مگر ایک دوسرے سے محبت کریں۔ ہر مذہب محبت اور پیار کرنا سکھاتا ہے۔ لڑائی جھگڑا اور نفرت کرنا نہیں۔ میں کالج میں پڑھنے کے ساتھ ہی بمبئی ٹرانسپورٹ کمپنی میں بھی کام کرتا تھا۔ میں اپنا بوجھ خود اٹھانا چاہتا تھا اور گھر والوں پر بوجھ نہیں بننا چاہتا تھا۔

    ان دنوں بمبئی میں بہت سخت گرمی پڑ رہی تھی۔ اتنی شدید گرمی میں ایک ہی کمرے میں آٹھ آدمی کیسے سو سکتے تھے۔ گرمی کی وجہ سے ہمارا دم گھٹنے لگتا تھا تو ہم رات کو سونے کے لئے فٹ پاتھ پر چلے جاتے تھے۔ یہ فٹ پاتھ ایک ایرانی ہوٹل کے سامنے تھا۔ ایرانی ہوٹل صبح ساڑھے پانچ بجے کھلتا تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ ہمیں ساڑھے پانچ بجے بیدار ہوجانا چاہئے تھا۔ ہوٹل کھلتے ہی ہماری آنکھ بھی کھل جاتی تھی۔ ایرانی ہوٹل کا مالک ہمیں دیکھ کر مسکراتا اور چائے بنانے میں مصروف ہوجاتا۔ ہم سب اٹھ کر اس کے چھوٹے سے ریستوران میں چلے جاتے اور گرم گرم چائے کی ایک پیالی پیتے۔ اس طرح ہم ایرانی ہوٹل کے مالک کے سب سے پہلے گاہک ہوا کرتے تھے۔

    وہ ہم سے بہت محبت سے پیش آتا تھا اور اکثر ہماری حوصلہ افزائی کے لئے کہا کرتا تھا کہ فکر نہ کرو، اللہ نے چاہا تو تم کسی دن بڑے آدمی بن جاؤ گے۔ دیکھو جب بڑے آدمی بن جاؤ تو مجھے بھول نہ جانا، کبھی کبھی ایرانی چائے پینے اور مجھ سے ملنے کے لئے آجایا کرنا۔

    دوسروں کا علم تو نہیں مگر میں کبھی کبھی جنوبی بمبئی میں اس سے ملنے اور ایک کپ ایرانی چائے پینے کے لئے چلا جاتا تھا۔ وہ مجھ سے مل کر بہت خوش ہوتا تھا۔ میری ترقی پر وہ بہت خوش تھا۔

    ایرانی چائے پینے کے بعد میں اپنی صبح کی کلاس کے لئے کالج چلاجاتا تھا۔ وہ بھی خوب دن تھے، اب یاد کرتا ہوں تو بہت لطف آتا ہے۔ ان دنوں میرے پاس زیادہ پیسے نہیں ہوتے تھے، اس لئے میں کم سے کم خرچ کرتا تھا اور کالج جانے کے لئے بھی سب سے سستا ٹکٹ خریدا کرتا تھا۔ بعض اوقات تو میں پیسے نہ ہونے کی وجہ سے اپنے اسٹاپ سے پہلے ہی اتر کر پیدل کالج چلا جاتا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ ان دنوں میں دو اور ریستورانوں میں بھی جایا کرتا تھا۔ یہ خداداد سرکل میں تھے۔ یہ بھی ایرانی ہوٹل تھا۔ ایرانی کیفے کی چائے پینے اور وہاں کے بسکٹ کھانے کا ایک الگ ہی مزہ تھا۔ یہ ایرانی کیفے بہت غریب پرور ہوتے ہیں، سستے داموں مزیدار چائے اور ساتھ میں نمکین بسکٹ کھلاتے تھے۔

    چرچ گیٹ اسٹیشن کے پاس بھی ایک کیفے تھا۔ ایرانی چائے کے ساتھ یہاں کھاری بھی ملتے تھے۔ یہ بڑے کرکرے کرکرے بسکٹ ہوتے تھے۔ چائے کے ساتھ یہ کرکرے بسکٹ کھانے میں بہت مزہ آتا تھا۔

    اس وقت ہماری جیب صرف ایرانی کیفے میں کھانے پینے کی ہی اجازت دیتی تھی۔ آج کے نوجوان فائیو اسٹار ہوٹلوں میں جاکر لطف اٹھاتے ہیں مگر ان دنوں ایرانی کیفے ہی ہمارے لئے کھانے پینے اور گپ شپ کرنے کی بہترین جگہ تھی۔ مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوتی تھی کہ ویٹر ایک کے اوپر ایک بارہ چائے کی پیالیاں رکھ کر کیسے گاہکوں کو تقسیم کرتا تھا۔ ایسا تو کوئی سرکس کا جوکر ہی کرسکتا ہے۔
    ایرانی ہوٹل اس زمانے میں مجھ ایسے جدو جہد کرنے والے خالی جیب لوگوں کے لئے بہت بڑا سہارا ہوتے تھے۔ میں سوچتا ہوں کہ اگر بمبئی میں ایرانی ہوٹل نہ ہوتے تو میرے جیسے ہزاروں لاکھوں لوگ تو مر ہی جاتے۔

    شام کو جب ہم سب اپنے کاموں سے فارغ ہوجاتے تو ایرانی ہوٹل میں بیٹھ کر ہر ایک اس روز کے واقعات سناتا۔ کبھی ہم اداس ہوجاتے اور کبھی ہنستے اور خوش ہوجاتے۔ ان دنوں کی یادیں اب کتنی پُرلطف اور دل چسپ لگتی ہیں۔

    میں پچاس سال کے بعد اپنا آبائی گاؤں دیکھنے گیا جو کہ اب پاکستان میں ہے۔ مجھے یاد ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف(اس وقت کے) نے مجھے مدعو کیا تھا۔ میں نے ان سے درخواست کی کہ میں اپنا آبائی گاؤں دیکھنا چاہتا ہوں۔ وہ بہت مہربان اور شفیق ہیں۔ انہوں نے میرے لئے تمام انتظامات کرا دیے۔ میرے گاؤں کا نام خورد ہے۔ یہ جہلم شہر سے چودہ میل کے فاصلے پر ہے۔ میرا گاؤں دریائے جہلم کے کنارے پر ہے اور یہ بہت خوبصورت جگہ ہے۔ گاؤں سے نکلتے ہی جہلم کے پانی کا بہتا ہوا نظارہ قابل دید ہے۔

    میں نے ہمیشہ یہ محسوس کیا ہے کہ پاکستان کے لوگ بہت پر خلوص اور محبت کرنے والے ہیں۔ ہمارے عام لوگوں کی طرح۔ میں جب اپنے گاؤں پہنچا تو سارا گاؤں مجھ سے ملنے کے لئے اکٹھا ہوگیا۔ انہوں نے میری اور خاندان کی خیریت دریافت کی۔ کچھ بوڑھے لوگوں نے مجھے میرے بچپن کے واقعات سنائے اور بتایا کہ ہم سب اس زمانے میں مل کر کتنے خوش رہا کرتے تھے۔ پہلے تو میں سمجھا کہ وہ مجھ سے ملنے کے لئے اسی لئے اکھٹے ہوگئے ہیں کہ میں ایک اداکار ہوں اور ان میں سے بہت سوں نے میری فلمیں دیکھی ہوں گی اور میرے بارے میں سنا اور پڑھا ہوگا لیکن کچھ دیر بہت میری یہ غلط فہمی دور ہوگئی۔ وہ اپنے ایک پرانے بچھڑے ہوئے ساتھی سے ملنے آئے تھے، انہیں اس بات کی خوشی تھی کہ میں نے اپنے آبائی گاؤں کو یاد رکھا اور اتنی دور سے صرف گاؤں دیکھنے اور گاؤں والوں سے ملنے آیا۔

    میرے گاؤں میں بہت جوش و خروش اور محبت ملی۔ وہ سب لڑکے جو میرے ساتھ پڑھا کرتے تھے مجھ سے ملنے کے لئے آئے اور ہم نے پرانی یادیں تازہ کیں۔ میں ان عورتوں سے بھی ملا جنہیں میں نے دس بارہ سال کی بچیاں دیکھا تھا مگر اب وہ ساٹھ پینسٹھ سال کی بوڑھی عورتیں ہوچکی تھیں۔ وہ میرے ساتھ کھیلنے والی بچیاں نانی دادی بن چکی تھیں۔ انہوں نے بھی بچپن کے بہت سے دل چسپ واقعات اور شرارتوں کی یادیں تازہ کیں۔ اس ماحول میں جاکر میں تازہ دم ہوگیا۔

    میں نے پوچھا، آپ لوگ میرا اتنا احترام کیوں کر رہے ہیں؟

    اس لئے کہ ہمارا مذہب یہی سکھاتا ہے۔ ہمارے گاؤں کے پاس ایک درگاہ ہے۔ ہم سب ان کی عزّت کرتے ہیں۔ بڑے بڑے زمیندار بھی جب درگاہ کے پاس سے گزرتے ہیں تو اپنے گھوڑوں سے اتر جاتے ہیں۔ دراصل درگاہ میں سوئے ہوئے بزرگ کا احترام کرتے ہیں۔

    میرے پتا جی مر گئے تھے جس وقت میں پانچ سال کا تھا۔ اس کے باوجود ہم اطمینان سے گاؤں میں رہا کرتے تھے۔ کبھی کوئی مسئلہ نہیں ہوا۔ اس گاؤں میں مسلمان زیادہ اور ہندو کم تھے۔ قیام پاکستان کے وقت جو فسادات ہوئے ان دنوں میں مسلمانوں نے ہماری حفاظت کی اور ہماری جانیں بچائیں۔ میں میٹرک پاس کرنے کے بعد پاکستان سے آگیا تھا۔ پاکستان سے جانے کے بعد میں کبھی لاہور نہیں آیا۔ کراچی تو آنا ہوا تھا۔ کراچی میں مجھے بے نظیر بھٹو کی شادی میں مدعو کیا گیا تھا۔

    سنیل دت نے اپنی تعلیم کا سلسلہ بھی محنت مزدوری اور جدو جہد کے زمانے میں جاری رکھا تھا جو ایک دانشمندانہ فیصلہ تھا۔ بی اے کرنے کے بعد انہوں نے بہت سے چھوٹے موٹے کام کیے، فٹ پاتھوں پر سوئے لیکن ہمت نہیں ہاری۔

    (علی سفیان آفاقی کے مضمون سے منتخب پارے)

  • احمد شاہ ابدالی: تاریخی حقائق، بھارتی فلم اور ناقدین

    احمد شاہ ابدالی: تاریخی حقائق، بھارتی فلم اور ناقدین

    بالی ووڈ فلم ‘‘پانی پت’’ نے سنیما کے اہم ناقدین اور سنجیدہ شائقین کو شدید مایوس کیا ہے۔

    احمد شاہ ابدالی کا فلمی کردار واضح کرتا ہے کہ بھارتی فلم انڈسٹری مخصوص طبقے کو خوش کرنے کے لیے تاریخ کو مسخ کرنے کی روایت پر قائم ہے۔ پانی پت کے اہم تاریخی معرکے اور اس کے مرکزی کردار کی غلط انداز سے پیش کاری بھارتی فلم انڈسٹری کی غیرسنجیدگی اور جانب داری کے ساتھ مخصوص ذہنیت کی عکاس بھی ہے۔

    حملے کی اصل وجہ
    احمد شاہ ابدالی کے حملے کی اصل وجہ ہندو مرہٹوں کی جانب سے مسجد میں مورتی رکھنے کا اعلان تھا۔
    احمد شاہ ابدالی کے ہاتھوں پانی پت کی جنگ میں شکست سے مرہٹوں کی طاقت اور زور تو ٹوٹا مگر مغل بادشاہ آپس کے جھگڑوں کی وجہ سے ان کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں تھے۔

    مرہٹوں کی برصغیر میں فتوحات جاری تھیں۔ دہلی اور قرب و جوار پر حملہ اور اس کے بعد لاہور سے اٹک تک فتوحات نے مرہٹوں کا حوصلہ بڑھا دیا۔ مغل کم زور اور مرہٹوں کے روپ میں ہندو طاقت ور ہوئے تو دہلی کی شاہی مسجد میں مورتی رکھنے کا اعلان کر دیا۔ اس اعلان سے مسلمانوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی اور مسلمان حاکموں اور علما نے احمد شاہ ابدالی کو ہندوستان پر حملے کی دعوت دیتے ہوئے مالی وعسکری مدد کا یقین دلایا۔

    افغان حکم راں احمد شاہ ابدالی نے مرہٹوں کے خلاف اس دعوت کو قبول کیا اور اپنے لشکر کے ساتھ یہاں پہنچا اور پانی پت کی تیسری جنگ میں لاکھوں ہندو مرہٹوں کو شکست دے کر ہندوستان میں مسلم اقتدار کو سنبھالا دیا۔

    احمد شاہ ابدالی پر الزامات
    احمد شاہ ابدالی کے بارے میں متعصب تاریخ نویسوں نے لکھا ہے کہ وہ اپنی ریاست کو وسعت دینا چاہتا تھا اور ملک و ہوس کا پجاری تھا۔ تاہم مستند اور معتبر تاریخ بتاتی ہے کہ ابدالی افغانستان میں اپنی بادشاہت تک محدود رہا اور طاقت و فوج رکھنے کے باوجود لشکر کشی نہ کی۔ جب ہندو مرہٹوں کی جانب سے جامع مسجد میں مہا دیو کا بت نصب کرنے کا اعلان کیا گیا اور اس سے مرہٹوں کے خلاف لڑائی کی درخواست کی گئی تو احمد شاہ ابدالی نے ہندوستان کا رخ کیا۔

    تاریخ کے صفحات یہ بھی بتاتے ہیں کہ مرہٹوں کو شکست دینے کے بعد ابدالی واپس وطن لوٹ گیا اور بعض حوالوں میں ملتا ہے کہ یہ حملہ ہندوستان میں مسلمانوں کے اقتدار کے لیے بڑا سہارا ثابت ہوا مگر مغلوں کے زوال کا سلسلہ نہ تھم سکا۔

    احمد شاہ ابدالی پر ایک الزام یہ بھی لگایا جاتا ہے کہ نادر شاہ کے قتل کے بعد قندھار جاتے ہوئے اس کے شاہی مہر اور کوہِ نور ہیرا اس کے ہاتھ سے اتار لیا تھا جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ہیرا اس کے پوتے کی تحویل میں تھا جس نے اسے احمد شاہ ابدالی کو سونپا تھا۔

    ہندوستانی مؤرخ کی سچائی
    مشہور ہندوستانی مؤرخ ڈنگا سنگھ نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ احمد شاہ ابدالی کی پوری زندگی ملک کی بہتری میں صرف ہوئی اور وہ افغان ہی نہیں خطے کے دیگر مسلمانوں کی نظر میں بھی محترم ہیں۔

    احمد شاہ ابدالی کا مقبرہ قندھار میں ہے۔ بعض تذکروں میں لکھا ہے کہ ابدالی کرشماتی شخصیت کا حامل تھا۔ احمد شاہ ابدالی نے اس دور میں قبیلوں کے مابین کئی جھگڑوں کو اپنے تدبر اور فہم سے نمٹایا اور ایک مضبوط ملک کی بنیاد رکھی۔

  • سنجے دت نے پاکستان سے محبت میں فلم سائن کر ڈالی

    سنجے دت نے پاکستان سے محبت میں فلم سائن کر ڈالی

    ممبئی: معروف بالی ووڈ اداکار سنجے دت نے پاکستان سے محبت اور جذباتی تعلق میں فلم سائن کر ڈالی، ان کی آنے والی ’کلنک‘ میں ان کے کام کرنے کی وجہ پاکستان سے ان کی محبت بنی۔

    بالی ووڈ کے معروف اداکار سنجے دت نے فلم کلنک سائن کرنے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ پاکستان سے جذباتی تعلق کی وجہ سے انہوں نے اس فلم میں کام کرنے کی ہامی بھری۔ فلم کلنک کرن جوہر کی پروڈکشن میں بن رہی ہے اور کہا جارہا ہے کہ فلم میں پاکستان کے ساتھ گہرا تعلق دکھایا جائے گا۔

    سنجے دت فلم میں پاتریاچ بلراج چوہدری کا اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ ایک بھارتی ویب سائٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ سنہ 1993 میں جب وہ فلم ’گمراہ‘ میں کام کر رہے تھے اس وقت پروڈیوسر یش جوہر نے انہیں فلم ’کلنک‘ کی کہانی سے متعلق بتایا تھا۔

    انہوں نے کہا کہ یش اور کرن جوہر کی پروڈکشن کمپنی بالکل میری فیملی کی طرح ہے لہٰذا گزشتہ برس کرن جوہر نے جب دوبارہ مجھ سے اس فلم کے حوالے سے بات کی تو میں نے فلم میں کام کرنے کی ہامی بھرلی۔

    سنجے دت نے بتایا کہ فلم میں میرے کردار کا نام بلراج ہے جو کہ میرے والد سنیل دت کا اصل نامی ہے۔ برصغیر کی تقسیم کے وقت میرے والد پاکستان سے بھارت آئے تھے لہٰذا اس سے میرا جذباتی تعلق ہے۔

    کہا جارہا ہے کہ یش جوہر نے فلم ’کلنک‘ کے سیٹ کی تیاری کے لیے 15 سال قبل لاہور کا دورہ کیا تھا تاہم وہ یہ فلم مکمل نہ کر سکے اور اب ان کے بیٹے کرن جوہر نے اپنے والد کا خواب پورا کرنے جارہے ہیں۔

    فلم میں عالیہ بھٹ، ورن دھون، سوناکشی سنہا اور آدیتیہ رائے کپور کے علاوہ تقریباً 2 دہائیوں بعد سنجے دت اور مادھوری ڈکشٹ ایک ساتھ نظر آئیں گے۔

  • سنجے دت گینگسٹر بن گئے، ٹریزر جاری

    سنجے دت گینگسٹر بن گئے، ٹریزر جاری

    ممبئی: بالی ووڈ اداکار سنجے دت نئے روپ میں نظر آئیں گے، اُن کی نئی فلم ’صاحب، بیوی اور گینگسٹر تھری‘ کا ٹریزرجاری کردیا۔

    سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر سنجو بابا نے اپنی نئی آنے والی فلم کا ٹریزر جاری کیا اور ساتھ میں لکھا کہ ’جی ہاں میں ہوں کھل نائیک، جو اب گینگسٹر بن گیا ہوں‘۔

    علاوہ ازیں اداکار نے ایک فلم کا پوسٹر بھی شیئر کیا جس میں وہ ہاتھ میں پستول تھامے بیٹھے ہیں۔

    واضح رہے کہ سنجے دت کا شمار اُن اداکاروں میں ہوتا ہے جنہوں نے 90 کی دہائی میں لاکھوں دلوں پر راج کیا اور مختلف کرداروں کو بخوبی ادا کر کے انڈسٹری میں اپنی پوزیشن کو مستحکم کیا۔

    بالی ووڈ اداکار کی زندگی میں کئی اتار چڑھاؤ آئے، انہیں کبھی منشیات کے الزام میں جیل جانا پڑا تو کبھی دہشت گردی کا الزام سہنا پڑا، ہدیات کار راج کمار ہیرانی نے منا بھائی کی زندگی کے تمام واقعات کو سامنے لانے کے لیے اُن کی زندگی پر فلم  ’سنجو‘ بنائی جس میں رنبیر کپور مرکزی کردار ادا کررہے ہیں۔

    مزید پڑھیں: فلم سنجو کا ٹریلر آتے ہی چھا گیا۔۔۔ ویڈیو دیکھیں

    ایک طرف تو سنجے دت کی زندگی پر فلم بنائی جارہی ہے تو دوسری جانب وہ اپنی نئی آنے والی فلم ’صاحب، بیوی اور گینگسٹر‘ کی شوٹنگ میں مصروف ہیں۔

    واضح رہے کہ ہدایت کار دت ٹگ منشور دھولیا نے اپنی فلم کے تیسرے پارٹ میں سنجے دت کو کاسٹ کرنے کا اعلان کیا تھا، شوٹنگ کا آغاز اگست میں ہوا۔

    واضح رہے کہ صاحب بیوی اور گینگسٹر کے پہلے دو پارٹ میں عرفان خان اور رندیپ ہدا نے منفی کردار اد اکئے تھے۔

    یہ بھی پڑھیں: سنجے دت پھر گینگسٹر بنیں گے

    فلم کی کاسٹ میں جمی شیرگل، ماہی گل و دیگر بھی اداکاری کے جوہر دکھاتے نظر آئیں گے، راہول مترا کا کہنا تھا کہ فلم میں مزید معروف چہرے متعارف کرائے جائیں گے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • کیا ”سنجو“ کے بعد اب رنبیر کپور ”منا بھائی“ بنیں گے؟

    کیا ”سنجو“ کے بعد اب رنبیر کپور ”منا بھائی“ بنیں گے؟

    ممبئی: سنجے دت بننے کے بعد رنبیر کپور نے ”منا بھائی“ کا روپ دھار لیا، ویڈیو انٹرنیٹ پر وائر ہوگئی۔

    تفصیلات کے مطابق رنبیر کپور کی نئی ویڈیو منظر عام پر آئی ہے، جس میں وہ منو بھائی کے روپ میں جلوہ گر ہوئے ہیں اور شان دار فارمینس کے لیے ان پر داد کے ڈونگرے برس رہے ہیں۔

    یہ کوئی فلم نہیں، بلکہ رنبیر کپور کی اگلی ریلیز سنجو ہی کا ایک ٹکڑا ہے، جسے ٹیزر کے طور پر ریلیز کیا گیا ہے۔ فلم 29 جون کو منظر عام پر آئے گی۔

    یاد رہے کہ ممتاز ہدایت کار راج کمار ہیرانی کی اس فلم میں رنبیر کپور معروف اداکار سنجے دت کا کردار نبھا رہے ہیں۔

    ایک جانب جہاں فلم میں سنجے دت کی زندگی کے کئی ادوار کا احاطہ کیا گیا ہے، وہیں اداکار کی فلموں کے مشہور سین بھی شامل ہیں۔

    تازہ ٹریلر منا بھائی کے ایک مشہور سین پر مبنی ہے، جس میں ہمیں رنبیر کپور سنجے دت کے روپ میں نظر آرہے ہیں۔

    یاد رہے کہ فلم منا بھائی کے ڈائریکٹر بھی راج کمار ہیرانی ہی تھے، جنھوں نے انڈسٹری کو تھری ایڈیٹس اور پی کے جیسی لازوال فلمیں دی۔

    توقع کی جارہی ہے کہ یہ فلم بلاک بسٹر ثابت ہوگی اور رنبیر کپور کے کیریر کو ٹریک پر لانے میں معاون ہوگی۔


    فلم سنجو کا ٹریلر آتے ہی چھا گیا۔۔۔ ویڈیو دیکھیں


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات  کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں