Tag: سندھی اداکار

  • پاکستانی فلم کا گیت ”گاڑی کو چلانا بابو….” کس بھارتی اداکارہ پر فلمایا گیا تھا؟

    پاکستانی فلم کا گیت ”گاڑی کو چلانا بابو….” کس بھارتی اداکارہ پر فلمایا گیا تھا؟

    وہ لوگ جو اب اپنی عمر کے ساتویں پیٹے میں‌ ہیں، شاید شیلا رامانی کا نام سن کر بے ساختہ یہ گیت گنگنانا شروع کردیں جس کے بول ہیں، "گاڑی کو چلانا بابو ذرا ہلکے ہلکے ہلکے، کہیں‌ دل کا جام نہ چھلکے…”

    پاکستان میں نوجوان نسل بالخصوص نئے ہزاریے میں آنکھ کھولنے والوں نے ترنگ اور امنگ سے بھرپور یہ گانا تو شاید سنا ہو، لیکن شیلا رامانی سے واقف نہیں ہوں گے۔

    2015ء میں آج ہی کے دن وفات پا جانے والی شیلا بھارتی اداکارہ تھیں۔ یہ گانا انہی پر فلمایا گیا تھا۔ فلم کا نام تھا انوکھی جس کا یہ گیت بہت مقبول ہوا۔

    شیلا رامانی کا تعلق سندھ کے شہر نواب شاہ سے تھا جہاں انھوں نے 2 مارچ 1932ء میں آنکھ کھولی۔ چیتن آنند نے انھیں بالی وڈ میں متعارف کرایا تھا۔ 1954ء میں شیلا رامانی کی فلم ٹیکسی ڈرائیور نمائش کے لیے پیش کی گئی اور ان کی وجہِ شہرت بنی۔ اس کے علاوہ سندھی فلم ابانا بھی ان کے کیریئر میں شان دار اضافہ ثابت ہوئی۔

    اس اداکارہ نے زیادہ تر فلموں میں امیر گھرانے کی لڑکی کا کردار نبھایا۔ تقسیمِ ہند کے بعد انھوں نے بھارت میں رہنے کا فیصلہ کیا اور یوں وہ ان سندھی فن کاروں میں شامل ہیں‌ جنھوں نے بالی وڈ میں‌ کام کیا۔ شادی کے بعد وہ امریکا منتقل ہوگئی تھیں۔ شیلا کی زندگی کے آخری ایّام مدھیہ پردیش میں گزرے۔

    ہندوستان میں ٹیکسی ڈرائیور، سرنگ، ریلوے پلیٹ فارم، مینار نامی فلموں میں کام کرنے والی شیلا رامانی کو ہدایت کار شاہنواز نے 1956ء میں اپنی فلم انوکھی کے لیے ہیروئن کا رول آفر کیا اور وہ شوٹنگ کے لیے پاکستان آئیں۔ یہ فلم تو بہت زیادہ کام یاب نہیں رہی، لیکن اس کا گیت مقبول ترین ثابت ہوا۔

    شیلا رامانی کے مدِّمقابل ہیرو کا کردار اداکار شاد نے نبھایا تھا۔ اس فلم میں شیلا نے زبردست پرفارمنس کا مظاہرہ کیا اور اداکاری کے فن میں اپنی صلاحیتوں کا اعتراف کرواتے ہوئے ہندوستان لوٹ گئیں جہاں انھوں نے بالی وڈ میں جنگل کنگ، آوارہ لڑکی اور دیگر فلموں میں کام کرکے شائقین و ناقدین کی توجہ حاصل کی۔

  • معروف اداکار نور محمد لاشاری کی برسی

    معروف اداکار نور محمد لاشاری کی برسی

    پاکستان ٹیلی ویژن کے معروف اداکار نور محمد لاشاری یکم فروری 1997ء کو اس جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔ ان کا شمار پی ٹی وی کے سینئر اداکاروں‌ میں‌ ہوتا تھا۔ انھوں نے کئی ڈراموں میں‌ بے مثال اداکاری کی اور ان کے نبھائے ہوئے کردار پی ٹی وی کی تاریخ میں لازوال اور یادگار ثابت ہوئے۔

    نور محمد لاشاری بھان سعید آباد کے مقام کوٹ لاشاری کے رہنے والے تھے۔ ابتدائی تعلیم کے حصول کے بعد انھوں نے محکمہ تعلیم سے وابستگی اختیار کرلی اور تدریس کے فرائض انجام دینے لگے۔

    نور محمد لاشاری نے استاد بخاری کی ناٹک منڈلی سے اپنے فنی سفر کا آغاز کیا تھا۔ اسٹیج ڈراموں میں اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کے بعد انھیں طویل عرصے تک ریڈیو پاکستان، حیدرآباد سے وابستہ رہنے کا موقع ملا جہاں انھوں نے صدا کاری کے میدان میں‌ خود کو منوایا اور سامعین میں مقبول ہوئے۔

    ملک میں ٹیلی ویژن کا دور شروع ہوا تو پی ٹی وی کے کراچی اسٹیشن کے لیے انھوں نے ہفتہ وار سندھی ڈرامے ناٹک رنگ سے چھوٹی اسکرین پر اداکاری کا آغاز کیا۔ نور محمد لاشاری نے متعدد اردو اور سندھی ڈراموں میں‌ لازوال کردار نبھائے اور ناظرین میں مقبول ہوئے۔ اس کے علاوہ لگ بھگ دو درجن سندھی اور اردو فلموں میں بھی کام کیا اور اپنے فن کا لوہا منوایا۔ ان کا مکالموں کی ادائیگی کا مخصوص انداز، لب و لہجہ اور ایک خاص ٹھہراؤ ان کے کرداروں‌ میں‌ ایسی جان ڈال دیتا تھا کہ اس پر حقیقت کا گمان ہونے لگتا۔

    جنگل، دیواریں، چھوٹی سی دنیا، چاند گرہن، دشت اور ماروی جیسے پی ٹی وی کے مقبول ترین ڈراموں میں نور محمد لاشاری نے اپنی اداکاری سے ناظرین کے دل جیتے۔ 1993ء میں انھیں صدارتی ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔

    نور محمد لاشاری کی آخری آرام گاہ منگھو پیر قبرستان میں ہے۔

  • جب پی ٹی وی کے مشہور اداکار کو پھانسی دی گئی!

    جب پی ٹی وی کے مشہور اداکار کو پھانسی دی گئی!

    ریڈیو پر لاشاری صاحب کی زیادہ دوستی نیوز کاسٹر کامران بھٹی اور رشید صابر مرحوم سے تھی جس کا گھر ریڈیو پاکستان کراچی کے قریب واقع تھا۔

    اس سے ملنے کے لیے لاشاری اکثر جایا کرتے تھے اور فلیٹ کے نیچے ففٹی سی سی موٹر سائیکل کھڑی کر کے سب سے پہلے صابر کو آواز دیتے۔ اگر وہ ہوتا تو پھر اس سے چائے کی فرمائش کرتے۔

    ایک مرتبہ لاشاری صاحب ایک کلو جلیبی لے آئے اور اسے پلیٹ میں رکھ کر کھا گئے۔ پھر کہا کہ انھیں چائے کی پیالی دی جائے جو چینی کے بغیر ہو، کیوں کہ انھیں شوگر ہے۔

    ان کی زندگی کا ایک سچا واقعہ جو وہ خود سناتے تھے کہ ایک مرتبہ کسی فلم کا ایک سین حقیقت میں بدل رہا تھا اور وہ مرتے مرتے بچے۔ انھیں پھانسی دی جارہی تھی۔

    جب سین ریکارڈ ہونے لگا تو پھندے کو روکنے والی رسی کھل گئی اور پھندا لاشاری صاحب کے گلے میں آنا شروع ہوا۔ ان کی سانس رک رہی تھی اور ڈائریکٹر اور دوسرا عملہ تالیاں بجا رہا تھا کہ کیا پرفارمنس دی ہے، مگر جب ان کی حالت خراب ہوتی دیکھی تو بھاگے اور انھیں اٹھایا۔ وہ کافی دیر تک بے ہوش پڑے رہے۔

    لاشاری جب جنگل شاہی میں ٹیچر تھے تو ایک ٹھیکے دار کے پاس منشی کا کام بھی کرتے تھے۔ مچھلی کے اس ٹھیکے دار کے پاس کام کرنے سے انھیں مچھیروں سے ملنا پڑتا تھا اور پھر سیہون کے قریب منچھر جھیل جا کر مچھیروں سے ملتے تھے۔ ان کا مچھلی کا شکار، رہن سہن، اٹھنا بیٹھنا، ان کے طور طریقے، رسم و رواج سب دیکھ چکے تھے جو مچھیرے کا کردار ادا کرنے میں بڑے کام آئے۔

    یہ بات بھی کم ہی لوگ جانتے ہیں کہ لاشاری فوج میں بھی گئے تھے جہاں سے بھاگ آنے پر تھوڑی سزا پانے کے بعد انھیں معاف کر دیا گیا تھا۔

    (صدارتی ایوارڈ یافتہ اداکار نور محمد لاشاری کے بارے میں یہ سطور لیاقت راجپر کے مضمون سے لی گئی ہیں، نور محمد لاشاری نے جنگل، دیواریں، چھوٹی سی دنیا اور دشت جیسے مقبول ترین ڈراموں میں‌ کردار نبھائے)