Tag: سندھی ادب

  • لعل چند امر ڈنومل:‌ سندھی زبان و ادب کا اہم نام

    لعل چند امر ڈنومل:‌ سندھی زبان و ادب کا اہم نام

    سندھی افسانوی ادب میں اپنی تخلیقات کی بدولت نام و مقام بنانے والے ادیبوں‌ میں‌ لعل چند امر ڈنومل بھی شامل ہیں جو تقسیمِ ہند کے بعد بھارت چلے گئے تھے۔ لعل چند امر ڈنومل کو سندھی زبان و ادب میں ناول نگار، مؤرخ، ڈراما نویس، سیرت و مضمون نگار کی حیثیت سے اہمیت حاصل ہے۔ وہ 62 سے زائد کتابوں کے مصنّف تھے۔ لعل چند امر ڈنومل 18 اپریل 1954ء کو بھارت کے شہر بمبئی میں چل بسے تھے۔ ان کی وصیت تھی کہ ان کی راکھ کو پاکستان میں‌ حیدرآباد سندھ کے قریب دریائے سندھ میں بہایا جائے جس پر عمل کیا گیا۔

    لعل چند امر ڈنومل 25 جنوری 1885ء کو اس وقت بمبئی پریزیڈنسی میں‌ شامل حیدرآباد شہر میں‌ پیدا ہوئے۔ ان کے والد دیوان امر ڈنومل حیدرآباد میں مختار کار تھے۔ لعل چند کی ابتدائی گھر پر ہوئی اور بعد میں وہ ہیرا نند اکیڈمی میں‌ داخل کیے گئے۔ تعلیمی مراحل طے کرنے کے بعد 1903ء میں لعل چند امر ڈنومل سندھ مدرسۃُ الاسلام میں استاد مقرر ہوگئے۔ لعل چند امر ڈنومل کے بارے میں‌ مشہور ہے کہ وہ ایک صوفی منش تھے اور وہ قوم یا ذات پات اور رنگ و نسل کی تفریق تو کجا مذہبی عصبیت سے بھی دور تھے۔ وہ انسانیت پر یقین رکھنے والے ایسے قلم کار تھے جسے اپنی جائے پیدائش اور سندھ سے بہت محبّت تھی۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کی وصیت تھی کہ بعد از مرگ ان کی راکھ حیدرآباد کے قریب دریائے سندھ میں بہائی جائے۔

    آج لعل چند امر ڈنومل کے نام اور سندھی زبان و ادب کے لیے ان کی خدمات اور کاوشو‌ں سے کون واقف ہے؟‌ مگر سندھ کی تاریخ‌ بالخصوص سندھی ادب سے متعلق کتب میں لعل چند امر ڈنومل کے بارے میں‌ ضرور پڑھنے کو ملے گا۔ لعل چند امر ڈنومل کا فلسفۂ حیات اور ان کے خیالات انھیں اس دور کے ہم عصروں‌ سے ممتاز کرتے ہیں کیوں‌ کہ وہ اپنے دور کے تمام مذاہب کو انسانیت کی میراث اور معاشرتی سدھار کا وسیلہ تصوّر کرتے تھے۔ اس ادیب نے کسی قسم کی مذہبی تفریق اور اونچ نیچ کو قبول نہ کیا اور اپنے عمل سے ثابت کیا کہ وہ ایک غیرمتعصب اور پاکیزہ خیالات کے حامل شخص ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لعل چند امر ڈنومل نے پیغمبر اسلام کی سوانح اور سیرت پر بھی کتاب لکھی تھی۔

    فکشن کی بات کی جائے تو لعل چند امر ڈنومل نے فکشن کی ہر صنف پر کتابیں لکھیں جو بہت اہم ہیں۔ ان کے طبع زاد ناولوں میں چوتھ جو چنڈ (چودھویں کا چاند)، سچ تے صدقے (سچائی پر قربان)، کشنی کے کشٹ و دیگر شامل ہیں۔ لعل چند امر ڈنومل نے دوسری زبانوں سے سندھی میں تراجم بھی کیے جو شایع بھی ہوئے۔ سندھ کے صوفی شاعر شاہ عبد اللطیف بھٹائی اور سچل سرمست کی شخصیت اور شاعری پر بھی لعل چند نے کتابیں لکھیں۔ ان کے سندھی زبان میں مضامین کو بیرنگی باغ جو گل کے عنوان سے کتاب میں‌ بہم کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ دیگر کتابوں میں ہندوستان جی تاریخ، حیدرآباد سندھ، میراں، شاھ جا کی سُر، سامی جا سلوک، رام بادشاہ، جیل جی ڈائری، سندھی بولی جو نچوڑ وغیرہ شامل ہیں۔

  • ارنسٹ ٹرمپ: سندھی اور پشتو زبانوں کا شیدائی

    ارنسٹ ٹرمپ: سندھی اور پشتو زبانوں کا شیدائی

    مشہور ہے کہ سب سے پہلے ارنسٹ ٹرمپ نے سندھ کے مشہور صوفی شاعر شاہ عبداللطیف بھٹائی کی کتاب شاہ جو رسالو کی تدوین اور اشاعت کا کام کیا۔ ارنسٹ ٹرمپ ایک جرمن مستشرق اور ایسا مشنری تھا جس نے برطانوی راج کے دوران پنجاب، سندھ اور شہر پشاور میں قیام کے دوران گراں قدر علمی اور ادبی کام کیا جن میں سے ایک شاہ جو رسالو کی اشاعت بھی تھا۔

    جرمنی میں 1828ء میں آنکھ کھولنے والے ارنسٹ ٹرمپ (Ernest Trumpp) کا باپ جارج تھامس کارپینٹر اور کاشت کار تھا۔ اس کے بیٹے کو نوعمری سے مختلف زبانیں سیکھنے کا شوق ہو چلا تھا۔ اور بعد میں یہی شوق ایک مشنری کی حیثیت سے اسے ہندوستان لے آیا جہاں اس نے تبلیغ کی ذمہ داریوں کو پورا کرتے ہوئے اپنے شوق اور دل چسپی کے میدان میں بھی خوب کام کیا۔

    ارنسٹ ٹرمپ نے کم عمری میں انگریزی کے علاوہ لاطینی، یونانی، عربی، فارسی، سنسکرت، عبرانی اور دیگر یورپی زبانیں سیکھنے پر توجہ دی اور کام یاب رہا۔ وہ بعد میں جرمنی سے لندن پہنچا تو وہاں ایسٹ انڈیا ہاؤس میں اسے باآسانی اسٹنٹ لائبریرین کی ملازمت مل گئی۔ اسی ملازمت کے دوران جب وہ 30 سال کا تھا، تو اسے ہندوستان جانے کا موقع ملا اور یہاں ارنسٹ ٹرمپ نے پہلے بمبئی میں قیام کیا اور بعد میں کراچی کو اپنا مستقر بنایا۔

    اس شہر میں ارنسٹ کو مقامی زبانوں نے اپنی جانب متوجہ کرلیا اور سب سے پہلے اس نے سندھی زبان سیکھنا شروع کی۔ بہت قلیل مدت میں ارنسٹ نے سندھی زبان میں لکھنے پڑھنے کی صلاحیت حاصل کرلی۔ وہ گھومنے پھرنے کا دلدادہ تھا۔ اسے یہ سرزمین بہت پسند آئی اور اس نے سندھ کے مختلف علاقوں میں سیاحت کے دوران شاہ عبد اللطیف بھٹائی کا کلام لوگوں سے سنا تو بہت متاثر ہوا۔ اسے صوفی بزرگ کے کلام میں غیر معمولی کشش محسوس ہوئی۔ ارنسٹ ٹرمپ اندرونِ سندھ عام لوگوں سے میل جول کے علاوہ شاہ عبداللطیف کے ارادت مندوں اور خانقاہوں سے وابستہ شخصیات کے ساتھ وقت گزارنے لگا اور شاہ کے گائے ہوئے کلام اور مقامی موسیقی کو اپنے لیے راحت کا موجب پایا۔ اس نے شاہ عبد اللطیف بھٹائی کا کلام جمع کرنا شروع کیا۔ لوگوں سے سن کر لکھنے کے علاوہ اس نے مختلف رسائل بھی دیکھے اور اچھا خاصا کلام بہم کرلیا۔ اور پھر وہ سندھ کو چھوڑ کر چلا گیا۔ 1866ء میں اس کا ایک مضمون اور شاہ لطیف بھٹائی کا کلام شاہ جو رسالو کے نام سے چھپوایا۔ ارنسٹ ٹرمپ کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے شاہ عبد اللطیف بھٹائی کے کلام کا جائزہ لیتے وقت اس وقت کے معروضی حالات، سیاسی واقعات، معاشی و معاشرتی کیفیت، عام لوگوں کی مشکلات، حکم رانوں کی بے اعتنائیوں اور اخلاقی صورتِ حال کو بھی پیشِ نظر رکھا تھا۔

    ارنسٹ ٹرمپ نے شاہ جو رسالو کو قدیم مروجہ رسمُ الخط میں شائع کیا تھا۔ وہ کراچی کے علاوہ پشاور میں سکونت پذیر رہا جہاں اس نے پشتو زبان سیکھی۔ 1870ء میں برطانوی سرکار نے ارنسٹ ٹرمپ سے سکھوں کی مذہبی کتاب گرو گرنتھ صاحب کا ترجمہ بھی کروایا جس نے اسے شہرت دی۔ 1873ء میں وہ میونخ یونیورسٹی میں سامی زبانوں کا پروفیسر مقرر ہوا۔ عربی اور دیگر سامی زبانوں پر ارنسٹ ٹرمپ کو ماہر تسلیم کیا جاتا تھا۔ ڈاکٹر ارنسٹ ٹرمپ کی بینائی آخر عمر میں جاتی رہی اور انھوں نے کافی تکلیف اٹھائی۔

    وہ کئی قابلِ ذکر کتابوں کا مصنف تھا جن کا تعلق زبان اور قواعد سے تھا۔ سندھی حروف اور گرامر کی پہلی کتاب لکھنے کے علاوہ ارنسٹ ٹرمپ نے پشتو زبان کی تفہیم کے لیے بھی کتاب تحریر کی۔

    5 اپریل 1885ء میں اس جرمن مستشرق کا انتقال ہوگیا۔ اسے آج بھی زبانوں کے تاریخی اور تقابلی مطالعہ کے ماہر کی حیثیت سے اور علمی کارناموں کے سبب یاد کیا جاتا ہے۔

  • سندھی زبان و ادب اور مرزا قلیچ بیگ

    سندھی زبان و ادب اور مرزا قلیچ بیگ

    سندھی ادب اور زبان کے ایک محسن اور بڑے خدمت گار مرزا قلیچ بیگ آج بہی کے دن 1929 کو وفات پاگئے تھے۔ مرزا قلیچ بیگ نے مختلف موضوعات پر تصانیف یادگار چھوڑی ہیں۔ انھوں‌ نے ڈرامہ نویسی کے علاوہ ولیم شیکسپیئر سمیت مختلف غیر ملکی ادیبوں‌ کی کہانیوں‌ کا سندھی زبان میں ترجمہ کیا اور علم و ادب کی دنیا میں نام و مقام بنایا۔

    مرزا قلیچ بیگ کے تحریر کردہ ڈراموں کی تعداد 32 ہے جن میں‌ رومانوی، تاریخی، سماجی مسائل سمیت دیگر موضوعات کو اجاگر کیا گیا ہے۔ مرزا قلیچ بیگ نے 1880 میں پہلا ڈرامہ’’ لیلیٰ مجنوں‘‘ ہندی سے سندھی زبان میں ترجمہ کیا تھا جب کہ ان کا آخری ڈرامہ’’موہنی‘‘ تھا جو 1924 میں ہندی سے سندھی زبان میں ترجمہ کیا۔

    پی ٹی وی پر مرزا قلیچ بیگ کے دو ناول جن میں زینت اور گلن واری چوکری (پھولوں والی لڑکی) شامل ہیں، کو ڈرامائی تشکیل کے بعد ناظرین کے لیے پیش کیا جا چکا ہے۔ انھوں نے مزاحیہ انداز میں بھی ڈرامے لکھے۔

    مرزا قلچ بیگ کے آبا و اجداد کا تعلق جارجیا سے تھا، جو کسی زمانے میں سلطنت عثمانیہ کا حصہ تھا۔ ان کے والد نومسلم تھے اور ایک غلام کی حیثیت سے سندھ لائے گئے تھے جہاں 4 اکتوبر 1853ء کو ان کے گھر مرزا قلیچ بیگ کی پیدائش ہوئی۔ ابتدائی تعلیم خانگی تھی اور بعد میں‌ مکتب اور پھر ایک اسکول میں داخلہ لیا۔ انھوں نے سندھی زبان سمیت فارسی اور عربی بھی سیکھی۔ 1872ء میں میٹرک کا امتحان پاس کر کے الفنسٹن کالج بمبئی میں داخلہ لے لیا۔ تعلیم حاصل کرنے کے بعد سندھ واپس لوٹے۔ اس عرصہ میں‌ وہ ترکی، انگریزی اور روسی سمیت دنیا کی متعدد زبانیں‌ سیکھ چکے تھے۔

    1879 میں ریونیو محکمے میں ہونے والے امتحان میں شریک ہوئے اور کام یابی کے بعد ہیڈ منشی بھرتی ہوئے۔ 1891 میں ایک امتحان پاس کرکے سٹی مجسٹریٹ کے عہدے پر تقرری حاصل کی اور بعد میں سندھ کے کئی اضلاع میں ڈپٹی کلکٹر کے طور پر کام کیا۔ اس دوران وہ اپنے علمی اور ادبی مشاغل اور تصنیف و ترجمہ کا شوق بھی پورا کرتے رہے۔

    مرزا قلیچ بیگ نے آٹھ مختلف زبانوں میں 457 کتابیں تصنیف و تالیف اور تراجم کیے۔ ان کی کتب تاریخ، لطیفیات، شاعری، بچوں کا ادب، تنقید، سائنس کے علاوہ دیگر موضوعات پر تھیں۔ انھوں نے’’ زینت‘ ‘کے عنوان سے ناول لکھا جو پہلا سندھی ناول کہلاتا ہے۔ انھوں نے سندھی ادب سے متعلق 385 کتابیں لکھیں اور خطاب و القاب سے نوازے گئے۔

  • انور پیرزادو: سندھی ادب اور انگریزی صحافت کا بڑا نام

    انور پیرزادو: سندھی ادب اور انگریزی صحافت کا بڑا نام

    سندھی اور انگریزی ادب کے ساتھ انور پیرزادو نے صحافت میں بڑا نام کمایا۔ وہ ادیب اور شاعر تھے۔ انھوں نے اپنے صحافتی کالموں‌ میں سماجی ناانصافی، قبائلی جھگڑوں، بھوک کے عفریت، عورت اور بچّوں کی محرومیوں، لوگوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا احاطہ کیا جب کہ شاہ عبدُاللطیف بھٹائی کی شخصیت اور ان کی شاعری پر تحقیق انور پیرزادو کا عشق تھا۔

    انور پیرزادو 7 جنوری 2007ء کو انتقال کرگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔ ان کا اصلی نام محمد ہریل تھا، انھوں‌ نے لاڑکانہ کے چھوٹے سے ایک گاؤں بلہڑیجی میں‌ 25 جنوری کو 1945ء کو آنکھ کھولی۔ یہ گاؤں موئن جو دڑو کے پہلو میں آباد تھا۔

    انھوں نے 1962ء میں میٹرک کا امتحان پاس کیا اور 1969ء میں انگریزی ادبیات میں ایم اے کے بعد سندھ یونیورسٹی میں بطور لیکچرار عملی زندگی کا آغاز کیا، لیکن پھر صحافت سے وابستہ ہونا پڑا۔ ان کی انگریزی زبان میں‌ دل چسپی اور تعلیمی سند نے انھیں‌ اس زبان میں‌ شایع ہونے والے اخبارات سے منسلک ہونے کا موقع دیا۔ انھوں نے لاڑکانہ اور سکھر میں نامہ نگار کی حیثیت سے فرائض انجام دیے، وہ سندھ ٹریبیون اور ریجنل ٹائمز آف سندھ کے مدیر رہے۔

    نوجوانی میں جب وہ مارکس اور لینن سے بڑے متاثر تھے، انھوں نے کامریڈ سوبھو گیان چندانی سے ملاقاتیں کیں اور ہاری تحریک کی حمایت کی۔ ایم آر ڈی تحریک نے انھیں اس کی حمایت میں لکھنے پر آمادہ کیا۔ بعد میں وہ شاہ لطیف کی شاعری کی جانب متوجہ ہوئے اور صوفی شاعر پر تحقیقی کام کیا۔

    جن دنوں ملک میں ایم آرڈی کی تحریک چل رہی تھی، انور پیرزادو نے مارشل لا کے خلاف ایک رپورٹ چھاپ دی تھی جس پر 6 ماہ کی قید کی سزا سنائی گئی۔ انھیں سچّے، کھرے اور بے باک صحافی کے طور پہچانا گیا۔

    انور پیرزادو نے 1970ء سے لکھنے کا آغاز کیا تھا۔ انگریزی ان کے روزگار کا وسیلہ بنی مگر سندھی لٹریچر سے عشق نے انھیں سندھ بھر میں‌ بڑی شہرت دی۔ انھوں نے سندھی زبان و ادب کی مجالس میں‌ شرکت اور سرگرمیاں انجام دینے کے ساتھ مختلف تنظیموں کے پلیٹ فارم سے کانفرنسوں اور دوسرے پروگراموں کا انعقاد کروایا اور ساتھ ہی صحافتی سفر بھی جاری رکھا۔ انھوں نے شاعری بھی کی اور اپنا مجموعہ بھی شایع کروایا۔ ان کی مرتب کردہ انگریزی کتب میں سندھ گزیٹئر، لاڑکانہ گزیٹئر اور بے نظیر بھٹو اے پولیٹیکل بائیو گرافی شامل ہیں۔

  • سندھی زبان و ادب کے محسن، منگھا رام ملکانی کا تذکرہ

    سندھی زبان و ادب کے محسن، منگھا رام ملکانی کا تذکرہ

    سندھی نثر جی تاریخ ایک تحقیقی اور تنقیدی شاہ کار ہے جس کے مصنّف منگھا رام ملکانی تھے۔ وہ جدید سندھی نثری ادب کے معماروں میں شامل تھے۔

    آج نوجوان نسل ان کے نام اور ان کے علمی و ادبی کارناموں سے شاید ہی واقف ہو، لیکن سندھی زبان و ادب میں‌ ان کا نام مذکورہ کتاب کی بدولت ہمیشہ زندہ رہے گا۔اسی کتاب پر انھیں 1969ء میں ساہتیہ اکیڈمی اعزاز برائے سندھی ادب سے نوازا گیا تھا۔

    اس کتاب میں سندھی افسانے، ناول، ڈرامے اور مضمون نویسی کے ابتدائی دور سے لے کر تقسیمِ ہند تک ہونے والی ترقّی اور ہر صنفِ ادب کی ترقّی کے ساتھ ان کی جداگانہ خصوصیت کو بھی بیان کیا گیا ہے اور یہ وقیع، مستند اور نہایت جامع تصنیف ہے۔

    پروفیسر منگھا رام ملکانی سندھی زبان کے نام وَر ادبی مؤرخ، نقّاد، معلّم اور ڈراما نویس تھے۔ انھوں‌ نے ڈی جے کالج، کراچی میں انگریزی کے استاد اور بعد میں جے ہند کالج بمبئی میں پروفیسر کے طور پر خدمات انجام دیں۔

    وہ 24 دسمبر 1896ء کو حیدر آباد، سندھ میں پیدا ہوئے۔ منگھا رام نے ڈی جے کالج کراچی سے بی اے (آنرز) کی سند حاصل کی۔ ملازمت کا آغاز ڈی جے کالج سے انگریزی کے لیکچرار کے طور پر کیا، پھر اسی کالج میں فیلو مقرر ہوئے۔ تقسیم ہند کے بعد بھارت کے شہر بمبئی منتقل ہو گئے اور وہاں کالج میں پروفیسر مقرر ہو گئے۔

    ان کے ادبی سفر کا آغاز ڈراما نگاری سے ہوا۔ یہ شروع ہی سے ان کی دل چسپی کا میدان تھا۔ اس صنف میں‌ انھوں نے انگریزی، اردو اور دوسری زبانوں سے متعدد ڈرامے سندھی زبان میں ترجمہ کرنے کے علاوہ ادب کو طبع زاد ڈرامے بھی دیے۔

    منگھا رام ملکانی کے معروف ڈراموں میں اکیلی دل (اکیلا دل)، ٹی پارٹی، پریت جی پریت، لیڈیز کلب، سمندر جی گجگار (سمندر کی گرج)، کوڑو کلنک (جھوٹا کلنک)، دل ائین دماغ (دل اور دماغ)، کنھ جی خطا؟ (کس کی خطا؟) و دیگر شامل ہیں۔

    وہ ڈرامہ اور ناول نگاری سے تحقیق و تنقید کی طرف راغب ہوگئے۔ انھوں نے مضامین لکھنا شروع کیے جو سندھی اخبارات اور جرائد میں‌ شایع ہونے لگے۔منگھا رام کو اسی عرصے میں ایک ایسی مستند کتاب لکھنے کا خیال آیا جو سندھی نثر اور ادب کا احاطہ کرے اور طالب علموں کی راہ نمائی کرے۔ انھوں نے اس پر کام شروع کیا اور سندھی نثر کی ڈیڑھ سو سالہ تاریخ کو اپنی کتاب میں سمیٹ لیا جو ایک شاہ کار مانی جاتی ہے۔

    منگھا رام ملکانی 1980ء کو آج ہی کے دن بمبئی میں وفات پا گئے تھے۔

  • سندھی زبان و ادب میں نام وَر ڈاکٹر تنویر عبّاسی کی برسی

    سندھی زبان و ادب میں نام وَر ڈاکٹر تنویر عبّاسی کی برسی

    سندھ کے مشہور صوفی بزرگ اور شاعر شاہ عبدُاللطیف بھٹائی پر تحقیقی کام اور متعدد دیگر شخصیات پر تنقیدی کتب نے ڈاکٹر تنویر عباسی کو سندھی زبان و ادب میں منفرد و ممتاز کیا۔

    25 نومبر 1999ء کو وفات پانے والے ڈاکٹر تنویر عباسی شاعر، ادیب، محقّق اور ڈرامہ نگار بھی تھے۔

    انھوں نے 7 اکتوبر 1934ء کو سندھ میں گوٹھ سوبھوڈیرو، ضلع خیرپور میرس کے ایک گھرانے میں آنکھ کھولی۔ تنویر عباسی کا اصل نام نورُ النّبی تھا۔ انھوں نے سندھی زبان و ادب میں اپنے علمی ذوق و شوق اور مطالعے کے ساتھ اپنی شاعری سے باذوق حلقوں کی توجہ حاصل کی اور اسی عرصے میں تحقیقی مضامین کی اشاعت نے علمی و ادبی میدان میں انھیں سندھی زبان کے نثر نگار کی حیثیت سے متعارف کروایا۔ بعد کے برسوں میں انھیں اپنی تصانیف کی بدولت پہچان ملی۔

    تنویر عبّاسی کی تصانیف میں تنویر چئے (شاعری) ھئ دھرتی (شاعری)، ترورا (مضامین)، نانک یوسف جو کلام (تنقید)، کلام خوش خیر محمد ہیسباٹی (تنقید)، سج تری ہیٹھاں (شاعری)، شاہ لطیف جی شاعری (لطیفیات)، بارانا بول (بچوں کا ادب)
    جے ماریانہ موت (ناول) شامل ہیں۔

    حکومتِ پاکستان نے بعد از مرگ ان کے لیے صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی کا اعلان کیا تھا۔ تنویر عبّاسی اسلام آباد کے مرکزی قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • علم و ادب، فکر و عمل میں یگانہ محمد ابراہیم جویو کا تذکرہ

    علم و ادب، فکر و عمل میں یگانہ محمد ابراہیم جویو کا تذکرہ

    محمد ابراہیم جویو ایک مفکّر، دانش وَر، ادب اور تعلیم کے شعبوں‌ کی وہ ممتاز شخصیت ہیں‌ جو سیاست اور ادب سے وابستہ شخصیات کی نظر میں یکساں طور پر قابلِ‌ احترام تھے اور انھیں‌ بہت پذیرائی دی گئی۔

    وہ سندھی زبان کے ممتاز ادیب، مترجم، معلّم اور دانش وَر تھے جن کے فکر و فلسفے کا سندھ میں سیاسی، سماجی، علمی اور ادبی حلقوں سے وابستہ ہر خاص و عام متاثر ہوا۔ ابراہیم جویو 9 نومبر 2017ء کو اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔

    انھوں نے تقسیم سے قبل سندھ کے نوجوانوں کو انگریز راج اور قیامِ پاکستان کے بعد آمریت اور استحصال کے خلاف فکری اور سائنسی نظریاتی بنیادیں فراہم کیں۔ زندگی کی 102 بہاریں دیکھنے والے محمد ابراہیم جویو نے حیدرآباد میں وفات پائی۔

    سندھ سے والہانہ لگاؤ اور محبّت کے ساتھ محمد ابراہیم جویو نے زرخیز ذہن اور روشن فکر پائی تھی جس سے ان میں وہ سیاسی شعور اور ذہنی پختگی پیدا ہوئی کہ کم عمری ہی میں وہ سندھ کی ایک نمایاں شخصیت بن گئے۔ انھوں نے 1941ء میں جب ان کی عمر صرف 26 برس تھی، ایک مختصر کتاب "سیو سندھ، سیو دی کانٹینینٹ فرام فیوڈل لارڈز، کیپیٹلسٹس اینڈ دیئر کمیونل ازم” کے نام سے لکھی۔

    اس وقت انھیں سندھ مدرسۃُ الاسلام میں نوکری ملی تھی۔ اس کتاب نے اُس وقت کے حکم رانوں کو برہم کردیا اور وہ ملازمت سے نکالے گئے، لیکن جلد ہی ٹھٹھہ کے میونسپل ہائی اسکول میں ٹیچر کی ملازمت مل گئی۔

    محمد ابراہیم جویو کی مذکورہ کتاب سندھ کے دانش ور اور تعلیمی حلقوں میں ان کی وجہِ شہرت بنی۔ بعد کے برسوں میں انھوں نے سیکڑوں مضامین سپردِ‌ قلم کیے، ان کی کتابیں‌ شایع ہوئیں اور ادبی اور ثقافتی مقالے اور کتابچے جاری ہوئے۔ وہ سندھ اور پاکستان میں ترقی پسند ادبی تحریک کے بھی سرگرم کارکن تھے۔

    محمد ابراہیم جویو نے 1915ء میں‌ کوٹری کے قریب ایک چھوٹے سے گاؤں میں آنکھ کھولی تھی۔ ابتدائی تعلیم اپنے آبائی گاؤں کے علاوہ سن نامی چھوٹے سے قصبے میں حاصل کی اور کراچی کے سندھ مدرسۃُ الاسلام سے میٹرک کیا۔ 1938ء میں انھوں نے کراچی کے ڈی جے کالج سے بی اے کیا۔ بعد ازاں مزید تعلیم کے لیے بمبئی چلے گئے۔

    تقسیم کے بعد محمد ابراہیم جویو اسکول ٹیچنگ کے ساتھ سندھی ادبی بورڈ کے سیکریٹری رہے اور بعد میں سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کے چیئرمین بنائے گئے۔

    انھیں پاکستان اکیڈمی آف لیٹرز کی جانب سے ادبی ایوارڈ سے نوازا گیا جب کہ متعدد جامعات کی جانب سے اعزازی ڈگریاں دی گئیں۔

    محمد ابراہیم جویو سندھ کی سیاسی تحریکوں میں پیش پیش رہے اور قوم پرست لیڈر جی ایم سیّد اور رسول بخش پلیجو کے علاوہ دیگر کے ساتھ مل کر سندھ کا مقدمہ لڑتے رہے اور ادبی محاذوں پر تحریکوں کی قیادت کی۔

    انھوں نے بے شمار مغربی مصنّفوں کا کام اور ان کی تخلیقات سندھی زبان میں ترجمہ کرکے ادب، فلسفے، سیاسیات اور سماجیات کو فروغ دینے میں اپنا حصّہ ڈالا۔ وہ پچاس سے زائد کتابوں کے مصنّف تھے جن میں‌ بین الاقوامی شہرت یافتہ ادیبوں اور مصنّفین کی کتب کے تراجم بھی شامل ہیں۔

  • ندھ کے معروف محقّق، مؤرخ اور مصنّف تاج محمد صحرائی

    ندھ کے معروف محقّق، مؤرخ اور مصنّف تاج محمد صحرائی

    تاج صحرائی سندھی زبان کے معروف ادیب تھے۔ انھوں نے سندھی کے علاوہ اردو اور انگریزی زبانوں میں کئی کتب اور مقالات تحریر کیے اور قدیم آثار اور جغرافیہ کے حوالے سے ایک محقّق، مؤرخ اور ادیب کی حیثیت سے پہچان بنائی۔

    تاج محمد صحرائی کا اصل نام تاج محمد میمن تھا جو 14 ستمبر 1921ء کو شکار پور میں پیدا ہوئے۔ عملی زندگی کا آغاز صحافت سے کیا اور کئی اخبارات سے وابستہ رہے جن میں ستارہ سندھ، جمہور اور آواز کے نام شامل ہیں۔ بعد ازاں تعلیم کے شعبے سے منسلک ہوئے۔ تاج محمد صحرائی مختلف تنظیموں سے وابستہ رہے اور علمی اور ادبی سرگرمیاں انجام دیں۔

    29 اکتوبر 2002ء کو وفات پانے والے تاج صحرائی کو حکومت پاکستان نے صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔

    تاج صحرائی 1921ء کو شکار پور میں پیدا ہوئے۔ والد کی ملازمت کے سلسلے میں انھیں دادو میں رہنا پڑا جہاں بعد میں بی اے اور بی ٹی کا امتحان پاس کیا۔ وہ پہلے پرائمری استاد بنے اور بعد میں ہائی اسکول دادو میں ہیڈ ماسٹر مقرر ہوئے اور وہیں سے ریٹائرڈ ہوئے۔

    ان کی انگریزی میں لکھی ہوئی کتاب لیک منچھر بہت مشہور ہوئی۔ تاریخ اور سندھ کے جغرافیے اور قدیم آثار پر ان کی متعدد کتب شایع ہوئیں جب کہ ان کی چند تصانیف میں تصویر درد، سر سارنگ، سندھو تہذیب، قلندر لعل سیہوانی اور مختلف مضامین کا مجموعہ شامل ہیں۔

  • سندھی زبان و ادب کے محقّق ڈاکٹر چندگر بخشانی کا تذکرہ

    سندھی زبان و ادب کے محقّق ڈاکٹر چندگر بخشانی کا تذکرہ

    سندھ دھرتی کی ہزاروں سال قدیم تہذیب، ثقافت اور اس دھرتی پر علم و ادب کے حوالے سے سرمائے کو اکٹھا کرکے، اپنی تحقیق کے بعد محنت اور لگن سے اس کی ترتیب و تدوین اور اشاعت ایک بڑا کارنامہ ہے جسے انجام دینے والوں میں سے ایک معتبر نام ڈاکٹر ہوت چندگر بخشانی کا بھی ہے۔

    ان کا ایک بڑا کارنامہ سندھ کے عظیم صوفی اور شاعر شاہ عبدُ اللطیف بھٹائی کے کلام کو اشعار کی صورت یکجا کرنا ہے۔

    ڈاکٹر بخشانی نے شاہ عبداللطیف بھٹائی کے کلام کو اشعار کی صورت میں جمع کر کے محققانہ چھان بین کے بعد اس طرح مرتّب کیا ہے کہ اب ان کی دی ہوئی ترتیب ہی مستند قرار پائی ہے۔

    ڈاکٹر چندگر بخشانی نے شاہ جو رسالو کی تین جلدیں مرتب کرکے شائع کیں لیکن چوتھی جلد ان کی وفات کی وجہ سے اشاعت پذیر نہ ہوسکی، جسے بعد میں مشہور محقق ڈاکٹر نبی بخش خان بلوچ نے مکمل کیا ۔

    ڈاکٹر چندگر بخشانی کا دوسرا تحقیقی کارنامہ ’’لواری جا لال‘‘ نامی کتاب کی تالیف ہے۔ یہ کتاب دراصل سوانحی کتاب ہے جس میں ڈاکٹر گربخشانی نے لواری سلسلے کی بعض شخصیات کا تذکرہ کیا ہے۔ ڈاکٹر گربخشانی کی تحقیقی و تنقیدی کتابوں اور مضامین کی فہرست بہت طویل ہے جس کی بنیاد پر ڈاکٹر گربخشانی کو سندھی تنقید کے بانیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔

    ڈاکٹر ہوت چند مول چند گربخشانی 8 مارچ 1884ء کو سندھ کے تاریخی شہر حیدرآباد میں پیدا ہوئے۔ 1900ء میں میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد ڈی جے کالج کراچی میں داخلہ لیا اور 1905ء میں بی اے کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا۔ اسی سال ایم اے کے لیے ولسن کالج بمبئی میں داخل ہوئے۔

    1907ء میں ایم اے کرنے کے بعد اسی کالج میں انگریزی اور فارسی کے اسسٹنٹ پروفیسر مقرر ہوئے اور ایک ہی سال بعد ڈی جے کالج کراچی میں فارسی کے پروفیسر ہو گئے۔

    یہاں انھوں نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا اور بتدریج ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے پرنسپل کے عہدے پر فائز ہو ئے۔

    1928ء میں ڈاکٹر گربخشانی لندن یونیورسٹی چلے گئے، جہاں Mysticism in the Early 19th Century Poetry of England (انگلستان کی ابتدائی انیسویں صدی کی شاعری میں تصوف) کے عنوان سے مقالہ لکھا جس پر انھیں پی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض ہوئی۔ یہ مقالہ بعد ازاں ڈاکٹر گربخشانی کی صد سالہ تقریبات کی مناسبت سے بھارت سے کتابی صورت میں بھی شائع ہوا۔

    ڈاکٹر ہوت چند گربخشانی نے ہر چند سندھی ادب میں متنوع اضافے کیے ہیں اور سندھی فکشن میں اپنے کام کی بنیاد پر بھی اپنے ہم عصروں میں انفرادیت رکھتے ہیں لیکن دراصل وہ تحقیق کے آدمی تھے۔

    ان کی دیگر تصانیف میں نور جہاں، مقدمۂ لطیفی اور روح رھان شامل ہیں۔ انھوں نے سندھی تنقید نگاری کو اپنے اظہار کے لیے ایک خاص زبان اور اسلوب بخشا اور اپنی تخلیقات سے سندھی زبان و ادب پر گہرے اثرات مرتب کیے۔

    وہ 11 فروری 1947ء میں حیدرآباد، سندھ میں وفات پا گئے۔

    (محمد عارف سومرو کے مضمون سے)

  • میہڑ کے شمسُ الدّین بلبل کون ہیں؟ جانیے

    میہڑ کے شمسُ الدّین بلبل کون ہیں؟ جانیے

    آج شمسُ الدّین بلبل کا یومِ وفات ہے جن کے نام سے عام قارئین ہی نہیں، علم و ادب سے شغف رکھنے والے بھی بہت کم واقف ہوں گے۔ وہ سندھی زبان کے معروف شاعر، مصنّف اور مشہور صحافی تھے۔

    سندھ کی کئی قابل، باصلاحیت اور جیّد شخصیات بات کی جائے تو ان میں چند ایسے نام شامل ہیں جن سے ہماری نئی نسل ناواقف ہے اور بدقسمتی سے ایسی نادرِ روزگار شخصیات کی حیات و خدمات اور ان کے علمی و ادبی کارناموں سے متعلق کوئی تحریر اور جامع مضمون بھی پڑھنے کو نہیں‌ ملتا۔

    شمسُ الدّین بلبل 21 فروری 1857ء کو سندھ کے ضلع دادو کے علاقے میہڑ میں پیدا ہوئے اور 1919ء میں آج ہی دن وفات پائی۔ انھوں نے اس دور کے دستور کے مطابق اردو فارسی اور عربی بھی سیکھی۔

    شمسُ الدّین بلبل نے میہڑ سے ابتدائی تعلیم حاصل کی اور 1889ء میں خان بہادر حسن علی آفندی کے پاس کراچی چلے آئے، جنھوں نے ان کی قابلیت اور صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے ان کی ادارت میں ایک ہفتہ وار اخبار معاون جا ری کیا۔ اس اخبار کی وساطت سے بلبل نے سندھ مدرسۃُ الاسلام اور سندھ محمڈن ایسوسی ایشن کے لیے مؤثر خدمات انجام دیں اور حسن علی آفندی کے دست و بازو بن گئے۔ دکن ایگری کلچر ریلیف ایکٹ کے سلسلے میں انھوں نے حسن علی آفندی کی بڑی مدد کی، اس کے بعد ہی سندھ میں زمین داری بچاؤ کے لیے دکن ریلیف ایکٹ کا اطلاق ہوا۔

    حسن علی آفندی کی وفات کے بعد بلبل کراچی چھوڑ کر اپنے آبائی قصبے میہڑ لوٹ آئے اور گھر سے اخبار کی ادارت اور تدوین کا کام انجام دینے لگے۔ بعد میں کراچی گزٹ کے ایڈیٹر ہوئے، جو ابتدا ہی میں بند ہو گیا۔ وہ لاڑکانہ کے اخبار خیر خواہ کے بھی مدیر رہے جب کہ روزنامہ الحقّ سکھر کی ادارت کے فرائض بھی سنبھالے۔ آخر میں مشہور روزنامہ آفتاب، سکھر کے مستقل ایڈیٹر بن گئے۔

    ان کی تحریریں ظرافت آمیز اور پُرمذاق ہوتی تھیں، اور ان کے اس انداز نے ہر شخص ان کے مضامین کا مشتاق بنا دیا تھا۔ انھوں نے سندھی زبان کی بڑی اصلاح کی اور اپنے مضامین کے ساتھ دیگر تحریروں سے سندھی ادب میں خاطر خواہ اضافہ کیا۔

    1906ء میں انھوں نے میہڑ میں مدرسۃ الاسلام کی بنیاد رکھی جو ان کی زندگی ہی میں اے وی اسکول کے درجے تک پہنچ چکا تھا۔ 1907ء میں جب آل انڈیا ایجوکیشنل کانفرنس کا اجلاس کراچی میں منعقد ہوا اور اس میں فارسی زبان کو سرکاری محکموں میں رائج کرنے کی قرارداد پیش ہوئی تو بلبل نے اس کی تائید میں تقریر کی جو فصاحت و بلاغت کا ایک بہترین نمونہ تھی۔ اس تقریر پر انھیں ہندوستان کے بڑے بڑے اکابرین نے سراہا اور نواب وقارُ الملک نے خاص طور پر داد دی اور تعریف کی۔

    شمس الدّین بلبل شاعر بھی تھے، اور فارسی اور سندھی زبان میں ان کا کلام ملتا ہے، لیکن ان کی نثری تصانیف کی تعداد زیادہ ہے۔ وہ سندھی، فارسی اور اردو پر عبور رکھتے تھے۔ مشاہیرِ سندھ کے نام سے کتب میں‌ جہاں ان کا تذکرہ ملتا ہے، وہیں ان کی چند تصانیف کے نام بھی لکھے گئے ہیں، جن میں سے چند یہ ہیں:

    بہارِ عشق کے نام سے دیوانِ بلبل (سندھی)، عقل اور تہذیب، مسلمان اور تعلیم، قرض جو مرض، صد پند سود مند، دیوان بلبل (فارسی)، آئینہ ظرافت
    اور گنجِ معرفت۔