Tag: سندھی ادب

  • یومِ وفات: حلیم بروہی رومن اسکرپٹ میں سندھی لکھنے کے حامی تھے

    یومِ وفات: حلیم بروہی رومن اسکرپٹ میں سندھی لکھنے کے حامی تھے

    سندھی زبان کے ناول نگار اور مقبول مصنّف حلیم بروہی 28 جولا‎ئی 2010ء کو وفات پاگئے تھے۔

    حلیم بروہی نے 5 اگست 1935ء کو حیدر آباد، سندھ میں آنکھ کھولی۔ ان کے والد محکمہ پولیس میں ملازم تھے۔ حلیم بروہی نے ابتدائی تعلیم کے بعد ایل ایل بی کیا اور پھر وکالت شروع کردی۔ تاہم جلد ہی سندھ یونیورسٹی جامشورو میں ملازمت اختیار کرلی اور ریٹائرمنٹ تک اسی تعلیمی ادارے سے وابستہ رہے۔

    حلیم بروہی انگریزی پر بھی عبور رکھتے تھے۔ ان کے کالم انگریزی اخبار دی فرنٹیئر پوسٹ میں شایع ہوتے تھے۔ سندھی اور انگریزی میں ان کی کُل دس کتابیں شایع ہوئیں جن میں سندھی کی کتاب ’حلیم شو‘ مقبول ترین تھی۔ 1975ء میں ان کا ناول ’اوڑاھ‘ کے نام سے شایع ہوا جو نوجوان قارئین میں خاصا مقبول ہوا۔ حلیم بروہی کے انگریزی کالموں کا انتخاب بھی شائع ہو چکا ہے۔

    حلیم بروہی سندھی زبان کے ایک منفرد قلم کار اور ایسے مصنّف تھے جو اپنے اصولوں اور ادبی نظریات کے سبب جہاں ہم عصروں میں ممتاز ہوئے، وہیں متنازع بھی رہے۔ انھوں نے ایک انٹرویو میں کہا تھاکہ میں‌ نے سندھی میں لکھ کر غلطی کی اور صرف انگریزی زبان میں لکھنا چاہیے تھا۔ سندھ اور سندھی زبان کے قلم کاروں میں حلیم بروہی کی مخالفت کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ انھوں نے طویل عرصے تک سندھی کو رومن اسکرپٹ میں لکھنے کی تحریک چلائی۔

    حلیم بروہی کا خیال تھا کہ جیسی ادبی تقریبات منعقد ہورہی ہیں، وہ وقت کا زیاں ہیں۔ وہ ان قلم کاروں میں سے ایک تھے جنھوں نے اپنی کتابوں کی رونمائی یا اپنے اعزاز میں تقاریب کے انعقاد کی حوصلہ شکنی کی اور تخلیقی کام جاری رکھنے کو اہم قرار دیا۔

    حلیم بروہی نے عام روش سے ہٹ کر ایسے مصنّف کے طور پر خود کو پیش کیا جو نمائشی تقریبات اور پذیرائی سے بے نیاز تھا، جس کی ایک مثال یہ ہے کہ انھوں نے سندھ کے نوجوانوں میں مقبول ہونے کے باوجود کسی ادبی محفل کی صدارت نہیں‌ کی۔

  • یومِ‌ وفات: ہاری راہ نما اور شاعر حیدر بخش جتوئی کو بابائے سندھ بھی کہا جاتا ہے

    یومِ‌ وفات: ہاری راہ نما اور شاعر حیدر بخش جتوئی کو بابائے سندھ بھی کہا جاتا ہے

    سندھ کے مشہور ہاری راہ نما اور شاعر حیدر بخش جتوئی 21 مئی 1970ء کو اس دارِ فانی کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ گئے تھے۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔

    7 اکتوبر 1900ء کو ضلع لاڑکانہ میں پیدا ہونے والے حیدر بخش جتوئی نے 1922ء میں بمبئی یونیورسٹی سے گریجویشن اور اگلے برس آنرز کیا۔ بعد ازاں سرکاری ملازمت اختیار کی اور ترقی کرتے ہوئے ڈپٹی کلکٹر کے عہدے تک پہنچے۔

    اس وقت ہندوستان میں‌ ہر طرف آزادی کے ترانے گونج رہے تھے اور مختلف سیاسی اور سماجی تحاریک زوروں پر تھیں‌۔ حیدر بخش جتوئی بھی مختلف سیاسی اور سماجی نظریات سے متاثر تھے اور آزادی کی ترنگ کے ساتھ ان میں عوام اور مزدوروں کے حقوق کی بحالی اور سہولیات کے حصول کرنے کا جوش اور جذبہ بھی موجود تھا جس نے انھیں میدانِ عمل میں اترنے پر آمادہ کیا۔ 1943ء میں حیدر بخش جتوئی نے سرکاری ملازمت کو خیر باد کہا اور ہاریوں کی تحریک میں شامل ہوگئے۔ 1946ء میں وہ سندھ ہاری کمیٹی کے صدر منتخب ہوئے۔ 1950ء میں ہاری کونسل نے ان کا مرتب کردہ آئین منظور کیا اور اسی برس ان کی جدوجہد کے نتیجے میں اس وقت کی حکومتِ سندھ نے قانونِ زراعت منظور کیا۔

    حیدر بخش جتوئی نے ہاری حقوق کی جدوجہد میں زندگی کے سات برس جیل میں گزارے۔ اس جدوجہد اور قید و بند کے دوران انھوں نے اپنی فکر اور فلسفے کو شاعری میں بیان کیا۔ وہ ایک بلند پایہ شاعر تھے۔ متحدہ ہندوستان میں جدوجہدِ آزادی پر لکھی گئی ان کی نظم کو ایک شاہ کار کا درجہ حاصل ہے۔

    1969ء میں فالج کے حملے کے باعث وہ صاحبِ فراش ہوگئے تھے۔ حیدر بخش جتوئی کو سندھ کے عوام نے ’’بابائے سندھ‘‘ کا لقب دیا تھا۔ 2000ء میں حکومتِ پاکستان نے انھیں ہلالِ امتیاز عطا کیا۔

  • معروف ادیب، صحافی اور سیاست داں پیر علی محمد راشدی کا یومِ وفات

    معروف ادیب، صحافی اور سیاست داں پیر علی محمد راشدی کا یومِ وفات

    پاکستان کے ممتاز سیاست دان، صحافی، مؤرخ، سفارت کار اور ادیب پیر علی محمد راشدی 14 مارچ 1987ء کو وفات پاگئے تھے۔ وہ تحریکِ پاکستان کے کارکن اور قائد اعظم محمد علی جناح کے رفقا میں سے ایک تھے جنھوں‌ نے قیامِ پاکستان کے بعد مختلف سرکاری عہدوں پر خدمات انجام دیں۔

    علی محمد راشدی کو ایک نہایت قابل علمی اور ادبی شخصیت اور زیرک سیاست داں مانا جاتا ہے، انھوں نے اردو، انگریزی اور سندھی زبانوں میں لکھا اور صحافت سے سیاست سے اپنی قابلیت اور صلاحیتوں کو منوایا۔

    1905ء میں‌ ضلع لاڑکانہ کے چھوٹے سے قصبے میں پیدا ہونے والے پیر علی محمد راشدی کو وفات کے بعد کراچی میں سپردِ خاک کیا گیا۔ ہر شخص کی زندگی خوبیوں اور خامیوں کا مرقع ہوتی ہے اور پیر علی محمد راشدی بھی اپنی علمی و ادبی حیثیت، سیاسی مرتبے اور قابلیت و صلاحیت کے باوجود مطعون کیے جاتے رہے اور مختلف حلقوں میں ناپسندیدہ رہے، لیکن علم و ادب کے حوالے سے ان خدمات کا دائرہ وسیع ہے جس کا اعتراف بھی کیا جاتا ہے۔

    ان کی چند کتابوں‌ میں رودادِ چمن (اردو)، فریادِ سندھ (سندھی)، چین جی ڈائری (سندھی)، ون یونٹ کی تاریخ (اردو)، کراچی کی کہانی (اردو) شامل ہیں جب کہ ان کے کئی مضامین اردو اور انگریزی زبان میں مختلف اخبار اور جرائد کی زینت بنے۔

  • وادیٔ مہران کے نام وَر ادیب اور صحافی مولائی شیدائی کی برسی

    وادیٔ مہران کے نام وَر ادیب اور صحافی مولائی شیدائی کی برسی

    میر رحیم داد خان کو جہانِ علم و ادب میں مولائی شیدائی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ وہ 12 فروری 1978ء کو وفات پاگئے تھے۔ مولائی شیدائی سندھی زبان کے معروف ادیب، مؤرخ، مترجم اور صحافی تھے۔

    سندھ کے تیسرے بڑے شہر سکھر میں 1894ء میں پیدا ہونے والے رحیم داد خان لکھنے پڑھنے کا رجحان رکھتے تھے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم مولوی خدا بخش ابڑو اور مولوی محمد عظیم بھٹی سے حاصل کی تھی۔ ریلوے میں ملازم ہوئے اور یوں کسبِ معاش سے بے فکر ہوگئے۔ مولائی شیدائی نے اپنے پہلے مضمون کی اشاعت کے بعد باقاعدہ قلم تھام لیا اور تصنیف کی طرف آگئے۔ ان کا پہلا مضمون 1934ء میں شایع ہوا تھا جس کا عنوان ممتاز محل تھا۔

    یہ مضمون اس زمانے کے علم و ادب میں ممتاز مولانا دین محمد وفائی کی نظر سے گزرا تو انھوں نے مولائی شیدائی کی حوصلہ افزائی کی اور انھیں باقاعدہ لکھنے کے لیے کہا۔ دین محمد وفائی نے ان کی راہ نمائی اور اصلاح بھی کی۔ یوں رحیم داد خان نے مولائی شیدائی کا قلمی نام اختیار کیا اور اسی نام سے معروف ہوئے۔

    1939ء میں ریلوے سے ریٹائرمنٹ کے بعد مولائی شیدائی نے صحافت کو بطور پیشہ اختیار کیا اور سندھی کے کئی معروف جرائد کی ادارت کی۔

    مولائی شیدائی نے کئی قابلِ ذکر اور اہم موضوعات پر تصانیف یادگار چھوڑی ہیں۔ ان میں جنّتِ سندھ، تاریخِ بلوچستان، تاریخِ تمدنِ سندھ، تاریخِ خاصخیلی، تاریخِ سکھر، تاریخِ بھکر، روضہ سندھ، تاریخِ قلات اور اسی نوع کی علمی و تحقیقی کتب شامل ہیں۔

  • شیخ حماد بن رشید الدین جمالی اور جام تماچی

    شیخ حماد بن رشید الدین جمالی اور جام تماچی

    شیخ حماد بن رشید الدین جمالی سندھ کے اولیا کبار میں سے تھے اور اُچ کے مشہور درویش شیخ جمال کے نواسے تھے۔ موجودہ ٹھٹھہ سے متصل "ساموئی” کے دامن میں ان کی خانقاہ تھی۔

    حدیقتہُ الاولیا میں کا مصنف لکھتا ہے کہ جام تماچی اور اس کے فرزند صلاح الدین کو آپ سے بڑی عقیدت تھی اور وہ روزانہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے۔ جام جونہ نے سازش تیار کی جس کے مطابق خاموشی سے ان دونوں (تماچی اور اس کے بیٹے) کو دہلی بھیج دیا گیا جہاں وہ نظر بند رہے۔

    اتفاق سے بزرگ (شیخ حماد) نے ان دونوں کی غیر حاضری محسوس کر کے انھیں یاد کیا۔ مگر ان کے بارے میں کوئی بھی نہ بتا سکا۔ بعد میں بزرگ نے اپنا خاص آدمی بھیج کر ان کی حویلی سے معلوم کروایا جس پر حویلی والوں نے بصد عجز و بے قراری تمام ماجرا بزرگ کو کہلوا بھیجا جسے سنتے ہی شیخ حماد کو جوش آگیا اور وہ بے قراری سے کھڑے ہو گئے اور اپنے حجرے میں ٹہلنے لگے اور سندھی زبان میں ایک شعر کہنے لگے جس میں جام تماچی کے ساتھ محبت اور اس کے واپس آنے کی تمنّا ظاہر کی گئی تھی۔

    جام جونہ نے جب وہ شعر سنا تو اسے بہت پریشانی ہوئی اور وہ شیخ حماد کے پاس آیا مگر ناامید ہو کر واپس لوٹا۔ اس سندھی شعر کا اردو میں مفہوم کچھ یوں ہے:

    جام جونہ کم عقل ہے (جس نے ایسا کام کیا) اے جام تماچی تُو جلدی پہنچ۔ اللہ تعالیٰ راضی ہوا ہے کہ تمام ٹھٹھہ (جام جونہ سے منحرف ہوکر) تیرا طرف دار ہو گیا ہے۔

    (ممتاز ماہرِ تعلیم و لسانیات، ادیب اور محقق ڈاکٹر نبی بخش بلوچ کی تصنیف سے ایک ورق جس کے اردو مترجم شذرہ سکندری ہیں۔ یہ اقتباس سندھ کی تاریخ کے مشہور کردار اور سیاسی و سماجی حالات کی ایک جھلک ہے)

  • سندھ دھرتی کے مولائی شیدائی کا تذکرہ

    سندھ دھرتی کے مولائی شیدائی کا تذکرہ

    سندھ دھرتی کے مولائی شیدائی نے 12 فروری کو ہمیشہ کے لیے آنکھیں موند لیں اور اس کے ساتھ ہی تحقیق اور تاریخ نویسی کا ایک درخشندہ باب بند ہو گیا۔

    آج سندھی زبان کے اسی معروف ادیب، مؤرخ، صحافی اور مترجم کی برسی ہے۔

    ان کا اصل نام تو میر رحیم داد خان تھا، لیکن مولائی شیدائی سے معروف ہوئے۔ سنِ پیدائش 1894، اور شہر سکھر تھا۔ ان کے والد کا نام میر شیر محمد خان تھا۔ مولائی شیدائی نے ابتدائی تعلیم مولوی خدا بخش ابڑو اور مولوی محمد عظیم بھٹی سے حاصل کی۔

    مطالعے کے شوق نے لکھنے لکھانے پر اُکسایا اور پھر قرطاس و قلم سے ایسے جڑے کہ متعدد کتب کے مصنف اور ہم عصروں میں نام وَر ہوئے۔

    1934 میں مولائی شیدائی کا پہلا مضمون ‘‘ممتاز محل’’ کے عنوان سے شایع ہوا جسے پڑھ کر مولانا دین محمد وفائی نے بہت حوصلہ افزائی کی اور مزید لکھنے کی ترغیت دی۔ اب انھوں نے مولائی شیدائی کے قلمی نام سے باقاعدہ لکھنا شروع کر دیا۔

    رحیم داد خان مولائی شیدائی نے متعدد ملازمتیں کیں اور محکمۂ ٹریفک سے ریلوے میں نوکر ہوئے 1939 میں اس محکمے سے ریٹائر ہو کر صحافت کی طرف آگئے۔

    قابل اور باصلاحیت مولائی شیدائی نے سندھی کے متعدد معروف جرائد کی ادارت کی جن میں کاروان، مہران اور ہلالِ پاکستان شامل ہیں۔ ان سے متعلق تذکروں میں لکھا ہے کہ وہ روزنامہ آزاد میں معاون مدیر بھی رہے اور یہ 1941 کی بات ہے۔

    جنتُ السندھ اور تاریخ تمدن سندھ مولائی شیدائی کی وہ دو تصانیف ہیں جنھیں اہم اور گراں قدر علمی سرمایہ کہا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ مولائی شیدائی نے تاریخِ خاصخیلی، تاریخِ سکھر، تاریخ بھکر، تاریخِ قلات اور متعدد دیگر تصانیف چھوڑی ہیں جو بہت مستند اور قابلِ ذکر ہیں۔

    مولائی شیدائی نے 1987 میں‌ وفات پائی اور ٹیکری آدم شاہ، ضلع سکھر میں انھیں‌ سپردِ خاک کیا گیا۔

  • کس احمق نے آپ کو اس جگہ بٹھایا ہے؟

    کس احمق نے آپ کو اس جگہ بٹھایا ہے؟

    سندھی ادبی بورڈ میں میرا واسطہ سب سے زیادہ پیر حسام الدین راشدی سے پڑا۔

    میری اس نئی ملازمت کو دو چار ہی دن گزرے تھے کہ بورڈ میں ایک صاحب تشریف لائے۔ سوٹ بوٹ میں ملبوس، ہیٹ سَر پر، نفاست پسندی چہرے اور مہرے سے عیاں، پیکرِ شرافت و سیادت، کچھ کتابیں بغل میں دبائے ہوئے میری میز کے پاس آکر کھڑے ہوگئے۔ کتابیں میز پر رکھ کر کہنے لگے جہاں جہاں میں نے نشان ڈالے ہیں براہِ کرم آپ ان اقتباسات کو نقل کردیجیے، مگر غلطی بالکل نہ ہو، تین چار روز میں مجھے یہ کام ختم کرکے دے دیجیے۔

    پیر حسام الدین راشدی کا نام اور ان کے کتب خانے کی شہرت میں نے سب سے پہلے مولوی عبدالحلیم چشتی سے سنی تھی، جب میں مولانا احتشام الحق تھانوی کے یہاں اپنی ہجرت کے شروع زمانے میں پندرہ دن کے لیے ملازم ہوا تھا۔ وہ ہر بات میں کہتے تھے کہ میں نے یہ کتاب راشدی صاحب کے کتب خانے میں دیکھی ہے۔

    میرے ذہن میں راشدی صاحب کی جو تصویر ابھرتی وہ عبا و قبا، جبّہ و دستار اور مریدین کی فوج ظفر موج کے ساتھ ابھرتی تھی، لیکن آج پہلی مرتبہ یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ وہ تو پیرِ طریقتِ جدید ہیں۔

    چند روز کے بعد وہ پھر آئے اور میری میز کے سامنے کھڑے ہوکر کہا،
    "غالباً آپ نے وہ مسودات تیار کر دیے ہوں گے۔”
    میں نے کہا جی ہاں وہ تیار ہیں۔ پھر وہ انہیں عقاب کی نظر سے دیکھتے رہے۔ میں نے ان کے چہرے پر طمانیت کے آثار پائے۔ ان تمام مسودات کا انہوں نے بغور جائزہ لیا اور پھر کہنے لگے۔

    "آپ کو کس احمق نے اس جگہ پر بٹھایا ہے، آپ تو اس قابل ہیں کہ مسودات کو ایڈٹ کریں۔”

    میں نے کہا، "اس جگہ مجھ کو میری قسمت نے بٹھایا ہے۔ آپ چاہیں تو بورڈ میں میری صلاحیتوں کی تصدیق کرکے میری ترقی کی سفارش کریں۔”

    راشدی صاحب نے کہا کہ میں ضرور آپ کی سفارش کروں گا۔ انہوں نے اپنا وعدہ پورا کیا اور دو ماہ کے بعد میری تنخواہ 120 روپے ہوگئی۔

    میں پہلی مرتبہ جمشید روڈ پر کسی سرکاری کام سے ان کے گھر گیا۔ بڑے تپاک سے ملے اور چلتے ہوئے رکشا کرایا پیش کیا۔ ہر چند میں نے انکار کیا، مگر ان کا اصرار بڑھتا گیا۔ آخر میں نے یہ کہہ کر رکھ لیے کہ یہ پیروں کا تبرک ہے، اس لیے انکار کرتے نہیں بنتی۔

    تکلف اور افسری ماتحتی کی حدود ٹوٹی، بے تکلفی اور دوستی ان کی جگہ لیتی گئی۔ یہاں تک کہ ہم دونوں اس منزل میں آگئے کہ جہاں ہماری دوستی علمی دنیا میں مشہور ہوگئی۔ ہم نے دوستی اور افسری و ماتحتی کے خانوں کو دو حصوں میں تقسیم کرلیا تھا جو ایک دوسرے پر اثر انداز نہیں ہوتے تھے۔

    (معروف ادیب، محقق، مترجم اور شاعر اعجاز الحق قدوسی کی یادداشتوں پر مبنی کتاب سے ایک ورق)