Tag: سندھی ادیب

  • لعل چند امر ڈنومل:‌ سندھی زبان و ادب کا اہم نام

    لعل چند امر ڈنومل:‌ سندھی زبان و ادب کا اہم نام

    سندھی افسانوی ادب میں اپنی تخلیقات کی بدولت نام و مقام بنانے والے ادیبوں‌ میں‌ لعل چند امر ڈنومل بھی شامل ہیں جو تقسیمِ ہند کے بعد بھارت چلے گئے تھے۔ لعل چند امر ڈنومل کو سندھی زبان و ادب میں ناول نگار، مؤرخ، ڈراما نویس، سیرت و مضمون نگار کی حیثیت سے اہمیت حاصل ہے۔ وہ 62 سے زائد کتابوں کے مصنّف تھے۔ لعل چند امر ڈنومل 18 اپریل 1954ء کو بھارت کے شہر بمبئی میں چل بسے تھے۔ ان کی وصیت تھی کہ ان کی راکھ کو پاکستان میں‌ حیدرآباد سندھ کے قریب دریائے سندھ میں بہایا جائے جس پر عمل کیا گیا۔

    لعل چند امر ڈنومل 25 جنوری 1885ء کو اس وقت بمبئی پریزیڈنسی میں‌ شامل حیدرآباد شہر میں‌ پیدا ہوئے۔ ان کے والد دیوان امر ڈنومل حیدرآباد میں مختار کار تھے۔ لعل چند کی ابتدائی گھر پر ہوئی اور بعد میں وہ ہیرا نند اکیڈمی میں‌ داخل کیے گئے۔ تعلیمی مراحل طے کرنے کے بعد 1903ء میں لعل چند امر ڈنومل سندھ مدرسۃُ الاسلام میں استاد مقرر ہوگئے۔ لعل چند امر ڈنومل کے بارے میں‌ مشہور ہے کہ وہ ایک صوفی منش تھے اور وہ قوم یا ذات پات اور رنگ و نسل کی تفریق تو کجا مذہبی عصبیت سے بھی دور تھے۔ وہ انسانیت پر یقین رکھنے والے ایسے قلم کار تھے جسے اپنی جائے پیدائش اور سندھ سے بہت محبّت تھی۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کی وصیت تھی کہ بعد از مرگ ان کی راکھ حیدرآباد کے قریب دریائے سندھ میں بہائی جائے۔

    آج لعل چند امر ڈنومل کے نام اور سندھی زبان و ادب کے لیے ان کی خدمات اور کاوشو‌ں سے کون واقف ہے؟‌ مگر سندھ کی تاریخ‌ بالخصوص سندھی ادب سے متعلق کتب میں لعل چند امر ڈنومل کے بارے میں‌ ضرور پڑھنے کو ملے گا۔ لعل چند امر ڈنومل کا فلسفۂ حیات اور ان کے خیالات انھیں اس دور کے ہم عصروں‌ سے ممتاز کرتے ہیں کیوں‌ کہ وہ اپنے دور کے تمام مذاہب کو انسانیت کی میراث اور معاشرتی سدھار کا وسیلہ تصوّر کرتے تھے۔ اس ادیب نے کسی قسم کی مذہبی تفریق اور اونچ نیچ کو قبول نہ کیا اور اپنے عمل سے ثابت کیا کہ وہ ایک غیرمتعصب اور پاکیزہ خیالات کے حامل شخص ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لعل چند امر ڈنومل نے پیغمبر اسلام کی سوانح اور سیرت پر بھی کتاب لکھی تھی۔

    فکشن کی بات کی جائے تو لعل چند امر ڈنومل نے فکشن کی ہر صنف پر کتابیں لکھیں جو بہت اہم ہیں۔ ان کے طبع زاد ناولوں میں چوتھ جو چنڈ (چودھویں کا چاند)، سچ تے صدقے (سچائی پر قربان)، کشنی کے کشٹ و دیگر شامل ہیں۔ لعل چند امر ڈنومل نے دوسری زبانوں سے سندھی میں تراجم بھی کیے جو شایع بھی ہوئے۔ سندھ کے صوفی شاعر شاہ عبد اللطیف بھٹائی اور سچل سرمست کی شخصیت اور شاعری پر بھی لعل چند نے کتابیں لکھیں۔ ان کے سندھی زبان میں مضامین کو بیرنگی باغ جو گل کے عنوان سے کتاب میں‌ بہم کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ دیگر کتابوں میں ہندوستان جی تاریخ، حیدرآباد سندھ، میراں، شاھ جا کی سُر، سامی جا سلوک، رام بادشاہ، جیل جی ڈائری، سندھی بولی جو نچوڑ وغیرہ شامل ہیں۔

  • مزاح گو شاعر اور نثر نگار شمسُ الدّین بلبل کا تذکرہ

    مزاح گو شاعر اور نثر نگار شمسُ الدّین بلبل کا تذکرہ

    تقسیمِ ہند سے قبل سندھ دھرتی کی عالم فاضل شخصیات، مذہب و ملّت، ادب اور فنون میں ممتاز اور نامی گرامی لوگوں کا تذکرہ ہو تو ان میں شمسُ الدّین بلبل کا نام ضرور لیا جائے گا جو ادب اور صحافت میں نمایاں مقام رکھتے تھے۔ آج ان کا یومِ وفات ہے۔

    شمسُ الدّین بلبل سے عام قارئین ہی نہیں، علم و ادب سے شغف رکھنے والے بھی شاید ہی واقف ہوں۔ آئیے ان کی زندگی اور ادبی و صحافتی خدمات پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

    شمس الدّین بلبل کا مطالعہ بہت وسیع تھا۔ ان کے ذاتی کتب خانے میں سندھی، فارسی، اردو اور عربی زبانوں میں ہزاروں کتب موجود تھیں۔

    شمسُ الدّین بلبل 21 فروری 1857ء کو میہڑ میں پیدا ہوئے تھے جو سندھ کے مشہور ضلع دادو کا علاقہ تھا۔ 1919ء ان کی زندگی کا آخری سال ثابت ہوا۔ وہ 13 ستمبر کو اس دارِ فانی سے کوچ کرگئے۔ شمسُ الدّین نے اس دور کے دستور کے مطابق فارسی، عربی اور اردو زبان سیکھی۔ میہڑ سے ابتدائی تعلیم مکمل کرکے 1889ء میں حسن علی آفندی جیسے نادرِ روزگار کے پاس کراچی پہنچے اور انھیں اپنی قابلیت سے متاثر کرنے میں کام یاب ہوئے اور ان کی ادارت میں ایک ہفتہ وار اخبار معاون جاری ہوا۔ اس اخبار کی وساطت سے جناب بلبل نے سندھ مدرسۃُ الاسلام اور سندھ محمڈن ایسوسی ایشن کے لیے مؤثر خدمات انجام دیں اور حسن علی آفندی کا دست و بازو ثابت ہوئے۔ دکن ایگری کلچر ریلیف ایکٹ کے سلسلے میں انھوں نے حسن علی آفندی کی بڑی مدد کی، اس کے بعد ہی سندھ میں زمین داری بچاؤ کے لیے دکن ریلیف ایکٹ کا اطلاق ہوسکا تھا۔

    جب حسن علی آفندی نے اس دنیا سے منھ موڑ لیا تو شمس الدین بلبل نے کراچی چھوڑ دیا اور اپنے آبائی قصبے میہڑ آگئے جہاں وہ گھر سے اخبار کی ادارت اور تدوین کا کام انجام دینے لگے۔ بعد میں کراچی گزٹ کے ایڈیٹر ہوگئے، لیکن وہ ابتدا ہی میں بند ہو گیا۔ اسی طرح لاڑکانہ کے اخبار خیر خواہ کے مدیر رہے اور روزنامہ الحقّ، سکھر کی ادارت کے فرائض بھی انجام دیے۔ بعد میں سکھر ہی کے مشہور روزنامہ آفتاب کے مستقل ایڈیٹر بنے۔

    شمس الدین بلبل نے سب سے پہلے طنز و مزاح کو سندھی شاعری میں ذریعۂ اظہار بنایا۔ وہ خوش فکر شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ صاحبِ طرز نثر نگار بھی تھے۔ ان کی تحریریں ظرافت آمیز اور پُرمذاق ہوتی تھیں، اور اخبار و رسائل میں ان کے مضامین پڑھنے والوں میں خاصے مقبول تھے۔ شمس الدّین بلبل نے سندھی زبان کی بڑی اصلاح کی اور اپنے مضامین کے ساتھ کئی تصانیف سے سندھی ادب کو مالا مال کیا۔

    1906ء میں بلبل صاحب نے اپنے آبائی علاقہ میہڑ میں مدرسۃُ الاسلام کی بنیاد رکھی جو ان کی زندگی ہی میں اے وی اسکول کے درجے تک پہنچ چکا تھا۔ 1907ء میں جب آل انڈیا ایجوکیشنل کانفرنس کا اجلاس کراچی میں منعقد ہوا اور اس میں فارسی زبان کو سرکاری محکموں میں رائج کرنے کی قرارداد پیش ہوئی تو انھوں نے اس کی تائید میں تقریر کی جسے فصاحت و بلاغت کا بہترین نمونہ کہا گیا۔ اس تقریر پر بلبل نے ہندوستان کے بڑے بڑے اکابرین سے داد اور ستائش سمیٹی جب کہ نواب وقارُ الملک نے انھیں خاص طور پر داد دی اور بہت تعریف کی تھی۔

    شمس الدّین بلبل مزاح گو شاعر تھے، اور فارسی اور سندھی زبان میں کلام کہتے تھے، لیکن ان کی نثری تصانیف کی تعداد زیادہ ہے۔ ان کی چند تصانیف میں بہارِ عشق کے نام سے دیوانِ بلبل (سندھی)، عقل اور تہذیب، مسلمان اور تعلیم، قرض جو مرض، صد پند سود مند، دیوان بلبل (فارسی)، آئینہ ظرافت اور گنجِ معرفت شامل ہیں۔

  • سندھی زبان و ادب میں نام وَر ڈاکٹر تنویر عبّاسی کی برسی

    سندھی زبان و ادب میں نام وَر ڈاکٹر تنویر عبّاسی کی برسی

    سندھ کے مشہور صوفی بزرگ اور شاعر شاہ عبدُاللطیف بھٹائی پر تحقیقی کام اور متعدد دیگر شخصیات پر تنقیدی کتب نے ڈاکٹر تنویر عباسی کو سندھی زبان و ادب میں منفرد و ممتاز کیا۔

    25 نومبر 1999ء کو وفات پانے والے ڈاکٹر تنویر عباسی شاعر، ادیب، محقّق اور ڈرامہ نگار بھی تھے۔

    انھوں نے 7 اکتوبر 1934ء کو سندھ میں گوٹھ سوبھوڈیرو، ضلع خیرپور میرس کے ایک گھرانے میں آنکھ کھولی۔ تنویر عباسی کا اصل نام نورُ النّبی تھا۔ انھوں نے سندھی زبان و ادب میں اپنے علمی ذوق و شوق اور مطالعے کے ساتھ اپنی شاعری سے باذوق حلقوں کی توجہ حاصل کی اور اسی عرصے میں تحقیقی مضامین کی اشاعت نے علمی و ادبی میدان میں انھیں سندھی زبان کے نثر نگار کی حیثیت سے متعارف کروایا۔ بعد کے برسوں میں انھیں اپنی تصانیف کی بدولت پہچان ملی۔

    تنویر عبّاسی کی تصانیف میں تنویر چئے (شاعری) ھئ دھرتی (شاعری)، ترورا (مضامین)، نانک یوسف جو کلام (تنقید)، کلام خوش خیر محمد ہیسباٹی (تنقید)، سج تری ہیٹھاں (شاعری)، شاہ لطیف جی شاعری (لطیفیات)، بارانا بول (بچوں کا ادب)
    جے ماریانہ موت (ناول) شامل ہیں۔

    حکومتِ پاکستان نے بعد از مرگ ان کے لیے صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی کا اعلان کیا تھا۔ تنویر عبّاسی اسلام آباد کے مرکزی قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • علم و ادب، فکر و عمل میں یگانہ محمد ابراہیم جویو کا تذکرہ

    علم و ادب، فکر و عمل میں یگانہ محمد ابراہیم جویو کا تذکرہ

    محمد ابراہیم جویو ایک مفکّر، دانش وَر، ادب اور تعلیم کے شعبوں‌ کی وہ ممتاز شخصیت ہیں‌ جو سیاست اور ادب سے وابستہ شخصیات کی نظر میں یکساں طور پر قابلِ‌ احترام تھے اور انھیں‌ بہت پذیرائی دی گئی۔

    وہ سندھی زبان کے ممتاز ادیب، مترجم، معلّم اور دانش وَر تھے جن کے فکر و فلسفے کا سندھ میں سیاسی، سماجی، علمی اور ادبی حلقوں سے وابستہ ہر خاص و عام متاثر ہوا۔ ابراہیم جویو 9 نومبر 2017ء کو اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔

    انھوں نے تقسیم سے قبل سندھ کے نوجوانوں کو انگریز راج اور قیامِ پاکستان کے بعد آمریت اور استحصال کے خلاف فکری اور سائنسی نظریاتی بنیادیں فراہم کیں۔ زندگی کی 102 بہاریں دیکھنے والے محمد ابراہیم جویو نے حیدرآباد میں وفات پائی۔

    سندھ سے والہانہ لگاؤ اور محبّت کے ساتھ محمد ابراہیم جویو نے زرخیز ذہن اور روشن فکر پائی تھی جس سے ان میں وہ سیاسی شعور اور ذہنی پختگی پیدا ہوئی کہ کم عمری ہی میں وہ سندھ کی ایک نمایاں شخصیت بن گئے۔ انھوں نے 1941ء میں جب ان کی عمر صرف 26 برس تھی، ایک مختصر کتاب "سیو سندھ، سیو دی کانٹینینٹ فرام فیوڈل لارڈز، کیپیٹلسٹس اینڈ دیئر کمیونل ازم” کے نام سے لکھی۔

    اس وقت انھیں سندھ مدرسۃُ الاسلام میں نوکری ملی تھی۔ اس کتاب نے اُس وقت کے حکم رانوں کو برہم کردیا اور وہ ملازمت سے نکالے گئے، لیکن جلد ہی ٹھٹھہ کے میونسپل ہائی اسکول میں ٹیچر کی ملازمت مل گئی۔

    محمد ابراہیم جویو کی مذکورہ کتاب سندھ کے دانش ور اور تعلیمی حلقوں میں ان کی وجہِ شہرت بنی۔ بعد کے برسوں میں انھوں نے سیکڑوں مضامین سپردِ‌ قلم کیے، ان کی کتابیں‌ شایع ہوئیں اور ادبی اور ثقافتی مقالے اور کتابچے جاری ہوئے۔ وہ سندھ اور پاکستان میں ترقی پسند ادبی تحریک کے بھی سرگرم کارکن تھے۔

    محمد ابراہیم جویو نے 1915ء میں‌ کوٹری کے قریب ایک چھوٹے سے گاؤں میں آنکھ کھولی تھی۔ ابتدائی تعلیم اپنے آبائی گاؤں کے علاوہ سن نامی چھوٹے سے قصبے میں حاصل کی اور کراچی کے سندھ مدرسۃُ الاسلام سے میٹرک کیا۔ 1938ء میں انھوں نے کراچی کے ڈی جے کالج سے بی اے کیا۔ بعد ازاں مزید تعلیم کے لیے بمبئی چلے گئے۔

    تقسیم کے بعد محمد ابراہیم جویو اسکول ٹیچنگ کے ساتھ سندھی ادبی بورڈ کے سیکریٹری رہے اور بعد میں سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کے چیئرمین بنائے گئے۔

    انھیں پاکستان اکیڈمی آف لیٹرز کی جانب سے ادبی ایوارڈ سے نوازا گیا جب کہ متعدد جامعات کی جانب سے اعزازی ڈگریاں دی گئیں۔

    محمد ابراہیم جویو سندھ کی سیاسی تحریکوں میں پیش پیش رہے اور قوم پرست لیڈر جی ایم سیّد اور رسول بخش پلیجو کے علاوہ دیگر کے ساتھ مل کر سندھ کا مقدمہ لڑتے رہے اور ادبی محاذوں پر تحریکوں کی قیادت کی۔

    انھوں نے بے شمار مغربی مصنّفوں کا کام اور ان کی تخلیقات سندھی زبان میں ترجمہ کرکے ادب، فلسفے، سیاسیات اور سماجیات کو فروغ دینے میں اپنا حصّہ ڈالا۔ وہ پچاس سے زائد کتابوں کے مصنّف تھے جن میں‌ بین الاقوامی شہرت یافتہ ادیبوں اور مصنّفین کی کتب کے تراجم بھی شامل ہیں۔

  • وادیٔ مہران کے نام وَر ادیب اور صحافی مولائی شیدائی کی برسی

    وادیٔ مہران کے نام وَر ادیب اور صحافی مولائی شیدائی کی برسی

    میر رحیم داد خان کو جہانِ علم و ادب میں مولائی شیدائی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ وہ 12 فروری 1978ء کو وفات پاگئے تھے۔ مولائی شیدائی سندھی زبان کے معروف ادیب، مؤرخ، مترجم اور صحافی تھے۔

    سندھ کے تیسرے بڑے شہر سکھر میں 1894ء میں پیدا ہونے والے رحیم داد خان لکھنے پڑھنے کا رجحان رکھتے تھے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم مولوی خدا بخش ابڑو اور مولوی محمد عظیم بھٹی سے حاصل کی تھی۔ ریلوے میں ملازم ہوئے اور یوں کسبِ معاش سے بے فکر ہوگئے۔ مولائی شیدائی نے اپنے پہلے مضمون کی اشاعت کے بعد باقاعدہ قلم تھام لیا اور تصنیف کی طرف آگئے۔ ان کا پہلا مضمون 1934ء میں شایع ہوا تھا جس کا عنوان ممتاز محل تھا۔

    یہ مضمون اس زمانے کے علم و ادب میں ممتاز مولانا دین محمد وفائی کی نظر سے گزرا تو انھوں نے مولائی شیدائی کی حوصلہ افزائی کی اور انھیں باقاعدہ لکھنے کے لیے کہا۔ دین محمد وفائی نے ان کی راہ نمائی اور اصلاح بھی کی۔ یوں رحیم داد خان نے مولائی شیدائی کا قلمی نام اختیار کیا اور اسی نام سے معروف ہوئے۔

    1939ء میں ریلوے سے ریٹائرمنٹ کے بعد مولائی شیدائی نے صحافت کو بطور پیشہ اختیار کیا اور سندھی کے کئی معروف جرائد کی ادارت کی۔

    مولائی شیدائی نے کئی قابلِ ذکر اور اہم موضوعات پر تصانیف یادگار چھوڑی ہیں۔ ان میں جنّتِ سندھ، تاریخِ بلوچستان، تاریخِ تمدنِ سندھ، تاریخِ خاصخیلی، تاریخِ سکھر، تاریخِ بھکر، روضہ سندھ، تاریخِ قلات اور اسی نوع کی علمی و تحقیقی کتب شامل ہیں۔

  • عالمِ دین، محقق اور مصنّف علاّمہ غلام مصطفٰی قاسمی کی برسی

    عالمِ دین، محقق اور مصنّف علاّمہ غلام مصطفٰی قاسمی کی برسی

    آج علّامہ غلام مصطفٰی قاسمی کا یومِ‌ وفات ہے جو پاکستان کے نام ور عالمِ دین، محقق اور مصنّف تھے۔ 9 دسمبر 2003ء کو وفات پانے والے علاّمہ غلام مصطفٰی قاسمی کا تعلق سندھ کے مشہور شہر لاڑکانہ سے تھا جہاں وہ 24 جون 1924ء کو پیدا ہوئے تھے۔

    ابتدائی تعلیم مولانا فتح محمد سیرانی اور مولانا خوشی محمد میرو خانی سے حاصل کی اور درسِ نظامی مکمل کیا جس کے بعد انھیں مولانا عبیداللہ سندھی اور مولانا حسین احمد مدنی سے اکتسابِ علم کا موقع ملا۔ علاّمہ غلام مصطفٰی قاسمی نے حدیث، فقہ، تفسیر اور منطق پر عبور حاصل کیا اور تعلیم مکمل کرنے کے بعد سندھ مسلم کالج کراچی، سندھ یونیورسٹی اور مدرسہ مظہر العلوم کراچی میں تدریس کے فرائض انجام دیے۔

    وہ شاہ ولی اللہ اکیڈمی حیدر آباد کے ڈائریکٹر اور سندھی ادبی بورڈ جامشورو کے چیئرمین بھی رہے۔ ان کی تحقیقی اور علمی تصانیف کی فہرست میں ‘مفید الطلبہ’ بھی شامل ہے جو انھوں نے اپنے زمانۂ طالب علمی میں علم منطق پر لکھی تھی۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ اس کتاب مختلف مدارس کے نصاب میں شامل کیا گیا۔

    علاّمہ غلام مصطفٰی قاسمی کی تصانیف میں سیرتِ رسول اور قرآن پاک کی چند سورتوں کی تفسیر بھی شامل ہے۔ عام علوم اور علمی و تحقیقی کام کی بات کی جائے تو انھوں نے سندھی کی بنیادی لغت اور بنیادی کاروباری لغت بھی مرتب کی۔

    حکومتِ پاکستان نے علاّمہ غلام مصطفٰی قاسمی کو ستارۂ امتیاز عطا کیا تھا۔

    علاّمہ غلام مصطفٰی قاسمی کو حیدرآباد میں غلام نبی کلہوڑو کے مزار کے احاطے میں سپردِ خاک کیا گیا۔ ان کی حیات و خدمات پر سندھی اور اردو میں کتابیں شایع ہو چکی ہیں اور مقالے لکھے گئے ہیں۔

  • سندھ دھرتی کے مولائی شیدائی کا تذکرہ

    سندھ دھرتی کے مولائی شیدائی کا تذکرہ

    سندھ دھرتی کے مولائی شیدائی نے 12 فروری کو ہمیشہ کے لیے آنکھیں موند لیں اور اس کے ساتھ ہی تحقیق اور تاریخ نویسی کا ایک درخشندہ باب بند ہو گیا۔

    آج سندھی زبان کے اسی معروف ادیب، مؤرخ، صحافی اور مترجم کی برسی ہے۔

    ان کا اصل نام تو میر رحیم داد خان تھا، لیکن مولائی شیدائی سے معروف ہوئے۔ سنِ پیدائش 1894، اور شہر سکھر تھا۔ ان کے والد کا نام میر شیر محمد خان تھا۔ مولائی شیدائی نے ابتدائی تعلیم مولوی خدا بخش ابڑو اور مولوی محمد عظیم بھٹی سے حاصل کی۔

    مطالعے کے شوق نے لکھنے لکھانے پر اُکسایا اور پھر قرطاس و قلم سے ایسے جڑے کہ متعدد کتب کے مصنف اور ہم عصروں میں نام وَر ہوئے۔

    1934 میں مولائی شیدائی کا پہلا مضمون ‘‘ممتاز محل’’ کے عنوان سے شایع ہوا جسے پڑھ کر مولانا دین محمد وفائی نے بہت حوصلہ افزائی کی اور مزید لکھنے کی ترغیت دی۔ اب انھوں نے مولائی شیدائی کے قلمی نام سے باقاعدہ لکھنا شروع کر دیا۔

    رحیم داد خان مولائی شیدائی نے متعدد ملازمتیں کیں اور محکمۂ ٹریفک سے ریلوے میں نوکر ہوئے 1939 میں اس محکمے سے ریٹائر ہو کر صحافت کی طرف آگئے۔

    قابل اور باصلاحیت مولائی شیدائی نے سندھی کے متعدد معروف جرائد کی ادارت کی جن میں کاروان، مہران اور ہلالِ پاکستان شامل ہیں۔ ان سے متعلق تذکروں میں لکھا ہے کہ وہ روزنامہ آزاد میں معاون مدیر بھی رہے اور یہ 1941 کی بات ہے۔

    جنتُ السندھ اور تاریخ تمدن سندھ مولائی شیدائی کی وہ دو تصانیف ہیں جنھیں اہم اور گراں قدر علمی سرمایہ کہا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ مولائی شیدائی نے تاریخِ خاصخیلی، تاریخِ سکھر، تاریخ بھکر، تاریخِ قلات اور متعدد دیگر تصانیف چھوڑی ہیں جو بہت مستند اور قابلِ ذکر ہیں۔

    مولائی شیدائی نے 1987 میں‌ وفات پائی اور ٹیکری آدم شاہ، ضلع سکھر میں انھیں‌ سپردِ خاک کیا گیا۔