تاہم اب سوشل میڈیا پر جاری بیان میں نصیر الدین شاہ نے اعتراف کیا کہ اس معاملے پر میں غلط تھا، پاکستان میں سندھی زبان نہ بولے جانے سے متعلق میرا بیان غلط تھا۔
نصیر الدین شاہ نے کہا تھا کہ مراٹھی اور فارسی کےدرمیان تعلق کےبیان کو بھی غلط سمجھا گیا، میں نےکہا تھا بہت سے مراٹھی الفاظ فارسی زبان کے ہیں، میری نیت مراٹھی زبان کو نیچا دکھانا نہیں تھی ،میرا مقصد ثقافتی تنوع کو بیان کرنا تھا۔
پاکستانی مشہور شوبز شخصیات یاسر نواز اور منشا پاشا نے دانش نواز کے ساتھ مل کر نصیر الدین شاہ کے پاکستان میں سندھی زبان کے بارے میں تبصرے کا مزاحیہ انداز میں جواب بھی دیا تھا۔
کراچی : ڈی جے سائنس کالج کی عمارت میں سندھی زبان پڑھائی جائے گی ، جو شخص سندھی زبان سیکھنا چاہے وہ کلاسز لے سکے گا۔
تفصیلات کے مطابق محکمہ تعلیم سندھ کی جانب سے سندھی زبان پڑھانے کی تیاری شروع کردی گئی ، ڈی جے سائنس کالج کی عمارت میں سندھی زبان پڑھائی جائے گی۔
محکمہ تعلیم سندھ کا کہنا ہے کہ ڈی جے کالج کے دو کمرے کئی سالوں سے بند پڑے تھے،ان کمروں کی تزین و آرائش کا کام کرانے کے بعد کلاسز شروع کی جائے گی، جو شخص سندھی زبان سیکھنا چاہے وہ کلاسز لے سکے گا۔
خیال رہے گذشتہ ماہ محکمہ تعلیم سندھ کی جانب سے ایک بار پھر سندھی زبان کو لازمی مضمون کے طور پر شامل کرنے پر زور دیا گیا تھا۔
سندھی زبان میں بنائی گئی پہلی پاکستانی شارٹ فلم ’اے ٹرین کراسز دی ڈیزرٹ‘ کو روس میں منعقد ہونے والے عالمی میلے میں نمائش کے لیے منتخب کیا گیا ہے۔
یہ ایک شارٹ فلم ہے جس کا دورانیہ بیس منٹ ہے، فلم کی کہانی دو بھائیوں کی زندگی کے گرد گھومتی ہے، جن میں سے ایک کو کینسر لاحق ہو جاتا ہے، دن بہ دن اس کی طبیعت بگڑتی چلی جاتی ہے، اور دوسرا بھائی اس کی جان بچانے کے لیے جدوجہد کرتا ہے۔
اس فلم کی نمائش اس سے قبل ترکی اور امریکا میں بھی کی جا چکی ہے، مجموعی طور پر اسے اب تک 6 فلم فیسٹیولز میں نمائش کے لیے پیش کیا جا چکا ہے۔
فیچر فلموں کی طرح شارٹ فلمز بھی بہت شوق سے دیکھی جاتی ہیں، نیٹ فلیکس پر بھی آپ کو کئی شارٹ فلمیں نظر آئیں گی، کیوں کہ یہ مختصر وقت میں نہایت طاقت ور پیغام اور پریزنٹیشن پر مبنی ہوتی ہیں، مختصر فلم کم دورانیے کی وجہ سے فلم ساز کے لیے ایک چیلنج بھی ہوتا ہے۔
یہ مختصر فلم راہول اعجاز نے لکھی ہے، وہ ہی اس کے ڈائریکٹر بھی ہیں، یہ فلم راہول کی پہلی باقاعدہ شارٹ فلم ہے جسے کئی ممالک میں بے پناہ پذیرائی مل رہی ہے، رائٹر ڈائریکٹر راہول اعجاز نے بتایا کہ اس فلم کو لکھنے اور بنانے میں انھیں 6 ماہ کا عرصہ لگا۔ اس فلم کو گوئتے انسٹیٹیوٹ پاکستان نے پروڈیوس کیا ہے، اسسٹنٹ ڈائریکٹر اقرا رشید مہر ہیں، جب کہ سنیماٹوگرافی علی ستار نے تیار کی ہے۔
انھوں نے اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں بتایا کہ تین سال پہلے ان کے کزن کو کینسر لاحق ہوا تھا، جنھیں دیکھ کر انھوں نے یہ شارٹ فلم لکھی، تاہم انھوں نے واضح کیا ہے کہ کہانی حقیقی نہیں ہے، لیکن حقیقی کرداروں پر مبنی ضرور ہے، حقیقی زندگی میں تو ہم کزن ہیں لیکن کہانی میں میں نے دونوں کو بھائی بنا کر پیش کیا۔
راہول اعجاز نے بتایا کہ انھوں نے خود کبھی اداکاری نہیں کی، اور یہ کہ وہ اچھے ایکٹر نہیں ہیں، تاہم وہ فوٹو گرافر رہے ہیں، صحافی رہے ہیں اور فلم کریٹک بھی۔
ان کو جو اپنے کزن کی بیماری کا تجربہ ہوا تھا اسے اپنے اندر ایک شکل دیتے ہوئے انھیں ڈیڑھ سال کا عرصہ لگا، پھر ڈیڑھ مہینا فلم کے اسکرپٹ کو سوچنے اور تیار کرنے میں لگا، پھر ایک دن کی شوٹ تھی اور پھر کرونا وبا کی وجہ سے اس کی ایڈیٹنگ میں 4 ماہ کا عرصہ لگا۔
انھوں نے بتایا کہ یہ کردار اور پرفارمنس ہے جس کی وجہ سے اس فلم کو بہت پسند کیا جا رہا ہے، اگر میرے پاس ان کیریکٹرز کو اچھے سے سمجھنے والے اداکار نہ ہوتے، تو شاید یہ فلم اتنی کامیاب نہ ہوتی، اس لیے سارا کریڈٹ جاتا ہے طارق راجہ اور نادر حسین کو۔
راہول اعجاز کا کہنا تھا کہ انھوں نے یہ فلم اپنے کزن کے نام منسوب کی ہے، اور سندھی زبان میں اسے بنانے کا ایک سبب یہ تھا کہ چوں کہ میں سندھی ہوں، تو اس کا اصل جوہر سندھی ہی میں نکل کر آ رہا تھا، اور مجھے اسے اسکرین پر منتقل کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہوا، پھر یہ نکتہ سامنے تھا کہ سندھی زبان میں بھی تو کوئی کچھ بنائے، تو میں نے سندھی سنیما کا بیج بویا ہے۔
انھوں نے کہا کہ میں نے بس اسے فیسٹیول میں بھیجا اور وہ منتخب ہو گئی، اس میں ایک مشہور مصری شاعر اشرف ابو الیزید (اشرف ڈالی) کی دو نظمیں میں نے سندھی میں ترجمہ کر کے شامل کی ہیں، انھوں نے ہی مجھے مشورہ دیا تھا روسی فیسیٹول میں بھیجنے کا، کیوں کہ یہ ایک بڑا فیسٹیول ہے، اور وہاں پوری دنیا سے مسلم ممالک سے فلمیں نمائش کے لیے آتی ہیں، تو کوئی تیس چالیس فلموں میں پاکستان سے یہ واحد فلم ہے جو شامل کی گئی ہے۔
راہول اعجاز نے بتایا کہ اب ان کا اگلا قدم سندھی زبان کی مکمل فیچر فلم ہے، جس کا اسکرپٹ بھی وہ لکھ چکے ہیں، یہ فلم بننے کے بعد سنیما پر ریلیز کی جائے گی، یہ فلم سندھی ثقافت سے متعلق ہے اور شاہ عبدالطیف بھٹائی کی شاعری سے متاثر ہو کر لکھی ہے۔
اکیسویں صدی کے آغاز پر دنیا نے مادری زبانوں کا دن عالمی سطح پر منانا شروع کیا تھا۔
ہر سال 21 فروری (آج) کو یہ دن اس عزم اور جذبے کے ساتھ منایا جاتا ہے کہ حکومتیں زبانوں کے پھلنے پھولنے کے لیے تمام ضروری اقدامات کریں گی اور قوموں کو یاد رکھنا ہو گا کہ زبانیں ان کا فخر اور بیش قیمت سرمایہ ہیں۔ یوں یہ دن اس حوالے سے یاد دہانی کے طور پر ہر سال منایا جاتا ہے۔
زندہ معاشروں میں اس روز مذاکرے، مباحث منعقد ہوتے ہیں اور زبانوں سے متعلق علمی و تحقیقی کاموں کو آگے بڑھانے پر زور دیا جاتا ہے۔ دانش ور اور ماہرینِ لسانیات کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ صاحبانِ اختیار کو مادری زبانوں کے تحفظ، فروغ اور احیا کی طرف متوجہ کریں۔
آج پاکستان میں بھی یہ دن منایا جارہا ہے۔ قومی زبان اردو کے علاوہ ہمارے ملک کے تمام صوبوں کی اپنی زبان اور مقامی بولیاں ہیں جو ثقافتی تنوع اور تہذیب و روایت کی رنگارنگی کا مظہر ہیں۔
مادری زبان دراصل ہماری پیدائشی بولی، گھر اور خاندان میں رابطے کا ذریعہ بننے والی زبان ہوتی ہے۔ پاکستان میں اردو زبان کے بعد مختلف بولیاں اور چھوٹی زبانیں بھی رابطے کا ذریعہ ہیں جو مقامی اور ثقافتی لب و لہجے میں گندھی ہوئی ہیں۔
اسی طرح دنیا کے دیگر ملکوں میں بھی مقامی سطح پر مختلف زبانیں اور بولیاں سمجھی اور بولی جاتی ہیں۔ تاہم کئی زبانیں اور مقامی بولیاں ابھی متروک ہوتی جارہی ہیں۔ اقوام متحدہ نے رکن ممالک پر زور دیا ہے کہ زبانوں کا تحفظ اور رکن ممالک ان کو فروغ دینے کی کوشش کریں تاکہ دنیا کا عظیم ثقافتی اور لسانی ورثہ محفوظ رہے۔ یاد رہے کہ کسی قوم کی ثقافت، تاریخ، فن، اور ادب اس کی مادری زبان کا مرہون منت ہوتا ہے اور زبانوں کے متروک ہونے سے تاریخ و ثقافت مٹ سکتی ہے۔
ماہرین کے مطابق پاکستان میں مختلف لہجوں میں لگ بھگ 74 زبانیں بولی جاتی ہیں جن میں اردو کے علاوہ پنجابی، سندھی، سرائیکی، پشتو، بلوچی، ہندکو، براہوی، میمنی، مارواڑی، پہاڑی، کشمیری، گجراتی، بلتی، دری اور بہت سی دوسری بولیاں قبائل اور برادریوں کے افراد میں رابطے کا ذریعہ ہیں۔
سندھ کے چند اہم، جید اور باکمال تاریخ نویسوں کی بات کی جائے تو ان میں کئی ایسے نام ہیں جن سے ہماری نئی نسل ناواقف ہے اور یہ بدقسمتی ہی ہے کہ تاریخ جیسے اہم ترین، حساس اور وسیع موضوع پر ہمارے ہاں وہ توجہ نہیں دی جارہی جو اس کا مقتضا ہے۔
سماجی اور معاشرتی علوم میں تاریخ کا مضمون بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ اسے مختلف زمروں میں تقسیم کیا گیا ہے اور یہ وہ علم ہے جو اقوامِ عالم میں ایک دوسرے کے لیے رشک و حسد کے جذبات ابھارتا اور موازنے و مقابلے پر اکساتا ہے۔
کسی بھی دور کا تاریخ نویس اگر بددیانتی اور تعصب و رقابت کے جذبے کو کچل کر بساط بھر کوشش اور تمام ضروری تحقیق کے ساتھ حالات و واقعات کو سامنے لائے اور کسی عہد کا ذکر کرے تو اس سے آنے والوں کو بہت کچھ سیکھنے اور سمجھنے میں مدد ملتی ہے اور ان کے لیے اپنی سمت و منزل کا تعین کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ دوسری صورت میں مؤرخ کی بدنیتی اور تنگ نظری کسی بھی خطے کے باشندوں کو گم راہ کرنے اور ان میں نفرت و عناد کا سبب بن سکتی ہے۔
سندھ دھرتی نے ہزاروں سال کے دوران لاتعداد تہذیبوں اور معاشروں کے رنگ دیکھے اور نجانے یہ خطہ آسمان سے اترنے والی کتنی ہی آفات اور مصیبتوں کا گواہ ہے جن میں کچھ کا تذکرہ ہمیں تواریخ میں ملتا ہے جب کہ بہت کچھ رقم نہیں کیا جاسکا۔ ہم یہاں ان چند مؤرخین کی یاد تازہ کر رہے ہیں جنھوں نے اپنی ذہانت، علمیت اور قابلیت سے کام لے کر سندھ کی ہزاروں سال پرانی تہذیبوں اور ثقافتوں کے بارے میں مواد اکٹھا کیا اور اسے قطع و برید سے گزار کر نہایت دیانت داری اور غیرجانب داری سے ہمارے سامنے رکھا۔
سندھ سے متعلق چند اہم کتب کے مصنفین اور اپنے وقت کے نام ور مؤرخین میں میر سید معصوم شاہ بکھری، عبدالحلیم شرر، سید سلیمان ندوی، میر علی شیر قانع ٹھٹوی، سید طاہر محمد نسیانی ٹھٹوی، اعجاز الحق قدوسی، پیر حسام الدین شاہ راشدی اور رحیم داد خان مولائی شیدائی شامل ہیں۔
اگر ہم کتب کی بات کریں تو تحفۃ الکرام، تاریخِ معصومی، سندھ کی تاریخی کہانیاں، تذکرۂ صوفیائے سندھ، چچ نامہ، مقالاتُ الشعرا سندھی، تذکرۂ مشاہیرِ سندھ اور تاریخِ سندھ کے عنوان سے مختلف مؤرخین نے اس سرزمین پر سیاست، ادب، علم و فنون، تہذیب، ثقافت، مذہب اور شخصیات و آثار پر نظر ڈالی ہے اور نہایت جامع اور مستند کتب چھوڑی ہیں۔