Tag: سندھی زبان و ادب

  • سندھی زبان و ادب کے محسن، منگھا رام ملکانی کا تذکرہ

    سندھی زبان و ادب کے محسن، منگھا رام ملکانی کا تذکرہ

    سندھی نثر جی تاریخ ایک تحقیقی اور تنقیدی شاہ کار ہے جس کے مصنّف منگھا رام ملکانی تھے۔ وہ جدید سندھی نثری ادب کے معماروں میں شامل تھے۔

    آج نوجوان نسل ان کے نام اور ان کے علمی و ادبی کارناموں سے شاید ہی واقف ہو، لیکن سندھی زبان و ادب میں‌ ان کا نام مذکورہ کتاب کی بدولت ہمیشہ زندہ رہے گا۔اسی کتاب پر انھیں 1969ء میں ساہتیہ اکیڈمی اعزاز برائے سندھی ادب سے نوازا گیا تھا۔

    اس کتاب میں سندھی افسانے، ناول، ڈرامے اور مضمون نویسی کے ابتدائی دور سے لے کر تقسیمِ ہند تک ہونے والی ترقّی اور ہر صنفِ ادب کی ترقّی کے ساتھ ان کی جداگانہ خصوصیت کو بھی بیان کیا گیا ہے اور یہ وقیع، مستند اور نہایت جامع تصنیف ہے۔

    پروفیسر منگھا رام ملکانی سندھی زبان کے نام وَر ادبی مؤرخ، نقّاد، معلّم اور ڈراما نویس تھے۔ انھوں‌ نے ڈی جے کالج، کراچی میں انگریزی کے استاد اور بعد میں جے ہند کالج بمبئی میں پروفیسر کے طور پر خدمات انجام دیں۔

    وہ 24 دسمبر 1896ء کو حیدر آباد، سندھ میں پیدا ہوئے۔ منگھا رام نے ڈی جے کالج کراچی سے بی اے (آنرز) کی سند حاصل کی۔ ملازمت کا آغاز ڈی جے کالج سے انگریزی کے لیکچرار کے طور پر کیا، پھر اسی کالج میں فیلو مقرر ہوئے۔ تقسیم ہند کے بعد بھارت کے شہر بمبئی منتقل ہو گئے اور وہاں کالج میں پروفیسر مقرر ہو گئے۔

    ان کے ادبی سفر کا آغاز ڈراما نگاری سے ہوا۔ یہ شروع ہی سے ان کی دل چسپی کا میدان تھا۔ اس صنف میں‌ انھوں نے انگریزی، اردو اور دوسری زبانوں سے متعدد ڈرامے سندھی زبان میں ترجمہ کرنے کے علاوہ ادب کو طبع زاد ڈرامے بھی دیے۔

    منگھا رام ملکانی کے معروف ڈراموں میں اکیلی دل (اکیلا دل)، ٹی پارٹی، پریت جی پریت، لیڈیز کلب، سمندر جی گجگار (سمندر کی گرج)، کوڑو کلنک (جھوٹا کلنک)، دل ائین دماغ (دل اور دماغ)، کنھ جی خطا؟ (کس کی خطا؟) و دیگر شامل ہیں۔

    وہ ڈرامہ اور ناول نگاری سے تحقیق و تنقید کی طرف راغب ہوگئے۔ انھوں نے مضامین لکھنا شروع کیے جو سندھی اخبارات اور جرائد میں‌ شایع ہونے لگے۔منگھا رام کو اسی عرصے میں ایک ایسی مستند کتاب لکھنے کا خیال آیا جو سندھی نثر اور ادب کا احاطہ کرے اور طالب علموں کی راہ نمائی کرے۔ انھوں نے اس پر کام شروع کیا اور سندھی نثر کی ڈیڑھ سو سالہ تاریخ کو اپنی کتاب میں سمیٹ لیا جو ایک شاہ کار مانی جاتی ہے۔

    منگھا رام ملکانی 1980ء کو آج ہی کے دن بمبئی میں وفات پا گئے تھے۔

  • ندھ کے معروف محقّق، مؤرخ اور مصنّف تاج محمد صحرائی

    ندھ کے معروف محقّق، مؤرخ اور مصنّف تاج محمد صحرائی

    تاج صحرائی سندھی زبان کے معروف ادیب تھے۔ انھوں نے سندھی کے علاوہ اردو اور انگریزی زبانوں میں کئی کتب اور مقالات تحریر کیے اور قدیم آثار اور جغرافیہ کے حوالے سے ایک محقّق، مؤرخ اور ادیب کی حیثیت سے پہچان بنائی۔

    تاج محمد صحرائی کا اصل نام تاج محمد میمن تھا جو 14 ستمبر 1921ء کو شکار پور میں پیدا ہوئے۔ عملی زندگی کا آغاز صحافت سے کیا اور کئی اخبارات سے وابستہ رہے جن میں ستارہ سندھ، جمہور اور آواز کے نام شامل ہیں۔ بعد ازاں تعلیم کے شعبے سے منسلک ہوئے۔ تاج محمد صحرائی مختلف تنظیموں سے وابستہ رہے اور علمی اور ادبی سرگرمیاں انجام دیں۔

    29 اکتوبر 2002ء کو وفات پانے والے تاج صحرائی کو حکومت پاکستان نے صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔

    تاج صحرائی 1921ء کو شکار پور میں پیدا ہوئے۔ والد کی ملازمت کے سلسلے میں انھیں دادو میں رہنا پڑا جہاں بعد میں بی اے اور بی ٹی کا امتحان پاس کیا۔ وہ پہلے پرائمری استاد بنے اور بعد میں ہائی اسکول دادو میں ہیڈ ماسٹر مقرر ہوئے اور وہیں سے ریٹائرڈ ہوئے۔

    ان کی انگریزی میں لکھی ہوئی کتاب لیک منچھر بہت مشہور ہوئی۔ تاریخ اور سندھ کے جغرافیے اور قدیم آثار پر ان کی متعدد کتب شایع ہوئیں جب کہ ان کی چند تصانیف میں تصویر درد، سر سارنگ، سندھو تہذیب، قلندر لعل سیہوانی اور مختلف مضامین کا مجموعہ شامل ہیں۔

  • یومِ وفات: حلیم بروہی رومن اسکرپٹ میں سندھی لکھنے کے حامی تھے

    یومِ وفات: حلیم بروہی رومن اسکرپٹ میں سندھی لکھنے کے حامی تھے

    سندھی زبان کے ناول نگار اور مقبول مصنّف حلیم بروہی 28 جولا‎ئی 2010ء کو وفات پاگئے تھے۔

    حلیم بروہی نے 5 اگست 1935ء کو حیدر آباد، سندھ میں آنکھ کھولی۔ ان کے والد محکمہ پولیس میں ملازم تھے۔ حلیم بروہی نے ابتدائی تعلیم کے بعد ایل ایل بی کیا اور پھر وکالت شروع کردی۔ تاہم جلد ہی سندھ یونیورسٹی جامشورو میں ملازمت اختیار کرلی اور ریٹائرمنٹ تک اسی تعلیمی ادارے سے وابستہ رہے۔

    حلیم بروہی انگریزی پر بھی عبور رکھتے تھے۔ ان کے کالم انگریزی اخبار دی فرنٹیئر پوسٹ میں شایع ہوتے تھے۔ سندھی اور انگریزی میں ان کی کُل دس کتابیں شایع ہوئیں جن میں سندھی کی کتاب ’حلیم شو‘ مقبول ترین تھی۔ 1975ء میں ان کا ناول ’اوڑاھ‘ کے نام سے شایع ہوا جو نوجوان قارئین میں خاصا مقبول ہوا۔ حلیم بروہی کے انگریزی کالموں کا انتخاب بھی شائع ہو چکا ہے۔

    حلیم بروہی سندھی زبان کے ایک منفرد قلم کار اور ایسے مصنّف تھے جو اپنے اصولوں اور ادبی نظریات کے سبب جہاں ہم عصروں میں ممتاز ہوئے، وہیں متنازع بھی رہے۔ انھوں نے ایک انٹرویو میں کہا تھاکہ میں‌ نے سندھی میں لکھ کر غلطی کی اور صرف انگریزی زبان میں لکھنا چاہیے تھا۔ سندھ اور سندھی زبان کے قلم کاروں میں حلیم بروہی کی مخالفت کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ انھوں نے طویل عرصے تک سندھی کو رومن اسکرپٹ میں لکھنے کی تحریک چلائی۔

    حلیم بروہی کا خیال تھا کہ جیسی ادبی تقریبات منعقد ہورہی ہیں، وہ وقت کا زیاں ہیں۔ وہ ان قلم کاروں میں سے ایک تھے جنھوں نے اپنی کتابوں کی رونمائی یا اپنے اعزاز میں تقاریب کے انعقاد کی حوصلہ شکنی کی اور تخلیقی کام جاری رکھنے کو اہم قرار دیا۔

    حلیم بروہی نے عام روش سے ہٹ کر ایسے مصنّف کے طور پر خود کو پیش کیا جو نمائشی تقریبات اور پذیرائی سے بے نیاز تھا، جس کی ایک مثال یہ ہے کہ انھوں نے سندھ کے نوجوانوں میں مقبول ہونے کے باوجود کسی ادبی محفل کی صدارت نہیں‌ کی۔

  • شیخ حماد بن رشید الدین جمالی اور جام تماچی

    شیخ حماد بن رشید الدین جمالی اور جام تماچی

    شیخ حماد بن رشید الدین جمالی سندھ کے اولیا کبار میں سے تھے اور اُچ کے مشہور درویش شیخ جمال کے نواسے تھے۔ موجودہ ٹھٹھہ سے متصل "ساموئی” کے دامن میں ان کی خانقاہ تھی۔

    حدیقتہُ الاولیا میں کا مصنف لکھتا ہے کہ جام تماچی اور اس کے فرزند صلاح الدین کو آپ سے بڑی عقیدت تھی اور وہ روزانہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے۔ جام جونہ نے سازش تیار کی جس کے مطابق خاموشی سے ان دونوں (تماچی اور اس کے بیٹے) کو دہلی بھیج دیا گیا جہاں وہ نظر بند رہے۔

    اتفاق سے بزرگ (شیخ حماد) نے ان دونوں کی غیر حاضری محسوس کر کے انھیں یاد کیا۔ مگر ان کے بارے میں کوئی بھی نہ بتا سکا۔ بعد میں بزرگ نے اپنا خاص آدمی بھیج کر ان کی حویلی سے معلوم کروایا جس پر حویلی والوں نے بصد عجز و بے قراری تمام ماجرا بزرگ کو کہلوا بھیجا جسے سنتے ہی شیخ حماد کو جوش آگیا اور وہ بے قراری سے کھڑے ہو گئے اور اپنے حجرے میں ٹہلنے لگے اور سندھی زبان میں ایک شعر کہنے لگے جس میں جام تماچی کے ساتھ محبت اور اس کے واپس آنے کی تمنّا ظاہر کی گئی تھی۔

    جام جونہ نے جب وہ شعر سنا تو اسے بہت پریشانی ہوئی اور وہ شیخ حماد کے پاس آیا مگر ناامید ہو کر واپس لوٹا۔ اس سندھی شعر کا اردو میں مفہوم کچھ یوں ہے:

    جام جونہ کم عقل ہے (جس نے ایسا کام کیا) اے جام تماچی تُو جلدی پہنچ۔ اللہ تعالیٰ راضی ہوا ہے کہ تمام ٹھٹھہ (جام جونہ سے منحرف ہوکر) تیرا طرف دار ہو گیا ہے۔

    (ممتاز ماہرِ تعلیم و لسانیات، ادیب اور محقق ڈاکٹر نبی بخش بلوچ کی تصنیف سے ایک ورق جس کے اردو مترجم شذرہ سکندری ہیں۔ یہ اقتباس سندھ کی تاریخ کے مشہور کردار اور سیاسی و سماجی حالات کی ایک جھلک ہے)