کراچی: سندھ حکومت نے صوبے بھر میں شام 7 بجے شاپنگ سینٹرز اور رات 10 بجے شادی ہال بند کروانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ فیصلہ پر یکم نومبر سے سختی سے عملدر آمد کروایا جائے گا۔
وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں حکومتی فیصلوں کی سختی سے عملداری پر غور کیا گیا۔ وزیر اعلیٰ نے متعلقہ حکام کو ہدایت کی کہ تمام فیصلوں سمیت شام 7 بجے شاپنگ سینٹرز اور رات 10 بجے شادی ہال بند کرنے پر یکم نومبر سے سختی سے عملدر آمد کروایا جائے۔
ذرائع کے مطابق اجلاس میں شادیوں میں کھانے کو ضائع ہونے سے بچانے کے لیے ڈشوں کی تعداد کم کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے جس کے بعد اب شادیوں میں 3 سے زیادہ ڈشیں نہیں رکھی جاسکیں گی۔
سندھ کیبنٹ نے دکانوں اور شاپنگ سینٹرز کو جلد بند کروانے کے فیصلے کی تائید کی تاہم انہوں نے فیصلہ کیا ہے کہ اس پر عملدر آمد کرنے سے قبل تاجروں اور مارکیٹ انتظامیہ کو اعتماد میں لیا جائے گا۔
اس سے قبل موسم گرما میں توانائی بحران سے نمٹنے کے لیے وزیر اعظم نے بھی اسلام آباد سمیت پنجاب بھر میں شادی ہالز ،بازار اور ہوٹل جلدی بند کرنے کی ہدایات جاری کی تھیں۔
وزیر اعظم کی ہدایت کے مطابق اسلام آباد میں رات 10 بجے شادی ہالز، رات 8 بجے شاپنگ سینٹرز اور مارکیٹس، اور رات 11 بجے ہوٹلز بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔
اسلام آباد : وفاقی حکومت نے ایک بار پھر پاکستان اسٹیل مل کی دوبارہ نجکاری کا فیصلہ کرلیا، اس حوالے سے اجلاس اسی ماہ ہوگا۔
تفصیلات کے مطابق وفاقی حکومت نے سندھ حکومت کی جانب سے اسٹیل مل کی نجکاری سے متعلق عدم دلچسپی پر پاکستان اسٹیل مل کی دوبارہ نجکاری کرنے کا فیصلہ کرلیا۔
اس حوالے سے نجکاری کمیٹی کا اہم اجلاس وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی زیر صدارت رواں ماہ منعقد کیا جائے گا، جس میں پاکستان اسٹیل مل کے مستقبل کا فیصلہ کیا جائے گا۔
ذرائع نجکاری کمیشن کا کہنا ہے کہ اسٹیل مل کی خریداری میں سندھ حکومت نے دلچسپی ظاہر کی تھی تاہم مل کی خریداری کے لیے باقاعدہ پلان جمع نہیں کروایا گیا۔
یاد رہے کہ رواں سال مئی میں وفاقی حکومت نے پاکستان اسٹیل ملز سندھ حکومت کو فروخت نہ کرنے کا فیصلہ کیاتھا اور وزیر نجکاری محمد زبیر نے اے آر وائی نیوز سےخصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسٹیل ملز پر 200 ارب روپے کے واجبات ہیں۔
واضح رہے کہ سندھ حکومت کے غیرسنجیدہ رویے کے باعث نجکاری بورڈ نے پاکستان اسٹیل ملز سندھ حکومت کو فروخت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
کراچی : سندھ حکومت نے چینی اہلکاروں کی سیکورٹی کے ساتھ سندھ میں سی پیک کے 118 منصوبوں پر 2616 پولیس اورسیکورٹی اہلکاروں کوتعینات کردیا۔
تفصیلات کےمطابق سندھ میں سی پیک منصوبوں پر کام کرنے والے چینی اہلکاروں کو سیکورٹی فراہم کرنے کے حوالے سے سندھ پولیس کے علاوہ دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کو بھی تعینات کردیا گیا۔
سندھ بھر میں اس وقت 118 سی پیک منصوبے ہیں جن پر 2616 پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کو تعینات کیا گیا ہے اس کے علاوہ شہر قائد میں 66 پراجیکٹس ہیں جن پر چینی شہری کام کررہے ہیں جن کی سیکورٹی پر 824 پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کو تعینات کیا گیا ہے۔
اسی طرح سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد میں سی پیک کے 27 منصوبے ہیں جن پر سیکورٹی کے لیے 1070 سے زائد پولیس اہلکار تعینات ہیں جبکہ سکھر میں سی پیک کے دس پروجیکٹس پر پولیس اور دیگر سیکورٹی اہلکاروں کو تعینات کیا گیا ہے۔
خیال رہے کہ رواں سال جون میں پاک چین اقتصادی راہداری کے ڈائریکٹر پروجیکٹ کا کہناتھا کہ پاک چین راہدری ملک میں ترقی کے نئے دور کے لیے سنگ میل ثابت ہوگی۔
واضح رہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری کے پروجیکٹ ڈائریکٹر میجر جنرل (ر) ظاہر شاہ کا کہنا تھاکہ 9 ہزار جوانوں پر مشتمل ایک فوجی دستہ اور 6 ہزارپولیس اہلکار پاک چائنا اقتصادی راہداری کی حفاظت پر مامور ہیں۔
کراچی: سندھ حکومت نے چندے سے متعلق قانون سازی کا فیصلہ کرلیا،اپیکس ریویو کمیٹی نےعید قربان پرکھالیں جمع کرنے والوں کے آڈٹ کا بھی فیصلہ کیا۔
وزیراعلیٰ سندھ کے زیرصدارت اپیکس ریویو کمیٹی کااجلاس منعقد ہوا جس میں صوبے میں امن و امان اور نیشنل ایکشن پلان پر بریفنگ دی گئی ، اجلاس میں چندہ دینے والوں کو ریڈار میں لانے کی ٹھان لی گئی ہے، سائیں سرکار نے مشاورت کے بعد چندے سے متعلق قانون سازی کا فیصلہ کرلیا۔
اجلاس میں فیصلہ ہوا کہ عید قربان پرکھالیں جمع کرنے والوں کو بھی حساب دینا ہوگا، حکام کو بتایا گیا کہ صوبےمیں نیشنل ایکشن پلان کےتحت گیارہ نکات پرعمل ہوا، صوبے کے آٹھ ہزار آٹھ سو پچپن مدارس کی رجسٹریشن کی گئی، ملٹری کورٹ کو بھیجے گئے ایک سو پانچ کیسز میں سے انسٹھ کیس وفاقی وزارت داخلہ نے منظور کئے۔
اجلاس میں شکارپورخودکش حملے میں ملوث بلوچستان سےآئے دہشت گردوں کا معاملہ بھی بلوچستان حکومت کے سامنے اٹھانے کا فیصلہ کیاگیا ۔
وزیر اعلی سندھ مراد علی شاہ نےکراچی فوری طور پرفرانزک لیب قائم کرنے کے احکامات بھی جاری کردیئے،کراچی میں غیر قانونی تارکین وطن کےمعاملے پر بھی وفاقی حکومت سے بات چیت کی جائے گی۔
کراچی: سندھ بھر میں قائم مدارس پرجیوٹیگنگ کے ذریعے نظر رکھنے کے فیصلے کے تحت صوبے میں سات ہزار سات سو چوبیس مدارس کی جیو ٹیگنگ کا عمل مکمل کرلیاگیا۔
تفصیلات کے مطابق سندھ اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں ہونے والے فیصلے کو مد نظر رکھتے ہوئے صوبے میں مدارس پر نظر رکھنے کے لیے جیو ٹیگنگ کا عمل مکمل کرلیا گیا ہے جس کے تحت صوبے میں 11ہزار چوراسی رجسٹرڈ مدارس سیکیورٹی اداروں کی نظر میں آگئے۔
کراچی، حیدر آباد، سکھر، لاڑکانہ اور میرپور خاص میں مدارس کی جیو ٹیگنگ کرتے ہوئے7750 مدارس کا مکمل ڈیٹا حاصل کرلیا گیا ہے۔ جیوٹیگنگ کے ذریعے کراچی میں موجود 3ہزار مدارس کا ریکارڈ حاصل کیا گیا ہے جبکہ حیدرآباد کے 12 سو اکیانوے، میرپورخاص کے 750، سکھر کے 1 ہزار پانچ سو چھتیس اور لاڑکانہ کے 1 ہزار سینتیس مدارس کا مکمل ریکارڈ حاصل کیا گیا۔
سندھ حکومت کی جانب سے سرکاری املاک پر تعمیر ایم کیو ایم کے دفاتر کو مسمار کرنے کا سلسلہ جاری ہے ، قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کریک ڈاون کرتے ہوئے صوبے میں ایم کیو ایم کے تمام غیر قانونی دفاتر پر بلڈوزر چلانے کا فیصلہ کیا ہے جس سرکاری زمین پر قبضہ کرکے یونٹ اور سیکٹر آفس قائم کیا گیا ہے وہ گرا دیا جائے گا۔
قانون نافذ کرنے والے اداروں کے مطابق کراچی میں سرکاری زمینوں پر بنائے گئے ایم کیو ایم کے دفاتر گرانے کی کارروائی جاری ہے ملیر ، طارق بن زیاد سوسائٹی، گلشن معمار، موسمیات، بھینس کالونی ، شاہ فیصل ، سکھن، سچل، قائد آباد ، مجید کالونی اور ایئر پورٹ تھانے کی حدود میں قائم ایم کیو ایم کے دفاتر گرادیے۔
ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے کہا کہ ملیر میں ایم کیوایم کے 5 دفاتر مسمار کیے گئے ہیں جو زمینوں پر قبضہ کرکے بنائے گئے تھے اور اس طرح کے مزید غیر قانونی دفاتر کو بھی مسمار کیا جائے گا۔
ذرائع کا کہنا ہے ایم کیو ایم کے ایسے دفاتر بھی زد میں آئیں گے جہاں سے کرمنلز پکڑے گئے ہیں، فلاحی پلاٹس کھیلوں کے میدان اور پارکوں سے بھی متحدہ دفاتر کا صفایا ہو گا۔
ذرائع کے مطابق غیرقانونی بنائے گئے یونٹ اور سیکٹر آفسز کا ریکارڈ حاصل کرلیا گیا ہے سندھ حکومت کی جانب سے یہ فیصلہ گزشتہ روز وزیراعلیٰ ہاوس میں چوہدری نثار کی موجودگی میں ہوا۔
واضح رہے کہ آج وزیراعلیٰ سندھ نے غیرقانونی یونٹ کو مسمار کرنے کے حوالے سے اجلاس طلب کیا جس میں مشیرقانون مرتضیٰ وہاب،آئی جی سندھ اوردیگرافسران شرکت کی۔
کراچی: سندھ حکومت کی توجہ صفائی کی طرف دلانے کے لیے شہر قائد کے نوجوانوں نے انوکھا قدم اٹھاتے ہوئے کچرا فیسٹیول کا انعقاد کیا اور شہر کو صاف کرنے کا مطالبہ کیا۔
سندھ سرکار کو جگانے کے لیے کراچی کے نوجوانوں نے 14 اگست کے دن پاکستان کی تاریخ کے انوکھے فیسٹیول کا افتتاح کیا۔ اس ضمن میں کچرا فیسٹیول کا پہلا پروگرام گلشن اقبال کے بلاک 13 ڈی 2 ریلوے پٹڑی کے قریب منعقد کیا گیا۔
فیسٹیول میں حصہ لینے والے نوجوانوں کا کہنا تھا کہ ’’یہ تاریخ کا انوکھا فیسٹیول اس لیے ہے کہ ہم خود صفائی کر کے حکومت کا کام سمیٹ نہیں رہے بلکہ حکومت کی آنکھیں کھول رہے ہیں کہ یہ کچرا آپکا منتظر ہے‘‘۔
گلشن اقبال بلاک 13 ڈی 2 ریلوے پھاٹک
کچرا فیسٹیول کے انعقاد کے بعد کراچی کے عوام سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر اس کا حصہ بن رہے ہیں، عوامی پذیرائی کو دیکھتے ہوئے سندھ حکومت کے حکام کی جانب سے منتظمین پر دباؤ ہے کہ اس فیسٹیول کے انعقاد کو روکا جائے۔
کچرا فیسٹیول کے منتظمین کا کہنا ہے کہ ’’اگر ہم صفائی مہم شروع کردیں گے تو حکومت اس کام سے پیچھے ہٹ جائے گی تاہم یہ انوکھا راستہ اختیار کرنے کی وجہ یہ ہے کہ حکومت ہم سے ٹیکسز وصول کرتی ہے اور مہذب معاشرے میں عوام کو بنیادی ضروریات کو پورا کرنا حکومت ہی کی ذمہ داری ہے‘‘۔
فیسٹیول میں شریک مکین
منتظم ارسلان خان کا کہنا ہے کہ ’’ہم عوام کی جانب سے بھیجی گئی تصاویر کا بغور جائزہ لیتے ہیں جس کے بعد کسی بھی مقام کا تعین کر کے ٹیم اُس مقام کا رخ کرتی ہے اور پھر فیسٹیول والے روز ہم وہاں جاکر کچرا سجاتے ہیں اور ڈھول بجاتے ہیں جسے دیکھ کر وہاں کے مکین جمع ہوجاتے ہیں‘‘۔
اُن کا کہنا تھا ’’آگے چل کر اس فیسٹیول کی تقاریب کو بڑھایا جائے گا اور جب تک سندھ حکومت اپنی کارکردگی بہتر نہیں بناتی تب تک اس کا انعقاد جاری رہے گا، اُن کا کہنا تھا کہ ’’فسیٹیول کے انعقاد سے قبل ہم نے وزیر اعلیٰ سندھ اور سندھ حکومت کو خط بھی تحریر کیا تھا تاہم وہاں سے کوئی جواب نہیں آیا‘‘۔
بچے ڈھول کی تھاپ پر رقص کر کے متعلقین کو توجہ دلانے کی کوشش کرتے ہوئے۔
فیسٹیول میں حصہ لینے والے نوجوانوں سے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ ’’سوشل میڈیا پر احتجاج کے باعث ہم اکٹھے ہوئے ہیں اور ہم حکومت کو جگانا چاہتے ہیں کہ حکومت اپنے اندر احساسِ ذمہ داری پیدا کرے اور عوام کی خدمت کرے‘‘۔
دیگر جماعتوں کی جانب سے صفائی مہم پر نوجوانوں کا کہنا تھاکہ ’’ہم حکومت کا کام آسان نہیں کرنا چاہتے، عوام حکومت کو ٹیکس ادا کرتے ہیں اگر ہم حکومت کے کام کو آسان کریں گے تو آئندہ حکومت ہر کام سے جان چھڑائے گی‘‘۔
فیسٹیول کے منتظم نے بتایا کہ ’’کراچی میں روزانہ کی بنیاد پر 12 ہزار ٹن کچرا پیدا ہوتا ہے تاہم حکومت کے پاس صرف 3 ہزار ٹن کچرا اٹھانے کے لیے مشینری موجود ہے باوجود اس کے سندھ میں گزشتہ 8 سال سے اقتدار پر ایک ہی جماعت قابض ہے جبکہ ماضی میں یہی کراچی بلدیاتی نمائندوں کی موجودگی میں صاف ستھرا تھا‘‘۔
منتظمین کی جانب سے وزیر اعلیٰ کو بھیجے گئے خط کا عکس
نوجوانوں کا کہنا ہے کہ ’’کراچی میں مسائل کی ایک اہم وجہ مقامی قیادت کے پاس اختیار نہ ہونا ہے، غیر مقامی قیادت کے پاس وزارتیں ہونے کے باوجود صفائی نہ ہونے کی ایک اہم وجہ کراچی سے ناواقفیت بھی ہے‘‘۔
گلشن اقبال بلاک 13 ڈی 2
نوجوانوں کا کہنا ہے کہ مستقبل میں جگہ کا تعین کرنے کے بعد سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر اعلان کردیا جائے گا تاکہ حکومت سندھ کے منتعلقہ عہدیداران فیسٹیول کے انعقاد سے قبل اگر اپنی کارکردگی بہتر بنا سکتے ہیں تو وہاں سے کچرا صاف کردیں‘‘۔
کراچی: صدر ممنون حسین سے گورنر سندھ عشرت العباد خان نے گورنر ہاؤس میں ملاقات کی، جس میں امن وامان اور دہشتگردی خلاف جاری آپریشن پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
صدر ممنون حسین نے سندھ کی صوبائی حکومت کے اقدامات کو قابل تحسین قرار دے دیا، صدر ممنون سے گورنر سندھ عشرت العباد خان نے گورنر ہاوس میں ملاقات کی، جس میں امن وامان کے قیام، دہشتگرد عناصر کے خلاف جاری آپریشن پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
صدر ممنون حسین کا کہنا تھا صوبوں کے ترقیاتی منصوبوں کے لئے وفاق ہر ممکن تعاون جاری رکھے گا، انہوں نے کہا کہ وفاق کے تعاون سے جاری میگا پروجیکٹس مقررہ وقت پر مکمل کئے جائیں گے۔
گورنر سندھ کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومت تعلیم،صحت کے شعبوں میں نمایاں اقدامات کررہی ہے، امن وامان کی بہتر صورتحال کے بعد ترقیاتی عمل کو مزید تیز کیا جائے گا ۔
اس سے قبل گورنر سندھ اور ڈی جی رینجرز میجر جنرل بلال اکبرکی ملاقات ہوئی، میجر جنرل بلال اکبر نے گورنر سندھ کو صوبہ میں سیکیورٹی کی صورتحال ،یوم آزادی کے موقع پر کئے گئے اقدامات اور جاری آپریشن کے حوالے سے تفصیلی بریفنگ دی۔
کراچی : سندھ حکومت نے 5 سال کی کارکردگی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرادی، رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پولیس اور رینجرز نے ستمبر 2013 سے اب تک جرائم پیشہ افراد کیخلاف 17ہزار سے زائد آپریشن کئے۔
پولیس کی ٹارگٹڈ کارروائیوں میں 80 ہزار ملزمان کو گرفتار کیا گیا، جبکہ دھماکہ خیز مواد رکھنے کے الزام میں 450 ملزمان کو گرفتار کیا گیا اورغیرقانونی اسلحہ رکھنے کے الزام میں 15 ہزار ملزمان کو گرفتار کیا گیا۔
رپورٹ کے مطابق سنگین نوعیت کے 105 کیسزفوجی عدالتوں کو بھیجے گئے، سندھ حکومت کا کہنا ہے کہ صوبے میں پولیس کو غیرسیاسی کرنے کیلیے مؤثر اقدامات کیے گئے اور خلاف ضابطہ ترقی پانے والے اور ڈیپوٹیشن افسران کو واپس بھیجا گیا۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صوبہ سندھ میں 10 لاکھ سے زائد افغان باشندے مقیم ہیں، ان غیرقانونی مقیم افغان باشندوں کیخلاف 15سو سے زائد مقدمات درج کئے گئے، 2896 افغان باشندوں کو گرفتار کیاگیا۔
ٹارگٹ کلنگ اور قتل کے 1500 سے زائد ملزمان کو حراست میں لیا گیا۔
کراچی: رینجرز اختیارات کی سمری مسترد ہونے کے معاملے پرردعمل ظاہر کرتے ہوئے سندھ حکومت نے کہا ہے کہ وفاق سندھ حکومت کو ڈکٹیٹ نہیں کرسکتا، ہم بہتر سمجھتے ہیں کہ کس فورس کو کہاں رکھنا ہے۔
اطلاعات کے مطابق سندھ حکومت کا کہنا ہے کہ امن و امان صوبائی حکومت کا معاملہ ہے وفاقی نہیں، پہلے بھی رینجرز کو یہی اختیارات دیے تھے، سندھ حکومت کی مرضی ہے کہ کس فورس کو کہاں رکھے وفاق ہمیں اس معاملے پر ڈکٹیشن نہ دے۔
اس حوالے سے مشیر قانون سندھ مرتضیٰ وہاب کا کہنا ہے کہ ہم نے رینجرز کو آئین کے مطابق اختیارات دیے ہیں، دہشت گردی ایکٹ میں وفاقی حکومت نے خود توسیع نہیں کی۔
یاد رہے کہ رینجرز کی جانب سے کسی بھی شہری کو 90 روزہ تحویل میں رکھنے کے اختیارات 14 جولائی کو ختم ہوچکے ہیں۔
واضح رہے کہ وزارت داخلہ کے قانونی ماہرین نے سمری کا جائزہ لینے کے بعد اسے ابتدائی طور پر مسترد کردیا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ سندھ اسمبلی کی سمری قانونی معیار پر پورا نہیں اترتی اور یہ آئین کے آرٹیکل 147کے مطابق نہیں ہے ۔
یہ بھی یاد رہے کہ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے رینجرز کے قیام میں ایک سال جب کہ کراچی آپریشن کے لئے خصوصی اختیارات میں 90 روز کی توسیع کی منظوری دی تھی۔