Tag: سندھ وائلڈ لائف

  • نارا کینال مگرمچھ کا خاتون پر حملہ، وائلڈ لائف کا کہنا ہے مارش کروکوڈائل جارحانہ برتاؤ نہیں کرتا

    نارا کینال مگرمچھ کا خاتون پر حملہ، وائلڈ لائف کا کہنا ہے مارش کروکوڈائل جارحانہ برتاؤ نہیں کرتا

    سکھر (10 اگست 2025): نارا کینال صالح پٹ کی حدود میں خاتون پر مگرمچھ کے حملے کے واقعے کے بعد وائلڈ لائف ڈویژن کی سربراہی میں ایک ٹیم تشکیل دی گئی ہے جو اس واقعے کی تحقیقات کرے گی۔

    سندھ وائلڈ لائف نے بتایا کہ صالح پٹ میں مگرمچھ کے حملے میں متاثرہ خاندان سے بات کرنے جب ٹیم سکھر اسپتال کے ایمرجنسی وارڈ گئی تو معلوم ہوا کہ فیملی اسپتال عملے کو اطلاع دیے بغیر وہاں سے جا چکی تھی، اب ٹیم شواہد جمع کرے گی اور نہر کے مخصوص حصے کی اسکریننگ کرے گی، متاثرہ خاندان سے ملاقات اور میڈیکل رپورٹ کا بھی جائزہ لیا جائے گا۔

    وائلڈ لائف حکام کے مطابق نارا کینال کے کناروں پر جھگیاں اور غیر قانونی مکانات قائم ہیں، ماضی میں کینال میں بچی پر حملے کی خبر غلط ثابت ہوئی تھی۔

    انھوں نے کہا کہ دنیا میں مگرمچھوں کی 18 اقسام موجود ہیں، اور ان میں سے 6 ایشیا میں پائی جاتی ہیں، سندھ کا مقامی مگرمچھ مارش کروکوڈائل کہلاتا ہے، یہ دریائے نیل کے مگرمچھ سے مختلف برتاؤ رکھتا ہے، سائز میں چھوٹا اور مزاجاً کم جارحانہ ہوتا ہے۔


    سکھر میں شوہر نے بیوی کو مگرمچھ کے جبڑے سے نکال لیا


    حکام کا کہنا ہے کہ دریائے نیل اور کھارے پانی کے مگرمچھ جارحانہ برتاؤ رکھتے ہیں لیکن مارش کروکوڈائل پورے جانور کو گھسیٹنے جیسا رویہ نہیں رکھتا، یہ مردہ جانور کا گوشت کھانے کو ترجیح دیتا ہے۔

    وائلد لائف حکام کے مطابق مارش کروکوڈائل اپنے علاقے میں دراندازی پر ہی اشتعال میں آتا ہے، اگر اسے خوراک نہ ملے تو کئی مہینے بھوکا رہ سکتا ہے، یہ تیز بہاؤ سے بچنے کے لیے آہستہ پانی والے علاقوں میں رہتا ہے، اور دن کا بڑا حصہ خشکی پر یا اپنے بل میں گزارتا ہے۔

  • ویڈیو: حنوط شدہ جانوروں کا یہ میوزیم ماضی میں ایک پراسرار عمارت تھی

    ویڈیو: حنوط شدہ جانوروں کا یہ میوزیم ماضی میں ایک پراسرار عمارت تھی

    کراچی: حنوط شدہ جانوروں کا یہ میوزیم ماضی میں ایک پراسرار عمارت ہوا کرتی تھی، جس میں یہودیوں کی خفیہ تنظیم فری میسن کا مرکز واقع تھا۔

    شہر قائد میں کراچی پریس کلب کے قریب واقع یہ پُر اسرار عمارت اب سندھ والڈ لائف کی پرشکوہ عمارت کی صورت لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے، کراچی شہر کے قلب میں واقع یہ قدیم عمارت ماضی میں کبھی فری میسن (میسونک لاج) نامی خفیہ تنظیم کا پاکستان میں ہیڈ آفس ہوا کرتی تھی۔ دین محمد وفائی روڈ پر قائم یہ عمارت اپنی منفرد طرز تعمیر کا عظیم شاہکار ہے۔

    شان دار ماضی

    کسی بھی ملک یا شہر کا شان دار ماضی اس کی پرشکوہ عمارات سے مزین ہوتا ہے۔ فری میسن نامی تنظیم کی یہ عمارت اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ کراچی شہر ماضی میں دنیا کی بہترین عمارات اور فن تعمیر کا مرکز تھا۔

    یہ عمارت 1914 میں تعمیر ہوئی تھی، اس کے داخلی راستے پر یونانی طرز کے ستون ایستادہ ہیں، اس کی مخصوص طرز تعمیر سڑک پر سے گزرنے والے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کر لیتی ہے۔ واضح رہے کہ کراچی میں پہلے لاج یعنی پوپ لاج کا سنگ بنیاد 1843 میں رکھا گیا تھا اور سندھ کے پہلے گورنر سر چارلس نیپیر کو بھی اس کا اعزازی رکن بنایا گیا تھا۔

    خفیہ تنظیم

    پاکستان میں بہت ساری تنظیمیں اور لوگ فری میسن تنظیم کو یہودیوں کی پروردہ خفیہ تنظیم سمجھتے تھے، تقسیم کے بعد اس عمارت کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ فری میسن کو یہودی مالی مدد کرتے ہیں، اور اس کا نشان یہودیوں کا اسٹار یعنی آٹھ کونوں والا ستارہ ہے، مگر یہ بات حقیقت پر مبنی نہیں کہ اس تنظیم میں دیگر مذاہب کے ماننے والے بھی شامل تھے۔

    تقسیم سے پہلے فری میسن ہال کراچی میں، جسے پوپ لاج بھی کہا جاتا ہے، سوسائٹی کے سب پروگرام منعقد ہوتے تھے، اس عمارت میں شام کو بڑی ہلچل لگی رہتی تھی، عمارت کے سامنے سفید وکٹوریہ گاڑیوں کی قطاریں ہوتی تھیں۔ اُس وقت اس کے ممبر 500 سو تھے۔ ان میں سے کچھ خاص نام جام میر ایوب عالمانی کراچی میں سیاسی، سماجی، ادبی اور ثقافتی حوالے سے بڑا نام تھا۔

    خفیہ نشان

    مشہور محقق اختر بلوچ کہتے ہیں کہ تقسیم سے پہلے حقیقت کچھ مختلف تھی اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس تنظیم میں پاکستان بننے سے پہلے اور بعد میں مسلمان بھی شامل تھے۔ یہودیوں کا اسٹار آف ڈیوڈ اور فری میسن کے لوگو کا ایک ہونا اسی بات کے پروپیگنڈے کا حصہ ہے۔ تاہم ان دونوں نشانوں میں بہت فرق ہے، فری میسن ہال کا لوگو اور اسٹار آف ڈیوڈ الگ الگ نشانات ہیں۔

    پابندی

    پاکستان میں 1973 میں فری میسن کی اس عمارت کو مختلف تنظیموں کے مطالبے پر سیل کر دیا گیا تھا اور اس تنظیم پر 1983 میں مارشل لا ریگولیشن 56 کے تحت پابندی لگا دی گئی تھی۔

    اس تنظیم کی ابتدا 1717 میں برطانیہ میں شروع ہوئی تھی، دنیا بھر میں آج بھی اس کے ممبران کی تعداد لاکھوں میں بتائی جاتی ہے، حیرت انگیز بات یہ ہے کہ آج بھی کوئی عورت اس تنظیم کی ممبر نہیں بن سکتی۔

    فری میسن کی یہ عمارت اب سندھ وائلڈ لائف کی ملکیت ہے، جہاں حنوط شدہ جنگلی جانورں اور آبی حیات کا میوزیم اور نایاب کتابوں پر مبنی لائبریری قائم ہے۔

  • کراچی میں  وائلڈ لائف ٹیم  کی کارروائی ،75 بڑی چھپکلیاں اور 4 سانپ برآمد

    کراچی میں وائلڈ لائف ٹیم کی کارروائی ،75 بڑی چھپکلیاں اور 4 سانپ برآمد

    کراچی: سندھ وائلڈ لائف نے قائد آباد سے 75 بڑی چھپکلیاں اور 4 سانپ برآمد کرکے ایک ملزم کو گرفتار کرلیا۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ وائلڈ لائف نے کارروائی کرتے ہوئے کراچی میں قائد آباد کے علاقے میں ملزمان سے 75 اسپائینی ٹیلڈ لزرڈس اور 4 سانپ برآمد کرلیے۔

    محکمہ والڈ لائف سندھ نے بتایا کہ ایک ملزم کو بھی گرفتار کرلیا گیا ہے ، ملزمان ان جانوروں سے مضرصحت دوائیاں بنا کر جھانسے سے فروخت کرتے تھے۔

    وائلڈ لائف حکام کا کہنا ہے کہ کارروائی کے دوران گرفتار ملزم سے تفتیش جاری ہے۔

    حکام کے مطابق کنزر ویٹر سندھ وائلڈ لائف کے عملے نے بعد اذاں 75 اسپائنی ٹیلڈ لزرڈز کو ان کے قدرتی ماحول میں لے جاکر آزاد کردیا۔

    یاد رہے گذشتہ ماہ محکمہ جنگلی حیات نے ایک اہم کارروائی میں قیمتی مکڑی ٹرنٹولہ کی اسمگلنگ کی بڑی کوشش ناکام بناتے ہوئے تین اسمگلرز کو گرفتار کر لیا تھا۔

    چیف کنزرویٹر ہزارہ سرکل محمد حسین نے بتایا تھا کہ اس قسم کی مکڑی کی بہت سی خصوصیات ہیں، ان مکڑیوں کا شکار کر کے لوگ اس کو مہنگے داموں فروخت کرتے تھے۔

  • تھرپارکر: وائلڈ لائف ٹیم کا چھاپا، 4 نایاب ہرن برآمد

    تھرپارکر: وائلڈ لائف ٹیم کا چھاپا، 4 نایاب ہرن برآمد

    تھرپارکر: اندرون سندھ گوشت کے لیے نایاب ہرن کے شکار کا سلسلہ بدستور جاری ہے، وائلڈ لائف ٹیم نے اسلام کوٹ کے قریب چھاپا مار کر 4 نایاب ہرن برآمد کر لیے۔

    تفصیلات کے مطابق تھرپارکر کے علاقے اسلام کوٹ میں محکمہ جنگلی حیات نے ایک اور چھاپے میں چار عدد نایاب ہرن بر آمد کر لیے ہیں۔

    وائلڈ لائف ذرایع کا کہنا ہے کہ تھرپارکر کے ایک ہوٹل پر ہرن کا گوشت فروخت کیا جا رہا تھا، ہوٹل انتظامیہ نے اس سلسلے میں کوئی لائسنس حاصل نہیں کیا تھا اور بغیر لائسنس ہرن رکھے ہوئے تھے۔

    یاد رہے کہ رواں ماہ 7 تاریخ کو عمر کوٹ میں بھی نایاب ہرن کی اسمگلنگ کی ایک کوشش ناکام بنائی گئی تھی، رینجرز نے ملزمان کی گاڑی ایک چیک پوسٹ پر روکی تو وہ گاڑی چھوڑ کر بھاگ گئے۔

    متعلقہ خبریں پڑھیں:  عمرکوٹ: رینجرز نے نایاب نسل کے ہرن کی اسمگلنگ ناکام بنا دی

    دوران تلاشی گاڑی سے 2 نایاب نسل کے ہرن اور ایک ریپیٹر برآمد ہوا تھا، بعد ازاں رینجرز نے برآمد ہونے والے ہرن محکمہ وائلڈ لائف کے حوالے کر دیے۔

    یاد رہے کہ گزشتہ ماہ سندھ کے ایک تعلقے ڈاہلی میں نایاب ہرنوں کو ذبح کر کے اس کا گوشت فروخت کرنے کا انکشاف ہوا تھا، تھر میں ہرن ایک طرف بھوک پیاس کا شکار ہیں دوسری طرف شکاریوں کا بھی آسان ہدف بن گئے ہیں۔

    یہ بھی پڑھیں:  تھر: بھوک پیاس کے مارے ہرنوں کا شکار، گوشت فروخت کیے جانے کا انکشاف

    اس سلسلے میں ویڈیو بھی وائرل ہوئی تھی، جس میں تھر میں ایک نایاب ہرن کو گولی مار کر گرتے ہوئے دیکھا گیا، وائلڈ لائف افسر اشفاق میمن کا کہنا تھا کہ نایاب ہرنوں کے شکار کی خبریں زیادہ تر عمر کوٹ کے سرحدی علاقوں کی ہیں۔

    واضح رہے کہ تھر کی خوب صورتی میں اضافہ کرنے والے نایاب ہرن ہزاروں کی تعداد میں پائے جاتے تھے لیکن اب یہ بہت کم تعداد میں نظر آنے لگے ہیں، جس کی وجہ عمر کوٹ کے صحرائے تھر سے لگنی والی بھارتی سرحد کی نزدیکی گوٹھوں میں اس کا بے دریغ شکار ہے جس پر محکمہ وائلڈ لائف نے بھی خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔

  • سندھ میں جانوروں اور پرندوں کے شکار پر پابندی عائد

    سندھ میں جانوروں اور پرندوں کے شکار پر پابندی عائد

    کراچی: سندھ میں جانوروں اور پرندوں کے شکار پر پابندی عائد کر دی گئی، مشیر وائلڈ لائف کا کہنا ہے کہ دیگر ممالک سے شکار کے لیے آنے والوں نے رقم ادا نہیں کی۔

    تفصیلات کے مطابق حکومت سندھ کے جنگلی حیات کے مشیر عثمان عالمانی نے کہا ہے کہ محکمہ جنگلات نے شکار پر پابندی عائد کر دی ہے۔

    عثمان عالمانی کا کہنا تھا کہ سندھ میں دیگر ممالک سے شکار کے لیے آنے والوں نے رقم ادا نہیں کی، وفاقی حکومت کو رقم کی ادائیگی کے لیے خط لکھیں گے۔

    مشیر وائلڈ لائف نے رقم کے تنازعے کے معاملے پر کہا کہ وزارت خارجہ صرف سفارش کرے، شکاریوں کو لائسنس دینا ہمارا اختیار ہے۔

    یہ بھی پڑھیں:  خیرپور میں وائلڈ لائف کی بروقت کارروائی، جنگلی ریچھ بازیاب

    دریں اثنا، وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے اپنے اختیارات چیف گیم وارڈن کو سونپ دیے۔

    خیال رہے کہ سندھ میں تلور کا شکار مشہور ہے جس کے لیے دیگر ممالک سے شکاری آتے ہیں، سندھ حکومت کے محکمہ جنگلی حیات کا کہنا ہے کہ ان شکاریوں کو لائسنس دینے کا اختیار ان کا ہے، وزارت داخلہ صرف سفارش کرے، لائسنس نہ جاری کرے۔

    دوسری طرف بے دریغ شکار کی وجہ سے تلور کی نسل تیزی سے ختم ہو رہی ہے، پاکستان کے میدانوں، صحراؤں اور پہاڑوں میں یہ پردیسی پرندے وسطی ایشیا سے ہجرت کر کے آتے ہیں۔