Tag: سندھ پولیس

  • پولیس اہلکاروں کا ڈیوٹی کے دوران ٹک ٹاک بنانے کا بڑھتا رجحان ، اصل ذمہ دار کون ؟

    پولیس اہلکاروں کا ڈیوٹی کے دوران ٹک ٹاک بنانے کا بڑھتا رجحان ، اصل ذمہ دار کون ؟

    کراچی : سندھ میں پولیس اہلکاروں کا ڈیوٹی کے دوران ٹک ٹاک بنانے کا بڑھتا رجحان جارہا ہے، جس پر یہ سوال اٹھتا ہے کہ اہلکاروں کو اس راہ پر لگانے کا اصل زمہ دار کون ہے؟

    تفصیلات کے مطابق سندھ پولیس میں ٹک ٹاک کا استعمال تشویشناک حد تک بڑھ گیا، بابو اور جانو بولنے والی نئی یوتھ کیا جرائم پیشہ عناصر سے مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھی ہے، اس راہ پر لگانے کا اصل زمہ دار کون ہے؟

    دہشتگردی کے خاتمے اور امن و امان کی بحالی کے لیے ڈھائی ہزار کے قریب جانیں دینے والی سندھ پولیس پر مشکل وقت آن پڑا، ایک جانب سندھ پولیس کچے میں سفاک ڈاکووں سے نبرد آزما ہے تو دوسری جانب کراچی میں دہشتگردی اور دیگر واقعات میں پولیس کی شہادتیں ہورہی ہیں۔

    اس کے باوجود سندھ پولیس کا ایک حصہ جو نوجوانوں اور جوانوں پر مشتمل ہے، وہ تمام باتوں سے بے خبر صرف اور صرف ٹک ٹاک بنانے پر وقت ضائع کرتے نظر آتے ہیں۔

    بظاہر ایسا لگتا ہے کہ منصوبہ بندی کے تحت گذشتہ چند سالوں میں بھرتی ہونے والے نوجوان لڑکے لڑکیوں کو اس راہ پر لگا کر ناکارہ کیا جارہا ہے۔

    جنرل الیکشن سے قبل 19 اگست 2023 سے مارچ 2024 تک پنجاب پولیس میں گریڈ 21 کے افسر راجہ رفعت مختار کو آئی جی سندھ تعینات کیا گیا، جو 218 روز یعنی سات ماہ سے زائد عرصے تک سربراہ سندھ پولیس رہے، اس پورے عرصے کے دوران سندھ میں جرائم کی شرح تشویشناک حد تک بڑھی۔

    راجہ رفعت نے اپنی سوچ کے مطابق کراچی پولیس کی ٹک ٹاکرفورس بھی بنائی ، جن سے سینٹرل پولیس آفس میں ملاقات کی ان کو سراہا شاباشیاں دی اور کہا کہ آپ لوگ سندھ پولیس کا امیج بہتر بناو، زیادہ تر ان کو بلایا گیا جن کے ویوز زیادہ تھے۔

    پولیس کے نوجوان لڑکے لڑکیاں اس سے قبل بھی ٹک ٹاک بناتے تھے لیکن آئی جی کی جانب سے اجازت ملنے کے بعد ان کی تعداد میں غیرمعمولی اضافہ ہوا، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ سندھ پولیس کا مثبت چہرہ سامنے لاتے اپنی سندھ پولیس جس کا سلوگن ‘پراوڈ ٹو سرو’ یعنی خدمت پر فخر ہے اسے روشن کرتے، شہداء کی قربانیوں کا احساس دلاتے، سندھ پولیس کن وسائل کے ساتھ شہریوں کی جان و مال کی حفاظت کرتی ہے ایسا چہرہ لوگوں کو دکھاتے، لوگوں کو بتاتے کہ روشنیوں کا شہر جو دہشتگردوں اور عسکری تنظمیوں نے تاریکی میں ڈبودیا تھا کس طرح شہداء نے اپنا خون بہا کر اپنی جانوں کو نظرانہ دے کر ان روشنیوں کو دوبارہ آباد کیا۔

    لیکن اس کے برعکس ٹک ٹاک پر بے ہودگی جانو بابو کے ڈائیلاگ پھیلائے جانے لگے، سندھ پولیس کی باوقار یونیفارم پہن کر سرکاری وسائل کا استعمال کرتے ہوئے انڈین فلموں کے ڈائیلاگز بولے جانے لگے۔

    لیڈی پولیس کانسٹیبلز کی جانب سے بھی ایسے کانٹینٹ بنائے گئے، جنہیں دیکھ کر صرف افسوس کیا جاسکتا ہے کوئی خود کو راٹھور تو کوئی ولن بنانے لگا۔

    آئی جی سندھ کی آشیرباد کے باعث سندھ پولیس کی وہ یوتھ جنہیں آنے والے وقتوں کے لیے تیار کرنا تھا وہ صرف ٹک ٹاک کی حد تک پولیس فورس بن گئی۔

    کانسٹیبلز بغیر شکن یونیفارم لپ اسٹک اور فلٹر لگا لگا کر ویڈیوز کی بھرمار کرتے رہے نتیجہ یہ نکلا کہ جرائم کی شرح میں اضافہ ہونے لگا کیونکہ ان ٹک ٹاکرز کو جہاں ڈیوٹی پر بھیجا گیا وہاں یہ اپنے فرائض انجام دینے کے بجائے سرکاری موبائل وسائل پستول ہتھیاروں کا استعمال اپنے ٹک ٹاک بنانے میں وقت ضائع کرتے رہے۔

    ٹک ٹاکرز کو شاباش دینے والے راجہ رفعت مختار کو چاہیے تھا وہ ایک مرتبہ فالو اپ لیتے اور دیکھتے کہ کیا واقعی ان کی امیدوں کے مطابق کام چل رہا ہے یا نہیں لیکن انہوں نے اپنا وقت پورا کیا اور واپس چلے گئے اس کے بعد عمران یعقوب منہاس کو جب ایڈیشنل آئی جی کراچی کا عارضی چارج دیا گیا تو انہوں نے ایک پیغام جاری کیا۔

    جس میں انہوں نے واضح پیغام دیا کہ ڈیوٹی کے دوران سرکاری وسائل کا استعمال کرتے ہوئے ٹک ٹاک ویڈیو نہ بنائی جائیں اس کے بعد ڈی آئی جی آرآر ایف فیصل عبداللہ چاچڑ نے بھی ایک حکمنامہ جاری کیا، اب ایس ایس پی اے وی ایل سی عارف اسلم راو کی جانب سے بھی اپنے یونٹ کے لیے خصوصی ہدایت نامہ جاری کیا گیا ہے لیکن اس کا اصل حل تب نکلے گا جب آئی جی سندھ اس پر واضح احکامات جاری کریں گے یا کم سے کم ایڈیشنل آئی جی کراچی نوٹس لیں اور نوٹیفکیشن جاری کریں گے۔

    نمائندہ اے آر وائی نیوز کا کہنا ہے کہ ایک صحافی ضرور ہوں لیکن اس کے ساتھ کراچی کا عام شہری بھی ہوں اور میں کبھی یہ نہیں چاہوں گا کہ میرے محافظ جن کا رول ماڈل ہونا چاہیے وہ بے ہودگی پھیلاتے مغلظات بکتے نظر آئیں بلکہ میں چاہوں گا کہ وہ مثال بنیں شہریوں کی جان و مال کی حفاظت کے لیے اقدامات کریں۔

    نمائندے نے مزید کہا کہ سربراہ سندھ پولیس کو یہی مشورہ دونگا کہ اگر تمام تر پابندیوں کے باجود بھی معاملہ کنٹرول نہیں ہوتا تو ایسے باغی ٹک ٹاکرز کو چھٹیوں پر گھر بھیج دیا جائے تاکہ وہ آرام سے سوشل میڈیا پر اپنا کام کرسکیں اور شہریوں کی جان و مال کی حفاظت کے لیے نئی بھرتیاں کی جائیں جن کو بتایا جائے کہ ان کو وہی کام کرنا ہے جس کے لیے وہ حلف لے کر پولیس فورس میں شامل ہورہے ہیں۔

  • نوکریوں کا جھانسہ دیکر رقم بٹورنے والے افراد کی فہرست تیار

    نوکریوں کا جھانسہ دیکر رقم بٹورنے والے افراد کی فہرست تیار

    کراچی: سندھ پولیس نے نوکریوں کا جھانسہ دیکر رقم بٹورنے والے 90 افراد کی فہرست بنالی ، دھوکہ دینے میں ملوث افراد کیخلاف مقدمات درج کئے جائیں۔

    تفصیلات کے مطابق آئی جی سندھ غلام نبی میمن کی زیر صدارت سنگین معاملے پر اہم اجلاس ہوا، جس میں بتایا گیا کہ امیدواروں کو نوکری کا جھانسہ دینے والےعناصرکیخلاف شکایات موصول ہوئیں۔

    سندھ پولیس نے نوکریوں کا جھانسہ دیکر رقم بٹورنے والے 90 افراد کی فہرست بنالی، آئی جی سندھ نے پولیس بھرتیوں میں امیدواران کو ملازمت کا جھانسہ دینے والوں کیخلاف کریک ڈاؤن کاحکم دیتے ہوئے کہا کہ نوکری کاجھانسہ دینے والے عناصرکیخلاف آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے اور کوئی رعایت نہ کی جائے جو ملوث ہو سامنے لایا جائے۔

    غلام نبی میمن کا کہنا تھا کہ اسپیشل برانچ تحقیق اورمعلومات کی بدولت مزیدٹھوس معلومات اکٹھاکرے، ڈی آئی جیزاورایس ایس پیزبھی ایسےعناصرکیخلاف سخت قانونی کارروائی کو یقینی بنائیں۔

    آئی جی سندھ نے مزید کہا کہ پولیس میں ملازمت کا جھانسہ،دھوکہ دینے میں ملوث افرادکیخلاف مقدمات درج کئےجائیں۔

    انھوں نے بتایا کہ سندھ میں اس بارتاریخ کی سب سےزیادہ بھرتیاں ہونےجارہی ہیں ، صوبائی سطح پرمرحلہ وارتقریباً25ہزارآسامیوں پرمختلف شعبوں،رینک پربھرتیاں کی جائیں گی ، بھرتیاں سندھ پولیس کےپاس دستیاب افرادی قوت کا20فیصد ہے، کسی کوبھی پولیس ریکروٹمنٹ کےعمل کو سبوتاژکرنے کی ہرگزاجازت نہیں دی جائے گی۔

  • جعلی ویب سائٹس سمیت سندھ پولیس کے سوشل میڈیا پر 97 فیک اکاؤنٹس کا انکشاف

    جعلی ویب سائٹس سمیت سندھ پولیس کے سوشل میڈیا پر 97 فیک اکاؤنٹس کا انکشاف

    کراچی: سوشل میڈیا پر سندھ پولیس کے 97 جعلی پیجز، اکاؤنٹس اور آئی ڈیز بنا دی گئیں، 5 جعلی ویب سائٹس اور واٹس ایپ پر 21 جعلی گروپس کا بھی انکشاف ہوا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ پولیس کے فیس بک سمیت دیگر سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر صرف ایک ایک اصل اکاؤنٹ موجود ہے، تاہم نامعلوم افراد نے 97 جعلی صفحات، آئی ڈیز اور اکاؤنٹس بنا دیے ہیں، آئی جی سندھ نے ڈی جی ایف آئی اے کو اس سلسلے میں فوری ایکشن کے لیے خط لکھ دیا ہے۔

    سندھ پولیس کی جانب سے عوام کی آگاہی سمیت اپنی پروگریس رپورٹ جاری کرنے کے لیے فیس بک سمیت تمام سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر ایک ایک صفحہ، آئی ڈی یا اکاؤنٹ بنائے گئے لیکن نامعلوم جعل سازوں کی جانب سے سندھ پولیس کے 97 جعلی پیجز، اکاؤنٹس اور آئی ڈیز بنانے کا انکشاف ہوا ہے۔

    آئی جی سندھ غلام نبی میمن نے جعلی اکاؤنٹس چلانے والے عناصر کے خلاف سخت کارروائی کا فیصلہ کرتے ہوئے ایسے تمام اکاؤنٹس ڈیلیٹ کرنے کے لیے اور ان عناصر کی معلومات کے لیے ڈی جی ایف آئی اے کو خط لکھ دیا ہے۔

    سی پی او حکام کے مطابق سندھ پولیس کی 5 جعلی ویب سائٹس، واٹس ایپ پر 21 جعلی گروپ ہیں، فیس بک پر 37، ٹویٹر پر 7، ٹک ٹاک پر 14، انسٹاگرام پر 13 جعلی اکاؤنٹس ہیں جو مجموعی طور پر 97 بنتے ہیں۔

    خط میں آئی جی سندھ کا کہنا ہے کہ نامعلوم شخص سندھ پولیس کا جعلی صفحہ اور آئی ڈیز چلا رہا ہے، ان پیجز، اکاؤنٹس اور آئی ڈیز کا سندھ پولیس سے کوئی تعلق نہیں ہے، یہ عوام میں سندھ پولیس کے غلط تاثر کی عکاسی کر سکتے ہیں اور کنفیوژن پیدا کرتے ہیں۔

    خط میں کہا گیا کہ انھیں چلانے والا سندھ پولیس کا ترجمان یا فوکل پرسن نہیں، ایسے تمام پیجز، اکاؤنٹس اور آئی ڈیز کو بلاک کر کے ان کے خلاف کارروائی کی جائے، اور ان کی تمام تفصیلات سندھ پولیس کو بھی فراہم کی جائیں تاکہ ذمہ دار کے خلاف قواعد کے مطابق قانونی کارروائی کی جا سکے۔

  • لیڈی اور مرد پولیس کانسٹیبلز نے ٹک ٹاک کی بھرمار کر دی، ایک کانسٹیبل کو سی پیک بھیج دیا گیا

    لیڈی اور مرد پولیس کانسٹیبلز نے ٹک ٹاک کی بھرمار کر دی، ایک کانسٹیبل کو سی پیک بھیج دیا گیا

    کراچی: وردی، تھانہ، گاڑی اور تنخواہ سرکار کی دی ہوئی، لیکن پولیس کانسٹیبلز پورا وقت ٹک ٹاک پر صرف کرنے لگے ہیں۔

    کراچی پولیس کے خواتین اور مرد اہلکار دوران ڈیوٹی فرائض چھوڑ کر سرکاری یونیفارم میں، سرکاری املاک، تھانوں، پولیس موبائل اور اسلحے کا بے دریغ استعمال کرنے لگے ہیں، ایڈیشنل آئی جی کراچی نے اس پر سخت نوٹس لے لیا ہے۔

    اے آئی جی کراچی عمران یعقوب منہاس نے کراچی پولیس میں ٹک ٹاک بنانے والے اہلکاروں کو سخت پیغام جاری کر دیا ہے، انھوں نے کہا کہ سرکار نے یہ وردی دی جسے پہن کر سرکاری امور انجام دینے ہیں، نہ کہ اسے پہن کر ہم اپنی ذاتی تشہر کی جائے۔

    انھوں نے کہا دوران ڈیوٹی یونیفارم پہن کر ٹک ٹاک بنانا مناسب نہیں ہے، ایک کانسٹیبل کو ٹک ٹاک بنانے پر سی پیک بھیج دیا گیا، ایک خاتون کانٹسیبل کو وارننگ اور سینشور دیا گیا، جب کہ ایک ڈی ایس پی نے بھی کیا گو کہ اس کی نیت غلط نہیں لیکن عمل غلط تھا، اس ڈی ایس پی کو بھی ایک وارننگ جاری کی گئی۔

    کراچی پولیس چیف نے کہا میرا میسج پوری کراچی پولیس کے لیے ہے، وردی پہن کر ٹک ٹاک بنانا غیر پیشہ ورانہ عمل ہے، جیسے ہی نوٹس میں یہ بات آئی محکمہ جاتی کارروائی کی جائے گی۔

  • نان اپر کوالیفائڈ افسران اور انسپکٹر پروموٹ ہونے والے افسران کو ہٹانا چیلنج بن گیا

    نان اپر کوالیفائڈ افسران اور انسپکٹر پروموٹ ہونے والے افسران کو ہٹانا چیلنج بن گیا

    کراچی میں نان اپر کوالیفائڈ افسران اور انسپکٹر پروموٹ ہونے والے افسران کو ہٹانا چیلنج بن گیا ہے، جس سے یہ چھبتا سوال ابھرا ہے کہ کیا آئی جی سندھ کو اپنا ہی حکم نامہ واپس لینا پڑے گا؟

    شہر قائد میں ایک جانب پولیس جرائم پر قابو پانے کے لیے کوششیں کرتی نظر آتی ہے، تو دوسری جانب ایسے بااثرعناصر بھی موجود ہیں جو اپنے ’عزیزوں‘ کو نہ صرف تھانے دار کی سیٹ پر دیکھنا چاہتے ہیں بلکہ ان کے لیے ڈھال بن کر بھی کھڑے نظر آتے ہیں۔

    آئی جی سندھ کی رٹ

    بااثر عناصر کی وجہ سے شہر قائد میں آئی جی سندھ کے احکامات کو بھی نظر انداز کیا جانے لگا ہے، جس سے یقینی طور پر آئی جی سندھ کی رٹ چیلنج ہوتی ہے۔ گزشتہ ماہ انسپکٹر جنرل آف پولیس غلام نبی میمن کی جانب سے دو احکامات جاری کیے گئے تھے، جن میں ایک حکم نامہ کراچی رینج کے 66 پروموٹ ہونے والے افسران سے متعلق تھا۔

    اس حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ ان تمام افسران کو 2 سال کے لیے شعبہ تفتیش میں لازمی تبادلہ کیا جائے، جب کہ دوسرا حکم نامہ نان اپر کوالیفائڈ ایس ایچ اوز کو ہٹانے کا تھا۔ حیرت انگیز طور پر دونوں احکامات ردی کی ٹوکری میں ڈالے گئے اور تاحال ان پر مکمل طریقے سے عمل درآمد نہیں ہو سکا ہے، جس سے اہل افسران کی حق تلفی ہوتی نظر آتی ہے۔

    ایس ایچ اوز کے تبادلے کیسے رُکے؟

    ذرائع کا دعویٰ ہے کہ بااثر ایس ایچ اوز نے سیاسی اثر و رسوخ سے اپنے تبادلے رکوا دیے ہیں، اس وقت کراچی کے مختلف اضلاع میں تاحال نان اپر کوالیفائڈ اور پروموٹڈ افسران تعینات ہیں، پولیس ذرائع کا دعویٰ ہے کہ ان میں ایک بااثر سیاسی شخص کے ڈرائیور کا بھائی بھی شامل ہے، جس کو ہٹانا مشکل ہی نہیں نا ممکن بھی ہے۔ ایسی سیاسی شخصیات کسی طرح بھی اپنے ایس ایچ اوز ہٹوانے پر راضی نہیں ہوتے۔

    رٹ چیلنج ہونے کے امن و امان پر اثرات

    رواں سال اب تک شہر کے مختلف علاقوں میں اسٹریٹ کرائم اور دیگر جرائم پر مبنی 31 ہزار 641 سے زائد وارداتیں رپورٹ ہو چکی ہیں، 5 ماہ کے دوران ڈکیتی مزاحمت پر 72 شہریوں کو قتل کیا جا چکا ہے، جن میں 18 وہ شہری بھی شامل ہیں جن کو سی ٹی ڈی کے مطابق قتل تو فرقہ ورانہ دہشت گردی میں کیا گیا، لیکن طریقہ کار ڈکیتی کے دوران مزاحمت پر قتل کا اختیار کیا گیا۔ اس کے علاوہ ڈاکوؤں نے فائرنگ کر کے سینکڑوں شہریوں کو زخمی بھی کیا۔

    اس 5 ماہ میں شہریوں کو 18 ہزار کے قریب موٹر سائیکلوں سے محروم کیا گیا، تو 851 گاڑیاں بھی چوری یا چھینی گئیں۔ رواں سال شہریوں سے 9 ہزار کے قریب موبائل فون چھینے گئے جب کہ گھروں میں ڈکیتی کے 36، دکانوں پر 57 واقعات رپورٹ ہوئے۔ شہر کے مختلف علاقوں میں 282 سے زائد پولیس مقابلے ہوئے، جن میں 19 ملزمان ہلاک اور 437 سے زائد کو گرفتار کیا گیا۔

    وزیر داخلہ کا حکم اور بعض ایس ایچ اوز کے ساتھ نرمی

    کراچی میں وزیر داخلہ ضیا لنجار کے حکم پر ڈکیتی مزاحمت پر قتل پر متعلقہ تھانے کے ایس ایچ اوز کو فوری ہٹانے کا عمل شروع کیا گیا ہے، لیکن ذرائع کے مطابق کسی جگہ نرمی بھی برتی جا رہی ہے، مثال کے طور پر کورنگی میں نوجوان باسط کو ڈکیتی مزاحمت پر قتل کیا گیا، تاہم ایس ایچ او زمان ٹاؤن کو وزیر داخلہ نے نہیں ہٹوایا، حالاں کہ ڈکیتی مزاحمت پر قتل پر وزیر داخلہ صاحب گلشن اقبال کے 2 ایس ایچ اوز کو ہٹا چکے ہیں۔

    ایک اور اہم مسئلہ یہ ہے کہ انتہائی اہم تھانوں میں جو تھانے دار ہیں، ان کو اپنے ہی علاقوں تک کا نہیں پتا، اس لیے کیا ہی بہتر ہوتا کہ وزیر داخلہ صاحب اس سزا اور جزا کے عمل کی شروعات تب کرتے جب تمام ایس ایچ اوز میرٹ پر لگے ہوتے اور کسی سیاسی دباؤ پر تھانے دار تعینات نہ کیے جاتے۔ یعنی کے ’مارو بھی اور رونے بھی نہ دو‘۔

    حل کیا ہے؟

    اگر کراچی میں امن کی بحالی کو یقینی بنانا ہے تو سیف سٹی پراجیکٹ سے زیادہ میرٹ پر تعیناتی ہونی چاہیے۔ یہی آئی جی سندھ کا وژن بھی ہے۔

    ماڈل تھانے قائم ہونے چاہئیں جن میں نہ فنڈ کی کمی ہو، نہ ہی کسی بھی قسم کی سہولیات کی اور حکم کی تعمیل ایسے ہونی چاہیے جیسے آئی جی پنجاب کا حکم ملتے ہی ماتحت افسران کرتے ہیں، نہ کہ آخری وقت تک کوشش کی جاتی ہے کہ اس حکم نامے کو روکا جائے تاکہ ان عناصر کی خوش نودی حاصل ہو سکے جو آگے جا کر ان کے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتے ہیں۔

    ایک زمانے میں صرف رینکر ہی اس دباؤ کے نیچے ہوتے تھے، لیکن اب پی ایس پی افسران بھی سخت سیاسی دباؤ کا شکار نظر آتے ہیں اور اگر ایسا ہی چلتا رہا تو کسی کو کوئی حق نہیں کہ وہ صرف پولیس کو اسٹریٹ کرائم یا دیگر جرائم کا ذمہ دار قرار دے، کیوں کہ اس حمام میں سب ہی ننگے نظر آتے ہیں۔ سیاسی و بااثر عناصر کے دباؤ کی وجہ سے ان افسران کو تو فائدہ پہنچ سکتا ہے، لیکن اس کا منفی اثر صرف اُس عوام پر پڑے گا جو پہلے ہی نہ جانے کتنے جوانوں کی لاشیں اٹھا چکے ہیں۔

    آئی جی سندھ کا مؤقف

    انسپکٹر جنرل آف پولیس غلام نبی میمن کا خبر کے حوالے سے پہلا مؤقف یہ سامنے آیا ہے کہ پولیس پر کوئی سیاسی دباؤ نہیں ہے۔ انھوں نے مزید بتایا کہ نان اپر کوالیفائڈ ایس ایچ اوز بالکل بھی برداشت نہیں ہیں، ان کو ہٹانے کے احکامات دے دیے ہیں، جب کہ پروموٹ ہونے والے ایس ایچ اوز کو جب ہٹانے کے لیے حکم دیا تو ایڈیشنل آئی جی آفس سے ایک ریکوئسٹ آئی تھی کہ 10 ایس ایچ اوز ایسے ہیں جن کے ہٹائے جانے سے جرائم کے خلاف کاررائیوں پر اثر پڑ سکتا ہے۔ تاہم انھیں پھر سی پی او کی جانب سے جواب دیا گیا کہ اس سلسلے میں کوئی استثنیٰ نہیں ہے، سب کو ہٹایا جائے۔ چناں چہ انھیں بھی مرحلہ وار ہٹا دیا جائے گا۔

  • جرائم پیشہ افراد کی سرپرستی  کا الزام ، سندھ پولیس کے  18 افسران  اور  اہلکار  معطل

    جرائم پیشہ افراد کی سرپرستی کا الزام ، سندھ پولیس کے 18 افسران اور اہلکار معطل

    کراچی: جرائم پیشہ افراد کی سرپرستی کے الزام میں سندھ پولیس کے 18 افسران اور اہلکاروں کو معطل کر دیا گیا۔

    محکمہ پولیس سندھ نے جرائم پیشہ عناصر کی سرپرستی میں مبینہ طور پر ملوث پولیس اہلکاروں کے خلاف سخت کارروائی کرتے ہوئے مختلف اضلاع کے 18 افسران اور اہلکاروں کو معطل کر دیا ہے۔

    معطل ہونے والے سندھ پولیس کے افسران میں انسپکٹر، سب انسپکٹر، اے ایس آئی اور کانسٹیبل اہلکار شامل ہیں اور ان کا ضلع جیکب آباد،لاڑکانہ، شہدادکوٹ، کشمور، قمبر، سانگھڑ سے ہے۔

    معطل کیے گئے انسپکٹرز، سب انسپکٹرز، اسسٹنٹ سب انسپکٹرز اور کانسٹیبلز کو ساؤتھ زون گارڈن ہیڈ کوارٹر رپورٹ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

    اس دوران ان کے خلاف بھی انکوائری شروع کر دی گئی ہے، اے ایس پی سکھر سٹی محمد عثمان معطل پولیس اہلکاروں کے خلاف انکوائری کریں گے۔

    مارچ کے اوائل میں ایک ڈپٹی انسپکٹر جنرل آف پولیس (ڈی ایس پی) احمد کریم جیلانی کو گٹکا اور دیگر منشیات اسمگل کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں گرفتار کیا گیا تھا۔

    اس کے بعد سندھ کے انسپکٹر جنرل آف پولیس (آئی جی پی) رفعت مختار نے بھی معاملے کا نوٹس لیا اور ڈی ایس پی کو معطل کرتے ہوئے مجھے سینٹرل پولیس آفس رپورٹ کرنے کی ہدایت کی۔

    ڈی ایس پی احمد کریم جیلانی کو کسٹم حکام نے جامشورو کے قریب سے گٹکا اور دیگر منشیات برآمد کرتے ہوئے گرفتار کیا تھا، بعد ازاں آئی جی پی نے معطل ڈی ایس پی کے خلاف بھی انکوائری کا حکم دیا اور ڈی آئی جی میرپورخاص تنویر عالم اوڈھو کو انکوائری افسر مقرر کیا۔

  • سندھ پولیس میں مبینہ کروڑوں روپے کی کرپشن کا انکشاف

    سندھ پولیس میں مبینہ کروڑوں روپے کی کرپشن کا انکشاف

    کراچی: سندھ پولیس کے اسپیشل پروٹیکشن یونٹ میں مبینہ کروڑوں کی کرپشن کا انکشاف ہوا جس کے بعد 10 افسران و اہلکار کو معطل کردیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ پولیس کے اسپیشل پروٹیکشن یونٹ میں مبینہ کروڑوں روپے کی کرپشن سامنے آئی ہے، اے آئی جی خادم حسین نے اسپیشل پروٹیکشن یونٹ کے 10 افسران و اہلکاروں کو معطل کرکے انہیں بی کمپنی میں رپورٹ کرنے کی ہدایت کی ہے۔

    ذرائع نے بتایا کہ کارروائی خفیہ تحقیقات کے بعد مبینہ کرپشن کے الزامات پر کی گئی ہے، بی کمپنی بھیجے گئے افسر اور اہلکاروں کو اختیارات کے غلط استعمال اور کرپشن کے الزامات پر ہٹایا گیا۔

    معطل افسر اور اہلکاروں پر سی پیک پروجیکٹ کیلئے دی گئی سرکاری گاڑیوں کے غلط استعمال کا بھی الزام ہے، افسران و اہلکاروں میں اسپیشل پروٹیکشن یونٹ سکھر کے انسپکٹر محمد فہیم  اور ہیڈ کانسٹبل شامل ہیں۔

    ذرائع نے بتایاکہ ڈی آئی جی اسپیشل پروٹیکشن یونٹ آفس میں تعینات صدام حسین بلو پر بھی کرپشن کا الزام ہے، سی پیک تھرپارکر کے 3 اہلکاروں کو بھی اختیارات کے غلط استعمال پر بی کمپنی بھیجا گیا ہے۔

  • سندھ پولیس کی زمینوں پر پیٹرول پمپ، دکانیں، گودام، فلیٹ اور دفاتر تعمیر ہونے کا انکشاف

    سندھ پولیس کی زمینوں پر پیٹرول پمپ، دکانیں، گودام، فلیٹ اور دفاتر تعمیر ہونے کا انکشاف

    کراچی : سندھ پولیس کی زمینوں پر پیٹرول پمپ، دکانیں، گودام، فلیٹ اور دفاتر تعمیر ہونے کا انکشاف ہوا۔

    تفصیلات کے مطابق پولیس ویلفیئرکے نام پر تھانوں میں کمرشل سرگرمیاں کرنے کے کیس میں آئی جی سندھ کی جانب سے جمع کرائی گئی رپورٹ کی کاپی اے آر وائی نیوز  نے حاصل کرلی۔

    جس میں سندھ پولیس کی زمینوں پر پیٹرول پمپ، دکانیں، گودام، فلیٹ اور دفاتر تعمیر ہونے کا انکشاف سامنے آیا ہے۔

    رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سندھ پولیس کو دی گئی زمین پر صوبے بھر میں 4 پیٹرول پمپ، 1397 دکانیں بنائی گئیں، 338 فلیٹ ، 37 گودام اور 162 دفاتر سندھ پولیس کی زمین پربنائے گئے۔

    صوبے بھر میں کل 32 مقامات پر کمرشل سرگرمیاں چل رہی ہیں ، ضلع کیماڑی میں ایک پیٹرول پمپ اور 6 دکانیں تعمیر کی گئیں، کراچی سٹی میں 304 دکانیں، 66 فلیٹس، 8 گودام اور 62 دفاتر تعمیر ہیں۔

    ضلع وسطی میں 70 دکانیں، ملیرمیں ایک پیٹرول پمپ پولیس کی زمین پرقائم ہے، حیدرآبادمیں ایک پیٹرول پمپ، 247 دکانیں، 271 فلیٹ، 29 گودام ، 100 دفاتر شامل ہیں۔

    رپورٹ کے مطابق دادو 51 ، بدین 4 ، میرپور خاص میں 57 دکانیں ہیں جبکہ نوابشاہ 169, سکھر 117، خیرپور 121 دکانیں ، گھوٹکی 70 ،لاڑکانہ 62 ،کشمور 27، جیکب آبادمیں 92 دکانیں قائم کی گئیں۔

    رپورٹ میں کہنا تھا کہ ضلع وسطی کی 70 دکانوں سے حاصل رینٹ مد میں 6.4 ملین جمع ہیں اور حاصل آمدن پولیس حکام کیلئے فوری ریلیف کیلئے استعمال کی جاتی تھی۔

    نارتھ ناظم آباد پولیس اسٹیشن کی زمین پر 1987 میں 70 دکانیں تعمیر کی گئیں تھی، سپریم کورٹ کے احکامات کے بعد دکانداروں کو دکان خالی کرنے کا کہا گیا تھا۔

    دکانداروں نے نوٹسز کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا ، جس پر سپریم کورٹ نے سندھ ہائی کورٹ کو معاملے کا جائزہ لینے کا حکم دیا تھا، بعد ازاں سندھ ہائیکورٹ نے پولیس کو فوری کاروباری سرگرمیاں ختم کرنے کا حکم دیا۔

  • کیسز کو منطقی انجام تک پہنچانے کیلئے آئی جی سندھ کا بڑا فیصلہ

    آئی جی سندھ غلام نبی میمن نے کہا ہے کہ سندھ پولیس میں 400 پراسیکیوٹرز بھرتی کرنے کا ارادہ ہے۔

    تفصیلات کے مطابق آئی جی سندھ کا کہنا تھا کہ پراسیکیوٹر پولیس آئی او سے مل کر کیس کو منطقی انجام تک پہنچائیں گے، پولیس میں 400 پراسیکیوٹرز بھرتی کرنے کا ارادہ ہے۔ پولیس کو ڈیجٹلائزیشن اور کمپیوٹرائزیشن سے استفادہ کرنا ہوگا۔

    سندھ پولیس کے شعبہ تفتیش اور لیگل میں اصلاحات سے متعلق اجلاس ہوا جس میں شعبہ تفتیش اور لیگل کی اپ گریڈیشن اور اسے مزید بہتر بنانے سے متعلق تفصیلی تبادلہ خیال ہوا۔

    اس موقع پر آئی سندھ غلام نبی میمن نے کہا کہ اندراج مقدمہ کے بعد آٹومیشن سسٹم سے ایف آئی آر پراسیکیوٹر تک پہنچا دی جائے۔

    انھوں نے کہا کہ حکومت سندھ نے ہر قسم کی سپورٹ اور معاونت کی یقین دہانی کرائی ہے۔ شکایت کنندہ اور گواہان کو ہمیں تحفظ فراہم کرنا ہوگا۔

  • الیکشن 2024 پاکستان: سندھ پولیس کے 11 ہزار دفتری اہلکاروں کی بھی ڈیوٹی لگ گئی

    الیکشن 2024 پاکستان: سندھ پولیس کے 11 ہزار دفتری اہلکاروں کی بھی ڈیوٹی لگ گئی

    کراچی: الیکشن 2024 کی سیکیورٹی کے سلسلے میں سندھ پولیس کے ہزاروں دفتری اہلکاروں کی بھی ڈیوٹی لگ گئی۔

    تفصیلات کے مطابق عام انتخابات میں سندھ پولیس کے 10 ہزار 954 دفتری اہلکار بھی اضافی نفری کے طور پر سیکیورٹی ڈیوٹی دیں گے۔

    نفری میں سندھ پولیس کے مختلف اضلاع سے دفتری اسٹاف کے اہلکار شامل ہیں، ان میں سندھ پولیس کے ٹرینی، منسٹرل اور آئی ٹی کیڈر کے ملازمین بھی شامل ہوں گے۔

    کراچی رینج سے 1770، حیدرآباد رینج سے 2198 ملازمین، میرپورخاص سے 2947، شہید بینظیر آباد سے 1601 ملازمین، سکھر سے 1013 اور لاڑکانہ سے 1425 ملازمین شامل ہیں۔

    ایران سے آپریٹ ہونے والے 2 بھتہ خور لیاری سے گرفتار

    دفتری اہلکاروں کو سندھ کے مختلف اضلاع میں رپورٹ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے، ہر ضلع میں ایس پی رینک کے افسر کو ریجنل فوکل پرسن تعینات کرنے کی بھی ہدایت کی گئی ہے، ان کے علاوہ آر آر ایف اور ایس ایس یو کے اہلکار کوئیک رسپانس فورس کے طور پر کام کریں گے۔